ماں کا دل

0
153
Urdu Story Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی’’کہانی ایک فلم کی شوٹنگ کے گرد گھومتی ہے جس میں ہیرو کو ایک بچے کو گود میں لے کر ڈائیلاگ بولنا ہوتا ہے۔ اسٹوڈیو میں جتنے بھی بچے لائے جاتے ہیں ہیرو کسی نہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ کام کرنے سے منع کر دیتا ہے۔ پھر باہر جھاڑو لگا رہی اسٹوڈیو کی بھنگن کو اسکا بچہ لانے کے لیے کہا جاتا ہے، جو کئی دن سے بخار میں تپ رہا ہوتا ہے۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اسے کسی ڈاکٹر کو بھی نہیں دکھا پاتی ہے۔ ہیرو بچے کے ساتھ سین شوٹ کرا دیتا ہے۔ بھنگن اسٹودیو سے پیسے لے کر جب ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے تب تک بچہ مر چکا ہوتا ہے۔‘‘

ایک فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی۔سٹوڈیو میں حسب معمول ہنگامہ تھا۔ ہیرو کے سر پرنقلی بالوں کی ’’وِگ‘‘ بٹھائی جارہی تھی۔۔۔ ہیروئن بار بار آئینہ میں اپنی لپ سٹک کا معائنہ کر رہی تھی۔ ڈائریکٹر کبھی ڈائیلاگ رائٹر سے الجھ رہا تھا تھا کبھی کیمرہ مین سے۔ پروڈکشن منیجر اکسٹرا سپلائر سے ایک کونے میں اپنی کمیشن طے کر رہا تھا۔

کیمرہ مین کے اسسٹنٹ نے روشنیوں کے کالےشیشے میں سے دیکھ کر کیمرہ مین سے کہا ’’شاٹ ریڈی۔‘‘ کیمرہ مین نے اپنےکالے شیشے میں سے سین کامعائنہ کرکے ڈائرکٹر سے چلا کر کہا،’’شاٹ ریڈی۔‘‘ ڈائرکٹر نے ہیرو کی کرسی کے پاس جاکر دھیرے سے کہا،’’شاٹ ریڈی۔‘‘ ہیرو نے بڑے اطمینان سے سگریٹ کا کش لیا۔ پھر دو آئینوں میں اپنے سر کو آگے پیچھے سے دیکھا۔ وگ کو دو تین بار تھپ تھپایا۔ نقلی بالوں کی ایک لٹ کو ماتھے پر گرایا اورکرسی سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اسسٹنٹ ڈائرکٹر کی طرف دیکھ کر (جوڈائلاگ کا فائل لیے کھڑا تھا) ہیرو نے پوچھا،’’پکچر کون سی ہے؟‘‘

’’ماں کا دل۔‘‘

’’سین کون سا ہے؟‘‘

- Advertisement -

’’جی یہ وہ بچے والا سین ہے۔‘‘

’’بچے والا سین؟ مگر اس فلم میں تو میری شادی ہی نہیں ہوئی۔ بچہ کیسے ہوگیا؟‘‘

’’جی نہیں یہ آپ کااپنا بچہ نہیں ہے۔ راستہ چلتے آپ کو ایک لاوارث بچہ مل جاتاہے۔ بچے کو دیکھ کر آپ کو اپنا بچپن یاد آجاتا ہے، اپنی ماں یاد آجاتی ہے، آپ بچے کو گود میں اٹھالیتے ہیں۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں اور آپ بولتے ہیں۔۔۔‘‘

’’ہاں تو ڈائیلاگ سناؤ۔‘‘اور یہ کہہ ہیرو پھر کرسی پر بیٹھ گیا۔ڈائیلاگ ڈائرکٹر نے فوراً فائل کھول کر پڑھنا شروع کیا۔’’یہ بچہ بھی کسی کی آنکھ کا نور ہے۔۔۔‘‘ ہیرو نے پوچھا،’’نور؟ نور کیا ہوتاہے؟‘‘ ڈائلاگ ڈائرکٹر نے پنسل سے اپنا سرکھجاتے ہوئے جواب دیا، ’’جی۔ نور۔ نور تو بس نور ہوتا ہے۔ جیسے نور محمد، نور الحسن وغیرہ۔ دراصل رائٹر نے نور کاقافیہ سرور سے ملایا ہے۔‘‘

’’پورا ڈائلاگ پڑھو۔‘‘

’’یہ بچہ بھی کسی کی آنکھوں کا نور ہے، کسی کے دل کاسرور ہے، اگر آج یہ بھوکا ہے، مجبور ہے تو یہ سماج کا قصور ہے۔ کل یہی بچہ بڑا ہوکر ڈاکٹر، وکیل یا لیڈر بن سکتا ہے۔۔۔‘‘

’’یہ سب کیا بکواس ہے؟‘‘ ہیرو نے کہا اور پھر ڈائرکٹر کی طرف مخاطب ہوکر ’’اتنا بڑا دائلاگ مجھے یاد بھی نہیں ہوگا۔‘‘

ڈائرکٹر نے کہا، ’’مجھے بھی ڈائلاگ ضرورت سے زیادہ لمبا لگتا ہے۔‘‘ اور پھر ڈائلاگ ڈائرکٹر سے’’کمار صاحب جیسا کہتے ہیں اسے چھوٹا کردو۔‘‘ ڈائلاگ ڈائرکٹر نے ڈائلاگ کے پورے صفحے پر نیلی پنسل سے کانٹی کا نشان بناتے ہوئے کہا،’’کمار صاحب آپ ہی بتائیے نا۔‘‘ ہیرو نے سوچ کر کہا،’’تو لکھو۔ یہ بچہ بھی کسی ماں کا دل ہے۔۔۔‘‘

’’جی؟ آگے؟‘‘

’’بس اور کچھ نہیں۔ اتنا ہی کافی ہے۔ یہ بچہ بھی کسی ماں کا دل ہے۔‘‘

ڈائلاگ ڈائرکٹر نے ایک بار پھر وہی الفاظ دہرائے۔ ’’یہ بچہ بھی کسی ماں کا دل کا ہے۔ واہ واہ کیا بات کہی ہے۔ کمار صاحب آپ کو تو رائٹر ہونا چاہیے تھا۔‘‘ اور پھر ڈائرکٹر سے مخاطب ہوکر ’’سر یہ تو پکچر کاتھیم ڈائلاگ ہوگیا۔‘‘

’’تو پھر چلیے شاٹ تیار ہے۔‘‘ڈائرکٹر نے ہیرو کو اشارہ کیا اور جیسے ہی ہیرو اپنی کرسی سے اٹھا اور سب بھی کھڑے ہوگیے۔

’’بچہ لاؤ۔‘‘ پہلے اسسٹنٹ ڈائرکٹر کی آواز گونجی۔’’بچہ لاؤ۔‘‘دوسرا اسسٹنٹ ڈائرکٹر چلایا۔’’بچہ لاؤ۔‘‘تیسرے اسسٹنٹ ڈائرکٹر نے آواز دی۔

’’سپلائر!‘‘پروڈکشن منیجر نے نعرہ لگایا،’’ بچہ کہاں ہے؟‘‘

’’مسز جانسن۔‘‘اکسٹرا سپلائر چلایا۔

ایک موٹی تازی اینگلو انڈین عورت جو نہ جوان تھی، نہ بوڑھی، آگے بڑھی۔ اس کی گود میں ایک بھورے بالوں والا گول گول چہرے گول گول آنکھوں والا بچہ تھا جو نائلون کا فراک پہنے ہوئے تھا۔

’’اس کا فراک تو بہت بڑھیا لگتا ہے۔ غریب بچے کا فراک ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘تیسرے اسسٹنٹ ڈائرکٹر نے اعتراض کیا،’’ستیہ جیت رے کی فلموں میں دیکھیے کتنی ریالزم (Realism) ہوتی ہے۔‘‘

’’ڈریس مین!‘‘دوسرا اسسٹنٹ ڈائرکٹر چلایا۔’’جی صاحب‘‘ڈریس مین نے جواب دیا۔’’بچے کا فراک بدلی کرو۔ کوئی میلا پھٹا ہوا کپڑا پہناؤ۔‘‘ پہلے اسسٹنٹ ڈائرکٹر نے حکم دیا۔ڈریس مین نے ایک بکسے میں ہاتھ ڈالا اور چند میلے گندے چیتھڑے لیے ہوئے بچے کی طرف بڑھا۔بچے کی ماں نے جیسے ہی ان گندے چیتھڑوں کی طرف دیکھا تو اس نے جلدی سے بچے کو اپنی چھاتی سے لگا لیا،’’نو۔نو۔ ہمارا بے بی ایسا ڈرٹی کپڑا نہیں پہنے گا۔ کوئی بیماری لگ گئی تو۔۔۔‘‘

’’مگر میم صاحب دیکھیے ریالزم (Realism) کے لیے ضروری ہے۔ ‘‘تیسرے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے کہنا شروع کیا۔بچے کی ماں بات کاٹتے ہوئے بولی،’’ہمارا بےبی اونلی ہائی کلاس پکچرز میں کام کرتا ہے۔ہم سپلائر کو پہلے ہی بولا تھا ہمارا بےبی گندا کپڑا نہیں پہنے گا۔‘‘ڈائرکٹر نے اپنے اسسٹنٹ کو اشارہ کیا،’’رہنے دو۔ آج کل غریبوں کے بچے بھی نائلون کے کپڑے پہنتے ہیں۔‘‘کیمرے کے سامنے کھڑے ہوئے ہیرو نے میم صاحب کی گود کی طرف ہاتھ پھیلائے،’’کم آن بےبی۔‘‘ بچہ ہمک کر ہیرو کی گود میں چلا گیا۔ سب نے اطمینان کا سانس لیا کیونکہ فلمی دنیا کا محاورہ ہے کہ شوٹنگ کرتے وقت تین مصیبتیں آسکتی ہیں۔ گھوڑا، کتا اور بچہ۔

میم صاحب نے اپنے بھورے گھنے بالوں کو تھپکی دیتے ہوئے ہیرو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا،’’ہمارا بے بی سویٹ ہے نا؟ بڑا ہوکر یہ بھی فلم کا ہیرو بنے گا۔‘‘ کیمرہ مین نے ایک لائٹ کو بائیں سے ذرا دائیں سرکایا پھر واپس بائیں کو سرکاکر اسی جگہ رکھ دیا۔ پھر کیمرہ کی آنکھ میں جھانک کر دیکھا،’’کمار صاحب ذرا آگے۔۔۔ بس بس بس۔۔۔ بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ اور پھرچلاکر،’’ریڈی فار ساؤنڈ ٹسٹ۔‘‘ ساؤنڈ اسسٹنٹ نے مائکروفون آگے بڑھایا،’’کمار صاحب۔ ڈائلاگ بولیے گا ایک بار۔‘‘ہیرو نے مائیکروفون کی طرف پیار بھری نظر سے دیکھا اور کہا،’’یہ بچہ بھی کسی ماں کا دل ہے۔‘‘

’’ہاوزیٹ؟‘‘تینوں اسسٹنٹ ایک ساتھ چلائے جیسے کرکٹ کے میدان میں کسی کھلاڑی کو (L.B.W) کرنے کے لیے سب فیلڈرز چلاکر امپائر سے پوچھتے ہیں،’’ہاوزدیٹ۔‘‘ ساونڈ روم سے لاؤڈسپیکر کے ذریعے جواب آیا،’’اوکے۔ ریڈی فار ٹیک۔‘‘

پہلا اسسٹنٹ ڈائرکٹر چلایا،’’خاموش۔‘‘

دوسرا اسسٹنٹ ڈائرکٹر چلایا،’’سائلنس!‘‘

تیسرا اسسٹنٹ ڈائرکٹر چلایا ،’’بات چیت بند۔‘‘

ڈائرکٹر نے کہا،’’ساؤنڈ سٹارٹ۔‘‘

ساؤنڈ روم سے جواب آیا،’’کیمرہ۔‘‘

کیمرہ میں نے بٹن دباکر کہا،’’رننگ۔‘‘

ہیرو نے بچے کو گود میں اٹھایا۔ پھر کیمرے کی طرف حسرت بھری نظر سے دیکھ کر بولا،’’یہ بچہ بھی کسی۔۔۔‘‘ابھی وہ اتنا ہی کہہ پایا تھا کہ بچے نے ہیرو کے ماتھے پر گری بالوں کی لٹ پر ایک جھپٹا مارا اور ’’وگ‘‘ اس کے ہاتھ میں آگئی۔ ہیرو کی گنجی چندیا سٹوڈیو لائٹس کی روشنی میں چمک اٹھی۔

ڈائرکٹر گھبراکر چلایا،’’کٹ! کٹ!‘‘

پہلا اسسٹنٹ ڈائرکٹر چلایا،’’کٹ اِپ!‘‘

دوسرا اسسٹنٹ ڈائرکٹر چلایا،’’کٹ اِپ!‘‘

تیسرا اسسٹنٹ ڈائرکٹر چلایا،’’میک اَپ، ہیرڈریسر کو بلاؤ۔‘‘

تین نوجوان کالج کی لڑکیاں جو کمار کی ’’فین‘‘ تھیں اور خاص طور سے اس کی شوٹنگ دیکھنے آئی تھیں یہ دیکھ کر بھوچکا رہ گئیں کہ ان کے محبوب ایکٹر کے سر کی چندیا بالکل صاف تھی۔۔۔ اور انڈے کی طرح سفید۔

’’ہائے رام!‘‘ایک نے دوسری سے کہا،’’یہ تو گنجا ہے!‘‘

دوری نے ’’ش ش ش‘‘ کر کے کہا ’’آہستہ بولو کہیں سن نہ لیں۔‘‘

کمار غصے میں سیدھا سٹوڈیو کے باہر جاچکا تھا اور اب اس کے پرائیوٹ میک اَپ روم میں ہیئر ڈریسر دوبارہ اس کی ’’وگ ‘‘ کو فٹ کر رہی تھی۔

’’اس بار میں چار ہیر کلپ لگادیتی ہوں تاکہ کھینچنے پر بھی وگ اپنی جگہ سے نہ ہلے۔‘‘مگر کمار نے غصے سے کہا،’’میں اس بچے کے ساتھ کام نہیں کروں گا۔‘‘ جب دوبارہ وگ لگواکر ہیرو واپس سٹوڈیو میں پہنچا تو ڈائرکٹر بےبی کی ممی سے کہہ رہا تھا،’’سوری میم صاحب۔ آپ کے بچے کو اب چھٹی۔ آگے کسی سین میں ہم ضرور اس کے لیے کوئی کام نکالیں گے۔‘‘

’’دیٹس آل رائٹ (That’s All Right) میم صاحب بولیں۔ ہم کو مالوم ہے شوٹنگ میں ایسا گول مال ہوجاتا ہے۔ اپنے منیجر کو بولو ہمارا چکتا کردو۔‘‘

پروڈکشن منیجر نے اکسٹرا سپلائر کو ساٹھ روپے دے کر پچھتر روپے کی رسید لی۔ سپلائر نے میم صاحب کو چالیس روپے دے کر پچپن کی رسید لی۔ میم صاحب بچے کو لے کر ٹیکسی میں بیٹھ ہی رہی تھیں کہ بے بی نے ایک اور جھپٹامارا اور اپنی ماں کے سر سے اس کی ’’وگ‘‘ بھی کھینچ لی۔ میم صاحب نے جلدی سے اپنے نقلی بالوں کو دوبارہ سر پر رکھتے ہوئے ادھر ادھر دیکھا کہ کسی نے دیکھ تو نہیں لیا اور جب اطمینان ہوگیا تو بولیں ’’یوناٹی بےبی۔ ڈرائیور ہم کو دادر سٹیشن چھوڑ دینا۔ ادھر سے ہم بائیکلہ ٹرین میں جائے گا۔‘‘

سٹوڈیو میں پھر ہنگامہ تھا۔

ڈائرکٹر پہلے اسسٹنٹ سے کہہ رہا تھا،’’دوسرا بچہ لاؤ۔‘‘

پہلا اسسٹنٹ پروڈکشن منیجر سے کہہ رہا تھا،’’دوسرا بچہ لاؤ۔‘‘

پروڈکشن منیجر نے اکسٹرا سپلائر کو کونے میں لے جاکر کہا،’’آج تو تیری چاندی ہو رہی ہے۔ ایک بچہ اور لے آ۔ جتنا شریر ہو اچھا ہے۔ ایک دو اور بچوں کا بھی انتظام کر رکھنا۔‘‘

اکسٹرا سپلائر پروڈیوسر کی موٹر لے کر گیا اور تھوڑی ہی دیر میں ایک تین چار برس کا موٹا تازہ بچہ لے کر آگیا۔ ساتھ میں ایک کالا سا موٹا سا لمبے لمبے بالوں والا پہلوان نما آدمی۔ دھاریوں والی بنیان اور چارخانے کا تہمد باندھے۔

’’ہم حاضر ہیں جی۔‘‘پہلوان نما آدمی نے ڈائرکٹر کو ایک فوجی سلام مارتے ہوئے کہا۔

’’تم کون ہو؟‘‘

’’آپ نے نہیں پہچانا۔ میں ماسٹر گٹھل ہوں۔ انڈسٹری کا پرانا آدمی ہوں۔ شہزادہ گلفام میں ولین کیا ہے۔ باغی شہزادی میں سائڈ ہیرو تھا۔ لال گھوڑا میں سائڈ ولین۔ اب بھی کیرکٹر کرلیتا ہوں۔ بولیے کیا حکم ہے؟ ہم حاضر ہیں۔‘‘ ڈائرکٹر نے چڑ کر کہا،’’بھئی ہمیں اس وقت صرف ایک بچے کی ضرورت ہے۔‘‘

’’بچہ بھی حاضر ہےسرکار۔‘‘یہ کہہ کر پہلوان نما آدمی نے بچے کو آگے کردیا۔

’’اے ڈائرکٹر صاحب کو سلام کرو۔‘‘

بچہ ہرے رنگ کی مخمل کا نیکر اور بش شرٹ پہنے تھا۔ ہاتھ میں ایک جھنجھنا لیے ہوئے تھا مگر اس کا چہرہ بچوں جیسا نہ تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی جادوگر نے ایک ادھیڑ عمر کے آدمی کو چھوٹے قد کابنا دیا ہو۔ باپ کا حکم سنتے ہی اس نے بھی ایک فوجی سلام کیا اور ماتے سے ہاتھ نہ ہٹایا جب تک باپ نے اگلا حکم نہ سنایا،’’ابھی صاحب کو ٹوسٹ کرکے بتاؤ بیٹا۔‘‘ اور وہ بچہ جس کا چہرہ بچوں جیسا نہ تھا۔ دفعتاً ٹوسٹ کرنے لگا جیسے وہ چابی والی گڑیا ہو۔

’’شاباش بیٹا۔ شاباش۔‘‘باپ ٹوسٹ کی لےپر تالیاں بجاتا ہوا بولا۔ بچہ تھرک رہا تھا۔ اپنے کولہے مٹکارہا تھا۔ کبھی آگے بڑھتا تھا۔ کبھی پیچھے ہٹتا تھا۔ کبھی دائیں کبھی بائیں۔آہستہ آہستہ سیٹ پر جتنے لوگ جمع تھے وہ بچے کا ٹوسٹ ڈانس دیکھنے لگے۔ کیمرہ مین، اس کے اسسٹنٹ،لائٹوں والے چھوٹے موٹے کیرکٹر ایکٹر، اکسٹرا۔تب پروڈیوسر نے ڈائرکٹر کے کان میں کہا،’’یہ سب بند کرو۔ کمار جی کو دن بھر کی شوٹنگ کادس ہزار دینا ہے اور شارٹ اب تک ایک نہیں ہوا۔‘‘

ڈائرکٹر نے چلاکر کہا۔ ’’کٹ اِٹ۔‘‘ٹوسٹ ڈانس کرتے کرتے بچہ ایک دم رک گیا۔ جیسے اس کی چابی ختم ہوگئی ہو۔ڈائرکٹر نے پہلے اسسٹنٹ کو حکم دیا،’’کمار جی کو بلاؤ۔‘‘ پہلے اسسٹنٹ نے دوسرے اسسٹنٹ کو حکم دیا،’’کمار جی سے کہو بچہ آگیا ہے۔ شاٹ تیار ہے۔‘‘تیسرا اسسٹنٹ میک اپ روم کی طرف بھاگا۔ہیرو نے سٹوڈیو میں داخل ہوتے ہی پوچھا،’’بچہ کہاں ہے؟‘‘ ہری رنگ کی نیکر والے بچے نے ہیرو کو فوجی سلام مارتے ہوئے کہا،’’گڈ مارننگ، ہاؤڈویوڈو؟‘‘اور یہ کہہ کر ہیرو کی طرف دیکھ کر اتنے زور سے آنکھ ماری کہ ہیرو گھبراکر پیچھے ہٹ گیا اور سب قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ہیرو نے بچے سے ہاتھ ملاتے ہوئے پوچھا،’’کیوں پہلوان کام کروگے؟ گھبراؤگے تو نہیں۔‘‘

بچے نے تتلاتے ہوئے جواب دیا ،’’گھبلائیں گے تو آپ؟‘‘اس پر ایک اور فرمائشی قہقہہ پڑا اور ہیرو نے کھسیانا ہوکر پوچھا،’’کیا اس آفت کے پرکالے کو مجھے گود میں اٹھانا ہوگا؟‘‘کیمرہ مین چلایا،’’ریڈی فار ٹیک۔‘‘مختلف آوازیں سٹوڈیو میں گونجیں،’’ریڈی فار ٹیک۔ آل لائٹس۔ میک اپ ہیر ڈریسر۔ ساؤنڈ ٹسٹ۔‘‘ہیرو نے کہا،’’ٹھہرو بھائی۔ پہلے میں اس پہلوان کو اٹھاکر دیکھتا ہوں۔‘‘ ہیرو نے بچے کو گود میں اٹھالیا۔۔۔ لیکن بچہ پتھر کا بنا ہوا تھا۔ ہیرو ہانپنےلگا۔

’’ساؤنڈ اسٹارٹ‘‘ڈائرکٹر نے آواز دی۔

’’کیمرہ‘‘ساؤنڈ ریکارڈ سٹ کی آواز آئی۔

’’رننگ!‘‘کیمرہ مین نے اعلان کیا۔

ہیرو نے بچے کی طرف پیار بھری آنکھوں سے دیکھا۔ بچے نے آنکھ ماری۔ ہیرو کی زبان سے نکلا، ’’یہ بچہ بھی۔۔۔ یہ بچہ بھی۔۔۔ ‘‘اور پھر اس کےبجائے بچہ بولا،’’کیوں بیٹا ڈائلاگ بھول گیےنا؟‘‘ ہیرو کو ایسا لگا جیسے اس کی گود میں آدمی کا بچہ نہ ہو، کسی راکشش کا بچہ ہو اور اس نے ’’کٹ اِٹ‘‘ کہہ کر بچے کو اس کے باپ کی طرف پھینکا۔اور سو پہلوان صاحب بھی دس دس روپے کے چھ نوٹ جیب میں ڈال کر بچے کا ہاتھ پکڑے وہاں سے رخصت ہوگیے۔

تیسرا بچہ لایا گیا۔ اس نے شاٹ شروع ہونے سے پہلے ہی ہیرو کے سوٹ پر پیشاب کردیا۔۔۔ ہیرو نے کہا میں اس کے ساتھ کام نہیں کروں گا۔چوتھا بچہ لایا گیا۔ یہ دیکھنے میں بڑا بھولا بھالا اور معصوم تھا۔ سب کو یقین تھا، اب شاٹ بخیر و خوبی ہوجائے گا لیکن جیسے ہی ہیرو نے اسے گود میں لیا، بچہ پچھاڑیں کھانےلگا۔ رو رو کر آسمان سر پر اٹھالیا۔ بچے کو ماں کی گود میں واپس دیا گیا تو فوراً چپ ہوگیا۔ دوبارہ ہیرو کی گود میں دیا تو چپکے سے چلا گیا۔ لیکن جیسے ہی کیمرہ چلنا شروع ہوا اور ہیرو نے ڈائلاگ بولا،’’یہ بچہ بھی۔۔۔‘‘ کہ بچے نے نہ صرف رونا شروع کردیا بلکہ اپنے ننھے سے پاؤں سے اتنے زور کی لات ماری کہ ہیرو کی آنکھ پھوٹتے پھوٹتے بچی۔۔۔ ہیرو نےفیصلہ سنادیا۔

’’میں اس بچے کے ساتھ بھی کام نہیں کروں گا۔ یا تو کوئی سیدھا سادا چپ چاپ بچہ لاؤ۔ نہیں تو سین کینسل کرو۔ گھنٹہ بھر میں شوٹنگ شفٹ بھی ختم ہونےوالی ہے۔‘‘

سپلائر نے کہا،’’اب میں کب تک بچے لاتا رہوں۔ اس طرح توساری بمبئی کے بچے ختم ہوجائیں گے۔‘‘

پروڈکشن منیجر نے کہا،’’تجھے کیا؟ تیری تو چاندی ہو رہی ہے۔۔۔‘‘

’’اور تمہاری نہیں؟‘‘سپلائر نے چڑ کر کہا۔

’’اچھا بھئی ہم دونوں کی۔ اب ایک چپ چاپ سا بچہ لے آ کہیں سے۔‘‘

’’میں تو جتنے فلمی بچوں کو جانتا ہوں سب کو لے آیا۔ ہر ماں اپنے بچے کو فلم میں کام کرنے نہیں بھیجتی۔ یہی دوچار لوگ ہیں جو اپنے بچوں کا دھندا کرتے ہیں۔‘‘

’’ارے بھئی پیسوں کی خاطر کوئی بھی اپنے بچے کا دھندا کرسکتا ہے۔‘‘یہ بات کرتے کرتے وہ سٹوڈیو کے باہر نکل آئے تھے۔ جہاں ایک بھنگن سڑک پر جھاڑو دے رہی تھی۔

’’اری ذرا ٹھہر۔‘‘پروڈکشن منیجر چلایا،’’سارے میں مٹی اڑا رہی ہے۔ یہ وقت ہے جھاڑو دینے کا۔ صبح سویرے کیوں نہیں جھاڑودی۔‘‘

’’بابوجی۔ آج مجھے دیر ہوگئی تھی۔‘‘

’’دیر ہوگئی تھی تو پگھار کٹے گی۔ کوئی مفت کام کرتی ہے کیا؟‘‘

’’بابوجی۔‘‘بھنگن کام بند کرکے گڑگڑاتی ہوئی بولی،’’میرا بچہ بیمار ہے۔‘‘

’’بیمار ہے۔ کیا بیمار ہے؟‘‘

’’بابوجی۔ پتہ نہیں کیا بیمار ہے۔ دس دن سے بکھار نہیں اترا۔‘‘

’’تو پھر ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتی؟‘‘

’’محلے کے ڈاکٹر کو دکھایا تھا، بابوجی۔ دو روپے فیس بھی دی تھی۔ وہ کہیں اسے بچوں والے بڑے ڈکٹر کو دکھاؤ۔ ان کی فیس بیس روپے ہے۔ پھر دو انجکشن کے لیے بھی دام چاہئیں۔ اگلے مہینے کی پگھار مل جاتی۔۔۔ تو بچے کا اِلاج ہوجاتا۔‘‘

’’جا بچے کو لے آ۔ اس کے علاج کے لیے روپے مل جائیں گے۔ پورے چالیس۔‘‘اکسٹرا سپلائر نے پروڈکشن منیجر کو آنکھ مارتے ہوئے کہا۔پروڈکشن منیجر بولا، ’’اری تیرے بچے کا فلم میں فوٹو آجائے گا کمار جی کے ساتھ اور پیسے بھی ملیں گے جلدی سے لے آ۔‘‘

’’ابھی لاتی ہوں، بابوجی۔۔۔‘‘بھنگن نے جھاڑو ٹوکری پھینکتے ہوئے جواب دیا۔

’’مگر سن، بچہ روئے گا چلائے گا تو پیسے نہیں ملیں گے۔ چپ چاپ رہنا چاہیے۔‘‘

بھنگن سٹوڈیو کے پیچھے ہی ایک جھونپڑیوں کی بستی میں رہتی تھی۔ اپنی جھونپڑی میں جانے سے پہلے اس نے پڑوسن کا دروازہ کھٹکھٹایا۔

’’کیا ہے چاؤلی؟‘‘

’’بچہ بہت روتا ہے بہن۔ مجھے کام پر جانا ہے۔ وہ دوا دے دو جو تم کام پر جاتے ہوئے اپنے بچے کو دیتی ہو۔‘‘

پڑوسن نے ایک پڑیا پکڑادی،’’بس تھوڑی سی پانی میں گھول کر دیجئیو۔‘‘

چاؤلی اپنے جھونپڑے میں گئی۔ بچہ جھنگا چارپائی پر اکیلا لیٹا رورہا تھا۔ چاؤلی نے بیٹے کو گود میں لے لیا۔ بدن جل رہا تھا۔ روئے ہی جارہا تھا۔ چاؤلی نے بھینچ کر بچے کو پیار کیا۔ ’’نارو میرے لال۔ چل میں تجھے فلم کمپنی میں لے چلتی ہوں۔ میرا بیٹا فلم کا ہیرو بنے گا۔ پھر تجھے بڑے ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گی۔‘‘

’’نارو میرے لال۔۔۔ نہ رو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے پانی میں گھلی ہوئی کالی کالی دوا بچے کو چٹادی۔۔۔ بچہ روتے روتے ہلکان ہوکر اب ہچکیاں لینے لگا تھا۔ ہچکیاں لیتے لیتے نڈھال ہوکر سوگیا۔ چاؤلی نے بچے کو چند چیتھڑوں میں لپیٹا اور سٹوڈیو کی طرف چل دی۔

اکسٹرا سپلائر نے کہا،’’روئے گا تو نہیں۔‘‘

چاؤلی نے کہا،’’نہیں بابوجی مجے سے سو رہا ہے۔‘‘

ڈائرکٹر نے پوچھا،’’ارے یہ روئے گا تو نہیں؟‘‘

پروڈکشن منیجر نے کہا،’’نہیں صاحب۔ بڑا شریف بچہ ہے۔ ماں کا دودھ پی کر مزے سے سو رہا ہے۔ آپ جتنے چاہیں شاٹ لیجیے۔‘‘

ہیرو نے بچے کو گود میں لینے سے پہلے پوچھا’’روئے گا تو نہیں؟‘‘

’’نہیں کمار جی۔‘‘ڈائرکٹر نے اسے یقین دلایا۔’’بڑا خاموش بچہ تلاش کرکے منگوایا ہے۔‘‘

ہیرو نے بچے کو گود میں لے لیا اور سوچا۔ ’’شکر ہے اس کا وزن زیادہ نہیں ہے۔‘‘ پھر وہ بولا،’’جلدی شاٹ لے لو۔ ابھی تو سو رہا ہے اٹھ گیا تو یہ بھی ناک میں دم کرے گا۔‘‘

’’ریڈی فار ٹیک۔‘‘

’’ریڈی فار ٹیک۔‘‘

’’آل لائٹس۔‘‘

’’ساؤنڈ ریڈی؟‘‘

’’سٹارٹ ساؤنڈ۔‘‘

’’کیمرہ۔‘‘

’’رننگ۔ کلیپ۔‘‘

’’ماں کا دل۔ سین نمبر ۵۵ ۔ شاٹ نمبر سیون۔ ٹیک نمبر فور۔‘‘

ہیرو نےبچے کو گود میں اٹھایا۔ اس کے چہرے کو دیکھا۔ بچہ اطمینان سے آنکھیں بند کیے سو رہا تھا۔ اس کے معصوم چہرے پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ ہیرو نے کیمرہ کی طرف دیکھ کر دل کی گہرائی سے آواز نکالی، ’’یہ بچہ بھی کسی ماں کا دل ہے۔‘‘

شاٹ کٹ ہوگیا۔ مگر کیمرہ مین نے کہا ایک ٹیک اور چاہیے۔ بچے کے چہرے پر روشنی ٹھیک نہیں پڑی تھی۔ایک اور بار شاٹ دہرایا گیا۔ ایک بار پھر ہیرو نے کہا،’’یہ بچہ بھی کسی ماں کا دل ہے۔‘‘ اسی وقت ایک ہوائی جہاز سٹوڈیو کے اوپر سے گونجتا ہوا گزر گیا۔ لاؤڈسپیکر میں سے ساؤنڈ رکارڈسٹ کی آواز آئی۔ ’’کٹ کٹ۔‘‘ ہوائی جہاز۔کسی نہ کسی وجہ سے تین بار اور شاٹ دہرایا گیا۔ ٹیک نمبر نو کو ’’اوکے‘‘ کیا گیا۔

ہیرو نے بچہ پروڈکشن منیجر کے حوالے کیا۔ بچہ اب تک سو رہاتھا۔پروڈکشن منیجر نے بچہ اکسٹرا سپلائر کی گود میں دیا۔اکسٹرا سپلائر نے چاؤلی کی گود میں بچہ دیااور ساتھ ہی چالیس روپے دے کر اس سے پچھتر روپے کی رسید پر انگوٹھا لگوالیا۔

’’جا اب اسے ڈاکٹر کے پاس لے جا اور اچھی طرح علاج کروا۔‘‘

’’بابوجی۔ سیدھی وہیں جاتی ہوں۔ ٹیکسی کرکے۔ آپ کی کرپا سے اس کا اِلاج ہوجائے گا۔ آپ کے بچے جئیں۔‘‘

بچوں کے سپیشلسٹ ڈاکٹر کے سکریٹری نے پہلے فیس لے لی۔ پھر ڈاکٹر نے بچے کا معائنہ کیا،’’مگر یہ تو مرچکا ہے۔‘‘ڈاکٹر نے ہاتھ لگاتے ہی کہا اور چاؤلی کو ایسے لگا جیسے اس کی آنکھوں کے سامنے ایک دم اندھیرا چھا گیا ہے۔ پھر بھی وہ کانپتی ہوئی آواز میں بولی،’’ڈاکٹر صاحب کیا ہوا میرے لال کو۔ اسے تو صرف بکھار آرہا تھا۔‘‘

’’بخار سےنہیں، لگتا ہے تمہارا بچہ زہر سے مرا ہے۔ کیا دیا تھا اسے کھانے کو؟‘‘

’’کچھ نہیں ڈاکٹر صاحب! جراسی افیم دی تھی چپ کرانے کو۔‘‘

۔۔۔۔۔

سال بھر بعد ’’ماں کادل‘‘ کی سلور جوبلی کے موقع پر ایک بڑے نیتا نے تقریر کرتے ہوئے کہا ،’’میں اس فلم کے پروڈیوسر، ڈائرکٹر، ہیرو اور ہیروئن کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ان کی فلم میں سچ مچ ایک ہندوستانی ماں کے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔‘‘

مأخذ : خواجہ احمد عباس کے منتخب افسانے

مصنف:خواجہ احمد عباس

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here