الم ہے سوز ہے یادیں ہیں غم ہے وحشت ہے
مرے نصیب میں جو کچھ بھی ہے غنیمت ہے
جس انجمن میں اٹھے اٹھ کے قتل عام کرے
نگاہ ناز کا اٹھنا بھی اک قیامت ہے
یہ اور بات کہ ہے حصن غم سے بیگانہ
حیات عشق مگر حسن کی بدولت ہے
زباں سے اپنی تو دیوانہ کچھ نہیں کہتا
زمانہ دیکھ کے صورت کو محو حیرت ہے
دغا فریب حسد جھوٹ اور مکاری
جفا کے دور میں انساں کی یہ ہی فطرت ہے
تمام عمر نہ ہوگی خرد نوازوں کی
مرے جنوں کی زمانے میں جتنی شہرت ہے
وہ سامنے ہو نظر کے وہ عرض حال کرے
بہت دنوں سے یہ عادلؔ کے دل میں حسرت ہے
مأخذ : انکشاف سخن
شاعر:ظفر عادل قریشی