لمس

0
275
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:’’یہ افسانہ طبقاتی کشمکش پر مبنی ہے۔ سرجیو رام کے مجسمہ کی نقاب کشائی کے موقع پر زبردست ہجوم ہے۔ سرجیو رام کے مجسمہ کے پتھر پر لکھا ہے، سر جیو رام ۔۔۔ 1862 سے 1931 تک۔۔۔ ایک بڑا سخی اور آدم دوست۔ مجمسہ کی نقاب کشائی ایک ضعیف العمر نواب صاحب کرتے ہیں جن کے بارے میں ہجوم قیاس آرائی کرتا ہے کہ یہ بھی جلد ہی مجسمہ بن جائیں گے۔ ہجوم کو سرجیو رام کے سخی ہونے میں شک ہے اور وہ مختلف قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ نقاب کشائی کے بعد بھی ہجوم وہیں کھڑا رہتا ہے جسے سیوا سمیتی کے کارکن ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اس بت کو چھونے کی کوشش کرتے ہیں اور جب بت کے پاؤں سیاہ ہو جاتے ہیں تو وہ اطمینان کے ساتھ اپے اپنے کام پر چلے جاتے ہیں۔‘‘

یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی بات ہجوم کے بہت سے آدمیوں کی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ ان کے سامنے رسی کے حلقے ہیں۔ پتھر کے ایک بڑے سے چبوترے پر ایک مجسمہ بڑی سی چادر میں لپٹا ہوا تھا، جسے وہ بار بار دیکھتے، دیکھ دیکھ کر آنکھیں جھپکتے، بے اطمینانی ظاہر کرتے ہوئے جمائیاں لیتے، اور پھر دیکھ کر اپنی اپنی بساط کے مطابق سمجھنے کی کوشش کرتے۔

ٹھنڈی سڑک روز مرہ کی طرح دھوپ میں لپٹی ہوئی تھی۔ ایک جگہ دو رویہ پیپل، شیشم، کروٹن چیل اور املتاس کے درخت سڑک پر جھکے ہوئے تھے اور ان کے خزاں زدہ پتوں میں سے سورج کی کرنیں چھن چھن کر سڑک کے سرمئی سیاہ رنگ کو جذامی بنا رہی تھیں۔ آج صبح ہی سے کول تار و ریت اور پتھر علاحدہ علاحدہ ہو کر ناچنے لگے تھے۔ نقاب کشائی کی رسم دیکھنے کے لیے ایک اچھا خاصا ہجوم اکٹھا ہو گیا، جس کا ایک حصہ زیادہ حرکت میں آ گیا تھا ۔ فضا میں ہو ہوہو کا ایک تکدر پیدا ہوا، جس میں ایک مبہم سی ہیبت بھی شامل تھی اور ایک صوتی تغزل بھی۔ پھر پیپل، کلیپ، کلیپ، کلیپ، کلیپ،لا تعداد تالیاں ایک ساتھ بجا رہے تھے اور سڑک کا واحد شیشم اپنی سینکڑوں سیٹیوں کے ساتھ مجمع سے ہم نوا ہو رہا تھا ۔ ہجوم کے وسط میں سے’سانپ آیا، سانپ آیا‘کی آواز سے آتش بازی کا سا ایک انار چھوٹا اور بظاہر شیرازہ بکھر گیا ،لیکن دائیں بائیں سے ’ہاتھی آیا‘کے لا یعنی نعروں سے پھر لوگ جمع ہو گئے۔

چبوترے کے سنگ خارا پر کچھ سنہری الفاظ کندہ تھے۔

سرجیو رام

- Advertisement -

1862 سے لے کر 1931 تک

ایک بڑا سخی اور آدم دوست

ہجوم اور الفاظ ایک دوسرے کو مسلسل گھور رہے تھے۔ ’’گپت دان کیا کرتے تھے ہمیشہ۔‘‘ سیواسمتی کا ایک رضاکار اپنے سرخ سکارف کی گرہ کو ڈھیلا کرتے ہوئے بولا۔ ’’بڈھے نالے کے پار جو ودھوا آشرم ہے نا، اس کی دری اٹھائی گئی اور اس کے نیچے بیواؤں کی مدد کے لیے پانچ سو کے نوٹ ملے۔‘‘

’’چہ۔۔۔ تو کیا ہوا؟‘‘ ہجوم میں سے ایک طرے باز ٹوانہ بولا۔

’’بات یہ تھی کہ سخاوت بے طریقہ تھی۔‘‘ اور کسی بابو نے تائید کرتے ہوئے کہا۔’’اس میں عورتوں کی ٹریفکنگ زیادہ ہوئی اور کیا حاصل ہوا؟‘‘

’’لیکن جناب‘‘ کوئی بولا۔’’آپ کو ان کی نیت میں کوئی شک نہیں ہو سکتا۔ یہ تو منتظمان کی حرامزدگی ہو گی۔‘‘ اور ایک گیانی جی اپنی چنبل سے بھری ہوئی گردن کو کھجاتے ہوئے بولے، ’’گیتا میں صاف لکھا ہے کہ دانی کو اپنے دان کا پھل پراپت کرنے کے لیے پھر جنم دھارن کرنا ہوتا ہے۔‘‘

ہجوم کا شور نسبتا بلند ہو گیا۔ یونیورسٹی ہال اور اس کے وسیع برآمدے میں طلبا، جیومیٹری کے پرچے دے رہے تھے۔ مثلث میں دو خطوں کی مجموعی لمبائی تیسرے خط کی لمبائی سے زیادہ ہوتی ہے۔ ایک طالب علم نے سوچا اور اس کا جی چاہاکہ وہ تمام کاغذ پھاڑ کر سیاہی انڈیل کر سامنے رقصاں و خنداں، لرزاں و حیراں ہجوم میں شامل ہو جائے۔ بڑے زور سے چیخے اور کہے ہمیں اس جومیٹری کا فائدہ ہی کیا۔ شور مچاؤ اے اہل وطن۔۔۔ اور فقط شور۔۔۔ اور کان پڑی آواز سنائی نہ دے۔ صاحب سپرنٹنڈنٹ نے زور زور سے کچھ ہاتھ گھنٹی پر مارے، لیکن گھنٹی کی آواز بھی شور میں حل ہو کر رہ گئی۔ وہ بوکھلا کر اٹھے اور خود باہر آ کر مجمع سے مخاطب ہوئے۔ جناب آپ لوگوں کو اس بات کا خیال ہونا چاہیے۔۔۔

دبلے پتلے بے بضاعت سپرنٹنڈنٹ کی بقیہ آواز ایک لامتناہی غلغلے میں گم ہو کر رہ گئی۔ قہ قہ قہ۔۔۔ لوگ ہنسنے لگے۔ اس بات کا خیال ہونا چاہیے، خیال لیے پھرتا ہے۔ جا بیٹھ اپنی ماں کے پاس، ورنہ ڈھونڈتی پھرے گی اپنی عینک۔ اپنی ریڑھ کی ہڈی۔۔۔ جاجا۔۔۔ اس کے بعد کاروں کی پوں پوں، فٹنوں اور ریئسی ٹانگوں کی ٹن ٹن سے فضا اور بھی پر شور ہو گئی۔ ایک سارجنٹ کہیں سے نمودار ہوا۔اس نے لبوں پر زبان پھیری۔ ہیٹ کو اونچا کیا اور اپنا بیٹن تان کر ہجوم میں یوں گھومنے لگا، جیسے کوئی تیز سی چھری خربوزے میں پھر جائے۔ ’’کاروں کو ادھر پارک کرو۔ اے یو انڈین، دائیں طرف۔‘‘ سپاہی بولا، ’’آپ کا نمبر کیا ہے۔‘‘ پی پی 562، اور لائسنس‘‘ یہ لائسنس دیکھنے کا وقت ہے۔

’’ہو ہو ہو ۔‘‘

’’راجہ صاحب ہیں کہاں؟‘‘

’’ارے میاں کھینچ دو بت کی رسی کو خود ہی۔ آخر اس تکلف میں کیا دھرا ہے؟‘‘

’’ہونا دیسی وقت۔۔۔‘‘

’’چہ!۔۔۔ ایک۔۔۔ بڑا۔۔۔ آدم دوست!‘‘

کچھ دیہاتی بھائی پھیرو اور اس کے نواح سے شہر کا کوئی میلہ یا عجائب گھر دیکھنے چلے آئے تھے۔ ان کے ہاتھوں میں لکڑی کے لمبے لمبے لٹھ تھے، جن کے سروں پر لکڑی کے ’’چوہے‘‘ بندھے ہوئے تھے۔ ان کی دموں سے گاؤں میں باٹی ہوئی سَن کی رسیاں لٹک رہی تھیں، جنھیں وہ کھینچتے اور کھڑپ کھڑپ کا بے ہنگم، بے معنی، بے تال ساز بجاتے اور گاتے۔۔۔ ’’کھٹن گیاتے کھٹ لیا ندا جھانواں۔۔۔‘‘

’’راستہ چھوڑ دو۔ راستہ چھوڑ دو۔‘‘ ہجوم آپ سے آپ پھٹنے لگا، اور ایک کشمیری پنڈت زار و نحیف، قیصر ولیم کی سی ڈاڑھی چھوڑے، دانتوں سے اپنے ناخن کاٹتا ہوا چبوترے کی طرف بڑھنے لگا۔ اس کے گلے کا سنہری سروپا، اس کے گھٹنوں کو پھانس رہا تھا۔ بار بار وہ جھک کر سروپا کو گھٹنے سے علاحدہ کرتا، مبادا یہ عزت و افتخار کا نشان اسے سرنگوں کر دے۔

یہ راجہ صاحب تھے جن کے ہاتھوں بت کی نقاب کشائی ہونا تھی۔ زندگی کے ہر تجربے نے ایک لکیر ان کے چہرے پر ڈال دی تھی۔ کہیں کہیں خطوط کے مخمصے پڑے ہوئے تھے، جن میں نیلی نیلی وریدیں الجھتی سلجھتی ہوئی ایک بڑی سی گانٹھ کی صورت میں کنپٹی کے قریب نمایاں ہو گئی تھیں۔ ’’جب یہ راجہ، یہ نقاب کشا مرے گا تو اس کا بت بہت حسین بنے گا۔‘‘ کسی نے سنگتراش کے نقطۂ نگاہ سے جانچا۔ آج کسی کی نقاب کشائی کرتا ہے، کل کوئی اس کی نقاب کشائی کرے گا۔ گویا راجہ مہندر ناتھ کوئی بہت بڑا جرم کر رہا ہے۔ کسی کی بہو بیٹی کی طرف دیکھتا ہے۔ ہجوم ہمیشہ ہمیشہ ہجوم ہی رہتا ہے۔ اس وقت دیہاتی اپنے بے ہنگم گیت کا دوسرا مصرعہ گا رہے تھے۔کھٹن گیا تے کھٹ لے لیاندا جھاواں، نے جاندی داری دس نہ گیا میں چٹھیاں۔۔۔ کدھر نو پاواں۔۔۔ اور بدستور چوہوں کی کھٹ کھٹ سے ہجوم کی بے ربط آوازوں میں چند اور کا اضافہ ہو رہا تھا۔

سیوا سمتی والوں نے لٹھوں کو تانے ہوئے ہجوم کے ایک بڑے سے ریلے کو روک دیا۔ راجہ صاحب نے اپنے منھ میں ثعلب مصری کا ایک ٹکڑا اور الائچی ڈالی اور گلے کو ’’اوہوں، اوہوں‘‘ کی متعدد آوازوں سے صاف کرتے ہوئے بولے۔ ’’حضرات! انیسویں صدی میں ایک معجزہ ہوا اور وہ سرجیوارام کی پیدائش تھی۔ لوگ معجزے کے متعلق سوچنے لگے۔ عام آدمیوں کی طرح جیوارام بھی پیدا ہو گیا۔ ہا ہا ہا۔۔۔ کیا روح القدس آیا تھا؟ کچھ آدمیوں کے گالوں پر فی الواقع آنسو بہہ رہے تھے۔ ان کے دل میں سخاوت اور آدم دوستی کا جذبہ اس قدر بلند ہو چکا تھا، کہ وہ مال اور دولت اور بیوی تک سخاوت میں دے دینے کے لیے تیار ہو رہے تھے۔

سیوا سمتی کے ایک کارکن نے دو دفعہ نقاب کی رسی راجہ کے ہاتھوں میں دی اور وہ دونوں دفعہ پھسل گئی، جس کا مطلب تھا کہ راجہ کا جلد ہی مجسمہ بن جائے گا۔ آخر راجہ نے ایک جھٹکا دیا اور مجسمہ بے نقاب ہو گیا۔

لوگوں نے تالیاں بجائیں، پھول پھینکے۔ آخر یہ بات تھی! پھر وہ سوچنے لگے۔ وہ ناحق دو گھنٹے کھڑے رہے۔ لیکن مجسمہ خوبصورت تھا۔ مرمریں، بالکل روئی کا ایک بڑا سا گالا دکھائی دیتا تھا۔ سنگ مرمر کو کسی اطالوی نے اس قدر صفائی سے تراشا تھا کہ فرغل کی ایک ایک شکن واضح طور پر نظر آ رہی تھی۔ مونچھوں کے بل صاف دکھائی دے رہے تھے۔ یہ مونچھیں، بت اپنی زندگی میں لب لگا کر باٹا کرتا تھا اور پھر ہاتھ کی رگیں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ یہی محسوس ہوتا تھا جیسے ہاتھ ابھی حرکت میں آ جائے گا، ایسے ہی جیسے نقاب کشا کا ہاتھ بت بن جائے گا۔ بت اور نقاب کشا میں کوئی رازداری تھی۔ انھیں ایک دوسرے سے کوئی خاص ہی ہمدردی تھی۔

شور اور بھی بلند ہو گیا۔ ہال کا ممتحن منھ پر جھاگ لانے لگا۔ اس نے ایک ہاتھ سے عینک کو سنبھالا، دوسرا ہاتھ ریڑھ کی ہڈی پر رکھا اور حلقے کے تھانے کو ٹیلیفون کرنے کے لیے ایک چھوٹے ممتحن کو اپنی جگہ پر بٹھا دیا۔

املتاس کے درخت تمون کی پتلیاں نچا نچا کر ہنسنے لگے۔ کروٹن چیل سڑک کی سانوری صورت کو چومنے کی خواہش میں سائیں سائیں کرتا ہوا جھک جھک گیا۔ اس وقت سورج کے سامنے ایک بہت بڑا بال آ جانے سے سڑک کا جذام دور ہو چکا تھا۔ ہلکی ہلکی گدگدی کی طرح ایک خوشگوار پھوار سی پڑنے لگی۔ بت کے رشتہ دار ’’نیم بت‘‘ دیوتاؤں کی اس خوشنودی کے اظہار پر بہت خوش ہوئے۔ آخر خدا کو بھی ان کے باپ یا دادا کی سخاوت اور آدم دوستی پسند تھی۔

نقاب کشائی کے بعد بھی ہجوم کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ لوگ ابھی تک آنکھیں جھپک رہے تھے۔ کیا بس یہی معاملہ تھا؟ کیا وہ صرف اسی بات کے لیے دو گھنٹہ کھڑے رہے تھے؟ مجسمہ برف کی طرح سفید ہے، برف کی طرح منجمد! لیکن آخر بات کیا ہوئی؟

’’۱۸۶۲ سے لے کر ۱۹۳۱ تک۔ اونہہ! کیا پتہ وہ کبھی پیدا ہی نہ ہوا ہو۔‘‘

’’اس کا مطلب ہوا نا کہ اڑسٹھ سال۔‘‘

’’نا۔ نا۔۔۔ انہتر۔۔۔ سن باسٹھ تیری ماں کے پاس چلا گیا؟‘‘

’’الو کا پٹھا۔۔۔‘‘

’’تم۔۔۔ ‘‘

’’تم۔۔۔ ‘‘

’’تیرا باب۔۔۔‘‘

اس کے بعد نہ معلوم کیا ہوا، ایک تیز فلم کی طرح کچھ مناظر آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ ایک دو پگڑیاں زمین پر پڑی تھی۔ یا کبھی کبھار کوئی کرسی ہوا میں اچھلتی اور املتاس کی پتیوں کو چھوتی ہوئی نیچے آ رہتی۔ لڑائی ہوئی اور رک گئی۔ اور پھر سب حیرت سے مجسمے کی طرف دیکھنے لگے اور اسے سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔

ایک ٹٹ پونجیا اپنی آنکھوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا آگے بڑھا اور آنکھ کے تھیلوں کو دبا کر مجسمے کی طرف دیکھنے لگا۔ ابھی تک سیوا سمتی کے لوگ اپنے ڈنڈے لیے کھڑے تھے، حالاں کہ ان کا مقصد ادا ہو چکا تھا۔ کھینچا تانی میں یا تو ان کے سکارف بالکل کھل گئے تھے اور یا گلے کا پھندا بن گئے تھے۔ دائیں جیب کا چڑے کے بادشاہ، ایسا ڈھکنا پھٹ رہا تھا جس میں سے چھاتی کا دایاں نپل، جس پر بے تحاشا بال اگ رہے تھے، دکھائی دینے لگا۔ سیناپتی کے منھ میں ایک لمبی سی وسل تھی۔ دھکم پیل میں اوندھے منھ گرنے سے وسل اس کے حلق میں چلی گئی تھی اور دانتوں کو ناقابل علاج ضعف پہنچ گیا تھا۔ آج سیناپتی کو پہلی دفعہ سیوا کا میوہ پراپت ہوا تھا۔ وہ خوش تھا اگرچہ رو رہا تھا۔

ایک افیمی نے اپنی ڈبیہ نکالی۔ ہتھیلی میں رکھ کر گولی کو ملا اور کمیٹی کے نلکے سے پانی کا ایک گھونٹ پی کر اسے نگل گیا۔ پانی کے قطرے ابھی تک اس کی بے قابو ڈاڑھی میں بہہ رہے تھے۔ پانی پی کر وہ مجسمے کے قریب آیا اور اپنے ساتھی سے پوچھنے لگا۔ اوئے بنتاں سینہاں! او کیہہ لکھیا ہئی؟ (ارے بنتا سنگھ! یہ کیا لکھا ہ؟ ( بنتا سنگھ نے جواب دیا، لکھا ہے۔ ’’ایک بڑا سخی اور آدم دوست‘‘۔۔۔ اونہہ! بڑا سخی۔۔۔ افیمی بولا۔

دراصل کسی کو سرجیوارام کی سخاوت پر یقین نہ آتا تھا۔ ہجوم کے ذہن لاشعور میں کوئی بات تھی۔ ان کی روح کی گہرائیوں میں کوئی ایسا جذبہ تھا جس کے تحت وہ کہہ رہے تھے۔ کوئی سخاوت نہیں۔ کوئی آدم دوستی نہیں۔ سب جھوٹ ہے۔ سراسر جھوٹ ہے۔

مجسمے کی حقیقت کی نسبت انھیں سیواسمتی والوں سے زیادہ نفرت تھی، جو کہ ابھی تک ڈٹ کر کھڑے تھے۔ افیمی، دیہاتی بابو، طالب علم سب کا خیال تھا کہ سمتی والے ازل تک یہاں نہیں ملیں گے۔ وہ چاہتے تھے، یہ لوگ اک دم وہاں سے چلے جائیں۔ ان کی موجودگی ہجوم میں ایک خاص قسم کا جذبۂ تنفر اور بغاوت پیدا کر رہی تھی۔ ان کا جی چاہتا تھا کہ وہ کسی کو مار ڈالیں، کچھ توڑیں پھوڑیں، سڑک پر سے گزرتی ہوئی عورتوں کی عصمت دری کریں اور نہیں تو طفل خورد سال کی طرح منھ ہی چڑا دیں۔ وہ منھ چڑانے سے ڈرتے نہ تھے، اگرچہ ان کے چھدرے چھدرے دانتوں پر سے انیمل اڑ چکا تھا اور وہ مکمل طور پر سیاہ پڑ گئے تھے۔ بے احتیاطی اور گوشت خوری نے ان کے دانتوں کو جبڑوں تک کھوکھلا کر دیا تھا اور وہ جبڑوں سے تقریبا علاحدہ ہو چکے تھے۔ لوگ بنا جانے بوجھے ان مکروہ دانتوں کا مظاہرہ کر کے خوش ہو رہے تھے۔ وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے دانت جتنے بدنما ہوں گے، اتنی ہی سیواسمتی والوں کی تذلیل ہو گی۔

ان میں پتلے لوگ تھے اور موٹے بھی۔ لیکن ان کے جسم گٹھے ہوئے تھے اور تنومند۔ انھیں خود اپنی طاقت کا احساس نہ تھا۔ اور وہ ہمیشہ اس احساس کو جگا دینے والے کی تلاش میں رہتے تھے۔ وہ سمتی والوں کے پاس کھڑے رہے۔ اور سمتی والے بھی گویا چڑ سے گئے تھے۔ تماشائیوں کی سمجھ میں یہ بات بھی نہ آتی تھی کہ سمتی والے اب نقاب کشائی کے بعد بھلا کیوں کھڑے ہیں؟ ایسے ہی جیسے اپنے وہاں کھڑے ہونے کی وجہ بھی ان کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔

موٹریں، فٹنیں اور تانگے سب جا چکے تھے۔ کہیں کہیں بابو لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے دفتروں کو جا رہے تھے۔ بیشتر دس بجے پہنچ چکے تھے اور کچھ دیر بعد بیکار کھڑے لوگوں نے وہاں کھڑے رہنے کی نسبت گھر اور کام پر چلے جانا مناسب سمجھا۔ وہ کچھ دور گئے ،لیکن انھیں یوں محسوس ہوا جیسے وہ اپنی کوئی چیز مجسمے کے قریب بھول آئے ہوں۔ اس کے بعد ان کے پاؤںخودبخود واپس اٹھ گئے۔ انھوں نے اپنے تئیں مجسمے کے سامنے پایا۔

مجسمہ بالکل سورج کی کرنوں میں الجھے ہوئے بادل کے ایک ٹکڑے کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔

لیکن۔۔۔ اونہہ! بیواؤں کو دان دیا ہو گا، عورتیں نکالی ہوں گی پٹھے نے۔ ابھی تک اس قسم کی آوازیں آ رہی تھیں۔ عورتوں کی ٹھیکیداری بڑی نفع بخش چیز ہے۔ اور سیوا سمتی والے بدستور اپنے لٹھ لیے کھڑے تھے۔

اسی اثناء میں اپنے گلے کو خون سے صاف کرتے ہوئے سیواسمتی کا سیناپتی آ گیا اور چبوترے کے پاس پہنچ کر اپنی کھدر کی نکر کو عریانی کی حد تک اونچا کرنے لگا۔ پھر اس نے رضاکاروں کو ایکا ایکی قطار میں کھڑے ہونے کا حکم دیا اور قطار میں کھڑے ہونے کے بعد وہ حکم کے مطابق چلنے لگے۔

لوگ خوش تھے۔ انھوں نے رضاکاروں کے پیچھے تالیاں بجائیں یہ بہتر تذلیل تھی۔ بدنما دانت اور جبڑے دکھائی نہیں دیتے تھے۔ سینا پتی نے خشم آلود نگاہوں سے پیچھے کی طرف دیکھا۔ گلے کو سہلایااور چل دیا۔ لوگوں نے پتھروں کی طرح کے وزنی قہقہے پھینک کر رضاکاروں کو زخمی کر دیا۔ سیواکا پھل میوہ۔۔۔

سب جانتے تھے کہ مجسمہ سنگ مرمر کا ہے، سفید ہے، سخت ہے، لیکن اتنی بات سے ان کی تسلی نہیں ہوتی تھی۔ وہ سات آٹھ قدم کے فاصلے پر کھڑے ہوتے، ایک نظر مجسمے کو دیکھتے، پھر سب کے سب اس تک پہنچ کر اسے اپنے ہاتھوں سے چھو دیتے۔

’’میں انگریجی نہیں جانتا‘‘ ایک دیہاتی نے کہا۔

سرجیوا رام کا بت ہے جو 1862 میں پیدا ہوا، اور 1931 میں مر گیا۔ وہ ایک بڑا سخی اور آدم دوست شخص تھا، اور انیسویں صدی کا سب سے بڑا معجزہ۔۔۔

اب ہجوم نے اثبات میں سر ہلا دیا اور ایک دفعہ پھر اپنے ہاتھوں کی پہنچ تک بت کو محسوس کیا۔ کچھ دیر بعد بت کے پاؤں سیاہ ہو گئے۔ لیکن اس کے بعد سب اطمینان کے ساتھ اپنے اپنے کام پر چلے گئے۔

مصنف:راجندر سنگھ بیدی

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here