عدم کے جانے والوں کو بلایا جا نہیں سکتا
کچھ ایسی نیند سوئے ہیں جگایا جا نہیں سکتا
ذرا سی بات پر اتنا نہ تم روٹھا کرو مجھ سے
مرا کچھ حال ہے ایسا بتایا جا نہیں سکتا
مرے ہی غم کدہ میں لٹ گئیں خوشیاں مرے دل کی
خوشی کا کوئی نغمہ آج گایا جا نہیں سکتا
جو اپنے مسلک و ایماں سے ہٹ کر جا رہا ہوگا
کجا منزل کہ اس سے کچھ بھی پایا جا نہیں سکتا
ظفرؔ کی کیفیت کو جان کر کیا کر سکو گے تم
وہ زخمی دل ہے اس کا کہ دکھایا جا نہیں سکتا
مأخذ : اقدار
شاعر:ظفر مجیبی