خیال رنج و راحت سے بری معلوم ہوتی ہے
محبت ماورائے زندگی معلوم ہوتی ہے
عجب کیفیت خود آگہی معلوم ہوتی ہے
خودی ہوتی ہے پیدا بے خودی معلوم ہوتی ہے
چمن میں کتنی ہی صیاد و گلچیں سازشیں کر لیں
مشیت تو مگر کچھ اور ہی معلوم ہوتی ہے
مرے ماحول کی پستی کا معیار اتنا اونچا ہے
کہ ہر ذلت وقار زندگی معلوم ہوتی ہے
بڑی مشکل سے اس منزل پہ پہنچا ہوں محبت کی
فغاں ہونٹوں پہ آ کر جب ہنسی معلوم ہوتی ہے
عبث ہے چارہ سازو اب علاج دل کے رہنے دو
مجھے تو اب یہ کشتی ڈوبتی معلوم ہوتی ہے
غموں کی دھوپ میں جلتا ہوں گو اس کی محبت میں
مگر پھر بھی وہ صورت چاند سی معلوم ہوتی ہے
بھری محفل میں تم نے ضبطؔ سے کیا پھیر لیں آنکھیں
زمانے کی نظر بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے
مأخذ : گل زر بکف
شاعر:ضبط انصاری
مزید غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔