کردار
تین موٹی عورتیں: ایک پتلی عورت
(۱) مسز بلی موریا۔ (پیرن) (ا) شیریں (مسز فوجدار)
(۲) مسز باٹلی والا (فرینی) (۲) شیریں کا باپ
(۳) مسز چٹرجی (پدما) (۳) ایک نوکر
(۴) ڈاکٹر ۔۔۔۔۔۔
پہلا منظر: (اسٹیج دو حصوں میں منقسم ہے یوں ایک بڑا اور ایک چھوٹا کمرہ بن گیا ہے ان کے درمیان چوبی تختے کی پارٹیشن ہے جس میں ایک سپرنگوں والا دروازہ ہے۔ بڑے کمرے میں صوفہ سیٹ رکھا ہے۔ چار پانچ آرام کرسیاں بھی پڑی ہیں۔ درمیان میں ایک وزنی تپائی ہے جس پر بہت بڑا پھولدان دھرا ہے۔ اس تپائی کے نچلے تختے پر چند اخبار پڑے ہیں۔ دوسرے کمرے میں ڈاکٹر ایک مریض عورت کی نبض دیکھنے میں مشغول ہے۔ کمرہ بہت نفیس ہے وزن کرنے کی مشین کے علاوہ اور بہت سے آلات اس میں چمک رہے ہیں۔ میز موٹی موٹی کتابوں سے لدی ہے۔ ذیل کا مکالمہ بڑے کمرے میں دو عورتوں کے درمیان پردہ اٹھتے ہی شروع ہوتا ہے۔
مسزملی موریہ: میں آپ کا نام پوچھ سکتی ہوں۔
مسز باٹلی والا: جی میرا نام مسز باٹلی والا ہے۔۔۔میرے ہزبنڈ کو گزرے ہوئے دو برس ہو چکے ہیں۔ یہاں بمبئی میں بہت بڑے وائن مرچنٹ تھے۔
آپ کا نام؟
مسز بلیموریا: میرا نام مسز بلیموریا۔ میرا ہزبنڈ بھی وفات پا چکا ہے۔ ہمارے بمبئی میں چار ہوٹل تھے۔ مگر ان کی وفات کے بعد سارا کا روبار میں نے اپنے بھائی کے سپرد کر دیا ہے۔۔۔ آپ کیا پہلے بھی اس ڈاکٹر کے پاس آچکی ہیں۔
مسزباٹلی والا: جی نہیں‘ آج پہلی مرتبہ آئی ہوں۔ سنا ہے کہ یہ موٹاپے کا علاج کرنے میں بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ دوسرے ڈاکٹروں سے تو کچھ ہو نہیں سکا۔ دیکھئے یہ کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ نام تو بہت بڑا ہے اور شہرت بھی خوب ہے۔۔۔بہن کیا بتاؤں مجھے تو اس موٹاپے نے کہیں کا نہیں رکھا میری عمر کوئی زیادہ نہیں ہے۔ لیکن موٹاپے کی وجہ سے ایک تو میں بالکل ناکارہ ہو گئی ہوں۔ دوسرے عمر کی بہت زیادہ دکھائی دیتی ہوں۔ آپ کو بھی تو یہی مرض ہے۔ لیکن اتنا زیادہ نہیں۔ میں تو بس پھولتی چلی جارہی ہوں کیا کہوں بہن بڑی شرم آتی ہے۔ گھر سے باہر نکلنا دشوار ہو گیا ہے۔
مسز بلیموریا: میرا بھی یہی حال ہے بہن‘ زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ کیا کہوں‘ آج سے آٹھ نو برس پہلے میں بالکل دبلی پتلی تھی۔ بھاگتی تھی۔ دوڑتی تھی۔ اچھلتی تھی ۔ پھاندتی تھی۔ کالج کے تمام کھیلوں میں حصہ لیتی تھی۔ بڑی پُھرتیلی تھی۔ پرایکا ایکی ایسا زمانہ بدلا کہ بس گوشت کی تہیں جمتی گئیں اور اب اس حالت کو پہنچ گئی ہوں جسم پھول کر کپا ہو گیا ہے۔۔۔ کبھی اپنی جوانی کی تصویر دیکھتی ہوں تو سینے پر سانپ لوٹ جاتا ہے۔ آپ کا اور میرا کوئی زیادہ فرق نہیں۔ دو تین ا ونس کم ہوں گے۔ ہاں تو میں نے حال ہی میں اس ڈاکٹر کا علاج شروع کیا ہے۔ اس سے پہلے دو مرتبہ آچکی ہوں۔
مسزباٹلی والا: کچھ فائدہ ہوا؟ علاج سے؟
مسز بلیموریا: ہاں۔۔۔ پانچ اونس وزن کم ہو گیا ہے۔
مسز باٹلی والا: تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ ڈاکٹر اچھا ہے۔۔۔ کیا اندر کوئی مریض گیا ہے۔
مسز بلیموریا: ہم سے بھی ایک موٹی عورت بڑی دیر ہوئی اندر گئی تھی۔ پر ابھی تک باہر نہیں آئی۔ ڈاکٹر صاحب جانے اسے کیا لکچر پلا رہے ہیں۔
مسز باٹلی والا: نہیں بہن میں نے سُنا ہے کہ یہ ڈاکٹر مریضوں سے کسرت کرواتا ہے۔
مسز بلیموریا: تو بھئی۔۔۔ تو بھئی یہ علاج تو نہ ہوا۔۔۔ یعنی اب میں۔۔۔ اب میں۔۔۔ اب میں اس عمر میں یعنی اس حالت میں کیسے مگدر گھما سکتی ہوں کیسے ڈنٹرپیل سکتی ہوں۔ یہ علاج تو نہ ہوا تماشہ ہوا۔۔۔ کہیں وہ بیچاری سچ مچ اندرڈنٹرتو نہیں پیل رہی۔
(پارٹیشن کا دروازہ کھلتا ہے)
ملازم: مسز بلیموریا۔۔۔ آپ ہیں۔۔۔ اندر تشریف لے چلیئے۔
مسز بلیموریا: (مسز باٹلی والا سے) میرے بعد آپ کی باری ہوگی۔ پروہ عورت کہاں گئی۔ شاید دوسری طرف بھی کوئی راستہ ہو۔ ادھر سے نکل گئی ہو۔۔۔ اچھا بہن تو پھر کب اور کہاں ملاقات ہوگی۔
مسز باٹلی والا: یہیں۔۔۔ اب تو ہر دوسرے تیسرے دن یہاں آنا ہی پڑے گا۔
مسز بلیموریا: اچھا تو میں جاتی ہوں۔
ملازم: اندر تشریف لے چلیئے۔۔۔ ڈاکٹر صاحب یاد فرماتے ہیں۔
(نوکردروازہ کھولتا ہے۔ مسزبلیموریا اندر جاتی ہے)
مسز بلیموریا: صاحب جی۔ ڈاکٹر صاحب۔
ڈاکٹر : صاحب جی مسزبلیموریا۔۔۔ تشریف رکھیئے ۔ ہاں ہاں بیٹھ جائیے کافی مضبوط کرسی ہے۔۔۔ رامُو پنکھے کا رخ ان کی طرف کر دو۔۔۔ ہاں تو مسز بلیموریا ہیں آپ کا اس خاتون سے تعارف کرانا چاہتا ہوں۔ آپ بنگال سے علاج کے لیئے تشریف لائی ہیں۔ یہاں بمبئی میں آپ بالکل اجنبی ہیں۔ ان کی خواہش تھی کہ کسی معزز گھرانے سے ان کی واقفیت کرا دی جائے۔ سو آپ سے اچھی سہیلی انہیں اور کون مل سکتی ہیں۔۔۔۔ آپ مسز چٹرجی۔۔۔ اور آپ مسز بلیموریا۔۔۔ مسز بلیموریا۔۔۔ مسز چٹرجی۔
مسز چٹرجی : نمسکار۔
مسز بلیموریا: صاحب جی۔
ڈاکٹر: تو مسز چٹرجی۔ اب آپ کی اُداسی بالکل دُور ہو جائے گی۔ مسز بلیموریا بمبئی کے ایک بہت اونچے گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور بہت خوش گفتار اور ہنس مکھ خاتون ہیں۔ ان کی دوستی ہر لحاظ سے آپ کو پسند آئے گی۔
اور پھر۔۔۔
مسز بلیموریا: (ہنس کر) اور پھر ہم دونوں ایک ہی کشتی میں سوارہیں۔
مسز چٹرجی: (ہنس کر) یہ نہ کہیئے مسز بلیموریا ۔ ایک ہی کشتی میں اگر ہم دونوں سوار ہو گئیں تو کشتی گئی۔۔۔
(ڈاکتر: مسز بلیموریا۔ مسز چٹرجی سب ہنستے ہیں)
مسز بلیموریا: مسز چٹرجی آپ سے مل کر بہت خوشی حاصل ہوئی۔ آپ کی دوستی مجھے نصیب ہو جائے تو میری بہت سی پریشانیاں دور ہو جائیں۔
مسز چٹرجی: آپ کی بڑی نواز ش ہے۔۔۔ ہم دونوں کو ڈاکٹر صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔
ڈاکٹر: شکریہ کی کوئی ضرورت نہیں ۔ مریضوں کو خوش کرنا میرا فرض ہے۔
مسزبلیموریا: ڈاکٹر صاحب دوسرے کمرے میں ابھی ابھی میری ملاقات ایک اور خاتون سے ہوئی ہے۔ وہ آپ سے علاج کرانے کے لیئے آج ہی آئی ہیں۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں انہیں اندر بُلالوں۔ جب ہم تینوں ایک ہی مرض میں گرفتار ہیں۔ تو کیوں نہ ایک دوسرے کی محبت میں بھی گرفتار ہو جائیں۔ کیا خیال ہے آپ کا ڈاکٹر صاحب؟
ڈاکٹر : بہت نیک خیال ہے۔ بشرطیکہ مسز چٹرجی کو کوئی اعتراض نہ ہو۔
مسز چٹرجی: نہیں صاحب مجھے کیااعتراص ہو سکتا ہے مجھے خوشی ہوگی۔۔۔ ہر موٹی عورت سے مل کر مجھے خوشی ہوتی ہے۔
ڈاکٹر (ہنس کر) یہی وجہ ہے کہ آپ دن بدن موٹی ہو رہی ہیں (گھنٹی بجاتا ہے) ۔
امو۔۔۔ مسز باٹلی والا سے کہو۔ اندر تشریف لے آئیں۔
(مسز باٹلی والا دوسرے کمرے سے اندر داخل ہوتی ہے)۔
مسز باٹلی والا: صاحب جی ڈاکٹر صاحب۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر: صاحب جی مسز باٹلی والا۔
مسز بلیموریا: میں نے آپ کو اندر بلایا ہے۔ یہ مسز چٹرجی ہیں۔ بنگال سے علاج کرانے کے لیئے آئی ہیں۔ یہاں چونکہ بالکل اکیلی ہیں۔ اس لیئے ڈاکٹر صاحب نے ان سے میرا تعارف کرایا ہے اور اب میں آپ سے ان کا تعارف کراتی ہوں۔۔۔مسز چٹرجی۔۔۔آپ مسز باٹلی والا۔
مسز چٹرجی: آج تو ڈاکٹر صاحب نے مجھے مالا مال کر دیا۔ ۔۔۔ آپ سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی مسز باٹلی والا۔۔۔ آئیے تشریف رکھئے۔
ڈاکٹر: مسز چٹرجی گستاخی معاف مگر مسز باٹلی والا آپ کے صوفے پر نہیں بیٹھیں گی ۔
مسز باٹلی والا آپ اس کرسی پر تشریف ر کھیئے۔ہنستا ہے بے تکلفی معاف میرا یہ صوفہ صرف تین آدمیوں کا وزن برداشت کر سکتا ہے۔
مسز چٹر جی: (ہنس کر) تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ میرا وزن تین آدمیوں کے برابر ہے۔
ڈاکٹر: جو مجھے کم کرنا ہے۔۔۔ اب کچھ علاج کے بارے میں۔۔۔ سو جیسا کہ میں مسز چٹرجی سے کہہ رہا تھا ۔ موٹاپے کا علاج صرف اس صورت میں اچھی طرح کیا جا سکتا ہے اگر مریض ڈاکٹر کی رائے پر عمل کرے اور وہی غذا کھائے جو اس کے لیئے تجویز کی جائے۔ آپ تینوں چونکہ ایک ہی مرض میں گرفتار ہیں۔ اس لیئے آپ کا علاج بھی ایک جیسا ہے۔ دوائیں میں آپ کو علیحدہ علیحدہ لکھ دوں گا مگر ان دواؤں سے زیادہ ضروری پرہیز ہے۔۔۔ آپ سمجھ گئیں نا۔
تینوں: جی ہاں۔
ڈاکٹر: دواؤں سے زیادہ پرہیز ضروری ہے اور آپ سب کو پرہیز کرنا پڑیگا آپ ایسی کوئی چیز نہیں کھائیں گی جس سے چربی پیدا ہو۔ دودھ‘ مکھن پنیر ملائی وغیرہ کی آپ کو سخت ممانعت ہے۔۔۔ چائے پینا ہو تو بغیر دودھ اور شکر کے پیجئے ۔ مرغن کھانے مثلاً روغن جوس ‘ شوربہ‘ یخنی وغیرہ وغیرہ آپ کے لیئے غیر مفید ہیں۔۔۔ گھی میں تلی ہوئی چیز آپ کو ہرگز ہرگز نہیں کھانی چاہیئے۔ انڈا ہفتہ میں دوبار آپ ناشتہ پرکھا سکتی ہیں مگر یاد رہے کہ ہارڈبائلڈ ہو۔ ڈبل روٹی وغیرہ بہت کم کھائیں۔ دن میں صرف ایک مرتبہ ‘ بہت ہلکی غذاکھائیں اور وہ بھی پیٹ بھر کے نہیں ۔صبح اور شام لیمن کا رس پئیں شکر کے بغیر۔ ایک گلاس گرم پانی کا آہستہ آہستہ ہر روز پیا کریں اور روزانہ کسرت کریں دوڑیں چلیں پھریں اور اگر ہو سکے تو دن میں دوبار پانچ منزلہ مکان کی سیڑھیوں پر سے نیچے اتریں اور پھر چڑھیں۔۔۔ تیرنے سے بھی آپ کا موٹا پاکم ہو گا اور میں چند دوائیں اور ان کے استعمال کی ترکیب لکھ دیتا ہوں۔ امید ہے‘ آپ کو ان سے فائدہ ہو گا۔۔۔ میرا خیال ہے کہ اگر آپ شہر چھوڑ کر کسی گاؤں میں چلی جائیں تو اچھا ہو جہاں آپ خوب چل پھر سکیں اور گھر کا کام کاج بھی اپنے ہاتھوں سے کر سکیں۔ یوں بھی کسرت وغیرہ کے لیئے آپ کو وہاں آزادی ہو گی۔
مسز بلی موریا: ڈاکٹر صاحب ناسک کیسا رہے گا۔
ڈاکٹر: بہت اچھا رہے گا۔
مسز بلی موریا: ناسک میں ہمارا ایک چھوٹا سا بنگلہ ہے۔۔۔۔ اگر مسز باٹلی والا اور مسز چٹرجی میرا ساتھ دیں تو میں تو آج ہی خط لکھ دوں اور سامان وغیرہ ٹھیک کرالوں ۔۔۔ یہاں سے ناسک دُور بھی نہیں اور بڑی پُرفضا جگہ ہے۔
مسز باٹلی والا: آپ کو ناحق تکلیف ہوگی۔
مسز چٹرجی: اور پھر صرف ایک دن کی ملاقات کے بعد۔۔۔
مسز بلیموریا: مجھے شرمندہ نہ کریں۔۔۔ آپ کی صحبت میرے لیئے راحت کا باعث ہوگی۔ سیر کی سیر رہے گی اور علاج کا علاج‘ بنگلہ وہاں ویران پڑا ہے۔ آپ چلنے کو تیار ہوجائیں تو کچھ دیر کے لیئے وہ آباد ہو جائے گا۔
مسز چٹرجی: میں آپ کی بہت ممنون ہوں۔
مسزبلی موریا: (گجراتی میں) تم سے بھی اپنے ساتھ چالو۔ مجارہ سے ۔ ناسک تمہارا جوئے لاچھے۔ ساروگام چھے مسز چٹرجی انے تم انے ہون۔ اپنا بدا اونان دی دس مجے ناگجر چھے کیم بین سون کہوچہو۔
مسز باٹلی والا: ہاں جیم تمے کہو تیم ٹھیک چھے۔ راجی چہون تمے۔ دیوس نکی کر دی
لیو: پچے منی کئی دیو۔
مسز بلی موریا: تو اب یہ طے ہے۔۔۔ مسز چٹرجی اگر ہم اس اتوار کو یہاں سے چل دیں تو کیسا رہے۔۔۔ میں آج ہی خط لکھ دیتی ہوں ۔ دو دن میں بنگلہ ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا۔
مسز چٹر جی: میں تو آج بھی تیار ہوں۔ مجھے یہاں کیا کرنا ہے۔
****
دوسرا منظر
کوٹھی کابرآمدہ۔۔۔ تینوں موٹی عورتیں مونڈھوں پر بیٹھی ہیں۔ تپائی پر کٹے ہوئے لیموں کے ٹکڑے پڑے ہیں۔ دوتین گلاس بھی رکھے ہیں۔ باتیں کرتے وقت تینوں موٹی عورتیں بار بار پسینہ پونچھتی ہیں۔
مسز بلی موریا: (ہنستے ہوئے) گھاٹ پر لوگ ہمیں یوں دیکھ رہے تھے جیسے۔
اب میں کیا کہوں۔۔۔ یہ ناسک کے لوگ کتنے بدتمیز ہیں۔ موئے ہنس رہے تھے۔
مسز چٹر جی: معلوم ہوتا ہے۔ ناسک میں کوئی موٹی عورت نہیں ہے۔
مسز باٹلی والا: جب ہی تو وہ ہمیں دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے۔
ایک دم انہیں تین نظر آگئیں۔۔۔ بوکھلا سے گئے ہوں گے۔
مسز بلیموریا: خیر کچھ بھی ہو‘ پر یہاں گزر خوب رہی ہے۔۔۔ موٹاپا ہمارے حق میں بڑا مفید ثابت ہوا ہے۔۔۔ یعنی اتنی جلدی ہماری گہری دوستی ہو گئی ہے اور ایک دوسرے سے کتنی جلدی ہمدردی پیدا ہو گئی ہے۔
مسز چٹر جی: ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ہم تینوں سگی بہنیں ہیں۔
مسز باٹلی والا: اگر ایک چوتھا ساتھی ہمیں مل جائے تو بس عیش ہو جائے۔ کٹ تہروٹ کھیلنے میں خاک مزا نہیں لیکن مجبوری سے کھیلنا ہی پڑتی ہے۔ ایک ساتھی اور مل جائے تو سارا دن برج اُڑتی رہے۔۔۔ کیوں پدما۔
مسز چٹر جی: اب یہ تیسرا ساتھی لائیں کہاں سے۔۔۔ ڈاکٹر کو لکھ بھیجیں کہ وہ ایک موٹی عورت روانہ کر دے۔۔۔ نہیں پیرن سے کہو۔ یہ موٹی عورتوں کو ایک جگہ جمع کرنے میں کافی مہارت رکھتی ہے۔
مسز بلیموریا: پیرن۔۔۔ اپنے سمیت تین تو اکٹھی کر دیں۔ اب چوتھی تم لوگ تلاش کرو۔۔۔ لیکن ٹھہرو۔۔۔ ایک میری دور کی رشتہ دار ہے۔ اگر کہو تو اسے یہاں بُلالو۔۔۔ بیچاری کا خاوند جوانی ہی میں مر گیا ہے۔۔۔
ابھی دو مہینے بھی نہیں ہوئے۔ نہیں دو مہینے ہو گئے ہیں۔
مسز چٹر جی: برج کھیلنا جانتی ہے؟
مسز بلی موریا: ہاں ہاں کھیلتی تھیں۔
مسز چٹر جی: تو دیر نہ کرو۔ ابھی ابھی خط لکھو۔۔۔ نہیں تاردو۔۔۔ اور اگر ہو سکے تو اپنی گاڑی بھیج کر اسے جلد بلواؤ۔
مسز بلی موریا: نام اس کا شیریں ہے۔۔۔بڑی خوش خلق ہے۔ پرآج کل تو بیچاری اُداس ہوگی۔ تم جانتی ہی ہو۔ خاوند کی موت کا صدمہ کتنا ہوتا ہے۔
مسز چٹر جی: تم اس کو بلاؤ ہم سب ٹھیک کر لیں گے۔
****
تیسرا منظر
ڈاکٹر کا مطلب وہی جو ہم پہلے منظر میں دکھا چکے ہیں۔
شیریں کا باپ: شیریں تم جاؤ اور ضرور جاؤ۔ ناسک بہت اچھی جگہ ہے۔ پندرہ بیس دنوں ہی میں تمہاری صحت ٹھیک ہو جائیگی۔۔۔ کیوں ڈاکٹر صاحب ۔
ڈاکٹر : جی ہاں انہیں تبدیلی آب وہوا کی سخت ضرورت ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہاں جا کر یہ خوب کھائیں۔۔۔ مسز فوجدار سن لیا آپ نے۔۔۔ آپ کو خوب کھانا ہوگا۔ جتنا بھی آپ کھا سکیں کھائیں۔ دودھ پئیں۔ ملائی کھائیں۔ مکھن پنیر اور وہ تمام چیزیں جن سے چربی پیدا ہوتی ہے۔ آپ کو خوب کھانی چاہئیں۔ آپ کا وزن بڑھنا چاہیئے۔ اور وزن بڑھانے کے لیئے اچھی غذا بہت ضروری ہے ۔ پھل آپ کو ہر روز کھانے چاہئیں۔ ابلی ہوئی ترکاری سے پرہیز کریں۔ کیونکہ اس میں غذائیت کم ہوتی ہے۔ دس بارہ انڈے آپ ہر روز کھائیں تو دنوں میں وزن بڑھ جائے گا اور دیکھئے دن میں کم سے کم چھ مرتبہ کھائیں تھوڑا تھوڑا مگرکھانا ایسا ہو جس میں وٹامنز زیادہ ہوں۔۔۔ جو دوائیں میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ ان کے استعمال سے آپ کے ہاضمہ کو تقویت پہنچے گی۔ مگر ان دواؤں سے زیادہ ضروری غذا ہے۔۔۔ سمجھ لیا نا آپ نے۔
شیریں: جی ہاں۔۔۔میرا خیال ہے کہ ناسک میں اچھے دن گزریں گے مجھے یہاں کونسی تیاریاں کرنا ہیں۔۔۔ کل صبح ہی روانہ ہو جاؤں گی۔
شیریں کا باپ: ہاں بھئی میں بھی تو یہی کہتا ہوں۔۔۔ کل صبح سویرے تم یہاں سے چلو گی تو دو گھنٹے کے اندر اندر وہاں پہنچ جاؤ گی۔
****
چوتھا منظر
(کوٹھی کا برآمدہ: وہی جو ہم دوسرے منظر میں دکھا چکے ہیں۔ تینوں موٹی عورتیں مونڈھوں پر بیٹھی ہیں۔ شیریں کی آمد پر سب اُٹھنے کی کوشش کرتی ہیں مگر ان سے اُٹھا نہیں جاتا)
مسز بلی موریا: آؤ آؤ شیریں۔۔۔آؤ۔۔۔ ہم سب تمہاری راہ ہی دیکھ رہی تھیں۔۔۔ راستے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی۔ یہ موئی موٹر بہت تنگ کیا کرتی ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔لیکن تم کتنی دبلی ہوگئی ہو۔۔۔ تم اسباب کو چھوڑو۔ نوکر لے آئے گا۔ آؤ میں تمہارا ان سے انٹروڈکشن کراؤں۔ یہ مسز باٹلی والا ۔۔۔ مگر تم اسے فرینی ہی کہوگی اور یہ پدما۔۔۔ کلکتہ کی رہنے والی ہیں۔۔۔ مگر میں اپنے خط میں تمہیں سب کچھ بتا چکی ہوں۔۔۔ بیٹھ جاؤ
شیریں: آپ دونوں سے مل کر مجھے بہت خوشی ہوئی مفصّل باتیں بعد میں ہونگی اس وقت میں تھکی ہوئی ہوں۔
مسز چٹرجی: انہیں آرام سے بیٹھ تو لینے دو۔۔۔ جو گھر میں موجود ہے۔ وہی کھائیں گی اور کیا کھائیں گی۔۔۔ شیریں بے تکلفی معاف۔۔۔ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو۔ کھانے کی باتیں پھر ہوں گی۔ میں نے سنا ہے کہ تم برج خوب کھیلتی ہو۔ تاش منگاؤں۔
شیریں: بھئی پہلے میں کچھ کھالوں۔
مسز چٹرجی: پیرن۔ ذرا بیرے کو آواز دینا۔ ان کیلیئے کچھ کھانے کو لائے۔
مسز بلی موریا: یہی تو میں پوچھ رہی تھی۔ بتاؤ شیریں کیا کھاؤ گی۔
شیریں: تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ دو تین انڈے ہوں ہاف بائلڈ۔
مسز بلی موریا: (ٹھنڈی سانس لے کر) دو تین انڈے ہاف بائلڈ۔
شیریں: ہاں دو تین انڈے ہاف بائلڈ، چار پانچ توس مکھن اور تھوڑا ساپنیر ملائی تو ہوگی۔ اگر ہو سکے تو آلوؤں کے تھوڑے سے چپس تل لیئے جائیں یہ مجھے بھاتے ہیں۔
مسز چٹرجی: (افسردگی کے ساتھ) کچھ اور۔۔۔
شیریں: بس اس سے زیادہ تکلف کی ضرورت نہیں۔
مسز بلی موریا: مگر پدماملائی اور پنیر کہاں سے آئے گا۔ تم جانتی ہو یہاں نہ تو ملائی ملتی ہے نہ پنیر۔۔۔ تو س بن جائیں گے اور چپس۔ ہاں چپس بھی تیار ہو جائیں گے۔۔۔ دراصل ۔ دراصل۔۔۔ شیریں ہم یہاں بہت سادہ غذا کھاتے ہیں۔۔۔ کیوں فرینی۔
فرینی: (خیالات سے چونک کر) کیا کہا۔۔۔ ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ خاص طور پر ہمیں یہاں سادہ غذا ہی ملتی ہے۔ چھوٹا سا گاؤں جو ہوا۔
شیریں: کوئی ہرج نہیں تو باورچی سے کہو۔ چارانڈوں کا آملیٹ بنا دے۔ تھوڑے چپس تل لے چائے میں نہیں پیوں گی۔ اس کے بدلے دودھ کا ایک گلاس مل جائے۔۔۔ البتہ مکھن ذرا زیادہ ہو۔۔۔ میں کمزور بہت زیادہ ہو گئی ہوں۔ اس لیئے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ مکھن خوب کھایا کرو۔
مسز بلی موریا: (بمشکل لفظ منہ سے نکالتے ہوئے) ہاں ‘ ہاں کھانا ہی چاہیئے۔۔۔ اس کے بغیر طاقت کیسے آئے گی۔ مگر تم کوئی اتنی زیادہ کمزور تو نہیں ہو۔
شیریں: لیکن ان ڈاکٹروں کا کیا کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے ہر دوسرے گھنٹے کے بعد کھانا چاہیئے۔ یعنی دن میں چھ سات مرتبہ۔
مسز چٹرجی: (حیرت سے) چھ سات مرتبہ (حیرت کا رخ بدل کر) صرف چھ سات مرتبہ تو یہ کوئی زیادہ تو نہ ہوا۔
مسز باٹلی والا: اور ہر مرتبہ دودھ۔ ملائی مکھن۔۔۔ ٹھیک تو ہے یعنی دودھ مکھن ہی تو سب کچھ ہے۔ پیرن سُنا تم نے۔
مسز بلی موریا: اور ہم نے شیریں کو برج کھیلنے کے لیئے بلایا تھا۔
مسز چٹرجی: (بات کا رُخ بدلتے ہوئے) اور خواہ مخواہ یہ کھانے کی باتیں شروع کر دیں جاؤ پیرن اب یہ قصہ ختم کرو۔ باورچی سے کہو کہ وہ ان کے لیئے (ٹھنڈی سانس لے کر) چارانڈوں کا آملیٹ اور چپس وغیرہ تیار کر دے۔۔۔ ٹھہرو میں جاتی ہوں۔ اُف بیٹھے بیٹھے میری ٹانگ ہی سو گئی۔ جاؤ پیرن تم ہی جاؤ۔۔۔ اور دیکھو اس سے کہنا۔ مکھن دانی میں مکھن زیادہ ڈالے۔۔۔ اور اگر مکھن ختم ہو گیا ہو تو دوڑ کر بازار سے لے آئے۔
****
پانچواں منظر
(کوٹھی کا اندرونی حصہ: بیڈ روم۔۔۔ معمولی فرنیچر۔ کمرے کے چاروں طرف کھڑکیاں ہیں ۔ جن میں سے باہر کا سبزہ نظر آتا ہے۔۔۔ تینوں موٹی عورتیں چاء پی کر فارغ ہوئی ہیں۔ میز پر چاء کی بہت بڑی کیتلی دھری ہے۔ اس کے ساتھ ہی نہایت ہی چھوٹا دودھ دان پڑا ہے۔ جس کو مسز باٹلی والا بار بار اُٹھا کر دیکھتی رہے گی)
مسز باٹلی والا: پدما یہ بیٹھے بٹھائے ہم نے کیا مصیبت مول لے لی۔۔۔ اب کہاں گئی ہے تمہاری یہ شیریں۔
مسز بلیموریا: سیر کے لیئے گئی ہے۔ بس اب آتی ہی ہوگی۔
مسز چٹرجی: فرینی۔۔۔ سنا تھا تم نے کہہ رہی تھی دن میں چھ سات مرتبہ کھاؤنگی۔ یعنی ہر وقت چرتی رہے گی۔۔۔ بھئی تم دونوں برداشت کر لو تو کر لو مجھ سے تو اسے دن میں اتنی بار کھاتے نہ دیکھا جائے گا۔۔۔ کیا میرا جی نہ للچائے گا۔
مسز باٹلی والا: ہر وقت منہ چلتا رہے۔۔۔ آخر یہ کیا حیوانگی ہے۔
مسز بلی موریا: نہیں فرینی وہ اتنا نہیں کھائے گی ا ور پھر کھائے گی کہاں سے جو ہم کھاتی ہیں۔ وہی اسے کھانا پڑے گا۔
مسز چٹرجی: پر اسے تو ڈاکٹر نے بھینس بننے کے لیئے کہا ہے۔ جو کچھ ہم کھاتی ہیں اس سے شیریں کو تسلی کیسے ہو سکتی ہے اور پھر۔۔۔ اور پھر (سردآہ بھر کر) ہم کھاتی ہی کیا ہیں۔۔۔ اب کیا ہوگا۔
مسز باٹلی والا: بھئی میری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آتا۔۔۔ اگر اس نے میرے سامنے بیٹھ کر کھانا شروع کر دیا تو میرا ہارٹ فیل ہو جائے گا۔۔۔ پدما کچھ سوچو تو میں نے دس دن سے کچھ نہیں کھایا۔
مسز بلی موریا: اور ہم نے کیا کھایا ہے۔۔۔تم تو بس یونہی ہمت ہار دیتی ہو۔۔۔مان لو وہ زیادہ نہیں کھائے گی اور اگر کھائے گی تو وہی کچھ جو ہم کھاتی ہیں۔
مسز چٹر جی : چُپ۔۔۔ وہ آرہی ہے۔
(شیریں بھاگتی ہوئی اندر آتی ہے)
شیریں: پدما میں تمہیں ایک خوشخبری سناؤں۔۔۔ بھلا بوجھو تو یہ خوشخبری کیا ہے۔
مسز چٹرجی: اب مجھے کیا معلوم غیب کی باتیں میں تھوڑی جانتی ہوں۔۔۔
کیوں پیرن: بھلا یہ خوشخبری کیا ہو سکتی ہے۔
شیریں: بوجھو پیرن۔
مسزبلی موریا: یہاں تمہیں اپنی کوئی سہیلی مل گئی ہوگی۔
مسز چٹرجی: اور وہ آج شام کو ہمارے یہاں برج کھیلنے آرہی ہوگی۔
شیریں: غلط
مسز بلی موریا: بھئی اب تم ہی بتا دو ۔ پہیلیاں ہم سے نہیں بوجھی جاتیں۔
شیریں: جی جناب میں یہاں ایک ایسی دکان تلاش کرکے آئی ہوں۔ جہاں سے ہمیں ہر روز تازہ مکھن اور تازہ ملائی مل سکتی ہے۔۔۔ کیوں ہے نا شاندار خوش خبری۔
(سناّٹا چھا جاتا ہے)
شیریں: ارے ‘ تم سب چپ کیوں ہو گئیں۔۔۔ کیا تمہیں خوشی نہیں ہوئی۔ ہر روز تازہ بتازہ ملائی اور مکھن مل جایا کرئے گا۔۔۔ تم لوگوں نے تو ناشتے کا ناس مار رکھا تھا۔ اب دیکھنا کتنے مزے آتے ہیں۔ میں اس دکاندار سے کہہ آئی ہوں کہ ہر روز آدھا پونڈ مکھن اور آدھا پونڈ ملائی بھیج دیا کرئے۔۔۔ تم لوگوں کو یہ عیش کرانے کا ذِمّہ میں نے لیا ہے یعنی اس کا بل میں ادا کروں گی۔۔۔ پیرن تم کچھ نہیں بولوگی۔
مسز بلی موریا: آدھا پونڈ مکھن اور آدھا پونڈ ملائی۔
مسز چٹرجی: آدھا پونڈ ملائی ا ور آدھا پونڈ مکھن۔
مسز باٹلی والا: آدھا پونڈ مکھن اور آدھا پونڈ ملائی۔
شیریں: کیوں۔۔۔کم پڑیں گے تو اور منگالیں گے، دکان یہاں سے بالکل نزدیک ہے۔۔۔ مجھے تعجب تو یہ ہے کہ اتنی دیر تم کو اس کا پتہ نہ چلا۔
مسز بلی موریا: بھئی حد ہو گئی ہے۔۔۔یعنی ۔۔۔یعنی۔۔۔
مسز چٹرجی: حد ہو گئی ہے۔۔۔کسے معلوم تھا۔۔۔ کسے معلوم تھا۔۔۔کہ
مسز باٹلی والا: یوں بیٹھے بٹھائے۔ یوں بیٹھے بٹھائے۔۔۔ اب میں کیا کہوں۔۔۔
شیریں: کہو کہ یوں بیٹھے بٹھائے تمہیں آدھا پونڈ مکھن اور آدھا پونڈ ملائی ہر روز مل جایا کرے گی۔ اب تم لوگ میرا شکریہ ادا کرو اور بیرے سے کہو کہ جونہی ملائی وغیرہ آئے۔ ناشتہ فوراً تیار کرکے بھیجے۔ انڈوں کا حلوا میں ساتھ بنوا کر لائی ہوں۔ وہ بھی آج اُڑے۔ لنچ پر آج اسے کوفتے بنانے کے لیئے کہو۔۔۔ تم بہت سست ہو۔ خیر میں سب انتظام کر لوں گی۔ کھانے کا بندوبست ایسا ہو گا کہ تمہاری طبیعت خوش ہو جائے گی۔۔۔ہر روز نئی نئی ڈشیں۔ نئے نئے کھانے‘ روغن جوس ‘ بریانی اور کیا کچھ نہیں۔۔۔تم بس اب دیکھتی جاؤ کیا ہوتا ہے۔
مسز چٹرجی: پیرن بس اب دیکھتی جاؤ کیا ہوتا ہے۔
****
چھٹا منظر
کوٹھی کا ڈائننگ روم۔ معمولی فرنیچر جیسا کہ عام کھانے کے کمروں میں ہوتا ہے۔۔۔ مسز چٹرجی ملائی کی پلیٹ سامنے رکھے انگلی ہی سے کھا رہی ہے جلدی جلدی جیسے برسوں کی بھوکی ہے۔۔۔ چند لمحات کے بعد مسز باٹلی والا داخل ہوتی ہے۔ مسز چٹرجی اس کی طرف دیکھے بغیر ملائی کھانے میں مصروف رہتی ہے۔
مسز باٹلی والا: (غصّے میں) پدما تم یہ کیا کررہی ہو؟
مسز چٹرجی: (منہ میں نوالہ ہے) دیکھ لو۔
مسز باٹلی والا: تم کھا رہی ہو
مسز چٹرجی: ہاں کھا رہی ہوں اور کھاتی رہوں گی۔ مجھے ڈراتی کیا ہے۔
مسز باٹلی والا: تمہیں شرم آنی چا ہیئے پدما۔۔۔میں یہ سمجھ رہی تھی کہ تم بہت مضبوط کیریکٹر رکھتی ہو‘ پر آج تمہاری اصلیت معلوم ہو گئی۔
مسز چٹرجی: (کھاتے ہوئے ) چلو اچھا ہوا۔
مسز باٹلی والا: پدما اتنا زیادہ نہ کھاؤ۔ نہ کھاؤ۔۔۔ دیکھو میں تمہاری بھلائی کے لیئے کہہ رہی ہوں۔۔۔نہ کھاؤ
مسز چٹرجی: بھلائی کے لیئے کہو یا برائی کے لیئے۔۔۔ملائی کی یہ پلیٹ میں کبھی نہ چھوڑوں گی۔
مسز باٹلی والا: دیکھو پدما تمہارا وزن اور بڑھ جائے گا۔
مسز چٹرجی: بڑھ جائے۔۔۔ بلا سے
مسز باٹلی والا : تم نہیں مانوگی
مسز چٹرجی: نہیں مانوں گی۔۔۔ نہیں مانوں گی۔۔۔ دس روز سے تمہاری وہ تمہاری بہن شیریں میرے سامنے بیٹھ کر ملائی کی پلیٹیں چٹ کرتی رہی اور میں دل پر پتھر رکھے خاموش رہی۔ ایک لفظ میری زبان پر نہ آیا۔۔۔ انڈوں کے حلوے اس نے کھائے۔ باداموں کی کھیر وہ کھاتی رہی۔ دودھ کے گلاس اس نے پیئے اور میں ۔۔۔اور میں۔۔۔ پتھر کی مورتی بنی رہی۔ آخر صبر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے(رونی آواز میں) میں ۔۔۔میں بھی تو آخر انسان ہوں۔۔۔ میرا جی بھی تو کھانے چاہتا ہے۔۔۔ میں آخر کب تک دل پر جبر کیئے رہتی ۔۔۔ تم نے مجھے گالیاں دی ہیں۔ برا بھلا کہا ہے۔۔۔ میں ۔۔۔میں ۔۔۔واقعی بہت کمزور کیریکٹر کی عورت ہوں(سبکیاں)
مسز باٹلی والا: پدما۔۔۔پدما۔۔۔ مجھے معاف کر دو۔۔۔ نہ رو۔۔۔ نہ روبہن۔۔۔چولہے میں جائے شیریں اور بھاڑ میں جائے وہ ڈاکٹر جس نے ہمیں بھوکا مارنا چاہا۔۔۔بوائے۔۔۔ بوائے۔۔۔ نہ رو پدما۔ نہ رو میرے دل کو بڑا دُکھ ہوتا ہے۔
(بوائے آتا ہے)
بوائے : جی بائی جی
مسز باٹلی والا: ملائی کی ایک ایسی پلیٹ اور لاؤ۔۔۔ اور شیریں بائی کے لیئے
تم نے حلوا بنایا تھا وہ بھی لاؤ۔۔۔ جلدی لاؤ۔
بوائے: ابھی لایابائی جی۔
مسز باٹلی والا: سچ مچ ہم تو یوں فاقے کرکے مرجائیں۔ ذرا پلیٹ ادھر کرو۔
مسز چٹرجی: نہیں فرینی۔۔۔ اس میں سے تم کو کچھ نہ ملے گا۔۔۔ تمہاری پلیٹ ابھی آتی ہے۔
مسز باٹلی والا : بڑی کمینی ہو۔
بوائے: یہ لیجئے۔۔۔ پنیر بھی ہے۔ اگر حکم ہو تو لاؤں۔
مسز باٹلی والا: نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔۔ لاؤ۔۔۔ جتنا بھی ہے لے آؤ۔
(دُور سے مسزبلی موریا کی آواز آتی ہے۔ پدما‘پدما‘ فرینی۔۔۔ فرینی۔۔۔ کہاں مر گئیں)
مسز چٹرجی: شیریں کو اسٹیشن پر چھوڑ آئی ہے۔
مسز باٹلی والا: میں تو سمجھ رہی تھی کہ وہ کبھی جائے گی ہی نہیں۔ دھرنا دے کر بیٹھ گئی تھی۔
مسز چٹرجی: اور پیرن کہتی تھی بیچاری کے پتی کو مرے صرف دو مہینے ہوئے ہیں ۔۔۔ لیکن اس کو تورتی برابر غم نہیں تھا۔ جن کے پتی مرتے ہیں۔ وہ یوں بھینسوں کی طرح ہر وقت چرتی تھوڑی ہیں۔
مسز باٹلی والا: (کھاتے ہوئے) یہ نئی روشنی ہے بابا!
(مسز بلی موریا اندر داخل ہوتی ہے)
مسز بلی موریا: ہوں۔۔۔ یہ بات ہے۔۔۔ میں بھی سوچ رہی تھی کہ تمہارا وزن کیوں کم نہیں ہوتا۔۔۔ چپکے چپکے باروچی خانہ میں ہر روز گلچھرے جو اُڑائے جاتے ہیں فرینی‘ پدما۔۔۔ یہ کیا بیہودگی ہے۔
مسز چٹرجی: پیرن‘ زیادہ بکواس نہ کرنا‘ ہم دونوں بھری بیٹھی ہیں۔ تمہاری اس شیریں کے ہاتھوں ہم نے کافی سے زیادہ دکھ سہے ہیں۔ تم اسے یہاں بلا کر ہماری جی بھر کے توہین کر چکی ہو۔
مسز بلی موریا: بدمعاشو۔۔۔ لُچیو۔۔۔ تمہیں شرم نہیں آتی۔ بوائے۔۔۔بوائے۔
بوائے: جی بائی جی
مسز بلی موریا: ایک پلیٹ ملائی کی میرے واسطے بھی لاؤ۔ حلوا اور پنیر بھی۔ اور دیکھو ڈرائننگ روم کی بڑی ٹیبل پر میں ایک پارسل رکھ آئی ہوں اس میں جو کچھ ہو سب کا سب میرے لیئے ایک بڑی پلیٹ میں ڈال کر لاؤ۔۔۔ میں آج اگلی پچھلی کسر نکالوں گی۔۔۔ تم دیکھتی جاؤ۔
(ماخوذ)
پردہ
مصنف:سعادت حسن منٹو