حامد: (ٹائپ کرتے ہوئے) پا۔۔۔کس۔۔۔تان۔۔۔ میں۔۔۔تع۔۔۔لی۔۔۔می۔۔۔فلم۔۔۔نہیں نہیں۔۔۔(کاٹ کر) فلمو۔۔۔ ں۔۔۔کی۔۔۔ اہمیت۔۔۔ پر۔۔۔ ابھی۔۔۔ تک۔۔۔غور۔۔۔ نہیں۔۔۔ کیا۔۔۔گیا۔۔۔ لیکن یہ گاف کدھر گیا۔۔۔۔۔۔ ارے سچ مچ یہ گاف کدھر ہے۔لاحول ولا ملتا ہی نہیں
(سلیمان داخل ہوتا ہے)
سلیمان: کیا نہیں ملتا۔؟
حامد: گاف نہیں مل رہا یار۔
سلیمان: (حیرت سے)گاف؟
حامد: ہاں بھئی گاف۔ ابھی یہاں تھا خدا معلوم کہاں غائب ہوگیا۔
سلیمان: اور زیادہ حیرت سے(کون ہے یہ گاف)
حامد: کاف کا بڑا بھائی۔
سلیمان: سمجھتے ہوئے اوہ۔۔۔ تو آپ تھانے میں رپٹ کیوں نہیں لکھواتے۔
چِلا کر مل گیا مل گیا زور سے کی پر انگلی مارتے ہوئے۔ دھت تیری( عبارت پڑھتے ہوئے۔ پاکستان کی۔ نہیں نہیں۔ پاکستان میں تعلیمی فلموں کی اہمیت پر ابھی تک غور نہ کیا گیا اس کمبخت گاف نے تو مجھے پریشان کردیا تھا۔ کچھ دیر اور اسی طرح غائب رہتا تو یہ مضمون یہیں کا یہیں دھرا رہ جاتا۔
سلیمان: تو آپ فلمستان میں پاکستانی فلموں کی اہمیت پرغور فرمارہے ہیں۔
حامد: جی نہیں میں تعلیمستان میں غوری فلموں پر اہمیت فرما رہا ہوں۔
سلیمان ہنستا ہے۔
حامد: قبلہ سلیمان صاحب آپ اس وقت تشریف لے جائیے۔ مجھے واقعی پاکستان میں تعلیمی فلموں پرغور کرنا ہے۔
سلیمان: میں ابھی تشریف لے جاتا ہوں لیکن آپ میرے پہلے ایک دو سوالوں کا جواب دے لیجئے۔
حامد: فرمائیے۔
سلیمان: جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے آپکے پاکستان بنے کو۔ درست ہے نا۔
حامد: جی ہاں
سلیمان: آپکے ہاں گنتی کے اسٹوڈیو تھے ایک(شائد جل چکا ہے کاری گر موجود نہیں سازو سامان کی کمی ہے عام تفریحی فلم آ پ بنا نہیں سکتے سمجھ میں نہیں آتا۔ �آپ اپنا نیا اُردو ٹائپ رائٹرلے کر تعلیمی فلموں پر کیوں غور فرما رہے ہیں۔
حامد: تمہاری گفتگو کا کوئی پہلو طنز سے خالی نہیں ہوتا۔
سلیمان: حامد صاحب آپ میرے سوال کا جواب دیجئے۔
حامد: آپکے سوال کا جواب یہ ہے کو جو چیز ہمارے پاس نہیں ہمیں بنانا ہے۔
سلیمان: بڑے شوق سے بنائیے۔۔۔۔۔۔ خدا آپکے ارادوں میں برکت دے لیکن حضرت یہ کام شروع کرنے سے پہلے سوچنا سمجھنا ضروری ہے اناڑیوں کی طرح شروع کیجئے تو قدم قدم پر آپکے ٹائپ رائٹر میں گاف گُم ہو جایا کرے گا۔
حامد: (جزبزہوکر) بکواس نہ کرو۔
سلیمان: مجھے خوشی ہوئی کہ آپکے دفاع کا توازن بگڑ گیا اب آپ میری منطق کو اچھی طرح سمجھ سکیں گے۔ ایک سگریٹ مرحمت فرما سکتے ہیں آپ۔
حامد: جی نہیں دام بڑھ جانے کی وجہ سے میں نے چھوڑ دیئے ہیں۔
سلیمان: مبارک ہو۔۔۔۔۔۔ اپنا سگریٹ سُلگانے کی تو اجازت ہے مجھے(سگریٹ لگاتا ہے)
حامد: (جھپٹا مار کر سگریٹ کی ڈبیا چھینتے ہوئے)ادھر لاؤ ایک۔۔۔۔۔۔ کمینے کہیں کے۔
سلیمان: (مسکراتے ہوئے) آپ پوری ڈبیا لے سکتے ہیں لیکن میں کمینہ نہیں۔
حامد: خیر نہ سہی۔ سگریٹ تو دو۔
سلیمان: کتنی جلدی مان لیا آپ نے اسے کہتے ہیں ایمان کی کمزوری۔
حامد: (سگریٹ سُلگا کر) بتاؤ کیا کہہ رہے تھے تم۔
سلیمان: میں یہ عرض کررہا تھا کہ میرے بتانے پر آپکا فوری مان لینا آپ کے ایمان کی کمزوری ہے۔
حامد: آپ اوندھی کھوپڑی کے انسان معلوم ہوتے ہیں غلطی تسلیم کرنا بہادرانہ فعل ہے۔
سلیمان: آپ ایک اور غلطی تسلیم کرکے اور بہت بڑے بہادرانہ فعل کو سرانجام دیجئے کہ پاکستان میں یہ جو آپ تعلیمی فِلموں کی اہمیت پر غور فرما رہے ہیں۔ فضول ہے۔
حامد: تم دلائل سے ثابت کردو۔ میں مان جاؤں گا۔
سلیمان: شاباش۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھہریئے پہلے میں اپنے دماغ کا ٹائپ رائٹر درست کرلوں ایسا نہ ہو گاف گم ہو جائے۔
حامد: (ہنستا ہے) ٹھیک ہوگیا۔
سلیمان: جی ہاں خدا کے فضل و کرم سے(کھانستا ہے) اچھا قبلہ فرمائیے ہمارے اس طرف جسے کبھی ہندوستان کہتے تھے فلم انڈسٹری قائم ہوئے کتنے برس ہو چکے ہیں۔
حامد: قریب قریب چالیس برس۔
سلیمان: ان قریب قریب چالیس برسوں میں اس صنعت نے آپکے خیال کے مطابق خاطر خواہ ترقی کی ہے یا نہیں۔
حامد: نہیں۔
سلیمان: کیوں؟
حامد : بہت سی وجوہات ہیں۔
سلیمان: جن میں سے ایک یہ ہے کہ آپ جیسے بزرگوں نے مضمون نویسی پر زور زیادہ دیا اور صحیح کاموں پر کم۔
حامد: کیا تم ذاتیات سے علیحدہ نہیں رہ سکتے۔
سلیمان: جی نہیں اس لیئے کہ آپ کی ذات سے پاکستان کی فلمی صنعت سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں شرمائیے نہیں یہ واقعہ ہے مگر کسر صرف اتنی ہے کہ آپ دوسرے پاکستانیوں کی طرف جذبات میں الجھ کر اپنا صحیح راستہ بھول جاتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض اوقات آپ کا گاف گم ہو جاتا ہے۔
حامد: ہنستا ہے گاف کے پیچھے تم بہت بُری طرح پڑے ہو۔
سلیمان: پڑنا چاہیئے۔ گناہ کا پہلا حرف کمبخت۔۔۔۔۔۔گندگی میں یہی سب سے پہلے اور جب گم ہوتا ہے۔ تو یہی پہلے گم ہوتا ہے۔
حامد: ہنستا ہے۔ آدمی ذہین ہیں آپ سلیمان صاحب!
سلیمان: آپ نے پھر غلطی کی۔۔۔۔۔۔ کوئی لفظ بنانا ہی تھا تو یوں بنایا ہوتا علم کے وزن پرعلم سے عالم بنا۔ قلم سے قالم ذرا آگے چلیئے علم سے علامہ۔ فلم سے فلامہ۔
حامد: ہنستا ہے۔ تو آج سے ہوگیا۔ فلامہ اجل سلیمان۔۔۔۔۔۔
سلیمان: تسلیم عرض کرتا ہوں اور اصل موضوع سے ہٹ جانے پر معذرت طلب کرتا ہوں میں کہہ رہا تھا کہ فلمی صنعت نے یہاں بالکل خاطر خواہ ترقی نہیں کی ہندوستان تقسیم ہونے کے بعد اس صنعت کا جو کچھ بھی یہاں بچا ہے ظاہر ہے کہ اس پر چھاپ ہی ہندوستانی ہے۔ اس میں جو برائی اور کمی ہے۔ ظاہر ہے( وہ بھی ہماری اپنی ۔ بُرائی اور کمزوری ہے)
حامد: درست ہے۔
سلیمان: اس طرح پاکستان میں تعلیمی فلموں کی اہمیت پر غور نہیں کیا گیا۔ تو اس کا اصل مطلب یہ ہے کہ سرے ہی سے اس پر غور نہیں کیا گیا۔ یہ بھی سوچنا ہے کہ اس مسئلے پر ہمیں سوچنے کا موقع ہی کہاں ملا ہے۔ ہمارے فلم سازوں نے ابھی عام تفریحی فلم ہی نہیں بنائیں تعلیمی تو بہت بعد کی چیز ہے۔
حامد: کہتے تو ٹھیک ہو۔
سلیمان: بھائی صاحب میں ہمیشہ ہی ٹھیک کہتا ہوں پر مصیبت یہ ہے کہ میرا واسطہ پڑتا ہے آپ ایسے جذباتی لوگوں سے جوکنواں کھودنے کے لیئے ہاتھوں میں ڈول لیئے گھر سے نکل پڑتے ہیں پاکستان میں آپ شوق سے تعلیمی فلم بنائیے ایک نہیں ہزار بنائیے اور ان کی اہمیت سے کسی کافر کو بھی شبہ نہیں ہوسکتا۔ مگر سب سے پہلے آپ اپنے عام تفریحی فلموں کا اسٹنڈرڈ اونچا کیجئے۔ جی نہیں سب سے پہلے آپ اپنے تماشائیوں کو فلم دیکھنے کا سلیقہ سکھائیے۔
حامد: کیا مطلب؟
سلیمان: میں عرض کرتاہوں(عورتیں ہنستی ہوئی اندر داخل ہوتی ہیں)۔۔۔۔۔۔ تو بھئی میرا تو گاف گم ہوگیا۔
تشریف لے آئیں میری زوجہ محترمہ۔۔۔۔۔۔
حامد: میری بھی ہمراہ ہیں۔
مسرت: آداب عرض سلیمان صاحب
سلیمان: تسلیمات
عفت: حامد بھائی سلام
حامد: وعلیکم السلام
عفت: مسرت ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں بیٹھے کوئی سازش کررہے تھے۔
سلیمان: جی ہاں بہت گہری سازش۔
مسرت: ہمیں شامل نہ کیجئے گا اس میں
حامد: نہیں
مسرت: کیوں
حامد: فلامہ اجل سلیمان صاحب جواب دیجئے۔
سلیمان: بتانا میں تمہارے پاس کس لیئے آیا تھا۔ ارے ہاں سر درد کی دوا لینے مسرت کو دیکھا تو ایک لحظہ کے لیئے بھول گیا کہ سر میں شدت کا درد ہورہا تھا۔
حامد: (مسکراتے ہوئے) ان کے آنے سے جو آجاتی ہے منہ پہ رونق۔
مسرت: خاک بھئی رونق نہیں بہت بُرا حال ہے ان کا درد کے مارے سر پھٹا جارہا ہے سو اس کا ایک ہی علاج ہے۔ کیوں عفی۔؟
عفت: بالکل۔
سلیمان: جو بیمار ہے اس کو تو علاج بتایا ہی نہیں تم نے۔
مسرت: دردِ دل دیکھئے۔
عفت: ایک درد۔ دوسرے درد کو بالکل دور کردے گا۔
سلیمان: ایک جو یہ ساتھ ہی چمٹ گیا کمبخت
مسرت: حامد بھائی آپ ان سے کہیں کہ ہمارے ساتھ دردِ دل دیکھنے چلیں۔
حامد: چلا جائے گا۔ اگر عفی مجھے معاف رکھے۔
عفت: اجی واہ۔ آپ تو سب سے پہلے چلیں گے۔ اُ ٹھیئے۔ اُ ٹھیئے۔
مسرت: آپ بھی اٹھئے سلیمان صاحب۔
سلیمان: آج پہلا دن ہے مسرت بہت رش ہوگا۔
حامد: چلو سلیمان چلتے ہیں۔
عفت: دیکھا مسرت میرے شوہر توڈبیا میں بند رکھنے کے قابل ہیں۔
حامد: خدا کے لیئے ابھی بند کردو مجھے۔
عفت: پہلے پکچر دیکھنے چلیں۔ بعد میں دیکھا جائے گا۔
سلیمان: لیکن میں کہتا ہوں یہ دو، بس چلی جاتیں ہمارے بغیر
عفت: بھائی جان آپ زیادہ باتیں نہ کیجئے شو کا وقت ہورہا ہے۔
سلیمان: چلیئے جناب۔
حامد: چلو عفت۔
عفت: ٹھہریئے۔۔۔۔۔۔ آؤ مسرت۔۔۔۔۔۔ ذرا ہم۔
حامد: زیادہ بناؤ سنگار اچھا نہیں ہوتا جناب۔
عفت: آپ گاڑی نکالیئے ہم ابھی آتے ہیں۔
حامد: چلو بھئی سلیمان۔
(دونوں باہر نکلتے ہیں)
سینما ہال کے باہر
مسرت: اف توبہ کتنی بھیڑ ہے۔
سلیمان: میں نے تم سے کہا تھا آج پہلا شوہے بہت رش ہوگا۔
مسرت: تو کیا ہوا۔ حامد بھائی آپکی طرح سست نہیں۔ یوں چٹکیوں میں ٹکٹ لے آئیں گے۔
سلیمان: غریب پس رہا ہوگا۔
عفت: وہ آگئے
سلیمان: ذرا حلیہ ملاحظہ ہو۔ معلوم ہوتا ہے کشتی لڑ کے آرہے ہیں۔
مسرت: ٹکٹ مل گئے حامد بھائی۔
حامد: جی نہیں۔ ہاؤس فل ہے۔ لیکن کتنے بدتمیز ہیں یہ لوگ۔
عفت: کیا ہوا؟
حامد: دیکھو ہیٹ کا کیا ناس مارا گیا ہے۔
(بلیک میں ٹکٹ بیچنے والے کی صدا آتی ہے)
ٹکٹ بیچنے والا: ڈھائی روپے کا تین روپے میں۔
مسرت: یہ ٹکٹ تو مل رہے ہیں
ٹکٹ والا: کتنے چاہئیں میم صاحب۔
مسرت: میں نے تم سے بات نہیں کی۔
ٹکٹ والا: اللہ رے دماغ۔ ڈھائی کا تین میں۔ ڈھائی کا تین میں۔ جو لینا چاہیئے پہلے مجھے سلام کرئے۔
مسرت: بدتمیز کہیں کا۔
سلیمان: کہیں کا نہیں۔ یہیں کا ہے۔
حامد: ہنستا ہے۔
عفت: سلیمان صاحب یہ ڈھائی کا ٹکٹ تین میں کیوں بیچ رہا تھا۔
سلیمان: تاکہ آپ جیسی میم صاحبوں کو آسانی سے مل جائے۔
حامد: ہوں۔ صریحاً بلیک مارکیٹ کررہا ہے۔
سلیمان: آپ کچھ بھی کہہ لیجئے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ مارکیٹ میں پیش کررہا ہے۔
حامد: تم ہر چیز کو اپنی ترچھی نگاہ سے دیکھو گے۔
سلیمان: آپ بھی اس نگاہ سے دیکھیں تو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ لوگ بہت بڑے نبض شناس ہیں ان کا وجود ہم شریف آدمیوں کے لیئے باعث زحمت ہے۔
مسرت: ماشاء اللہ۔
سلیمان: چشم بددور بھی کہو۔ مذاق نہیں کررہا حامد۔ تمہارا پچیس روپے کا فلیٹ ہیٹ میلاہونے سے یقنیاً بچ جاتا۔ اگر تم نے چپکے سے اس آدمی سے دو روپے زیادہ خرچ کرکے ٹکٹ لے لیئے ہوتے۔
مسرت: یہ تو ٹھیک ہے۔
سلیمان: کہتا ہمیشہ ٹھیک ہی ہوں لیکن آپ لوگ مانتے بہت دیر میں ہیں۔
ٹکٹ والے کو آواز دیتا ہے۔(میاں ٹکٹ فروش)
ٹکٹ والا: (دُور سے) مجھے بُلایا ہے آپ نے
سلیمان: جی ہاں۔
حامد: ہنستا ہے۔
سلیمان: معافی چاہتا ہوں اور سلام عرض کے بعد چار ٹکٹ آپکے مقرر کردہ کنٹرول ریٹ پر لینے کی جرأت کرتا ہوں۔
ٹکٹ والا: تم آدمی اچھے معلوم ہوتے ہو۔
سلیمان: تسلیم عرض کرتا ہوں آپ پہلے شخص ہیں جس نے بروقت داد دی ہے۔
ٹکٹ والا: (مسکراتا ہے) یہ لیجئے چار ٹکٹ آپ ڈھائی ڈھائی روپے ہی دے دیں۔
سلیمان: بڑی نوازش ہے آپکی۔
ٹکٹ والا: نوازش ویوازش کچھ نہیں۔ لیکن آپ کی میم صاحبہ سے کہہ دیجئے کہ سینما آتے وقت مزاج گھر چھوڑآیا کریں صدا دیتے ہوئے۔ڈھائی روپے کا ٹکٹ سوا تین روپے میں۔ ڈھائی کا سوا تین روپے میں۔ ریٹ بڑھا دیئے سرکار نے۔
(حامد اور سلیمان دونوں ہنستے ہیں)
مسرت: ذرا سرکار کی شکل دیکھئے۔
سلیمان: دردِ دل نہ دیکھئے گا۔
مسرت: ہاں سچ وقت ہوگیا ہے چلو عفت۔
(سینما ہال کے اندر)
مسرت: اف کس قدر اندھیرا ہے۔
عفت: کچھ سوجھتا ہی نہیں۔
حامدتم میری انگلی پکڑلو لاؤ ادھر۔
ایک عورت: معاف کیجئے گا یہ میری انگلی ہے۔
حامد: ہکلا کر م۔م۔ معاف کیجئے گا۔
(مسرت اور عفت کی دبی دبی ہنسی)
ایک تماشائی: خاموش۔ کون ہنس رہا ہے۔
سلیمان: مجھے تو بڑی اچھی گدے دار سیٹ مل گئی ہے۔
دوسرا تماشائی: معاف کیجئے گا آپ مجھ پر تشریف فرما ہیں۔
سلیمان: (ایک دم اُٹھ کر)اوہ
(حامد ، عفت اور مسرت سب کھکھلا کرہنستے ہیں)
تماشائی: بیک وقت خاموش خاموش۔
سلیمان: (آہستہ سے) بیٹھ جائیے۔ سب۔ پکچر شروع ہونے والی ہے۔(ایک چھوٹے بچے کے رونے کی آواز آتی ہے)۔ ہجوم کا رد عمل۔ قہقہے۔ سیٹیاں خاموش کراؤ۔ خاموش کراؤ کی بلند آوازیں۔
سلیمان: پاکستان کے شیر خوار بچوں کے دل میں درد پیدا کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ انہیں شروع ہی سے فلم دکھائی جائیں نوٹ کر لو حامد۔
حامد: آہستہ وہ دیکھو پردے پر ہیروئن نمودار ہوگئی۔
سلیمان: گانا شروع کر ے گی تو فوراً مان لوں گا۔
میوزک کا افتتاحی ٹکڑا ذیل کے گیت میں تحلیل ہو جاتا ہے۔
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے
کیا کہوں کچھ بھی کہہ نہیں سکتی اور کہے بن میں رہ نہیں سکتی
کیا بتاؤں کہ معاملہ کیا ہے آخر اس درد کی دوا کیا ہے
دل میں سو سو خیال آتے ہیں ایسے آتے ہیں جیسے جاتے ہیں
تو ایک دم کچھ کھٹ پٹ ہوتی ہے اور گیت ایک دھچکے کے ساتھ بند ہو جاتا ہے اس پر ہجوم بہت شور برپا کرتا ہے۔ طرح طرح کی آوازیں بلند ہوتی ہیں آہستہ آہستہ یہ شور ختم ہو جاتاہے(واپس گھر میں)
مسرت: لاحول والا۔ کتنا برا انتظام ہے ان سینما گھروں میں۔
سلیمان: تم بُرا ہرگز نہیں کہہ سکتیں۔
مسرت: کیوں؟
سلیمان: جو چیز ہو اُسے اچھا بُرا کہا جاسکتا ہے۔ مگر جو چیز سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس پر رائے زنی کاتمہیں کوئی حق حاصل نہیں۔
مسرت: چلا کر، میں آپ کی کج بحثی سے تنگ آگئی ہوں۔
سلیمان: تم بھی حامد کی طرح ہر چیز سے جو صحیح ہو تنگ آجاتی ہو۔
حامد: مجھے ابھی تھوڑی دیر کے لیئے بخش دو میں اپنا ہیٹ درست کررہا ہوں۔
سلیمان: یہ قیامت تک درست نہیں ہوگا۔ ادھر تشریف لائیے پاکستان میں تعلیمی فلموں پر غور کریں۔
مسرت: ہائے اللہ یہ میری ساڑھی کو کیا ہوگیا۔
عفت: دیکھوں تو
مسرت: پورے روپے برابر جل گئی۔
سلیمان: پرانے یا نئے روپے برابر۔
مسرت: جل کر۔ میرا نقصان ہوگیا ہے اور آپ کو ہنسی سوجھتی ہے اللہ کرے اسکی دونوں آنکھیں پھوٹیں جس نے میری جارجٹ کی نئی ساڑھی غارت کی۔
سلیمان: ایک آنکھ تو رہنے دی ہوتی غریب سینما دیکھنے کا شوقین ہے۔
عفت: پکچر ہاؤس میں سگریٹ پینے کی سخت ممانعت ہونی چاہیئے۔
سلیمان: اور عورتوں کو اپنے شیر خوار بچے ساتھ لانے کی کھلی اجازت اور پان کھانے والیوں اور والوں کے لیئے پیک دان مفت چاہئیں۔
حامد: مذاق برطرف ہمارے سینما گھر اچھی خاصی بک بک ہیں۔
سلیمان: کیا کہوں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا اور کہے بن میں رہ نہیں سکتا کہ سب سے پہلے تعلیمی فلم بنانے والوں۔ فلم دکھانے والوں کے لیئے فلم بنانے چاہئیں۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو تعلیم و تدریس کے لیئے لیکچر دینے لگیں گے۔
مسرت: چلو عفی۔ یہ ساڑھی رفو کرنے کیلئے دے آئیں۔
عفت: چلو۔قدموں کی چاپ
سلیمان: حامد میں تم سے ایک بہت کہوں۔
حامد: کہو۔
سلیمان: پاکستان میں سب سے پہلے ہمیں ایسے رفوگروں کی اہمیت پر غور کرنا چاہیئے جو ہماری معاشرت کے چاک سی دیں۔ میں سچ کہتا ہوں نئے کپڑے بنانے سے پہلے ان پھٹے پرانے کپڑوں ہی کے متعلق سوچنا چاہیئے۔ یہی کلیدِ حیات ہے۔
حامد: ٹھہرو مجھے یہ باتیں معلوم کرلینے دو۔
سلیمان: ٹھہرو۔ پہلے مجھے یہ پوچھنے دو کہ تفریحی اور تعلیمی فلموں میں تمہارے نزدیک کیا فرق ہے۔
حامد: تفریحی اور تعلیمی فلموں میں یہ فرق ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔رُک جاتا ہے
سلیمان: گاف گم ہوگیا کیا۔
حامد: اورکیا۔۔۔۔۔۔ تم سوال ہی کچھ ایسے بے ڈھنگے پن سے کرتے ہو۔
سلیمان: سنو۔ تفریحی فلم تعلیمی بھی ہو سکتے ہیں بلکہ یوں کہناچا ہیئے کہ ہر فلم تعلیمی فلم ہوتا ہے۔
حامد: میرا مطلب بالکل یہی تھا۔ تم خواہ مخواہ بوکھلا دیتے ہو۔
سلیمان: ایسی بوکھلاہٹ صحت مند ہے کیونکہ تم فوراً سمجھ جاتے ہو۔ اب ایک پار پھر بوکھلا جاؤ اور سمجھو کہ ہمارے فلمساز اپنے فلم اس وقت تک نہیں بنائیں گے جب تک حکومت انہیں مجبور نہیں کرئے گی۔
حامد: مجبوری میں انسان اچھا کام کیسے کرسکتا ہے۔
سلیمان: بھائی جان فلمی دنیا ایک بالکل ہی دوسری دنیا ہے۔ پچھلے دنوں دوسری جنگ عظیم کے دوران میں سرکار انگریز نے تمام بڑے بڑے فلمسازوں کے نام احکام جاری کیئے کہ وہ ایک ایک پروپیگنڈا فلم بھی تیار کریں یہ احکام پا کر فلمساز بہت سٹپٹائے۔ فرار کا کوئی راستہ نہ ملا تو انہیں مجبوراً پروپیگنڈا اور تفریحی فلموں کو سمو کر ایسے فلم تیار کرنے ہی پڑے جن میں سے اکثر کامیاب ہوئے۔
حامد: گنتی کے صرف تین چار فلم ایسے تھے۔
سلیمان: کچھ بھی ہو مگر وہ چیز تو دور ہوگئی جس سے ہمارے فلمسازوں کوڈرلگتا تھا ان کو خوف تو نہ رہا کہ ایسے فلم جن کی پبلک عادی نہیں بہت بڑی فیل ہوں گی۔
حامد: یہ تو ہے
سلیمان: اگر یہ ہے تو ہمارے ہاں یقیناً ایسے تعلیمی فلم بن سکتے ہیں جو آمدن کا بھی ذریعہ ہوں۔
حامد: ٹھہرو مجھے نوٹ کرلینے دو۔
سلیمان: کرلو
حامد: ایک دم چِلا کر۔ ارے میرا فاؤنٹن پین کدھر گیا۔ باہر کی اس جیب میں تھا اُڑالے گیا کوئی سنیما میں۔
سلیمان: دیکھو یہ تو ہے۔
حامد: یہ تو ہے لیکن تمہارے پاس کیسے آیا۔
سلیمان: بجلی فیل ہوئی اور گڑ بڑ مچی تو میں نے دیکھا ایک صاحب جواز قسم جیب تراش تھے۔ بڑے اطمینان سے تمہارے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالے شغل فرما رہے تھے۔
حامد: تم اندھیرے میں بھی دیکھ لیتے ہو۔
سلیمان: میری آنکھیں بلی کی ہیں جیب میں ہاتھ ڈال کر گھڑی نکالتا ہے۔ یہ لو اپنی گھڑی لے لو۔
حامد: گھڑی۔ ہاتھ میں لے کر یہ گھڑی تو میری نہیں۔
سلیمان: تمہاری نہیں۔ تو وہ غریب لُٹ گیا۔
حامد: کون۔
سلیمان: وہی جوتمہارا پن اُڑانا چاہتا تھا۔ (ہنستا ہے) کمال ہوگیا جب میں نے اس کی جیب میں ہاتھ ڈال کر تمہارا پن اور یہ گھڑی نکالی تو اس غریب نے ڈر کے مارے کوئی صدائے احتجاج بلند نہ کی بہر حال اب یہ سوچنا ہے کہ گھڑی کا کیا کیا جائے۔
حامد: یہ واقعی سوچنے کی بات ہے۔
سلیمان: فی الحال اپنی جیب میں رکھتا ہوں اور اسے ایمانداری سے وقت بتانے کا عادی کرتا ہوں اس کے بعد سوچیں گے کہ کس آدمی کے گھر ڈالا جائے۔
مأخذ : کتاب : رتی۔ماشہ۔تولہ اشاعت : 1956 کتاب : رتی۔ماشہ۔تولہ (Pg. 1956)
مصنف:سعادت حسن منٹو