کہانی کی کہانی:’’کہانی ایک ایسی لڑکی کی داستان بیان کرتی ہے جو محبت تو سلیم سے کرتی ہے مگر شادی اس کی نظر سے ہو جاتی ہے۔ شادی کے بعد بھی وہ سلیم کے خیالوں میں کھوئی رہتی ہے۔ ادھر نظر اسے دیوانگی کی حد تک چاہتا ہے۔ ایک روز اسے پتہ چلتا ہے کہ سلیم آیا ہوا ہے۔ وہ اس کے پاس جانا چاہتی ہے۔ مگر نظر، جو اس کے لیے اپنی پسند کی نیلی ساڑی خریدنے کے لیے اتنا کام کرتا ہے کہ بیمار پڑ جاتا ہے۔ وہ اسے دیکھتی ہے اور سلیم کے پاس جانے سے انکار کر دیتی ہے۔‘‘
عذرا ان عورتوں میں سے ہے جن سے وصال میں بھی تکمیل حصول کی آرزو میں بے ساختہ آہ نکل جاتی ہے۔ جو دل خراش حقائق سے دور کسی رنگین دنیا میں رہتی ہیں۔ یوں تو ہر عورت کی دنیا حقائق سے بے نیاز ہے مگر عذرا میں یہ خصوصیات نمایاں ہے۔
عذرا کو بار بار دیکھ کر بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ کس لحاظ سے حسین ہے۔ کتابی چہرہ، حساس ناک، مسکین سے ہونٹ، حیران موٹی موٹی آنکھیں اور گداز جسم۔ اس کی حیران خوابیدہ آنکھیں جو اس کی قوت تکلم کا بیشتر حصہ سلب کر چکی ہیں، نہ جانے کون سی دنیا میں رہتی ہیں۔ بہرصورت وہ اس مختصر مکان میں جہاں وہ، اس کا خاوند اور ساس رہتے ہیں، رہتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی کمر کا وہ ہلکا خم جس کی وجہ سے اس کی گردن ذرا بائیں طرف مڑی رہتی ہے، بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ بلکہ کسی وقت مجھے شبہ ہوتا ہے کہ یہی خم اس کی جاذبیت کا راز ہے۔ جب کبھی عذرا کچھ بن رہی ہو یا پڑھ رہی ہو اور جھکی جھکی آنکھوں سے باتیں کرے تو تمہارے دل میں ایک لطیف احساس پیدا ہو گا کہ بے شک زندگی بسر کرنے کے قابل ہے اور مل بیٹھنے میں ضرور راحت ہے۔ لیکن اگر وہ آنکھیں اٹھاکر تمہاری طرف نظر بھر کر دیکھ لے تو میں نہیں کہہ سکتا کہ تم کیا محسوس کرو گے۔ اس وقت تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عذرا مجھ سے کوسوں دور ہے۔ یقین نہیں پڑتا کہ وہ زندگی کی حقیقت ہے یا محض خواب۔ اس وقت چراغ مدھم پڑ جاتے ہیں اور دنیا گھوم جاتی ہے۔
کوئی دس بارہ مہینے ہوئے ہوں گے۔ جب وہ یہیں سکول میں دسویں جماعت میں پڑھا کرتی تھی۔ مگر ان دنوں اس کے انداز میں یہ بات نہ تھی۔ حیرانیاں تو اس کی نگاہ میں چھٹپنے ہی سے تھیں۔ شاید اس لیے کہ بچپن سے ہی وہ سوتیلی ماں کے پاس رہتی تھی مگر شادی کے بعد اس کی نگاہیں اور بھی حیران ہو گئیں اور اب وہ ترنم سے بھیگ چکی ہیں۔ اس کی گردن کا جھکاؤ کچھ اور جھک گیا ہے اور اس کی پلکیں کسی خوابوں کی بستی کو ڈھانپے رکھتی ہیں۔
ان دنوں جب سکول سے لوٹا کرتی تو اس کے انداز میں ’’بیگانہ روئی‘‘ پیدا کرنے کی کوشش عیاں ہوتی مگر کبھی کبھار کوئی دبی ہوئی مسرت چھلک پڑتی، چلتے چلتے ٹھمک جاتی یا آنکھ میں ہلکا سا تبسم لہرا جاتا، جس سے صاف ظاہر ہوتا کہ اسے زندگی سے دلچسپیاں محسوس ہو رہی ہیں۔ وہ اپنے انداز میں ایسی بیگانہ روئی پیدا کرنے کی کوشش کرتی تھی جو والدین کے نقطہ نظر سے ہر شریف بچی میں ہونی چاہئے۔ خدا جانے والدین اپنے بچوں میں بیداری دیکھنے کے متحمل کیوں نہیں ہو سکتے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے تبھی کلیوں کی طرح سوئے سوئے ہی رہیں اور یونہی سوئے سوئے ہی مرجھا جائیں۔ اس لیےوہ ان میں بیداری پیدا نہ کرنے کا قطعی فیصلہ کر لیتے ہیں اور جو پیدا ہو جاتی ہے اسے نہ دیکھنے کا۔
عذرا کے والد موخرالذکر قسم کے آدمی تھے۔ گھر میں کھانے پینے کے لیے کافی تھا اور جمع کرنا ان کی سرشت میں نہ تھا۔ بیویوں کے معاملے میں وہ اپنے آپ کو بہت بدنصیب سمجھتے تھے۔ انہیں گلہ تھا کہ ان کی بیویوں کی شادی کے فوراً بعد ہی عام ہو جانے کی قبیح عادت ہے۔ ان کی خواہش تھی کہ ایسی بیوی ملے جو گوناگوں ہو اور ان کا ایمان تھا کہ وہ کبھی نہ کبھی اسے ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔ اس لیے وہ اس کی تلاش میں سرگرداں رہتے تھے۔ ان کے خیال میں بیوی کا یوں عام ہو جانا اس کی بد مذاقی کی دلیل ہے اور وہ اپنے خیال کو اکثر ظاہر کیا کرتے تھے۔
انجینئر صاحب کی بیوی کو دیکھئے۔۔ اس کی آنکھوں میں بیسویں نگاہیں ہیں۔ ایک سے ایک نئی۔ کبھی وہ اداسی میں تو کبھی سرخی میں ڈوبی رہتی ہیں۔ کبھی ہم تمہیں جانتے ہی نہیں اور کبھی اب کہئے مزاج کیسے ہیں، کی سی نگاہیں۔ اور پھر ان کا تو رنگ بھی ادلتا بدلتا ہے۔ کبھی گلابی گلابی، گہری گہری، گدری گدری، میلی میلی۔ یہ جو پڑوس میں مسز ملک ہے نا، دیکھنے کے انداز سے، دیکھنے میں اسے کس قدر ملکہ ہے، اس کے بھرے ہوئے جسم میں کس قدر خم و پیچ مضطرب رہتے ہیں۔ ایک وہ عذرا کی ماں تھی کہ بیٹھ جاتی تو گھنٹوں اٹھنا محال ہو جاتا۔ بس دن بھر آلو ہی چھیلتی رہتی تھی اور پھر وہ زمرد تھی کہ ایک مرتبہ ساڑھی کے لئے بگڑ بیٹھی تو ہفتوں سوج کر بیٹھ رہی اور کچھ کہہ دیا تو ایک عرصہ تک چہرے کی زردی کے سوا گھر میں کچھ نظر نہ آیا۔
عذرا کی ماں کے بعد انہوں نے زہرہ سے شادی کی تھی مگر وہ بھی چند سالوں کے بعد لقمہ اجل ہو گئی۔ خیر اس بات سے ان کی زندگی میں کوئی خاص فرق پیدا نہ ہوا۔ چونکہ شادی کے چند ماہ بعد ہی انہیں یہ معلوم ہو چکا تھا کہ زہرہ میں وہ بات نہیں۔ اب گھر میں ان کی بوڑھی ملازمہ حشمت اور عذرا کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ خود تو وہ عام طور پر باہر بیٹھک میں بیٹھے رہتے یا کبھی اندر آتے تو عذرا کو کوئی نصیحت کرنے کے لیے کہتے، ’’عذرا دوپٹہ سنبھال لو۔ بیٹیوں کو یوں ننگے سر بیٹھنا زیب نہیں دیتا۔‘‘
’’حشمت وہ کھڑکی کیوں کھلی ہے؟ بند کرو اسے۔ دیکھو تو عذرا بیٹھی ہے اور گلی میں لوگ آتے جاتے ہیں۔‘‘
’’عذرا تم یہ مسز ملک ولک کے ہاں نہ جایا کرو، لڑکیاں اپنے گھر بیٹھی اچھی لگتی ہیں۔‘‘
ان نصیحتوں کے باوجود انہوں نے کبھی آنکھ بھر کر اس کی طرف نہ دیکھا تھا۔ بیٹی جوان ہو جائے تو جانے کیوں اسے دیکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ انہیں کبھی عذرا کی شادی کا خیال بھی نہ آیا تھا۔ نہ ہی انہوں نے اسے کبھی بیٹی کہہ کر بلایا تھا۔ کیونکہ گو وہ چالیس برس کے تھے لیکن ابھی جوان ہی معلوم ہوتے تھے۔ ان کے دوست اور احباب انہیں زینت محفل سمجھتے تھے۔ باہر دیوان خانے میں جمگھٹا رہتا تھا اور قہقہوں سے در و دیوار گونجتے۔
ایک روز صبح سویرے جب عذرا سکول جانے کی تیاری کر رہی تھی اور اپنا محبوب نیلا سوٹ پہنے بال بنا رہی تھی تو معمول کے خلاف اس کے والد اندر آ کر خشمگیں انداز میں کہنے لگے، ’’عذرا آج سے تم سکول نہ جایا کرو۔ بس زیادہ پڑھنے کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’مگر ابا جان!‘‘ عذرا نے اپنے آپ کو جھنجھوڑ کر پوچھا۔ اس کا چہرہ حیرانی اور خوف سے بدنما ہو رہا تھا۔
’’مگر وگر کچھ نہیں۔‘‘ انہوں نے بات کاٹ کر کہا، ’’امتحان دینے کی ضرورت نہیں۔‘‘
ایک ساعت کے لیے عذرا کی آنکھیں اٹھیں۔ شعلے کی طرح چمکیں مگر والد جا چکے تھے۔ حشمت نے ان آنکھوں کو دیکھا اور ایسے محسوس کیا جیسے کائنات کا ذرہ ذرہ تھر تھر کانپ رہا تھا، پھر وہ جھک گئیں۔ دو موٹے موٹے آنسو رخساروں سے ڈھلک کر لباس میں جذب ہو گیے۔ پھر وہ نگاہیں حیران ہوتی گئیں۔ اپنے ماحول سے سمٹ کر اپنے آپ میں جذب ہوتی گئیں۔ اس دن سے عذرا کو ٹھمکتے ہوئے کسی نے نہ دیکھا اور اسے بیگانہ روئی پیدا کرنے کی شاید ضرورت ہی نہ رہی۔ شام کو وہ کوٹھے پر چلی جاتی اور گھنٹوں کھیتوں کی طرف نگاہیں جمائے ہوئے کھوئی ہوئی سی رہتی۔ حتیٰ کہ پندرہ دنوں کے اندر اندر اس کے والد نے نذر سے نکاح پڑھوا کر اسے رخصت کر دیا۔ غالباً اس لیے کہ عذرا کی بیداری کا زمانہ اس قدر مختصر تھا کہ آیا اور چلا گیا۔ وہ اس قدر گہرا اثر چھوڑ گیا، جس طرح کسی ویران وادی میں کسی آوارہ طائر کی لرزتی ہوئی تان۔ چند ایک ساعت کے لیے ان خاموش مہیب چٹانوں میں ابھر ابھر کر خاموشیوں کے مسکن کو اور بھی خاموش اور بھیانک تر چھوڑ جاتی ہے۔
اس جھٹ پٹ پر خلق خدا کے ماتھے پر شکن پیدا ہونے ہی تھے۔ چہ میگوئیاں ہوئیں، دبی دبی آوازیں اٹھیں، مگر آواز کسنے کی نوبت نہ پہنچی۔ ایک تو محلے والیوں کو عذرا سے کوئی گلہ نہ تھا اور عذرا کوئی اس قدر حسین یا شوخ یا طرح دار نہیں سمجھی جاتی تھی کہ محلہ والیاں اس سے کینہ دوزی کرتیں۔ دوسرے انہیں عذرا کے والد سے بھی کوئی رنجش نہ تھی کہ انہیں نشتر کرتیں، بلکہ وہ تو ان کی نکتہ رس نگاہوں سے واقف ہونے کے علاوہ ان کی نگاہوں کی قدردان تھیں۔ چند ایک مثلاً انجینئر کی بیوی اور مسز ملک جنہیں آواز کسنے میں ملکہ تھا۔ ان کا تو یہ گلہ تھا کہ ڈھول نہ چھم چھم۔ نہ تاک نہ جھانک، نہ تو تو، میں میں۔ یہ بھی کیا شادی ہوئی۔ کئی ایک کو تو مدت سے عذرا کی شادی کی تقریب سعید کا انتظار تھا کہ شادی ہو اور مہمان بن کر جائیں۔ حنا مالیدہ ہاتھ ہوں۔ جھلملاتی ہوئی ساڑھیاں ہوں۔ کاجل، جھمکے، بندیاں چمکیں۔ پلیٹوں سے چوڑیاں بجیں، پان بنائے جائیں اور اس افراتفری میں اچانک کوئی آ نکلے تو گھونگھٹ نکالنا تو کیا دوپٹہ سنبھالنا بھی مشکل ہو جائے۔ کوئی گستاخ لٹ جھٹک کر منہ پر آگرے اور ناک میں دم کر دے یا پتلی پتلی گوری گوری انگلیاں دوپٹے کو سنبھالنے کی ناکام جستجو میں عریاں رہ جائیں۔ باریک تہوں سے نظریں چھن چھن کر پڑیں۔ سفید سفید باہیں گھونگھٹ سے نکل کر کچھ دیں، کچھ لیں۔ یعنی ایسی شادی ہو کہ نام رہ جائے بلکہ چرچا ہو۔
آخر خلق خدا خلق خدا ہی ہے اور بات بات ہے جو نکل ہی جاتی ہے۔ کسی نے کہا کسی سے آنکھ لڑ گئی ہو گی۔ کوئی کہنے لگی، ’’لو اب ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگی تھی۔‘‘ کوئی کہنے لگی، ’’سنا ہے اس کے ابا نے خط پکڑ لیا۔‘‘ کوئی بولی، ’’اےلو بی بی وہ تو اس کے ابا نے اپنی آنکھ سے دیکھ لیا۔ دفتر سے آ رہے تھے۔ باغ میں وہ اسے پہلو میں لیے بیٹھا تھا۔ توبہ کیسا زمانہ آیا ہے۔‘‘ غرضیکہ کئی باتیں نکلیں بلکہ کون سی باتیں تھیں جو رہ گئیں۔ مگر دبی دبی ہوئی اور پھر بات آئی گئی ہو گئی۔
اس بے چاری کا یہی قصور تھا کہ ا سکول جاتے ہوئے تانگے میں یوں آنکھیں جھکائے ہوئے بیٹھی رہتی کہ مرمریں بت کا شبہ ہوتا۔ اگر کسی شوخ چشم کے دل میں اس بت کو دیکھ کر ایک مصور پیدا ہو جائے اور اسے اس بات میں محو کر دے تو عذرا کا اس میں کیا قصور، ہاں سکول کی ویران سڑک پر ہوا کھانے کو کس کا جی نہیں چاہتا۔
پوری تفصیلات سے مجھے واقفیت نہیں، ہاں سلیم کا اونچا لمبا قد اور فراخ شانے اور اس کا انداز بے نیازی۔۔۔ اس امر کا شاہد ہے کہ اسے تانک جھانک سے کوئی دلچسپی نہیں، نہ وہ خود ساختہ مصیبت مول لینے کا عادی ہے غرضیکہ وہ ان نوجوانوں میں سے نہیں جو کسی کے تصور میں اوندھے پڑے رہنے، آہیں بھرنے اور شعر پڑھنے کی دلچسپ کیفیت میں مبتلا رہنے کے مشتاق ہیں۔ چند دن تو صبح چھ بجے وہ روز اس سڑک پر اپنے سائیکل پر سوار گھومتا رہا، پھر ایک روز جب چھٹی کے وقت عذرا سکول کے پھاٹک کے قریب کھڑی اپنے تانگے کی راہ دیکھ رہی تھی تو سلیم نے آ کر اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹ کر ایک طرف لے گیا اور اسے شانوں سے پکڑ کر پوچھنے لگا۔ ’’تم کون ہو؟ تمہارا نام کیا ہے؟ تم بولتی کیوں نہیں۔۔۔؟ اچھا۔‘‘ اس نے عذرا سے جھنجھوڑ کر کہا۔ ’’تم چاہے کوئی بھی ہو تم میری ہو اور تمہیں اب مجھ سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔‘‘ اور پیشتر اس کے کہ عذرا سمجھتی کہ یہ کیا ہو رہا ہے یا اسے کیا کرنا چاہئے۔ سلیم جا چکا تھا۔ پھر اسے یاد نہیں کہ اس روز تانگے والے نے دیر سے آنے کے لیے کیا عذر پیش کیا تھا یا کس راستے سے وہ آئے تھے یا راستے میں پھاٹک پر کتنی دیر انتظار کرنا پڑا تھا، یا رکنا پڑا بھی تھا یا نہیں۔ اس روز اس کی آنکھیں تبسم سے آشنا ہوئی تھیں اور اس کی چال نے ٹھمکنا سیکھا تھا۔
اسے اس واقعے کی حقیقت پر اعتبار نہ آیا تھا۔ مگر اس کے بلوریں شانوں پر دو تین نیلے نیلے داغ دلچسپ گرفت کے شاہد تھے اور اس کے شانوں پر لذیذ سا درد ہو رہا تھا۔ اس روز اپنے طوطے سولی سے کہہ رہی تھی، ’’سولی چاہے تم کوئی بھی ہو، تم میرے ہو۔ تمہیں مجھ سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا کوئی بھی نہیں۔‘‘ وہ نہایت سنجیدگی سے کہہ رہی تھی۔ پھر اس مصنوعی سنجیدگی نے شاید اسے گدگدایا۔ وہ ہنس پڑی۔ ’’کیوں سولی ہے نا۔‘‘
اس کے بعد ان کی دو چار سرسری ملاقاتیں ہوئی ہوں گی اور دو چار خطوط آئے گیےہوں گے اور بس۔ سلیم ہمیشہ کے لیے اس کے لیے چند ایک دھندلے دھندلے نقوش، چند ایک دل کی پر کیف دھڑکنیں اور ہاتھوں اور شانوں اور کمر پر چند ایک لطیف دباؤ اور سینے کی چند مبہم تھرتھراہٹوں کے سوا اور کچھ نہ رہا تھا۔ جس قدر یہ نقوش مدھم تھے، اس کے دل میں ان کے متعلق حسیات اسی قدر گہری تھیں۔
گاڑی میں عذرا اپنی ساس کے ہمراہ درمیانے درجے کے ڈبے میں بیٹھی تھی۔ وہ جا رہی تھی مگر اسے یقین نہیں آتا تھا کہ وہ نذر کے ساتھ جا رہی ہے اس کا دل کہہ رہا تھا، ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ وہ سمجھتی تھی کہ خواب دیکھ رہی تھی جیسے قدرت اسے چھیڑنے کے لیے مذاق کر رہی ہو کہ وہ ابھی جاگ پڑے گی اور سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ خواب نہیں تو اور ہو ہی کیا سکتا تھا۔ ایسی بات کیسے ممکن ہو سکتی تھی۔
باہر کھیتوں میں گرمی سے جھلسا ہوا پھیکا سبزہ لہرا رہا تھا اور سبز ہونے کے باوجود آنکھوں میں چبھتا تھا۔ ان کھیتوں کے وسیع پھیلاؤ میں یہاں وہاں بجلی کے بہت دیو نما کھمبے گرد سے اٹے ہوئے کسانوں میں یوں معلوم ہوتے تھے جیسے ٹھگنوں میں کوئی گلیور کھڑا ہو، سورج چمک چمک کر تھک چکا تھا اور اس کی کرنیں زرد پڑ گئی تھیں۔ دور کہیں کہیں افق پر کوئی میلا سا ٹیلا ان جھلسے ہوئے میدانوں کے تسلسل میں دھندلے خواب کی طرح آتا اور گزر جاتا۔ عذرا اپنی خوابوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ اسے ایسے معلوم ہوتا جیسے اس ٹیلے پر سلیم اسے بلا رہا تھا جیسے دور سڑک پر جو لاری جا رہی تھی، اس میں سلیم بیٹھا ہے۔ پھر اس کے شانے پر کوئی نامعلوم گرفت محسوس کرتی اور وہ سنتی، تم میری ہو۔ اب تمہیں مجھ سے کوئی بھی چھین نہیں سکتا۔اور وہ ٹھٹک کر بیدار ہو جاتی اور دیکھتی کہ نذر کی ماں اور سولی اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں مگر دونوں کی نگاہوں میں ایک دنیائے اختلاف تھی۔ ماں کی آنکھوں میں تجسس اور تشویش کو اس کی مسکراہٹیں چھپا نہ سکتی تھیں۔ اس کے برعکس سولی کی آنکھیں پرنم معلوم ہوتی تھیں۔ غالباً وہ دونوں عذرا کے دل کی کیفیت سے واقف تھے مگر دونوں کی نگاہوں میں کوئی بھی مناسبت نہ تھی۔
وہ سوچ رہی تھی، سولی بے زبان ہو کر بھی سمجھتا ہے۔ اس وقت غالباً پہلی مرتبہ اس کے دل میں سولی کو آزاد کرنے کی خواہش ہوئی۔ نہ جانے کتنی بہاریں اس نے اس پنجرے میں گزاری ہیں۔ کیا اس کے دل میں بھی اڑنے کی آرزو باقی ہے؟ کیا اس کے دل میں بھی کسی زمانے کی یاد اٹھتی ہے؟ پھر اس نے سنا کہ ماں کچھ کہہ رہی تھی۔ گاڑی سٹیشن پر کھڑی تھی ماں پوچھ رہی تھی، ’’عذرا بیٹی! نذر پوچھتا ہے کچھ پیو گی؟‘‘ عذرا نے کنکھیوں سے دیکھا۔ کھڑکی میں کوئی کھڑا تھا اسے کنکھیوں سے بھی ادھر دیکھنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ پھر اس نے ایسے محسوس کیا جیسے کسی نے اس کے شانوں سے پکڑ کر اس کا منہ دوسری طرف پھیر دیا ہو۔
اس نے سنا جیسے میلوں دور کوئی کہہ رہا ہو، ’’نہیں اماں تم کہو تو، دیکھو کس قدر گرمی ہے۔‘‘ اس بھدی آواز میں کس قدر اداسی تھی۔ ہاں اگر سلیم اس سے پوچھتا اگر وہ سلیم کے گھر جا رہی ہوتی۔ مگر سلیم، سلیم جانے کہاں ہو گا، اسے حالات کا پتہ بھی تھا یا نہیں۔ شاید اپنی بے چاری عذرا کو بھول ہی چکا ہو، شاید ان رنگین باتوں سے صرف مذاق مقصود ہو یا وقت کٹی۔ مگر اس کے دل کی گہرائیوں میں کوئی کہہ رہا تھا۔ نہیں۔ نہیں۔ یہ الزام ہے۔ سلیم ایسا نہیں۔ پھر دو اداسی بھری متبسم آنکھیں اس کے سامنے معلق ہو جاتیں۔ نہیں۔ وہ آنکھیں مذاق نہیں کر سکتیں۔ حقیقت سے لبریز ہیں۔ اس کے دل میں یقین سا ہو جاتا، وہ آئے گا۔ وہ ضرور آئے گا۔ وہ دنیا کا کونہ کونہ چھان مارے گا۔ شاید وہ اسی گاڑی میں موجود ہو۔ کہیں وہ بیمار نہ ہو۔ وہ ایک جھرجھری سی محسوس کرتی۔ نہیں۔ وہ بیمار نہیں۔ بس نہیں عذرا اپنا سر کھڑکی کی چوکھٹ پر ٹیک دیتی اور اسے ایسے محسوس ہوتا کہ وہ چوکھٹ نہیں، سلیم کے شانے ہیں۔ وہ سمٹ کر ان شانوں پر جھک جاتی۔ چاہے کچھ بھی ہو، اب مجھ کو تم سے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔۔۔ کوئی بھی نہیں۔
ساس نے اسے کمرے میں ایک فراخ پلنگ پر بٹھا دیا۔ کمرے میں دھندلی روشنی تھی۔ تمام مکان سنسان محسوس ہوتا تھا۔ دو چار عورتیں عذرا کو دیکھنے آئیں مگر چند منٹ ٹھہریں اور چلی گئیں۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کسی ویران کھنڈر میں بھوت چل پھر رہے ہوں۔ اس رات لیمپ روشن نہیں معلوم ہوتے تھے اور اندھیرا ہی اندھیرا تھا، اس کی جھکی جھکی آنکھوں کے سامنے سلیم کھڑا تھا، وہ محسوس کر رہی تھی جیسے سلیم کے انتظار میں بیٹھی ہو۔
دور ہوا درختوں میں ٹہنیوں سے لپٹ لپٹ کر رو رہی تھی۔ سامنے کھڑکی کے شیشے سے ایک اداس کالا درخت نظر آ رہا تھا۔ کھڑکی کے باہر اندھیرا جھوم جھوم کر منڈلا رہا تھا۔ لیمپ کے شعلے میں سلیم کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کی جھریاں تھیں۔
عذرا کی آنکھ کھل گئی اس نے اضطراب سے چاروں طرف دیکھا وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں ہے۔ سلیم کی آواز ابھی تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ کیسا بیدار حسین خواب تھا۔ اس نے کروٹ بدل لی اور آنکھیں بند کر لیں وہ اس خواب سے بیدار ہونا نہیں چاہتی تھی۔ مگر بند ہونے کے علاوہ اس کی آنکھ میں نیند کا نشان بھی نہ تھا۔ یکلخت باہر سڑک پر کسی تانگے والے کی ’’پہاڑی‘‘ کی تان اس کے کان میں پڑی۔ تانگے کے پہیوں کی گڑگڑاہٹ عذرا کے لیے پہاڑی کی تان سے کہیں زیادہ دلکش تھی۔ اس کے سامنے سکول والی سڑک لہرا گئی۔ جب وہ آزاد تھی۔ جب وہ تانگے پر آیا جایا کرتی تھی۔ جب پہلی مرتبہ اس نے سلیم کی حیران اور مخمور آنکھ دیکھی تھی۔ سلیم کی پہلی ٹکٹکی۔
اس کے بند بند میں درد ہو رہا تھا۔ سولی کی چیخ سن کر وہ اٹھ بیٹھی۔ بے چارہ سولی بھی اس چار دیواری میں قید محسوس کر رہا تھا۔ کمرے کی دوسری طرف کپڑے کی کرسی میں نذر سویا ہوا تھا۔ جیسے وہ عذرا کی طرف دیکھتا ہوا سو گیا ہو۔ چہرے پر ایک تبسم سا تھا۔ جیسے کوئی خواب میں اسے گدگدا رہا ہو۔ باہر فضا میں دھیمی رو پہلی روشنی پھیل رہی تھی۔
ساتھ والے کمرے سے کھڑکھڑاہٹ سی سنائی دی۔ عذرا سمٹ کر چارپائی کے کونے پر بیٹھی۔ ’’عذرا۔۔۔ نذر۔‘‘ نذر کی ماں بلا رہی تھی۔ نذر لپک کر اٹھ بیٹھا۔ اس کے چہرے پر اضطراب چھا گیا۔ اس نے آنکھیں ملیں اور چاروں طرف دیکھا۔ اس کی نگاہیں عذرا پر آ رکیں۔ پھر اس کے منہ پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ جیسے کوئی کسی لطیف خواب کو حقیقت کے لباس میں دیکھ کر کھل جائے۔
’’آیا اماں!‘‘ کہتا ہوا وہ کمرے سے باہر چلا گیا۔
اگلے روز دن بھر عورتیں آتی جاتی رہیں۔ ہر کسی کو عذرا کو دیکھنے کا شوق تھا۔ ادھیڑ عمر کی عورتیں جن کے لیے جوانی کے چند دن دھندلے نقوش اور بیگانہ سے احساس تھے۔ عذرا کو اس انداز سے دیکھتیں جیسے کوئی اپنی گزری ہوئی دلچسپیوں کو خواب میں دیکھ کر مسکرا دیتا ہے۔ مگر کوئی دبی دبی ہوئی آہ اس مسکراہٹ کو اداس بنا دیتی۔ وہ شوق سے آتیں مگر کھوئے ہوئے انداز سے لوٹتیں۔ جس طرح کوئی اپنی گذشتہ زندگی کے کسی رنگین واقعے کو یاد کر کے اپنی کھوئی ہوئی جوانیوں پر کسک سی محسوس کرتا ہے اور اپنے گرد ایک اداسی اور مٹی ہوئی دنیا پاتا ہے۔ دو ایک جوانی سے سرشار لڑکیاں بھی آئیں۔ لچکتی ہوئی، ٹھمکتی ہوئی، مسکراتی ہوئی۔ ’’ہم جانتے ہیں۔۔۔ کیسی مسکراہٹیں۔۔۔ بس یہ ظاہر داری رہنے دو۔ ابھی تو اس نگری کی دہلیز پر بیٹھی ہو۔‘‘ کیسی نگاہیں اچھالتی ہوئی۔ بنتی سنورتی، ٹہلتی ہوئی مگر عذرا اپنی نگری میں گم سم تھی۔ لیکن جب کوئی نووارد اس کا منہ دیکھنے کے لیے اس کا گھونگھٹ اٹھاتی تو وہ چونک پڑتی۔ پھر اسے یاد آتا کہ وہ کہاں ہے اور کون ہے اور اس کا چہرہ شرم سے ٹماھ اٹھتا۔ وہاں صرف سولی ہی ایسا متنفس تھا جو اس کے دل کی کیفیت سے واقف تھا۔
سولی اپنے پنجرے میں یوں مضطرب تھا جیسے اسے از سر نو قید کیا گیا ہو۔ وہ چاروں طرف دیکھ دیکھ کر پر پھڑپھڑاتا اور ان دیواروں کی اجنبیت محسوس کر کے بار بار چیختا۔ شام کے وقت نذر نے سولی کا پنجرہ عذرا کے پلنگ کے قریب رکھ دیا۔ سولی نے عذرا کو دیکھ کر چیخنا بند کر دیا۔ اپنی گردن موڑ کر اپنے بازوؤں پر رکھ دی اور عذرا کی طرف ٹکٹکی باندھ کر بیٹھ گیا۔ عذرا نے سولی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھ میں چمک آ گئی۔ صرف سولی ہی اس کا راز دار تھا، جس سے وہ سلیم کی باتیں کر سکتی تھی۔
نذر عذرا کے پاس آ بیٹھا۔ اس کی آنکھوں میں محبت کی جھلک تھی۔ ’’تم نے کل سے کچھ نہیں کھایا، عذرا کچھ تو کھاؤ، اماں نے تمہاری اتنی منتیں کی ہیں۔‘‘ اس نے دھیمی منت بھری آواز میں کہا، ’’یہ تمہارا اپنا گھر ہے عذرا تم اس کی مالکہ ہو۔‘‘ اس کا حلق جذبات کی بھیڑ سے رک رہا تھا۔ اس نے اپنے بھدے سے ہاتھوں میں عذرا کا ہاتھ پکڑ لیا، ’’عذرا تم چپ کیوں ہو؟‘‘ اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کہہ سکا۔ اس کی زبان کہنے والی زبان نہ تھی مگر اس کا ہاتھ خاموش اور مدھم زبان سے اپنا مفہوم ادا کر رہا تھا۔ اس وقت وہ بھدا گرم ہاتھ قوت گویائی سے زیادہ متکلم تھا۔ عذرا نے وہ پیغام کانوں سے نہیں بلکہ جسم کے بند بند میں سنا اور اس کی تمام قوت شل ہو گئی۔ وہ اپنا ہاتھ چھڑانا چاہتی تھی مگر وہ اپنے جسم پر قادر نہ تھی۔ کوئی نامعلوم طاقت اس کی مرضی کے خلاف اس کے جسم کو تھپک تھپک کر سلا رہی تھی۔ صرف دماغ کا کوئی نحیف حصہ جسم کی اس غداری اور اپنی بے بسی پر پیچ و خم کھا رہا تھا۔ جس طرح ڈراؤنا خواب دیکھ کر کوئی چیخ چلا کر بھاگ اٹھنا چاہتا ہے، مگر جاگ نہیں سکتا۔ اسی طرح عذرا بت بنی بیٹھی تھی۔ اس میں اپنا ہاتھ چھڑانے کی قدرت نہ تھی۔
اس نے ایک مخمور دھندلکے میں نذر کا ہاتھ دیکھا۔ سلیم کا ہاتھ بھی اسی طرح بڑا اور گرم تھا۔ ہاں سلیم کا ہاتھ متحرک تھا۔ بلا کا شوخ۔۔۔ اس کے دل میں خواہ مخواہ آرزو پیدا ہو گئی کہ وہ بھدا ہاتھ متحرک ہو جائے۔ اس کی اپنی تمام قوت، شوخی، زندگی اس گھڑی کے لیے اس بڑے بھدے ہاتھ اور ان مضبوط بانہوں میں منتقل ہو جائے۔ اس کا جسم اس بھدے ہاتھ کے لیے منتظر تھا، بے تاب تھا اور وہ اپنی اس خواہش پر شرم محسوس کر رہی تھی اور پریشان تھی۔ مگر وہ احساس شرم اور پریشانی کسی نقار خانے طوطی میں تھا۔
اس نے آنکھیں بند کر لیں۔ سلیم کا ہاتھ اس کے جسم سے مس ہو رہا تھا۔ اس کی بند آنکھوں کے سامنے سلیم آ کھڑا ہوا۔ تم ہو سلی۔۔۔! مجھے تم سے کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ اس کے شانے جھک گیے۔ سر جھک گیا اور سلیم کے شانوں پر ٹک گیا۔ سلیم کی دو مضبوط بانہیں اس کے گرد آ پڑیں۔ وہ سلیم کے پاس تھی۔
نذر کسی دفتر میں کلرک تھا۔ اس کے والد نذر کے لیے ایک معمولی سا مکان اور چند واجب الادا رقمیں چھوڑ کر مرے تھے۔ وہ عذرا کے والد کے بہت گہرے دوست تھے۔ نذر نے کچھ عرصہ پہلے کہیں اتفاقاً عذرا کو دیکھ لیا تھا اور عذرا کی نیچی نگاہوں اور اس کی لٹکی ہوئی لٹ نے اسے کئی دن پریشان رکھا تھا مگر وہ جانتا تھا کہ عذرا کو اپنے خوابوں میں جگہ دینا اپنا شیرازہ ہستی پریشان کرنا ہے۔ مرحوم دوست کے قلاش بیٹے کو کون خاطر میں لاتا ہے۔ جب اس نے اپنی ماں سے سنا کہ عذرا کے والد رضا مند ہیں بلکہ جلد نکاح کرنے پر رضامند ہیں تو اسے یقین نہ آتا تھا۔ اب بھی وہ کبھی کبھی سمجھتا کہ وہ خواب دیکھ رہا ہے اور وہ ابھی جاگ اٹھے گا اور اسے احساس ہو گا کہ ایک غریب کلرک کو ایسی مدہوش کن خواہشیں ان لامتناہی فائلوں کے سامنے کس قدر مہنگی پڑتی ہیں۔ مگر شاید یہ بھی فطرت کی ستم ظریفی تھی کہ عذرا اب صریحاً اس کی تھی۔ نذر کے لیے عذرا کی آمد مسرت کی ایسی لہر تھی جو ہر غیر متوقع خوشی میں ہم رکاب ہوتی ہے۔ اس کی خواہشات میں جو صرف ضروریات زندگی تک محدود تھیں، ساڑھیاں جھلملانے لگیں، پھول مہک اٹھے اور طلائی چوڑیوں کی جھنکار نغمہ زن ہو گئیں۔ عذرا کے لیے حسین نازک چیک ہو، عذرا کے لیے قد آدم آئینہ ہو، عذرا کے لئے شربتی ریشم ہو۔ عذرا کے لیے۔۔۔ عذرا اس کی خواہشات میں بھنور بن کر آئی تھی۔
اس نے ایک چھوٹا سا پرانا ٹائپ رائٹر خرید لیا تاکہ فرصت کے وقت ٹائپ کر کے اپنی آمدنی بڑھائے۔ یہ سب کچھ اس کے دل کی گہرائیوں میں ہوا اور کسی کو معلوم نہ ہوا کہ ان گہرائیوں میں کیا ہو رہا ہے اور اس کی خاموشی حسرت بھری تشویش ہے۔
عذرا کو پہلی مرتبہ ساڑھی میں دیکھ کر نذر کی آنکھ میں ایک مخمور چمک آ گئی۔ بوڑھی ماں نے جھکی ہوئی آنکھوں سے بیٹے کے تبسم کو محسوس کیا۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے غسل خانے میں یا کسی اور جگہ کوئی ضروری کام بلا رہا ہو۔ اس کی آنکھوں نے چاروں طرف دیکھا۔ پھر وہ نذر کی جرابوں میں آن ٹھہریں، ’’بیٹا یہ جرابیں مجھے دے دو۔‘‘ اس نے کہا، ’’دیکھو کیسی میلی ہو رہی ہیں۔ لاؤ انہیں دھو دوں۔‘‘
نذر نے چونک کر اپنی نگاہوں کو عذرا کی نیلی ساڑھی سے چھڑاتے ہوئے کہا، ’’نہیں اماں یہ تو اچھی بھلی ہیں۔ پرسوں ہی تو پہنی تھیں۔‘‘
’’نہیں بیٹا۔ نہیں!‘‘ ماں نے اصرار سے کہا، ’’کیا حرج ہے؟‘‘ جرابیں لے کر ماں چلی گئی۔ کچھ دور تک نذر اس کو جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ پھر عذرا کی طرف مڑ کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’عذرا یہ نیلی ساڑھی تمہیں بہت زیب دیتی ہے میری طرف دیکھو عذرا!‘‘
نذر نے اپنے ہاتھ سے عذرا کا منہ اپنی طرف پھیر دیا، عذرا نے آنکھیں جھکا لیں۔ ہاں اس کے دل کا کوئی حصہ کہہ رہا تھا ان کو بھی نیلی پوشاک بہت پسند تھی۔ اس روز پارک میں کس شوق سے دیکھتے رہے تھے کس قدر پیار بھری نگاہیں تھیں۔ کس قدر پیاری آواز تھی عذرا تمہیں نیلا لباس کس قدر زیب دیتا ہے اور کس پیار اور منت سے انہوں نے مجھ سے وعدہ لیا تھا۔ عذرا وعدہ کرو کہ تم ہمیشہ نیلا لباس پہنا کرو گی میرے لیے، میری خوشی کے لیے اور وعدہ لے کر کس قدر خوشی کا اظہار کیا تھا۔ کس دیوانگی سے جھومے تھے۔
اس نے اپنے ہاتھ پر دباؤ محسوس کیا۔ سولی کی چیخ نے اسے بیدار کر دیا۔ اس نے اپنا ہاتھ آہستہ سے چھڑا لیا اور اٹھ کر سولی کے پنجرے کے قریب جا بیٹھی۔ وہ سولی سے باتیں کرنا چاہتی تھی۔ پوچھنا چاہتی تھی، ’’تم میرے ہو نا سولی؟‘‘ وہ محسوس کر رہی تھی کہ صرف سولی ہی ایسی ہستی ہے جس سے بات کرنے کے لیے بولنے کی ضرورت نہیں۔
انہیں نیلا رنگ پسند تھا نا سولی؟وہ مجھے نیلی کہا کرتے تھے، تم جانتے ہو نا! اس میں ان کے ہاتھوں کی بو ہے۔ ان کے پیار کی سلوٹیں ہیں۔ ان پھولوں کا رس ہے جو وہ میرے لیے توڑ کر لایا کرتے تھے۔ کیوں سولی تم جانتے ہو نا۔۔۔؟ مگر تم نہیں جانتے۔ تم نے انہیں کبھی نہیں دیکھا۔ تم صرف سمجھتے ہو اور سولی ان کے نچلے ہاتھ، بڑے بڑے پیارے پیارے بے تکلف ہاتھ اور چھیڑ دینے والی شوخ بانہیں۔۔۔ اس کے کندھوں کے گذشتہ دباؤ تازہ ہو رہے تھے۔ وہ اٹھ بیٹھی اور اندر جا کر چارپائی پر لیٹ گئی۔ اس کی نیم وا آنکھوں نے اس مختصر کمرے کو اپنے دامن سے جھٹک دیا۔
یوں ہی دن گزر گیے۔ راتیں گزر گئیں۔ مہینے گزر گیے۔
یوں تو رہنے کو عذرا اس مکان میں رہتی تھی مگر اس کی نیم وا آنکھوں کو دو چار دیواری قید نہ کر سکی۔ یا شاید اس چاردیواری کی وجہ سے ہی وہ آنکھیں دوربین ہو گئیں۔ وہ اپنے دل کی دنیا ان نیچی نگاہوں کی جھکی ہوئی مژگاں پر اٹھائے پھرتی اور شاید جھکی ہوئی ہونے کی وجہ سے ہی ان نگاہوں نے نذر کی دنیا بدل ڈالی۔
گو نذر ان کھوئی کھوئی نگاہوں کو دیکھ کر جیتا تھا۔ کبھی کبھی ان نگاہوں کی وسعتوں کو محسوس کر کے اسے ڈر محسوس ہوتا تھا مگر شاید وہ ہلکا ڈر ان نگاہوں کو نذر کے لیے اور بھی جاذب بنا رہا تھا۔ عذرا جب کبھی اپنی دل کی دنیا سے چونک پڑتی اور دیکھتی کہ نذر اس کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہا ہے تو وہ آنکھوں کو جھکا لیتی۔ وہ ایک تبسم نذر کے لیے پیام حیات بن جاتا۔ وہ اس حیا سے لبریز تبسم کے لیے اپنی زندگی، اپنا آپ۔۔۔ سبھی کچھ دینے کے لیے تیار تھا۔ پھر اس کی نظر نیلی ساڑھی پر پڑ جاتی اور وہ محسوس کرتا کہ وہ دن بدن پہننے کے ناقابل ہو رہی ہے۔ اس میں وہ چمک نہ رہی تھی۔
وہ سوچتا، دیکھو کتنی جگہوں سے پھٹ رہی ہے۔ بوسیدہ ہو چکی ہے۔ چمک نہیں، پھر بھی عذرا اسے میرے لیے پہنے پھرتی ہے۔ اس لیے کہ میں اسے نیلی ساڑھی میں دیکھ کر خوش ہوتا ہوں۔ صرف میری خوشی کے لیے۔ حالانکہ اس کے پاس سرخ ساڑھی بھی تو ہے۔ بلکہ سرخ ساڑھی تو اور بھی قیمتی ہے۔ کتنی پیاری ہے وہ عورت جس کو خاوند کی خوشی زیبائش سے بھی زیادہ عزیز ہوتی ہے۔۔۔ ہندوستانی عورتیں۔۔۔ دیویاں ہوتی ہیں۔مگر یہ ساڑھی تو بس اب پہننے کے قابل نہیں۔ گوندا رام کہہ رہا تھا۔ ایسی ساڑھی چالیس روپے کی ملے گی۔ چالیس روپے۔ ساڑھی بھی کس قدر مہنگی پڑتی ہیں۔ اس کے منہ سے بے ساختہ آہ نکل جاتی اور پھر وہ کمر جھکا کر اپنے ٹائپ رائٹر کے سامنے جا بیٹھتا۔ اس کے صبح و شام چالیس روپے کی آرزو میں بسر ہو رہے تھے۔ وہ سوچتا تھا، جب چالیس روپے لے کر وہ ساڑھی لائے گا۔ عذرا دیکھے گی۔ خوشی بھری، تعجب بھری، محبت بھری نگاہ۔ اس لمحہ کی نگاہ حاصل کرنے کے لیے وہ عمر بھر محنت کرنے کے لیے تیار تھا۔
عذرا اس کے پاس بیٹھی رہتی۔ مگر اس نے کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نذر کو نہ دیکھا تھا بلکہ وہ نذر کے وجود یا موجودگی کے احساس سے قطعی بے گانہ تھی۔ وہ اس کے چہرے کی بناوٹ سے بھی اچھی طرح واقف نہ تھی۔ صرف اس کی پیشانی اور دانت دیکھتی۔ باقی خدوخال کو اپنی نگاہوں میں اٹکنے نہ دیتی۔ شاید اس لیے کہ نذر کی پیشانی اور دانتوں میں کچھ سلیم کی سی جھلک تھی۔ وہ دونوں اکثر ایک دوسرے کے پاس بیٹھے رہتے مگر پاس بیٹھنے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے کوسوں دور تھے۔ دن بھر وہ سولی سے باتیں کرتی رہتی اور پھر سلیم کے پاس پہنچنے کے لیے اسے صرف آنکھیں جھکانے کی ضرورت تھی۔
ایک روز دوپہر کے وقت عذرا اماں کے پاس بیٹھی کچھ بن رہی تھی۔ کوئی اجنبی عورت آ کر ان سے ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہی۔ پھر ماں جب نماز پڑھنے کے لیے گئی تو اس عورت نے عذرا کا ہاتھ پکڑ کر اس میں لپٹا ہوا کاغذ کا گولا رکھ دیا اور اس کی مٹھی بند کر دی۔ اس نے دبی ہوئی آواز سے کہا، ’’یہ انہوں نے دیا ہے۔ وہ یہاں آئے ہوئے ہیں۔‘‘
پہلے تو عذرا حیرانی سے اس کے منہ کی طرف دیکھتی رہی، پھر اس نے اپنی مٹھی کھول کر دیکھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک مڑا تڑا لفافہ تھا۔ اس نے لفافے کو غور سے دیکھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کون آئے ہوئے تھے اور وہ بڑھیا کون تھی۔ اس کی طبیعت میں تشویش اور ڈر پیدا ہو گیا مگر وہ عورت جاچکی تھی۔
غالباً وہ اپنے خیالی سلیم سے اس قدر مانوس ہو چکی تھی اور اپنی دنیائے تصور میں اس قدر کھو چکی تھی کہ اسے کسی جیتے جاگتے سلیم کا انتظار نہ رہا تھا۔ خیال تک بھی نہ رہا تھا۔ شاید اگر سلیم بذات خود اس وقت اس کے سامنے آ موجود ہوتا تو اسے بیگانہ محسوس ہوتا۔ بہرصورت اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ لفافہ کس کا تھا۔ اس کے دل میں لفافے کو کھولنے کی ہمت نہ پڑی تھی اور وہ سخت پریشانی محسوس کر رہی تھی۔ اس نے اس کاغذ کے گولے کو پھر سے اپنی مٹھی میں دبا لیا۔ اٹھ بیٹھی۔ اندر چلی گئی۔ پھر باورچی خانے میں گئی۔ صحن میں آئی۔ اسے معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے یا کس لیے یہاں وہاں گھوم رہی ہے۔ جس طرح طوفان آنے سے پہلے کسی ویران ساحل پر کسی نامعلوم آنے والے کو ڈر محسوس کرتے ہوئے پرندے کالی اداس چٹانوں پر دیوانہ وار منڈلاتے ہیں۔
وہ چاہتی تھی کہ مٹھی میں اس کاغذ کے گولے کو بھینچ بھینچ کر ناپید کر دے اور اپنی دنیا کو محفوظ کر لے۔ کمرہ گھوم رہا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو اپنے ٹرنک کے اوپر بیٹھے ہوئے پایا۔ ٹرنک کھلا تھا۔ وہ لپٹا ہوا لفافہ اس کی گود میں تھا۔ اس نے کھوئے انداز میں اسے پھاڑ کر کھولا۔ اس کی آنکھوں تلے الفاظ ناچ رہے تھے۔ دل دھڑک رہا تھا۔ نگاہیں تیزی سے لفظوں پر سے پھسل رہی تھیں جیسے وہ مضمون کے سحر سے بچنا چاہتی ہو۔ اس نے صرف یہی سمجھا کہ وہ آئے ہوئے ہیں اور اس کو ساتھ لے جانے پر مصر ہیں۔ اس کے انداز سے ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ زبان حال سے کہہ رہی ہو۔ بس مجھے اسی کا ڈر تھا اور یہی ہو کر رہا۔ وہ بھاگی پھر رہی تھی مگر خط کا مضمون اس کا پیچھا کر رہا تھا اور بوند بوند اس کے دل کی گہرائیوں میں ٹپک رہا تھا۔ اس پر غلبہ پا رہا تھا۔ آخر وہ پلنگ پر لیٹ گئی اور ایک ایک سطر اس کے سامنے ناچ گئی۔ جان۔۔۔ چلے جان۔۔۔ اس کا دل کانپ اٹھا۔۔۔ دماغ میں خلاء سا پھیل گیا۔ ماحول میں کوئی مفہوم نہ رہا۔۔۔ اس وقت کائنات اس کے لیے ایک بے معنی پھیلاؤ تھی۔
رات کو وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھی۔ اس رات سلیم کی بجائے کئی اور خوفناک شکلیں اس کے خوابوں میں گھس آئی تھیں۔ بھدے بھدے ہاتھوں اور سفید سفید دانتوں والی ڈراؤنی شکلیں۔ نذر کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے عذرا کو تھام لیا، ’’کیا ہے عذرا؟‘‘ اس کا چہرہ فکر اور خوف سے بھیانک ہو رہا تھا۔ ’’آج تمہیں کیا ہوا ہے؟ تم بیمار تو نہیں؟‘‘ عذرا کو محسوس ہو رہا تھا جیسے میلوں دور کوئی کچھ کہہ رہا ہو۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ اس کی یادداشت صاف ہو رہی تھی۔ ’’ہاں وہ عورت۔۔۔ دوپہر۔۔۔ وہ خط۔۔۔ان کا خط۔۔۔ سلیم کا۔۔۔ وہ یہاں آئے ہوئے ہیں۔ وہ مجھے لے جانا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے جھرجھری سی لی۔ نذر کسی سے خدا جانے کیا کیا کہہ رہا تھا۔ عذرا نے آنکھیں بند کر لیں اور اس کا سر کسی کے شانوں پر جا ٹکا۔ آج پہلے دن عذرا کا سر سلیم کے شانوں پر نہ تھا۔ جانے تکئے پر تھا یا پتھر پر۔۔۔ مگر نذر کے شانوں پر عذرا کا سر تھا اور عذرا کے بالوں کے دھیمی دھیمی خوشبو نذر کو فکرمند اور پریشان کر رہی تھی۔
عذرا کا دل کئی ایک خواہشات میں جھول رہا تھا۔ چھوٹی چھوٹی خواہشات ایک دوسرے سے جھگڑ رہی تھیں۔ ایک حصہ سولی کی شکل میں کہہ رہا تھا۔ تم ان کی ہو عذرا۔۔۔ اور اب ان سے تم کو کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ فراخ پیشانی اور سفید سفید دانت کہہ رہے تھے۔ عذرا تم بیمار تو نہیں۔۔۔ تمہیں کیا ہے عذرا۔۔۔ دو بھدے ہاتھ کہہ رہے تھے۔ تم آنکھیں جھکا لو۔ عذرا تمہاری دنیا تو پاس ہے۔ سامنے سلیم کھڑا تھا۔ وہ قہقہہ مارکر ہنس رہا تھا۔ ڈراؤنی ہنسی، پیاری ہنسی۔۔۔
شام کو وہ سولی سے کہہ رہی تھی، ’’سولی تم اکیلے رہ سکو گے؟ اگر میں چلی جاؤں تو مجھے یاد کرو گے؟ مجھے برا تو نہیں کہو گے سولی؟ کیا میں ان کے ساتھ چلی جاؤں۔ وہ آج رات کو دو بجے شیشم کے درخت کے نیچے آئیں گے۔ وہ درخت جو میرے کمرے کی کھڑکی کے باہر دکھائی دیتا ہے۔ کیوں سولی میں ان کے ساتھ چلی جاؤں؟ دنیا کیا کہے گی؟ ابا جان کیا کہیں گے؟ سولی۔۔۔ تم تو جانتے ہو۔۔۔ تم تو سمجھتے ہو نا؟‘‘
شام کو اس نے نیلی ساڑھی لپیٹ کر ایک پارسل بنا لیا اور اسے میز پر رکھ دیا۔ اس کا دل ہلکا درد محسوس کر رہا تھا۔ پھر وہ جلد ہی اپنے کمرے میں جا لیٹی۔ اس روز وہ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ سوچنے سے ڈر رہی تھی۔ اس نے ایک پرانا رسالہ اٹھا لیا۔ پڑھنے کی کوشش کی مگر الفاظ اس کی آنکھوں تلے ناچ رہے تھے۔ صفحات کبھی سفید ہو جاتے اور کبھی الفاظ ایک دوسرے سے ٹکرا کر گھوم جاتے۔ اس نے باہر پاؤں کی چاپ سنی۔ اس روز اس کی قوت سامعہ بہت تیز ہو رہی تھی۔ اس نے نذر کی ماں کو کمرے میں جاتے ہوئے سنا۔ اس کے پاؤں کی آہٹ بتا رہی تھی کہ نذر کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ عذرا کھڑکی کے سامنے بیٹھی تھی۔ کھڑکی باہر سڑک پر کھلتی تھی۔ اس کی نظر بار بار کھڑکی سے باہر درخت پر جا جمتی۔ اس وقت کھڑکی بند تھی مگر شیشے میں سے صاف نظر آ رہا تھا۔ باہر سڑک پر کبھی کبھی کوئی راہ گیر گزرتا تو اس کے پاؤں کی چاپ صاف سنائی دیتی۔ شیشم کا درخت متانت سے کھڑا تھا۔ عذرا یوں محسوس کر رہی تھی جیسے ودرخت اس کے راز سے واقف ہو۔ صحن والی کھڑکی میں سولی کا پنجرہ تھا۔ سولی دو روز سے خاموش بیٹھا تھا۔ اس نے باتیں کرنی چھوڑ دی تھیں۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے سولی دنیا سے بے زار رہ چکا ہو۔ پھر عذرا کی نگاہ میز پر پڑی۔ نیلی ساڑھی والے پارسل کو دیکھ کر عذرا لپک اٹھی۔ اس نے پارسل اٹھایا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اسے کہاں رکھا جائے۔ دروازے کے قریب جا کر اس نے سنا، ماں بیٹا باتیں کر رہے تھے،
’’تم نے تو اپنا آپ تباہ کر لیا۔ صبح شام کام، دن رات کام، ہر وقت کی ٹک ٹک۔۔۔ ایک ساڑھی کے لیے اپنا آپ حلال کر رکھا ہے۔‘‘
’’نہیں اماں! یہ نہ کہو۔‘‘ نذر بار بار کھانس رہا تھا، ’’جب سے وہ آئی ہے۔ ہم نے اس کو دیا ہی کیا ہے۔ مگر اماں وہ ایسی اچھی ہے کہ کبھی گلہ تک نہیں کیا۔ میں اسے دے ہی کیا سکتا ہوں۔ تنخواہ میں بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔‘‘
’’مگر بیٹا اس کے پاس اور بھی تو ساڑھیاں ہیں۔ وہ کیوں نہیں پہن لیتی۔ پھر وہ نیلی ساڑھی کے لیے اس قدر بے تاب ہے۔ میں تو نہیں سمجھتی۔۔۔ ہمارے زمانے میں۔۔۔‘‘
’’اماں تم بھولتی ہو۔ اس نے تو مجھے نہیں کہا۔۔۔ مگر یہ تو معمولی بخار ہے۔ تم فکر نہ کرو۔‘‘
نذر آیا اور آتے ہی لیٹ گیا۔ اسے تیز بخار تھا۔ عذرا کھڑکی کے سامنے چپ چاپ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کی خاموشی کسی گہری دلی کشمکش کی چغلی کھا رہی تھی۔ اس کے بھنچے ہوئے ہونٹ کسی چھپے ہوئے ہنگامے کا حال کہہ رہے تھے، ’’تم سو جاؤ عذرا!‘‘ نذر نے دھیمی آواز میں کہا، ’’تم کیوں میرے لیے بے آرام ہو۔ میری فکر نہ کرو۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘ وہ بخار کی شدت میں کچھ کہہ رہا تھا جو اس نے کبھی نہ کہہ سکا تھا۔ اس لیے ہاتھ میں عذرا کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ’’تم نہ ہوتیں عذرا تو میری زندگی میں یہ بات نہ ہوتی۔ تم میری زندگی ہو۔۔۔ میں کتنا خوش نصیب ہوں۔ تمہیں دیکھ کر مجھے کوئی دکھ نہیں رہتا۔‘‘
اس نے اضطراب سے دو ایک کروٹیں بدلیں۔ پھر وہ عذرا کے پاؤں کے قریب ہو گیا۔ اس قرب پر وہ خوشی محسوس کر رہا تھا جیسے کوئی بچہ بڑے پیار سے کھلونے سے کھیلتا ہے۔ عذرا بت بنی بیٹھی تھی۔ شاید وہ اس کی باتیں نہیں سن رہی تھی۔ یا نہ سننے کی کوشش کر رہی تھی۔ پھر یکلخت اس نے اپنے پاؤں پر دو گرم ہونٹوں کو مس کرتے ہوئے محسوس کیا۔ وہ چونک اٹھی، کانپ اٹھی۔ اس کی نگاہیں جھک کر نذر پر جم گئیں۔ آج پہلی مرتبہ اس نے نذر کو نگاہ بھر کر دیکھا تھا اور پہلی مرتبہ اسے احساس ہوا کہ وہ نذر کے پاس ہے۔
رات بخار سے بے چین وہ بار بار بڑبڑا اٹھتا، ’’چالیس روپے۔ نیلی چالیس روپے۔‘‘ وہ اکثر عذرا عذراکہتا ہوا چیخ کر اٹھ بیٹھتا، ’’تم میرے پاس ہو نا عذرا۔۔۔؟ ہاں۔۔۔ تم میرے پاس ہو۔‘‘ پھر وہ آرام سے لیٹ جاتا، ’’تم آرام کرو عذرا۔ تم اب سو جاؤ۔۔۔ تم بیمار ہو جاؤ گی۔ میری فکر نہ کرو۔ میں اب اچھا ہوں۔‘‘ اس وقت عذرا کی آنکھیں کھڑکی سے ہٹ جاتیں اور وہ کسی الجھاؤ میں پڑ جاتی۔ اس کا سر گھوم رہا تھا۔ اس کا حلق خشک تھا۔ وہ سوچ بچار کے ناقابل تھا۔ باہر چاند کی چاندنی میں شیشم کا درخت اپنی شاخیں پھیلائے کھڑا تھا اور کوئی دھندلی سی شکل اس کے نیچے کھڑی نظر آ رہی تھی۔ عذرا بڑبڑا رہی تھی، وہ آئے ہیں۔ ہاں۔۔۔! عذرا کا جی چاہتا تھا کہ سلیم سے جا ملے۔ کوئی اس کا دامن پکڑ لیتا۔ عذرا اٹھ بیٹھی، اسے پتہ نہ تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ یا کیا کرنا چاہتی ہے۔
باہر ہوا زور سے چل رہی تھی اور درختوں کی ٹہنیاں لپٹ لپٹ کر رو رہی تھیں۔ عذرا نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی نیلی ساڑھی اٹھا لی۔ نذر بڑبڑا رہا تھا، ’’نیلی چالیس روپے۔‘‘ عذرا ڈر گئی۔ اس کا سر انگارے کی طرح گرم محسوس ہو رہا تھا۔ سولی نے چیخ ماری۔۔۔ دردناک چیخ۔ عذرا نے اسے دیکھا۔ غریب اپنے پنجرے میں یوں پھڑپھڑا رہا تھا جیسے وہ عذرا سے کچھ کہنے کے لیے مضطرب ہو۔ میز پر پنسل پڑی تھی۔ دفعتاً عذرا نے وہ پنسل پکڑ لی۔ وہ پارسل لکھ رہی تھی، ’’میں نہیں آ سکتی۔‘‘ اس نے پنسل اپنے آپ سے چھین کر پھینک دی۔ اس ڈر کے مارے کہ وہ لکھا ہوا کاٹ نہ دے۔ اس نے کھڑکی کھولی اور باہر دیکھے بغیر وہ پارسل سڑک پر پھینک کر جھٹ دروازہ بند کر لیا جیسے وہ کھڑکی کے کھلے رہنے سے ڈر رہی ہو۔ وہ دھندلی سی شکل آگے بڑھی۔ عذرا پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے اپنی آنکھیں بھینچ کر بند کر لیں اور اپنے کانوں میں انگلیاں دے دیں۔ اس کے کانوں میں ایک شور محشر سنائی دے رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد اس نے دیکھا، کوئی پارسل ہاتھ میں پکڑے جا رہا تھا۔ وہ چیخ کر اسے بلا لینا چاہتی تھی۔ اس نے اپنے دل میں شکست کی آواز سنی اور دھم سے کرسی پر گر گئی۔ ’’یہ میں نے کیا کر دیا۔ یہ میں نے کیا کر دیا۔‘‘ اس کے دل سے دیوانہ وار آوازیں آ رہی تھیں۔ اس کی آنکھ سے آنسو گر رہے تھے۔ بے اختیار اس کے منہ سے چیخ ہچکی کی شکل میں نکل گئی۔
نذر اٹھ بیٹھا، ’’کیوں عذرا۔۔۔ کیوں۔۔۔ میں۔۔۔ تم روتی ہو؟ کیوں رو رہی ہو؟ عذرا میں یہاں ہوں۔ میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ میں تمہارا ہوں۔ عذرا تم فکر نہ کرو۔ سو جاؤ۔‘‘ نذر نے عذرا کا سر اپنے شانوں پر رکھ لیا۔ عذرا کی ہچکیاں رکتی نہ تھیں۔ ’’میں نے کیا کر دیا۔ میں نے کیا کر دیا۔‘‘
’’سلیم تم نہ جاؤ۔ سلیم۔۔۔ سلیم۔‘‘ اس نے اپنا سر جھکا لیا۔ آنکھیں بند کر لیں۔ سلیم سامنے کھڑا تھا۔ پھر اس کا سر سلیم کے شانوں پر جھک گیا۔ ’’سلیم مجھے تم سے کوئی جدا نہیں کر سکتا۔۔۔‘‘
پھر اس نے سنا جیسے میلوں دور کوئی کہہ رہا تھا، ’’عذرا میری وفا کی دیوی۔‘‘
مصنف:ممتاز مفتی