میرے اندر کا غرور اندر گزرتا رہ گیا
سر سے پانو تک اترنا تھا اترتا رہ گیا
بارشوں نے پھر وہی زحمت اٹھائی دیر سے
ایک ریگستان ہے کہ پھر بھی پیاسا رہ گیا
زندگی بھر آنکھ سے آنسو ندامت کے گرے
اور میرے دل کا صفا یوں ہی سادہ رہ گیا
پہلی بارش ہی میں تقویٰ کے نشاں سب دھل گئے
سر میں اک ٹوٹا ہوا مظلوم سجدا رہ گیا
کیسے ہوگا اب خدائی بندگی کا فیصلہ
شہر کے سارے خدا میں ایک بندہ رہ گیا
جلد منزل تک پہنچنے کا جنوں اس کو رہا
زندگی بھر اس لیے رستہ بدلتا رہ گیا
شاعر:ظفر امام