سمٹا سا اک قطرہ ہوں
پھیل گیا تو دریا ہوں
سادہ سادہ کاغذ پر
جانے کیا کیا لکھتا ہوں
مجھ سے خطا بھی ہوتی ہے
میں آدم کا بیٹا ہوں
صبح سے لے کر شام تلک
پل دو پل کا قصہ ہوں
لوگ ٹھہرنے آتے ہیں
کیا میں خالی کمرہ ہوں
ہوش کہاں کہ یاد رکھوں
کون ہوں کیا ہوں کیسا ہوں
ٹوٹ گیا تب جانا ظفرؔ
ماٹی کا اک پتلا ہوں
مأخذ : خموش لب
شاعر:ظفر محمود ظفر