۔۔۔ پانچ سو برس سے کچھ زیادہ عرصہ ہوا ہے جب ایک آدمی نے ساری دنیا پر قابض ہونا چاہا۔ جس کام میں اس نے ہاتھ ڈالا کامیاب ہوا ۔۔۔ نصف دنیا سے زیادہ کے لشکروں کو اس نے یکے بعد دیگرے نیچا دکھایا۔ کئی شہروں کو بیخ و بنیاد سے اکھیڑ پھینکا۔ ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ کئی سلطنتوں کی دولت اپنے قبضے میں لایا اور جس طرح چاہا اسے صرف کیا۔
پہاڑوں کی چوٹیاں کاٹ چھانٹ کران پر نزہت گاہیں بنائیں۔۔۔ دریاؤں کے رخ بدل ڈالے۔ سڑکیں اورراستے بنائے کہ دو براعظموں کی تجارت کا مال ان پر سے گزرنے لگا ۔ اس خونخوار جنگجو آدمی کو ہم تمرلین یا تیمور لنگ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔۔۔
ایشیا اس سے خوب واقف ہے اس پر ناز بھی کرتا ہے اور افسوس بھی ۔ بعض لوگ اسے گُرگ سیاہ کہتے ہیں ۔ مگر بعض ایسے بھی ہیں جو اسے شیرژیاں اور گیتی ستان کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔۔۔ مشہور شاعر ملٹن نے عزازیل کی شاندار تصویر میں جو مہیب رنگ بھرے ہیں، معلوم ہوتا ہے تیمور کے قصوں پر غور کرنے کے بعد ہی اس کے قلم میں یہ بلا کا زور آیا تھا۔
شاعروں نے اس ہیبت ناک انسان پرخیال آفرینیاں کیں۔ مگر مورخوں پر سکوت کا عالم طاری رہا کہ وہ تیمور کو کس زمرے میں تصور کریں ۔ وہ کسی شاہی خاندان کا رکن نہیں تھا لیکن اپنی ذات سے البتہ وہ ایک شاہی خاندان کی بنا ڈال گیا ۔ غارت گر تھا۔ ڈھانے اور گرانے والا تھا۔ مگر جب بنانے کی طرف راغب ہوا تو بے مثل عمارتیں اس نے تعمیر کرائیں ۔۔۔ سکندر کی طرح کسی بادشاہ کا لڑکا نہیں تھا اور نہ چنگیز کی طرح کسی لاؤ لشکر والے کا وارث۔ فتح مند اسکندر کے پاس مقدونیہ کے لوگ اور چنگیز کے پاس مغلوں کے گروہ شروع سے موجود تھے۔ مگر تیمور نے خود اپنے لیئے ایک قوم فراہم کی ۔
انتہا درجے کی نفرت اور انتہا درجے کی محبت جیسی تیمور کے ساتھ ظاہر کی گئی ہے۔ کسی دوسرے بادشاہ کے ساتھ ظاہر نہیں ہوئی۔ تیمور کے دربار کے دو بڑے مورخ گزرے ہیں۔
ایک نے اس کو شیطان بتایا ہے۔ اور دوسرے نے لکھا ہے کہ اس جیسا عالی مقام اورعالی ظرف کبھی پیدا نہیں ہوا ۔ ابن عرب شاہ لکھتا ہے کہ وہ ایک بے رحم قاتل، مکرو فریب میں اُستادِ کامل اور عداوت و انتقام میں خدا کا قہر تھا۔ مولانا شرف الدین لکھتے ہیں کہ ہمت و شجاعت نے اس کو تمام تاتارکی شہنشاہی پر ممتاز کیا اور تمام ایشیا کو اس کے سامنے جھکا دیا۔
تیمور اگرچہ دنیا کے بڑے لڑنے والوں میں بہت بڑا درجہ رکھتا ہے، لیکن بادشاہوں میں وہ بدترین بادشاہ تھا۔ لائق، بہادر تھا، فیاض تھا، لیکن شہرت کا خواہاں، سخت گیر اور ظالم ۔ اپنی ذاتی شان و شوکت کے مقابلے میں وہ دوسرے انسانوں کی خوشی کو پرکاہ سے زیادہ نہ سمجھتا تھا۔اس کی ذاتی شہرت نے اس کی قوت کے عالی شان محل کو سلامت رکھا۔ لیکن جب وہ مرا تو یہ محل بھی اس کے ساتھ ہی گر پڑا۔۔۔ اس کی سلطنت اس کی موت کے ساتھ ہی مٹ گئی۔ اس مختصر خاکے میں جو ہم اب آپ کی خدمت میں پیش کریں گے، تیمور لنگ کی ز ندگی کے آخر ی باب کی جھلک دکھائی جائے گی۔ جبکہ موت اس کے دروازے پر دستک دینا چاہتی تھی۔
فرشت�ۂ موت: (موٹی اور ڈراؤنی آواز میں) تیمور ۔۔۔ ادھر دیکھو یہ لاشیں پہچانتے ہو؟
تیمور: (بے پرواہی سے) لاشیں ۔۔۔ کس کی لاشیں ۔۔۔
فرشت�ۂ موت: دیکھو یہ لاش کس کی ہے ۔۔۔ پہچانتے ہو؟
تیمور: پہچانتا ہوں۔ یہ میرے بڑے بیٹے جہانگیر کی لاش ہے۔ مگر اس کو مرے تو ایک زمانہ ہوچکا ہے۔
فرشت�ۂ موت: (ہنستا ہے) اور یہ۔
تیمور: یہ عمر شیخ کی لاش ہے ۔ مگر اس کو انتقال کیئے بھی ایک مدت ہوچکی ہے۔
فرشت�ۂ موت: (ہنستا ہے) یہ
تیمور: یہ ۔۔۔ میرا پوتا امیرزادہ محمد سلطان ہے۔۔۔ ظالم موت نے اس کو بھی نہ چھوڑا ۔۔۔ بڑا دلیر اور شجاع تھا۔ تمام لشکر اس کی پرستش کیا کرتا تھا۔ مجھے اس کی موت پر بہت افسوس ہوا تھا (توقف کے بعد) اس نوجوان شہزادے نے اقبال و نصرت کی حالت میں دنیا کو خیرباد کہا ۔۔۔ (آہ بھرکر) وہی فوجیں جو یہ مرحوم سمرقند سے اپنے ساتھ لیکر آیا تھا، اپنے سردار کی لاش کندھوں پر اٹھا کر سمر قند واپس آئیں۔۔۔رنگین پرچموں کی جگہ ماتمی جھنڈے تھے۔۔۔ اس کا میں نے زیادہ خیال نہ کیا۔ لیکن جب مرحوم کے دودھ پیتے بچے میرے سامنے لائے گئے تو مجھے سخت صدمہ ہوا اورکئی دن تک اپنے خیمے سے باہر نہ نکلا۔
فرشت�ۂ موت: (ہنستا ہے) کیا اب بھی تمہیں معلوم نہیں ہوا کہ تم سے بڑھ کر بھی دنیا میں کوئی قوت موجود ہے ۔ ایسی قوت جس نے تمہارے بہترین ساتھیوں کو تم سے ہمیشہ کے لیئے جدا کردیا ہے۔۔۔ تمہارے شروع زمانے کے تمام کے تمام بڑے بڑے اُمرا آج اپنی قبروں میں بے خبر سو رہے ہیں۔۔۔ حاجی شیخ سیف الدین کہاں ہے؟۔۔۔ تمہارا وہ جاں نثار جاکو برلاس کہاں ہے؟ ۔۔۔امیر زادہ محمد سلطان تمہارے فرزند رشید کا لخت جگر کہاں ہے جس پر تمہیں اتنا ناز تھا۔۔۔ اور تمہارا وہ وفا کیش اور نمک حلال امیر آقا بوغا کہاں ہے جس کی خدمات کے صلہ میں تم نے ہرات کی حکومت اس کو بخش دی تھی۔۔۔ کہاں ہیں یہ سب لوگ ۔۔۔ تم نے جب اپنے پوتے محمد سلطان کی علالت کی خبر سنی تھی تو بھاگے بھاگے اس کے پاس گئے تھے جیسے تمہاری آمد سے موت کا فرشتہ اپنے پر سمیٹ کر ایک کونے میں دبک جائیگا ۔ لیکن مریض کی زبان ایسی بند ہوئی کہ آخر دم تک نہ کھلی۔۔۔ وہ تم سے بات تک نہ کرسکا (دیوانہ وار ہنستا ہے)
تیمور: (گھبرا کر جاگتا ہے) بند کرو اس ہنسی کو ۔۔۔ بند کرو اس شیطانی ہنسی کو ۔۔۔ یہ کون تھا؟ ۔۔۔ یہ کون تھا؟
سرائے خانم: کیا حضرت صاحب قر ان نے آج پھر کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا۔
تیمور: (توقف کے بعد ) ہاں ۔۔۔ جب سے ہم اپنے عزیز پوتے کی لاش لیکر سمرقند آئے ہیں عجیب عجیب خواب دیکھنے سے ہماری نیند خراب ہوگئی ہے۔ سرائے خانم کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ خواب ہمیں ستا رہے ہیں ۔۔۔ کیا ہم بڈھے تو نہیں ہوگئے۔
سرائے خانم: (ہنستی ہے) امیر گورگان جو آدھی دنیا فتح کرچکا ہے کیسے بڈھا ہو سکتا ہے ۔۔۔ اور ابھی تو آدھی دنیا باقی ہے جو حضور کے قدموں کے نقش سے خالی ہے ۔۔۔
تیمور: تم ٹھیک کہتی ہو سرائے خانم ! ابھی آدھی دنیا باقی ہے جو ہمارے قدموں کے نقش سے خالی ہے ۔۔۔ (ہنستا ہے) جو آدمی ایک دفعہ پاؤں رکاب میں رکھتا ہے اسے کاٹھی پر پہنچنا ہی پڑتا ہے۔۔۔ ابھی تو ہم نے رکاب ہی میں پاؤں رکھا ہے۔ کاٹھی پر پہنچنا ابھی باقی ہے۔
سرائے خانم: کاٹھی ملک چین ہی ہوسکتی ہے۔۔۔ دشت شاموں کے خواب آپ یوں ہی نہیں دیکھتے رہے۔
تیمور: تم بلا کی زیرک ہو سرائے۔۔۔ کئی دنوں سے ہم خانان چنگیزی خواب میں دیکھ رہے ہیں۔۔۔ جانتی ہو تم یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بڑے بڑے لشکر لیکر ملک خطا چین میں پہنچے تھے۔۔۔ کل رات ہم نے اپنے والد صاحب کو دیکھا تھا ۔ وہ مجھ سے کہہ رہے تھے۔
سرائے خانم: (دلچسپی لیتے ہوئے ) کیا کہہ رہے تھے۔
تیمور: انہوں نے اپنے قبیلے کے فوجی امیروں کی داستانیں مجھے سنائیں کہ کس طرح مویشیوں اور لشکروں کو ساتھ لیئے وہ گشت کیا کرتے تھے۔ پہاڑوں پر جب برف گرتی تو نیچے اتر آتے اور جب برف پگھلتی تو پھر پہاڑوں پر پہنچ جاتے ۔ کارواں کی سڑکوں پر کمین گاہوں میں بیٹھ جاتے۔ اور اپنے جھنڈے کے سائے میں جس پر سینگ بنے ہوتے تھے چلتے چلتے ملک خطا چین تک پہنچ جاتے۔پورا قبیلہ پانچ سو میل کی کوہستانی زمین پر دو دو مہینے تک سیروشکار میں مصروف رہتا۔۔۔ انہوں نے سپید گھوڑوں کی قربانی کا بھی ذکر کیا جو قبیلے کے سردار کی قبر پر ذبح کیئے جاتے تھے ۔۔۔ یہ گھوڑے آسمان کے دروازے میں جہاں شمال کے ستارے روشن ہوتے ہیں داخل ہوجاتے تھے تاکہ ان روحوں کی خدمت کریں جو آسمانوں سے بھی اوپر کسی طبقے میں رہتی ہیں۔
پھر انہوں نے ملک خطا کی ان شہزادیوں کا نام لیا جو اپنے ملک سے خانان تاتار کے پاس بیاہی آئی تھیں۔ اور جہیز میں حریرو کتان اور عاج کی چیزیں گاڑیوں میں بھر کر ساتھ لائی تھیں۔۔۔ پھر انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ ظفر مند خانان تار تار جس پیالے سے منہ لگا کر گھوڑی کا دودھ پیتے تھے وہ دشمن کی کھوپڑی کا ہوتا تھا۔ اور اس پر سونا منڈھا ہوتا تھا۔ (توقف کے بعد) سرائے خانم۔ دشت شامو کا اب ایسا تصور بندھا ہے کہ ایک لحظہ کے لیئے بھی یہ دماغ سے نہیں نکلتا۔
سرائے خانم: ہندوستان کی حکومت آپ اپنے پوتے محمد سلطان کے بھائی کے حوالے کرچکے ہیں اور خراسان کی حکومت شاہ رخ کو دے چکے ہیں۔ آپ کی پریشانیاں اب بہت حد تک کم ہوگئی ہیں۔ ملک چین پر چڑھائی کردیجیئے۔
تیمور: یہی سوچ رہے ہیں ۔۔۔ فقط یہی ایک سلطنت ایسی راہ گئی ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکتی ہے۔ یعنی جس کو زیر کرنے میں ہم خوشی محسوس کرسکتے ہیں۔
کسی سردار یا امیر تیمور نے اپنے قصد کو ظاہر نہ کیا۔ جاڑے کا زمانہ تھا۔ اس لیئے مجبور ہوکر جس قدر فوج تبریز کی چھاؤنی میں تھی وہیں رہنے دی۔ لڑائیوں سے جو انتظام درہم برہم ہوگیا تھا اس کی درستی کے لیئے تبریز میں کچھ دیر قیام کیا۔ لیکن بہار کے آتے ہی جب زمین پر سبزہ نمودار ہونے لگا، وہ مشرق کی طرف سمرقند جانے کی خاطر اپنے لشکر اور امرائے دربار سمیت روانہ ہوگیا۔ اگست کے مہینے میں سمرقند آکر باغ میں ٹھہرا۔۔۔ جامع مسجد جو نئی نئی بن کر تعمیر ہوئی تھی اس کا معائنہ کیا۔
تیمور: (غصے کی حالت میں) ۔۔۔ میرعمارات کو ابھی تک ہماری خدمت میں کیوں حاضر نہیں کیا گیا ۔۔۔
وقفہ
تیمور: ہم نے تم سے کچھ کہا تھا شاہ ملک۔
شاہ ملک: حضرت صاحب قر ان گورگان اعظم کے حکم کی تعمیل ہوا ہی چاہتی ہے ۔۔۔ میر عمارات بس اب حاضر ہوا ہی چاہتے ہیں۔
تیمور: اس نابکار نے مسجد کا ستیاناس کردیا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ وہ اپنے فن میں خوب مہارت رکھتا ہوگا۔ مگر اس کی بنائی مسجد دیکھ کر ہمیں معلوم ہوا کہ وہ فن تعمیر میں محض کوراہے۔۔۔ اس کم بخت نے اندر کے دالانوں کو زیادہ وسیع کیوں نہیں کیا ۔۔۔ محمد جلد کہاں ہے؟ یہ سب اس کی غفلت کا نتیجہ ہے ۔ ہم نے تعمیر کا یہ کام اس لیئے اس کے سپرد کیا تھا کہ وہ اپنی نگرانی میں ہماری مرضی کے مطابق مسجد بنوائے مگر وہ بالکل نا اہل ثابت ہوا ہے۔
چوبدار: حضور! محمد جلد قدم بوسی کی اجازت چاہتے ہیں۔
تیمور: حاضر ہونے دو۔۔۔
وقفہ
ہماری سمجھ میں نہیں آتاکہ اس نے دالانوں کو زیادہ وسیع کیوں نہیں کیا۔۔۔
محمد جلد: غلام کو رنش بجالاتا ہے، حضرت صاحب قر ان۔
تیمور: تمہاری کورنش قبول نہیں کی جاسکتی۔ اس لیئے کہ تم نے ہمارے احکام کے مطابق مسجد تیار نہیں کرائی۔۔۔ تم نے یقیناً اپنی مرضی کو ہمارے احکام پر ترجیح دی ہے ۔ اور ایسی عدول حکمی کی سزا تم جانتے ہو۔ بہت کڑی ہوا کرتی ہے۔
محمد جلد: مگرعالی جاہ!۔۔۔
تیمور: ہم کوئی عذر سُننے کے لیئے تیار نہیں۔۔۔ ہم تمہیں اس مسجد کا نقشہ اچھی طرح سمجھا چکے تھے جو ہم نے ہندوستان میں دیکھی تھی۔۔۔ اسی نقشے کے مطابق تمہیں ایک مسجد سمرقند میں تیار کرنے کے لیئے ہم نے حکم دیا تھا۔۔۔
اس کا تمہارے پاس کیا جواب ہے کہ دالان اتنے چھوٹے کیوں بنوائے گئے ہیں؟۔۔۔ کیا تم اس کا م کو جس کا ہم نے کل معائنہ کیا ہے ، صنعت عمارت گری کی معراج سمجھتے ہو۔۔۔ کیا اسی قسم کی عمارت پیش کرکے تم ہماری داد کے طالب تھے ؟
محمد جلد: عالی جاہ! غلام کا اب یہی خیال ہے ، چاہے وہ غلط ہی ہو کہ یہ مسجد ہمارے معماروں کی صنعت کا بہترین نمونہ ہے۔۔۔ غلام اگر اس خیال کے ماتحت داد کا طالب ہوا تو قصور اس خیال کا ہے ۔
تیمور: چونکہ خیال تمہارا ہے ۔ اور ابھی تک اس خیال کو اپنے دماغ میں پرورش کر رہے ہو، اس لیئے تم اور تمہارا خیال دونوں ہمیشہ کے لیئے مٹ جانے چاہئیں ۔۔۔ تم اب جاسکتے ہو۔
محمد جلد: بہت اچھا عالی جاہ!
وقفہ
تیمور: شاہ ملک۔
شاہ ملک: ارشاد حضرت صاحب قرا ن
تیمور: محمد جلد کی تمام جائیدادیں املاک گورگان اعظم کے حق میں ضبط کرلی جائے۔
شاہ ملک: حضرت صاحب قر ان کے حکم کی تعمیل ہوجائیگی۔
تیمور: اور محمد جلد کے لیئے ہم موت کی سزا تجویز کرتے ہیں کہ وہ اسی لائق ہے۔
اس زمانے میں تیمور نے ان وزیروں کا کام بھی دیکھا جن کو اپنی عدم موجودگی میں وہ حکومت کا کام سپر د کرگیا تھا۔ کسی کو انعام دیا کسی کو پھانسی پر چڑھایا۔ حقیقت یہ ہے کہ کہ دل کی وہ قوت حیرت انگیز ہوگی جس نے اس بڑھاپے کے جسم کو زندہ کر رکھا تھا۔۔۔ تیمور کو اس کی مطلق پرواہ نہ تھی کہ اب اس کا کیا وقت ہے ۔۔۔ دو برس سے بصارت کم ہوتی جاتی تھی۔ آنکھوں کے پپوٹے ایسے گرے رہتے تھے کہ معلوم ہوتا تھا سورہا ہے ۔ عمر اس وقت ایک کم ستر کی ہوچکی تھی ۔۔۔ اس زمانے میں فرمان جاری کیا کہ ایک جشن جاری رکھاجائے۔ پورے دو مہینے تک اور کوئی کسی سے نہ پوچھے کہ یہ جشن کس تقریب میں کیا گیا ہے چنانچہ بڑی شان اور بڑے اہتمام سے جشنوں اور ضیافتوں کا سلسلہ جاری ہوا اور دو مہینے تک جب دھندلا آفتاب سمرقند کے نیلگوں پہاڑوں کے پیچھے چھپتا تھا تو تمام سمرقند ایک عالمِ جنات معلوم ہوتا تھا۔۔۔ جشن کا زمانہ ختم ہوا تو امیر تیمور نے شہزادوں اور امیروں کی مجلس منعقد کی۔
تیمور: (بلند آواز سے) ۔۔۔ ہم نے تمام ایشیا کو سوائے چین خطائی کے فتح کرلیا ہے ۔۔۔ ہم نے ایسے بڑے بڑے بادشاہوں کو سرنگوں کیا ہے کہ ہمارے کارنامے دنیا میں ہمیشہ یادگار رہیں گے ۔۔۔ تم لوگوں نے بہت سی لڑائیوں میں ہمارا ساتھ دیا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ تمہیں فتح نہ ہوئی ہو۔ چین ہمارا شکار ہے اس کو فتح کرنے کے لیئے بڑے زور اور بڑی قوت کی ضرورت نہیں ۔۔۔ بس اب تم ملک چین کو ہمارے ساتھ چلو۔ فتح و نصرت ہمارے آگے آگے وہاں پہنچ چکی ہے۔۔۔ ہم اپنے بزرگوں کی مرزبوم اور دیوار چین سے ہوتے ہوئے ملک خطا میں پہنچیں گے۔۔۔ دو لاکھ کا لشکر سمرقند میں جمع ہوجائے گا۔ اسے ہم مختلف دستوں میں تقسیم کردیں گے اور ان چھاؤنیوں کی طرف روانہ ہونگے جو چین کی سڑک کے کنارے ہم نے بنوا رکھی ہیں۔۔۔ جاڑے کے ختم ہونے اور بہار کے آنے کا انتظار ہم مناسب نہیں سمجھتے۔۔۔ بہارکا موسم وہیں چین میں ہم اپنی فتح کی خوشی میں گزاریں گے۔۔۔ لشکر کے حصے کی کمان ہم خلیل سلطان کے سپرد کرتے ہیں ۔۔۔ دوسرے حصے کو جسے امیر زادہ محمد سلطان اپنے ساتھ لیکر نکلا تھا ہم خود لیکر چلیں گے۔ رسد کا سامان بہت زیادہ ہونا چاہیئے تاکہ سپاہ کے لیئے کسی چیز کی کمی نہ ہو۔
لشکر نے سمرقند کا دریا یعنی آبِ زر افشاں عبور کیا ۔ تیمور گھوڑے پر سوار تھا۔ پہلو بدل کر اس نے شہر کی طرف دیکھا۔ مگرنظر اتنی نہ رہی تھی کہ اس کے برج اورمینار نظر آتے ۔۔۔ نومبر کا مہینہ تھا۔ جاڑا بہت زور پر تھا۔ سمرقند سے آگے ایک پہاڑی درّے میں سے گزر کر لشکر آگے بڑھاتو برف گرنی شروع ہوئی۔ شمال کے ملکوں سے سرد ہوائیں اٹھ اٹھ کر میدانوں میں شدت کے ساتھ چلنے لگیں۔ کہر اور کالے بادلوں نے فضا کو تاریک کردیا ۔۔۔ جب فوجیں کچھ اور آگے بڑھیں تو تمام دنیا برف سے سپید نظر آئی۔ دریاؤں اور ندیوں کا پانی جم گیا تھا ۔۔۔ سڑکوں پر برف کے تودے لگے تھے۔ آدمی اور گھوڑے سردی سے مرنے شروع ہوئے۔
خلیل سلطان: برف سے محفوظ رکھنے کے لیئے میں نے تاشکست کے پاس پھونس کے مکان بنوائے ہیں میرا لشکر انہی مکانوں میں اترا ہے حضرت صاحب قران بھی وہیں تشریف لے چلیں۔
تیمور: نہیں امیر زادہ خلیل سلطان ہم وہاں نہیں جائیں گے۔
خلیل سلطان: حضر ت صاحب قران برف باری ناقابلِ برداشت حد تک زیادہ ہو گئی ہے۔ گاڑیوں اونٹوں کی قطاریں جوسپید زمین پر ایک لکیر سی معلوم ہوتی ہیں آگے نہیں بڑھ سکیں گی۔ سیر دریا آج کل یخ بستہ ہے تین گز موٹی برف اس کی سطح پر جمع ہوئی ہے۔
تیمور: تو کیا ہوا ۔
خلیل سلطان: اس دریا کو عبور کرنا بہت مشکل ہے۔
تیمور: مگر ناممکن تو نہیں۔
خلیل سلطان: درست ہے حضرت صاحب قران، مگر برف کی ان سلوں کو کاٹنا بڑا کٹھن کام ہے۔ اس قدر سردی ہے کہ رگوں میں خون منجمد ہوا جارہا ہے۔
تیمور: کئی سال ہوئے سیر اور وہ پر فوج کشی کے وقت بھی ہمیں ایسی ہی برفانی سلوں سے سابقہ ہوا تھا، مگر سفر برابر جاری رکھا گیا تھا۔
خلیل سلطان: حضرت صاحب قران! میں ایک بار پھر عرض کرنا چاہتا ہوں کہ سردی بڑی بے رحمی سے ہرچیز کو غارت کردینے پر تلی ہوئی ہے۔ برف باری ، ژالہ باری اوربارشوں کی انتہا نہیں رہی ہے۔۔۔ ترچھے سورج کی زرد روشنی، برف کی سطح پر چمکتی ہے۔ مگر اس میں حرارت نہیں۔ آپ نے جو نمدے کے خیمے نصب کیئے ہیں وہ بھی اس غضب ناک سردی کا مقابلہ نہیں کرسکے۔۔۔ ہزاروں مویشی مرگئے ہیں ۔ سیکڑوں سپاہی موت کی سرد آغوش میں سوچکے ہیں۔
تیمور: خلیل سلطان تم ہمارے بیٹے کے بیٹے ہو۔۔۔ پندو نصیحت کا یہ دفتر بند رکھو ۔۔۔ سنو جب رستے صاف ہوجائیں تو اپنی سپاہ کو فوراً اترار لیکر پہنچو ۔۔۔ ہم اترار میں کچھ دیر آرام کریں گے اور بہار کے شروع ہوتے ہی جب سردی میں ذرا سی تخفیف ہوگی آگے بڑھ جائیں گے۔
اس حکم کے مطابق مارچ سن چودہ سو پانچ کا آغاز تھا کہ تیمور کا لشکر اُٹھا اور چلا۔ پرچم لہرائے اور پھر یرے اُڑنے لگے۔ گورکھ کی صدا بلند ہوئی۔ فوجوں نے معائنہ کے لیئے صفیں باندھیں ۔ہزارہ جات کے افسروں نے اپنے اپنے نقارچیوں کو جمع کیا کہ رات گزرنے پرنفیروسنج بجا کر صبح کی سلامتی اتاریں ۔ نفیر کی آواز بلند ہوئی۔ کوس اور نقارے گرجنے لگے لاکھوں گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز بھی اس شور میں شامل تھی ۔۔۔ یہ سلامی تو بے شک تھی مگر ان کی جو دنیا سے چل بسے تھے۔ اترار میں تیمور کا انتقال ہوگیا ۔۔۔ لشکر حکم کے مطابق شمال کی سڑک سے حرکت میں آیا ۔ شاہی علم کے سائے میں اوخلن، تیمور کا گھوڑا تیار کھڑا تھا۔ مگر اس پر کوئی سوار نہیں تھا۔۔۔ تیمور وقت نزع کی حالت میں تھا۔
سرائے خانم: میں نے حضرت صاحب قران کی علالت کی خبر سمرقند میں سُنی۔ بہت تیز ی سے سفر طے کرکے اترار پہنچی ہوں۔۔۔ حکیم صاحب فرمایئے اب ان کا کیا حال ہے۔
فضل اللہ تبریزی:ملکہ عالم حضرت صاحب قران کا مرض علاج سے باہر ہے۔
سرائے خانم: توکیا ۔۔۔ تو کیا ۔۔۔
تبریزی: مشیّت میں کس کو چارہ ہے ۔۔۔ اب حضرت صاحب قران کا وقت قریب ہے ۔۔۔ ہزاروں جتن یہ غلام کرچکا ہے۔۔۔ بڑے بڑے نسخے تجویز کرچکا ہوں مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا ۔۔۔ ایک مقوی عرق کشید کروایا تھا۔ اس کی کئی بوتلیں پلوا چکا ہوں مگر جسم میں حرارت پیدا ہی نہیں ہوتی۔ اب کچھ دنوں سے قران خوانی اور دُعائیں مانگنے کے سلسلہ جاری ہے۔
(دوسرے کمرے میں)
تیمور: (نحیف آواز میں) شجاعت و مردانگی کے ساتھ ہمیشہ تلوار کے قبضہ پر ہاتھ رہے۔ آپس میں اتفاق و یکجہتی رکھنا۔ نا اتفاقی میں تباہی ہے۔ ملک خطا کی فوج کشی ہرگز ہرگز ملتوی نہ کرنا۔سُن رہے ہو۔
نورالدین شاہ ملک:سُن رہے ہیں حضرت صاحب قران۔
تیمور: جب میں مرجاؤں ۔۔۔ تو کپڑے نہ پھاڑنا۔ دیوانوں کی طرح بھاگتے نہ پھرنا۔ کیونکہ ایسی باتوں سے پریشانی اور بدنظمی پیدا ہوتی ہے ۔۔۔ نورالدین ! شاہ ملک! تم دونوں ذرا اور قریب آجاؤ۔
وقفہ
تیمور: قریب آگئے ۔۔۔ سنو۔۔۔ جہانگیر کے فرزند فقیر محمد کو میں اپنا جانشین مقرر کرتا ہوں ۔ اسے سمرقند میں رہنا ہوگا۔ تمام لشکر اور دیوانی معاملات پراسے پورے اختیار ہوں گے۔ میرا حکم ہے کہ تم سب اپنی تمام عمر اس کی تابعداری میں صرف کرنا۔ اسے تمام دور درازکے ملکوں اور سمرقند پر حکومت کرنی ہوگی۔ اگر تم نے اس کی اطاعت نہ کی تو پھر اس کا نتیجہ تشویش و نزاع ہوگا۔
شاہ ملک: حضرت صاحب قران کی وصیت کے مطابق عمل ہوگا۔ مگر عرض ہے کہ آپ اپنے اور پوتوں کو بھی طلب فرمالیں تاکہ یہ احکام وہ بھی اپنے کانوں سے سن لیں۔
تیمور: (اضطراب کے ساتھ ) ۔۔۔ بس یہ آخری دربار ہے ۔۔۔خُدا کو ۔۔۔خُدا کو یونہی منظور تھا ۔ (وقفہ ۔ سرد آہ بھر کر) اس وقت اور کوئی تمنا بجز اس کے نہ تھی کہ اپنے پوتے شاہ رخ کو ایک مرتبہ دیکھ لیتا۔۔۔ مگر یہ ناممکن ہے ۔
۔۔۔ یہ ’’ناممکن‘‘ کا لفظ غالباً پہلی مرتبہ تیمور کی زبان پر آیا ۔۔۔ جس فولاد کی طبیعت نے زندگی کی راہ اس طرح طے کی تھی جیسے کوئی سنگلاخ زمین پر ہل چلاتا نکل جائے۔ اس زندگی کے خاتمے کو بھی بلا عذر و شکایت تسلیم کیا۔
مأخذ : کتاب : جنازے اشاعت : 1942
مصنف:سعادت حسن منٹو