ہم فقیروں سے سمجھ ہم کو نہ سمجھا کیا ہے
ہم سمجھ بوجھ کے بیٹھے ہیں کہ دنیا کیا ہے
مسئلہ بھی ہے اگر کوئی تو ایسا کیا ہے
ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تو قصہ کیا ہے
وہ جسے ہم نے کیا رشتۂ جاں سے معمور
وہ بھی کہتا ہے کہ تجھ سے مرا ناطہ کیا ہے
روز بھر جاتا ہے اک زخم پرانا کوئی
روز اک زخم نیا دیتا ہے قصہ کیا ہے
تو تونگر ہے تو کیا مجھ کو حقارت سے نہ دیکھ
کب بدل جائیں گے حالات بھروسہ کیا ہے
خاک ہونا ہے تو کس بات کا رونا کہ ظفرؔ
خاک ہو جائیں گے ہم اس کے علاوہ کیا ہے
مأخذ : ودربھ میں جدید اردو شاعری: ایک مطالعہ
شاعر:ظفر کلیم