یہ ایک انوکھے سفرکی کہانی ہے۔
آپ نے عجیب وغریب کہانیاں سنی ہیں۔ سند باد کے سفر، الف لیلوی سفر، گلیورکے سفر، بالشتیوں میں دیوقامتوں میں۔۔۔ لیکن صائم کی ماں کا یہ سفربالکل انوکھا ہے۔ وہ کبھی عازم ِسفر نہ ہوئی تھی۔ نہ ہی رخت سفرباندھاتھا، نہ ہاتھ میں لگام تھامی تھی، نہ پاؤں رکاب پررکھاتھا، نہ کبھی وہ جہاز پر سوارہوئی تھی، نہ جہاز طوفان سے ٹکرایاتھا، نہ وہ بہہ کر کسی انجانے جزیرے کے ساحل پرجالگی تھی۔۔۔ پھر پتہ نہیں کیسے اس نے آنکھیں کھولیں تو دیکھاایک ان جانی بیگانی مخلوق اس کے اردگرد بھیڑلگائے کھڑی اسے یوں دیکھ رہی جیسے وہ عجوبہ مخلوق ہو۔
یہ سفر اس لحاظ سے انوکھا تھا کہ اماں نے خودحرکت نہ کی تھی بلکہ ایک ایلین ماحول خودبخود چل کر اس کے اردگرد آکھڑا ہوا تھا۔
وہ سوچنے لگی۔۔۔ یااللہ یہ میں کہاں آگئی ہوں؟ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ لوگ مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں۔ ان ایلینزمیں بہت سے چہرے مانوس دکھائی دیتے تھے، جیسے وہ انہیں جانتی تھی۔ جیسے وہ اسی کے ہم سفررہے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں وہ ایک نظر میں مانوس دِکھتے تھے، دوسری نظر میں ایسا لگتا تھا جیسے بیگانہ ہوں۔ ایلینز۔
پھراماں کو اپنے آپ پرشک پڑنے لگا۔ میں کون ہوں۔۔۔ کہاں ہوں۔ میرامصرف کیاہے۔۔۔ کس لیے ہوں۔۔۔ کیوں ہوں؟ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ وہ سوچتی رہی، محسوس کرتی رہی، حتی کہ بیمارپڑگئی۔ ڈاکٹر نے ٹوٹیاں لگاکر اسے دیکھا۔ ڈاکٹر توصرف SYMPTOMSدیکھتے ہیں۔ انہیں بیماری سے دلچسپی ہے، انسان سے نہیں۔ ابھی تک شعورنہیں ہوا کہ بیماری روح سے پھوٹتی ہے۔ ڈاکٹربھلاکیاکہتا۔ بولا، مریضہ کوکوئی بیماری نہیں ہے، صرف کمزوری ہے، بڑھاپاہے۔ جس کا فکرجسم تک محدود ہو، وہ بھلاکیا سمجھے گا کہ بڑھاپا عمرسے نہیں ہوتا۔ جینے کی امنگ نہ رہے تو اعضا بوڑھے ہوجاتے ہیں۔
اماں میں جینے کی امنگ نہ رہی تھی۔۔۔
جینے کی امنگ بھی قائم رہتی ہے جب کوئی خواہش، کوئی خیال، کوئی امید، کوئی فرد، کوئی مطمح نظر، کوئی سراب آپ کوانگلی پکڑکر چلائے۔ جینے کی امنگ تبھی قائم رہتی ہے جب آپ کی اپنی حیثیت ہو، اہمیت ہو۔ آپ کو احساس ہوکہ آپ کا بھی کوئی مصرف ہے۔
کئی ایک سال سے اماں محسوس کررہی تھی کہ اس کا کوئی کوئی مصرف نہیں رہا۔ وہ ایک فالتو ہستی ہے۔
رضائی میں پڑی ہوئی سلوٹ کوجنبش ہوئی۔ ہڈیوں کے ایک ڈھانچے نے سرنکالا۔ بے نورآنکھوں نے صائم کی طرف دیکھا۔ نگاہیں صائم سے پار ہو گئیں۔ اگر آسیہ میں صائم کے لیے کوئی مفہوم ہوتا تو یقیناً نگاہ صائم پر رک جاتی۔۔۔ آنکھوں میں لگاؤ کی چمک لہراتی۔۔۔ لیکن صائم توعرصہ دراز سے اس کے لیے ایلین بن چکا تھا۔
صائم آسیہ کااکلوتا بیٹا تھا، جواس وقت ماں کی چارپائی کی پائنتی بیٹھا ہواتھا۔ اس وقت ماں کی چارپائی اور کمرے میں ماں بیٹے کے علاوہ کوئی اورنہ تھا۔ آٹھ دن سے وہ اس کی پائنتی پربیٹھاتھا۔ آٹھ دن سے آسیہ مررہی تھی۔ دفعتاً اس ہڈیوں کے ڈھانچے میں تڑپ پیدا ہوئی۔ آسیہ کی مضطرب لیکن کراری آواز گونجی۔ اب کیا دیر ہے؟ اب کس کا انتظار ہے۔۔۔ تم مجھے لے جاتے کیوں نہیں۔ اس نے اردگرد کی فضا کومخاطب کرکے کہا۔ آسیہ کے بات کرنے کے انداز میں ایسا لگتا تھا جیسے کمرے میں صائم کے علاوہ اور لوگ بھی موجودتھے۔
شایدروح ہو، ہیولے ہوں، فرشتے ہوں۔ آٹھ دن سے وہ آسیہ کے اردگرد منڈلارہے تھے۔ آٹھ دن سے وہ انہیں ڈانٹ رہی تھی۔ میرامنہ کیا تک رہے ہو، مجھے لے جاتے کیوں نہیں۔ اب کیادیر ہے۔
اس نے گھرکے باقی لوگوں سے بات کرنی چھوڑرکھی تھی۔۔۔ گھرمیں صرف چندایک لوگ ہی تھے —-صائم اوراس کی دوجوان بیٹیاں سلمہ، ستارہ۔ بیٹا سیع، بہو اسما اورصائم کی بیوی سمینہ۔ عرصہ دراز سے آسیہ ان تمام افراد سے خارج ہوچکی تھی۔ اگرچہ ان سب کے دلوں میں بوڑھی اماں کی بڑی عزت تھی لیکن عزت تو کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ عزت توکوئی جذبہ نہیں، عزت توتہذیب کی ایک مصنوع ہے جس طرح پلاسٹک کے دل ہوتے ہیں۔ اماں وہ شہدکی مکھی تھی جس کے اردگرد پلاسٹک کے پھولوں کا باغ لگا ہواتھا۔
صرف ایک گھرانے کواماں سے قلبی لگاؤتھا، وہ تھا ڈاکٹر صولت کاگھر۔ ڈاکٹرصولت اماں کے بھائی کا بیٹا تھا۔ اس کاگھرایک جزیرہ تھا جہاں جدید تہذیب کی آندھی اثرانداز ہوئی تھی، جہاں ماضی ابھی تک حال کابہروپ دھارے آلتی پالتی مارے بیٹھا تھا۔ ڈاکٹرصولت کاگھرواحد گھرتھا جہاں اماں کے لیے ایلینز نہیں بستے تھے۔ جہاں وقت کودوام مل گیاتھا۔ جہاں ابھی تک ۱۹۱۰ء رائج تھی، جہاں بڑی اماں کومحسوس ہوتا تھا کہ وہ پھولوں پربیٹھی ہے۔
لیکن صائم کے لیے ڈاکٹرصولت کاگھراب ODDمقام تھا۔ اسے صولت سے شکایت تھی کہ اس نے گھرکوحنوط کررکھاہے اوراس حنوط شدہ گھر نے آسیہ کواس قابل نہیں چھوڑا تھا کہ کہیں اوررہ سکے۔ صولت کی نسبت صائم کا تعلق آسیہ سے کہیں زیادہ پرانا اور گہرا تھا۔ صائم اورآسیہ نے سال ہاسال اکٹھے مل کر دکھ سہے تھے، اکٹھے مل کردکھ سہناگہرا تعلق پیدا کردیتاہے۔
یہ اس زمانے کی بات ہے جب گردوپیش ایلین نہ تھا۔ جب آسیہ اپنے دورمیں زندگی بسر کررہی تھی۔ جب لوگ اس کی بات سمجھتے تھے، اسے اہمیت دیتے تھے، جب زندگی میں اس کاایک مقام تھا، مفہوم تھا۔ ان کے دکھوں کی وجہ حالات کی ناسازگاری تھی۔ اس ناسازگاری کی بنیاد ایک عام ساحادثہ تھا کہ خاوند نے دوسری شادی کرلی تھی اورآسیہ کوہمیشہ کے لیے گھر کی نوکرانی کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ جس باورچی خانے میں اسے دن رات کام کرنا پڑتا تھا، وہاں سے اسے اپنے اوراپنے بیٹے کے لئے طعام نہیں ملتا تھا۔ اس لیے مالک اورمالکن کوکھانا کھلانے کے بعداسے اپناچولہا جھونکنا پڑتا۔
مالک کے باورچی خانے کاایک فائدہ ضرورتھا کہ جب وہاں بھنڈی پکتی توآسیہ بھنڈیوں سے اترتی ہوئی ٹوپیاں لے آتی اور ان سے اپنی ہانڈی پکاتی۔ جب وہاں کریلے پکتے تو کریلوں سے چھیلاہوا بورپکانے کومل جاتا۔ نوکرانی کے بیٹے کے لیے بور کریلے تھا۔ ٹوپیاں بھنڈیاں تھیں۔ چھلکے سبزیاں تھیں۔
نوکرانی کے بیٹے نے رات کے وقت کبھی کھانانہیں کھایاتھا، اس لیے کہ مالک رات گئے گھرآتاتھا اورنوکرانی کوانہیں کھانا کھلانے سے پہلے چھٹی نہ ملتی تھی۔ کھاناکھلاکر جب وہ آوٹ ہاؤس پہنچتی توبیٹا سوچکاہوتا۔ پھروہ چولہا جھونکتی، چھلکے پکاتی اور جب ہانڈی تیارہوجاتی توبیٹے کو جگاتی۔ اسے کھاناکھلاتی۔ بیٹا کھالیتاتھا مگرجاگتا نہ تھا، اس لیے اسے یادنہ تھا کہ اس نے کبھی رات کاکھانا کھایاہو۔
پھرمالک کااسٹیٹس اونچا ہوجانے پر ایک ٹرینڈ باورچی نوکررکھنا لازم ہوگیا، اس لیے آسیہ کونکال دیاگیا اور ماں بیٹا آزادہوگئے۔ آزادی نے انہیں نئے مسائل سے دوچارکردیا۔ الاؤنس بہت قلیل تھا۔ ضروریات بڑھتی ہی جارہی تھیں۔ بڑھتی ہوئی ضروریات کوپورا کرنے کے لیے ماں بیٹے کومزدوری کرنی پڑی۔ انہوں نے مل کرچارپائیاں بنیں۔ کتابوں پر جلدیں باندھیں۔ کاغذ کے پھول بنائے۔ پتنگ بنائے۔ دھاگاخریدکراس پرمانجھا لگایاتاکہ ڈور پیچ سکیں۔ بچوں کے کھلونے بنائے۔ آسیہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کابیٹا محنت مزدوری کرے۔ اس کی خواہش تھی کہ ایک سلائی مشین خریدے اور اکیلی سلائی کا کام کرے۔ لیکن اتنے پیسے نہ تھے پھر کسی مخیرے قرض کے طورپر ایک پرانی گھسی پٹی مشین خریددی اوروہ کپڑے سینے لگی۔
آسیہ ہرفن مولاتھی۔ وہ ہرکام کرسکتی تھی۔ وہ ہرعا م کام میں بھی انفرادیت کی کلیاں ٹانک دیاکرتی تھی۔ انوکھے کام سوچا کرتی۔ انوکھی چیزیں بنایاکرتی۔ لیکن یہ اس دور کی بات ہے جب ہاتھ کے کام کی قدر نہ تھی، قیمت نہ تھی۔
ان کاباہمی تعلق بہت گہرا تھا۔ اس تعلق کے کئی رخ تھے۔ ماں بیٹے کا تعلق، مظلومیت کا تعلق، غربت کا تعلق، مزدوری کاتعلق، دکھ کاتعلق۔ اگرصائم علم حاصل نہ کرتا اوروہ دونوں ہمیشہ کے لیے مزدور رہتے، محنت ومشقت بھری زندگی بسرکرتے تویہ تعلق جوں کا توں قائم رہتا لیکن علم قینچی بن کرآیااور اس نے اس عظیم تعلق کے پرزے اڑادیے۔
شایدعلم دوست اس پراحتجاج کریں اوراپنی جوازپسندی کے تحت تاویل پیش کریں کہ جوخلوص بھرے تعلق کے پرزے اڑادے، وہ علم نہیں ہوسکتا۔ مجھے کسی حتمی علم کا پتہ نہیں، میں تو صرف یہ جانتا ہوں کہ جورائج الوقت ہو، وہی علم ہوتاہے۔ ہردور میں رائج الوقت علم کاخصوصی رخ ہوتاہے۔ آسیہ کے دورمیں ایمان لاناتھا۔۔۔ صائم کے دورمیں شک کرنا۔ تاریخ شاہد ہے کہ علم کا رخ ہمیشہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتارہاہے۔ صائم کے زمانے میں عقل وخرد کا دورتھا۔ جوں جوں وہ علم حاصل کرتا گیا، جوں جوں عقل وخرد کی آنکھیں کھلتی گئیں، توں توں جذبہ مضحکہ خیز ہوتا گیا۔ تعلقات کٹتے گئے۔
صائم کوآسیہ کے خلاف کئی شکایات پیداہوگئیں۔ اماں ایسے مرد سے شادی کرنے پرکیوں رضامند ہوئی جوکسی ایک عورت کا ہوکرنہیں رہ سکتا تھا بلکہ جسے عورت ذات سے دلچسپی تھی۔ اماں نے اپنے ہی گھر میں نوکرانی بن کررہنا کیوں منظورکیا؟ اماں نے ظلم کے خلاف آوازبلند کیوں نہ کی؟ اماں نے اندھی وفاشعاری کوکیوں اپنارکھا؟ شاید اماں غم خورہو۔ شاید اماں ایذا پسندہو۔
آہستہ آہستہ صائم کی نگاہ میں مظلوم اماں تسکین پسندآسیہ نظرآنے لگی۔ دکھی اماں ایذاپسندی کی لذت سے سرشاردکھائی دینے لگی۔ یوں باہمی مظلومیت کا تعلق ٹوٹتا گیا۔ دکھ کا تعلق ٹوٹتا گیا۔ ایذاپسندی کے لیے محنت جدوجہد نہیں ہوتی، دکھ دکھ نہیں ہوتا بلکہ اناکی تسکین ہوتی ہے۔ بطخ کے لیے جوہڑہوتاہے۔
اس عقل ودانش، سوچ بچار کی توجہ سے ایک ایسا دن آیا جب دونوں کے درمیان صرف ایک تعلق باقی رہ گیا۔ بیٹے اورماں کا تعلق لیکن بیٹے اور ماں کاتعلق توعارضی تعلق ہے، صرف اس وقت تک قائم رہتا ہے جب تک بیٹا ماں کامحتاج رہتاہے۔ وہ بیٹے اور ماں کاتعلق ہے جودائمی تعلق ہے۔ چوں کہ صائم ماں کامحتاج نہیں رہاتھا، اس لیے وہ تعلق بھی ٹوٹ چکا تھا، صرف برائے نام باقی رہ گیاتھا۔ اس برائے نام تعلق کو ہم رسمی طورپر احترام بھی کہتے ہیں۔ احتراماً صائم آٹھ روز سے اماں کی پائنتی پر بیٹھا تھا اور آٹھ روز سے اماں مسلسل مررہی تھی۔ دیرتک وہ رضائی میں پڑی ہوئی سلیٹ کوغورسے دیکھتارہا۔ کوئی جنبش نہ ہوئی۔
دفعتاً اس کے ذہن میں ایک خیال ابھرا۔ شاید۔۔۔ اس نے پھرغور سے اماں کی طرف دیکھا۔ اس کی نگاہ میں ڈر نہیں بلکہ امید کی جھلک تھی جیسے اس شاید۔۔۔ نے آنکھوں میں دیاروشن کردیاہو۔ چو ں کہ اماں نے منہ رضائی میں ڈھانپ رکھاتھا، صائم نے بیٹھے بیٹھے اندازہ لگایا کہ ماں کادل کہاں ہوگا؟ پھروہ اس مقام کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔۔۔ دیکھتا رہاکہ حرکت ہے یانہیں۔۔۔
وہ مقام بالکل ساکت تھا۔
اس کے دل سے ایک ہلکی سی آواز آئی جیسے کسی نے اطمینان کا لمباسانس لیاہوپھرایک سرگوشی اٹھی۔ اچھا ہوابے چاری اس عذاب سے مخلصی پاگئی۔ اس کے اندررچی بسی ہوئی عقل بول رہی تھی۔ پتہ نہیں وہ کبھی کبھی سرگوشیوں میں کیوں بولتی تھی، جیسے وہ احساس گناہ سے بھیگی بھیگی ہو۔ اس کے اندر رچی بسی عقل گوگھرکی ملکہ تھی، عرصہ دراز سے گھرپر اس کا راج تھا، پھروہ سرگوشیوں میں بات کیوں کرتی تھی؟ کس سے ڈرتی تھی؟ صائم کے دل میں وہ کون تھا جس کے ڈر سے سہم جاتی، شرمسارہوجاتی ندامت سے بھیگ جاتی۔ اس کی آواز زیرلبی ہوکر رہ جاتی۔ صائم کو اپنی عقل پرنازتھا۔ وہ اپنے آپ کو دانشور سمجھتاتھا۔ محفلوں میں جان بوجھ کر بلند آواز میں ایسے ادراکی نقشے بیان کرنے کاعادی تھا جو دوسروں کوچونکادیں۔
محفلوں کی چھوڑیے، اس نے کئی بار اپنی عقل ودانش کے بل بوتے پرماں سے کہہ دیاتھا، اماں جب تم مروگی تومیں دیگیں چڑھادوں گا، غریبوں کوکھانا بانٹوں گا، شکرانے کی نفل پڑھوں گا کہ یا اللہ تیرا بڑا احسان ہے کہ تونے میری ماں کواتنی لمبی عمردی اور مجھے ماں کے ساتھ اتنی دیراکٹھے رہنے کا موقع دیا۔ اوراماں میں گھروالوں سے کہہ دوں گا کہ میری ماں کے مرنے پرکوئی نہ روئے، کوئی بین نہ کرے۔ بین کرنا اور رونا توناشکری کے مترادف ہے۔
آسیہ کی عمر۹۵سال کی تھی۔ صائم سمجھتا تھا کہ ساٹھ ستر سال کے بعدموت زحمت بن جاتی ہے۔ صائم خودسترسال کاہوچکا تھا۔ خود اس کے اپنے اردگرد ایلین ماحول قائم ہوچکا تھا۔ اس کی اپنی بیٹیاں سلمہ اور ستارہ اس کے خیالات اور احساسات سے بیگانہ تھیں۔ اماں سے ایلین بننے میں بات توسمجھ میں آتی تھی، اماں جدید تعلیم سے آراستہ نہیں تھیں لیکن سلمہ ستارہ کے ایلین بننے کی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی۔ صائم کا ماں سے تعلق توعلم نے کاٹا تھا لیکن اولاد سے کٹنے کی ذمہ داری کس پرتھی؟ اس ڈر کے مارے کہ اس کے اپنے بچے اسی سے نہ کٹ جائیں، وہ مسلسل علم حاصل کررہاتھا۔ رائج الوقت علم زمانے کے ساتھ ساتھ چلتارہتا تھا تاکہ پیچھے نہ رہ جائے۔ پھربھی وہ پیچھے رہ گیاتھا۔ کیوں۔۔۔؟
اس مسئلہ پروہ سوچتا رہاتھا۔ ایک بات تویقینی تھی کہ وہ بے علمی کی وجہ سے پیچھے نہ تھا۔ دانش کی وجہ سے پیچھے نہیں رہا تھا۔ فکر کی ناواقفیت کی وجہ سے پیچھے نہیں رہاتھا۔ صائم نے کبھی نہیں سوچا تھاکہ شاید وہ علم ہی کی وجہ سے پیچھے رہ گیا ہو۔ شاید نئی نسل علم ودانش چھوڑکر پھرسے جذبے کی طرف چل پڑی تھی یہ سوچ کر جذبہ تو راستہ ہوتاہے، منزل نہیں۔۔۔ منزل کیسی؟ ان کے جذبے کا تو کوئی رخ نہ تھا، صرف شدت ہی شدت تھی۔ ہانڈی آگ پر چڑھی تھی مگرہانڈی میں تھا کیا۔ سوچ سوچ کروہ ہارگیا مگرسمجھ میں کچھ بھی نہ آیاتھا۔
مثلا ًسلمہ کو فلم اس لیے پسند آتی کہ اس میں کوئی خاص اداکارہوتا۔ اگروہ اداکارہوتا تو سب کچھ آپ ہی آپ ہوجاتا۔ فلم کی کہانی عمدہ ہوجاتی، فوٹوگرافی شاندار ہوجاتی، مکالمے چست ہوجاتے۔
ستارہ کوٹی وی سیریزاس لیے نا پسند ہوتی کہ اس میں کام کرنے والی کسی ایکسٹراعورت کی شکل ایسی ہوتی ہے کہ دیکھ کراسے گھن آتی۔ سلمہ سمجھتی کہ کالج کی فلاں پروفیسر اس قدرعمدہ پڑھاتی ہے کہ ایک ایک لفظ دل نشین ہوجاتاہے، ا س لیے کہ وہ بڑی پیاری ہے۔ وہ کتنی پیاری ہے۔ سلمہ یہ تسلیم کرنے کے لیے تیارنہ تھی کہ کوئی بدشکل پروفیسر اچھا پڑھاسکتی ہے۔ ستارہ سمجھتی کہ فلاں مضمون اس لیے اچھا ہے کہ فیشن ایبل سرکلزمیں اس کاذکررہتاہے اورفلاں مضمون اس لیے برا ہے کہ اس میں دقیانوسی سوچیں بھری پڑی ہیں۔
اتفاقاً صائم نے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے میں سلمہ کھڑی تھی۔ بال لٹک رہے تھے۔ چہرہ ستاہواتھا۔ سردروازے کی چوکھٹ سے لگا ہواتھا۔ ٹکٹکی باندھے وہ آسیہ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ سلمہ حزن وملال کی تصویر بنی کھڑی تھی۔ گھر کے سارے افرادحزن وملال سے بھرے ہوئے تھے۔ سارا ماحول حزن وملال سے بوجھل ہورہا تھا۔ اس لیے نہیں کہ ماں یا دادی اماں مررہی تھی۔۔۔ بلکہ اس لئے کہ گھر میں موت گھس آئی ہے۔ چاروں طرف موت منڈلارہی تھی۔ سارا گھر موت سے یوں لبالب بھراہواتھا جیسے اناردانوں سے بھراہوتاہے۔ انجانے میں گھرکا ہرفرد آرزومند تھاکہ یہ بوجھ اٹھ جائے۔ بوجھل بورڈم دور ہوجائے۔ گھرکاماحول بحال ہوجائے، چاہے بوڑھی اماں پرکچھ بیت جائے۔
سلمہ نے اشارے سے پوچھا کہ بڑی اماں کا کیاحال ہے؟ صائم نے مایوسی میں سرہلادیا۔ سلمہ کی اداسی اورگہری ہوگئی۔ سرڈھلک گیا۔ بال نکلنے لگے اور ساتھ ہی آنکھوں میں امید کی کرن ناچنے لگی۔ سلمہ ایک جذباتی لڑکی تھی۔ اسے آسیہ سے بڑی محبت تھی لیکن کیا کرتی، اپنی مصروفیت کی وجہ سے مجبورتھی۔ اس کی چہیتی سہیلی شان کے بیاہ کوصرف آٹھ دن باقی رہ گئے تھے۔ اس نے شان سے وعدہ کررکھا تھا کہ اس کے بیاہ پرملتان آئے گی۔ وہ چاہتی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے لیکن اس کے ملتان جانے میں رخنہ نہ پڑے اور اگراماں یوں ہی پڑی رہی تو وہ ملتان نہ جاسکے گی۔ پہلے ہی اماں کی وجہ سے سلمہ کی ساری روٹین تباہ ہوچکی تھی۔
مثلا ًفون ہی لیجئے۔۔۔
فون اس برآمدے میں فٹ کیا ہواتھا جواماں کے کمرے سے ملحق تھا۔ اماں کی وجہ سے سلمہ فون آزادانہ طورپر استعمال نہیں کرسکتی تھی۔ پہلے تو عادی طورپر وہ ہر آنے والی کال کووصول کیاکرتی تھی۔ ان کاموں میں زیادہ تر رونگ نمبرہوتے تھے۔ وہ ان رونگ نمبروں کو بڑے نخروں سے جھاڑپلایاکرتی یا بڑے مہذب اندازمیں رونگ نمبر کامذاق اڑادیتی۔ خاص سہیلیوں کے علاوہ سلمہ کوکسی خاص رایٹ یارونگ نمبر سے دلچسپی نہیں تھی لیکن رونگ نمبر کو کاٹنے میں کتنامزا آتاتھا۔۔۔ واٹ فن۔۔۔ اظہارِلگاؤ کا جواب اظہار ِبے نیازی میں کتنی لذت ہوتی ہے۔
اماں کی بیماری کی وجہ سے وہ سہیلیوں سے بھی بات نہیں کرسکتی تھی۔ پہلے تووہ فون پرگھنٹوں باتیں کرتی تھی۔ پتہ نہیں کیا باتیں کیاکرتی تھی۔ پاس کھڑے شخص کے بھی کچھ پلے نہیں پڑتا تھا۔ فون پر وہ لمبے لمبے وقفوں کے بعدایک ایک لفظ بولتی۔۔۔ ہتی، اچھا—کیوں —بور—موڈنہیں۔۔۔ وہ کیسے۔۔۔ ایسے لفظ۔۔۔ یاپھرخالی ہنس دیتی۔ چھوٹی ہنسی۔ لمبی ہنسی۔ مہذب ہنسی۔ جس میں ہنسی نہ ہوتی البتہ آواز کے زیروبم میں جاذبیت ضرور ہوتی۔
سلمہ کے لیے اماں کی صحت یابیماری اہم نہ تھے۔ اہم بات تویہ تھی کہ اس کی روزمرہ بحا ل ہوئے۔ ستارہ کوبھی اماں سے بڑا لگاؤ تھا لیکن وہ بھی مجبورتھی۔ ستارہ نے اپنی تمام تراہمیت کاانحصار ہرامتحان میں کلاس میں فرسٹ آنے پر رکھاہواتھا۔ اماں کی بیماری کی وجہ سے سارے گھر پرجوبوجھ پڑاہواتھا، وہ اس کی پڑھائی میں مخل ہورہاتھا۔ اسے فکر لگ گیا تھاکہ کہیں رابعہ اس کی پوزیشن ہتھیا نہ لے۔
رابعہ۔۔۔ وہ بدصورت بھدی لڑکی جورٹالگالگاکر ہرامتحان میں اس کے پیچھے پیچھے چڑیل کی طرح لگی ہوئی تھی اور ہربارسکنڈ آتی تھی۔ کہیں وہ چڑیل میری جگہ نہ لے لے۔ ستارہ کوصرف یہی ایک فکر لگارہتا۔ اللہ! اماں کی بیماری کیا مصیبت ہے۔ اس مصیبت سے کب جان چھٹے گی۔ اسے اس بات پرغصہ آتا کہ اماں ڈاکٹر کاعلاج کیوں نہیں کراتی۔ ستارہ کی بات سچی تھی۔ عرصہ دراز سے اماں نے فیصلہ کررکھا تھا کہ وہ علاج نہیں کرائے گی۔ اسے ڈاکٹروں پراعتماد نہیں تھا۔
اب کیا حا ل ہے؟ صائم کی بیوی سمینہ نے کمرے میں داخل ہوکرپوچھا۔ صائم نے مایوسی میں اپنا سرہلادیا۔ سمینہ چارپائی پربیٹھ گئی۔ وہ حزن وملال سے نچڑرہی تھی۔ سمینہ اور آسیہ کے مابین خداترسی کے سوااور کوئی تعلق نہ تھا۔ سمینہ ایک مذہبی عورت تھی۔ مذہب اس کے لیے صرف حرف خدا تھا۔ وہ بے چاری خوداس گھر میں اکیلی تھی۔ وہ خود ایلینزمیں گھری ہوئی تھی۔ وہ کربھی کیاسکتی تھی۔
اگرچہ آسیہ اورسمینہ میں ساس بہوکارشتہ تھا لیکن یہ رشتہ ہمیشہ ہی برائے نام رہا۔ ساراقصور آسیہ کا تھا۔ اگروہ حکم چلانا جانتی تو ساس کامرتبہ حاصل کرلیتی لیکن وہ توازل سے حکم بجا لاناجانتی تھی۔ چوکی پربیٹھ کرحکم چلانا اس کے بس کاروگ نہ تھا۔ اس لیے بیٹے کے گھر میں اس کی کوئی حیثیت قائم نہ ہوسکی تھی۔ کیسے ہوتی، اسے بیٹے نے قائم نہیں ہونے دیاتھا۔ جب بھی اماں دل کی بات کرتی توصائم عقل ودانش کی قینچی سے اسے کاٹ دیتا۔ اماں تم نہیں سمجھتی۔
بیٹے کے گھر سے ماں کاصرف ایک تعلق تھا۔ آسیہ میں خدمت اورکام کا جذبہ اس قدر گھرچکاتھا کہ جس گھرمیں بھی وہ جاکرٹھہرتی، اس گھرکے چھوٹے چھوٹے کام کرناشروع کردیتی۔ ٹوٹی ہوئی چیزیں جوڑدیتی۔ صوفوں کے کپڑے دھوکر پھر سے چڑھادیتی۔ پردے رنگ کرنئے بنادیتی۔ ٹوٹے ہوئے سوٹ کیس مرمت کردیتی۔ پرانے کپڑوں کوجوڑکر ٹی کوزیاں بناتی۔ رضائی کے ابر ے تیارکرتی۔ میز پوش، تکیے کے غلاف اورکیاکیا۔۔۔
آسیہ کی اس عادت کی وجہ سے لوگ اس کی قدرکرتے تھے۔ بیٹے کے گھر سے ماں کا بس یہی تعلق تھا۔ اسی واسطے سمینہ اسے عزیزرکھتی تھی۔ کسی نے کبھی نہ سوچا تھا کہ یہ تعلق تونہیں۔ یہ تومفادہے۔ بہرطورسمینہ کا حزن وملال دلی تھا، کیوں وہ خداترس عورت تھی۔
کیوں ابا۔۔۔؟ سمیع نے داخل ہوکرپوچھا۔ کیا حال ہے اماں کا؟
ویسا ہی ہے۔۔۔ صائم نے کہا۔
اوہ! سمیع خاموش ہوگیا۔
کچھ دیر کمرے پر خاموشی طاری رہی۔
اماں کو ضرور دواکھانی چاہئے۔ سمیع بولا۔
ہاں۔۔۔ صائم نے کہا، لیکن اماں مانے بھی۔
ہمیں ایسا محسوس ہوتاہے جیسے ہم اماں کے لیے کچھ نہیں کررہے ہیں۔۔۔ سمیع نے کہا۔
ہاں۔
ایک فیلنگ آف گلٹ ہے۔۔۔ سمیع گویا اپنے آپ سے کہہ رہاتھا۔۔۔ سمیع ازلی طورپر مشنری کارکن تھا۔ اس کے لیے دفتر دفترنہ تھا بلکہ مقصدحیات تھا۔ کام اس کی زندگی کامرکزتھا اوریہ مرکزپھیل کرسارے دائرے پرمحیط ہوچکاتھا۔ باقی تمام رشتے اورتعلق اورلگاؤ سمٹ سمٹ کردائرے کی لکیروں پریوں کھڑے تھے جیسے اوورلوڈ بس میں مسافر پائیدان پر لٹکے ہوتے ہیں۔
اوہ۔۔۔ سمیع چونکا۔ مجھے تودفتر جاناہے۔ فنکشن توشروع ہوچکاہوگا۔۔۔ ابو میں واپسی پرڈاکٹرلے آؤں گا۔ اس نے یوں کہا جیسے صرف ڈاکٹر لے آنے سے اماں سے تعلق استوار ہوجائے گا۔ سینس آف گلٹ دورہوجائے گا۔
اماں سے پوچھ لو۔۔۔ صائم نے کہا۔
اماں۔ اماں جی۔۔۔ سمیع نے آواز دی۔
اماں نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔ پھرسمیع گھوم کراماں کے سرہانے جاکر کھڑاہوا۔ اس نے اماں کے منہ سے رضائی اتاردی۔
اوہ۔۔۔ وہ زیرلب بڑبڑایا۔
اماں تو۔۔۔ اماں تو۔۔۔
کیاکہا۔۔۔ کئی ایک چیخیں گونجیں۔
اماں گزرگئیں۔۔۔
ہائے اللہ اماں چلی گئیں۔
پڑوس والے کہتے ہیں کہ صائم کے گھرسے چیخوں کی آوازیں بلندہوئیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں، نہیں وہ چیخیں نہیں۔۔۔ وہ توبگڑے ہوئے قہقہوں کی آوازیں تھیں۔
میں نے وہ آوازیں نہیں سنیں۔ لیکن میں محسوس کرتا ہوں جیسے صائم کی اماں مری نہیں۔۔۔ بلکہ صائم کے گھرسے منتقل ہوکرمیری ماں بن کر میرے گھرآپہنچی ہے۔ جیسے یہ کہانی صائم کی ماں کی نہیں بلکہ میری ماں کی ہے۔ شاید تمہاری ماں کی ہو۔ ہم سب کی ماؤں کی ہو۔ مجھے ایسا لگتاہے جیسے وہ گھرگھربیٹھی ہے اور اس کے ارد گرد ایلینزیوں ناچ رہے ہیں۔۔۔ جیسے وحشی قربانی کرنے سے پہلے بلی کے اردگردناچتے ہیں۔
مأخذ : کہانیاں
مصنف:ممتاز مفتی