اچانک انٹونیوکویوں محسوس ہوا جیسے اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین نکلی جارہی ہو اس نے لڑکھڑاتے قدموں سے آگے بڑھ کر کمرے کی دیوارتھا منا چاہی تو وہ بھی گرتی ہوئی سی محسوس ہوئی اور ساتھ ہی چوبی چھت سے چرچراہٹ کی آوازیں آنے لگیں ۔ انٹونیو نے سوچا شاید زلزلہ آرہا ہے ۔ وہ گھبراکر اپنی بیوی جولیا اور دونوں بچوں تھریسا اورمارک کو جگانے کے لئے دوڑ پڑا جو برابر کے کمرے میں محو خواب تھے لیکن اپنے کمرے سے نکلتے ہی ایک جھٹکے کے ساتھ وہ منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔ اسے اب پورا مکان گردش کرتا اور نشیب کی طرف پھسلتا محسوس ہوا۔ وہ ہمت کر کے تیزی سے اٹھا اور جولیا کے کمرے پر زور دار دستک دینے لگا۔ اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ وہ سمجھ گیا کہ جولیا اپنی عادت کے مطابق خواب آور گولیاں کھا کر گہری نیند سوئی ہوئی ہے ۔اس نے دروازہ ہلا کے رکھ دیا۔ دروازہ کھلا اور شب خوابی کے لباس میں بکھرے بال اور نیند سے ماندی آنکھیں لئے جولیا باہر نکل آئی۔ کیا ہے ؟ کیوں پاگلوں کی طرح شور مچارہے ہو؟، اس نے غصیلی آواز میں پوچھا ۔زلزلہ آرہا ہے ، فورا بچوں کو لے کر باہر آجاؤ ۔لڑکھڑاتی ہوئی زبان سے ،اس کے منہ سے اتنا ہی نکل سکا اور وہ دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہو گیا ۔ابھی اس نے تھریساکواپنی گودمیں اٹھایا ہی تھا کہ اسے زمین ناچتی محسوس ہوئی ۔ ایک دھائے سے مکان ملبے کا ڈھیر بن گیا اورانٹونیو چھت کے نیچے دبتا اور اس کا ذہن تاریکیوں میں ڈوبتا چلا گیا ۔ایک ہفتہ بعد انٹونیو کو ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ تکلیف اور درد کی لہراس کے وجود میں سرایت کر گئی۔ اس کی کربناک آوازیں سن کر سفید لباس میں نرس اس کے بستر کی طرف آئی ۔لیٹ جاؤ ، حرکت مت کرو! تمہیں آرام کی سخت ضرورت ہے۔ نرس نے مشفقانہ لہجے میں کہا۔ ‘‘میں کہاں ہوں؟ انٹونیو نے کراہتے ہوئے دریافت کیا۔ اسپتال میں نرس نے جواب دیا تمہارے لئے باتیں کرنا سخت نقصان دہ ہے۔مگر کونسا اسپتال ؟ میرے بیوی بچے کس حال میں ہیں نرس کے سمجھانے کے باوجود انٹونیوایک سانس میں بہت سے سوال کر گیا ۔میں کہتی ہوں باتیں اور حرکت مت کرو! تم سخت زخمی ہو، ابھی تمہاری حالت پوری طرح خطرے سے باہر نہیں ہوئی۔ اس بار نرس نے قدرے درشت لہجے میں کہا ۔ سخت زخمی، کا لفظ سن کر انٹونیو کے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور اس نے گھبرا کر اپنے سراپے کا جائز ولیا ۔ اس کا سارا بدن پٹیوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ آنکھوں اور ناک کے علاوہ سارے چہرے پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ اپنی یہ حالت دیکھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اس نے گلوگیر آواز میں نرس سے پوچھا خدا کے لئے یہ تو بتا دو کہ میرے بیوی بچے کہاں اور کس حال میں ہیں۔
اس بار نرس نے کوئی جواب نہ دیا، بلکہ وہ ایک انجکشن تیار کرنے لگی۔ چند ہی لمحوں میں انٹونیو نے اپنے بازومیں انجکشن کی سوئی اترتی ہوئی دیکھی اور کچھ دیر بعد وہ بیہوشی کی نیند سو چکا تھا۔ایک ہفتہ بعد اس کی حالت کچھ سنبھلی تو اسے بتایا گیاکہ اسے جس شہر سے لایا گیا ہے ، اس کا وجود مٹ چکا ہے۔ صرف چار افراد زندہ بچے ہیں جن میں سے ایک خوش نصیب شخص وہ بھی ہے ۔ اس کے بیوی بچوں کی لاشیں نہیں مل سکیں۔ انٹونیو کو یہ بھی بتایا گیا کہ وہ ایکویڈور کے دارالحکوت کیوٹو کے نیشنل اسپتال میں ہے جہاں وہ گزشتہ دس روزسےاسپتال میں پایا۔ کچھ دیر تک اسے یوں احساس ہواجیسے وہ اپنی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں کھو بیٹھا ہو۔ وہ بستر پر لیٹا یونہی خلا میں گھورتا رہا۔ آہستہ آہستہ اس کے ذہن کے پردے پر کچھ تصویریں ابھرنا شروع ہوئیں ۔ جولیا کی تصویرتھریسا کی شبیہہ ، مارک کا عکس زمین کا ناچنا اور دھماکہ۔ پھروہ جولیا، تھریسا، مارک کہتا ہوا بستر سے اٹھ بیٹھا اورہائے کی دردناک آواز کے ساتھ پھر بستر پر گرگیا ۔ شدید انتہائی نگہداشت کے شعبے میں ہے۔ انٹونیو کے لئے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا۔ وہ دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے، بسترپر گرتا چلا گیا ۔ہیلوین ٹاؤن سے بچنے والوں میں سے ایک اورشخص جاں بحق ہوچکا تھا۔جنوبی امریکہ میں ایکویڈور کے دارالحکومت کیوٹوسے پچیس میل دور ایک پہاڑی قصبہ ہیلوین ٹاؤن کی مکمل تباہی کا یہ واقعہ کو تیس برس پہلے ۱۹۵۳ میں پیش آیا تھا۔ ایکویڈور خط استوا پر واقع ہے اور گرم ہونے کے بجائے ایک سرد ملک ہے۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ، کیونکہ یہ ملک سطح سمندر سے بہت زیادہ بلند ہے۔ اس کے بیشتر شہر سطح مرتفع یا پہاڑی وادیوں میں بسائے گئے ہیں۔ کیوٹو، سطح سمندر سے تقریبا سات ہزار فٹ بلند ہے۔ یہاں پہاڑوں پرہروقت برف جمی رہتی ہے جو کبھی کبھی ستمبر یااکتوبر میں پگھلتی ہے اوریہی دوماہ یہاں گرمی کے شمار ہوتے ہیں۔ تبت کے دارالحکومت لہاسہ کے بعد ،جو دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہے ، کیوٹو دنیا کے بلند ترین دارالحکومتوں میں دوسرا شہر ہے۔ ایکویڈور میں بڑی کثرت سے زلزلے آتے ہیں۔ سال دوسال میں زلزلے کے جھٹکے تو معمول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جبکہ ہر پانچ دس برس بعد کوئی المناک سانحہ رونما ہوجاتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ہیلوین ٹاؤن میں نہ توزلزلہ آیا اور نہ کسی پہاڑ نے لاوا اگلا ۔ بس جس پہاڑی پریہ چھوٹا سا شہر آباد تھا، وہ پوری کی پوری پگھل کر کیچڑاورمٹی کا ڈھیر بن گئی۔ہیلوین ، جوکوہستان اینڈیز کی ایک خوب صورت سطح مرتفع پر واقع تھا ۱۵ مارچ ۱۹۵۳ کو اپنا وجود کھو بیٹھا۔ سات ہزار افراد پرمشتمل یہ حسین شہرقدرتی مناظر میں گھرا ہوا تھا۔ چاروں طرف برف جمی چوٹیاں، فراز کوه، نغمہ بار پانی کے چشمے اور جنت نگاه سبزہ زارسیاحوں کو دعوت نظارہ دیتے تھے۔ گرمیوں کے تین چار ماہ کے دوران لاطینی امریکہ سے ہر سال ساٹھ ستر ہزار افراد سیروتفریح کے لئے کھنچے چلے آتے اوراس چھوٹی سی بستی کو ہنگاموں سے پر کرجاتے۔
ہیلوین اس لحاظ سے خوش قسمت قصبہ تھا کہ یہاں ۱۹۲۸ کے بعد سے کوئی زلزلہ نہیں آیا تھا اورنہ اسے کسی اورارضی یاسماوی آفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ پندرہ مارچ۱۹۵۳ کو اس بستی کے رہنے والوں پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ وہ سطح مرتفع جس پر یہ شہر واقع تھا، اچانک موم کی طرح پگھلنے لگی ۔ یہ واقعہ رات کے دو بجے پیش آیا اور ایک گھنٹے کے اندر اندر ربستی کے مکان لڑھکتے ہوئے، نشیبی علاقے میں جاگرے۔ شہر کے سات ہزارمکین آنا فانا ختم ہو گئے اور اب گزشتہ تیس برس سے ہیلوین کی جگہ چھ مربع میل کا ایک غار ہے۔ آج بھی ہزاروں سیاح اس خوب صورت بستی کا ماتم کرنے آتے ہیں۔ بیلوین کے شہریوں میں صرف چار افراد زنده بچ سکے تھے جن میں سے انٹونیو اپنے شہر کی تباہی کا کچھ حال سنا سکا ۔ اپنے اہل خانہ کی ہلاکت کا صدمہ برداشت نہ کرتے ہوئے جلدہی وہ دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگیا۔ بعد میں سائنس دانوں نے ایک طویل تحقیق کے بعد اس امرکا انکشاف کیا کہ جس پہاڑی پر ہیلوین واقع تھاء اس کے نیچے ایک بہت بڑاغارتھا۔ اس کے دہانے میں ایک پہاڑی چشمے کا پانی مسلسل داخل ہورہا تھا۔ بظاہریہ دہانہ ایک چھوٹا سا گڑھا نظرآتا ، لیکن اندر ہی اندراس کی لمبائی ایک ہزار اور چوڑائی چارسو گز کے لگ بھگ تھی۔ یہ غار کوئی آٹھ سوفٹ گہرا تھا۔ اس میں چونے کے پتھر کا بہت بڑا ذخیرہ تھا۔ چشمے کا بہتا ہوا پانی دبانے کے راستے اندر جاتا اور چونے میں جذب ہو جاتا۔ یہ عمل ایک سو برس سے مسلسل جاری تھا۔ یہاں کے باشندوں کو علم نہ ہوسکا کہ زیر زمین کیا شکست وریخت ہورہی ہے۔ پانی اور چونے کا آمیزہ برابر کھولتا رہا۔ غار کے اندر جیسے جیسے پانی کی سطح بلند ہوتی جارہی تھی، اس کے اطراف کی مٹی بھی ٹوٹ کر اس میں شامل ہوجاتی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمین کے اندرونی پرت کا کٹاو خطرناک حد تک بڑھ گیا ۔ آخر کار جب چونے کا کھولتا ہوا پانی زمین کی رتیلی مٹی کے پرت تک اٹھ آیا تو دو ایک جگہ جہاں زمین زیاده نرم تھی ، وہاں یہ پانی زمین سے باہر بھی آگیا ، تاہم مقامی شہری اور بلدیاتی انتظامیہ نے بے پروائی برتی اور آنے والے خطرات سے بے خبر رہی ۔آخرکار پندرہ اپریل کی رات چونے اور پانی کے کھولتے ہوئے آمیزے نے اپنا کام دکھا دیا اورایک مربع میل کے رقبہ میں وہ ایک دم پھوٹ پڑا۔ اس وقت یوں لگتا تھا جیسے شہرکا یہ حصہ کسی بتاشے کی طرح بیٹھتا جارہا ہو۔ مکانات ،سڑکیں اور دکانیں جو شہر کے وسطی اور نشیبی علاقہ میں تھیں، آنا فانا ابلتے اورکولتے ہوئے پانی میں غرق ہو گئیں۔ جیسے جیسے پانی ابلنے کی رفتار میں اضافہ ہورہا تھا، بلند علاقوں کی مٹی بھی ٹوٹ رہی تھی اور وہاں بنے ہوئے مکانات کسی گیند کی طرح لڑھکتے ہوئے نشیب کی طرف جارہے تھے ۔ انٹونیو پہاڑ پر بنے ہوئے جس مکان میں رہتا تھا، اس کا ملبہ ہیلوہن سے کوئی ایک کلومیٹر دور پایا گیا ۔
ایک ہفتہ سے زائد عرصہ تک یہاں امدادی کام ہوتا رہا۔ دو ہزار کے قریب گلی سڑی لاشیں نکالی گئیں۔ باقی افراد کی تلاش مدتوں ہوتی رہی، لیکن کوئی پتہ نہ چلا۔ کچھ ایسا لگتا ہے یا تو ان کی لاشیں بہت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوکر بکھر گئیں یا وہ لوگ زمین کے پاتال میں زندہ دفن ہو گئے ۔ آنے والے دور میں شاید محققین موہنجوڈارو، ہڑپہ ، بابل اور پومپیائی کی طرح ہیلوین کے آثار بھی دریافت کرنے میں کامیاب ہوجائیں اور انسان کوعبرت کی نشانیاں کچھ اور میسر آجائیں۔