خزاں کے دوش پہ رکھتا ہے وہ بہار کا رنگ
عجب ہے اس کی نگاہوں میں انتظار کا رنگ
عجب ہے رسم وفا اور اعتبار کا رنگ
کہ دل میں بن کے دھڑکتا ہے اس کے پیار کا رنگ
سکون دل کا ٹھکانا کہیں نہ مل پایا
بسا ہوا ہے نگاہوں میں جو دیار کا رنگ
لبوں پہ جھوٹا تبسم نمی سی آنکھوں میں
عیاں ہے چہرے سے اس کے فراق یار کا رنگ
امیر شہر کو ہم بے کسوں سے کیا مطلب
اسے تو چاہئے بس اپنے اقتدار کا رنگ
ہماری قوم کو پڑھنے دو قصے ماضی کے
خبر تو ہونے دو کیا تھا صلیب و دار کا رنگ
نہیں تھا شوق مجھے ہجرتوں کا کوئی ظفرؔ
دیار غیر میں لے آیا روزگار کا رنگ
مأخذ : کتاب : خموش لب (Pg. 44) Author : ظفر محمود مطبع : عرشیہ پبلی کیشنز دہلی۔95 (2019)
شاعر:ظفر محمود ظفر