افراد
جگل : (آواز میں بے نیازی ہو)
شیلا : (خوش آواز لڑکی)
گنیش : تعلیم یافتہ بنیا۔ بولنے کا جچا تلا انداز
ایک لڑکی : شیلا کی سہیلی
دکاندار : (ان پڑھ بنیا۔ جھگڑالوقسم کا آدمی)
رامو : (نوکر)
کالج کا گھنٹہ بجتا ہے۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی کئی قدموں کی آواز
شیلا: جگل۔۔۔۔۔۔جگل!
جگل: او۔۔۔۔۔۔شیلا
شیلا: میں تم سے ایک بات کہنا چاہتی ہوں
جگل: کہو۔
شیلا: میں نے بہت غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہمارا آپس میں ملنا ٹھیک نہیں۔ کالج میں یا کالج کے باہر اب ہمیں ایک دوسرے سے نہیں ملنا چاہیئے۔
جگل: کیوں؟
شیلا: اس لیئے کہ۔۔۔۔۔۔
جگل: کہو کہو۔۔۔۔۔۔ صاف صاف کہو۔
شیلا: اس لیئے کہ لوگ تمہیں اول درجے کا بدمعاش۔ آوارہ گرد۔۔۔۔۔۔ اور لُچا خیال کرتے ہیں۔
جگل: (ہنستا ہے) صرف خیال ہی کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ انہیں اب تک یقین ہونا چاہیئے تھا۔
شیلا: جگل تم کبھی سنجیدہ ہونا بھی سیکھو گے یا نہیں۔
جگل: نہیں۔
شیلا: کیوں؟
جگل: سنجیدگی میں کیا دھرا ہے۔۔۔۔۔۔ یعنی خواہ مخواہ آدمی سنجیدہ ہوتا پھرے۔ میں صحت مند ہوں اور صحت مند رہتا ہوں۔ اپنی زندگی کو یہ روگ نہیں لگانا چاہتا۔
شیلا: تم نے میرا فیصلہ سُن لیا۔
جگل: سُن لیا۔
شیلا: تمہیں قبول ہے؟
جگل: میں دوسروں کے فیصلے قبول نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ میں تم سے ملوں گا اور ملتا رہوں گا۔
شیلا: زندگی اجیرن کردو گے میری۔
جگل: (مسکرا کر) میں تمہیں اپنی زندگی دے دوں گا۔
شیلا: (ازراہ مذاق) جو تمہارے اس بوٹ کی طرح گھسی ہوئی ہے۔
جگل: استعمال جو زیادہ کرتا رہا ہوں مگر صرف اس کا تلاہی گھسا ہے۔ اوپر کا حصہ بالکل ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ پالش کروگی تو چمک اُٹھے گی۔
شیلا: تم خود پالش کیوں نہیں کرتے؟
جگل: اس لیئے کہ۔۔۔۔۔۔
شیلا: ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ میں اس وقت سنجیدہ ہونا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔ بتاؤ تم خود پالش کیوں نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ تم اپنی اصلاح کی کوشش کیوں نہیں کرتے لوگ تمہیں اوّل درجے کا آوارہ گرد سمجھتے ہیں۔تم ان کے دماغ سے یہ خیال دور کیوں نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ تم کیوں اتنے بے پرواہ ہو۔۔۔۔۔۔ کیا تمہارا یہ لااُبالی پن کبھی دور نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔کیا تم کبھی انسان نہیں بنو گے؟
جگل: آہستہ۔ آہستہ
شیلا: لوگ میری جان کھا گئے ہیں۔ جدھر جاتی ہوں میری طرف انگلیاں اٹھتی ہیں۔۔۔۔۔۔ میری کیرکٹر پر حملے کیئے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔میں سب کچھ سہتی ہوں صرف تمہاری خاطر۔
جگل: میری خاطر۔
شیلا: بھگوان جانے میری عقل کو کیا ہوگیا ہے۔ مجھے تم سے اتنا اُنس کیوں پیدا ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔ میں تم سے بالکل کنارہ کش ہو جاتی۔ تمہارے خیال تک کو اپنے دل و دماغ سے محوکردیتی مگر مجھے ترس آتا ہے کہ تم اور بھی زیادہ بہک جاؤ گے۔
جگل: تم مجھ پرترس کھاتی ہو۔۔۔۔۔۔ میں کوئی زخمی گدھا نہیں۔ کوئی لنگڑاکتّا نہیں۔۔۔۔۔۔ کوئی بیمار بھینس نہیں۔
شیلا: (ذرا درشتی کے ساتھ) جگُل
جگل: بکو نہیں۔
شیلا: (دھیمے لہجے میں۔افسردگی کے ساتھ) جگل
جگل: جگل اوّل درجے کا بدمعاش۔شُہدا لُچاّ اور آوارہ گرد ہے۔
شیلا: میں نے یہ کبھی نہیں سمجھا۔
جگل: وہ اپنے بالوں میں تیل نہیں لگاتا۔ میلے کپڑے پہنتا ہے۔ اس کا جوتا پھٹا ہوا ہے۔
شیلا: میں نے یہ کبھی نہیں کہا۔
جگل: پہلے نہیں کہا تو اب کہہ لو۔۔۔۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تم مجھ سے نفرت کرو۔۔۔۔۔۔ ابھی اسی وقت۔۔۔۔۔۔میں چاہتا ہوں کہ تمہاری عقل درست ہو جائے اور وہ رتی بھر اُنس جو تمہارے دل میں پیدا ہوگیا ہے دور ہو جائے تم مجھ سے بالکل کنارہ کش ہو جاؤ تاکہ میں اور زیادہ بہک سکوں۔
شیلا: تم کتنے بے رحم ہو۔
جگل: لوگ تمہاری جان کھا گئے ہیں۔جدھرجاتی ہو تمہاری طرف انگلیاں اٹھتی ہیں۔ تمارے کیرکٹرپر حملے کیئے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ صرف میری خاطر۔۔۔۔۔۔ مجھ شہدے،لُچے اور آوارہ گرد کی خاطر۔۔۔۔۔۔ تمہارا فیصلہ اب مجھے منظور ہے اس لیئے کہ تم مجھ پر بے کار ترس کھاتی رہی ہو۔۔۔۔۔۔ طبیعت پرجبر کرکے مجھ پر رحم کرتی رہی ہو۔
شیلا: تم بہت جلد بھڑک اُٹھے ہو۔ مجھے تم سے جھوٹ موٹ کا انس نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ میری ہمدردی مصنوعی ہمدردی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ میں تم پر ترس کھاتی ہوں اس لیئیکہ دوسرے تم پرترس نہیں کھاتے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تم اور زیادہ بہک جاؤ۔ تمہاراوجود بالکل منتشر ہو جائے۔ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ اس طور پر کہ تم پھر انہیں اکٹھا بھی نہ کرسکو۔۔۔۔۔۔ میں یہ نہیں چاہتی مجھے تم سے ہمدردی ہے۔ میں عورت ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ تم سلامت رہو۔ وہ تمام خوبیاں جو لوگوں کے نزدیک تمہارے اندر نہیں پیدا ہوجائیں۔۔۔۔۔۔ میں بڑے فخر کے ساتھ کہہ سکوں۔۔۔۔۔۔ جگل صاحب میرے دوست ہیں۔
جگل: (تمسخر آمیز ہنسی) جگل صاحب۔۔۔۔۔۔ یہ جگل صاحب ہیں شہر کے بہت بڑے رئیس۔۔۔۔۔۔ بہت بڑا نام ہے آپ کا۔ آپ کی پتلون میں چار پیوند لگے ہیں کوٹ آپ نے کسی دوست کا پہن رکھا ہے۔ جوتا آپ کا پھٹا ہوا ہے(ہنستا ہے) یہ جگل صاحب ہیں(ہنستا ہے) جاؤ شیلا جاؤ۔۔۔۔۔۔ ایک ناکارہ آدمی میں اتنی دلچسپی نہ لو۔۔۔۔۔۔ پڑھو۔ امتحان پاس کرو اورشادی وادی کرکے اطمینان سے ایک جگہ بیٹھ جاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی وادی کے ساتھ ہی شہنائیوں کا ریکارڈ لگا دیا جائے۔
تھوڑی دیر کے بعد ہجوم کا شور پیدا کیا جائے۔۔۔۔۔۔ چند لمحات کے بعد ان آوازوں کو دھیما کردیا جائے اور ذیل کا مکالمہ سپرامپوز کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک آدمی: کیا ہورہا ہے بھائی یہاں؟
دوسرا آدمی: شادی بیاہ ہورہاہے۔
جگل: کس کا۔
پہلا آدمی: تم جانتے ہو۔
جگل: مجھے کیا معلوم
پہلا آدمی: رائے بہادر شیام سندر جی کی سُپتری شیلا کا بیاہ ہورہا ہے۔
جگل: کس کے ساتھ
پہلا آدمی: رائے صاحب لالہ گنیش پرشاد جی کے ساتھ۔۔۔۔۔۔شہرکے بہت بڑے رئیس ہیں۔ لاکھوں میں کھیلتے ہیں۔
جگل: ضرور کھیلتے ہوں گے۔۔۔۔۔۔ سگرٹ کا ایک کش مجھے بھی دینا۔
پہلا آدمی: نیا لے لو۔
جگل: نہیں نہیں۔ یہی دو۔۔۔۔۔۔ نیا تم سُلگا لو(ہنستا ہے) سُلگے سلگائے سگریٹ مجھے اچھے لگتے ہیں اس لیئے کہ سُلگانے نہیں پڑتے۔
(شہنائیوں کی آواز بلند ہو کر پھر عقب میں چلی جائے)
جگل: بڑا جمگھٹ لگاہے۔
پہلا آدمی: برات آچکی ہے۔
جگل: چلی بھی جائے گی۔
پہلا آدمی: (ہنستا ہے) توکیا یہیں بیٹھی رہے گی۔۔۔۔۔۔ کیسی باتیں کرتے ہو یار۔
جگل: (ہنستا ہے) بس ایسی باتیں ہی کیا کرتا ہوں۔
دوسرا آدمی: یہ لڑکی کسے ڈھونڈ رہی ہے؟
جگل: جانے بلا۔
پہلا آدمی: تمہاری طرف دیکھ رہی ہے۔
جگل: میری طرف۔۔۔۔۔۔؟(ہنستا ہے) لیکن میں تو شادی نہیں کرنا چاہتا۔
(تینوں ہنستے ہیں)
لڑکی: آپ میں سے کس کا نام جگل ہے۔
پہلا آدمی: میرا تو نہیں ہے اس سے پوچھ لو۔
لڑکی: (جگل سے) کیا جگل صاحب آپ ہیں۔
جگل: صاحب کوئی اور ہوگا۔ میں صرف جگل ہوں۔
لڑکی: چلیئے۔۔۔۔۔۔آپ کو اندر بُلایا ہے۔
جگل: کس نے؟
لڑکی: آپ چلیئے میں بتاتی ہوں۔
جگل: کیا میرا چلنا ضروری ہے۔
لڑکی: جی ہاں۔
جگل: (اپنے ساتھیوں سے) اچھا بھئی رخصت چاہتا ہوں۔ سگریٹ کا شکریہ۔
پہلا آدمی: (ازراہِ مذاق) ایک اورلیتے جاؤ۔ شاید اندر ضرورت پڑے۔
جگل: (ہنستا ہے) نہیں پڑے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہنائیوں اور ہجوم کا شور عقب سے ابھر آئے اور چند لمحات کے بعد دب جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جگل: آپ نے مجھے بلایا ہے۔۔۔۔۔۔فرمائیے؟
شیلا: (اضطراب بھرے لہجے میں) تم نے مجھے آپ کیوں کہا؟
جگل: دیرکے بعد ملاقات ہوئی اس لیئے یہ اجنبیت پیدا ہوگئی۔
شیلا: تم ابھی تک ویسے کے ویسے ہو۔
جگل: جی ہاں ابھی تک ویسے کا ویسا ہوں۔ کیا جناب آپ کو اس پر کوئی اعتراض ہے۔
شیلا: (اور زیادہ مضطرب ہو کر) یہ آداب کس لیئے۔
جگل: آپ کے شاندار لباس سے مرعوب ہوگیا ہوں۔
شیلا: (تنگ آکر) آہ۔ تم مجھے دیوانہ بنا دو گے۔ مجھے تم سے بہت کچھ کہنا ہے۔ میں نے تمہیں یہاں اس لیئے بُلایا تھا کہ میں تم سے بے شمار باتیں کرنا چاہتی تھی مگر اب مجھے ایک بھی یاد نہیں آتی۔تمہارے اس عجیب و غریب لہجے نے مجھے سب کچھ بھلا دیا۔۔۔۔۔۔ بتاؤمجھے کیا کہنا تھا؟
جگل: مجھے کیا معلوم؟
شیلا: تمہیں سب کچھ معلوم ہے۔ تم سب کچھ جانتے ہو۔۔۔۔۔۔ جلد ی کرو۔ میرے پاس بہت تھوڑا وقت ہے۔ بتاؤ۔۔۔۔۔۔ بتاؤ۔ میں تم سے کیا کہنا چاہتی تھی۔۔۔۔۔۔ بتاتے کیوں نہیں؟
جگل: مجھے کیا معلوم۔
شیلا: تم۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔ تمہاری صحت کیسی ہے؟۔۔۔۔۔۔ تم بہت دبلے ہوگئے ہو۔۔۔۔۔۔ ہیں، میں بالکل اچھی ہوں۔ لیکن تم۔۔۔۔۔۔(تنگ آکر) نہیں۔۔۔۔۔۔ میں کچھ اور ہی پوچھنا چاہتی تھی(باہر سے کسی عورت کی آواز آتی ہے،شیلا)۔۔۔۔۔۔ دیکھا۔۔۔۔۔۔وقت ہوگیا۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھے کچھ نہیں بتایا۔۔۔۔۔۔ اور مجھے بے شمار باتیں کہنا تھیں۔
جگل: تمہاری شادی ہورہی ہے۔
شیلا: ہاں۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔مجھے تم سے یہ بھی کہنا تھا۔
(دستک ہوتی ہے)
شیلا: (بلند آوازمیں)ٹھہرو۔۔۔۔۔۔(جگل سے) کچھ اور بھی کہو۔
جگل: کیا کہوں
(دستک ہوتی ہے)
شیلا: آئی۔۔۔۔۔۔توبہ۔ دستک دے دے کر دروازہ توڑ دیا ہے(جگل سے) جگل اب تم جاؤ۔ کیا کروں مجبوری ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن دیکھو کبھی کبھی مجھ سے ملنے کے لیئے ضرور آیا کرنا۔۔۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔۔۔ضرور۔۔۔۔۔۔ادھر سے۔۔۔
(دروازہ کھولنے کی آواز)
شیلا: مجھے بھولنا مت۔۔۔۔۔۔سُنتے ہو۔مجھے بھول نہ جانا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہنائیوں اورہجوم کی آواز اُبھر کر اونچی ہو جاتی ہے۔ چند لمحات کے بعد فیڈ آؤٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گنیش: شیلا
شیلا: جی
گنیش: تمہارے البم میں یہ تصویر کس کی ہے۔
شیلا: ٹھہریئے۔ میں آکے بتاتی ہوں۔
(قدموں کی آواز)
شیلا: یہ؟
گنیش: کس کی ہے؟
شیلا: جگل صاحب کی۔
گنیش: وہ کون
شیلا: آپ نہیں جانتے۔۔۔۔۔۔ کالج میں یہ ہمارے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔
گنیش: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں نے اس شخص کو کہیں دیکھا ہے۔
شیلا: دیکھا ہوگا۔
گنیش: ہو سکتا ہے مگر میں نے اُسے اچھی طرح دیکھا تھا اس لیئے کہ اس کا لباس اس کی وضع قطع۔۔۔۔۔۔
(گھڑی چار بجاتی ہے)۔
شیلا: لیجئے چار بج گئے۔۔۔۔۔۔ اب کیا خاک تیاری ہوگی مجھ سے اور ہمیں ٹھیک پانچ بجے وہاں پہنچناہے۔۔۔۔۔۔ البم کو چھوڑیئے اور موٹر نکلوانے کے لیئے کہیئے۔
گنیش: تمہیں ساڑھی تبدیل کرنا تھی۔
شیلا: یہی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ ساڑھی تبدیل کروں گی تو ساری چیزیں بدلنا پڑیں گی۔۔۔۔۔۔ نیا بلاوز۔۔۔۔۔۔ نیا پیٹی کوٹ اور پھر یہ سینڈل بھی تو اتارنا پڑے گی۔۔۔۔۔۔ یہی ٹھیک ہے۔
گنیش: لیکن اتنی جلدی کیا ہے۔
شیلا: واہ۔۔۔۔۔۔ مجھے راستے میں اپنی ایک دو سہیلیوں سے بھی تو ملنا ہے۔ چلیئے۔۔۔۔۔۔ چلیئے۔
(قدموں کی چاپ۔ بعد میں موٹر کی آواز)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دم ہجوم کا شور سُنائی دیتا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ لوگ لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ شور کے اس ٹکڑے پر ذیل کا مکالمہ سُپر امپوز کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دکاندار: نہیں صاحب میں اسے کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ ایسے ہزار وں گھسے مجھے دے چکا ہے۔
ایک آدمی: ایک بار اور دیکھ لو۔
دکاندار: کیا دیکھ لوں۔۔۔۔۔۔ اب کا گیا چھ مہینے اپنی شکل نہیں دکھائے گا یہ تو اتفاق سے میری نظر پڑ گئی ورنہ کبھی ہاتھ نہ آتا۔
دوسرا آدمی: تو اَب تم کیا کرنا چاہتے ہو۔
دکاندار: پکڑ کر تھانے میں لیجاؤں گا اور کیا کھڑا سالے کا منہ دیکھتا رہونگا
(موٹر کے ہارن کی آواز)
دکاندار: آپ لوگ جائیے۔۔۔۔۔۔ کیا کوئی تماشہ ہے۔
تیسرا آدمی: تماشا ہی تو ہے۔۔۔۔۔۔ تم اس سے اپنے روپے مانگتے ہو، یہ کہتا ہے میرے پاس نہیں۔ تم کہتے ہو۔ نہیں میں نہیں مانتا۔ تمہارے پاس ہوں نہ ہوں ابھی نکال کردو۔
(بہت سے آدمی ہنستے ہیں)۔
دکاندار: تو کیا کروں۔۔۔۔۔۔پھر بھاگ جائے گا۔۔۔۔۔۔کیا ساری عمر اسی کو ڈھونڈتا رہوں گا۔
پہلا آدمی: ارے بھائی تم نے کیوں قرض لیا تھا۔ اب دیکھو کتنی خفّت اُٹھانی پڑ رہی ہے تمہیں۔
(موٹر کے ہارن کی آواز)۔
دوسرا آدمی: بھئی راستے سے تو ہٹ جاؤ۔
دکاندار: آپ لوگ ہٹ جائیں میں تو یہیں کھڑا رہوں گا۔ اس کا گریبان پکڑے۔
تیسرا آدمی: یہ کیسا آدمی ہے خود کچھ بولتا ہی نہیں۔
دکاندار: کیا بولے گا۔۔۔۔۔۔ روپیہ دینا ہے اور ہر حالت میں دینا ہے۔
(موٹر کے ہارن کی آواز۔ بالکل قریب)
گنیش: راستے سے ہٹو گے یا موٹر اوپر چڑھادُوں۔۔۔۔۔۔ بازار کے عین بیچ میں تماشا لگا رکھا ہے۔
(ہجوم کا شور)
شیلا: (گھبرا کر) چلیئے اب راستہ صاف ہوگیا۔
گنیش: ٹھہرو۔۔۔۔۔۔(بلند آواز میں) اے۔۔۔۔۔۔ ذرا ادھر آؤ۔
دکاندار: مجھے بلایا ہے سیٹھ صاحب؟
گنیش: کیا بات ہے؟
دکاندار: روپیہ لینا ہے سیٹھ صاحب۔ چھ مہینے ہوگئے ہیں۔ برابر مجھے گھسے دیئے چلا جارہا ہے۔ آج دیتا ہوں۔ کل دیتا ہوں۔ بس اس طرح چھ مہینے گزر گئے ہیں۔
گنیش: کتنی رقم نکلتی ہے تمہاری اس کی طرف۔
دکاندار: سوا نو روپے۔
گنیش: بس۔۔۔۔۔۔(وقفہ) لو یہ دس روپے کا نوٹ
شیلا: (اضطراب کے لہجے میں) آپ کیوں کسی کا قرض ادا کرتے ہیں وہ خود ادا کرئے۔
گنیش: کہاں سے ادا کرے گا۔۔۔۔۔۔(دکاندار سے) سوا نو روپے کہے تھے نا تم نے؟
دکاندار: جی ہاں
گنیش: بارہ آنے بچیں گے۔ یہ تم اسے دے دینا۔
شیلا: (قریب قریب چیخ کر) آپ نوٹ واپس لیجئے۔۔۔۔۔۔ آپ زبردستی بھیک دے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔
(موٹر اسٹارٹ ہوتی ہے اور چل پڑتی ہے)
پہلا آدمی: یہ کون تھا؟
جگل: (زہر خند کے ساتھ)تم نہیں جانتے یہ کون تھے۔۔۔۔۔۔ یہ شہر کے بہت بڑے رئیس تھے۔ رائے صاحب لالہ گنیش پرشاد۔۔۔۔۔۔ لاکھوں میں کھیلتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تم نے دیکھا نہیں تھا کہ ان کی پتلون میں ایک بھی پیوند نہیں تھا۔ کوٹ ان کا اپنا تھا۔۔۔۔۔۔ جو تابالکل نیا تھا۔۔۔۔۔۔
دکاندار: لو یہ بارہ آنے
جگل: لاؤ۔۔۔۔۔۔ میری جیب بالکل خالی تھی۔
(ہجوم کا شور۔۔۔۔۔۔ چند لمحات کے بعد فیڈ اپ)
آہستہ آہستہ ذیل کی غزل کی دُھن شروع ہو۔۔۔۔۔۔ سازوں پر پھرشعر گائے جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
غم کی دنیا بسا رہی ہوں میں
اُن کو اپنا بنا رہی ہوں میں
ساز ہستی کے تار ٹوٹ نہ جائیں
نغمۂ دل سنا رہی ہوں میں
سعیِ ناکام کے چراغوں کو
آندھیوں میں جلا رہی ہُوں میں
(پرویز)
(چند لمحات تک ساز درد ناک لَے میں بجتے رہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گنیش: شیلا
شیلا: (افسردگی کے ساتھ) جی
گنیش: تمہارے البم سے وہ تصویر کہاں گئی۔
شیلا: وہ جو آپ نے اس روز دیکھی تھی۔
گنیش: ہاں وہی
شیلا: نکال دی ہے
گنیش: کیوں۔۔۔۔۔۔ بڑی اچھی تصویر تھی۔
شیلا: (لہجے میں دبے ہوئے صدمے کے آثار نظر آتے ہیں) اچھی ہی تھی۔
گنیش: تو نکال کیوں پھینکی۔
شیلا: نکالی ہے پھینکی نہیں۔
گنیش: میرا مطلب یہی تھا۔
شیلا: اچھا
گنیش: تمہاری طبیعت کئی دنوں سے سُست سی ہے۔۔۔۔۔۔ غالباً اسی دن سے جب ہم موٹر میں باہر گئے تھے۔
شیلا: جی ہاں۔ اُسی دن سے سُست ہے ہوا لگ گئی تھی۔
گنیش: مجھے یاد آیا۔ اُسی روز واقعی ہوا بہت تیز تھی۔
شیلا: سَرد بھی۔
گنیش: سَرد بھی۔۔۔۔۔۔ یہ ہوا بعض اوقات بہت تیز اور سرد ہو جاتی ہے۔
شیلا: جی ہاں
گنیش: شیلا اپنے اس دوست کی کچھ باتیں توسُناؤ۔ تمہاری طبیعت بہل جائیگی۔
شیلا: کیا سناؤں۔
گنیش: کچھ بھی۔۔۔۔۔۔ تصویرسے آدمی دلچسپ معلوم ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔ کیا نام بتایا تھا۔
شیلا: جگل صاحب
گنیش: جگل صاحب(صاحب پر زور د ے کر) آپ کی کوئی خاص خوبی۔
شیلا: آوارہ مزاجی۔
گنیش: (ہنستا ہے) مذاق کرتی ہو۔
شیلا: (انتہائی سنجیدگی کے ساتھ) مذاق نہیں کرتی۔ جگل صاحب کی سب سے بڑی خوبی ان کی آوارہ مزاجی ہے۔ ان کا لااُبالی پن۔
گنیش: تو وہ ایک نہیں کئی خوبیوں کے مالک ہیں۔
شیلا: جی ہاں۔۔۔۔۔۔ وہ بے حد مُفلس۔۔۔۔۔۔ انتہا درجے کے غلاظت پسند۔ بدتمیز۔ آداب سے ناواقف(آواز گلوگیرہو جاتی ہے) بدزُبان اور ذلّت پسند ہیں۔
گنیش: تم صریحاً مذاق کررہی ہو۔ میں ہرگز ماننے کے لیئے تیار نہیں۔
شیلا: (تلخ لہجے میں) مذاق آپ کررہے ہیں۔
گنیش: تمہاری سالگرہ کی خوشی میں آج شام کو ایک دعوت کررہا ہوں۔ تم جگل صاحب کو بُلاؤ۔ میں اُن سے ملنا چاہتا ہوں۔
شیلا: (ایک دم بھڑک اٹھتی ہے) بس بس۔۔۔۔۔۔ اب آپ میری آتما کو دکھ نہ دیجئے بہت زہریلی سوئیاں آپ مجھے چبھو چکے۔۔۔۔۔۔(رونی آواز میں) جی بھر کے آپ نے مجھے ذلیل کرلیا۔۔۔۔۔۔ کیا ابھی تک کلیجہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ جو کچھ آپ چاہتے تھے میں نے کہہ دیا ہے۔۔۔۔۔۔ آپ نے کہلوا لیا ہے۔۔۔۔۔۔ اب آپ اور کیا چاہتے ہیں۔ وہ بدمعاش ہے۔ لُچاّہے۔ آوارہ گرد ہے۔۔۔۔۔۔ انسانیت کے دامن پر بدنما دھبہ ہے۔۔۔۔۔۔ قابلِ نفرت انسان ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ اور کہوں یا اتنا ہی کافی ہے۔۔۔۔۔۔
گنیش: (جچے تلے انداز میں) اتنا کافی نہیں ہے۔ آج شام کو وہ دعوت میں ضرور شریک ہونگے۔
شیلا: میں اسے ہرگز نہیں بلاؤں گی۔
گنیش: مجھے معلوم تھا۔ اس لیئے میں نے خود اُن سے آنے کو کہا اور انہوں نے کمال عنایت سے میری درخواست قبول کرلی۔
شیلا: (سخت گھبراہٹ کے ساتھ) وہ آئے گا۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔ وہ کبھی نہیں آئے گا۔۔۔۔۔۔ اگروہ آئے گا تو آپ مجھے موجود نہ پائیے گا۔
گنیش: میں اس کا انتظام بھی کرلوں گا(ہنستا ہے)۔۔۔۔۔۔ آج شام کو پانچ بجے تم دونوں دعوت میں شریک ہوگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(گھڑیال کے الارم کی خرخراہٹ۔ پانچ بجنے کی آواز اور ساتھ ہی ہجوم کا شور)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک مہمان: رائے صاحب بڑے ٹھاٹ کی دعوت کی ہے۔
گنیش: لالہ جی شیلا کی سالگرہ ہو اور یہ ٹھاٹ نہ کیئے جائیں(مسکرا کر) کیوں شیلا؟
شیلا: اتنا اہتمام صرف آپ ہی کرسکتے تھے۔
گنیش: (مسکرا کر) صرف تمہاری خاطر؟
دوسرا مہمان: رائے صاحب۔۔۔۔۔۔ اب کس کا انتظار ہے دعوت شروع ہو۔
گنیش: سب مہمان آچکے ہیں۔ سوائے ایک کے۔ ان کے بغیر پروگرام شروع نہیں ہوسکتا۔
دوسرا مہمان: کون ہے یہ مہاشے؟
گنیش: شیلا کے کالج کے زمانے کے دوست۔۔۔۔۔۔ جگل صاحب ابھی تک آئے نہیں شیلا؟
شیلا: آہی جائیں گے
(موٹر کے ہارن کی آواز)
تیسرا مہمان: یہ کون آیا؟
دوسرا مہمان: آگے بڑھ کے دیکھ لو۔
(قدموں کی آواز)
تیسرا مہمان: بڑی شاندار موٹرہے۔
چوتھا: بالکل نیا ماڈل ہے۔
تیسرا مہمان: آج کل تو بہت زیادہ قیمت ہوگی اس کی؟
(قدموں کی آواز)
رامو: سرکار۔ جگل صاحب تشریف لائے ہیں۔
گنیش: آگئے
رامو: ہاں سرکار آگئے۔
گنیش: انہیں اندر لے آؤ۔ رامو۔
(قدموں کی آواز۔ مائکرو فون کی طرف)
گنیش: (حیرت کے ساتھ) یہ کون ہے؟
(قدموں کی آواز قریب تر آجاتی ہے)
جگل: (باوقار،شگفتہ اور باتمیز لہجے میں) اگر ناگوار خاطر نہ ہو تو کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ میں سے کون صاحبِ خانہ ہیں۔
شیلا: جگل۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔؟
جگل: اوہ۔۔۔۔۔۔شیلا۔۔۔۔۔۔ بھئی پہلے مجھے اپنے پتی سے متعارف کرواؤ جنہوں نے مجھے یہاں مدعو کیا۔
گنیش: میں حاضر ہوں۔
جگل: پہلے آپ میرا شکریہ قبول کیجئے کہ آپ نے مجھے اس شاندار دعو ت میں شریک کیا۔ آپ نے جو آدمی میرے پاس بھیجا تھا میں نے اس سے یہ کہہ دیا تھا کہ بے حد مصروف ہونے کے باوجود میں ضرور آؤں گا۔۔۔۔۔۔ شیلا تمہارے رائے صاحب بڑے ہی اچھے آدمی ہیں۔ تم بہت خوش نصیب ہو۔۔۔۔۔۔ کیوں جناب میں غلط کہہ رہا ہوں۔
گنیش: (چونک کر) کیا کہا آپ نے
جگل: (ہنستا ہے) حد ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔ شیلا مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ تمہاری شادی ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔ دراصل۔ جائیداد کے انتظام اور دوسرے کاموں میں اس قدر مشغول ہوا کہ سب کچھ بُھول گیا(ہنستا ہے) دولت کمانا اور اس کو سنبھالنا بہت بڑی درد سری ہے۔۔۔۔۔۔ تمہاری صحت تو اب اچھی ہے۔
شیلا: (خاموش رہتی ہے)
جگل: رائے صاحب۔ یہ آپ نے شیلا کو کیا کردیا ہے۔ کچھ بولتی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔بالکل گونگی ہوگئی ہے۔۔۔۔۔۔ اور آپ۔۔۔۔۔۔
گنیش: میں۔۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔۔!
جگل: جی ہاں آپ کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ ذرا ہنگامہ شروع ہو۔۔۔۔۔۔ میرے پاس وقت بہت کم ہے جو پروگرام آپ نے بنایا ہے بس اب شروع ہو جائے۔۔۔۔۔۔ ہاں بھئی شیلا۔۔۔۔۔۔ میں تمہارے لیئے ایک تحفہ لایا ہوں۔
شیلا: (مردہ آواز میں) تحفہ
جگل: میراخیال ہے کہ میں تمہارے لیئے ایک تحفہ لایا ہوں۔۔۔۔۔۔ رائے صاحب آپ پروگرام شروع نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ اب دیر کیا ہے۔
(مکمل خاموشی)
جگل: یہ خاموشی کیوں؟
(وقفہ)
جگل: آپ نہیں شروع کرتے تو لیجئے۔ میں شروع کرتا ہوں(بلند آواز میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے) حضرات سُنیئے!
(ہجوم کی سرگوشیاں)
جگل: (تقریر کے انداز میں) رائے صاحب لالہ گنیش پرشاد جی نے آپ کو ایک بندر کا تماشا دکھانے کا انتظام کیا تھا۔ لیکن افسوس ہے کہ وہ بندر نہیں آیا۔۔۔۔۔۔ اس کے بدلے میں آگیا۔۔۔۔۔۔
(ہجوم کی سرگوشیاں)
جگل: جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں۔ میں بندر نہیں ہوں خوش پوش انسان ہوں آپ نے میرا لباس یقیناً پسند کیا ہوگا۔ وہ موٹر کار بھی پسند کی ہوگی جو ابھی تک باہر کھڑی ہے۔۔۔۔۔۔ میری گفتگو آپ کو ضرور بھاتی ہوگی۔۔۔۔۔۔یہ میری سونے کی گھڑی۔۔۔۔۔۔ یہ ہیرے کی انگوٹھی بہت قیمتی ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ کی نگاہوں نے میری ہر چیز کو تول لیا ہوگا اور اس کی قیمت بھی مقرر کرلی ہوگی( لہجے میں طنز پیدا ہو جاتا ہے) آپ سب شریف آدمی ہیں۔۔۔ میں۔۔۔ میں بھی شریف آدمی ہوں۔ اس لیئے کہ میرالباس اچھا ہے۔ میری موٹر اچھی ہے۔ میری انگوٹھی اچھی ہے۔
گنیش: مسٹر جگل۔
جگل: خاموش رائے صاحب خاموش۔ جب ایک شریف آدمی بات کررہا ہو تو اسے بیچ میں نہیں ٹوکنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔ یہ گنوارپن ہے میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور میرے پاس وقت بہت تھوڑا ہے مجھے ایک بہت ضروری کام پر جانا ہے میں آوارہ گرد، لُچا، بدمعاش اور ذلیل انسان نہیں ہوں اس لیئے کہ میں مفلس نہیں۔ میرے پاس بے شمار دولت ہے(ہنستا ہے) بیشمار دولت۔ اتنی کہ مجھ سے سنبھالے نہیں سنبھلتی۔۔۔۔۔۔ دولت بڑی اچھی چیز ہے یہ نہ ہو تو آپ کیا ہیں۔۔۔۔۔۔ محض بندر۔
(ہجوم کا شور)
جگل: خاموش۔۔۔۔۔۔ اگر دولت نہ ہوتی تو آپ سب بندر ہوتے۔ لوگ ڈگڈگیاں بجا کر آپ کو نچاتے۔۔۔۔۔۔ آپ کے دماغوں میں بُھس بھرا ہے لیکن آپ عقل مند ہیں۔ صرف دولت کی وجہ سے۔۔۔۔۔۔ آپ بد شکل ہیں۔ آپکی توندیں اُبھری ہوئی ہیں لیکن آپ خوبصورت ہیں۔ خوبصورت بیویوں کے شوہر ہیں۔ اس لیئے کہ آپ دولت مند ہیں۔۔۔۔۔۔ آپ بھری محفل میں ڈکاریں لیں میز پر ننگی ٹانگیں رکھ کر بیٹھ جائیں۔ جمائیوں پر جمائیاں لیں لیکن آپ کو کوئی بدتمیز نہیں کہے گا۔۔۔۔۔۔ آپ بڈھے ہو کر جوان ہو سکتے ہیں لیکن جن کے پاس دولت نہیں وہ جوانی میں بھی جوان نہیں ہوسکتے۔۔۔۔۔۔ دولت عجیب و غریب چیز ہے۔
آپ اپنی منحوس اور بھیانک شکل کی تعریف میں شاعروں سے قصیدے لکھوا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ بڑے بڑے آرٹسٹوں سے اپنی تصویرکھنچوا سکتے ہیں۔ خوبصورت عورتوں سے رومان لڑا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ دولت عجیب و غریب چیز ہے(ہنستا ہے) دولت عجیب وغریب چیز ہے(ہنستا ہے) میں بھی دولت مند ہوں۔۔۔۔۔۔ بڑا دولت مند(دیوانہ وار ہنستا ہے۔۔۔۔۔۔ ہنستے ہنستے آخر میں آواز بالکل کمزورمُردہ ہو جاتی ہے) بہت بڑا دولتمند۔
شیلا: (ایک دم چیخ کر)جگل۔۔۔۔۔۔جگل۔
(جگل کے گرنے کی آوار۔ ہجوم کا شور)
شیلا: (بھاگ کر جگل کے پاس جاتی ہے) جگل۔۔۔۔۔۔جگل۔۔۔۔۔۔ یہ کیا ہوگیا تمہیں۔۔۔۔۔۔ گر کیوں پڑے۔۔۔۔۔۔ سُنتے ہو ؟
جگل: (کمزور آواز میں کمزور ہنسی کے ساتھ) میں بہت بڑا دولت مند ہوں۔ بہت بڑا۔۔۔۔۔۔ آٹھ روز سے میں نے کچھ نہیں کھایا اور دو مہینے سے بیمار ہوں۔۔۔۔۔۔ رائے صاحب آٹھ روز سے میں نے کچھ نہیں کھایا۔ کہاں ہیں رائے صاحب۔
شیلا: (گلوگیر آواز میں) جگل۔۔۔۔۔۔
جگل: شیلا۔جگل نہیں۔ جگل صاحب کہو۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں سے فخر کے ساتھ کہو جگل صاحب ہیں۔۔۔۔۔۔ میرے دوست۔۔۔۔۔۔ ا ن کی پتلون اپنی نہیں۔ کوٹ قمیض۔ٹائی۔ جوتا۔ انگوٹھی۔ گھڑی۔۔۔ ان میں سے کوئی چیز بھی ا ن کی اپنی نہیں۔ یہ سب چیزیں اُس کی ہیں جو نیچے اپنی موٹر میں میرا لباس پہنے بندھا پڑا ہے۔ جانے کون گدھا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن ہے دولت مند(ہنستا ہے)
شیلا: یہ تم نے کیا کیا جگل۔
جگل: (مسکرا کر) ایک تماشے کے بدلے دوسرا تماشا۔۔۔۔۔۔ کیا میں اس لباس میں شریف اور مہذب انسان دکھائی نہیں دیتا۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا جو مجھے آٹھ روز سے کھانے کو نہیں ملا۔۔۔ کیا ہوا اگر ضعف کے باعث میری زندگی ختم ہورہی ہے۔۔۔کیا ہوا۔۔۔ ایک آوارہ گرد کم ہو جائیگا۔۔۔۔۔۔ ایک ناکارہ انسان یہاں سے دفع ہو جائیگا۔۔۔ اچھا شیلامیں اب جاتا ہوں۔
شیلا: کہاں۔
جگل: موت نے بُلا بھیجا ہے۔۔۔۔۔۔ وہاں بھی شاید ایسی دعوت ہوگی۔
شیلا: (گلوگیر آواز میں) میرا تحفہ۔
جگل: تمہارا تحفہ۔۔۔۔۔۔ ہاں تمہارا تحفہ۔۔۔۔۔۔ میرا سب کچھ لے لو نیچے موٹر میں پڑا ہے۔
(وقفہ) تمہارے اس نوکر کا کیا نام ہے۔
شیلا: رامُو۔
جگل: رامو۔ذرا آگے آؤ۔۔۔۔۔۔ آجاؤ۔ ڈرو نہیں۔
(وقفہ)
جگل: اس کی آنکھوں میں تمہیں دو میلے آنسو نظر آرہے ہیں؟
شیلا: آرہے ہیں۔
جگل: یہی آنسو میرا تحفہ ہیں جو یہاں اور کسی کی آنکھوں میں نظر نہیں آتے۔۔۔ میں نے اپنی زندگی کی سب سے قیمتی چیز تمہیں دے دی ہے۔۔۔۔۔۔ راموبیڑی ہے تمہارے پاس؟
رامو: ہے سرکار۔
جگل: ایک سُلگا کر مجھے دو۔
(ماچس کی کھڑکھڑاہٹ)
جگل: (بالکل دھیمے لہجے میں) آوارہ گرد۔۔۔لُچا۔۔۔بدمعاش۔۔۔(آواز بالکل ڈوب جاتی ہے)
رامو: لیجئے سرکار بیڑی۔۔۔
جگل: (سرگوشی میں۔۔۔۔۔۔ ہلکی سی ہنسی کے ساتھ) سرکار۔۔۔
شیلا: (ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیتی) جگل۔۔۔۔۔۔ جگل ۔۔۔۔۔۔
(سسکیاں۔۔۔۔۔۔فیڈ آؤٹ)
مأخذ : کتاب : منٹو کے ڈرامے اشاعت : 1942
مصنف:سعادت حسن منٹو