جذبۂ عشق کا معیار سنبھالے ہوئے ہیں
آج تک ہم رسن و دار سنبھالے ہوئے ہیں
اس کا دیدار کہاں اس کا تو سایہ بھی نہیں
صرف یاد لب و رخسار سنبھالے ہوئے ہیں
گنگناتے نہیں اب ہم بھی پرانی غزلیں
وہ بھی پازیب کی جھنکار سنبھالے ہوئے ہیں
عابد و زاہد و واعظ تو ہوئے گوشہ نشیں
اب حرم کو یہ گنہ گار سنبھالے ہوئے ہیں
باغباں کرتے تھے پھولوں کی حفاظت پہلے
آج یہ فرض خس و خار سنبھالے ہوئے ہیں
تھے قیامت کے سے آثار مگر خیر ہوئی
امن کا ذمہ رضاکار سنبھالے ہوئے ہیں
شیخ صاحب کا ہے اس دور میں جینا مشکل
یہ غنیمت ہے کہ دستار سنبھالے ہوئے ہیں
مأخذ : شاخ آہو
شاعر:ظفر نسیمی