افراد:
مرزا
سعیدہ: (مرزا صاحب کی بیوی۔ صلح پسند عورت)
ثریا: (سعیدہ کی لڑکی)
ممتاز: (صُلح پسند عورت نمبر ۲)
عائشہ: (صُلح پسند عورت نمبر ۳)
منظر:
فراخ اور کشادہ کمرہ معمولی فرنیچر سے آراستہ ہے۔ مگر اس آرائش میں حسن نظر نہیں آتا۔ چیزیں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ بچے کے پوتڑے اور کلوٹ سکھانے کی خاطر تین چار کرسیوں کی پشت پر لٹکے نظر آتے ہیں۔۔۔ مرزا اخبار پڑھنے میں بے طرح مشغول ہے۔ سعیدہ پاس ہی صوفے پر آلتی پالتی مارے بیٹھی ہے۔ اور چھوٹی قینچی سے اپنے پیر کے ناخن کاٹ رہی ہے۔۔۔ اس کے سامنے دروازہ ہے جس کی چٹخنی لگی ہوئی ہے۔ دائیں ہاتھ کو ایک اور دروازہ ہے۔ جس سے دوسرے کمرے کی جھلک نظر آتی ہے)
سعیدہ: کچھ تمہیں گھر کی فکر بھی ہے۔۔۔ بس اخبار لے کے بیٹھ جاتے ہو
مرزا: (سعیدہ کا خاوند) ہاں ۔۔۔ تو پھر کیا ہوا۔
سعیدہ: ہوا میرا سر۔۔۔ بھئی کوئی اتنا کم سخن بھی ہو کل تم کھانا کھا کر حُقہ پی رہے تھے تو میں نے یہ سب باتیں تم سے کہی تھیں۔ اب میں کیا بار باران کو دہراتی رہتی۔ سو یہ تم جانتے ہی ہو کہ میری عادت نہیں۔ کل میں نے تم سے سب کچھ کہا۔۔۔ نہ معلوم اب کس سوچ میں پڑے ہو۔
مرزا: کس کم بخت نے کچھ سنا۔
سعیدہ: تم کیوں سُنو‘ سُنے تمہاری بلا تم کو اپنے یاردوستوں کی بک بک سے کب فرصت ہے جو گھر کا دکھڑا سنو۔۔۔ اور میری بات تم کیوں سننے لگے جس کے منہ میں نگوڑی زبان ہی نہیں ۔ کوئی اور ہوتی۔۔۔
مرزا: (اخبار تہہ کرکے) بیگم لو آٹا بھی آیا جاتا ہے۔۔۔ کوئلے بھی سمجھو کہ آگئے
سعیدہ: کوئلے ایک دو روز دیر سے بھی آئیں تو کوئی حرج نہیں مگر بچوں کے پاس گرمیوں کا کوئی کپڑا نہیں۔ اس کا کیا ہو گا۔
مرزا: اس کا بھی اللہ مالک ہے
سعیدہ: اللہ چھت پھاڑ کر تھوڑے ہی پھینک دے گا کچھ کام کرو۔ کچھ کوشش کرو تنخواہ کی دو سو روپوں میں کب تک کام چلے گا۔
مرزا: کبھی تمہاری زبان سے شکر کا کلمہ آج تک میں نے نہ سنا۔ ہمیشہ شکایت اور ناشکری۔ توبہ‘ خدایا توبہ‘ کیسے اس عورت کو سمجھاؤں کہ تم ہزاروں سے بہتر ہو۔
سعیدہ: تم تو حقے کے ہر کش اور دھوئیں کے ہر بقے کے ساتھ شکر الٰہی بجا لاتے ہو‘ کیوں؟
مرزا: تمہارے ان ہر روز کے جھگڑوں سے سوکھ کر پنجر ہو گیا ہوں۔
سعیدہ: پیجچوان کہو پیجچوان۔۔۔ طبعیت جو پیچدار ہوئی اور مزاج عظیم اللہ خانی۔
مرزا: بھئی توبہ ہے توبہ۔۔۔ تم اب ضلع جگت پر اتر آئیں۔
سعیدہ: ضلع جگت وگت میں کیا جانوں۔ مجھ نگوڑی کو یہ باتیں کہاں آتی ہیں ۔۔۔ یہ تم ہی ہو جو گولی کا جواب گولا دیتے ہو۔
مرزا: اے گولا۔۔۔ تم توشیل پھینکتی ہوشیل۔
سعیدہ: اب جانے دو ثریا کے ابا۔ میرے مغز میں اتنا بوتا نہیں جو تمہاری ہر بات کا جواب دے سکوں۔۔۔ لڑائی بھڑائی سے مجھے یونہی ڈرلگتا ہے بابا۔ خواہ مخواہ ہنسی میں کھنسی ہو جائے گی۔
(سامنے دروازے پر دستک ہوتی ہے)
مرزا(اٹھ کھڑا ہوتاہے) کوئی میرے احباب میں سے آیا ہے۔ تم اندر چلی جاؤ۔
سعیدہ: (اٹھ کھڑی ہوتی ہے) میں تو ہرگز اس وقت دروازہ نہ کھولنے دوں گی۔
مرزا: ہائیں ہائیں کیا کہہ رہی ہو۔ وہ کیا کہے گا؟
سعیدہ: جو کچھ کہے۔۔۔ میں نے دروازہ نہ کھولنے دیا ہے نہ کھولنے دوں گی
(اپنے خاوند کے آگے کھڑی ہو جاتی ہے)
(دستک)
مرزا: خُدا کا واسطہ ہٹو بھی۔۔۔ بیچارہ کھڑا ہے
سعیدہ: کھڑا کھڑا خشک ہو جائے۔ میں تو کبھی دروازہ نہ کھولنے دوں گی۔
مرزا: خُدا رسول کا واسطہ یہ ضد نہ کرو۔ میں بدنام ہو جاؤں گا۔
سعیدہ: بدنام ہو یا نیک نام۔۔۔ ایک مرتبہ دروازہ نہ کھلے گا تو پھر اس کو آنے کا منہ نہ ہو گا۔
مرزا: سعیدہ۔ تمہیں میری رسوائی کا بھی کچھ خیال نہیں۔
(زور سے دستک ہوتی ہے)
سعیدہ: بدنام ہو یا رسوا میں تو سرے ہی سے چاہتی ہوں کہ یہ تمہارے دوست میرے گھر میں آنا بند کر دیں جس کو دیکھو گردن ڈالے چلا آتا ہے صبح وشام اُدھم مچا رہتا ہے۔
(زور سے دروازہ کھلتا ہے۔ ثریا داخل ہوتی ہے)
ثریا: امی جان! آپ کو کیا ہو گیاہے ۔ دروازہ کھٹکھٹاتے کھٹکھٹاتے مجھے آدھ گھنٹہ ہوگیا۔۔۔ آخر میں نے زور سے دھکا مارا تو دروازہ کھلا۔
سعیدہ: چپ کر موئی۔ تیرا باپ اس بڑھاپے میں جوانوں کی سی رنگ رلیاں منانا چاہتا ہے۔ درجنوں دوست بنا رکھے ہیں جو صبح وشام آکر یہاں دھرنا مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔
ثریا تو امی جان اس میں آپ کا کیا حرج ہے۔۔۔ کیا ابا جان اپنے دوستوں کو چھوڑدیں۔۔۔ پر اس وقت تو۔۔۔
سعیدہ: خوب‘ بڑے تو بڑے چھوٹے سبحان اللہ۔۔۔ بی مینڈ کی بھی چلی مداروں کو۔۔۔ دور ہو ثریا ورنہ جوتی کھینچ ماروں گی۔۔۔ آج تو اتنی دیرباہر کہاں رہی۔۔۔ خدا کی شان ‘ مجھ سے زبان لڑاتی ہے باپ کی پچ کرتی ہے۔
ثریا: امی جان آپ نے میری بات تو سن لی ہوتی۔
سعیدہ: چل چل‘ اب زیادہ بکواس نہ کر۔ اندرجا کے بیٹھ اور آٹا گوندھ
ثریا: امی جان‘ دوسرے کمرے میں ممتاز بھابی آئی کھڑی ہیں۔
سعیدہ: کہاں ہے ممتاز۔۔۔ ثریا تم نے مجھ سے پہلے کیوں نہ کہا
مرزا: تم نے اس کا موقع بھی دیا ہوتا۔۔۔ اب جاؤ اس غریب کو اس کمرے میں لے آؤ۔ میں چلا جاتا ہوں۔
دوسرے کمرے میں چلا جاتا ہے۔ ثریا بھی اپنے باپ کے ساتھ ہی چلی جاتی ہے)
سعیدہ: یہ سب کچھ تمہاری ہی وجہ سے ہوا۔ اک نگوڑی ذراسی بات پر مجھ سے بحث کرنے لگے۔۔۔ ثریا تو عجب بے وقوف ہے۔ آتے ہی مجھ سے کہا ہوتا۔ اب وہ نہ جانے اپنے دل میں کیا کہتی ہوگی
(دروازے تک بولتی جاتی ہے)
سعیدہ: (جاتے ہوئے) بس آپ ایک بات جولے کر بیٹھتے ہیں تو گھنٹوں اسی میں غرق رہتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ کسی کا ہرج ہو رہا ہے۔ دروازے پر کئی بار دستک ہوئی۔ میں نے کہا بھی کہ ثریا اپنی بھابی ممتاز کو لے کر آئی ہوگی۔ پر آپ یہی کہتے رہے کہ نہیں تمہارے کان بج رہے ہیں۔ اب نگوڑی میری طبیعت جھگڑا لو نہیں‘ میں کچھ کہتی تو بحث شروع کر دیتے۔۔۔ بھئی ممتاز مجھے معاف کرنا میں میں۔۔۔
(دروازہ کی چق ہٹاتی ہے۔ ممتاز اندر داخل ہوتی ہے)
ممتاز: کوئی بات نہیں آپا۔۔۔ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
سعیدہ: (دونوں صوفے کی طرف باتیں کرتی بڑھتی ہیں) ممتاز ‘ اب میں تم سے کیا کہوں۔۔۔ ان کی طبیعت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ کسی کی سنتے ہی نہیں۔۔۔ اور میری عادت نہیں کہ ان سے جھگڑا کروں ۔۔۔ پر چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔ تم بتاؤ کہ کیسے آئیں۔ ثریا نے مجھ سے کل ہی کہا تھا کہ ممتاز بھابی آئیں گی۔ وہ آپ سے مل کر کچھ باتیں کرنا چاہتی ہیں۔۔۔ برقعہ تو اُتاردو۔۔۔ثریا۔۔۔ثریا۔۔۔ اپنی بھابی کے لیئے چائے وائے تو بناؤ۔۔۔ ثریا۔۔۔ اب وہ لے کر بیٹھ گئے ہوں گے اسے۔
ممتاز: نہیں آپا‘ تکلف کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں اور ثریا دونوں چائے پی کر آئے ہیں۔
سعیدہ: یہ تم گھر سے چاء پی کر کیوں چلیں۔۔۔ تم نے مجھے پرایا سمجھا؟
ممتاز: یہ بات نہیں آپا میری عادت ہے کہ گھر سے کھاپی کر ہی نکلتی ہوں اور پھر۔۔۔ دراصل بات یہ ہے کہ چاء مجھے نیلے لیبل ہی کی اچھی لگتی ہے۔۔۔ عام طور پر دوسرے چورا استعمال کرتے ہیں۔ خیر چھوڑئیے اس قصے کو۔۔۔ ہاں تو میں اس لیئے آئی تھی کہ اس جھگڑے کا فیصلہ ہو جائے۔
سعیدہ: ممتاز ‘ ثریا نے مجھ سے یہ بات کہی تھی۔۔۔ بھئی اس میں فیصلے کا سوال ہی کیا ہے۔ تم جانتی ہو کہ میں صُلح پسند عورت ہوں لڑائی جھگڑے سے تو مجھے وحشت ہوتی ہے۔۔۔ مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ اگر عائشہ کے دل میں کوئی میل نہیں تو میں ہر وقت اس سے صلح صفائی کرنے کو تیار ہوں اور یہ پیغام میں نے ثریا کے ہاتھ تمہیں بھجوا بھی دیا تھا۔
ممتاز: اسی واسطے تو میں یہاں آئی(برقعہ اتار کر صوفے کی کرسی پر بیٹھ جاتی ہے)۔۔۔ عائشہ کے دل میں نہ کبھی میل تھا اور نہ اب ہے۔۔۔ میرے پاس پرسوں آئی تھی ۔ قمیص کا نمونہ لینے‘ وہی جو میں نے سات روپے دے کر سلوائی تھی۔۔۔ آپا میری عادت نہیں کہ دوسروں کی طرح اپنی چیزیں چھپاتی پھروں‘ کسی کو نہ دکھاؤں۔۔۔ اس نے نمونہ مانگا۔ میں نے جھٹ سے قمیض اس کے حوالے کر دی اور کہا‘ لے جاؤ‘ حالانکہ ایک بار میں نے اس سے پیٹی کوٹ کی لیس منگوا بھیجی تھی تو اس نے صاف انکار کر دیا تھا اور آپا خدا واحد شاہد کی قسم‘ میں نے نمونے کے لیئے یہ لیس نہیں منگوائی تھی۔۔۔ میرے پاس ویسی سینکڑوں لیسیں پڑی تھیں۔ میں نے تو صرف اس کا امتحان لیا تھا۔۔۔۔۔۔ آپ کی طرح میری طبیعت بھی بڑی صُلح کُل ہے۔ میں نے اس کا کوئی خیال نہ کیا۔۔۔ ہاں تو وہ پرسوں قمیص کا نمونہ لینے آئی تھی تو باتوں باتوں میں آپ کا ذکر ہوا۔
سعیدہ: کیا کہنے لگی(دلچسپی کا اظہار کرتی پاس ہی کرسی پر سے پوتڑا اُٹھا کر بیٹھ جاتی ہے)
ممتاز: کچھ نہیں ۔ باتوں باتوں میں آپ کا ذکر آیا تو میں نے اس سے ناراضی کا سبب پوچھا۔ ساری بات مجھے معلوم تو تھی ہی۔
سعیدہ: اس نے کیا کہا۔
ممتاز : کہنے لگی کوئی خاص بات نہیں تھی۔ بس ایسے ہی سعیدہ آپا کچھ خفا ہو گئیں۔ اتنی مدت ہو گئی ہے۔ پرمیں اپنی طرف سے ان کا دل صاف نہیں کر سکی۔ بات یہ ہے کہ مجھ اللہ ماری کو جھگڑے سے بڑی نفرت ہے۔ میں نے سوچا۔ اگر اس بارے میں کچھ کہوں گی تو ممکن ہے بات اور زیادہ بڑھ جائے۔ سوچپ رہی۔
سعیدہ: میرے متعلق کیا کہتی تھی۔
ممتاز: آپا اللہ کو جان دینی ہے بھئی اس نے آپ کی تعریف ہی کی۔ کہا کہ آپا مجھ سے ناراض ہیں تو کیا ہوا‘ پر میرے منہ سے ان کے خلاف ایک بات بھی کبھی نہیں نکلے گی۔ میں تو ہر وقت ان سے صلح کرنے کو تیار ہوں وہ خود بھی اس کی خواہش کریں؟
سعیدہ: ممتاز‘ مجھے اس سے کوئی پرخاش نہیں اور پرخاش بھی کیا ہوگی‘ جب کوئی بات ہی نہیں ہے۔ اللہ کی قسم ‘ میرے دل میں بالکل میل نہیں۔ میں تو اسے دوسرے روز ہی بلا کر سارا معاملہ صاف کر دیتی پر نگوڑے گھر کے ان کا موں میں اس طرح مصروف ہوئی کہ ادھر توجہ ہی نہ دے سکی۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ثریاکا جہیز اب بالکل تیار ہے۔ پچاس ساڑھیاں پوری کر لی ہیں۔ پچیس جوڑے اور ہیں ۔ چاندی کا ٹی سٹ بنوا لیا ہے۔ پھولدان تین چار روز کے بعد آجائیں گے۔ ایک ایک تولے کی چوبیس کنگنیاں اس کی پہلے ہی موجود تھیں۔ اس لیئے میں نے ان سے کہا کہ آپ نفیسیاں بنوا دیں۔ سودہ بن کر آگئی ہیں۔۔۔اور سینکروں چیزیں ہیں۔ غرض یہ ہے کہ جو ہم غریبوں سے ہو سکا کر دیا ہے اب خدا کرے کہ اس کا نصیب اچھا ہو۔۔۔تم کبھی آنا‘ میں تمہیں یہ سب چیزیں دکھادوں گی۔ اچھا تو اور کیا باتیں ہوئیں۔
ممتاز: اور تو کوئی بات نہیں ہوئی۔ البتہ میں نے اس سے کہا کہ عائشہ‘ اب ان کی لڑکی ثریا کی شادی ہونے والی ہے۔ بہتر ہو گا کہ تم خود ہی وہاں چلی چلو۔۔۔ میں ان سے کہہ دُوں گی۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
سعیدہ: وہ جب چاہے چلی آئے۔ اس کا اپنا گھر ہے۔۔۔ تم نے اسے آج ہی آنے کو کہہ دیا ہوتا۔
ممتاز: آپ سے پوچھے بغیر ہی میں اس سے کہہ چکی ہوں۔ آج ضرور آئیگی ۔
سعیدہ: ممتاز ‘ یہ تم نے بہت اچھا کیا۔۔۔ صلح صفائی ہو جائے تو کیابُرا ہے۔۔۔ توبہ‘ میں باتوں ہی باتوں میں چاء کے لیئے کہنا بھول ہی گئی ۔۔۔ثریا۔۔۔ثریا۔
ثریا: (آواز دور سے آتی ہے) آئی۔
سعیدہ: ثریا‘ پکارتے پکارتے گلا تھک گیا۔۔۔ دہائی باوا‘ آج کل کی لڑکیوں کے کانوں کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے۔ کچھ سُنائی ہی نہیں دیتا ہے۔۔۔ثریا۔
(ثریا بھاگتی ہوئی اندر آتی ہے)
ثریا: آئی امی جان
سعیدہ: جابیٹا‘ اپنی بھابی کے لیئے چاء بنا کر لا۔۔۔ اور دیکھ اپنی نگرانی میں چاء کا پانی تیار کرائیو۔ ایسا نہ ہو خانساماں اپنی سبز لیبل کی پتی پانی میں ڈال دے۔۔۔ دارجیلنگ کی وہ چاء جو ہم ہر روز پیتے ہیں ‘ وہی ہو۔۔۔ اس روز کم بخت غلطی سے سبز لیبل کی پتی پانی میں ڈال لایا تھا۔ شام تک میری طبیعت خراب رہی تھی۔۔۔ جا اب جلدی کر۔
ثریا: کھانے کے لیئے کیا ہوگا۔
سعیدہ: نعمت خانے میں کیک کے دو پیس پڑے ہیں۔میز پر رکھ دینا اور ہاں۔۔۔ تیرے ابا جی کل ہی تو دس روپے کی پیسٹری لائے تھے۔ تھوڑی سی ضرور بچی ہوگی۔ وہ بھی رکھ دینا۔۔۔ اب جا میرا مغز نہ چاٹ۔
(ثریا چلی جاتی ہے)
ممتاز: آپا‘ آپ نے توحد ہی کر دی۔
سعید: کیوں ‘ کیا بات ہوئی۔
ممتاز: (سنجیدگی کے ساتھ) میں نے بھلا آپ سے کیا کہا تھا جو آپ نے میری اس قدر ہتک کی۔
سعیدہ: قسم لے لو جو مجھے کچھ معلوم ہو۔ تم ہی بتاؤ‘ میں نے کیا کہا۔
ممتاز: آپ کو ذرا سی بات پر غصہ آگیا۔ میں نے صرف یہی کہا تھا کہ آپ تکلف نہ کیجئے‘ میں چاء پی کر آئی ہوں اور نگوڑی میری زبان سے یہ بھی نکل گیا کہ مجھے نیلے لیبل کی چاء پسند ہے‘ بس آپ نے یہ چھوٹی سی بات لے کر مجھے اتنا ذلیل کیا۔
سعیدہ: میں نے تو کچھ نہیں کہا۔ ضرور تمہارے من میں چور ہو گا جو تم نے یہ مطلب نکالا۔۔۔ اور میں نے جھوٹ تھوڑا ہی بولا ہے۔ ہمارے گھر میں تو چاء نوکر پیتے ہیں۔۔۔ کسی سے بھی پوچھ لو۔
ممتاز: پوچھنے کی کیا ضرورت ہے‘ میں سب جانتی ہوں۔
سعیدہ: کیا جانتی ہو۔
ممتاز: میں یہ جانتی ہوں کہ آپ نے صریحاً میری ہتک کی ہے۔ اللہ کی قسم میں نے بہت صبر کیا ہے آپا۔ تو اس کا مطلب ہوا کہ ہم آپ کے نوکروں کے برابر ہوئے فساد سے میری طبیعت گھبراتی ہے۔ ورنہ میں سب جانتی ہوں کہ آپ اپنے نوکروں کو کیا دیتی ہیں۔
سعیدہ: ممتاز ‘ اب اس بات کو نہ بڑھاؤ۔ میری زبان نہ کھلواؤ‘ ایک روز ثریا تمہارے گھر سے چاء پی کر آئی تھی۔ بیچاری چار روز تک بستر پر پڑی رہی تھی۔ میرے پچاس روپے خرچ ہو گئے اس کے علاج پر۔
ممتاز: جانے یہاں سے کیا بلا بدتر کھا کر ہمارے ہاں گئی ہوگی۔
سعیدہ: ممتاز‘ اب تم بہت بڑھ چڑھ کر باتیں کرنے لگیں۔ وہ بلا بدتر تم لوگ ہی کھاتے ہو گے۔ ہمارے ہاں تو طرح طرح کے کھانے کھائے جاتے ہیں۔۔۔ اس روز جو تم نے ہمیں دعوت دی تھی۔ اس سے ہی مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ تمہارے گھر میں کیا پکوان چڑھتے ہیں۔ پانی جیسا شوربہ لگی ہوئی ہانڈی۔۔۔ روٹیاں جیسے جلدی میں اُٹھ کر اُپلے تھا پ دئیے گئے ہیں۔۔۔ جانے دو اب ان باتوں کو۔۔۔ میں تم سے لڑنا نہیں چاہتی۔
ممتاز: ابھی آپ مجھ سے لڑی نہیں اگر لڑتیں تو ضرور کچہری تھانہ ہوتا۔۔۔ نوج آپ سے کوئی بات کرے۔۔۔ توبہ ہے بھئی توبہ۔۔۔ کانوں کو ہاتھ لگاتی ہوں اگر پھر کبھی ادھر کا رُخ کروں۔۔۔ میرا برقعہ کہاں ہے۔۔۔ (کانپتے ہوئے ہاتھوں سے برقعہ اٹھاتی ہے)
رائی کا پہاڑ بنا دیا۔۔۔ بیچاری عائشہ سچی تھی۔۔۔ میں نے جھک ماری جو آپ کے یہاں آئی۔۔۔
(غصے میں تھر تھرکانپتی سامنے کا رخ کرتی ہے اور باہر نکلتے وقت زور سے دروازہ بند کرتی ہے)
سعیدہ: ثریا۔۔۔ثریا۔۔۔
ثریا: (آواز دور سے آتی ہے) آئی۔
سعیدہ: آئی تھی وہاں سے صُلح صفائی کرانے۔۔۔ بے شرم موئی چڑیل کہیں کی۔۔۔ سبزلیبل کی چاء کے علاوہ اور کوئی چاء اُترتی ہی نہیں ملکہ کے حلق سے نیچے۔۔۔ اونہہ۔۔۔ثریا۔۔۔ کہاں مر گئی تو۔
(ثریا اندر آتی ہے)
ثریا: (قریب آکر) آگئی امی جان۔ چاء تیار ہے
سعیدہ: پڑی رہنے دے وہیں۔۔۔ آئی تھی اپنی جاگیرداری کا رعب گانٹھنے۔۔۔
ثریا: کیا ہوا امی جان
سعیدہ: کچھ نہیں۔۔۔ میں نے تمہارے جہیز کی چند چیزیں گنوائیں تو جل بھن کر خاک ہی تو ہو گئی۔۔۔
ثریا: بھابھی جان چلی گئیں
سعیدہ: ثریا خبردار‘ اگر تو نے اسے بھابی جان کہا۔۔۔ تیری کیا لگتی ہے
وہ تین میں نہ تیرہ میں،سُتلی کی گرہ میں۔
ثریا: پر امی جان بات کیا ہوئی
سعیدہ: ثریا‘ اب تو میرا مغز نہ چاٹ۔۔۔ کیتلی پر ٹکوزی رکھ آ‘ پڑی پڑی ٹھنڈی ہو جائے گی۔۔۔ اور دیکھ باہر کا دروازہ بند کر دے۔
(دروازے پر دستک)
ثریا: امی جان کوئی آیا ہے۔
سعیدہ: ہو گا تیرے باپ کا کوئی دوست
ثریا: میں دیکھتی ہوں۔
(ثریا دروازے کی جانب بڑھتی ہے۔ دروازہ کھولتی ہے اور چق ہٹا کر دیکھتی ہے۔ پھر فوراً ہی دوڑی دوڑی اپنی ماں کے پاس آتی ہے)
ثریا: امی جان‘ امی جان۔۔۔عائشہ آپا آئی ہیں۔
سعیدہ: تو کھڑی میرا منہ کیا دیکھتی ہے۔ ان کو اندر لے آ۔
(ثریا دوڑی دوڑی واپس جاتی ہے)
مرزا: (دوسرے کمرے کے دروازے میں سے جھانک کر) اب کون آیا ہے۔۔۔
سعیدہ: کوئی بھی آئے ‘ تمہیں اس سے کیا‘ تم جاؤ اپنا حُقہ پیو۔
مرزا: ممتاز آئی تھی کہاں گئی۔
سعیدہ: جہنم میں۔۔۔ پرتم یہاں کھمبے کی طرح کیوں گڑ گئے ہو۔۔۔ جاؤ اپنے کمرے میں ۔ عائشہ آرہی ہے۔۔۔
مرزا: اللہ خیر کرئے (گردن اندر کر لیتا ہے) اللہ خیر کرئے
(ثریا عائشہ کو لے کر آتی ہے)
ثریا: (بھاگتی ہوئی آتی ہے) آگئیں۔۔۔ بہت شرماتی تھیں۔۔۔
آپا‘ اب آبھی جائیے۔
سعیدہ: عائشہ تم نے تو حد ہی کر دی۔ بھلا ممتاز کے پاس جانے کی کیا ضرورت تھی۔ مجھ سے تمہارا پردہ تھوڑے ہی تھا۔ جب چاہے چلی آتیں۔۔۔ تمہارا اپنا گھر تھا۔۔۔ مجھے تمہاری یہ بات بہت بُری لگی۔ ممتاز اپنے دل میں کیا کہتی ہوگی۔
عائشہ: (جھجک کے ساتھ) میں تو خود ہی چلی آتی۔۔۔
سعیدہ ممتاز نے تمہیں روکا ہو گا۔۔۔ میں جانتی ہوں۔ ہر کام میں اسے چودھرائن بننے کا شوق ہے۔ پرعائشہ تم نے بھی کمال کر دیا۔ یعنی اتنے دنوں کی میری تمہاری جان پہچان اور دوستی تھی۔ پھر اس کو ثالث بنانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ خیراب چھوڑو اس قصے کو ‘ تم آگئی ہو‘ تو سب گلے شکوے دُور ہو گئے ہیں۔۔۔سُناؤ بال بچے کیسے ہیں۔۔۔ بیٹھ جاؤ(صوفے کی طرف اشارہ کرتی ہے)
عائشہ : (بیٹھ جاتی ہے) اللہ کا شکر ہے۔
سعیدہ: ( پاس ہی بیٹھ جاتی ہے) ثریا۔
ثریا: جی امی جان
سعیدہ: جاؤ‘ اپنی آپا کے لیئے چاء بناؤ۔۔۔
ثریا: امی جان چاء کا پانی تیار ہے۔
سعیدہ: تو جا کر میز پر سب چیزیں رکھو۔۔۔
(ثریا جاتی ہے)
عائشہ: بہن میں چاء نہیں پیوں گی۔ تکلف نہ کیجئے
سعیدہ: اس میں تکلف کی کیا بات ہے۔۔۔ ہاں تم مجھے ممتاز کی تو سناؤ اس سے کیا باتیں ہوئیں۔
عائشہ: قصہ یہ ہے کہ نوکر گھر میں نہیں تھا۔ اس لیئے مجھے ہی جانا پڑا۔ چند قمیصیں درزی کی دینی تھیں۔۔۔ اس نے کہا۔ نمونے اپنی پسند کے دے دیجئے۔ چھ قمیصوں کے نمونے تو میں نے خود پنسل سے بنا کر اس کو دے دئیے۔ اب ایک قمیص باقی رہ گئی۔۔۔ میں نے سوچا کہ اب کون مغز ماری کرے ممتاز سے ایک قمیص لے کر درزی کو دکھا دیتی ہوں بری بھلی جیسی بھی ہو بنا کر لے آئے گا۔ وہاں گئی تو باتوں باتوں میں اس نے آپ کا ذکر کیا۔ میں نے کہا۔ بھئی میری تو ان سے کوئی نارا ضی نہیں میں آج ہی ان کو جا کر منالوں گی۔
سعیدہ: قمیص کا نمونہ اس نے دے دیا۔
عائشہ: اس میں رکھا ہی کیا تھا جو نہ دیتی۔۔۔ معمولی سا کالر تھا جسے آپ بھی بنا لیتیں پچھلے دنوں آپ نے جب مجھ سے کچھ قمیصیں منگوائی تھیں تو اس کے نمونے آپ نے اتار ہی لیئے تھے۔
سعیدہ: بھئی عائشہ‘ یہ تم جھوٹ کہتی ہو۔
عائشہ: میں کیوں جھوٹ بولنے لگی۔ آپ کو یاد نہیں رہا ہوگا۔ ثریا پچھلے دنوں کہیں سے پانچ قمیصیں مانگ کر لائی تھی کہ امی جان ویسا کپڑا لینا چاہتی ہیں۔ یہ قمیصیں اگر آپ کو یاد ہو تو آٹھ دس روز تک آپ ہی کے پاس پڑی رہی تھیں۔
سعیدہ: اس لیئے کہ مجھے ان کاکپڑا بالکل پسند نہیں آیا تھا۔ میں نے اسی وقت ثریا سے کہا تھا کہ جاؤ واپس دے آؤ بچی ہے بھول گئی۔ ورنہ اسی روز تمہیں یہ قمیصیں واپس مل جاتیں۔
عائشہ: نہیں بہن‘ آپ بھولتی ہیں اور کیا ہوا۔ اگر آپ نے ان کے کالروں کا نمونہ اتار لیا۔
سعیدہ: پر کسی نے ان نگوڑے کالروں کا نمونہ اتارا بھی ہو۔ تم کیسی باتیں کرتی ہو
عائشہ: ثریا نے جو قمیص پہن رکھی ہے۔ اس کا نمونہ تو بالکل ویسا ہے جو میری ساٹن کی قمیض کا تھا۔
سعیدہ: تم خواہ مخواہ الزام لگا رہی ہو۔
عائشہ: کیسا الزام ۔۔۔ بہن سعیدہ یہی بات آپ کی مجھے پسند نہیں اس میں حرج ہی کیا ہے۔ اگر آپ نے نمونہ اُتار لیا۔
سعیدہ: حرج کچھ نہیں تھا۔ اگر تمہاری وہ قمیصیں اچھی سلی ہوتیں۔ کوئی ان میں بات ہوتی۔۔۔
عائشہ: ان میں کوئی بات تھی تو آپ نے منگوائیں اور خدا جھوٹ نہ بلوائے۔
تو سینکڑوں بار میں آپ کو اپنی چیزیں بھیج چکی ہوں۔ پلنگ پر یہ چادر جو پڑی ہے اس کی بیل کا نمونہ آپ نے مجھ ہی سے لیا تھا۔
سعیدہ: سب دنیا تم ہی سے نمونے منگواتی ہے اور تو سب بیوقوف ہیں۔ کچھ جانتے ہی نہیں۔
عائشہ: بہن میں نے یہ تو نہیں کہا۔
سعیدہ: سبھی کچھ تو کہہ دیا اور کیا کہو گی۔ قمیصوں کا نمونہ میں نے چرایا۔ اس پلنگ پوش کی بیل کا نمونہ میں نے تم سے لیا۔۔۔ یہ سویٹر جو میں نے پہن رکھا ہے۔ اس کا نمونہ بھی تم نے ہی دیا تھا۔۔۔
عائشہ: نوج تم سے کوئی بات کرے۔۔۔ پنجے جھاڑ کر میرے پیچھے پڑ گئیں۔غضب خدا کا ‘ میں نے کہا ہی کیا تھا۔
سعیدہ: بس بس عائشہ ‘ خبردار جو تم نے اس سے آگے کچھ کہا۔ میں درگزری ایسی صُلح صفائی سے۔۔۔
عائشہ: میری جوتی کو کیا غرض پڑی ہے۔۔۔ وہ تو میری طبیعت ہی بڑی صُلح کل تھی جو میں یہاں آگئی ۔ ورنہ۔۔۔ میرا برقعہ کہاں ہے۔ (برقعہ تھامتی ہے)۔۔۔ توبہ‘ الٰہی توبہ۔۔۔ میں نے جھک مارا۔۔۔ (برقعہ اوڑھنے کی کوشش کرتی باہر نکل جاتی ہے)
سعیدہ: (بلند آوا زمیں )ثریا۔۔۔ ثریا۔۔۔ جا باہر کا دروازہ بند کر۔۔۔ خبردار جواب تو نے اس عورت کو کبھی اندر آنے دیا۔یہاں آئی تھی صلح صفائی کرنے۔۔۔ قمیصیں۔۔۔ قمیصیں ‘ میری قمیصوں کے نمونے اتار لیئے۔ میرا یہ کر لیا‘ میرا وہ کر لیا۔۔۔ ثریا۔۔۔
(مرزا اندر آتا ہے)
مرزا: کیا ہوا‘ کیا ہوا۔ یہ کس پر بگڑ رہی ہو۔
سعیدہ: ثریا کے ابا ‘ تم خاموش رہو۔
مرزا: بہت اچھا‘ خاموش ہو جاتا ہوں۔
سعیدہ: نابکار۔۔۔ آئی تھی اپنا دل صاف کرنے۔۔۔
(دُور سے بچے کے رونے کی آواز)
مرزا: اب غصہ جانے دو۔ جاؤ‘ ننھی رو رہی ہے۔ اس کو دُودھ پلاؤ۔
سعیدہ: رونے دو۔ بچے کا رونے سے پھیپھڑا مضبوط ہوتا ہے۔
مرزا: کیا خوب‘ بچہ رو رو کر ہلکان ہوا جاتا ہے اور تم ہو کہ اپنی نرالی منطق جھاڑ رہی ہو۔
سعیدہ: بچہ تمہارا ہی نہیں‘ میرا بھی ہے ۔ میری مامتا سے بڑھ کر تمہاری محبت نہیں ہو سکتی۔
(بچے کے رونے کی آواز قریب آجاتی ہے)
مرزا: واللہ‘ تمہارے ایسی ڈائن قصائن ماں کبھی نہیں دیکھی۔۔۔ اب خدا کا واسطہ جاؤ گی بھی یا نہیں۔۔۔ لو ثریا اسے اُٹھا کر لے آئی(ثریا بچے کو اٹھا کر اندر آتی ہے) اب اسے لوری ووری دے کرسُلا دو۔
سعیدہ: (ننھی کو گود میں لے کر ) میرا بیٹی کیوں روتی ہے۔۔۔ ابا جی تجھے پیار نہیں کرتے۔۔۔ نہ کریں۔ اوہو۔۔۔ اوہو۔۔۔ نہ رو میری بچی نہ رو۔۔۔ (بچی رونا بند کر دیتی ہے)۔۔۔سوجا۔۔۔سوجا۔۔۔
(لوری دیتی ہے)
صاف کٹوری کی سی آنکھیں چشمے گنگا جل کے
کیوں دُکھ دیتی ہے نندیا کونین رسیلے مل کے
سوجا۔۔۔سوجا
سو جا میری ننھی منی بھولی بھالی بیٹا
نندیا نگری میں دیکھے گی سندر سپنے کل کے
اب سوجا۔۔۔ سو جا
آئی تھی وہاں سے صلح صفائی کرنے۔۔۔واہیات۔۔۔بیہودہ۔۔۔
میں کوئی چور ہوں۔۔۔میں نے اس کی قمیصوں کے نمونے اُتار لیئے۔۔۔
بڑی خوبصورت سلی ہوئی جو تھیں۔۔۔
وہ آکاش پہ کالی بدلی ڈول رہی ہے کب سے
تارے چھم چھم ناچ رہے ہیں چاندابھرا ہے جب سے
سوجا‘ سوجا
سوجا سوجا میری ننھی منی بھولی بھالی بیٹی
پردہ
مأخذ : کتاب : تین عورتیں اشاعت : 1942
مصنف:سعادت حسن منٹو