تین تحفے

0
187
Urdu Drama Story
- Advertisement -

(فیچر)

راگ اور محبت دل پر ایک جیسا اثر کرتے ہیں۔ دونوں کے سرُ ایک جیسے نرم ونازک اور تیزو تُند ہیں‘ دونوں میں تلخی وشیرینی پہلو بہ پہلو کروٹیں لیتی ہے دونوں رُوح کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ موسیقی محبت سے زیادہ طاقتور ہے……..وادی نیل میں پہلی بار قدم رکھنے والی رقاصہ نبیلا راگ اور محبت کے فن کی خفیف سے خفیف ہر لرزش سے واقف تھی اور وہ محسوس کرتی تھی کہ مصر کے سب سے بڑے معبد کی مشہور مغنیہ پلنیگو بھی اُس کے مقابلے میں ہیچ ہے۔

سات برس تک وہ وادی نیل کی رنگین فضاؤں میں اپنی زندگی کا کوئی نیا سپنا دیکھے بغیر سانس لیتی رہی…….. سات برس تک وہ اپنی زندگی کا ایک ہی ورق پڑھتی رہی اور اُسے نیا باب کھولنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ مگر جونہی اس کے شباب نے بیسویں منزل میں قدم رکھا اُمنگیں دوڑ کر اس کے سینے میں داخل ہو گئیں اور اس کی کتاب زندگی کے نئے اوراق مچلنے لگے…….. اس کا شباب جو کہ پہلے گونگا تھا بولنے لگا اوراس کے کان دنیا کی دوسری آوازوں پر بند ہو کر اس کی جوانی کی باتیں سُننے میں مشغول ہو گئے۔

ایک صبح جب کہ سورج کی کنواری کرنیں دریائے نیل میں نہاری تھیں نبیلا جوانی کی بھاری نیند سے بیدار ہوئی۔ اس کے سنبھالے نہ سنبھلنے والے شباب نے اُسے تھکا دیا تھا۔ اس کی برمی خادمہ پاس ہی قالین پر بیٹھی اس کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیئے یہ گیت گا رہی تھی۔

گیت

- Advertisement -

سحر کی طرح خنک اور جاں فزا ہو تم

کہ ایک مجسمہ نگہت وضیاء ہو تم

گھنی بھنویں ہیں تمہاری دراز پلکیں ہیں

کسی حسین مصور کی التجا ہو تم

تمہاری آنکھوں سے یوں جھانکتی ہے موسیقی

کہ جیسے جسم کے بربط میں اک نوا ہو تم (عدم)

(وہ یہ گاتی ہے کہ نبیلا مضطرب ہو کر اس سے کہتی ہے)

نبیلا: جالا……..جالا……..طربین اتار دے۔سازوں کے تار توڑ ڈال اپنے گلے میں سر کو ہمیشہ کے لیئے دبادے اور آ میرے ساتھ رو۔ اس دن کا ماتم کر جب نبیلا پیدا ہوئی تھی۔

جالا: آج پھر جذبات میں وہی طوفان آیا…….. میں جانتی تھی کل کی خاموشی ضرور رنگ لائے گی۔

نبیلا۔ میں تجھ سے کیا کہوں جالا……..صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے اور جوانی یوں ہی بیتی چلی جارہی ہے۔رنگینیوں کے بغیر……..دل سے کوئی ہو ک نہیں اُٹھتی۔جگر میں کوئی ٹیس نہیں ہوتی…….. ہونٹ نہیں مسکراتے آنکھیں نہیں روتیں۔

جالا: پھول پیداہوتا ہے خوشبو دینے کے لیئے جنگل میں رہے یا باغ میں شاخ پر رہے یا کسی کے بستر پر خوشبو دیتا ہی رہے گا۔ تو پھول ہے۔نبیلا جو حسن کی ٹہنی پر کھلا ہے۔ یہ خواہش نہ کر کہ تجھے کوئی توڑ کر مسل دے۔

نبیلا: جو مستی شراب بھرے پیالے کے ٹوٹنے میں ہے بند صراحی میں نہیں ہے……..انگوروں کو مسل کر شراب بنائی جاتی ہے اور پھول جب مسلے جاتے ہیں تو ان سے عطر بنتا ہے۔

جالا: (ستار کے تار چھیڑکر) کل رات جو آیا تھا……..وہ پھول لیکر

نبیلا: سب کے سب مر جھا گئے……..کون لے کر آیا تھا……..کب آیا تھا مجھے کچھ یاد نہیں رہا……..مجھے نیند آرہی تھی……..کیا پھر آئیگا۔نہیں مجھے کچھ نہ بتاؤ۔ میں کچھ سننا نہیں چاہتی……..لاؤ مجھے میری چوڑیاں دو!

(جالا چوڑیاں دیتی ہے)

نبیلا: جالا چوڑیاں کھنکھناتی ہیں پر میری زندگی کس قدر خاموش ہے۔ میری کتنی خواہش ہے کہ میری کشتی موجوں میں گھر کر تھپیڑے کھائے۔

جالا: ہر دن نیا تھپیڑا ہے

نبیلا: نہیں جالا تو نہیں سمجھتی۔۔۔ دنیا میں ہر جگہ دیوتا آسمان سے اُتر کر عورتوں سے محبت کرتے رہے ہیں۔۔۔ میں کن آنکھوں سے ان کی راہ تکوں کن جنگلوں میں انہیں تلاش کروں۔ کونسی دعائیں مانگوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔ وہ جو یا تو مجھے کچھ سکھائیں یا سب کچھ بھلا دیں۔ اگر یہ دیوتا اپنے شہ نشینوں میں اوندھے پڑے رہے تو جالا کیا میں ایسا رفیق دیکھے بغیر مر جاؤں گی جو میری زندگی میں ہولناک حادثے برپا کر سکے۔

جالا: تیرے سپنے بڑے انوکھے ہیں۔

نبیلا: اور سب سے انوکھی بات یہ ہے کہ اگر کسی نے مجھ سے محبت کی تو میری سب سے بڑی خواہش یہ ہو گی کہ وہ میری محبت کے نیچے پس جائے وہ لوگ جواب میرے پاس آتے ہیں اس قابل نہیں کہ میری آنکھیں ان کے لیئے ایک ننھا سا آنسو بھی اُگلیں۔۔۔میری جوانی ایک ایسے ساتھی کی تلاش میں ہے جو ساتھی سے کچھ زیادہ۔۔۔جو میری زندگی میں ہلچل مچا دے۔

جالا۔تیری خواہش ضروری پوری ہوگی۔ پر مجھے ڈر ہے کہ کوئی بہت بڑا حادثہ برپا ہوگا۔۔۔ سمندر کی زبان جب خاموش ہو تو معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ بہت بڑے طوفان کا پیغام دے رہی ہے۔

نبیلا: وہ طوفان کب آئے گا‘جالا۔

جالا: جب دو الگ الگ رستوں پر چلنے والے ستارے آپس میں ٹکرا جائیں گے

مخالف سمت چلنے والا سا وہ دیتا صنم تراش تھا۔۔۔ مصر کی ملکہ اس خوبصورت نوجوان کی محبت میں گرفتار تھی اس لحاظ سے وہ وادی نیل کا مالک تھا۔ مصر کے سب سے بڑے معبد کے لیئے حسن وعشق کی مورتی اسی چابک دست بت سازنے تیار کی تھی۔۔۔ اس کا حُسن اور اس کی صنعت دونوں پوجے جاتے تھے سا وہ دیتاکی بنائی ہوئی مورتی پر مصر کی حسین تریں عورتیں رنگا رنگ کے پھول قسم قسم کے پھل اور سمرنا کی کبوتریاں چڑھا واچڑھاتی تھیں جن کے پر ناز وادا کے مانند اُجلے اور پربوسوں کے مانند سُرخ ہوتے تھے۔۔۔ وادئ نیل کی ہر دوشیزہ اپنی کتاب محبت ومیتا کے اس بت کے سامنے کھولنا اپنا فرض سمجھتی تھی۔ یوں کہیے کہ مصر کا یہ حسین بُت تراش وہاں کی ہر حسین عورت کے دل میں دھڑکن بن کر سمایا گیا۔

جس راستے سے اس کا گزر ہوتا تھا اس پر کئی پر ستار عورتیں اپنانام لکھ دیتی تھیں اور وہ ان کو پڑھے بغیر گزر جاتا تھا۔ اس کی ڈھیلی قبا ان ناموں کو اکثر مٹا دیا کرتی تھی۔ اگر کسی روز وہ مسلے ہوئے پھول کی پتیاں بکھیرتا آگے بڑھ جاتا تو عورتیں اُن پر ٹوٹ پڑتی تھیں اور ترک کے طور پر اٹھاکر اپنے پاس رکھ لیتی تھیں۔

اُس کے پاس دولت تھی حُسن تھا جوانی تھی ملکۂ مصراس کی ایک ادنیٰ کنیز تھی۔ مگر وہ ناخوش تھا۔ وہ خود کو ایک ایسی کھیتی سمجھتا تھا‘ جو مسلسل بارش کے باعث دلدل بن جائے وہ محنت کیئے جانے سے گھبرا کر خود محبت کرنا چاہتا تھا اور آج ان ہی خیالات میں غرق کہ دریائے نیل کے کنارے ڈوبتے ہوئے سورج میں اپنی موجودہ زندگی کا عکس دیکھ رہا تھا کہ نبیلا زیورات سے لدی پھندی اپنی چال سے آپ ہی مست ہوتی اُس کے پاس سے گزری۔

دیتا نے منہ پھیر لیا۔نبیلا کے گہنوں سے اس نے سمجھ لیا تھا کہ وہ کوئی طوائف ہے اس لیئے اس کے سلام سے بچنے کے لیئے اپنا منہ موڑلیا تھا وہ اس کی طرف دیکھنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ مصر کی حسین عورتوں کے بے نقاب چہرے دیکھ دیکھ کر وہ اُکتا چکا تھا۔ لیکن نہ جانے کیوں اس کے دل میں اکساہٹ پیدا ہوئی اور اس نے کنکھیوں سے نبیلا کی طرف دیکھا‘ جو چہرے پر زرد رنگ کی نقاب ڈالے دریائے نیل کے زرنگار پانی کی طرف بڑھ رہی تھی‘ اس نے اس کی طرف نہ دیکھا تھا۔۔۔اُس نے مصر کے سب سے بڑے بت سازکی موجودگی کی پروا تک نہ کی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ صرف ہوا میں تازگی اور ٹھنڈک ڈھونڈ رہی ہے اور شام کی فضا کے ارتعاش سے اپنا دل بہلانا چاہتی ہے۔

دیتا کے سینے میں ہیجان پیدا ہو گیا۔۔۔ یہ عورت اس وقت نیل کے کنارے کیا کرنے آئی تھی۔۔۔کسے ڈھونڈ رہی تھی۔۔۔ اس کو دیکھ کر اس کے قدم رُک کیوں نہ گئے۔۔۔اس نے یقیناًاسے دیکھا تھا۔جب وہ اس کے پاس سے گزری تھی تو اس کو ملک�ۂ مصر کے محبوب کی موجودگی کا علم تھا۔ مگر وہ آداب بجالائے بغیر بے پروا ہو کے اس کے پاس سے گزر گئی۔۔۔کیوں۔۔۔کیوں۔۔۔وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ نبیلا لوٹی۔۔۔ اسی دلکش انداز سے۔۔۔دیتا سے نہ رہا گیا۔۔۔وہ آگے بڑھا اور اس سے مخاطب ہوا۔

دیتا: اے تیزرو حسینہ میرا سلام قبول کر

نبیلا: کر لیا

دیتا: یہ تیز قدم تجھے کدھر لیئے جارہے ہیں

نبیلا: واپس

دیتا: بالکل اکیلی

نبیلا: بالکل اکیلی

دیتا: اپنے شوہر کے پاس

(نبیلا قہقہہ لگا کر ہنستی ہے)

دیتا: سورج دریائے نیل میں غوطہ لگا گیا ہے۔ اب اندھیرے میں تو کسے ڈُھونڈ رہی ہے۔ یہاں تو کوئی بھی نہیں۔

نبیلا: مجھے کسی کی تلاش نہیں۔۔۔میں اکیلی سیر کے لیئے نکلی ہوں۔

دیتا: لیکن یہ زیور تو نے صرف اپنا دل خوش کرنے کے لیئے نہیں پہنے۔۔۔اور یہ پیلا نقاب۔

نبیلا: میں نے یہ زیور صرف اپنی خوشی کے لیئے پہنے ہیں اس لیئے کہ یہ بتاتے ہیں میں خوبصورت ہوں اور چلتے ہوئے میں اپنی نازک انگلیوں کی طرف دیکھتی ہوں جو ان انگوٹھیوں کی شان دو بالا کرتی ہیں۔

دیتا: تیرے ان ہاتھوں میں ایک آئینہ ہونا چاہیئے جس میں تو صرف اپنی آنکھیں دیکھتی رہے۔۔۔یہ آنکھیں۔۔۔اف یہ آنکھیں۔۔۔

نبیلا: ان آنکھوں میں اب نیند آگئی ہے۔۔۔ میں تھک کر چور ہو گئی ہوں۔۔۔مجھے اب جانا چا ہیئے۔

دیتا: کس راستے سے کدھر۔

نبیلا: میں ہرگز نہیں بتاؤں گی۔۔۔واہ تو نے مجھ سے یہ پوچھا تک نہیں کہ اس میں میری خوشی ہے کہ نہیں۔۔۔ کس راستے سے کدھر۔۔۔کیا بے تکلفی سے تو نے یہ کہہ دیا۔۔۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ میں ایک بازار ی عورت ہوں۔۔۔ تجھے معلوم ہے کہ مصر میں کن کن دروازوں پر میرا استقبال ہوتا ہے۔۔۔ تو نے کیا وہ تمام آدمی شمارکیئے ہیں جو نبیلا کے التفات کو سرمایۂ حیات سمجھتے ہیں۔۔۔ کس راستے سے کدھر۔۔۔ میں تجھے ہرگز نہیں بتاؤں گی یہیں کھڑا رہ یا چلا جا۔ میری ہمرکابی کا شرف تجھے ہرگز نصیب نہ ہو گا۔

دیتا: تو شاید نہیں جانتی کہ میں کون ہوں۔

نبیلا: میں تجھے اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ تو دیتا سنگتراش ہے تیرے ہاتھوں نے اس دیوی کی مورتی تیار کی ہے جس کو میں پوجتی ہوں‘ تو ملکہ ء مصر کا عاشق ہے اور اس شہر کا مالک پر میری نظروں میں تو ایک حسین غلام ہے اس لیئے کہ آج تو نے مجھے دیکھ لیا ہے اور میری محبت میں گرفتار ہو گیا ہے۔۔۔ میری طرف یوں گھور گھور کے نہ دیکھ کچھ کہنے کی کوشش نہ کر میں جانتی ہوں تو یہ کہنا چاہتا ہے کہ تو نے آج تک کسی سے محبت نہیں کی بلکہ تجھ سے محبت کی جاتی رہی ہے۔۔۔ پر اب تو میری محبت میں گرفتار ہو چکا ہے۔ اس وقت سرجھکائے تو میری گھنی پلکوں کی خوبصورتی پر غور کر رہا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ میرے ہونٹ کتنے نازک ہیں۔ میرے بال کس قدر ملائم ہیں۔ جن باتوں پر تو آج غور کرتا ہے ان پر لاکھوں آدمی ایک زمانے سے غور کر رہے ہیں۔ میرے حُسن کے چرچے مصر کے ذرّے ذرّے کی زبان پر ہیں پچھلے برس میں نے بیس ہزار آدمیوں کے سامنے رقص کیا اور مجھے معلوم ہے کہ تو ان خو ش قسمت آدمیوں میں موجود نہیں تھا۔۔۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ میں اپنے آپ کو چھپاتی ہوں۔۔۔نہیں۔۔۔نیل پر سب میرے چُندھیا دینے والے حُسن کی بہار دیکھ کرچلتے ہیں۔۔۔لیکن تو۔۔۔ایک طرف تو مجھے پھر کبھی نہیں دیکھے گا۔جو کچھ کہ میں ہوں‘ جو کچھ کہ میں محسوس کرتی ہوں میری محبت میرے حسن کی بابت تو کچھ بھی نہ جان سکے گا۔۔۔ تو ایک حقیر‘پست‘ چھچھورا‘ظالم‘بے حسں اور بزدل انسان ہے۔۔۔مجھے حیرت ہے کہ ابھی تک کسی عورت کے دل میں اتنی نفرت کیوں پیدا نہیں ہوئی کہ وہ تجھے اور ملکۂ مصر دونوں کو موت کے گھاٹ اتار دے۔

(دیتا اور نبیلا چند لمحات کے لیئے خاموش کھڑے رہتے ہیں)

دیتا: دیتا کے ساتھ چلنے سے انکار کر کے جو تو نے شان پیدا کی ہے بالآخر تیرے لیئے بہت مہنگی ثابت ہو گی۔۔۔میں پوچھتاہوں‘ تجھے ڈرکس بات کا ہے

نبیلا: تو جو کہ دوسروں کی محبت کا عادی ہے کیا بتا سکتا ہے کہ اس عورت کو کیا دینا چا ہیئے جو محبت نہ کرتی ہو۔

دیتا: میں تیرے قدموں پر مصر کا سارا سونا ڈھیر کر دوں گا۔

نبیلا: اس سے زیادہ سونا میرے بالوں میں ہے۔۔۔مجھے سونا نہیں چاہیئے مجھے صرف تین چیزوں کی خواہش ہے کیا تو دے سکتا ہے

دیتا: بول وہ تین چیزیں کیا ہیں۔

نبیلا: مجھے چاندی کا ایک آئینہ چا ہیئے کہ اس میں ہر روز اپنی آنکھوں کا خمار دیکھا کروں

دیتا: تجھے مل جائے گا۔ بول جلدی بول باقی دو چیزیں کیا ہیں۔

نبیلا: مجھے ہاتھی دانت کی ایک کنگھی چاہیئے جو میرے بالوں میں اس طرح غوطے لگائے جیسے کرنوں بھرے پانی میں ماہی گیروں کے جال۔

دیتا: تیسری چیز

نبیلا: موتیوں کی ایک مالا جسے پہن کر میں تیرے لیئے سہاگ کا ناچ ناچوں گی

دیتا: بس

نبیلا: مجھے یہ مالا مل جائے گی نا؟

دیتا: جیسے تو چاہے گی۔

نبیلا: جیسے میں چاہوں گی۔ میں بھی یہی کہنا چاہتی تھی۔ یوں اب میں کیا اپنے تحفے انتخاب کر لوں۔

دیتا: کیوں نہیں۔

نبیلا: کیا تو قسم کھاتا ہے کہ مجھے یہ چیزیں لا دے گا۔

دیتا: میں قسم کھاتا ہوں۔

نبیلا: کس کی

دیتا: جس کی تو کہے۔

نبیلا: حُسن وعشق کی اس دیوی کی قسم کھا جس کی مورتی تو نے تیار کی ہے

دیتا: میں اسی کی قسم کھاتا ہوں

نبیلا: تو میں نے اپنے تحفے چن لیئے

دیتا: اتنی جلدی

نبیلا: واقعی میں نے اپنے تحفے بہت جلدی چنے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں چاندی کا کوئی ایسا آئینہ قبول کر لونگی جو مصر کے بنجارے بازاروں میں بیچتے پھرتے ہیں۔۔۔مجھے وہ آئینہ چاہیئے جس میں یونان کی مشہور شاعرہ سیفو اپنا چہرہ دیکھتی رہی ہے اور جواب یہاں کی مشہور طوائف سارہ کے پاس ہے وہ اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتی ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ تو اسے چرالائے گا۔

دیتا: یہ سراسر دیوانگی ہے۔۔۔تو چاہتی ہے کہ میں چوری کروں۔

نبیلا: میں یہ سمجھتی تھی کہ مرد اپنے قول پر قائم رہا کرتے ہیں۔

دیتا: میں اپنے قول پر قائم ہوں۔۔۔آگے بول۔

نبیلا: اور یہ جو ہاتھی دانت کی کنگھی میں تجھ سے مانگ رہی ہوں معمولی کنگھی نہیں۔۔۔ یہ وہ کنگھی ہے جو یہاں کے سب سے بڑے کاہن کی بیوی اپنے بالوں میں لگائے رکھتی ہے۔ یہ کنگھی اس ملکہ کے پاس تھی جو آج سے پانچ برس پہلے وادی نیل پر حکمران تھی۔

دیتا: پر میں یہ حاصل کیسے کروں گا۔

نبیلا: اس کو قتل کر کے۔۔۔ یہ کنگھی مجھے کل دوسرے تحفوں سمیت مل جانی چاہیئے۔

دیتا: پہلے چوری پھر قتل ۔۔۔چلو ایسا ہی سہی۔

نبیلا: تیسرا تحفہ موتیوں کی وہ مالا ہے جو تیرے ہاتھ کی بنائی مورتی کے گلے میں پڑی رہتی ہے۔

دیتا: تو حد سے بڑھ گئی ہے نبیلا۔۔۔سُن لے‘ تجھے کچھ نہیں ملے گا نہ آئینہ‘نہ کنگھی اور نہ موتیوں کی مالا۔۔۔ تو میرے جذبات کے ساتھ زیادہ دیر تک نہیں کھیل سکتی۔

نبیلا: تیری زبان جو کچھ کہتی ہے اس کو تیرا دل نہیں مانتا ۔

اپنے آپ کو دھوکا نہ دے۔۔۔یہ تینوں تحفے تو کل مجھے یقیناًدے گا۔ پھر تو میرے پاس آیا کرے گا۔۔۔ ہر شام کو۔۔۔ اور میں مقررہ وقت پر سولہ سنگھار کیئے تیری راہ دیکھا کرونگی۔۔۔میرالباس تیری مرضی کے مطابق ہو گا میرے بال تیری خواہش کے مطابق گوندھے جائیں گے۔ میں تیرے پیار کے لیئے تیار رہا کرونگی جیسے سیپی سمندر کی گود میں بارش کے قطرے پینے کے لیئے تیار رہتی ہے۔۔۔ اگر تو نرم ونازک محبت چاہے گا تو میں تجھے بچوں کے مانند کھلاؤں گی۔ گر تو چاہے گا کہ میں خاموش رہوں تو میں چاندنی راتوں کی طرح چپ چاپ رہونگی اور جب تیری خوشی ہو گی کہ میں گاؤں تو تیرے کان ملک ملک کے گیت سنیں گے۔ مجھے ایسے گیت یاد ہیں جو چشموں کے آبی نغموں سے بھی دھیمے ہیں۔ اور ایسے گیت بھی یاد ہیں جو کڑکتی بجلی سے بھی زیادہ خوفناک ہیں مجھے ایسی سیدھی سادی اور تروتازہ بولیاں بھی آتی ہیں جو کنواری لڑکیاں اپنی ماؤں کو سنا سکتی ہیں اور ایسی غزلیں بھی یاد ہیں جو صرف تنہائی میں سُنی جاتی ہیں اگر تو کہے گا تو رات رات بھر میں تیرے حضور میں ناچوں گی۔ ایسے ناچ جو تتلیوں کو تھرکنا بھلا دیں اور عود کے دھوئیں کو پریشان کر دیں۔ملکہ مصر دولت مند ہے مگر اس کے محل کے اندر ایسا کوئی بھی کمرہ نہیں جو میرے حجلہ خاص کا مقابلہ کر سکے۔۔۔ اس کے اندر سجاوٹ اور زیبائش کے ایسے سامان ہیں جن کی تعریف کے لیئے بڑے بڑے شاعر آج تک لفظ نہیں ڈھونڈ سکے۔۔۔اور تو جانتا ہے سب سے بڑی سجاوٹ کون ہے

نبیلاجس سے تو محبت کرتا ہے‘پر اُسے اچھی طرح نہیں جانتا۔۔۔ تو نے صرف میرا حسین چہرا دیکھا ہے لیکن تو نہیں جانتا کہ میں ساری کی ساری حسین ہوں۔۔۔ دیتا ایک نہیں ایسے ہزاروں تعجب تجھے ہر روز ہوں گے جب ہر بار تجھ پر میرا حُسن ایک نئی چیز کا انکشاف کرئے گا۔آہ تو مجھ سے کس قدر والہانہ محبت کرئے گا۔۔۔ میری بانہوں میں فرط مسرت سے تو کیسے کانپ کانپ اُٹھے گا۔۔۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ تو نے وہ فضول سی کنگھی لانے سے انکار کر دیا ہے۔ جب کہ میرے سنہرے بالوں کی ساری لٹیں تیرے شانوں پر بل کھایا کریں گی۔۔۔ نہیں ابھی نہیں۔۔۔اس وقت تو انہیں ہاتھ لگانے کا حق دار نہیں۔۔۔کل۔۔۔کل۔۔۔

دیتا: ہاں کل۔۔۔کل تینوں تحفے تیرے قدموں میں ہونگے۔۔۔

نبیلا: اور اگر تو میرے لیئے موتیوں کی وہ مالا بھی لے آیا جو عشق کی مورتی کے گلے میں پڑی ہے تو میں تجھے بتاؤں گی کہ میرے ہونٹوں میں اتنے بوسے ہیں جتنے سات سمندروں میں موتی۔۔۔لواب کل ملیں گے۔۔۔

کل۔۔۔یعنی دوسرے دن دیتا صنم تراش ایک عورت کے لیئے جس کے حسن نے اس کی آنکھوں میں چکا چوند پیدا کر دی۔تین عجیب وغریب تحفے لے جاتا ہے۔۔۔وہ مصر کی حسین ترین عورتوں پر راج کرنے والا ایک غلام بن کے رہ گیا تھا اگر نبیلا اس کے دل ودماغ پر پوری طرح نہ چھا گئی ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ وہ اس عورت کی عجیب وغریب خواہشات کو دریائے نیل کی لہریں سمجھتا جو پتھریلے ساحل کے ساتھ ٹکراتی ہیں اور جھاگ بن کر لوٹ جاتی ہیں۔ مگر وہ نبیلا کے حُسن کی تیزو تند لہروں میں بہہ گیا تھا اور بہتا چلا جارہا تھا۔ یہ سیلاب پیشتر اس کے کہ وہ سنبھلنے پائے اُسے مصرکے سب سے بڑے کاہن کی بیوی کی خوابگاہ تک لے گیا اور اس نے وہ کام کیا جس کا اُسے وہم وگمان بھی نہ تھا۔۔۔کنگھی حاصل کرنے کے لیئے اسے کاہن کی بیوی کے خون سے اپنے ہاتھ رنگنا پڑے۔ جب دیتا نے اُس عورت کے سینے میں زہریلی سوئی چبھوئی تو اس کا دل اس مسرت سے دھڑکتا دھڑکتا بند ہو گیا کہ اس کا قاتل مصر کاوہ حسین نوجوان ہے جس کے دیدار کے لیئے وہ اپنی سو جانیں بھی قربان کرنے کے لیئیتیار تھی۔۔۔کنگھی حاصل کرنے کے بعد یعنی اپنے عشق کی پہلی خونین منزل طے کر کے دیتا نے بڑی صفائی سے مشہور رقاصہ سارہ کے مکان سے چاندی کا وہ آئینہ چرایا جس میں شعلہ نفس شاعرہ سیفو اپنے روئے نگار دیکھا کرتی تھی۔۔۔ شبہ ایک جواں سال لڑکی پر کیا گیا جس کے شباب کا شعلہ اوّلیں ابھی لپکنے بھی نہ پایا تھا۔ اس دوشیزہ کو اس جرم میں سُولی پر چڑھا دیا گیا۔۔۔ نبیلا کے عشق کو دیتا نے خون کا یہ دوسرا گھونٹ پلایا اور موتیوں کی وہ مالا لینے کے لیئے روانہ ہو گیا جو اس کی بنائی ہوئی مورتی کے گلے میں پڑی تھی یہ اس نے کانپتے ہوئے حسن وعشق کی مورتی کے گلے سے جُدا کی اور اُسے ایسا محسوس ہوا کہ اُس نے رات کے آسمان کی پیشانی سے تاروں کی ساری افشاں چھین لی ہے۔دیوی کی اس بیحرمتی پر اُسے افسوس ہوا مگر نبیلا اُس سے بڑی دیوی تھی۔۔۔ اب تینوں تحفے اس کے پاس تھے اور جب انہیں ساتھ لے کر نبیلاسے ملے گیاتو اسے یقین تھا کہ وہ اسے کسی نئے اور کڑے امتحان میں ڈال دیگی۔۔۔ وہ اس کیلئے تیار تھا

نبیلا: لے آیا میرے تحفے۔۔۔تو لے آیا میرے تحفے۔۔۔ مجھے یقین تھا کہ تو خالی ہاتھ کبھی نہ ملنے آُے گا۔

دیتا: اس لیئے کہ تیرے حکم کی تعمیل لازم تھی۔

نبیلا: آہ دیتا میرے پیارے دیتا تو کتنا اچھا ہے۔۔۔جو کچھ اس وقت مجھے محسوس ہوتا ہے پہلے کبھی محسوس نہیں ہوا۔۔۔ مقدس دیوتاؤں کی قسم مجھے اب معلوم ہوا ہے کہ محبت کیا ہے۔۔۔پیارے اب میں تجھے اس سے کہیں زیادہ دوں گی جس کا میں نے تجھ سے کل وعدہ کیا تھا۔۔۔ وہ عورت جو سمندر میں ٹھوس چٹان کی مانند کھڑی تھی آج پاش پاش ہو گئی ہے۔

بوڑھے آسمان نے شایدہی ایسا انقلاب دیکھا ہے۔۔۔تو یہ سمجھتا ہو گا میں تجھ سے صرف محبت کرونگی۔۔۔نہیں آج میں اپنے حسن کی تمام خوبیاں تیری نذر کرتی ہوں اپنی ساری معصومیت تیزی بھینٹ چڑھاتی ہوں۔ اپنی کنواری روح کی تمام کپکپا ہٹیں تیرے حوالے کرتی ہوں۔۔۔آ۔۔۔اب یہ شہر چھوڑ کر کچھ عرصہ کے لیئے کہیں بھاگ جائیں۔ کسی ایسی جگہ جارہیں جہاں تیرے میرے سوا اور کوئی نہ ہو۔۔۔ کوئی نہ ہو۔۔۔جہاں ہم ایسے دن گزاریں جن پر سہاگ کی راتیں رشک کریں۔عشق ومحبت کی تاریخ میں شاید ہی ایسے کارنامے کا ذکر ہو جو کہ تو نے میرے لیئے سر انجام دیا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ اس رُوئے زمین پر مجھ ایسی والہانہ محبت کرنے والی پیدا ہوئی ہے اور نہ ہو گی۔۔۔پر تیرے ہونٹوں پریہ مہر خاموشی کیوں لگی ہے۔۔۔تو بولتا کیوں نہیں۔

دیتا: میں کیا بولوں۔۔۔ حیرت مجھے نہ جانے کہاں بہا لے گئی ہے۔۔۔ میں سمجھتا تھا آسمان بہت اونچا ہے پر اس وقت وہ مجھے زمین پر لیٹا دکھائی دے رہا ہے۔

نبیلا: یہ تو نے کیا کہا۔۔۔یہ تو نے کیا کہا۔

دیتا: میں کہتا ہوں الوداع۔۔۔الوادع۔

نبیلا۔الوداع۔۔۔ یہ میں کیا سن رہی ہوں دیتا۔۔۔ یہ تین تحفے تو نے اتنی مشکلوں سے صرف اس لیئے حاصل کیئے تھے کہ مجھے اور میری محبت کو الوداع کہہ دے۔

دیتا: مجھے اپنا وعدہ پورا کرنا تھا سو میں نے کر دیا۔

نبیلا: میں سمجھی نہیں۔

دیتا: تو سمجھے یا نہ سمجھے مجھے اب اس سے کوئی سروکار نہیں یہ چھوٹا سا اسرار‘یہ ننھی سی گتھی اب تیرے ناخن تدبیر کے لیئے چھوڑتا ہوں ۔۔۔الوداع۔

نبیلا: دیتا۔۔۔دیتا۔۔۔ یہ میں کیا سن رہی ہوں۔۔۔یہ لہجہ کہاں سے پیدا ہو گیا ۔۔۔کیا سچ مچ یہ لفظ تیری زبان سے نکلے ہیں ۔۔۔مجھے کچھ تو بتا۔۔۔آخر ہوا کیا۔

دیتا: کیا میں ایک ہی بات ہزار بار دہراؤں۔تیرے ہی لیئے ہاتھی دانت کی کنگھی لانے کے لیئے میں نے کاہن کی بیوی کو قتل کیا۔تیرے ہی لیئے میں نے سارہ کے یہاں سے آئینہ چرایا اور اصل مجرم کے بجائے ایک معصوم دوشیزہ پھانسی پر چڑھا دی گئی۔تیرے ہی لیئے میں نے حسن وعشق کی مورتی کے گلے سے موتیوں کا ست لڑا ہارا اتارا۔ یہ تین تحفے مجھے تیرے حضور میں حاضر کرنا تھے جن کے عوض میں تیری طرف سے مجھے صرف ایک چیز ملنی تھی۔۔۔تیری التفات۔۔۔اس وقت میں نے یہ سودا بہت مہنگے داموں پر قبول کر لیا۔ لیکن اب مجھے اس جنس کی قدر وقیمت معلوم ہو گئی ہے جسے میں خرید رہا تھا۔۔۔ اب میں تجھ سے کچھ نہیں مانگتا۔۔۔تو بھی ٹھیک اسی طرح مجھ سے کچھ طلب نہ کر اور چپ چاپ چلی جا۔۔۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایسی سیدھی سادی بات تیری سمجھ میں نہیں آتی۔

نبیلا: اگر یہی بات ہے تو یہ تحفے اپنے پاس رکھ۔۔۔ کیا تو سمجھتا ہے کہ مجھے ان کی ضرورت ہے۔۔۔ نہیں میں تو صرف تجھے چاہتی ہوں۔۔۔ صرف تجھے ۔۔۔

دیتا: مجھے معلوم ہے۔۔۔ مگر میں اب تجھے نہیں چاہتا اور چونکہ ایسے معاملوں میں طرفین کی رضا مندی ضروری ہوتی ہے اس لیئے ہمارا ملاپ نا ممکن ہے۔۔۔ میں نے کھلے الفاظ میں تجھے سمجھانے کی انتہائی کوشش کی ہے مگر افسوس ہے کہ میں اپنے دل کی بات تجھ پر واضح نہیں کر سکا دراصل مجھ میں اتنی قدرت بھی نہیں ہے کہ تجھے اچھی طرح سمجھا سکوں اس لیئے بہتر یہی ہو گا کہ تو اس حقیقت کو جیسی بھی وہ ہے قبول کر لے۔۔۔تو یہ راکھ کریدنا چاہتی ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ یہ راکھ نہیں ہو سکتی ایسی حالت میں ہماری گفتگو سے کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا۔

نبیلا: میری طرف سے لوگوں نے یقیناًتیرے کان بھرے ہیں۔

دیتا: تیرے شکوک بے بنیاد ہیں۔

نبیلا: نہیں نہیں۔ میں سب جانتی ہوں۔۔۔ مجھے سب کچھ معلوم ہے لوگوں نے ضرور میرے بارے میں زہر اُگلا ہے۔۔۔ انکار نہ کر۔۔۔ وادی نیل میں اتنے ذرّے نہیں جتنے کہ میرے دشمن ہیں۔۔۔ میرے خلاف یقیناًتجھ سے کہا گیا ہے لیکن دیتا‘تجھے ان کی زہریلی باتیں ہرگز نہیں سننا چاہیئے تھیں۔مقدس دیوتاؤں کی قسم جو کچھ تجھ سے کہا گیا ہے سفید جھوٹ ہے۔

دیتا: مجھ سے تیرے خلاف کسی نے کچھ نہیں کہا۔

نبیلا: دیتا تو نے یہ نہیں سوچا کہ میں تجھے دھوکا دے ہی نہیں سکتی اس لیئے کہ میں تجھ سے سوائے تیرے اور کسی چیز کی طالب نہیں تو پہلا آدمی ہے جس سے میں نے ان الفاظ میں گفتگو کی ہے۔

دیتا: ایسی باتوں کا وقت گزر چکا ہے۔۔۔ایک بار تو میری ہو چکی ہے۔۔۔ایک دفعہ میں تجھے اپنا بنا چکا ہوں۔

کب ‘کہاں‘ کیسے‘۔۔۔ تجھے اپنائے بغیر میں تجھے اپنا بنا چکا ہوں تجھ سے جو کچھ میں چاہتا تھا غیر ارادی طورپر تو نے مجھے دے دیا ہے۔۔۔ تو مجھے خوابوں کی دنیا میں لے گئی مانتا ہوں پر اب اس دنیا میں واپس جاکر اس حُسن اور خوبصورتی کا نظارہ کرنے کی مجھ میں تاب نہیں‘ اور نہ تو مجھے اس دنیا میں پہلے لے جاسکتی ہے۔۔۔ایک راستے پر مسرت اور شادمانی سے دو مرتبہ ملاقات نہیں ہوا کرتی۔۔۔ ہم ایک سڑک پر مخالف سمتوں سے آرہے تھے تھوڑی دیر ہمارے قدم رُکے مگر اب ہمیں جدا ہو جانا چاہیئے۔۔۔ تیرا راستہ ادھر ہے اور میرا اُدھر۔

نبیلا: صرف ایک ہی نظارے سے تیری نگاہیں سیر ہوگئیں۔۔۔ایک ہی بار خوابوں کی دنیا میں جا کر تیراجی بھر گیا۔۔۔پھولوں بھرے باغ میں جاکر تو ایک ہی کلی پر قناعت کر گیا۔

دیتا: تو اصلیت کے قریب پہنچ گئی ہے۔۔۔ میں ایک ہی نظارے، خوابوں کی دنیا کی ایک ہی سیر اور پھولوں بھرے باغ کی ایک ہی کلی پر قانع رہنا چاہتا ہوں۔ اس لیئے کہ میں اس نظارے کے حسین تخیل‘ اس سیر کی مسرت بخش یاد اوراس کلی کی پیاری مہک کو اپنے دل ودماغ میں قائم رکھنا چاہتا ہوں۔۔۔ میں نے تیری تصویر کو جس سنہرے فریم میں دیکھا ہے اُسے بدلنے کی کوشش نہ کر۔

نبیلا: اور میرے۔۔۔ میرے متعلق تو کیا کہتا ہے جو اتنی بھیانک باتیں سُننے پر بھی تجھ سے محبت کرتی ہے۔۔۔ کیا میں نے وہ خواب دیکھا ہے جس کا ذکر تو بار بار کرتا ہے اور کیا میں اس مسرت اور شادمانی کی گھڑیوں میں تیری شریک رہی ہوں جو تو نے مجھ سے چرائی ہیں۔۔۔ ہاں چرائی ہیں۔۔۔‘

دیتا: کیا اس وقت تجھے میرا خیال تھا جب میری کمزوری سے فائدہ اُٹھا کر تو نے مجھ سے تین شرمناک فعل کرائے۔۔۔تین شرمناک فعل جو ساری زندگی مجھے تین مہیب دیو بن کر ڈراتے رہیں گے۔۔۔ صرف ایک لمحہ کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر تو نے مجھ سے تین احکام منوائے جو میری زندگی کو پاش پاش کر سکتے تھے۔

نبیلا: میں نے یہ صرف اس لیئے کیا کہ تو میرا ہو جائے۔۔۔ سارے کا سارا میرا۔۔۔ تیری ہو کر میں تجھے اپنا کبھی نہ بنا سکتی۔

دیتا: تو اپنے مقصدمیں کامیاب ہوئی۔ لیکن صرف چند لمحات کے لیئے ۔۔۔تو نے مجھے اپنا غلام بنانا چاہا۔پر اب میں تیری غلامی سے آزاد ہونا چاہتا ہوں ۔

نبیلا: دیتا تو کسی کا غلام نہیں۔ میں تیری کنیز ہوں۔

دیتا: ہم میں سے وہی دوسرے کا غلام ہے جو کہ محبت کرتا ہے۔۔۔غلامی۔۔۔ یہ عشق کا دوسرا نام ہے۔۔۔تم سب عورتوں کے دل ودماغ میں ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ تمہاری کمزوری مرد کی طاقت پاش پاش کر دے اور تمہارے لیئے شعور کی اس ذکاوت پر حکومت کرئے۔ تم محبت کرنا یا محبت کیئے جانا پسند نہیں کرتیں۔۔۔شباب کی آمد کے ساتھ ہی یہ خواہش تمہارے سینے میں کروٹیں لینے لگتی ہے کہ تم کسی مرد کو اپنا غلام بناؤ۔ اُس کو ذلیل کروا ور جب وہ اپنا سر جھکائے تو اس پر اپنا پاؤں رکھ دو۔۔۔ پھر تم ہم لوگوں سے اپنی مرضی کے مطابق تلوار‘ تیشہ‘قلم اور ہر وہ چیز جو تم پر قادر ہے چھین سکتی ہو‘ توڑ سکتی ہو۔۔۔ اس وقت تم چاہو تو ہرکولیس پہلوان سے گرزلے کر اس کے ہاتھ میں چرخہ دے دو۔۔۔ اگر تم کسی مرد کی گردن جھکانے میں ناکام رہتی ہو تو ان ہاتھوں کو اچھا سمجھتی ہو۔ جو تمہارے گورے بدن پر نیل ڈال دیں اور اس مرد کو دیوانہ وار چاہتی ہو جس کا سخت گھٹنا تمہاری گردن دباتا رہے۔۔۔ حتیٰ کہ اس مرد سے بھی التفات کرتی ہو جو ہر روز تمہاری توہین کرئے۔ وہ مرد جو تمہارے پاؤں چومنے سے انکار کردے تو تم اُسے سر پر بٹھا لو گی۔۔۔وہ مرد جس کی آنکھیں تمہاری رخصت پر نمناک نہیں ہوتیں چٹیا پکڑ کر جہاں چاہے تمہیں لے جاسکتا ہے محبت زدہ عورت چونکہ توغلام نہیں بنا سکی اس لیئے تجھے غلامی قبول کرنا ہو گی۔

نبیلا: دیتا تو مجھے مار‘پیٹ‘میرا بدن نیلوں سے بھر دے مگر اس کے بعد مجھ سے محبت ضرور کر۔

دیتا: نہیں اب مجھے تجھ سے نفرت ہے۔

نبیلا: تو جھوٹ کہتا ہے۔تیری رُوح کے اندر میں سما چکی ہوں تو صرف ایک عورت کے سامنے جھکنے سے شرماتا ہے لیکن پیارے اگر صرف اتنی سی بات تیرے وقار کی تسکین کیلئے کافی ہے تو مجھے تیری غلامی قبول ہے۔تجھے حاصل کرنے کیلئے میں اپنا سب کچھ دینے کو تیار ہوں اس سے کہیں زیادہ جو تو نے اب تک مجھے دیا ہے۔۔۔ بول میں تیرے لیئے کیا قربانی کر سکتی ہوں ایک بار تجھے اپنا بنا کر مجھے زندگی سے کوئی شکایت نہ رہے گی۔

دیتا: کیا تو قسم کھاتی ہے۔

نبیلا: حسن وعشق کی دیوی کی قسم میں تیرے لیئے ہر قربانی کرنے کو تیار ہوں

دیتا: اچھی طرح سوچ سمجھ لے۔

نبیلا: دیر نہ کر جلدی بول۔تو مجھ سے کیسی قربانی چاہتا ہے۔

دیتا: بالکل معمولی۔میں تجھ سے تیری طرح تین تحفے نہیں مانگتا۔ اس لیئے کہ یہ رواج کے خلاف ہو گا۔۔۔ لیکن میں تجھے تحفے قبول کرنے کے لیئے ضرور کہہ سکتا ہوں کیا نہیں۔

نبیلا: کیوں نہیں۔

دیتا: یہ آئینہ کنگھی اور ہار منگاتے وقت کیا تجھے ان کو استعمال کرنے کا خیال تھااس چوری کے آئینے‘ اس خون آلود کنگھی اور اس مقدس ہار کو۔۔۔ یہ ایسے جواہرات نہیں ہیں کہ ان کی عام نمائش کی جائے۔۔۔‘‘

نبیلا: بہت دُور کی سوجھی!

دیتا: پہلے میرا ایسا خیال نہیں تھا۔ مگر اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو نے محض ظلم ڈھانے کی خاطر مجھ سے تین جرم کرائے۔ تین جرم جن سے مصر میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا ہے ۔

اب تجھے ان تحفوں کی عام نمائش کرنی ہو گی۔۔۔آئینہ ہاتھ میں لے کر کنگھی بالوں میں سجا کر اور ہار گلے میں پہن کر تو باغ میں سیر کے لیئے جائے گی۔ لوگ تجھے دیکھیں گے اور فوراً ہی ملکہ کے سپاہیوں کے حوالے کر دیں گے۔۔۔ لیکن تجھے وہ چیز مل جائے گی جس کی تجھے خواہش تھی اور میں سورج طلوع ہونے سے پہلے زندان میں تیری ملاقات کے لیئے آؤں گا۔۔۔الوداع۔

جس طرح دیتا اپنے وعدے پر قائم رہا اسی طرح نبیلا نے اپنا قول پورا کیا‘ چنانچہ اسی روز شام کوجب کہ سورج کی کرنیں دریائے نیل کی لہروں کو چوم رہی تھیں‘ نبیلا اُٹھی اور اپنی برمی خادمہ کو حکم دیا کہ وہ اُسے اچھی طرح سے سجائے سج سجا کر اس نے اپنے سنہرے بالوں میں کنگھی جمائی گلے میں ست لڑاہا ر پہنا اور ہاتھ میں آئینہ لے کر باغ عامہ کی سیر کو چل دی۔

لوگوں نے وہ تین چیزیں دیکھیں جن کے گم ہوجانے پر سارے مصر میں ہنگامہ برپا ہو گیا تھا اور حیرت میں غرق ہو گئے۔ بعض عورتیں اس نظارے کی تاب نہ لا سکیں۔ اور نبیلا کے خوفناک انجام نے ان پر کپکپی طاری کر دی۔۔۔مگر نبیلا کے قدم پہلے سے زیادہ مضبوط تھے۔ باغ کی پتھریلی روشوں پر چلتے ہوئے وہ سنگ مرمر کا ایک حسین مجسمہ معلوم ہوتی تھی۔

فوراً ہی آگ کی طرح یہ خبر سارے شہر میں پھیل گئی کہ حُسن وعشق کی مقدس دیوی کا ست لڑا ہار‘ سارہ کا آئینہ جس میں سیفو اپنا چہرہ دیکھا کرتی تھی اور کاہن کی بیوی کی کنگھی نبیلا رقاصہ کے پاس ہے۔ چنانچہ نبیلا ابھی باغ کی تیسری روش ہی پر چل رہی تھی کہ ملکہ‘ مصر کے سپاہیوں نے اُسے گرفتار کر لیا اور زندان میں قید کر دیا ساری رات وہ اس اندھیرے زندان میں طرح طرح کے ڈراؤنے خواب دیکھتی رہی۔ بار بار وہ کسی دہشتناک خیال سے کانپ اُٹھتی۔

اس ا دھیڑ بن میں صبح ہو گئی اور حسبِ وعدہ سورج کی پہلی کرن کے ساتھ دیتا زندان میں داخل ہوا اور اس کے پیچھے پیچھے جلاّد جس کے ہاتھ میں زہر کا جام دے دیا گیا۔محبت کا یہ آخری جام اس نے ہونٹوں سے لگایا اور سارا زہر غٹا غٹ پی گئی۔

زہر پینے کے بعد اس نے کنکھیوں سے دیتا کی طرف دیکھا گویا وہ اس سے یہ کہنا چاہتی ہے۔’’ دیکھ موت کا بوسہ یوں لیا کرتے ہیں۔‘‘ مگر دیتا نے اُس کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔

زہر نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔اُس کے پاؤں دبا کر جلاّد نے پوچھا ’’کیا تجھے کچھ محسوس ہوا؟‘‘

’’نبیلا نے جواب دیا نہیں‘‘

پھر جلاّد نے اس کے گھٹنے دبائے۔’’اب‘‘

پیشتر اس کے کہ نبیلا جواب دے وہ لڑ کھڑا کر چوبی تخت پر گر پڑی، دیتا سے آخری بار کچھ کہنے کے لیئے اس نے اُٹھنے کی کوشش کی مگر زہر اپنا کام کر چکا تھا۔۔۔ آخری بات اس کی زبان پر موت کی سردی نے منجمد کر دی اور وہ ہمیشہ کے لیئے فنا کی تاریکی میں سوگئی۔

کہتے ہیں نبیلا کی لاش کو سامنے رکھ کر دیتا سنگ تراش نے مردہ حسن سے زندہ حُسن پیدا کیا۔۔۔ اس نے مصر کی اس حسین وجمیل رقاصہ کی تمام رعنائیاں پوشیدہ اور ظاہر۔۔۔ سنگ مرمر کے ایک بت میں ہمیشہ کے لیئیقید کردیں۔

نبیلاکا مجسمہ جب تیار ہو گیا تو لوگوں نے اس کی زبان سے یہ لفظ سُنے ’’یہ عورت اب مجھ سے اور اپنے آپ سے کہیں زیادہ دیر تک زندہ رہے گی۔(ماخوذ)

مأخذ : کتاب : منٹو کے ڈرامے اشاعت : 1943

مصنف:سعادت حسن منٹو

مزید ڈرامے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here