(میلو ڈراما)
کردار
بیگم : ماں(شکستہ)
امجد/مجید : بیگم کے بیٹے(ثابت و سالم)
سعیدہ : امجد کی نئی نویلی حسین بیوی
اصغری : خادمہ
کریم اور غلام محمد : نوکر
پہلا منظر: (نگارِ ولا کا ایک کمرہ۔۔۔۔۔۔ اس کی خوبصورت شیشہ لگی کھڑکیاں پہاڑی کی ڈھلوانوں کی طرف کھلتی ہیں۔ حدنگاہ تک پہاڑ ہی پہاڑ نظر آتے ہیں جو آسمان کی خاکستری مائل نیلاہٹوں میں گھل مل گئے ہیں۔ کھڑکیوں کے ریشمی پردے صبح کی ہلکی پھلکی ہوا سے ہولے ہولے سرسرا رہے ہیں۔ یہ کمرہ جیسا کہ سازو سامان سے معلوم ہوتا ہے حجلہ عُروسی میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ دائیں ہاتھ کو کھڑکیوں کے پاس ساگوان کی مسہری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک کونے میں شیشے کی تپائی جس پر بلور کی صراحی اور گلاس کے علاوہ ایک ٹائم پیس رکھی ہے۔ پیچھے ہٹ کر پیازی ٹیفٹے میں ملبوس صوفہ سیٹ ہے اس پر دو ملازم گدیاں سجا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس سے دُور ہٹ کر ایک نوجوان خادمہ جو معمولی شکل و صورت کی ہے آتش دان پر سجائی ہوئی مختصر چیزوں کو اور زیادہ سجانے کی کوشش کررہی ہے۔ کمرے کی فضا میں ایسی دوشیزگی ہے جو ذرا سی جنبش سے منکوحیت میں تبدیل ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔ باہر سے ٹائلوں پر کھڑکی کی ننھی ننھی ضربوں کی آواز آتی ہے۔ تینوں خادم ہلکے سے ردّ عمل کے بعد اپنے اپنے کام میں مشغول رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔دروازے سے ایک ادھیڑ عمر کی وجیہہ عورت بیساکھیوں کی مدد سے اندر آتی ہے اور کمرے کا جائزہ لے کر اپنے اطمینان کا اظہار کرتی ہے
بیگم صاحب: (بیساکھیوں کی مدد سے کمرے میں ادھر ادھر پھر کر تمام چیزوں کو صحیح مقام پر دیکھ کر اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے) ٹھیک ہے!(ایک بیساکھی کو اپنی بغل سے الگ کرکے صوفے کے بازو کے ساتھ رکھ کر بیٹھنا چاہتی ہے، مگر فوراً ہی اپنا ارادہ ترک کردیتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کا ایک ہاتھ سہارے کے لیئے صوفے کے بازو کی چمکیلی سطح کے ساتھ چھوا تھا اور اس پر نشان پڑگیا تھا۔ اپنے دوپٹے کا ایک کونہ پکڑ کر کروہ یہ خود بخود مٹ جانے والا نشان بجھا دیتی ہے اور پھر بیساکھی اپنی بغل میں جما کر نوجوان خادمہ سے مخاطب ہوتی ہے) اصغری!
اصغری: (فوراً متوجہ ہو کر) جی!
بیگم صاحب: (ایک دم یہ محسوس کرکے کہ وہ بھول گئی ہے کہ اس نے اصغری سے تخاطب کیوں کیا تھا) میں کیا کہنے والی تھی؟
اصغری: (مسکراتی ہے) آ پ یہ کہنے و الی تھیں کہ آپ کا اطمینان نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ میں بھی یہی سمجھتی ہوں بیگم صاحب۔۔۔۔۔۔ دلہن بہت خوبصورت ہے۔۔۔۔۔۔ اس کمرے کی تمام سجاوٹیں اس کے سامنے ماند پڑ جائیں گی۔
(وہ آتش دان کے عین درمیان میں ریشمی ڈوریوں سے آویزاں، دلہن کی تصویر کی طرف دیکھتی ہے)
بیگم صاحب: (مسکراتی ہوئی۔۔۔۔۔۔ آتشدان کی طرف آہستہ آہستہ بڑھتی ہے اور اپنی بہو کی تصویر کو غور سے دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔خوش ہوتی ہے۔ لیکن ایک دم گھبرا سی جاتی ہے)اصغری!
اصغری: جی!
بیگم صاحب: صبح سے میری طبیعت۔۔۔۔۔۔ کچھ گھبرا سی رہی ہے۔
اصغر: امجد میاں جو آرہے ہیں اپنی دلہن کے ساتھ۔
بیگم صاحب: (اپنے خیالات میں کھوئی کھوئی) ہاں۔۔۔۔۔۔بس آنے ہی والا ہے۔۔۔۔۔۔کمال موٹر لے گیا ہے اسٹیشن پر۔
اصغری: اگلے سال مجید میاں کی شادی کردیجئے۔۔۔۔۔۔ گھر میں رونق ہو جائے گی۔
بیگم صاحب: انشاء اللہ۔۔۔۔۔۔و ہ بھی انشاء اللہ اسی طرح بخیر و خوبی انجام پائے گی۔۔۔۔۔۔(زیر لب)انشاء اللہ
اصغری: (دلہن کی تصویر کی طرف دیکھتی ہے اور اس کے حُسن سے بہت متاثر ہوتی ہے) اللہ نظربد سے بچائے۔
بیگم صاحب: (غیر ارادی طور پر قریب قریب چیخ کر)اصغری!
اصغری: (سہم کر) جی!
بیگم صاحب: کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔گاڑی کب آتی ہے کراچی سے؟
اصغری: معلوم نہیں بیگم صاحب۔
بیگم صاحب: (ایک خادم سے)دیکھوکریم۔ تم ٹیلی فون کرو اور پوچھو۔۔۔۔۔۔لیکن گاڑی تو کل ہی کی راولپنڈی پہنچ چکی ہے۔۔۔۔۔۔ مجید کا تار جو آیا تھا۔
کریم: جی ہاں!
بیگم صاحب: اور میں نے کمال کو کس اسٹیشن پر بھیجا ہے۔۔۔۔۔۔(گھبرا کر) خُدا معلوم میرے دماغ کو کیا ہوگیاہے۔۔۔۔۔۔امجد میاں کو رات راولپنڈی ٹھہرنا تھا۔۔۔۔۔۔اپنے دوست سعید کے پاس۔۔۔۔۔۔ اور وہ تو میرا خیال ہے اب وہاں سے چل بھی چکے ہوں گے۔
(دوسرے خادم سے) غلام محمد؟
غلام محمد: جی؟
بیگم صاحب: تم دیکھو کمال کہاں ہے۔۔۔۔۔۔ موٹر کہاں لے گیا ہے؟
غلام محمد: بہت اچھا!
(چلا جاتا ہے)
بیگم صاحب: (اصغری کے کاندھے کا سہارا لے کر) آج صبح سے میری طبیعت ٹھیک نہیں۔۔۔۔۔۔ چلنے پھرنے سے معذور نہ ہوتی۔۔۔۔۔۔ اس کم بخت ڈاکٹر ہدایت اللہ نے مجھے منع نہ کیا ہوتا تو میں دلہن کو ساتھ لاتی(دُورسے ٹیلی فون کی گھنٹی کی آواز سنائی دیتی ہے) میرا خیال ہے، شاید امجد میاں کے دوست کا ٹیلیفون ہے کہ وہ چل پڑے، جاؤ اصغری۔۔۔۔۔۔بھاگ کے جاؤ۔
(اصغری دوڑی باہر جاتی ہے)
بیگم صاحب: (کریم سے۔۔۔۔۔۔ اپنی افسردگی دُور کرنے کی خاطر)بس اب آتے ہی ہوں گے امجد میاں۔
کریم: اللہ خیر خیریت سے لائے۔
بیگم صاحب: (قریب قریب چیخ کر) کیا مطلب ہے تمہارا۔
کریم: (ڈر کر) جی یہی کہ۔۔۔۔۔۔جی یہی۔۔۔۔۔۔
(اصغری کی چیخیں سُنائی دیتی ہیں’’بیگم صاحب،بیگم صاحب‘‘)
بیگم صاحب: (سراسیمہ ہوکر) کیوں کیاہوا؟
(اصغری سخت اضطراب کی حالت میں اندر داخل ہوتی ہے)
اصغری: بیگم صاحب۔۔۔۔۔۔بیگم صاحب
بیگم صاحب: (بیساکھیوں کو دونوں ہاتھوں سے مضبوط پکڑکر) کیا ہے؟
اصغری: جی۔۔۔۔۔۔مجید میاں کا ٹیلیفون آیا ہے کہ گاڑی۔۔۔۔۔۔گاڑی ٹکرا گئی ہے۔
بیگم صاحب: (بیساکھیوں پرہاتھوں کی گرفت اور زیادہ مضبوط ہو جاتی ہے) پھر؟
اصغر: مجید میاں اور ان کی دلہن دونوں زخمی ہوئے ہیں اور ہسپتال میں پڑے ہیں۔
بیگم صاحب: (ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ بیساکھیاں بغل سے گرپڑتی ہیں۔ ایک لحظے کیلئے وہ یوں کھڑی رہتی ہے جیسے پتھر کا بت۔۔۔۔۔۔ پھر اس میں تھوڑی سی جنبش ہوتی ہے۔ اور دروازے کی جانب بڑھتی ہے)کمال سے کہو، موٹر نکالے۔۔۔۔۔۔ ہم راولپنڈی جارہے ہیں۔
(بیگم دروازے کی جانب بڑھ رہی ہے۔۔۔۔۔۔غلام محمد اور اصغری دونوں حیرت زدہ ہیں۔ اصغری زور سے چیختی ہے۔۔۔۔۔۔بیگم پلٹ کر اس کی طرف دیکھتی ہے)
بیگم صاحب: کیا ہے؟
اصغری: آپ۔۔۔۔۔۔آپ چل رہی ہیں۔۔۔۔۔۔چل سکتی ہیں۔
بیگم صاحب: میں؟ اپنی بغلوں میں بیساکھیوں کی عدم موجودگی کا احساس کرتے ہوئے)میں؟۔۔۔میں کیسے چل سکتی ہوں؟
(ایک دم چکراتی ہے اور فرش پرگر کر بیہوش ہو جاتی ہے)
اصغری: (بیگم کے پاس جاتے ہوئے، غلام محمد سے) غلام محمد جاؤ ڈاکٹر صاحب کو ٹیلیفون کرو۔
(غلام محمد چلا جاتا ہے۔ اصغری، بیگم کو ہوش میں لانے کی کوشش کرتی ہے)
۔۔۔۔۔۔پردہ۔۔۔۔۔۔
دوسرا منظر
(وہی کمرہ جو پہلے منظر میں ہے۔۔۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں جو سازوسامان پہلے پڑا تھا۔ اب اپنا نیا نویلا پن کھو چکا ہے۔ اب ہر چیز دیر کی استعمال شدہ معلوم ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔صبح کا وقت ہے۔ کھڑکیوں کے ریشمی پردے صبح کی ہلکی پھلکی ہوا سے سرسرارہے ہیں۔۔۔۔۔۔دائیں ہاتھ کی ساگوان کی مسہری پر دلہن سعیدہ کمبل اوڑھے لیٹی ہے۔۔۔۔۔۔ شیشے کی تپائی پرپڑی ہوئی ننھے ٹائم پیس جس میں نو بجے ہیں، لرزنا شروع کردیتی ہے۔۔۔۔۔۔ہلکی سی گھنٹی کی آواز پیدا ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ کمبلوں میں جنبش پیدا ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ سعیدہ کروٹ بدلتی ہے اور آنکھیں کھولتی ہے۔ جھک کر ننھی ٹائم پیس کی طرف دیکھتی ہے اور مسکراتی ہے۔ ایسا کرتے ہوئے اس کے خوبصورت چہرے پر چھائی ہوئی گھنی پلکیں پھڑپھڑاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ کروٹ بدل کر وہ بستر میں تکیوں کا سہارا لے کر ذرا اوپر اٹھ آتی ہے اور باہر حد نظر تک پھیلی ہوئی پہاڑیوں کا دلکش منظر دیکھ کر بچوں کی سی مسرت محسوس کرتی ہے۔۔۔۔۔۔ پھر ایک دم ٹانگیں ہلا کر کمبل اوپر سے ہٹاتی ہے اور اچک کر مسہری سے اُترتی ہے اور کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر دیکھنا شروع کردیتی ہے۔۔۔۔۔۔ کسی خوش الحان پرندے کی آواز سُنائی دے رہی ہے۔۔۔۔۔۔ سعیدہ اپنے خیالوں میں محو ہے۔ وہ جوان ہے۔ شب خوابی کا ڈھیلا ڈھالا ریشمی لباس بھی جو اس کے بدن سے دُور دُور اپنی حریری دنیا الگ بسائے ہے، اس کے خوبصورت خطوط سے غافل نہیں۔۔۔۔۔۔اور خود سعیدہ کا ادراک بھی۔۔۔۔۔۔اس کا سراپا حسین و جمیل ہے اور اپنے حسن و جمال سے آگاہ۔۔۔۔۔۔اصغری کی کرخت آواز، پرندے کی خوش الحانی کا تقابل پیش کرتی ہے۔ سعیدہ چونکتی ہے)
سعیدہ: (نگاہوں ہی نگاہوں میں’’کیا ہے؟‘‘ پوچھتی ہے)
اصغری: مجید میاں ابھی ابھی ہسپتال سے آئے ہیں۔ کہتے تھے، جاکے دیکھو، اب جاگ گئیں یا نہیں؟
سعیدہ: کیا خبر لائے ہیں؟
اصغری: میں انہیں بھیجتی ہوں۔
(اصغری چلی جاتی ہے۔ سعیدہ کھڑکی کے پاس سے ہٹ کر سنگھار میز کے پاس آتی ہے۔ آئینے میں ایک لحظے کے لیئے اپنے آپ کا جائزہ لیتی ہے۔ دونوں ہاتھوں سے اپنے بکھرے ہوئے بال سرسری طور پر ٹھیک کرکے مسہری کی طرف آہستہ آہستہ بڑھتی ہے۔ مسہری کے سرہانے اس کا جارجٹ کا سفید دوپٹہ لٹک رہا ہے۔ اسے اتارتی ہے اور بڑی بے توجہی سے اپنے کاندھوں پرڈال لیتی ہے۔۔۔۔۔۔ باہر سے بوٹوں کی چرمی آواز آتی ہے، خفیف سے رد عمل کے ساتھ سعیدہ دروازے کی جانب دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔ مجید۔۔۔۔۔۔سانولے رنگ کا، متوسط قد نوجوان، جو مضبوط ہاتھ پاؤں رکھتا ہے اور جس کے چہرے کے خطوط عمر کے مقابلے میں زیادہ پختہ اور منجھے ہوئے ہیں، اندر داخل ہوتا ہے)
مجید: سلام بھابی جان!
سعیدہ: سلام
مجید: (صوفے کے پاس آکر رُکتے ہوئے)طبیعت کیسی ہے آپ کی؟
سعیدہ: (بے دلی سے)ٹھیک ہے(صوفے پر بیٹھ جاتی ہے) سُنائیے کیا خبر لائے راولپنڈی سے؟
مجید: (سعیدہ کے سامنے آکر)کوئی خاص نہیں(آدھی سی آہ بھر کر) اب انہیں لے آئیں گے یہاں۔
سعیدہ: کیوں؟
مجید: وہ تنگ آگئے ہیں(ایک مونڈھا گھسیٹ کر اس پر بیٹھتے ہوئے) ان کی جگہ میں ہوتا تو۔۔۔۔۔۔ بہت ممکن ہے میں نے خود کشی کرلی ہوتی۔
سعیدہ: (اُٹھ کرکھڑکی کی طرف جاتے ہوئے )کیا معلوم تھا کہ میری قسمت میں یہ لکھا ہے۔۔۔۔۔۔ اتنے آدمی مرے۔۔۔۔۔۔ میں بھی ساتھ ہی مر گئی ہوتی۔
مجید: مگر یہ اللہ کو منظور نہیں تھا۔
سعیدہ: (کھڑکی سے باہر پہاڑیوں کا منظر دیکھتی ہے) ہاں، یہ اللہ کو منظور نہیں تھا۔۔۔۔۔۔اللہ کو یہی منظور تھا کہ میری ٹانگ پرہلکی سی خراش آئے پر میری ساری زندگی زخموں سے چور چور ہو جائے( آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگتے ہیں۔۔۔۔۔۔ سفید دوپٹے سے وہ انہیں پرنزاکت طریقے سے ہولے ہولے خشک کرتی ہے) اللہ کو یہ منظور تھا کہ میرے سہاگ کی کمر ٹوٹ جائے اور میں ساری عمر ہوا میں کٹے ہوئے پتنگ کی طرح ڈولتی رہوں۔
(سسکیاں لیتی ہے)
مجید: (اُٹھتا ہے) بھابھی جان حوصلے سے کام لینا چاہیئے۔۔۔۔۔۔کیاپتا ہے وہ ٹھیک ہو جائیں۔
سعیدہ: (سرزنش کے طور پر)مجید، کم از کم تم تو مجھے دھوکا دینے کی کوشش نہ کرو۔۔۔۔۔۔چھ مہینے ہوگئے ہیں انہیں ہسپتال کی چارپائی کے ساتھ لگے ہوئے۔۔۔۔۔۔ڈاکٹروں کا جو فیصلہ ہے میں اسے اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتے۔۔۔۔۔۔ان کی دونوں ٹانگیں بیکار ہو چکی ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔لیکن، میں ایک بات مانتی ہوں کہ ان میں بہت حوصلہ ہے۔۔۔۔۔۔میں جب بھی ان کے پاس گئی۔ انہوں نے مجھے پاس بٹھا کر کہا!سعیدہ! کچھ فکر نہ کرو، میں بہت جلد تندرست ہو جاؤں گا۔۔۔ اور پھر میں تمہیں ان پہاڑیوں کی سیر کراؤں گا جن کا ذکر تم کراچی میں اتنی بار میرے منہ سے سُن چکی ہو۔۔۔۔۔۔مجھے ان پہاڑیوں سے پیار ہے۔۔۔۔۔۔اتنا پیار ہے کہ تم ان کے متعلق اور سنو گی تو رشک کرو گی۔۔۔۔۔۔اور وہ مجھے حوصلہ دینے لگتے کہ سعیدہ دنیا حادثوں کا دوسرا نام ہے۔۔۔۔۔۔میں تو خدا کا شکر کرتا ہوں کہ میری جان نہیں گئی۔۔۔ورنہ۔۔۔۔۔۔ پھر وہ ایسی بات کہتے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔
مجید: کیا؟
سعیدہ: (نمناک آنکھوں سے خلا میں دیکھتے ہوئے) کہ تم۔۔۔۔۔۔کہ تم میرے بعد کسی اور کی ہو جاؤ گی۔۔۔۔۔۔(کانپ جاتی ہے)۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔ ایسی باتیں کیوں سوچتے ہیں مجید؟
مجید: معلوم نہیں۔
سعیدہ: تمہیں معلوم ہونا چا ہیئے(آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتی صوفے پربیٹھ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔دوپٹہ ڈھلک آتا ہے۔۔۔۔۔۔ حریری لباس میں اس کا متلاطم سینہ ریشمی اتار چڑھاؤ پیدا کرتا ہے) تم مرد ہو۔۔۔۔۔۔ تم اس کے بھائی ہو۔۔۔۔۔۔ اگر اس حادثے کے تم شکار ہوتے۔۔۔۔۔۔تو؟
مجید: میں کبھی ایسی باتیں نہ سوچتا جو امجد بھائی سوچتے ہیں؟
سعیدہ: کیوں؟
مجید: ہم دونوں مرد ہیں۔۔۔۔۔۔دونوں بھائی ہیں۔۔۔۔۔۔مگر دل اور دماغ کے اعتبار سے ہم دونوں بہت مختلف ہیں۔
سعیدہ: (بڑبڑاتی ہے) دل۔۔۔اور دماغ۔
(اصغری داخل ہوتی ہے)
اصغری: مجید میاں، آپ کو بیگم صاحبہ بُلاتے ہیں۔
مجید: چلو، میں آتا ہوں۔
اصغری: انہوں نے کہا ہے جلدی آئیے۔
مجید: اچھا۔۔۔۔۔۔(سعیدہ کی طرف دیکھ کرمیں ابھی آتا ہوں)
(چلا جاتا ہے)
اصغری: (فرش پر بچھے ہوئے قالین پرسعیدہ کے قدموں میں بیٹھ جاتی ہے اور اس کے پاؤں کی انگلیاں چٹخانا چاہتی ہے)
سعیدہ: (پاؤں ایک طرف کھینچ کر) جانے دو اصغری۔
اصغری: (پاؤں سے قریب قریب لپٹ کر) نہیں دلہن بیگم۔
(انگلیاں چٹخانا شروع کردیتی ہے)۔۔۔۔۔۔کیا خبرلائے ہیں مجید میاں۔
سعیدہ: کہتے تھے، وہ یہاں آنا چاہتے ہیں۔
اصغری: یہ تو بڑی خوشخبری کی بات ہے۔
سعیدہ: (دُکھ کے ساتھ)ہاں!
اصغری: پر بیگم صاحب تو بہت ناراص ہورہے تھے کہ اتنی دیر کیوں لگا دی مجید میاں نے۔
سعیدہ: کہاں؟
اصغری: یہاں۔۔۔۔۔۔ آپ کے پاس۔
سعیدہ: میرے پاس؟۔۔۔۔۔۔ کیا کہتی تھیں بیگم صاحب۔
اصغری: کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ ان کا مزاج آج کل بہت چڑچڑا سا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ انہیں کوئی بات اچھی نہیں لگتی۔۔۔۔۔۔انہیں۔۔۔۔۔۔امجد میاں کا اتنا دکھ نہیں جتنا آپ کا ہے۔۔۔ ہر وقت آپ ہی کے متعلق سوچتی رہتی ہیں۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔امجد میاں ٹھیک ہوگئے ہیں نا؟
سعیدہ: (چڑ کر، اپنا پاؤں ہٹا کر اُٹھتے ہوئے)ہاں ٹھیک ہوگئے ہیں۔
(بیگم کمرے میں داخل ہوتی ہے۔ اصغری اُٹھ کھڑی ہوتی ہے)
سعیدہ: سلام خالہ جان!
بیگم صاحب: سلام بیٹا۔۔۔۔۔۔جیتی رہو(پاس آکر سعیدہ کے سر پر پیار کا ہاتھ پھیرتی ہے) تمہیں معلوم ہوگیا مجید سے کہ۔۔۔۔۔۔
سعیدہ: جی ہاں!
بیگم صاحب: غریب تنگ آگیا ہے وہاں ہسپتال میں۔۔۔(اصغری کی طرف دیکھ کر)اصغری تم جاؤ۔
(اصغری چلی جاتی ہے)
بیگم صاحب: اس کی۔۔۔۔۔۔اس کی خواہش ہے کہ وہ تمہارے پاس رہے۔۔۔۔۔۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اگر مجھے مرنا ہی ہے تو میری سعیدہ میری نظروں کے سامنے ہونی چاہیئے۔۔۔۔۔۔
سعیدہ: (آنکھوں میں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ بیگم کے گلے سے لگ جاتی ہے)
بیگم صاحب: (آنکھوں سے آنسو رواں ہیں)وہ۔۔۔۔۔۔وہ تم سے بے اندازہ محبت کرتا ہے۔۔۔لیکن۔۔۔ لیکن اس نے کہا تھا، تم سے پوچھ لیا جائے کہ تمہیں اس کے یہاں آکر رہنے میں کوئی اعتراض تو نہیں۔
سعیدہ: اعتراض!۔۔۔۔۔۔
بیگم صاحب: ہاں بیٹا۔۔۔۔۔۔ہوسکتا ہے، یوں تمہارے دکھ میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
سعیدہ: وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں۔۔۔۔۔۔ خالہ جان وہ ایسا کیوں سوچتے ہیں۔
بیگم صاحب: بیٹا، وہ کچھ ایسے ہی دل و دماغ کا آدمی ہے۔۔۔۔۔۔ اس کو دوسروں کا ہمیشہ خیال رہتا ہے۔
سعیدہ: آئیں۔۔۔۔۔۔ کیوں نہ آئیں(لہجے میں چیخ سی پیدا ہو جاتی ہے) وہ ایسی باتیں نہ کیا کریں۔
بیگم صاحب: ڈاکٹروں نے کہا ہے، اگر وہ خوش رہے تو انشاء اللہ ایک دو مہینے میں بیساکھیوں کی مدد سے چل پھر سکے گا۔۔۔(ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے) بیساکھیاں۔۔۔۔۔۔ جو اس کے گاڑی کے حادثے کی خبرسُن کر میری زندگی سے الگ ہوگئی تھیں۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم ہوتا کہ یہ اس کی زندگی میں داخل ہونے والی ہیں تو میں ان کو مضبوطی سے پکڑ کے رکھتی۔۔۔۔۔۔ مگر بیٹا اس منجدھار میں جسے زندگی کہتے ہیں، مضبوط سے مضبوط کشتی لے ڈوبتی ہے اور ایک معمولی تنکا ہی کنارے لگا دیتاہے۔۔۔۔۔۔(توقف کے بعد) سعیدہ بیٹا! امجد نے مجھ سے ایک اور بات تم سے پوچھنے کو کہا تھا؟
سعیدہ: کیا خالہ جان؟
بیگم صاحب: کیا تم اس سے محبت کرو گی؟
سعیدہ: (بوکھلا کر)محبت!۔۔۔۔۔۔
بیگم صاحب: (سعیدہ کے سر پرہاتھ پھیرتی ہے) میں تمہیں زیادہ پریشان نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔۔
(چلی جاتی ہے)
سعیدہ: (دوپٹے سے اپنے آنسو خشک کرتے ہوئے بڑبڑاتی ہے)محبت۔۔۔۔۔۔ محبت؟۔۔۔۔۔۔ دل و دماغ(آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی، آتش دان کے عین وسط میں ریشمی ڈوریوں سے لٹکی ہوئی اپنی تصویر کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے) بتا۔۔۔۔۔۔کیا تو اس سے محبت کرئے گی؟
(ٹرے میں رکھی ہوئی پیالیوں کی آواز آتی ہے۔۔۔۔۔۔ اصغری ناشتہ لیئے اندر داخل ہوتی ہے اور پہیوں والی تپائی صوفے کے آگے لے جاتی ہے اور اس پر ناشتہ چن دیتی ہے)
اصغری: دلہن بیگم، امجد میاں سے محبت نہیں کریں گی تو اور کون کرئے گی؟
سعیدہ: (ایک دم چونکتی ہے) کیا کہا؟
اصغری: جی کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ ایسے ہی اپنے آپ سے باتیں کررہی تھی۔۔۔۔۔۔ ناشتہ کرلیجئے۔
سعیدہ: تم جاؤ۔
اصغری: جی اچھا۔
(اصغری، ایک نظر سعیدہ کو اور ایک نظر اس کی تصویر کو دیکھتی باہر چلی جاتی ہے۔ سعیدہ، آہستہ آہستہ سوچ میں مستغرق، صوفے کی طرف بڑھتی ہے اور مسہری پر لیٹ جاتی ہے)
سعیدہ: (چھت کی طرف دیکھتے ہوئے بڑبڑاتی ہے) دلہن بیگم، امجد میاں سے محبت نہیں کریں گی تو اور کون کرے گی۔۔۔۔۔۔(اونچی آواز میں) اور کون کرے گی؟۔۔۔۔۔۔اور کون کرسکتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔(پردہ)۔۔۔۔۔۔
تیسرا منظر
(نگارولا سے ملحقہ باغیچہ۔۔۔۔۔۔وسط میں پست قد ترشی ہوئی جھاڑیوں کے درمیان فوارہ ہے جس میں سے پانی کی پھوار دھڑک دھڑک کر باہر نکل رہی ہے۔ دھوپ کھلی ہے۔ آسمان نکھرا ہوا ہے۔ فضا میں عجیب سا کنوارپن ہے۔۔۔۔۔۔ بے حجاب۔ ہر ذرّہ نظارے کی دعوت لیئے گویا قبولیت کا منتظر ہے۔۔۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے۔ ہوا چلتے چلتے ٹھہر سی گئی ہے کہ باغ کی بیلیں پھر سے اپنی زلفیں سنوار لیں، پھول اپنے گالوں کی سُرخی درست کرلیں، اور بھونروں کو جن کلیوں کا منہ چومنا ہے بے خوف و خطر چوم لیں۔۔۔۔۔۔اس فضا میں گھاس کے ہموار قالین پر کرسیاں بچھی ہیں۔ ایک میں سعیدہ گلابی لباس میں ملبوس خود اپنا ہی عکس بنی بیٹھی ہے۔دھوپ کی حدّت سے اس کے غازے کے ہلکے سے غبار سے اس کی اپنی گلابیاں، سُرخیاں بن بن کر باہر نکل رہیں۔ دوسری کرسی پہ مجیدہے جو ہو لے ہولے سگریٹ کے کش لگا کر دُھوئیں کے نیلے نیلے چھلے منہ سے نکال رہا ہے اس کا چہرہ مطمئن ہے۔ سامنے امجد ہے۔۔۔۔۔۔ا پاہجوں کی کرسی پہ۔۔۔۔۔۔ اس کے چہرے پر اپاہجوں کی کرسی والی کیفیت ہے جو کسی اور کی مدد کے بغیر نہیں چل سکتی۔۔۔۔۔۔ اس کارنگ بہت زرد ہے مگر اسکی آنکھوں میں چمک ہے جو سعیدہ کے حسن وجمال کی بازگشت ہے)
امجد: (اپنے دائیں بائیں دیکھ کر) آج موسم کتنا دلفریب ہے۔
سعیدہ: (فوراً متوجہ ہو کر) جی ہاں۔
امجد: مجید،جاؤ۔سعیدہ کو گھما لاؤ۔۔۔۔۔۔ان پہاڑیوں کی سیر کرالاؤ۔۔۔۔۔۔(پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہتا ہے) افسوس ہے، مجھ سے مڑا نہیں جاتا۔۔۔۔۔۔ مجید اٹھو۔۔۔۔۔۔ میری کرسی گھما کر ادھر کردو۔۔۔۔۔۔ یہ منظر میری آنکھوں کے سامنے ہونا چاہیئے۔
(مجید اٹھتا ہے۔ لیکن سعیدہ اس سے پہلے اُٹھ کر امجد کی کرسی کا رخ پھیر دیتی ہے۔ اب تینوں کا منہ پہاڑیوں کی طرف ہے جو دُھوپ میں حد نگاہ تک اپنے منہ دھو رہی ہیں)
امجد: (پہاڑوں کے منظر کو اپنی نگاہوں سے پیتے ہوئے) سعیدہ، یہی ہیں وہ پہاڑ یاں جن سے مجھے پیار ہے۔۔۔۔۔۔اتنا پیار کہ میں بیان نہیں کرسکتا۔۔۔۔۔۔(مجید سے) جاؤ، مجید، سعیدہ کو ساتھ لے جاؤ اور ان کو سیرکراؤ(سعیدہ سے) سعیدہ، جب تم ان پر چڑھتے چڑھتے ہانپنے لگو گی اور تمہاری سانس رکنے لگے تو تمہیں ایسا محسوس ہوگا کہ اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی لذّت نہیں۔۔۔۔۔۔میں مجید کو زبردستی ساتھ لے جاتا تھا مگر یہ ایک چڑھائی کے بعد ہی ہمت ہار دیتا تھا۔۔۔۔۔۔ مجھ سے کہتا تھا، بھائی جان مجھے آپ کا یہ شغل پسند نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ کیا کہ آدمی بے کار میں ہانپ ہانپ کر بیہوش ہو جائے(ہنستا ہے) پہاڑیوں اور ان کو سرکرنے کا حُسن اس کی سمجھ میں کبھی نہیں آئے گا۔ کیوں سعیدہ؟
سعیدہ: (مسکرا کر) جی ہاں۔
امجد: (مجید سے) جاؤ یار۔۔۔۔۔۔ سعیدہ کو لے جاؤ۔۔۔۔۔۔ کبھی کام بھی کیا کرو۔
مجید: (سعیدہ سے) چلیئے بھابھی جان۔۔۔۔۔۔ مگر میں شرط لگاتا ہوں، آج تو یہ چلی جائیں گی۔ لیکن پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کریں گی۔
سعیدہ: نہیں، نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ آپ کیوں کر کہتے ہیں؟
امجد: اس لیئے کہ یہ اور دل و دماغ کا آدمی ہے۔
سعیدہ: دل و دماغ؟۔۔۔۔۔۔ یہ کیا بلا ہے دل و دماغ؟
مجید: آپ کو ایک ہی پہاڑی چڑھنے سے معلوم ہو جائے گا۔
امجد: (ہنستا ہے)تم بکتے ہو مجید۔۔۔۔۔۔سعیدہ کی زندگی کے سامنے تو ایک پہاڑ ہے۔۔۔۔۔۔اگر یہ ایک معمولی سی پہاڑی کی چڑھائی سے اکتا گئی تو۔۔۔۔۔۔
سعیدہ: چلیئے مجید میاں!
مجید: چلیئے!
(دونوں چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔امجد مسکراتا ہے۔۔۔۔۔۔اصغری داخل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔اس کے ہاتھ میں پلیٹ ہے جس میں چھلے اور کٹے ہوئے سیب ہیں۔ وہ معنی خیز نظروں سے مجید اور سعیدہ کو دیکھتی امجد کی جانب آتی ہے اوراس سے مخاطب ہوتی ہے)
اصغری: تھوڑے سیب کھالیجئے۔
امجد: (جو سعیدہ اور مجید کو ڈھلوانوں میں اُترتے دیکھ رہا ہے) کھالوں گا۔
اصغری: (انہی کی طرف دیکھ کر) آج دلہن بیگم کتنی خوبصورت دکھائی دے رہی ہیں۔
امجد: (ایک دم پلٹ کر اصغری کو دیکھتے ہوئے) دکھائی دے رہی ہیں؟
اصغری: (خفیف سی بوکھلاہٹ کے ساتھ)جی۔۔۔۔۔۔جی ہاں!
امجد: (پھر سعیدہ اور مجید کو دیکھتے ہوئے) خوبصورت ہے۔ خوبصورت دکھائی نہیں دیتی۔۔۔۔۔۔ہونے اور دکھائی دینے میں زمین و آسمان کا فرق ہے اصغری۔
اصغری: جی ہاں۔۔۔۔۔۔یہ تو ہے۔
امجد: لاؤ سیب۔
اصغری: (پلیٹ بڑھاتے ہوئے)حاضر ہیں۔۔۔۔۔۔ پرچھلے ہوئے ہیں۔
امجد: تمہارا مطلب؟
اصغری: چھلی ہوئی چیز سے کوئی بھی دھوکا کھا سکتا ہے(ہنس کر)۔۔۔۔۔۔اس کے سرخ سرخ گال تو چھری سے اُتر چکے ہیں۔
امجد: (ہنستا ہے) اصغری! تم اب بہت شیطان ہوگئی ہو۔
اصغری: (سنجیدگی سے)شیطان؟۔۔۔۔۔۔ امجد میاں۔۔۔۔۔۔ آپ نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ شیطان خدا کا سب سے بڑا فرشتہ تھا،جس نے آدم۔۔۔۔۔۔ یعنی مٹی کے پتلے کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔
امجد: ہاں ہاں۔۔۔۔۔۔
اصغری: اور فرشتوں کے اس ہیڈ ماسٹر کو اس کی سزا دی گئی تھی۔۔۔
امجد: درست ہے۔
اصغری: تو یہ بھی درست ہے۔
امجد: کیا؟
اصغری: کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔درست آخر ہوتا کیا ہے؟ وہی جسے آپ درست سمجھ لیں، یا درست سمجھنے کی کوشش کریں یا وہ غلطی جو آپ ایک دفعہ اس لیئے کرلیں کہ آئندہ درست ہوتی رہے گی۔ یا وہ درستی جسے آپ غلطی میں تبدیل کرکے یہ سمجھتے ہیں کہ آپ پھر درست کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ سب بکواس ہے۔۔۔۔۔۔میں ایک موٹی عقل کی عورت ہوں امجد میاں۔
امجد: تم آج کیسی باتیں کررہی ہو؟
اصغری: میں ایک موٹی عقل کی عورت ہوں۔۔۔۔۔۔لیکن ایک عورت ہوں امجد میاں۔
امجد: میں پھر نہیں سمجھا۔
اصغری: (سیب کی ایک قاش اُٹھاتی ہے اور امجدکے منہ کے پاس لے جاتی ہے) آپ سیب کھائیے۔
امجد: (سیب کی قاش دانتوں میں لاتے ہوئے) تم پہلے کبھی ایسی باتیں نہیں کیا کرتی تھیں۔
اصغری: آج موسم ہی کچھ ایسا دلفریب ہے۔
امجد: کیا نہیں ہے؟
اصغری: (سیب کی دوسری قاش اٹھا کر) کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ لیجئے ایک اور قاش۔۔۔
(دوسری قاش امجد کے کھلے ہوئے منہ میں ڈالتی ہے)
امجد: (سیب کھاتے ہوئے کچھ توقف کے بعد)اصغری!
اصغری: (جو پہاڑیوں کا منظر دیکھنے میں محو تھی۔ چونک کر) جی؟
امجد: تمہاری شادی کردیں؟
اصغری: شادی؟
امجد: ہاں۔۔۔۔۔۔ اب تمہاری شادی ہوجانی چاہیئے۔
اصغری: کیوں امجد میاں؟
امجد: شادی بڑی اچھی چیز ہے۔۔۔۔۔۔ دنیا میں ہر شے کی شادی ہو جانی چاہیئے۔۔۔۔۔۔زندگی میں شادی سے بڑھ کر اور کوئی خوشی نہیں ۔۔۔۔۔۔میں امی جان سے کہوں گا کہ اصغری کی جلدی شادی کرد یجیئے۔
اصغری: نہ امجد میاں!
امجد: کیوں؟
اصغری: مجھے ڈر لگتا ہے۔
امجد: کس سے؟
اصغری: (سبزے پر بیٹھ جاتی ہے۔لہجہ فکر مند ہوتا ہے) شادی سے
امجد: (ہنستا ہے) پگلی!
اصغری: سچ کہتی ہوں امجد میاں۔۔۔۔۔۔ مجھے واقعی ڈر لگتا ہے۔۔۔۔۔۔اول تو ایک نوکرانی کی شادی ہی کیا ہے۔ ہوئی ہوئی ۔ نہ ہوئی نہ ہوئی۔۔۔۔۔۔ کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔لیکن ہوگئی تو کہیں ایسا نہ ہو گاڑی پٹڑی سے اُتر جائے اور۔۔۔
امجد: (دکھ کے ساتھ)اصغری؛!
اصغری: (کہے جاتی ہے) گاڑی پٹڑی سے اُتر جائے اور اصغری قیمہ قیمہ ہونے سے بچ جائے۔۔۔۔۔۔ ایک ٹانگ سے لنگڑی، ایک بازوسے لولی اور ایک آنکھ سے اندھی ہو جائے۔۔۔۔۔۔ آدھی اصغری ہو جائے ۔۔۔۔۔۔ آدھی بچ جائے۔۔۔۔۔۔ناامجد میاں۔۔۔۔۔۔ میری شادی کا نام نہ لیجئے۔۔۔۔۔۔ شادی تو ایک سالم چیز ہے۔۔۔۔۔۔آدھی یا چوتھائی چیز کو شادی نہیں کہتے۔
امجد: (سوچتے ہوئے)اصغری!
اصغری: (گھٹی گھٹی آواز میں)جی!
امجد: تم ٹھیک کہتی ہو(آواز میں انتہا درجے کا درد پیدا ہوجاتا ہے) لیکن دیکھو مجھے رنجیدہ نہ کرو۔۔۔۔۔۔ میں خوش رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ اپنی ان دو شکستہ ٹانگوں پر بھی خوش رہنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ مجھے نہ چھیڑو۔۔۔۔۔۔ میرے دل میں درد ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔
اصغری: (امجد کے پاؤں پکڑ لیتی ہے) مجھے معاف کردیجئے امجد میاں( آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں) جانے میں کیا بک گئی ہوں۔۔۔۔۔۔ آپ خوش رہیں۔۔۔۔۔۔ خُدا آپ کو خوش رکھے۔
امجد: (بہادری کے ساتھ)خدا کا نام نہ لو۔۔۔۔۔۔ اگر اس کو مجھے خوش رکھنا ہوتا تو مجھے اس حادثے کا شکار ہی کیوں کرتا۔۔۔۔۔۔ کیا تھا تو مار کر اپنے شکاری تھیلے میں کیوں نہ ڈال لیتا۔۔۔۔۔۔ اس کا نام نہ لو۔۔۔۔۔۔ میری اس کی دوستی ختم ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔مجھے اگر خوش رہنا ہے تو اپنے رہے سہے وجود ہی کے سہارے خوش رہنا ہے۔۔۔۔۔۔ انہی ٹوٹی ہوئی ٹہنیوں پر چند تنکے چن کر مجھے اپنی خوشی کے آشیانے بنانا ہیں۔
اصغری: صرف اپنی خوشی کے؟
امجد: (بہت زیادہ دکھ کے ساتھ) اصغری خدا کے لیئے۔۔۔۔۔۔ تم اتنی کیوں ظالم ہو گئی ہو۔۔۔۔۔۔تمہارے منہ میں اگر زبان پیدا ہوئی ہے تو کیا اسی لیئیکہ تم میرے دکھ میں اضافہ کرو۔۔۔۔۔۔میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ میری مدد کرو۔۔۔۔۔۔ اک اپاہج کی مدد کرو کہ وہ اپنی ٹوٹی ہوئی زندگی جوڑ جاڑ کے چند دن۔۔۔۔۔۔ صرف چند دن گزار لے۔
اصغری: آپ درخواست نہ کیجئے امجد میاں۔۔۔۔۔۔ میرا کلیجہ پھٹتا ہے۔۔۔۔۔۔ آپ مالک ہیں، حکم دے سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔میری زندگی حاضر ہے(اس کے موٹے موٹے آنسو امجد کے سلیپروں پر گرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اُٹھ کھڑی ہوتی ہے اور ایک طرف چلی جاتی ہے)
امجد: (گردن جھکا کر اپنے سلیپروں کی طرف دیکھتا ہے جن پر سے اصغری کے آنسو لڑھک جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ گردن اُٹھا کر اصغری کو دیکھتا ہے جو کہ جاری ہیں)
(کوٹھی کی جانب سے بیگم نمودار ہوتی ہے۔ شال اوڑھے ہاتھ میں زیورات کے ڈبے لیئے وہ امجد کے پاس آتی ہے)
بیگم صاحب: امجد بیٹا۔
امجد: (جلدی سے اپنے پاؤں کمبل میں چھپا کر)جی!
بیگم صاحب: سعیدہ کے لیئیجو زیورات تم نے پسند کیئے ہیں تیار ہو کر آگئے ہیں۔لو۔۔۔
(ڈبے امجد کی گود میں رکھ دیتی ہے)
امجد: (بچوں کے سے اشتیاق سے ہر ڈبہ کھول کر سارے زیورات دیکھتا ہے اور اُبلتی ہوئی خوشی کا اظہار کرتا ہے) بہت اچھے ہیں۔۔۔۔۔۔ بہت عمدہ ہیں۔۔۔۔۔۔ بہت حسین ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن اتنے نہیں جتنی سعیدہ ہے۔۔۔اصغری۔۔۔۔۔۔ اصغری!۔۔۔۔۔۔ادھر آؤ۔
(اصغری جو ایک سرو کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی۔ امجد کے پاس آتی ہے۔ امجد اسے تمام زیورات دکھاتا ہے)
امجد: کہو، کیسے ہیں؟
اصغری: آپ خود کہہ چکے ہیں۔۔۔۔۔۔ حسین ہیں لیکن اتنے نہیں جتنی دلہن بیگم ہیں۔
امجد: (ماں سے) امی جان! کپڑے کب آئیں گے۔
اصغری: کل تک آجائیں گے۔
امجد: اور وہ بائیسکوپ مشین۔۔۔۔۔۔ کیوں نہیں آئی ابھی تک۔
بیگم صاحب: بیٹا۔۔۔۔۔۔مجید آرڈر دے آیا تھا۔ ایک دو روز میں آجائے گی۔
امجد: اچھا(رُک کر) امی جان!
بیگم صاحب: جی بیٹا۔
امجد: کچھ اوربھی منگوانا چاہیئے سعیدہ کے لیئے۔۔۔۔۔۔ میں اسے ایک لحظے کے لیئے بھی اُداس نہیں دیکھنا چاہتا۔۔۔۔۔۔ ہرروز اس کے لیئے کوئی نہ کوئی چیز ضرور ہونی چا ہیئے۔
بیگم صاحب: سب کچھ تمہارے اختیار میں ہے، جو چاہو کرو۔
امجد: اختیار؟(رک کر)ہاں۔۔۔تو۔۔۔امی جان۔
بیگم صاحب: جی!
امجد: کمال کو بھیجئے۔۔۔۔۔۔اسپورٹس کی دکان میں جائے۔۔۔۔۔۔جتنے کھیل اسے مل سکیں لے آئے۔۔۔۔۔۔سعیدہ اور مجید کھیلا کریں گے اور میں دیکھا کروں گا۔۔۔۔۔۔ اور دیکھئے۔۔۔اس سے کہیئے کچھ ایسے کھیل بھی لے آئے، جو میں۔۔۔۔۔۔میں بھی سعیدہ کے ساتھ کھیل سکوں۔
بیگم صاحب: (بے حد متاثر ہو کر امجد کا سر اپنے ہاتھوں میں لے کر) میرے بچے!
(امجد بلک بلک کر رونا شروع کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔اصغری ضبط نہیں کرسکتی اور چیختی ہوئی ایک طرف دوڑ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔بیگم کی آنکھوں سے خاموش آنسو رواں ہیں)
۔۔۔۔۔۔(پردہ)۔۔۔۔۔۔
چوتھا منظر
وہی کمرہ جو پہلے اور دوسرے منظر میں ہے۔۔۔۔۔۔ رات کا وقت فضا بالکل خاموش ہے۔ بڑے بے ڈھنگے طریق پر۔ مسہری پرسعیدہ تین چارگدے تکیوں میں اپنا نیم سنہرے بالوں والا سر دبائے کوئی کتاب پڑھنے میں مشغول ہے۔۔۔۔۔۔نظریں کتاب کے حروف کے بجائے اس کے اپنے دل کی جانب معلوم ہوتی ہیں۔ سینے کے مقام پر کمبل کی سلوٹیں چغلیاں کھا رہی ہیں اور ننھے سے تالاب میں جزر کا نقشہ پیدا ہورہا ہے۔۔۔۔۔۔ بائیں طرف لوہے کی ہسپتالوں جیسی چارپائی بچھی ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ اپاہجوں والی کرسی میں امجد بیٹھا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کتاب ہے۔وہ اسے یوں پکڑے ہے جیسے کوئی شیشے کی چیز ہے۔ اس کی نظریں پریشان ہیں۔ کتاب کے حروف سے اُٹھ کر کبھی وہ سعیدہ کے ہاتھوں پر جا بیٹھتی ہے۔ کبھی اس کے سنہرے بالوں والے سر پر جو تکیوں میں دھنسا ہے۔۔۔۔۔۔آخر اس سے نہیں رہ جاتا۔۔۔۔۔۔ کتاب بند کرکے اپنی گود میں رکھتاہے اور بڑی آہستگی کے ساتھ سعیدہ سے مخاطب ہوتا ہے)
امجد: سعیدہ!
سعیدہ: (چونک کر)جی؟
امجد: میرا خیال ہے، اب سو جاؤ۔
سعیدہ: (کروٹ بدل کر امجد کو دیکھتے ہوئے) آپ سونا چاہتے ہیں تو میں غُلام محمد اور کریم کو بلاؤں کہ وہ آپ کو لٹا دیں۔
امجد: (کھوکھلی آواز میں) لٹا دیں۔۔۔۔۔۔نہیں سعیدہ۔۔۔۔۔۔ میں لیٹ لیٹ کے تھک گیا ہوں۔۔۔۔۔۔آج یہیں کرسی پرسو جاؤں گا۔۔۔۔۔۔تمہیں تکلیف نہ ہو تو اُٹھ کے یہ بتی بجھا دو اور سبز بتی روشن کردو۔
سعیدہ: (اُٹھتی ہے) آپ بار بار میری تکلیف کا ذکر کیوں کرتے ہیں۔
امجد: میں خود جو تکلیف میں ہوں۔
سعیدہ: (چڑ کر) مجھے اس کا احساس ہے امجد صاحب۔۔۔۔۔۔ مگر بتائیے میں آپ کے لیئے کیا کرسکتی ہوں۔۔۔۔۔۔ مجھ سے جو ہو سکتا ہے، میں کرنے کے لیئے تیار ہوں۔۔۔۔۔۔مگر مصیبت یہ ہے کہ آپ کو ہر وقت میری تکلیف کی پڑی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
امجد: سعیدہ، تم بہت اچھی ہو۔
(سعیدہ بتی اوف کرتی ہے۔۔۔۔۔۔ چند لمحات کے لیئے اندھیرا چھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ پھر کمرے کی ہر چیز ہلکی ہلکی سبزروشنی میں نہانا شروع کردیتی ہے)
سعیدہ: کاش میں اچھی ہوتی۔۔۔۔۔۔ اچھی ہوسکتی(صوفے پر بیٹھ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ سینے سے اس کا اضطراب ظاہر ہے)
امجد: اس سے زیادہ تم اور کیا اچھی ہو سکتی ہو سعیدہ۔
سعیدہ: (تیزی سے) جی نہیں۔۔۔۔۔۔آپ نہیں جانتے۔
امجد: (بہت ہی ملائم آواز میں)اگر کسی وجہ سے میں نے تمہیں ناراض کردیا ہے تو مجھے معاف کردو۔
سعیدہ: (امجد کی طرف دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔ اٹھتی ہے اور مسکراتی ہوئی اپنی لمبی لمبی انگلیوں سے امجد کے بالوں میں کنگھی کرتی ہے) سچ تو یہ ہے امجد صاحب کہ میں آپ کے لائق نہیں ہوں۔
امجد: (سعیدہ کا ہاتھ پکڑ کر)۔۔۔۔۔۔یہ تمہارے دل کی اچھائی ہے اگر تم ایسا سمجھتی ہو، ورنہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
سعیدہ: (بالوں میں کنگھی کرتے ہوئے) سو جائیے۔۔۔۔۔۔ کئی راتوں سے آپ جاگ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔بلکہ جب سے یہاں آئے ہیں، ایک لحظے کے لیئے بھی آپ کی آنکھ نہیں لگی۔
امجد: مجھے،نیند نہیں آتی سعیدہ۔
سعیدہ: کیوں؟
امجد: معلوم نہیں کیوں۔۔۔۔۔۔بس ایسا لگتا ہے کہ نیند کبھی آئی تھی نہ آئے گی۔۔۔۔۔۔میں تو وہ راتیں بھی یاد کرنا بھول گیا ہوں جب سویا کرتا تھا۔
سعیدہ: کاش، میں آپ کو اپنی نیند دے سکتی۔
امجد: نہیں سعیدہ۔۔۔۔۔۔ میں اتنی عزیز چیز تم سے نہیں چھیننا چاہتا۔۔۔۔۔۔ یہ تمہاری آنکھوں ہی کے لیئے سلامت رہے جو نیند میں اور بھی زیادہ خوبصورت ہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔۔جاؤ، اب سو جاؤ۔
سعیدہ: میں کم بخت تو سو ہی جاؤں گی۔
امجد: ایسا نہ کہو۔۔۔۔۔۔خُدا تمہارے بخت بلند کرئے۔۔۔۔۔۔ جاؤ سو جاؤ۔
سعیدہ: (چڑ کر) آپ کیوں میرے ساتھ اتنی نرمی سے پیش آتے ہیں۔۔۔۔۔۔ امجد صاحب، مجھے اس سے بڑی وحشت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم آپکی یہ نرمی، یہ حلیمی، یہ انکسار، ایک دن مجھے پاگل بنا دے گا۔
(جھنجھلا کر تیزی سے مسہری کی طرف بڑھتی ہے اور خود کو بستر میں گرا دیتی ہے)
امجد: مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے منہ سے جو باتیں نکلتی ہیں وہ بھی ٹوٹی پھوٹی ہوتی ہیں۔
(سعیدہ خاموش رہتی ہے۔کروٹ بدل کر وہ اپنا منہ دوسری طرف کرلیتی ہے۔۔۔۔۔۔امجد اپنی گود میں سے کتاب اٹھاتا ہے اور اس کی ورق گردانی شروع کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔سکوت کا عالم ہے۔ ہلکی ہلکی سبز روشنی میں یہ سکوت اور بھی زیادہ نحیف ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔ کافی لمبا عرصہ خاموشی میں گزرتا ہے، بڑی بیزار سی خاموشی ہیں۔۔۔۔۔۔امجد کے چہرے پر روشنی قبروں کے سبز غلاف کی طرح چڑھی ہے۔۔۔۔۔۔ اس کی نگاہیں کتاب سے ہٹ کر بار بار سعیدہ کی جانب اُٹھتی ہیں اور سرشارہو کر دبے پاؤں لوٹ آتی ہیں۔۔۔۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد امجد بہت زیادہ مضطرب ہو جاتا ہے)
امجد: سعیدہ!
سعیدہ: جی!
امجد: میں۔۔۔۔۔۔میں تم سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں۔
سعیدہ: (کروٹ نہ بدلتے ہوئے)کیا؟
امجد: کیا۔۔۔۔۔۔کیا آج ہماری پہلی رات ہو سکتی ہے۔۔۔
سعیدہ: (بستر میں لرز سی جاتی ہے)
امجد: وہ رات۔۔۔۔۔۔جو ابھی تک نہ آئی۔
(سعیدہ خاموش رہتی ہے)
وقفہ
امجد: سعیدہ!
سعیدہ: جی!
امجد: کیا تم میری یہ درخواست قبول کرسکتی ہو؟
سعیدہ: (کروٹ بدل کر امجد کو دیکھتی ہے۔۔۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں سپردگی کی زخمی خواہش تیر رہی ہے) کیسے امجد صاحب!
امجد: جھوٹ موٹ۔۔۔۔۔۔ محض میرے بہلاوے کیلئے۔۔۔تم یہ فرض کرلوکہ میں تمہارے پہلو میں لیٹا ہوں۔۔۔۔۔۔میں یہاں فرض کرلوں گا کہ تم میرے پہلومیں لیٹی ہو۔۔۔۔۔۔ میں تم سے وہی باتیں شروع کروں گا جو پہلی رات کو مجھے تم سے کہنا تھیں۔۔۔تم اسی طرح جواب دینا، جس طرح کہ تمہیں دینا تھا۔۔۔۔۔۔میرے لیئے۔۔۔۔۔۔کیا میرے لیئے تم یہ جھوٹ موٹ کا کھیل کھیل سکتی ہو سعیدہ!
سعیدہ: (آنکھوں میں سپردگی کی زخمی خواہش کی بجائے رحم کے آنسو تیر رہے ہیں)میں حاضر ہوں امجدصاحب۔
امجد: شکریہ۔
(طویل وقفہ)
امجد: آج ہماری پہلی رات ہے سعیدہ۔۔۔۔۔۔وہ رات جس میں جوانیاں ارضی جنت کی طرف پہلا قدم اٹھاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ رات جس کی تمام پہنائیوں میں دو جی غوطہ لگاتے ہیں اور ایک ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔شرماؤ نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ رات تو وہ ہے جب تمام پوشیدہ حقیقتوں کے گھونگھٹ اُٹھنے کے لیئے بیتاب ہوتے ہیں۔ ہلکی سی سرگوشی، نرم سی آہ، ایک چھوٹا سا لمس، سانس کا ننھا سا ہلکورا بھی ان گھونگٹوں کے پٹ کھول دیتاہے۔۔۔۔۔۔ اس قدر آہستہ کہ بے معلوم سرسراہٹ تک بھی نہیں ہوتی اور آدمی، دیدار۔۔۔۔۔۔ پورے دیدار کے تمام مراحل طے کرجاتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ وہ رات ہے جب نگاہیں ٹکرا ٹکرا کر تارے جھڑتی ہیں اور یہ افشاں دونوں زندگیوں کے ایک ماتھے پر چنی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ وہ رات ہے۔۔۔۔۔۔ پہلی رات، سب سے پہلی، جب آدم کی پسلیاں چیر کر حوا نکالی گئی تھی۔۔۔۔۔۔ یہ وہ رات ہے جس کی درازئ عمر کے لیئے، شاعر دعائیں مانگ مانگ کر ابھی تک نہیں تھکا۔۔۔۔۔۔ یہ وہ رات ہے جس کے حصول کے لیئے جوانی کی جائے نماز بچھا کر زندگی اکثر سجدہ ریز رہی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ وہ رات ہے جس میں حجاب کی تمام گرہیں، فطرت کے ناخن خود کھولتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ وہ رات جب قدرت کے تمام کارخانے صرف ایک ہی پُرزہ ڈھال رہے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ وہ رات ہے جب تمام آوازیں واپس اپنے مخرجوں میں چلی جاتی ہیں کہ اس آواز کا جلوس انتہائی آرام و سکون سے گزر جائے۔ جس میں’کن‘ کی گونج ہے۔۔۔۔۔۔ یہ وہ رات ہے جس کا ہر پردہ اُجالے سے بنا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ و ہ ر ات ہے، ہر آنے والی رات جب بدن کا رواں رواں منہ کھول کے بولتا ہے اور کان کھول کے سنتا ہے۔۔۔۔۔۔ بڑے بڑے ان کہے رازبڑے بڑے ان گائے راگ۔۔۔۔۔۔(ایک دم چیخ کر) ڈھانپ لو۔۔۔۔۔۔ڈھانپ لو۔۔۔۔۔۔ سعیدہ اپنا بدن ڈھانپ لو۔۔۔۔۔۔ یہ مجھے ڈس رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا ایک ایک خط تلوار کی دھار کے مانند میری لولی لنگڑی خواہشوں پر پھر رہا ہے۔۔۔۔۔۔ڈھانپ لو۔۔۔۔۔۔خُداکے لیئے اپنا جسم ڈھانپ لو۔۔۔۔۔۔خدا کیلئے اپنا جسم ڈھانپ لو۔
سعیدہ: (ہلکی ہلکی سبز روشنی میں گھاس کی نرم نرم پتیوں سے بنی ہوئی لاش کے مانند لیٹی ہے۔ اس کا بدن لرز رہا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک ایک انگ کانپ رہے) جی؟
امجد: (بِلک بِلک کر رونے لگتا ہے) اپنا بدن ڈھانپ لو۔
(سعیدہ اپنا لرزتا ہوا بدن کمبل سے ڈھانپ لیتی ہے۔امجد آنکھوں کے سامنے ہاتھ رکھے روتا رہتا ہے)
۔۔۔۔۔۔(پردہ)۔۔۔۔۔۔
پانچواں منظر
نگارولا سے ملحقہ باغیچہ۔۔۔۔۔۔ شام کا وقت۔ فوارے کاپانی کھل کھیل رہا ہے۔ سائے گہرے ہو چکے ہیں۔ پس منظر میں خاکستری پہاڑیاں شام کے دُھندلکوں میں سنگینی اختیار کرگئی ہیں۔ آسمان نے ایسا لگتا ہے اپنے بدن پر بھبھوت مل لی ہے۔ تختوں کے سینے پر سبزہ خاموش لیٹا ہے۔ کرسیاں خالی ہیں۔۔۔۔۔۔ساری فضا خالی ہے۔ اس فریم کی طرح جس میں تصویر جڑی جانے والی ہے۔۔۔۔۔۔ مجید اور سعیدہ کی ہنسی کی آواز آتی ہے۔۔۔۔۔۔ چند لمحات کے بعد دونوں ہنستے، بڑی مشکل سے اپنی تھکاوٹ کا بوجھ اٹھاتے داخل ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ سعیدہ نڈھال ہو کرخود کو کرسی میں گرا دیتی ہے، مجید اس کے پاس کھڑا رہتا ہے)
سعیدہ: (رانوں پرمُکیاں مارتے ہوئے)اُف۔۔۔۔۔۔اُف!
مجید: (ہنستا ہے) آپ تھک گئیں۔۔۔۔۔۔ دبا دُوں آپ کو؟
سعیدہ : (گھبرا کر) نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔ اصغری کو بھیج دیئے۔۔۔۔۔۔ مجھ سے تو اب دو قدم بھی چلنا دشوار ہے۔
مجید: (مسکراتا ہے)بہتر۔۔۔(آگے بڑھ کر سعیدہ کے چہرے پر نیم سنہرے بالوں کی آوارہ لٹ انگلیوں سے اٹھا کر ایک طرف کردیتا ہے)
سعیدہ: (بہت زیادہ گھبراہٹ میں)میں جاتی ہوں اندر۔(اُٹھنے لگتی ہے)
مجید: (ایک طرف دیکھ کر) لو، وہ اصغری خود ہی آگئی۔۔۔۔۔۔آؤ اصغری۔۔۔۔۔۔بھابی جان کے پاؤ ں دبا دو۔
(اصغری داخل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔اس کے ہونٹوں کے اختتامی کونے کپکپارے ہیں جیسے کچھ کہنے کے لیئے تڑپ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ پاس آجاتی ہے)
اصغری: (سعیدہ سے) دلہن بیگم تھک گئیں آج؟
سعیدہ: (رانوں پر مکیاں مارتے ہوئے) ہاں!
اصغری: (گھاس پر بیٹھ کر، سعیدہ کی ایک پنڈلی دبانا شروع کرتی ہے۔ خطاب مجید سے ہے) یہ سب مجید میاں کا قصور ہے۔۔۔ اتنی بڑی سیر اور اتنی جلدی۔۔۔۔۔۔(لہجے میں تیکھا پن ہے) ہر چیز دھیرے دھیرے ہونی چاہیئے(ہولے ہولے دباتی ہے) اس طرح۔۔۔۔۔۔ہولے ہولے(سعیدہ سے) کیوں دلہن بیگم۔۔۔۔۔۔کچھ آرام محسوس ہوا آپ کو؟
سعیدہ: (دوسری ٹانگ جو اصغری کی گرفت سے آزاد ہے، اضطراب کا شدید مظاہرہ کرتی ہے) ٹھیک ہے، ٹھیک ہے!
اصغری: (مجید سے) مجید میاں، آپ جائیں۔۔۔۔۔۔ منہ ہاتھ دھو آئیں۔۔۔۔۔۔گردوغبار سے آپ کا چہرہ بالکل ان دھویا آلو بنا ہوا ہے۔
مجید: (تیزی سے) تم بہت گستاخ ہو گئی ہو۔۔۔۔۔۔یہ سب۔۔۔۔۔۔
اصغری: (مجید کی بات کاٹ کر) دلہن بیگم کا قصور ہے جنہوں نے مجھے منہ لگا لیا ہے
(سعیدہ کے چہرے کی طرف دیکھ کر) ایسا خوبصورت منہ!
(مجید نگاہوں ہی نگاہوں میں غصّہ برساتا چلا جاتا ہے)
اصغری: (ہنستی ہے)مجید میاں کی شکل و صورت یوں تو ماشاء اللہ بڑی اچھی ہے۔۔۔۔۔۔مگر غصے میں ہمیشہ بگڑ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ آپ کا کیاخیال ہے۔
سعیدہ: تم مجھ سے ایسی باتیں نہ کیا کرو(اُٹھنا چاہتی ہے مگر اصغری کی مضبوط گرفت کے باعث نہیں اُٹھ سکتی)چھوڑ دو مجھے۔
اصغری: (دباتے ہوئے) میں اس خدمت سے خود کو چھڑانا نہیں چاہتی(سعیدہ کے پاؤں سے سینڈل اُتارتی ہے) مجید میاں کہہ رہے تھے، میں گستاخ ہوگئی ہوں۔۔۔۔۔۔کیا یہ درست ہے دلہن بیگم۔
سعیدہ: بالکل درست ہے۔
اصغری: (بڑے اطمینان سے سعیدہ کے پاؤں کی انگلیاں چٹخاتے ہوئے) تو یہ بہت بُری بات ہے۔۔۔۔۔۔ نوکرانی کو گستاخ کبھی نہیں ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔ آپ میرے کان کھینچئے۔
سعیدہ: خاموش رہو!
اصغری: یہ ظلم ہے۔۔۔۔۔۔ زبان بندی بہت بڑا ظلم ہے دلہن بیگم۔۔۔۔۔۔ میں نے ایسی کون سی بات کی ہے جو آپ کو ناگوارگزری۔
سعیدہ: (اضطراب کے ساتھ) تمہاری سب باتیں مجھے ناگوار گزرتی ہیں۔
اصغری: اصغری بے چاری اب کیا کرئے۔۔۔۔۔۔(توقف کے بعد) میں تو یہ سمجھتی تھی کہ آپ جیسی لکھی پڑھی بیگم کی نوکری میں اس ایک برس کے اندراندر ہی مجھے سب کچھ آگیا ہے۔۔۔۔۔۔ پر اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں غلط سمجھی تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے آپ سے کچھ بھی نہیں سیکھا؟۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ کس کا قصور ہے؟سیکھنے والے کا، سکھانے والے کا؟
سعیدہ: (اپنی دونوں ٹانگیں ایک طرف سمیٹتے ہوئے فیصلے کن انداز میں) تم کہنا کیا چاہتی ہو؟
اصغری: (مصنوعی حیرت سے) میں؟
سعیدہ: ہاں تم۔۔۔۔۔۔ کیا کہنا چاہتی ہو تم؟
اصغری: (سوچتے ہوئے) کہنے کو تو میں بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔
سعیدہ: (اٹھ کر ننگے پاؤں گھاس پرچلتے ہوئے) توکہہ ڈالو آج۔۔۔۔۔۔ مجھے تمہاری ہر روز کی مہین مہین چٹکیاں پسند نہیں۔۔۔۔۔۔ جو تم کہنا چاہتی ہو، میں سُننے کے لیئے تیار ہوں۔
اصغری: آپ بڑی ہمت والی ہیں۔ دلہن بیگم۔
سعیدہ: میں ہمت والی ہوں، یا بزدل ہوں، تم اسے چھوڑو۔۔۔۔۔۔جو کہنا چاہتی ہو آج اگُل ڈالو۔
اصغری: یہ قے آپ کو اور مجھے دونوں کو تکلیف دے گی۔
سعیدہ: میری تکلیف کا تم کچھ خیال نہ کرو۔۔۔۔۔۔میں برداشت کرلوں گی۔
اصغری: (سوچتے ہوئے) میں سمجھتی تھی۔ میرے دانتوں تلے دبی ہوئی کٹاری دیکھ کر آپ ڈر جائیں گی۔ پر اب ایسا لگتا ہے کہ آپ چلتی چلتی ایسی جگہ پہنچ گئی ہیں جہاں زخموں کی کوئی پرواہ نہیں رہی۔۔۔۔۔۔ اب تو مجھے خوف آنے لگا ہے آپ سے۔
سعیدہ: (اضطراب میں ادھر ادھر ٹہلتے ہوئے) اصغری!
اصغری: (چونک کر) جی؟
سعیدہ: تم مجھے یہ بتاؤ۔۔۔۔۔۔ اگر امجد میاں گاڑی کے حادثے میں مر جاتے تو میں کیا کرتی؟
اصغری: آپ؟۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم نہیں آپ کیا کرتیں۔
سعیدہ: میں جوان ہوں، خوبصورت ہوں۔۔۔۔۔۔ میرے سینے میں ایسے ہزاروں ارمان ہیں جو میں سترہ برس تک اپنے خیالوں کا شہد پلا پلا کر پالتی پوستی رہی ہوں۔۔۔۔۔۔میں ان گلا نہیں گھونٹ سکتی۔۔۔۔۔۔ میں نے بہت کوشش کی ہے اصغری۔۔۔۔۔۔میرا خدا جانتا ہے، میں نے بہت کوشش کی ہے، لیکن میں اپنے ہاتھوں کو اس قتل پر آمادہ نہیں کرسکی۔۔۔۔۔۔ تم مجھے کمزور کہہ لو۔۔۔۔۔۔ بزدل کہہ لو۔۔۔۔۔۔اخلاق باختہ کہہ لو۔۔۔۔۔۔ تم ایک نوکرانی ہو۔۔۔۔۔۔میں تمہارے سامنے اعتراف کرتی ہوں کہ میں اپنی جوانی کا باغ، جس کے پتے پتے، بوٹے بوٹے میں میرے کنوارے ارمانوں کا گرم خون دوڑ رہا ہے، اپنے ہاتھوں سے نہیں اُجاڑ سکتی۔۔۔۔۔۔ ویسے میں کسی کو بھی اجازت دے سکتی ہوں کہ وہ میری آنکھیں بند کرکے۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ میرے تمام حواس میں تالے لگا کر بڑھاپے اور رنڈاپے کی عمیق ترین گہرائیوں میں اُتار دے۔۔۔۔۔۔ یا ایک ہی بار دھکا دے کر مجھے اپنے ارمانوں کی لرزتی ہوئی چٹانوں کی چوٹیوں سے نیچے گرا دے جن پر میں اس وقت تک دامن سمیٹے تند ہواؤں کا مقابلہ کرتی رہی ہوں۔۔۔۔۔۔میں تم کو بھی اس کی اجازت دیتی ہوں۔
اصغری: (شکست خوردہ اُٹھتی ہے) بس دلہن بیگم۔
سعیدہ: میں ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہوں اصغری! جہاں زمین میرے قدموں کے نیچے گھوم رہی ہے۔ میں جس راستے کی طرف منہ کرتی ہوں وہی مجھ سے منہ موڑ لیتا ہے۔۔۔۔۔۔میں جو ارادہ کرتی ہوں، مجھ سے اپنا دامن چھڑا کے بھاگ جاتا ہے۔ میں اس کے پیچھے بھاگتی ہوں۔۔۔۔۔۔ اندھا دُھند دوڑتی ہوں اور جب اسے پکڑ لیتی ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ریت کا بنا تھا۔ میرے پکڑتے پکڑتے ہی ڈھیر ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔اصغری تم نہیں جانتی ہو، میں کتنی دیر سے انگاروں کے بستر پر لوٹ رہی ہوں۔ بجھانے کے لیئے میں ان پر پانی ڈالتی ہوں تو بھاپ کے ایسے بگولے اُٹھتے ہیں جو مجھے اپنے ساتھ اونچائیوں میں لے جاتے ہیں اور جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر بھنبھوڑ کر ایک دم نیچے دے پٹکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میری ہڈی ہڈی، پسلی پسلی چور ہو چکی ہے اصغری۔۔۔۔۔۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر امجد صاحب کے بدلے میں اپاہج ہوئی ہوتی۔
(طویل وقفہ۔۔۔۔۔۔اصغری خاموش کھڑی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔ سعیدہ، اضطراب میں ادھر ادھر ٹہلتی رہتی ہے)
سعیدہ: بتاؤ، مجھے کیا کرنا چاہیئے۔
اصغری: (محویت کے عالم سے بیدار ہوتی ہے) کیا کرنا چاہیئے؟۔۔۔۔۔۔ آپ کو۔۔۔۔۔۔آپ کو امجد میاں کی موت کا انتظار کرنا چاہیئے۔
سعیدہ: (کچھ دیر سوچ کر) تم مجھے انتہا درجے کی سنگدل کہو گی۔۔۔۔۔۔ لیکن اصغری میں پوچھتی ہوں۔۔۔۔۔۔ انہیں کب موت آئے گی۔
اصغری: جب اللہ میاں کومنظورہوگا(بڑبڑاتی ہے) لیکن امجد میاں کی دوستی تو ان سے ختم ہو چکی ہے۔
سعیدہ: کیا کہا؟
اصغری: جی کچھ نہیں۔
(اکھڑے اکھڑ ے قدم اُٹھاتی اصغری چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ سعیدہ ننگے پاؤں گھاس کے ٹھنڈے ٹھنڈے فرش پر اضطراب کی حالت میں ٹہلتی رہتی ہے)
چھٹا منظر
نگارولا۔۔۔۔۔۔ ڈرائینگ روم۔۔۔۔۔۔وسیع و عریض کمرہ جو پرانی وضع کے سازو سامان سے آراستہ ہے۔ ہر چیز وزنی اور پائیدار ہے۔۔۔۔۔۔دیواروں پر آئل پینٹنگز آویزاں ہیں جو خاندان کے مختلف افراد کی ہیں۔ ایک پینٹنگ بیگم کی ہے جب وہ جوان تھی۔ اس پینٹنگ کے نیچے بیگم ایک صوفے پر بیٹھی تقابل پیش کررہی ہے۔ تصویر میں وہ بے فکر ہے مگر صوفے میں سخت فکر مند۔ اس کا چہرہ غم و اندوہ کا مجموعہ ہے کوئی اونی چیز بُن رہی ہے، مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اپنے خیالات و افکار کے اُلجھے ہوئے دھاگے کبھی لپیٹتی ہے کبھی کھولتی ہے۔۔۔۔۔۔ اصغری داخل ہوتی ہے)
بیگم صاحب: مجید میاں ملے؟
اصغری: جی ہاں!
بیگم صاحب: کہاں تھے؟
اصغری: باغیچے میں۔
بیگم صاحب: کیا کررہے تھے؟
اصغری: جی؟۔۔۔۔۔۔(رک کر) جی اکیلے بیٹھے تھے۔
بیگم صاحب: (اصغری کی طرف دیکھ کر نگاہیں نیچی کرکے) آرہے ہیں!
اصغری : جی ہاں!
بیگم صاحب: تم جاؤ۔
(اصغری چلی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ مجید اس کی طرف دیکھتا اندر داخل ہوتا ہے)
مجید: کیا بات ہے امی جان؟
بیگم صاحب: کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔بیٹھ جاؤ۔
مجید: (پاس ہی صوفے کی دوسری کرسی پربیٹھ جاتا ہے) یہاں سردی ہے۔
بیگم صاحب: ہاں۔۔۔۔۔۔یہاں سردی ہے۔
(وقفہ)
مجید: (بے چینی محسوس کرتے ہوئے) میرا خیال ہے۔۔۔۔۔۔ آپ نے مجھے یہاں کچھ کہنے کے لیئے بلایا ہے۔
بیگم صاحب: ہاں!
مجید: فرمائیے؟
بیگم صاحب: میں تمہیں یہاں سے بھیجنا چاہتی ہوں۔
مجید: مجھے؟(اٹھ کر) کہاں؟
بیگم صاحب: بیٹھ جاؤ۔
مجید: (بیٹھ جاتا ہے) یہ لیجئے۔
بیگم صاحب: میں نے ابھی امجد سے بات نہیں کی!
مجید: (پھر اُٹھ کھڑا ہوتا ہے) کون سی۔
بیگم صاحب: یہی تمہیں یہاں سے بھیجنے کی۔
مجید: لیکن آپ مجھے یہاں سے کیوں بھیج رہی ہیں۔۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے کوئی خاص کام ہے یا۔۔۔۔۔۔
بیگم صاحب: بیٹھ جاؤ۔
مجید: (بیٹھ جاتا ہے) کوئی خاص کام ہے؟
بیگم صاحب: نہیں۔
مجید: تو پھر مجھے یہاں سے کہیں باہر بھیجنے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی ہے۔
بیگم صاحب: کہ میں اسی میں بہتری سمجھتی ہوں۔
مجید: بہتری؟۔۔۔۔۔۔ کس کی بہتری؟
بیگم صاحب: ہم سب کی۔۔۔۔۔۔اس گھر کی۔
مجید: (اُٹھ کھڑا ہوتا ہے) آپ پہیلیوں میں بات کررہی ہیں امی جان۔
بیگم صاحب: مجید تم میرے لڑکے ہو، میں تمہاری ماں ہوں۔۔۔۔۔۔ میرے تمہارے درمیان کوئی ایسی گفتگو نہیں ہونی چاہیئے جو اس مقدس رشتے پر ذرا سی بھی کالک لگائے۔۔۔۔۔۔میں چاہتی ہوں کہ تم آج ہی کراچی چلے جاؤ اور جب تک میں کہوں وہیں رہو۔
مجید: لیکن امی جان۔۔۔۔۔۔
بیگم صاحب: (بات کاٹ کر)تمہارے وہاں بے شمار دوست موجود ہیں مجھے یقین ہے ، تم ان کی مدد سے، یا خود اپنی ہمت سے اس منجدھار میں سے جسے زندگی کہتے اپنی کشتی صحیح و سلامت کنارے لے جاؤ گے۔
مجید: (کچھ کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں سکتا اور بیٹھ جاتا ہے) بہت بہتر۔۔۔۔۔۔ میں چلا جاؤ ں گا۔
بیگم صاحب: تمہارا فیصلہ۔۔۔۔۔۔(ایک دم خاموش ہو جاتی ہے)
(کمرے میں امجد اپاہجوں والی کرسی میں، داخل ہوتا ہے جسے کریم چلا رہا ہے)
امجد: (مجید سے) یار مجید، تم بھی عجیب آدمی ہو۔۔۔۔۔۔ میں وہاں کمرے میں بیٹھا تمہارا انتظار کررہا تھا کہ تم آؤ گے تو ہم دونوں سعیدہ کی سالگرہ کے تحفے کے متعلق سوچیں گے۔۔۔۔۔۔لیکن تم یہاں بیٹھے ہو(بیگم صاحب سے) امی جان۔۔۔۔۔۔ آپ نے کیا سوچا۔۔۔۔۔۔ کیسا تحفہ ہونا چاہیئے۔۔۔۔۔۔میں تو سوچ سوچ کر پاگل ہو گیا ہوں۔
بیگم صاحب: تم سعیدہ سے کیوں نہیں پوچھتے۔
امجد: لو اور سنو(ہنستا ہے) حد کردی آپ نے امی جان۔۔۔۔۔۔ اس سے مشورہ لیا تو تحفے کا مزہ کیا خاک آئے گا( مجید سے) کیوں مجید؟
(مجید خاموش رہتا ہے)
امجید: بولو یار۔
مجید: (اُٹھ کر) آپ امی جان سے پوچھئے۔۔۔۔۔۔میں تو جارہا ہوں۔
امجد: (حیرت سے) جارہے ہو؟۔۔۔۔۔۔ کہاں جارہے ہو؟
مجید: کراچی!
امجد: یقیناً تمہارا دماغ خراب ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔ کیا کرنے جارہے ہو کراچی؟
مجید: کیا کرنے جارہا ہوں(پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ)منجدھار میں سے اپنی کشتی نکالنے۔
امجد: (بیگم سے) کیا ہوگیا ہے اسے(مجید سے)بیٹھو یار۔۔۔۔۔۔ پرسوں اس کی سالگرہ ہے۔۔۔۔۔۔ ابھی ابھی فیصلہ ہوجانا چاہیئے۔
مجید: فیصلہ تو ہو چکا ہے۔
امجد: کیا؟
مجید: کہ میں کراچی جارہا ہوں اور پھر کبھی واپس نہیں آؤں گا۔
امجد: کیا بکتے ہو(بیگم سے) امی جان، یہ قصہ کیا ہے؟
بیگم صاحب: کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ماں بیٹے میں لڑائی ہوگئی کسی بات پر۔
امجد: کس بات پر؟
بیگم صاحب: تم نہیں پوچھ سکتے۔
امجد: عدول حکمی تو ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن مجید میرا بھائی ہے۔۔۔۔۔۔ آپ کے اور اس کے درمیان اگر کوئی رنجش یا غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے تو اسے دور کرنا میرا فرض ہے۔۔۔۔۔۔مجید کو میں آپ سے زیادہ جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔ اس سے ایسی کوئی غلطی سرزد نہیں ہوسکتی جو آزار کا موجب ہو۔۔۔۔۔۔(مجید سے) ادھر آؤ مجید۔
مجید: بھائی جان، مجھے اپنا اسباب بندھوانا ہے۔
امجد: لاحول ولا۔۔۔۔۔۔ یہ سب کیا ہے۔۔۔۔۔۔(بیگم سے) امی جان۔۔۔۔۔۔ خدا کے لیئے اسے روکیئے۔۔۔۔۔۔ میرے لیئے نہیں تو سعیدہ کے لیئے رو کیئے۔۔۔۔۔۔ اس گھر میں ایک صرف یہی ہے جس نے ابھی تک اسے اُداس نہیں ہونے دیا۔۔۔۔۔۔میری خاطر اتنی زحمت برداشت کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ اگر آپ نے اسے جانے دیا تو امی جان، میں نہیں جانتا، میرا کیا حال ہوگا۔۔۔۔۔۔ سعیدہ کو سیر کے لیئے لے جاتا ہے تو میں تصّور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس کے بدلے میں اس کے ہمراہ ہوں۔ اس کے ساتھ کوئی کھیل کھیلتا تو وہ خلا بہت حد تک پورا ہو جاتا ہے جو قدرت کے بے رحم ہاتھوں نے میری زندگی میں پیدا کررکھا ہے۔ میں تو کئی بارسوچتا ہوں:امجد، اگر تیرا بھائی مجید نہ ہوتاتو کیا تیری شکستہ زندگی کا ملبہ اس قابل نہیں تھا کہ پنگھوڑے پر پڑا ہوتا۔۔۔۔۔۔ امی جان اسے رو کیئے۔۔۔۔۔۔ یہ تو میرا بازو ہے۔۔۔۔۔۔ کیوں آپ اس کو مجھ سے جدا کررہی ہیں۔۔۔۔۔۔ اللہ میاں کی جگہ نہ لیجئے امی جان(رونے لگتا ہے)
مجید: میں جارہا ہوں امی جان۔
بیگم صاحب: ٹھہرو!
مجید: (رُک جاتا ہے)
بیگم صاحب: (اُٹھتی ہے اور امجد کے سر پر ہاتھ پھیرتی ہے )امجد بیٹا۔۔۔۔۔۔ روؤ نہیں جانِ مادر۔۔۔۔۔۔مجید نہیں جائے گا۔۔۔۔۔۔جو چیز یہاں ہے، وہیں رہے گی۔۔۔۔۔۔ اس لیئے کہ اسے یہی منظور ہے۔۔۔۔۔۔(مجید سے)مجید۔۔۔۔۔۔بھائی کے پاس بیٹھو اور سعیدہ کی سالگرہ کے متعلق سوچو(چلی جاتی ہے)
(مجید کچھ دیر سوچتا ہے۔ پھر امجد کی کرسی کی طرف بڑھتا ہے)
مجید: (آہستہ)بھائی جان، آپ مجھے جانے دیں۔
امجد: (جُھکا ہوا سر اُٹھا کر) جانے دُوں؟۔۔۔۔۔۔کہاں جانے دُوں؟۔۔۔۔۔۔ پاگل مت بنو۔
مجید: آپ نہیں سمجھتے بھائی جان۔
امجد: میں سب سمجھتا ہوں۔۔۔۔۔۔ اپنا رومال نکالو اور ذرا میرے یہ آنسو پونچھ دو۔
مجید: (تھوڑے توقف کے بعد اپنا رومال نکالتا ہے اور امجد کے آنسو پونچھتا ہے۔۔۔۔۔۔جلدی جلدی)
امجد: کیا کرتے ہویار۔۔۔۔۔۔تمہیں تو آنسو پونچھنا بھی نہیں آتا۔۔۔۔۔۔(مسکراتا ہے) اتنا معمولی سا کام ہے۔
مجید: یہ معمولی کام نہیں بھائی جان۔
امجد: (مسکرا کر) اچھا بھائی بڑا جان جوکھوں کا کام ہے۔۔۔۔۔۔آؤ ادھر بیٹھو۔۔۔۔۔۔سعیدہ کی سالگرہ کے تحفے کے متعلق سوچیں۔ بیٹھو۔
مجید: (امجد کے پاس کرسی پر بیٹھ جاتا ہے) سو چیئے۔
امجد: (آہ بھرکر) سوچتے ہیں بھائی سوچتے ہیں۔۔۔۔۔۔ سوچنے کے علاوہ اب اور کام ہی کیا ہے۔ لیکن ذرا تم بھی سوچو۔
(مجید اور امجد دونوں سوچ میں مستغرق ہو جاتے ہیں)
ساتواں منظر
(نگار ولا سے ملحقہ باغیچہ۔۔۔۔۔۔شام کا وقت۔ فوارے کا پانی بند ہے جیسے وہ اُبل اُبل کر عاجز آ چکا ہے۔ پس منظر میں خاکستری پہاڑیاں دھندلکوں میں اپنی سنگینیاں جیسے چھپا رہی ہیں۔ فرش پر سبزہ روندا ہوا سا معلوم ہوتا ہے۔ دائیں طرف، فوارے سے دُور ہٹ کر گھنی جھاڑیوں جن کے عقب میں امجد، اپاہجوں والی کرسی میں بیٹھا ہے۔پشت پر اصغری کرسی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اسے چِلانے لگتی ہے)
امجد: نہیں اصغری۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر ٹھہرو۔
اصغری: (ٹھہر جاتی ہے) لیکن امجد میاں۔۔۔۔۔۔
امجد: میں آج اپنی زندگی کا آخری زخم کھانا چاہتا ہوں۔
اصغری: یہ زخم کھانا اگر آپ ضروری سمجھتے ہیں تو اپنے تصور ہی میں کھا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔یہ زخم تو آپ کے لگ چکا ہے۔۔۔۔۔۔اسے دوبارہ کیوں کھلوانا چاہتے ہیں آپ؟
امجد: (مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے) میری حالت میں جو آدمی ہو اس کے بدھو پنے کی کوئی حد نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔ اپنے زخموں کے ٹانکے کھول کھول کر دیکھتا ہے۔ ا وروں کی زبانی ٹیسوں کی داستانیں سنتاہے اور خود کو بہت بڑا شہید سمجھتا ہے۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے) اصغری تمہاری کبھی کوئی چیز ٹوٹی نہیں، اس لیئے تم لوگوں کا دردناک حال نہیں جانتی ہو جو عجز کی انتہا کو پہنچ کر شکست و ریخت میں بلند بام عمارتیں بناتے ہیں۔
اصغری: (مسکراتی ہے) میں تو ان حدوں سے بھی آگے نکل گئی ہوں امجد میاں۔۔۔۔۔۔ بڑی اونچی اونچی عمارتیں بنا کر خود اپنے ہاتھوں سے ڈھا چُکی ہوں۔۔۔۔۔۔ایسا کرتے کرتے تو میرے دل میں بھی گٹے پڑ چکے ہیں۔
امجد: (کانپ جاتا ہے) اصغری۔۔۔۔۔۔ تم بڑی خوفناک ہو۔
اصغری: (ہنستی ہے) ہر اُجاڑ خوفناک ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ حالانکہ بیچاری کیا خوفناک ہوسکتی ہے۔ اسے اپنے ماتم سے اتنی فرصت ہی کہاں ملی ہے جو دوسروں کو ڈرائے۔۔۔۔۔۔وہ تو خود دبکی ہوئی،سہمی ہوئی ہوتی ہے۔
امجد: تمہاری زندگی بھی کسی حادثے سے دوچار ہوئی؟
اصغری: جی نہیں۔۔۔۔۔۔ اس جی کی زندگی کسی حادثے سے کیا دوچار ہوگی جوکہ خود ایک حادثہ ہے۔
امجد: تمہاری باتوں سے جلے ہوئے گوشت کی بو آتی ہے۔
اصغری: اس لیئے کہ اب آپ کی سونگھنے کی حس جاگی ہوئی ہے۔
امجد: پہلے سورہی تھی۔
اصغری: جی ہاں۔۔۔۔۔۔بہت گہری نیند۔
امجد: اسے جگایا کس نے ہے؟
اصغری: اس گاڑی نے جو پٹڑی سے اُتر گئی۔
امجد: (بڑبڑاتا ہے) اس گاڑی نے۔۔۔۔۔۔جو پٹڑی سے اُتر گئی۔۔۔۔۔۔(ذرا بلند آواز میں)کیا یہ پھر پٹڑی سے اُترے گی؟
اصغری: جو اللہ میاں کو منظور ہے وہی ہوگا۔
امجد: اللہ میاں کا نام مت لو۔۔۔۔۔۔ میری اس کی دوستی ختم ہو چکی ہے۔
اصغری: نہیں امجد میاں، اس سے ہم ایسوں کی دوستی کبھی ختم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔ٹوٹ ٹوٹ کے آپ جڑی رہتی ہے۔
امجد: یہ سب بکواس ہے۔
(دونوں ایک دم چونکتے ہیں۔قدموں کی آہٹ سُنائی دیتی ہے۔۔۔۔۔۔مجید اور سعیدہ ہانپتے ہوئے نمودار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔سعیدہ جو بہت تھکی ہوئی ہے، فوارے کی منڈیر پر بیٹھ جاتی ہے۔مجید کھڑا رہتا ہے)
سعیدہ: آج تو میں بہت تھک گئی ہوں۔
مجید: حالانکہ ہم زیادہ دُور نہیں گئے۔
سعیدہ: ہاں!
مجید: کیا ہی اچھا ہوتا، اگر میں کراچی چلا گیا ہوتا۔
سعیدہ: اچھا ہی ہوتا۔
مجید: میری جان عجب مشکل میں پھنس گئی ہے۔۔۔۔۔۔ میں کراچی چلا جاتا۔۔۔۔۔۔لیکن سوال ہے کیا میں اس منجدھار میں سے اپنی کشتی کھے کر کنارے لے جاتا؟۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ میں ضرور ناکام رہتا۔
سعیدہ: مجھے معلوم ہے۔
مجید: تمہیں معلوم ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم ہے۔۔۔۔۔۔ سوائے بھائی جان کے اور سب کو معلوم ہے اور یہی اس کہانی کا سب سے المناک حصہ ہے۔
سعیدہ: میں نے کئی بار سوچا ہے کہ ان سے کہہ دُوں، لیکن(اُٹھ کھڑی ہوتی ہے) مجھے ڈر ہے، وہ اس صدمے کی تاب نہ لاسکیں گے۔
مجید: مجھے خود بھی اسی بات کا ڈر ہے۔۔۔۔۔۔ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ زیادہ سے زیادہ ایک برس اور زندہ رہیں گے۔۔۔۔۔۔ غریب سے زندگی کا اتنا مختصر عرصہ چھیننا ظلم ہے۔
(جھاڑیوں کے عقب میں امجد اپنے دانت بھینچ لیتا ہے۔۔۔۔۔۔ اصغری مضبوطی سے اس کا کندھا پکڑ لیتی ہے)
سعیدہ: ہمیشہ کوشش کرنی چاہیئے کہ جب تک وہ زندہ ہیں، خوش رہیں، ان کے احساسات کے نازک آبگینوں کو ہلکی سی ٹھیس بھی نہ لگے۔۔۔۔۔۔
مجید: اور اگر ہمارا کوئی چھالا رگڑ کھا کے پھوٹ پڑا تو۔۔۔۔۔۔
سعیدہ: (قریب قریب چیخ کر) تو قیامت آجائے گی۔
مجید: اسی لیئے میں سوچتا ہوں کہ میں چلا جاؤں۔۔۔۔۔۔ جب تک بھائی جان۔۔۔
سعیدہ: (ایک دم بات کاٹ کر) ایسا نہ کہو مجید۔۔۔۔۔۔ اتنے ظالم مت بنو۔
(امجد، اپاہجوں کی کرسی میں لرز جاتا ہے، اصغری اس کا دوسرا کندھا بھی مضبوطی سے پکڑ لیتی ہے)
مجید: محبت بڑی ظالم اور خود غرض ہوتی ہے سعیدہ۔۔۔۔۔۔ کم بخت دوسروں کی موت پر ناچنے کی خواہش کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتی۔
سعیدہ: ہمیں ایسے خیال اپنے دماغ میں نہیں لانے چاہئیں۔
مجید: ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔لیکن آجائیں تو کیا کریں۔
سعیدہ: کیا کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ چلو۔
(سعیدہ کوٹھی کی جانب چلتی ہے۔۔۔۔۔۔مجید اس کے پیچھے آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہے۔۔۔۔۔۔جھاڑیوں کے عقب میں اپاہجوں والی کرسی میں امجد کا سر جُھکا ہوا ہے۔ اس کے پیچھے اصغری بت بنی کھڑی ہے)
اصغری: چلیں؟
امجد: (اسی طرح سر جھکائے)نہیں۔۔۔۔۔۔ابھی نہیں۔۔۔۔۔۔ میں سوچ رہا ہوں۔
اصغری: کیا؟
امجد: معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔ شاید یہ سوچ رہا ہوں کہ مجھے اب کیا سوچنا چاہیئے۔
اصغری: ایسی سوچ بچار بالکل فضول ہے۔
امجد: (سر اُٹھا کر) فضول تو ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ مگر پھر کیا کروں۔۔۔۔۔۔(وقفے کے بعد) وہ اتنے ظالم نہیں ہیں جتنی تم ہو۔۔۔۔۔۔ تم تو مجھے سوچنے سے بھی منع کرتی ہو۔۔۔۔۔۔تم بڑی ظالم ہو اصغری!
اصغری: (مسکرا کر) محبت بڑی ظالم اور خود غرض ہوتی ہے امجد میاں۔۔۔۔۔۔ کم بخت اپنی موت پر بھی ناچنے سے باز نہیں آتی۔
امجد: میرے سامنے آؤ۔
(اصغری، امجد کے سامنے آتی ہے۔ امجد اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے۔۔۔۔۔۔کچھ سوچتا ہے اور بڑبڑاتا ہے)
امجد: یہ کتاب اب تک کہاں پڑی تھی۔
اصغری: کہیں ردّی کی ٹوکری میں۔۔۔ اپنی صحیح جگہ!
امجد: چلو۔۔۔۔۔۔مجھے لے چلو۔
(اصغری کرسی گھسیٹتی ہے اور کوٹھی کی جانب چلتی ہے)
پردہ
آٹھواں منظر
(وہی کمرہ جو پہلے، دوسرے اور چوتھے منظرکا ہے رات کا وقت۔۔۔۔۔۔چھت سے سبز روشنی کی پھوار گر رہی ہے۔۔۔۔۔۔ ہرشے کا اصلی رنگ بدلا ہوا ہے، جیسے اعصاب زدہ مریضوں کا۔۔۔۔۔۔مسہری خالی ہے۔ کچھ اس طور پر خالی جیسے وہ کبھی آباد ہی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ اصغری، امجد کو اپاہجوں والی کرسی میں اندر لاتی ہے)
اصغری: دلہن بیگم، بیگم صاحب کے کمرے میں کیوں چلی گئیں؟
امجد: ڈرتی تھی۔
اصغری: آپ سے؟
امجد: (مسکرا کر) مجھ سے کوئی کیا ڈرے گا۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے آپ سے ڈرتی تھی۔
اصغری: وہ اتنی کمزور نہیں ہیں امجد میاں۔
امجد: وقت بڑے بڑے پہاڑ کھوکھلے کردیتا ہے۔۔۔۔۔۔وہ تو ایک جوان لڑکی ہے۔
اصغری: (توقف کے بعد) آپ سونا چاہیں گے اب؟
امجد: سونا؟۔۔۔۔۔۔(ہنستا ہے) میرا مذاق مت اُڑاؤ اصغری۔۔۔۔۔۔میرے جلتے ہوئے زخموں کی توہین ہوتی ہے۔
اصغری: (توقف کے بعد) کیا آپ کو سعیدہ سے محبت ہے؟
امجد: نہیں۔
اصغری: توپھر یہ جلتے ہوئے زخم کیسے؟
امجد: مجھے سوچنے دو۔۔۔۔۔۔بولو اجازت دیتی ہو سوچنے کی؟
اصغری: آپ سوچئے
(طویل وقفہ جس میں امجد سوچ میں غرق رہتا ہے)
امجد: مجھے سعیدہ سے محبت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ جس طرح مارکیٹ سے آدمی اچھی چیزچُن کے لاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اسی طرح میں نے سینکڑوں لڑکیوں میں سے اسے انتخاب کرکے اپنی بیوی بنایا تھا۔۔۔۔۔۔مجھے اپنے اس انتخاب پر ناز تھا اور بجا ناز تھا۔۔۔۔۔۔ سعیدہ، مبالغے کی حد تک خوبصورت ہے۔۔۔۔۔۔ اس پر میرا صرف اتنا حق ہے کہ میں نے اسے چنا اور اپنی رفیقۂ حیات بنایا۔۔۔۔۔۔ اس حیات کا جو اب کچلی ہوئی اسی کرسی میں ڈھیر ہے۔۔۔۔۔۔ جو کسی دوسرے کی مدد کے بغیر ہل جل نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹروں نے مجھے زیادہ سے زیادہ ایک سال اور زندہ رہنے کے لیئے دیا ہے۔۔۔۔۔۔سمجھ میں نہیں آتا میں کیوں اس عرصے تک اس کو ایسی زنجیروں میں باندھ کے رکھنا چاہتا ہوں، جن کا ہر حلقہ میری اپنی زندگی کی طرح غیر یقینی ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔۔۔۔(سوچتے ہوئے) اس کی جوانی اور خوبصورتی ہی ایک وجہ ہوسکتی ہے(ایک دم چونک کر) یہی، یہی۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے اور کوئی وجہ نہیں۔۔۔(تکلیف محسوس کرتا ہے) اوہ۔۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔وہ نظارہ۔۔۔۔۔۔ وہ نظارہ۔۔۔۔۔۔مجھے بھول سکتا ہے۔ کبھی وہ نظارہ۔۔۔۔۔۔ اس مسہری میں جوان خوبصورتی اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ لیٹی دنیا کے حسین ترین ملبوسات کو شرمسار کررہی تھی۔۔۔۔۔۔ یہ نظارہ میرے ساتھ چمٹ گیا ہے۔۔۔۔۔۔ نہیں، میں اس کے ساتھ چمٹ گیا ہوں۔۔۔۔۔۔ (وقفے کے بعد) اصغری!
اصغری: (چونک کر)جی!
امجد: کوئی ایسی صورت ہوسکتی ہے جو یہ چھیل کر، نوچ کر میرے وجود سے علیحدہ ہو جائے۔
اصغری: ہر مشکل کی چولی میں اس کو آسان کرنے کی ترکیب چھپی ہوتی ہے۔
امجد: تو ڈھونڈنی چاہیئے۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے حجاب کیوں محسوس ہوتا ہے۔
اصغری: معلوم نہیں کیوں۔۔۔۔۔۔یہ مشکل، آپ ہی کی مشکل ہے۔ اس کے لیئے آپ کا ہاتھ کسی نامحرم کا ہاتھ نہیں ہوگا۔
امجد: جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔ میں اپنے دل کی ان تمام ناخلف نسوں سے واقف ہوں جو اس غلط جذبے کی دھڑکنیں پیدا کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن آج اس کا فیصلہ ہو جائے گا۔
اصغری: کس کا؟
امجد: میرے سامنے آؤ۔
(اصغری امجد کے سامنے آجاتی ہے)
امجد: جاؤ، مسہری میں لیٹ جاؤ۔
اصغری: (ہچکچا کر) امجد میاں۔۔۔۔۔۔ مجھ میں وہ جوان خوبصورتی نہیں ہے۔ جس کی رعنائیاں دنیا کے حسین ترین ملبوسات کو شرمسار کرسکیں۔۔۔۔۔۔میری جوانی تو کھردرے ٹاٹ کی شرمندۂ احسان ہونا چاہتی ہے۔
امجد: مسہری میں لیٹ جاؤ اصغری!
اصغری: (آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں) نہیں امجد میاں۔۔۔۔۔۔ مسہری کو تکلیف ہوگی۔۔۔۔۔۔ یہ دلہن بیگم کے نرم اور نازک بدن کی عادی ہے۔
امجد: میں تمہیں حکم دیتا ہوں۔
اصغری: (سر جُھکا کر) آپ مالک ہیں(مسہری میں لیٹ جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ آنکھیں چھت میں گڑ جاتی ہیں)
امجد: جانتی ہو آج کون سی رات ہے؟۔۔۔۔۔۔ وہ رات ہے۔ جب ایک تڑی مڑی جوانی اور زیادہ تڑ مڑ کر سا لمیت اختیار کرنے والی ہے۔۔۔۔۔۔یہ قیامت کی رات ہے۔۔۔۔۔۔! فن کی رات۔۔۔۔۔۔ اس کے اندھیاروں میں وجود، عدم کی بھٹیوں میں پگھل کر ایک غیر فانی قالب اختیار کریگا۔۔۔یہ وہ رات ہے جس کے بعد اور کوئی رات نہیں آئے گی، اس کی اندھی آنکھوں میں ایسے کاجل سے تحریریں ہوں گی جو انہیں ہمیشہ کیلئے روشن کردیں گی۔۔۔۔۔۔ یہ وہ رات ہے جب شکستگی اپنی کوکھ سے سربلند ایوانوں کو جنم دے گی۔۔۔۔۔۔ ایسے سربلند ایوان جن کے کنگروں کو عرش کی بلند ترین اونچائیوں سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوگا۔ یہ وہ رات ہے جب زمزم کا سارا پانی رینگ رینگ کر زمین کی تہوں میں چُھپ جائے گا۔ اس کے بدلے خاک اڑے گی جس سے پاکیزہ روحیں تیمم کریں گی۔۔۔۔۔۔یہ وہ رات ہے جب کاتبِ تقدیر اپنا قلمدان اوندھا کرکے عرش کے منہ کسی کونے میں دے کر روئے گا۔۔۔ یہ وہ رات ہے جس میں امجد اس دنیا کی تمام خوبصورتیوں کو تین دفعہ طلاق دیتا ہے اور ایک بدصورتی کو اپنے رشتۂ مناکحت میں لاتا ہے۔۔۔(ایک دم چیختا ہے) اصغری۔۔۔۔۔۔اصغری!
(اس دوران میں اصغری مسہری پر سے اُٹھ کر کھڑکی کے پاس پہنچ کر اسے کھول چکی ہے اور اس کی سل پر کھڑی ہو کر نیچے گہرائیوں میں دیکھ رہی ہے)
امجد: (چیخ کر) یہ کیا کررہی ہو اصغری؟
اصغری: کھڑکی کی سل پر مڑ کر امجد کو دیکھتی ہے) ایجاب و قبول ضروری ہے میرے مالک!
(نیچے کود جاتی ہے)
امجد: (دونوں ہاتھوں سے آنکھیں ڈھانپ کر) اصغری!۔۔۔۔۔۔(ہاتھ ہٹاتا ہے اور چند لمحات کھلی کھڑکی کے اندھیرے کو دیکھتا رہتا ہے جو سبز دیوار میں تاریک زخم کے مانند منہ کھولے ہے)ایجاب و قبول!۔۔۔۔۔۔(بڑبڑاتا ہے) ایجاب و قبول واقعی ضروری ہے(زور لگا کر دونوں ہاتھوں سے اپنی کرسی کو آگے گھسیٹتا ہے۔۔۔۔۔۔بڑی مشکل سے کھڑکی کے پاس پہنچ جاتا ہے)۔۔۔۔۔۔مجھے مشکل کو آسان کرنے کا یہ راستہ معلوم تھا۔۔۔۔۔۔مگر شاید کسی انگلی پکڑنے والے کی ضرورت تھی۔۔۔
(کھڑکی کی سِل دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑتا ہے اور اپنا اپاہج جسم بڑی دقتوں سے اُوپر اُٹھاتا ہے اور دوسری طرف لٹکنا شروع کردیتا ہے)
امجد: میری پہاڑیاں۔۔۔۔۔۔میری پیاری پہاڑیاں۔۔۔۔۔۔ میری پیاری اصغری!
(اگلا دھڑ نیچے پھسلتا ہے اور ایک دم اس کا سارا وجود اندھیرا کھا جاتا ہے)
۔۔۔۔۔۔(پردہ)۔۔۔۔۔۔
مأخذ : کتاب : پھُندنے اشاعت : 1954
مصنف:سعادت حسن منٹو