منظر
(اسٹیشن پر گاڑی ٹھہرنے کا صوتی منظر۔۔۔خوانچہ فروش کا شوروغیرہ)
نوٹ:
ثریا بہت تیزی سے بولے جیسے کترنی چل رہی ہے۔
ثُریّا: دیکھنا کہیں کوئی چیز نہ ٹوٹ جائے۔۔۔ ساری چیزیں بڑے سلیقے سے باہر نکالو اور قرینے سے پلیٹ فارم پر رکھ دو۔۔۔ سُنتے ہو بڑے میاں۔۔۔ گاڑی چھوٹنے میں کافی دیر ہے۔ تم اطمینان سے اپنا کام کرو۔ مجھے کوئی جلدی نہیں ہے۔
قُلی : بہت اچھا سر کار۔
ثُریّا: ہاں تو بہن میں کیا کہہ رہی تھی۔۔۔ وہ بات بیچ ہی میں رہ گئی۔۔۔ یہ نگوڑی خاموش پسند طبیعت بھی کسی کی نہ ہو۔۔۔ بہت سی باتیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔۔۔ دیکھو ‘ بڑے میاں پہلے بڑا ٹرنک اُٹھاؤ‘ پھر چھوٹا اُٹھانا۔۔۔ اور ۔۔۔اور پورے بارہ نگ ہیں۔۔۔ بارہ‘ ۔۔۔ میں گنوالوں گی۔
قُلی: آپ بے فکر رہیں (ٹرنک اُٹھانے کی آواز )
ثُریّا: ہاں تو بہن میں کیا کہہ رہی تھی؟
شمشاد: اپنے گھر کا ایک واقعہ سُنا رہی تھیں آپ۔
ثُریّا: ہاں تو بہن روز ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور خاص کر کے وہ عورتیں جو ہر جائی گھر گھر کی بلی ہوتی ہیں۔ ایسا چٹکلہ چھوڑتی ہیں کہ اللہ کی پناہ۔۔۔ پچھلے ہفتے کی بات ہے میری ایک ہمسائی سیکنہ بیگم حسبِ معمول کھانے کے وقت ٹھیک بارہ بجے جب کہ دستر خوان چنا جا رہا تھا آدھمکیں اور آنے کے ساتھ ہی شروع ہو گئیں ’’سُنا بی بی‘ مجھے آج کلثوم بائی کہنے لگیں کہ بریلی والی بیگم کی لے پالک روز ایک ناچ گھر میں جا کر ناچتی گاتی ہے۔۔۔ میں یہ سُن کر بڑی حیران ہوئی’’اچھا یوں کہا۔ پروہ تو نگوڑی ابھی بارہ تیرہ برس کے لگ بھگ ہوگی۔ ناچنا گانا کیسا اور بریلی والی بیگم کھلانے کو سونے کا نوالہ کھلاتی ہیں۔ پر شیرنی کی آنکھ سے دیکھتی ہیں اور پھر بھئی مجھے یقین نہیں آتا۔۔۔
قُلی: یہ ٹرنک بھی آپ ہی کا ہے بیگم صاحب؟
ثُریّا: ہاں۔۔۔ میرا ہی ہے۔۔۔ بس اب باربار نہ پوچھنا۔ سب سامان میں تمہیں بتا چکی ہوں۔۔۔ مجھ سے زیادہ مغزدردی نہیں ہو سکتی۔۔۔ ہاں بہن تو میری بات سن کرسکینہ بیگم نے کہا۔۔۔ لو ان کا بھانجا ممتاز ہر روز آتا ہے۔۔۔ وہ موادُم کٹا لنڈورا کوٹ پہن کر اور کبھی کبھی چار چار دن خالہ ہی کے یہاں رہتا ہے۔۔۔ میں نے کہا’’بھئی ہو گا۔ جو آگ کھائے گاانگارے ہگے گا‘‘۔۔۔ اب سامنے کھڑکی میں بیٹھی ہوئی ’’بشیرا کی ماں‘‘ یہ ساری باتیں سُن رہی تھیں۔ باتیں خوب غور سے سنیں پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے ۔ چدریا اوڑھ سیدھی گمانی خانم بریلی والی بیگم کی بڑی بہن کے یہاں پہنچیں۔ گمانی خانم نے بڑی آؤ بھگت سے ’’بشیرا کی ماں‘‘ کو بٹھایا اور کہنے لگیں۔ سُناؤ ’’بشیرا کی ماں‘‘ اتنے دن کہاں رہیں۔۔۔ تم تو چودھویں کا چاند ہو گئیں۔۔۔ آج کدھر راستہ بھول کر ادھر آگئیں۔۔۔۔ سارا قصہ تو مجھ سے سنایا نہ جائے گا بہن کہ میں زیادہ بول نہیں سکتی اور پھر مجھے پوری بات بھی تو کبھی یاد نہیں رہتی۔۔۔ اس نگوڑی خاموش پسند طبیعت کو کیا کہوں۔
شمشاد: آپ تو پھر دو بول منہ سے بول لیتی ہیں۔ پر یہاں تو ہر وقت منہ بند رہتا ہے۔
قُلی: یہ پندنیا آپ ہی کی ہے۔
ثُریّا: ہاں۔۔۔ میری ہی ہے۔ پر دیکھو ذرا احتیاط سے ٹرنک کے اوپر رکھ دینا۔
۔۔۔ ہاں تو بشیرا کی اماں نے کہا۔ آج کچھ ایسی ہی بات ہے جو خاص کر تم سے ملنے آگئی۔ ۔۔۔ اے سنا تم نے ۔ مبارک ہو۔۔۔ میں نے تو سنا کہ تمہاری بہن بریلی والی بیگم کی لے پالک اب ماشاء اللہ خوب ناچتی ہے۔ روزناچ گھر بھی جاتی ہے اور ۔۔۔ اور ممتاز بھی کئی کئی دن خالہ ہی کے یہاں رہتا ہے‘‘۔۔۔ جب گمانی خانم نے یہ سناتو بول اٹھیں‘‘ ہے ہے خدا کا غصب بہتان ‘ جھوٹ۔ سفید جھوٹ ۔ اے کل ہی تو انہیں بھولی پرسوں شام کو وہاں گئی ہوئی تھی۔ فریدہ کسی ناچ گھر میں نہیں جاتی۔ پر ہاں یہ تو کہو تم نے یہ بات سُنی کس سے۔۔۔ بشیرا کی ماں نے جواب دیا۔ سیکنہ بیگم کلثوم بائی کی زبانی یہ سارا قصہ میری ہمسائیثُریّا بیگم کو سُنا رہی تھیں۔۔۔ میں کیا جانوں سچ ہے یا جھوٹ۔ گناہ کہنے والے کی گردن پر ۔ مجھے تو خود تعجب تھا۔
شمشاد: اس پر گمانی خانم تو بہت بگڑی ہوں گی۔
ثُریّا: گمانی خانم چلا کر بولیں‘‘ سنو بشیرا کی اماں‘ تمہیں کاہے کا ڈر میں تو بغیر صحیح صحاوے اس بات کو چھوڑوں گی نہیں سیکنہ بیگم اور کلثوم بائی دونوں کو بلواؤں گی اور تم کو بھی آنا ہو گا۔ نابابا کسی کی بہو بیٹی کو بدنام کرنا کیا اچھی بات ہے۔ فریدہ کے ماں باپ سنیں گے تو کیا کہیں گے میری بہن کو کہ میں نے لڑکی اس لیئے آپ کے یہاں رکھی تھی کہ وہ یوں بدنام ہو۔ ہم لوگ غریب ضرور ہیں پر اشراف ہیں۔ یہ ذلت ہم سے گوارانہ ہوگی۔۔۔ سُنا تم نے بشیرا کی اماں۔ اس بات کا آمنا سامنا کرانا ضروری ہے۔۔۔ میں تو کلثوم بائی کے لتے لے ڈالوں گی۔۔۔ ان کو کیا حق کہ کسی کی بہو بیٹی کو جھوٹ بدنام کرتی پھریں اور ایسی حالت میں کہ ایک نہیں دو دو ان کی بھی جوان کنواری لڑکیاں ہیں۔۔۔ نہ کرساس برائی کہ تیرے آگے بھی جائی۔ واہ یہ خوب وتیرا نکالا ہے۔
(گھنٹے کی آواز۔۔۔ پھر ریل کی سیٹی)
شمشاد: بہن گاڑی چھوٹنے کا وقت ہو گیا۔۔۔ جائیے آپ کا سارا اسباب باہر نکل چکا ہے۔۔۔ قُلی باہر رہ گیا ہے۔۔۔ دیکھ لیجئے۔ کوئی چیز رہ نہ گئی ہو۔
ثُریّا: جاتی ہوں بہن۔ پریہ بات ادھوری ہی رہ گئی۔۔۔ یہ نگوڑی خاموشی پسند طبیعت بھی کسی کی نہ ہو۔۔۔ ہاں بہن تو اس قصے کا لب لباب یہ تھا۔۔۔
شمشاد لیکن بہن۔۔۔
ثُریّا: گاڑی چھوٹنے میں ابھی پانچ منٹ تو ضرور ہوں گے۔۔۔ میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ ایک بار رشید کے ابا مسوری سے آرہے تھے۔ اسٹیشن پر۔۔۔ لیکن ہاں۔۔۔ ہاں تو میں اس کا لب لباب بیان کرنے والی تھی۔۔۔ یہ اسٹیشن والی بات تو بہت لمبی ہے اور مجھے ساری یاد بھی کہاں ہوگی۔ یہ نگوڑی اختصار پسند طبیعت۔۔۔ ہاں بہن تو اس قصے کا لبِ لباب یہ تھا کہ رائی کا پہاڑ بنا لیا گیا تھا۔ پھنسی کا بھگندر ہو گیا تھا۔ بات صرف یہ تھی کہ فریدہ بیچاری شامت اعمال سے ایک روز ریڈیو گھر دیکھنے چلی گئی تھی۔ ساتھ ممتاز بھی تھا۔۔۔ بس اتنی سی بات تھی۔ جسے افسانہ کر دیا۔۔۔ وہ تو خیر گزری۔۔۔
شمشاد: لیکن بہن گاڑی بس اب چھوٹا ہی چاہتی ہے۔
ثُریّا: مجھے معلوم ہے۔۔۔ پچھلے دنوں رشید کے ابا مسوری سے جب واپس آرہے تھے۔ مسوری میں ان کی بہت بڑی دکان ہے ان کے بھانجے کی لڑکی سعیدہ کا خالو اور میرے بھتیجے کی نانی۔۔۔ مگر مجھے یہ رشتے بھی کہاں یاد ہیں۔ یہ نگوڑی ہر دم چپ رہنے والی طبیعت ۔۔۔ ہاں بہن اب میں جاتی ہوں۔۔۔ پر مجھے سدا اس بات کا افسوس رہے گا کہ آپ سے کھل کر باتیں نہ کر سکی۔۔۔تو آپ ضرور کبھی مسوری آئیے گا۔۔۔ ان کے بھانجے کی لڑکی سعیدہ کاخالو اور میرے بھتیجے کی نانی۔۔۔ نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔ میرا مطلب یہ ہے کہ ہماری مسوری میں ایک نہیں دو تین کوٹھیاں ہیں۔۔۔ میں آپ کو دعوت دے چکی ہوں‘ دیکھئے بھو لیئے گا نہیں۔۔۔ اچھا تو میں چلی۔۔۔ خدا حاف٭۔۔۔ آپ بمبئی جارہی ہیں نا۔۔۔ مجھے یاد آیا۔ ان کے چچا کا خلیرا بھائی بمبئی ہی میں تو رہتا ہے۔ کیا آپ ان کو نہیں جانتے۔۔۔ ٹھہرئیے میں آپ کو ان کا سارا پتہ بتاتی ہوں۔۔۔
(گھنٹہ بجنے کی آواز۔۔۔پھر ریل کی سیٹی)
شمشاد: اب آپ جائیے۔۔۔ گاڑی بس اب چلنے والی ہے۔۔۔
اچھا خدا حافظ۔
(دروازہ کھلنے اور بند کرنے کی آواز)
ثُریّا: اچھا بہن خدا حاف٭۔۔۔ بھئی مجھے معاف کر دینا۔ اس سفر میں آپ کے ساتھ میں کھل کر باتیں نہ کر سکی۔۔۔ دراصل میری خاموشی پسند طبیعت۔۔۔ (انجن کے چلنے کی آواز)۔۔۔ اچھا خدا حافظ۔
شمشاد : خدا حافظ (گاڑی چلنے کی آواز) خُدا حاف٭۔۔۔(اطمینان کا سانس لے کر) شکر ہے۔۔۔ دماغ چاٹ گئی تھی۔۔۔ باتیں کرتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا۔ چکن کاڑھتی چلی جارہی ہے۔۔۔متواتر تین گھنٹے سے بول رہی تھی۔۔۔ توبہ۔
(وقفہ)
شمشاد: کیوں بہن۔ سُنی تھیں آپ نے اس خاموش عورت کی باتیں۔
(وقفہ)
شمشاد: معاف کرنا بہن ۔ میں نے واقفیت کے بغیر آپ سے گفتگو شروع کر دی۔۔۔ دراصل۔۔۔دراصل۔ اس عورت کی باتوں نے مجھے بے حد پریشان کر دیا تھا۔
محمودہ: نہیں۔ اس میں معافی کی کیا بات ہے۔
(وقفہ)
شمشاد: میں پوچھ سکتی ہوں کہ آپ کہاں تشریف لے جائیں گے۔
محمودہ: کھنڈوہ۔
شمشاد: کھنڈوہ (وقفہ)۔۔۔ تو آپ کھنڈوہ جائیں گی۔ یہ کھنڈوہ کہاں ہوا۔
محمودہ: جھانسی کے پاس۔
شمشاد: جھانسی کے پاس۔۔۔ ہوں۔۔۔(وقفہ) ۔۔۔آپ کے ساتھ کون ہے۔
محمودہ: میرا بھائی۔
شمشاد: تو وہ اسٹیشن پر آپ کے بھائی تھے(وقفہ) آپ سے چھوٹے ہیں یا بڑے۔
محمود: بڑے
شمشاد: (لمبے وقفے کے بعد) کتنے برس بڑے ہوں گے۔
محمودہ: دو برس
شمشاد: (اور لمبے وقفے کے بعد)۔۔۔ آپ کا نام
محمودہ: محمودہ
شمشاد: (اور زیادہ لمبے وقفے کے بعد)۔۔۔ میرا نام شمشاد ہے
محمود: اچھا۔۔۔
شمشاد: آپ کے بھائی صاحب کا نام۔
محمود: خان محمد عمر خان۔
شمشاد: خان محمد عمر خان۔۔۔ (وقفہ) میرے بھی دو بھائی ہیں۔۔۔
(وقفہ) ایک مجھ سے بڑا ہے۔ ایک چھوٹا۔۔۔ چھوٹے کا نام اصغر علی صابر ہے۔۔۔ شاعر ہے۔۔۔ آپ نے رسالوں میں اس کی غزلیں ضرور دیکھی ہوں گی۔ پچھلے برس شملے بھی گیا تھا۔ شمع میں ہر برس مشاعرہ ہوا کرتا ہے۔۔۔ وہاں ہماری کوٹھی بھی ہے۔۔۔ اور جو مجھ سے بڑا ہے اس کا نام حیدر علی ہے۔۔۔ پشمینے کا بہت بڑا بیوپاری ہے۔۔۔ سرکاری نوکری اس کو ملتی تھی پر اس نے انکار کر دیا۔ اس لیئے کہ تجارت میں اس کو زیادہ فائدہ ہے اور نوکری پھر نوکری ہے۔۔۔ آپ کے بھائی صاحب کیا کام کرتے ہیں۔
محمودہ : کھنڈوہ میں اسکول کھول رکھا ہے۔
شمشاد: اسکول کھول رکھا ہے۔۔۔ تو خیرسے بچوں کو پڑھاتے ہونگے ۔۔۔ اللہ بخشے میری ساس کہا کرتی تھی کہ بچوں کو پڑھانا بڑا ہی مشکل کام ہے۔۔۔ میری ساس اللہ بخشے قرآن کی حافظہ تھی۔ گلی کی سب لڑکیاں ان سے قرآن پڑھتی تھیں۔۔۔ پچھلے وقت میں آکر بیچاری کی آنکھیں خراب ہو گئیں۔ اس لیئے کئی لڑکیوں کے قرآن ادھورے رہ گئے۔۔۔ تو کھنڈوہ میں آپ کے بھائی صاحب نے اسکول کھول رکھا ہے۔ آمدنی کتنی ہو جاتی ہے۔۔۔ میری ساس تو مفت پڑھایا کرتی تھی۔۔۔ ہاں تو کتنی آمدنی ہو جاتی ہے۔
محمودہ: آپ فیس نہیں لیتے۔
شمشاد: تو اسکول خیراتی ہوگا۔۔۔ بڑے ثواب کا کام کر رہے ہیں۔
اللہ جزا دے۔۔۔ اللہ بخشے میری ساس کو بھی اس بات کا بہت خیال تھا کہ دنیا میں عاقبت سنوارنے کے لیئے کوئی نیک کام ضرور کرنا چاہیئے۔۔۔ تو اس سے بڑھ کر اور کیا نیک کام ہو گا۔
محمودہ: جی ہاں۔
شمشاد: (وقفے کے بعد)۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ بھی میری طرح بہت خاموشی پسند ہیں۔۔۔ بہت کم بات کرتی ہیں۔
محمودہ: جی ہاں۔۔۔ بچپن ہی سے ایسی عادت ہے۔
شمشاد: بڑی اچھی عادت ہے۔۔۔ لیکن اس عورت کی تو زبان تالو سے نہیں لگتی تھی۔۔۔ توبہ ہے بابا۔۔۔ لوہے کا مغز تھا اس کا ۔۔۔ اللہ بخشے میری ساس کہا کرتی تھی۔ بیٹا کم سخن آدمی بڑا اچھا ہوتا ہے۔ سوچوزیادہ بولو کم۔۔۔سوان کی نصیحت پر آج تک عمل کر رہی ہوں۔۔۔ پچھلے دنوں محلے میں ایک بیکار سی بات پر فضیحتا ہو گیا پڑوسن نے مجھے پانی پی پی کر کوسامگر میں چپ رہی۔ ایک لفظ زبان پر نہ لائی۔ آخر تھک ہار کر وہ خاموش ہو گئی اور کہنے لگی ۔ یہ تم منہ میں گھنگھنیاں ڈال کے کیا بیٹھ گئی ہو۔ کچھ بولو۔ آخر مجھے بھی تو پتہ چلے کہ میرے پڑوس میں کوئی رہتا ہے‘‘۔۔۔ بہن میں نے یہ بات اس کان سنی اس کان سے نکال دی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ شام ہی کو وہ میرے گھر آئی۔۔۔ سفید جارجٹ کی ساڑھی باندھ رکھی تھی۔ جس پر جگہ جگہ پیک کے داغ تھے۔ گرگابی پھٹی ہوئی۔ بلاؤز سلوٹوں سے بھرپور۔۔۔ خاوند اس کا ڈیڑھ سو روپیہ ماہوار کمائے اور ڈیڑھ سو کا ڈیڑھ سو مہینے کی پہلی تاریخ کو بی بی کے ہاتھ میں دے دے مگر اس کو سلیقہ ہی نہیں تھا‘ نہ پہننے کا نہ کھانے کا۔۔۔ ہاں بہن تو وہ شام کو میرے پاس آئی اور لگی معافی مانگنے ۔ میں پھر بھی خاموش رہی۔ اللہ بخشے میری ساس اس وقت عصر کی نماز پڑھ رہی تھی سلام پھیر کر آئی اور ہمسائی سے کہنے لگیں ’’صغریٰ کی ماں ۔ اس نے بہت اچھا کیا جو آج خاموش رہی۔ اگر بات بڑھتے بڑھتے مردوں تک پہنچ جاتی تو تھانہ تھنول ہو جاتا۔۔۔ تم اب جاؤ۔ جو کچھ ہوا۔ اس کو بھول جاؤ۔ جاؤ ہم نے تم کو معاف کیا۔۔۔ لیکن اللہ میاں سے بھی معافی مانگو۔۔۔ دیکھو صغریٰ کی ماں۔ میری ایک بات گرہ سے باندھ لو۔ عورتوں کو بہت کم سخن ہونا چاہیئے۔۔۔ سو بہن اپنا تو یہ دستور ہے کہ باتیں بہت ہی کم کرنی چاہئیں۔
محمود: آپ کہاں جارہی ہیں۔
شمشاد: بمبئی۔
محمود: بمبئی اچھی جگہ ہے۔۔۔ چوپاٹی پرہم ہر روز سیر کو جایا کرتی تھیں۔
۔۔۔ ایک پارسن وہاں میری سہیلی بن گئی تھی۔۔۔ یہ پارسنیں جو ہوتی ہیں نااُلٹی ساڑھی باندھتی ہیں۔ اُلٹی سے میری مراد یہ ہے کہ ۔۔۔
شمشاد: میں جانتی ہوں بہن۔۔۔ بمبئی میں رہتے ہوئے مجھے۔۔۔
محمودہ: ٹھیک ہے۔۔۔ تو میں یہ کہہ رہی تھی کہ چوپاٹی سیر کے لیئے بڑی اچھی جگہ ہے۔۔۔(ہنستی ہے) ایک روز میری اس پارسن سہیلی نے جس کا نام پیرن تھا۔ مجھے سمندر میں دھکا دیدیا۔۔۔ میری ساڑھی ہلکے گلابی رنگ کی تھی۔ ریشمی جارجٹ کی جو پھونک مارنے سے اڑجائے۔۔۔ اس روز میں نے پہلی مرتبہ پہنی تھی۔۔۔ اس نے مجھے دھکا جو دیا۔ میں بے دھیان تو تھی ہی۔ دھڑام سے سمندر میں جاگری۔۔۔ پیرن کے ہوش اُڑ گئے۔ بجائے اس کے کہ میرے بچاؤ کی کوئی تدبیر کرئے۔ اس نے شور مچانا شروع کر دیا مگر میرے ہوش وحواس بجا تھے۔ گرتے ہی میں سنبھل گئی اور پیرن سے کہنے لگی۔ پیرن یہ تجھے کیا ہو گیا ہے۔ شور کیوں مچاتی ہے۔ میں باہر نکل آؤں گی ۔ بس اب خُدا کیلیئے خاموش بھی ہو جا۔۔۔ یہ کہہ کر میں باہر نکل آئی۔ مگر سمندر کے پانی نے میری ساڑھی کا ستیاناس مار دیا۔۔۔ پیرن نے بعد میں بڑی معافیاں مانگیں۔ مگر اس میں معاف کرنے کی کیا بات تھی۔۔۔ (ہنستی ہے) یہ پارسنیں بڑی شریرہوتی ہیں اور باتونی بھی۔۔۔ زبان ان کی یوں چلتی ہے جیسے قینچی اور پھر زبان بھی ایسی بولتی ہیں کہ معلوم ہوتا ہے مشین چل رہی ہے۔۔۔ بمبئی میں میری اور بھی کافی سہیلیاں تھیں۔ گو میں باتیں بہت کم کرتی ہوں۔ مگر پھر بھی میری سہیلیاں بہت ہیں۔۔۔ لاہور آپ نے دیکھا ہے۔۔۔ وہان ہم چار برس رہے ہیں۔ ان چار برسوں میں میری کئی سہیلیاں بنیں۔۔۔ لیکن سب کو مجھ سے ایک ہی شکایت ہے کہ میں بولتی بہت کم ہوں۔ ہر وقت خاموش رہتی ہوں۔ لاہور کی دو سہیلیوں نے مجھے کل خط بھیجا ہے کہ وہ کھنڈوہ آئیں گی۔۔۔ کھنڈوہ اچھی جگہ ہے۔۔۔بمبئی جیسی رونق تو نہیں اور نہ وہاں بس چلتی ہے۔۔۔ہاں۔۔۔ یہ بمبئی کی بسیں خوب ہیں مگر ان کے چلانے والے نگوڑے بڑے واہیات آدمی ہیں۔ پائدان پر قدم پڑے یا نہ پڑے وہ بس چلا دیتے ہیں۔۔۔ ایک بار تو میں مرتے مرتے بچی۔۔۔ لیکن ہم نے اس ڈرائیور کی رپورٹ لکھوا دی تھی۔ بھائی جان کہتے تھے کہ اس کو ضرور جرمانہ ہو جائے گا۔۔۔ تو آپ بمبئی جارہی ہیں۔
شمشاد: جی ہاں۔۔۔ بمبئی میں۔۔۔
محمودہ: بھئی بمبئی کی ایک بات مجھے پسند نہیں ۔ یوں تو شہر بڑا صاف ستھرا ہے مگر وہاں وہ موئی سوکھی ہوئی مچھلیاں کھائی جاتی ہیں۔۔۔ اف کتنی بڑی بو ہوتی ہے ان میں ۔۔۔ مجھے تعجب ہے کہ وہ لوگ ایسی بدبودار چیز کھا کیسے لیتے ہیں۔۔۔ ہمارے پڑوس میں اینگلوانڈین رہتے تھے۔ ہر سنیچر کو ان کے ہاں یہ مچھلی پکتی تھی اور بو کے مارے میرا وہ حال ہوتا تھا کہ خُدا کسی دشمن کا بھی نہ کرئے۔۔۔ مگر بہن کیا مجال جو ہم نے اشارے کنائے میں بھی ان کو جتا یا ہو۔۔۔
شمشاد: (جمائی لے کر) جی ہاں۔۔۔ یہ مچھلی بہت بدبودار ہوتی ہے۔۔۔ (پھر جمائی لیتی ہے)۔۔۔ گیارہ بج گئے۔۔۔
محمودہ: گیارہ بج گئے۔۔۔ میں بھی سوچ رہی تھی کہ مجھے ابھی تک نیند کیوں نہیں آئی۔۔۔ ہم لوگ بارہ بجے سونے کے عادی ہیں۔۔۔ بمبئی میں تو کبھی کبھی ایک بھی بج جاتا تھا۔۔۔ بمبئی بڑی بارونق جگہ ہے۔۔۔ تازہ ناریل کا پانی اپولوبندر پر میں ہر روز پیا کرتی تھی۔۔۔ صحت کے لیئے بڑا اچھا ہوتا ہے۔۔۔ اپولوبندر پر ہم ہر روز سیر کو جایا کرتے تھے۔ مگر انہیں۔۔۔ آپ کے بھائی صاحب کو۔۔۔ میرے بھائی نہیں ۔۔۔ بلکہ وہ۔۔۔ میری شادی بھی تو بمبئی میں ہوئی تھی۔ یہ میں آپ سے کہنا بھول ہی گئی تھی۔۔۔ دراصل مجھے زیادہ باتیں کرنے کی عادت نہیں ہے اور آپ کے بھائی صاحب کو بھی اس بات کی شکایت رہتی ہے۔ اپولوبندر ہم سیر کو جایا کرتے تھے ۔ راستے میں چونکہ میں خاموش رہتی تھی۔ اس لیئے وہ بگڑ جاتے تھے۔۔۔ اب بہن آپ ہی بتائیں کہ اس میں میرا کیا قصور ہے۔ نگوڑی طبیعت ہی جو ایسی پائی ہے۔
(خراٹے لینے کی آواز)
محمودہ: سو گئیں۔۔۔
شمشاد: (چونک کر) ۔۔۔ہاں۔۔۔ تو شادی آپ کی بمبئی ہی میں ہوئی تھی۔۔۔ مگر وقت بہت زیادہ ہو گیا ہے اور مجھے کئی دنوں کا رت جگا ہے۔
محمودہ: جی ہاں۔ میں بمبئی میں ہی بیاہی گئی تھی مگر ایک برس کے بعد ہی ان کی تبدیلی ہو گئی اور میں مدراس چلی گئی۔۔۔ بھئی یہ مدراس بہت ہی فضول جگہ ہے۔ اور وہاں کی زبان۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ٹین کے کنستر میں کنکر ڈال کر کوئی ہلا رہا ہے۔۔۔ آپ نے مدراس دیکھا ہے۔۔۔ البتہ وہاں کی عورتیں کانوں میں ہیرے کے آویزے ضرور پہنتی ہیں۔۔۔ ان آویزوں کو وہ بوٹی کہتی ہیں۔۔۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ مدراس ۔۔۔(خراٹوں کی آواز)۔۔۔ سو گئیں۔۔۔ (وقفہ) ۔۔۔بہن۔۔۔بہن۔۔۔سو گئیں۔۔۔ لیکن مدراس کی بات تو سُن لی ہوتی۔۔۔ چلو اچھا ہوا۔ مجھے خواہ مخواہ مغزدردی کرنا پڑی۔۔۔(ہولے سے) ایسی باتونی عورت سوئی رہے تو اچھا ہے ۔۔۔ گاڑی خوب تیز چل رہی ہے۔۔۔ گیارہ بج گئے۔۔۔ تو اب سونا چاہیئے۔۔۔
(خراٹوں اور گاڑی چلنے کی ملی جلی آواز)
فیڈ آؤٹ
مأخذ : کتاب : تین عورتیں اشاعت : 1942
مصنف:سعادت حسن منٹو