لب پہ تکریم تمنائے سبک پائی ہے
پس دیوار وہی سلسلہ پیمائی ہے
تختۂ لالہ کی ہر شمع فروزاں جانے
کس بھلاوے میں مجھے دیکھ کے لہرائی ہے
خاک در خاک چھپی ہے مری آنکھوں کی چمک
جس خرابے میں تری انجمن آرائی ہے
اپنے ہی پاؤں کی آواز سے ڈر جاتا ہوں
میں ہوں اور رہ گزر بیشۂ تنہائی ہے
پھر سر صبح کسی درد کے در وا کرنے
دھان کے کھیت سے اک موج ہوا آئی ہے
شاعر:ظفر اقبال