دنیا کی سیر کرنے کی خواہش کس دل میں پیدانہیں ہوتی۔ بہت کم ہیں جن کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتا ہے لیکن جارج میل نے تو کمال ہی کر دکھایا جب اس نے اپنے اور اپنی بیوی کے لئے دنیا کی سیر کی غرض سے ایک چلتا پھرتا گھر بنایا نہ صرف یہ کہ وہ اس آرامدہ اور عجیب وغریب گھر کے خود مالک ہیں بلکہ انھوں نے خود ہی اسکو بنایا بھی ہے اور آراستہ بھی کیا ہے مسٹراورمزدبیل انگلینڈ کے ایک قصہڈ ٹیم ورتھ کے رہنے والے ہیں۔ وہ اپنے قصےی سے پچھلے سال اکتوبر ۱۹۶۶ء میں روانہ ہوئے تھے۔اور تقریباً ایک درجن ملکوں کی سیر کرتے ہوئے ستمبر میں ہندوستان آئے تھے ۔ وہ مراکش ۔ اسپین۔ فرانس ۔ اٹلی۔ ترکی ۔ ایران اور پاکستان ہوتے ہوئے ہندوستان پہونچے تھے۔انھوں نے یہ سفری اسی مقصد کے لئے بنائی گئی بس میں کیا تھا۔مسٹر سیل کا کہنا ہے کہ اس بس میں دنیا کا سفرنسبتا سستا اور دوسرے ذرائع آمدورفت کے مقابلہ آرام دہ بھی رہتا ہے۔یہ پہواں پر چلنے پھرنے والا ایک گھر ہے۔ ایک گھروں جس میں عیش آرام اور ضروریات زندگی کی تمام تر سہولیات مہیا ہیں۔ اس میں ایک ساتھ سفروحضر دونوں کا مزا اٹھایا جاسکتاہے۔اس بس میں صوفہ سیٹ نصب ہیں جو رات کو بستر کا کام دیتے ہیں۔ اس میں ایک عدد ریفر یجٹیر ہے جو گیس سے چلتا ہے گیس کے چولے ہیں بجلی کے ہیٹر ہیں شراب رکھنے کی ایک خوبصورت الماری ہے۔ ایک ٹیلی ویژن سیٹ۔دو پنکھے۔ دوکپڑوں کی الماریاں ایک غسلخانہ تمام سہولتوں کے ساتھ غرض ہر وہ چیز اس بس میں ملے گی جس کا تصور ایک اچھے گھر میں کیا جاسکتا ہے ۔ مزید برآں اس چلتے پھرتے گھر کو زیاده خوبصورت اور دلکش بنانے کے لئے دروازوں اور کھڑکیوں پر خوبصورت پردے ڈالے گئے ہیں۔ اس کی ایک دیوار پر ایک گھڑی آویزاں ہے۔ اور دوسری طرف دیواروں پر مسٹر سیل کے پوتے پوتیوں کے فوٹوگران بنے ہوئے ہیں مسٹرسیل نے پہیوں والے اس گھر کو اپنے ٹیم ورتھ کے گھر کی ہوبہو نقل بنانے کی کوشش کی ہے۔میاں بیوی نے ملکر مہینوں اس گاڑی کو بنایا ہے اسکو بنانے میں تین ہزار پانچسو پونڈ خرچ ہوئے ہیں ۔ اور جب یہ اپنی نوعیت کا پہلا گھر بنکر تیار ہوا تو لوگوں نے اس کو خریدنا چاہا اور بنتے ہی لوگ آٹھ ہزار پونڈ تک میں اس کو لینے کیلئے تیار تھے کیونکہ یہ ایک فرد کی کوششوں کا اچھا کارنامہ تھا مگر مسٹر یل اس سے ایک عظیم تر کام لینا چاہتے تھے ۔ اس لئے انھوں نے اس کو فروخت نہیں کیا۔مسٹر سیل کی عمر اس وقت ۵۸ برس کی ہے۔ وہ ٹرانپوارٹ میں ایک ٹھیکیدار تھا اور ایک تربیت یافتہ مستری۔ مسڑسیل نے بتایا کہ جس چیز نے ان کو اس عجیب وغریب مہم کے لیے اکسایا وہ ان کا اپنا پیشہ ہے۔ وہ ٹرانسپورٹ میں کام کرتے ہیں ۔اسی کے ساتھ ساتھ مسٹراورمسز سیل سیاحت کا کافی تجربہ رکھتے ہیں وہ دس بار آسٹریلیا کا سفر کر آئے ہیں۔آج سے دو سال پہلے وہ ایک موٹر کاروان کے ساتھ شمالی افریقہ کی سیاحت پر گئے تھے مگر انھوں نے اس سفر کو زیادہ مہنگا پایا۔ اور تکلیف دہ بھی۔ اس لئے انھوں نے اپنے موجودہ سفر کے لئے اپنی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پہیوں پر اپنا گھر بنایا۔مسٹر اور مسز سیل ستمبر میں ہندوستان آئے۔ وہ بمبئی سے اپنے گھر کو سمندری جہاز کے ذریہ آسٹریلیا لے گئے جہاں انھوں نے پورے ملک کی سیر کی۔ اس کے بعد ان کا ارادہ امریکہ اور کنیڈاجانے کا ہے اور وہاں سے وہ دنیا کے دوسرے ملکوں کی سیر کرتے ہوئے اپنے وطن ٹیم ورتھ پہو نچیں گے اس پوری سیاحت میں ان کو چار سال کا عرصہ لگے گا۔