ہزار صبح نے کرنوں کے جال پھیلائے
مگر سمٹ نہ سکے رات کے گھنے سائے
طواف کرتی ہے منزل اسی مسافر کا
جو راستوں کے خم و پیچ سے نہ گھبرائے
یہ انتظار کی گھڑیاں بڑی غنیمت ہیں
خدا کرے کہ یوں ہی زندگی گزر جائے
شمیم گل سے کسی پیرہن کی خوشبو تک
تھے سلسلے ہی کچھ ایسے کہ جو نہ راس آئے
خیال آیا جہاں راہ میں ٹھہرنے کا
وہیں جھلستی ہوئی دھوپ میں ڈھلے سائے
جہاں جہاں گئے لوگوں کی رہبری کے لئے
ہم اپنے نقش قدم راستوں میں چھوڑ آئے
دم اب الجھنے لگا ہے بہت ہی رشتوں سے
ہمیں زمانہ یہ زنجیر اب نہ پہنائے
ہمیں نہیں ہے تہی دامنی کا غم ہرگز
ہیں اپنے پاس بہت حادثوں کے سرمائے
ظفرؔ خزاں تو بہرحال تھی خزاں لیکن
بہار آئی تو کچھ اور پھول مرجھائے
مأخذ :خوشبوئے قبا
شاعر:ظفر اکبرآبادی