ٹل بجنے پرپریم دیوتاچونکے۔ اس وقت کون ہوسکتاہے بھلا۔ شش سیوک بولا، کوئی فریادی ہوگا مہاراج۔ اس سمے فریادی۔ پریم دیوتاماتھے پرتیوری چڑھاکربولے۔ مہاراج، شش سیوک نے کہا، فریادی کاکوئی سمے نہیں ہوتا۔ اچھا توفریادی کوحاضر کرو۔ دیوتا خشمگیں لہجے میں بولے۔
مہاراج۔ شش نے سرلٹکالیا۔ جدماتھے پربل ہوں اورمن میں کرودھ ہو، وہ سمے فریاد سننے کا نہیں ہوتا۔ دیوتا چونکے، مسکراکر بولے، توکون سمے ہوتاہے۔ سیوک شش بولا، مہاراج جدمن شانت ہو۔ جدکڑوی کسیلی بے سوادنہ کرے۔ جدہِردے کان ہی کان بن جائے۔ جدسننے والا خود فریادی بن جائے۔ دونوں میں دوج نہ رہے۔ وہ سمے فریاد سننے کاہوتا۔ ہے مہاراج۔
پریم دیوتا نے جواب دینے کے لیے سراٹھایا۔ دیکھا کہ سامنے دروازے میں ایک عورت سرجھکائے چھوئی موئی کھڑی ہے۔ تم کون ہو؟ دیوتا نے پوچھا۔
میں فریادن ہوں مہاراج۔ عورت نے ہاتھ جوڑکرکہا۔
بول کیامانگتی ہے فریادن؟
کچھ بھی نہیں مانگتی مہاراج۔
آپ ہی کہتی ہے فریادن ہوں۔
میری فریاد میں مانگ نہیں مہاراج۔
شش سیوک یہ کیا کہہ رہی ہے۔ دیوتا نے پوچھا۔
مہاراج، شش نے جواب دیا، فریادمیں مانگ ہوتی ہے پرضروری نہیں کہ ہو۔
دیوتا نے سرجھکالیا۔ بولے اچھا توبول فریادن کیاکہناچاہتی ہے؟
فریادن نے کہا، مہاراج میں استری پن ہوں جسے آج کی دنیا میں نسائیت کہتے ہیں۔ میں لاج ہوں، سیواہوں، پتی بھگتی ہوں، ممتاہوں۔ آپ نے میرے ہاتھ میں عورت کی بانہہ پکڑائی تھی اورکہا تھا اس کے انگ انگ میں رچی رہنا۔ اس کی ہرسانس میں اپنی مہک گھولنا۔ ہرآن اسے تھامے رکھنا، جس طرح گھوڑی کولگام تھامے ہے۔
ہاں ہاں پھر، دیوتا نے پوچھا۔
مہاراج میں نے ویسا ہی کیاہے جیسے آپ نے کہاتھا۔ پرآج عورت نے مجھے دھتکاردیاہے۔ کہتی ہے میں نے سارے بندھن توڑدیے ہیں۔ میں آزاد ہوگئی ہوں۔ مجھے کوئی سنگ سہارا نہیں چاہئے۔
نہیں نہیں ایسا نہیں ہوسکتا، دیوتا بولے۔ ہم نے تواستری کے ہِردے کے بندبند میں تجھے رچابسادیاتھا۔ پھروہ تجھے کیسے نکال پھینک سکتی ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔
ایسا ہوگیاہے مہاراج، فریادن نے ہاتھ جوڑکرکہا۔
لیکن پھول سے مہک کیسے الگ ہوسکتی ہے۔
مہاراج، پھول نے مہک کوتیاگ کررنگ کواپنایاہے۔ مدھم کوچھوڑکر بھڑک کواپنالیاہے۔
شش سیوک سن رہے ہو، یہ کیاکہہ رہی ہے۔
سن رہاہوں مہاراج، شش بولا۔
جواستری میں لاج ممتانہ رہی تووہ استری کیسے رہے گی۔ استری نہ رہے توکیابن پائے۔ دیوتا گویا اپنے آپ سے بولے۔
مہاراج، فریادن نے کہا۔ مجھے نہیں پتہ کہ وہ کیابن گئی ہے۔ میں توبس اتنا جانتی ہوں کہ اس نے مجھے تیاگ کر بن باسی بنادیاہے۔ میں دکھڑا نہیں روتی مہاراج، مجھے اس سے لاگ نہیں لگاؤنہیں۔ میں توصرف یہ پوچھنے آئی ہوں کہ اب میرے لیے کیاآگیاہے۔
تونہیں سمجھتی فریادن، دیوتا نے کہا۔ اگراستری نے تجھے تیاگ دیاہے۔ اگراس میں استری پن نہیں رہا تو سمجھ لووہ استری نہیں رہی۔ اگر استری استری نہ رہے گی تو پھرپرش بھی پرش نہیں رہے گا اورپرمیشور نے جواستری اورپرش کے بیچ پریم بندھن کا ناطہ بنارکھا ہے وہ ٹوٹ جائے گا۔
مہاراج، شش بولا۔ پریم بندھن توپرمیشور کی ایک چال ہے، ایک چلتر ہے جس کے زور پرجیون کی جھنجھری بھری رہتی ہے۔ موت کی ٹپکن اسے خالی نہیں کرپاتی۔
چال ہی سہی پرنتو، دیوتانے کہا۔ اگرایسا ہوگیا تو سنسار میں جیون کی ندی سوکھ جائے گی۔
ایسا ہونے کوہے مہاراج، فریادن چلائی۔
فریادن اب تم جاؤ۔ یہاں پاٹ شالہ میں رکی رہو۔ ہم پتہ کرتے ہیں۔ پھر تم سے بات کریں گے۔
فریادن کے جانے کے بعد وہ شش سیوک سے مخاطب ہوکرکہنے لگے، شش تم دھرتی پراترو۔ راج نائکہ سے ملو۔ اس سے بھیدلواس کے پاس بھانت بھانت کا پرش آتاہے اورجو کچھ وہ لے کرآتاہے، اس سے پتہ چلتاہے کہ گھرگر ہستنی کس حال میں ہے۔ راج نائکہ مرد اورعورت دونوں کے بھید جانتی ہے۔
جب شش سیوک راج نائکہ سے ملنے اپسرا حویلی میں پہنچاتو ابھی شام نہیں پڑی تھی۔ اس نے دیکھا کہ بہت سی نوجوان طوائفیں اپنی اپنی چوکی پربیٹھی ہارسنگھار میں مصروف ہیں۔ ساتھ ساتھ ایک دوسری سے باتیں کررہی ہیں۔ چہلیں کررہی ہیں۔ اس وقت شش نے ایک بوڑھے رئیس عیاش کابھیس بدل رکھا تھا۔ اسے داخل ہوتے دیکھ کرایک طوائف نے منہ موڑلیا۔ دوسری نے ناک چڑھائی۔ تیسری کی بھویں سکڑکر کمان بن گئیں۔ چوتھی منہ پرہاتھ رکھ کرتحقیر سے ہنس دی۔ یہ دیکھ کرشش کا ماتھاٹھنکا۔ یہ میں کہاں آگیاہوں۔ یہ تواپسرا حویلی نہیں دکھتی۔ یہاں تو رنگ ہی کچھ اور ہے۔
رنڈی کاکام توگاہک کاسواگت کرناہوتاہے۔ پرش کولبھانا ہوتاہے۔ اسے مائل کرناہوتاہے۔ اس کے اندر کے بالک کوجگانا ہوتاہے۔ اسے کھیلنے پراکسانا ہوتاہے۔ چاہے وہ جوان ہویابوڑھا۔ بوڑھے کوتوبہت دھیان دیاجاتاہے۔ اس لیے کہ وہ دھن کے زور پرآتاہے اوربوڑھے میں لوبھ زیادہ ہوتاہے۔ رنڈی کا توکام ہی یہی ہے کہ منش میں لوبھ جگا ئے اور پھرروپیہ بٹورے۔ ہے بھگوان یہ میں کیادیکھ رہاہوں۔ رنڈی گاہک کودیکھ کرناک چڑھارہی ہے۔ منہ موڑرہی ہے۔ شش مڑکرباہر نکلنے کوہی تھا کہ ایک کونے سے ادھیڑعمر کی نائکہ شرنواس کے پا س آئی۔ بولی آئیے جناب، آئیے تشریف لائیے۔ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتی ہوں۔
دیوی یہ اپسرا حوالی ہے کیا؟ شش نے پوچھا۔
شرنو نے نووارد کی بات سنی تواپنا طرزکلام بدل کربولی، ہاں مہاراج پدھاریے پدھاریے۔ جی آیانوں۔ آؤ مہاراج بیٹھ کے بات کرو۔ کس لیے یہاں آکرہماری سوبھابڑھائی۔ سرسنگیت کے رسیا ہوتو بتاؤ۔ ناچ نرت چاہو تو، جوبنا کے پجاری ہو تو، بانکپن کے گاہک ہوتو۔۔۔ مہاراج حویلی میں ایک سے ایک بڑھ چڑھ کر موجود ہے۔ جوچاہو، جیسی چاہو بس اک بار حکم دو۔ یہ سن کر شش سیوک بیٹھ گیا۔ شرنو، وہ بولا، جب میں نے حویلی میں پگ دھرا اورمیں نے دیکھاکہ ان الھڑرنڈیوں نے منہ موڑ لیاہے تومجھے وسواس ہواکہ میں بھول سے کسی اورجگہ آگیاہوں۔
شرنو مسکراکربولی، مہاراج حویلی کے وہ پرانے طور طریقے بیت گئے۔ اب طوائف وہ طوائف نہیں رہی۔ اس نے کنچیلی بدل لی ہے۔ روپ بھگت سچ کہتی تھی کہ جب طوائف میں ’’میں‘‘ جاگے گی توسمجھ لینا کہ کلجگ آگیا۔
روپ بھگت کون تھی؟ شش نے پوچھا۔
مہاراج وہ راجہ عندلیب راؤ کی پتری تھی۔ جب وہ جوا ن ہوئی تو پتہ نہیں من میں کیاسمایا کہ راج محل کوچھوڑکر بھگتی کے لیے چل نکلی۔ سولہ سال بھگتی میں گزارے۔ پھرگروآتما دیوکے پاس پہنچی۔ بولی، مہاراج سولہ سال کی بھگتی کے بعدمجھے پتہ چلاہے کہ جب تک من مندر پر’’میں‘‘ کاکلس چڑھاہے، بھگتی اندھی گلی کی سمان کسی اورنہیں لے جائے گی۔ اب بولو مہاراج، ’’میں‘‘ مارنے کے لیے میں کیاکروں، کہاں جاؤں؟
گرودیو بولے، روپ تو راجہ کی پتری ہے، محل میں پلی ہے، خود کو دوجوں سے اونچا سمجھنا تیری ہڈی میں رچاہے۔ تیری ’’میں‘‘ ایسے کیسے نہیں جائے گی۔ بھگت بولی جومیں راجہ کی پتری ہوں تواس میں میرا کیادوش ہے۔ گرودیو جس بات پرمیرا بس نہیں وہ میرے راستے کاپتھر کیوں بنے مہاراج۔
گرودیو سوچ میں پڑگئے۔ پھرسراٹھاکر بولے، میرے لیے دھرتی پر’’میں‘‘ کونچوڑنکالنے کی صرف ایک جگہ ہے۔ وہاں جائے گی کیا؟ روپ بولی جاؤں گی مہاراج، چاہے وہ پاتال ہی کیوں نہ ہو۔ گرومسکائے، کہنے لگے، وہاں نیچ بن کررہناہوگا۔
رہوں گی مہاراج، روپ نے جواب دیا۔
اچھا تواپسرا حویلی میں چلی جا اور رنڈی بن جا۔
روپ نے گھبراکر گرودیو کی طرف دیکھا، کیا کہامہاراج۔ گرودیو ہنسے۔ گھبراگئی نا۔ تورنڈی کے ظاہر پرنہ جا۔ ظاہر میں وہ نراج ہے۔ ہوس کی ماری ہوئی دکھتی ہے۔ پر اس کا ایک اندر کا روپ بھی ہے۔ رنڈی خود کے لیے نہیں دوجوں کے لیے جیتی ہے۔ دوجوں کوخوش کرنااس کا دھرم ہے۔ دوجا چاہے اجلاہو یا میلا۔ لڑاکا ہویاپریمی۔ دھن وان ہویا اچکا۔ سڑی ہو یا ہنسور۔ اس گھاٹ کامتوالا ہویا اس گھاٹ کا۔ کوئی بھی ہو، کیسا بھی ہو، وہ اسے خوش کرتی ہے۔ چاہے اپنامن جل جائے، اپنی پریم جھجھری پھوٹ جائے۔ وہ اپنی ’’میں‘‘ کوتیاگ دیتی ہے۔ بس وہی ایک جگہ ہے جہاں تیری ’’میں‘‘ کا پھوڑاپھوٹ سکتا۔ پرنتو ایک بات یادرکھنا اوش۔ اپنے گاہکوں سے جتنا پیسہ بٹورسکے بٹورنا، پراسے اپنے پاس نہ رکھنا۔ اسے اپنا نہ جاننا۔ اسے ہاتھ نہ لگانا اور جوہاتھ لگائے توصرف دوجوں میں بانٹنے کے لیے۔ وہ تھی روپ بھگت مہاراج، شرنو نے کہا۔ وہ یہاں آئی، پورا ایک سال یہاں رہی اور جاتے سمے کہنے لگی، شرنو! اب سمے بدل رہا ہے۔ رنڈی میں ’’میں‘‘ ابھرآئی۔ جدوہ اپنی مرضی سوچنے لگی تو سمجھ لینا کلجگ آگیا۔
سچ کہتی تھی روپ بھگت، شش نے ہنکارابھرا۔
مہاراج، شرنو بولی، رنڈی توپانی سمان ہووے ہے۔ چاہے اسے پیالے میں ڈال لوچاہے کٹوری میں، ہرروپ میں ہررنگ میں ڈھل جاتی ہے۔ وہ بن جاتی ہے جودوجاچاہے ہے۔ دوجامیٹھے کارسیا ہوتو مٹھاس بن جاتی ہے۔ دوجا سی سی کامتوالا ہوتو مرچ بن جاتی ہے۔ اس کا اپنا کوئی سوادنہیں ہوتا مہاراج۔
شرنواب تورنڈی کا وہ رنگ نہیں رہا جس کی توبات کررہی ہے۔ شش نے نوجوان رنڈیوں کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ پھر وہ اٹھ بیٹھا، بولا، تیرے پاس سے اٹھ کر جانے کوجی نہیں چاہتا۔ پرمجھے راج نائکہ سے ملناہے۔ یہ سن کرشرنو بھی اٹھ بیٹھی۔ پدھاریے مہاراج، کہہ کر وہ راج نائکہ کی طرف چل پڑی۔
راج نائکہ کے منہ پر جھریاں پڑی ہوئی تھیں۔ بال کھچڑی ہورہے تھے۔ پھربھی وہ ریشمی کپڑے پہنے زیور لگائے بیٹھی اپنے بال سکھارہی تھی۔ شش کو آتے دیکھ کر اس نے جلدی جلدی کھلے بالوں کا جوڑا بنایا اوراٹھ کر اس کا سواگت کیا۔ جب شرنو چلی گئی تو شش نے اپنی جیب سے سونے کا کڑانکالا۔ یہ تمہاری بھینٹ ہے دیوی۔ سونے کودیکھ کر راج نائکہ کاچہرہ کھل اٹھا۔ بولی، اس کی کیاضرورت تھی مہاراج، میں تو ویسے ہی باندی ہوں۔ حکم کرو کیاچاہتے ہو۔ میں آپ کی سیوا کے لیے یہاں بیٹھی ہوں بلکہ آپ نے خودآنے کی تکلیف کیوں کی، مجھے بلوابھیجتے۔ شش کوپتہ چل گیا کہ سوناکام کرگیا۔ بولا، دیوی پیاسا ہی کنویں کے پاس آتاہے۔
راج نائکہ مسکرائی۔ کہنے لگی، توبولو مہاراج کوکیسی پیاس ہے۔ کسی کی پیاس ہے۔ کسی پرمن ریجھ گیاہے یا کسی کوگھرڈالنے کا دھیان ہے۔ شش نے جواب دیا، میری پیاس کچھ اورہے دیوی۔ میں تو تیرے پاس اس طرح آیاہوں جیسے بالک گروکے پاس جاتا ہے۔ میں توتیرے دواربدھی کی تلاش میں آیاہوں۔ سچ کی ڈھونڈکرنے آیاہوں۔ راج نائکہ کے ماتھے پر سوچ کی تیوری پڑگئی۔ دیرتک وہ سرنوائے بیٹھے رہی، پھرسراٹھاکر بولی، مہاراج جوسچ کی ڈھونڈمیں ہوتوکسی رشی منی کے پاس جاؤ۔ نائکہ توسچ سے منہ موڑ کربیٹھی ہے۔ جوبدھی کی تلاش ہے توکسی ودوان کے پاس جاؤ، کسی عالم کوڈھونڈو۔ شش بولا، نہ دیوی۔ مجھے پڑھی پڑھائی، سنی سنائی بدھی نہیں چاہئے، اس لیے میں تیرے پاس آیاہوں۔ تیرے پاس بیتی بدھی ہے، تونے جیون کوبیت کر دیکھاہے۔
مہاراج کئی قسم کی دانائی ہوتی ہے۔ آپ کوکون سی دانائی کی تلاش ہے؟ نائکہ نے پوچھا۔
مجھے مرد اورعورت کے آپس کے ناطے کا بھیدجانناہے۔ شش نے جواب دیا۔
راج نائکہ پھرسوچ میں پڑگئی۔ وہ حیران تھی کہ کیا مرد ہے جوپھول کی خوشبو سے محظوظ ہونے کی سوچ رہا، اس کا بھید پانے کی خواہش لیے بیٹھاہے۔ مرد کا کام توعورت سے خوشی حاصل کرناہے، اس کا بھید پانا نہیں۔ پھراس نے خودکوسنبھالا اورکہنے لگی، نائکہ بھلا عورت کابھیدکیسے پاسکتی ہے مہاراج۔
نائکہ بھی توعورت ہی ہوتی ہے۔ شش نے کہا۔
بڑا فرق ہوتاہے مہاراج۔
وہ کیسے؟ شش نے پوچھا۔
ذراسوچو مہاراج، مردگھرکی استری کوچھوڑکر طوائف کے پاس کیو ں آتاہے؟ نائکہ نے کہا، اگرعورت اور طوائف میں فرق نہ ہوتو کیوں آئے۔
سچ کہتی ہو دیوی، شش نے سرہلادیا۔ شش کا مقصد تویہی تھا۔ راج نائکہ باتیں کیے جائے، کیے جائے اور پھر ان میں سے اپنے مطلب کی باتیں چن لے۔
بڑافرق ہے مہاراج، راج نائکہ نے کہا۔ گھرکی عورت سہتی زیادہ ہے کہتی کم ہے۔ پریم لگن بیتے زیادہ ہے، جتاوے کم کم ہے۔ جلے تو ہے پربھڑک کرنہیں جلے ہے۔ مدھم مدھم اندراندر بھیڑلگی ہوئے ہے اوپرشانت دکھے ہے۔ اپنی خواہشوں کولاج کی اوڑھنی تلے چھپائے رکھے ہے۔
اوررنڈی؟ شش نے پوچھا۔
رنڈی میں لاج نہیں ہوتی۔ وہ صرف کہتی ہی کہتی ہے سہتی نہیں۔ پریم لگن بیتے نہیں، صرف جتاوے ہی جتاوے ہے۔ جلے نہیں، پریوں نظر آوے ہے جیسے بھڑک کرجل رہی ہے۔ اندر سے خالی ہوئے ہے، پرباہر بھیڑ لگاوے ہے۔ لگارکھے ہے۔
سچ کہتی ہو، شش نے ہنکارا بھرا۔
جب مرد گھر والی کی ایک رنگی سے اکتاجاتاہے تو وہ حویلی کا رخ کرتاہے۔ نائکہ نے بات جاری کی۔ اسے گھر والی کی کٹوری اوندھی نظرآتی ہے، اس لیے وہ بھری ہوئی اچھلتی ہوئی بلوری پیالی کی طرف آتاہے۔
مہاراج میں توصرف اچھلتی پیالیوں کوجانتی ہوں، میں گھرکی عورت کوکیاجانوں۔ نائکہ خاموش ہوگئی۔ شش سوچ میں پڑگیا، کون سی چال چلوں کہ راج نائکہ بولنے پرمائل ہو۔ ادھرراج نائکہ سوچ میں پڑی تھی کہ یہ شخص کون ہے؟ کیوں بھید لے رہاہے؟ کس کے لیے بھید لے رہاہے۔ وہ اوربھی محتاط ہوتی جارہی تھی۔
دیکھ دیوی، شش بولا۔ اندر سے تواستری ہی ہے نا۔ نائکہ توایک بہروپ ہے جوتونے دھار رکھاہے تاکہ کاروبارچلتا رہے۔
یہ سچ ہے مہاراج کہ نائکہ میں عورت ہوتی ہے جسے وہ اپنے من کے پلومیں یوں باندھے رکھتی ہے جیسے گاؤں والی اپنی چنی کی کنی میں پیسے باندھ رکھتی ہے۔ لیکن مہاراج یہ بات توگھروالی پرایسے ہی بیٹھتی ہے جیسی نائکہ پر۔
میں سمجھا نہیں دیوی، شش نے کہا۔
مہاراج، نائکہ بولی، جس طرح طوائف کے من میں عورت کی پوٹلی بندھی ہوتی ہے اسی طرح عورت کے دل میں طوائف کی پوٹلی بندھی رہتی ہے۔
وہ کیسے دیوی؟ شش نے پوچھا۔
نائکہ نے کہا، مہاراج سیدھی بات ہے، انسان اس کی قدر نہیں کرتا جواسے حاصل ہو۔ جونہ حاصل ہواس کے سپنے دیکھتاہے۔ نائکہ کوگھرگر ہستنی حاصل نہیں، اس لیے وہ گھر کے سپنے دیکھتی ہے۔ گھرگرہستنی کوطوائف کی کشش حاصل نہیں اس لیے وہ طوائف کے سپنے دیکھتی ہے۔
دیوی، شش نے کہا۔ تیری حویلی میں رنگ رنگ کے پرش آتے ہیں۔ تو ان کودیکھتی ہے۔ ان کی اِکشاؤں کوجانتی ہے، وہ جوگھرمیں پوری نہیں ہوپاتیں، جنہیں پورا کرنے کے لیے وہ یہاں آتے ہیں اوریوں تجھے پتہ چل جاتاہے کہ گھر گرہستنی میں کیا ہے کیانہیں۔ تو آنے والوں کے روپ سے عورت کے رنگ ڈھنگ کوخوب جانتی ہے۔
راج نائکہ یہ سن کر گہری سوچ میں پڑگئی اور دیرتک سرجھکائے بیٹھی رہی۔ پھراس نے سراٹھایا۔ بولی، مہاراج ایک بات پوچھوں؟ ہاں ہاں پوچھو۔ ایک کیادس پوچھو۔ شش مسکرایا۔
یہ بتاؤمہاراج کہ آپ یہاں خودآئے ہیں کیا؟
میں نہیں سمجھا۔ شش نے سوچنے کے لیے وقت حاصل کرنے کے لیے کہا۔ اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اپنا بھید رکھے رہے یاکھول دے۔ نائکہ مسکرائی۔ بولی، مہاراج جویہاں خودآتاہے، وہ ایسی باتیں نہیں پوچھتا جیسی آپ پوچھ رہے ہیں۔
اب بات چھپانا بے کارتھا، اس لیے شش نے فیصلہ کرلیاکہ وہ نائکہ سے ساری بات کہہ دے گا۔
تونے میرابھید کیسے جان لیادیوی؟ شش ہنس کربولا۔
نائکہ کہنے لگی، مہاراج اپسرا حویلی توبھید حویلی ہوتی ہے۔ یہاں ہرکوئی اپنا بھید رکھنے کے لیے پورا زور لگاتاہے۔ نائکہ اپنا بھیدچھپاتی ہے، گاہک اپنا بھیدچھپاتاہے اوربھید کی یہ عادت ہے مہاراج کہ جتنا چھپا، اتناکھل جاتاہے۔ پھوٹ پھوٹ نکلتاہے۔ تومہاراج اس حویلی میں سارے ہی پردوں سے ڈھکے ہوتے ہیں، پرنتو سارے ہی ننگے ہوتے ہیں۔
کتنی سیانی ہے تودیوی! شش نے کہا۔
وہ تومہاراج میں پہلے ہی جان گئی تھی کہ آپ یہاں خودنہیں آئے۔ پربھیجنے والے کا نام ابھی تک نہیں چلا۔ چلے تومعلوم ہوکس خیال سے بھیجاہے۔ صرف جاننے کے لیے کہ جان کرجانی بات کوبرتنے کے لیے۔
یہ سن کرشش نے نائکہ کو ساری بات کہہ سنادی، جسے سن کرنائکہ نے اطمینان کاسانس لیا۔ بولی، مہاراج پہلے ہی بتادیتے تومیں بات ٹالن میں نہ لگی رہتی۔ شش ہنسنے لگا۔ نائکہ بولی، مہاراج! فریادن سچی ہے۔ عورت نے نسائیت کوتیاگ دیاہے۔
تمہیں کیسے پتہ ہے جواتنے بھروسے سے کہہ رہی ہو؟ شش نے پوچھا۔
مہاراج مجھے پتہ ہے۔ یہ سنی سنائی نہیں، بیتی کہہ رہی ہوں۔
وہ کیسے؟ شش نے پوچھا۔
نائکہ نے جواب دیا، مہاراج حویلی ویران ہوتی جارہی ہے۔ حویلی میں اب وہ بھیڑ نہیں رہی۔ بہت کم لوگ آتے ہیں اس سے ظاہر ہے وہ کچھ جس کے لیے وہ یہاں آتے تھے، اب انہیں گھروں میں مل جاتاہے۔
کیاعورت میں رنڈی کا رنگ پیدا ہوگیاہے؟ شش نے پوچھا۔
مہاراج! نائکہ نے جواب دیا، گھرگرہستنی نے لاج کی اوڑھنی کوسرسے اتاردیاہے۔ اس نے نسائیت کی خوشبوکو تیاگ کر رنگ اپنالیاہے۔ بھڑکیلارنگ۔ پہلے وہ مرد کے ہاتھ کاکھلونا بننے میں خوشی محسوس کرتی تھی۔ اب اس نے مرد کواپنے ہاتھ کاکھلونا بنانے کا فن جان لیاہے۔ ہاں مہاراج عورت میں طوائف کا رنگ ابھرتا آرہاہے۔ اسی وجہ سے حویلی ویران ہوتی جارہی ہے۔
اچھا تواب ہوگاکیا؟ شش گویاخود سے فکرمند انہ اندازمیں بولا، اگر استری استری نہ رہی تو پرش پرش نہ رہے گا۔
نہیں مہاراج۔ مردمرد نہیں رہا، نائکہ نے جواب دیا۔ دونوں کے لباس ایک جیسے ہوگئے ہیں۔ چال ڈھال ایک جیسی ہوگئی ہے۔ رنگ روپ ایک جیسا۔ کوئی فرق نہیں رہامہاراج۔
کیاانہیں الگ الگ ہوناچاہئے؟ اس بارے میں توکیاکہتی ہے؟ شش نے پوچھا۔
ضرورالگ ہوناچاہئے مہاراج۔ ایک سی چیزیں ایک دوجے کولبھاتی نہیں، ایک دوجے کوچھیڑتی نہیں، کھینچتی نہیں۔ جومرد عورت میں چھیڑ نہ رہے لبھاوٹ نہ رہے توپھررہاکیا مہاراج۔ اگر مرد عورت ایک دوجے کے الٹ ہوں تو ایک دوجے کوکھینچیں گے۔ جوٹھنڈی اورگرم تاریں ملیں تو شعلہ نکلتاہے۔ ایک سی تاریں ہوں توکچھ بھی نہ ہو۔
شش گھبراگیا اور اضطراب میں بولا توپھرکیاہوگا؟
کچھ بھی نہ ہوگا مہاراج۔
یہ تم کیاکہہ رہی ہو دیوی؟ شش بولا۔
سچ کہہ رہی ہوں مہاراج۔
جواستری بدل گئی؟
مہاراج عورت نہیں بدلے گی، نائکہ مسکرائی۔
توخود ہی توکہہ رہی ہے دیوی کہ وہ بدل رہی ہے؟
مہاراج جب وہ نمک کھاکھاکر اکتاجاتی ہے توپھر میٹھا کھانے لگتی ہے، صرف منہ کا سواد بدلنے کے لیے۔ چاردن میٹھا کھاکرمنہ بھرجائے گا اوروہ پھر سے نون کواپنالے گی۔
کیایہ سچ ہے؟ شش نے چونک کر پوچھا۔
راج نائکہ مسکرائی۔ بولی مہاراج بیتے سمے میں کئی بارعورت اپنے ڈگر سے ہٹ کے چلی تھی۔ پرنتواس لیے کہ پھرسے اپنی ڈگر کواپنالے، وہ اپناآپ صرف اس لیے کھودیتی ہے کہ اسے پھرسے پالے۔ پھرسے خودکوجانے۔
توپھر میں جاکردیومہاراج سے کیا کہوں؟
انہیں داسی کاپرنام دینامہاراج۔ ان سے کہنا چنتانہ کریں۔ یہ جوعورت میں ابال آیاہواہے اس کی چنتا نہ کریں۔ ابال کاکام آنااور آکرچلے جاناہوتاہے۔ جھکڑکاکام چلتے رہنانہیں بلکہ چل کرتھم جاناہوتاہے۔ وہ اس لیے آتاہے کہ لوگ خاموشی اور سکون کی قدر جانیں۔
لیکن دیوی یہ جھکڑ توپتہ نہیں کب تک چلے؟ نائکہ بولی، دھیرج دھرو مہاراج۔ اسے چلنے دو۔ روکونہیں۔ جوروکوگے تو دب جائے گا۔ دلوں میں بیٹھ جائے گا۔ پھرنکالنا مشکل بہت ہوجائے گا۔
لیکن دیوی ہم فریادن کوکیا جواب دیں؟ شش نے پوچھا۔
مہاراج فریادن کو ہماری حویلی میں بھیج دو۔ شش گھبراگیا۔ بولا، دیوی! لاج ممتا کو یہاں بھیج دیں۔ لاج ممتا کاحویلی سے کیاناطہ۔ کیارنڈی لاج کواپنالے گی۔
مہاراج! نائکہ مسکرائی۔ بولی، بے شک لاج میں بڑی پوترتاہے۔ پریہ نہ بھولومہاراج کہ اصل میں لاج بھی اک سنگا رہے۔ گالوں پرلالی چاہے ڈبیہ سے نکال کر لگالو، چاہے خالی شرماکرلگالو۔
شرماکرلالی کیسے لگاؤگی دیوی؟ شش نے ٹوکا۔ مہاراج شرما نے کی لالی خون کی سرخی ہے۔ لاج خون کورگوں میں دوڑاکر گالوں میں لے جاتی ہے۔ چاہے کیسے بھی لے جاتی ہے مہاراج، پریہ سچ ہے کہ لاج اک سنگارہے۔ مطلب ہے کہ دوجے کے دھیان کو اپنی طرف کرنا۔ دوجے کولبھانا، مائل کرنا۔
ہوں۔۔۔ شش مسکرایا۔
مہاراج مردنِرلج سے جلداکتاجائے گا۔ پھروہ طوائف کی طرف آئے گا۔ طوائف کی لاج اسے بھرمالے گی۔ پھر گھرگر ہستن دیکھے گی کہ گھروالا لاج کے لیے حویلی میں جاتاہے تو وہ اسے گھررکھنے کے لیے پھر سے لاج کواپنا لے گی اور رنڈی پھرسے نراج ہوجائے گی۔ یوں چکر پورا ہوجائے گا۔
اس لئے مہاراج، فریادن کوحویلی میں بھیج دو۔
مأخذ : کہانیاں
مصنف:ممتاز مفتی