آؤریڈیوسُنیں!

0
200
Urdu Drama Stories
- Advertisement -

لاجونتی: (اشتیاق بھرے لہجے میں اپنے پتی سے)آؤریڈیو سنیں۔

کشور: (خاموش رہتا ہے)۔

لاجونتی: اجی اوسنتے ہو میں کیا کہہ رہی ہوں۔۔۔توبہ‘ تمہارا دماغ کیا ہے ریڈیو کا ڈبہ ہے جوہر دوسرے تیسرے روز خراب ہو جاتا ہے۔ کچھ میں بھی تو سنوں جناب کا مزاج اس وقت کس بات پر بگڑ گیا‘ جومنہ سے ایک دوبول نکالنے میں بھی دشوار ہو رہے ہیں۔

کشور: دفتر سے تھکا ماندہ آیا ہوں۔۔۔

لاجونتی: (بات کاٹ کر) اسی لیئے تو کہتی ہوں آؤ ریڈیوسنیں۔۔۔ اختری کی غزل سنیں گے ‘ تِگنی پر کیسا پھولتی پھلتی ہے۔ سنو گے تو یہ سب تمہاری تھکن مٹ جائے گی۔

- Advertisement -

کشور: جو د ھرپَد آج بڑے صاحب سے سن کے آیا ہوں وہی کافی ہے۔ اب مجھ سے کوئی اور راگ نہیں سنا جاتا ۔

لاجونتی: سچ ہے بھلا یہ راگ تم سے کیوں سنا جائے گا۔ تم ٹھہرے کوٹھوں پر مجرا سننے والے نرت بھاؤ کے گاہک‘ بھلا تمہیں کاٹھ کے ریڈیو سے کیا تسکین ہوگی۔ کوئی طوائف سامنے تھرک رہی ہو تمہیں ھوریاں پیش کرے ‘ ذرا کبھی تم سے ٹھنک ٹھنک کر باتیں کرتی جائے کبھی مسکرا دے‘ کبھی بگڑ جائے تو تمہارے کانوں کے سب پردے کھل جائیں۔

کشور: میں کچھ نہ سمجھا تم کس دھن میں الاپ رہی ہو۔

لاجونتی: یہ آپ نے نیا پلٹالیا۔

کشور: تمہاری طرح آڑی ترچھی تانیں لگانا مجھے نہیں آتا۔

لاجونتی: یہ آپ کی چھڑنرالی ہے۔

کشور: بن استھائی کے انترا شروع کر دیا؟

لاجونتی: آپ کے بول ہی انوکھے ہیں۔

کشور: اور جو تم نے اپنی راگنی میں بھدا میل لگایا ہے؟

لاجونتی: آپ اپنے بن جوڑ کے ساگر کو بھول ہی گئے

کشور: اب تم چاہتی ہو‘ کھینچ تان کے سبتک میں لے آؤ۔

لاجونتی: آؤ ریڈیو سنیں میرا مطلب یہ تھا کہ گاناآتما کامن بھاتا بھوگ ہے۔

کشور: گانا آتما کامن بھاتا بھوگ ضرور ہے‘ پر اگر گانے والے کے گلے میں سوزوگداز ہو۔ بے وقت کی راگنی نہ ہو۔

لاجونتی: پھر آپ آڑھی ترچھی باتیں کرنے لگے۔

کشور: تم آدمی کو گڑ بڑ جھاڑ میں ڈال دیتی ہو۔

لاجونتی: تاربارجا اور راگ بوجھا۔۔۔ میں آپ کی ساری ساز باز سمجھتی ہوں۔

کشور: تم ابھی اس فن میں عطائی ہو۔

لاجونتی: اور آپ ٹھہرے تان سین اوربیجو باورے کے استاد۔

کشور: تمہاری زبان مضراب کی طرح چلتی ہے۔ تم سے بھلا کوئی جیت سکتا ہے۔

لاجونتی: آپ نے تو میدے کا آٹا کھا رکھا ہے۔

کشور: اب اس کا گر کب ختم ہو گا۔

لاجونتی: بس اب مونہا ٹھکیھٹی ہو چکی۔۔۔ چلو آؤریڈیو سنیں۔

کشور: کون سا اسٹیشن سنوگی؟

لاجونتی: دہلی۔

کشور: نہیں لاہور

لاجونتی: لاہور میں کیا رکھا ہے‘ دہلی سنو جو کچھ سمجھ میں بھی آئے۔وہاں کوئی گا رہا ہوگا موئی پنجابی میں جس کا سر نہ پیر۔

کشور: تم کیا جانو پنجابی راگوں کو۔۔۔ اس اندھے میوزک ماسٹر سے ہارمونیم پر سارے گا ماسیکھ لیا اور تم نے مجھ کو پریم سکھایا ایک بارگالیاتو لگیں بڑھ بڑھ کے باتیں کرنے ۔ گویا ساری راگ ود یا تمہارے پیٹ میں ہے۔۔۔چلو ہٹاؤ۔۔۔ لاہور سنیں گے۔ خانصاحب عاشق علیخان گانے والے ہیں۔

لاجونتی: اگر تمہیں اس موئے عاشق علیخان کا گانا سننا ہے تو میں چلی‘ ‘ بابا مجھ میں ہمت نہیں ہے ایسے بھاری بھر کم گانے سننے کی۔ توبہ کیا حال کرتے ہیںیہ خانصاحب ۔۔۔ یہ بھلا کیا گانا ہوا جو سننے والے سمجھیں کوئی گھائل دم توڑتا ہے۔

کشور: تمہیں تو بس سہگل کا گانا پسند ہے ’’بالم آئے بسو مورے من میں‘۔۔۔ جیسے ڈوبنے والے کے منہ میں پانی کبھی اندر جاتا ہے اور کبھی باہر آتا ہے۔۔۔‘ تو بہ کیسی مٹی پلید کی ہے ان لوگوں نے راگ کی۔ جو استاد ہیں ان کو کوئی پوچھتا ہی نہیں۔۔۔ تم خاموش بیٹھی رہو۔ مجھے سن لینے دو خانصاحب کا گانا۔

(ریڈیو کا بٹن دبانے کی آواز)

ریڈیو: یہ لاہور ہے‘ ابھی ابھی آپ خانصاحب عاشق علیخان صاحب سے مالکونس کا خیال سن رہے تھے‘ اب آپ کو بازار کے بھاؤ سنائے جائیں گے۔

تویہ حاضر۔۔۔ ۴روپے ۱۲آنے۔۔۔تارامیرا۔۔۔۳روپے ۶ آنے۔ گڑ۔۔۔۲ روپے ۸ آنے۔شکر۔۔۔۳ روپے ۱۴ آنے۔ گھی ۴۹ روپے۸آنے۔۔۔مرچ ڈنڈی دار۔۔۔۱۱ روپے۔

کشور: (ایک دم ریڈیو بند کرکے ) دیکھا تمہاری بکواس نے ایسا اچھا پروگرام مس کرادیا۔۔۔۔ اب بیٹھ کے سنو بازار کے کھلتے اور بند ہوتے ہوئے بھاؤ۔۔۔ بس ذرا تم سے کسی نے بات کی اور تم ایک لمبی چوڑی کتھا لے کر بیٹھ گئیں، چاہے نقصان ہی ہو جائے ۔

لاجونتی: کوئی سمجھے کسی بیوپار میں بڑا گھاٹا بیٹھ گیا ہے۔ سونے سے بھرا ہوا جہاز ڈوب گیا ہے ۔۔۔ ایک معمولی راگ ہی تو تھا‘ سُنا سُنا نہ سُنا نہ سُنا‘ کون سی آفت آگئی ہے جو ایسا منہ بنا لیا ہے آپ نے؟

کشور: لاجونتی اب زیادہ باتیں نہ کرو مجھے اس پروگرام کے چھوٹ جانے کا بہت افسوس ہے

لاجونتی: گاڑی چھوٹنے پر بھی اتنا افسوس کیا کرو۔۔۔ میں تو جب بھی تمہارے ساتھ سفر پرنکلی‘ کبھی ایسانہیں ہوا کہ ہم وقت پر اسٹیشن پر پہنچے ہوں۔ جب بھی گئے پلیٹ فارم خالی پایا اور ریڈیو کا پروگرام ہم نے کب وقت پر پکڑا ہے۔ تم سے بار بار کہا‘ انڈین لز اور ریلوے ٹائم ٹیبل لے آیا کرو‘ ان سے وقت معلوم ہو جاتے ہیں اور پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا پر تم نے کسی کی سنی ہو تو میری بھی سنو۔ اگر اس وقت تمہارے پاس لزہوتا تو یہ کوفت تو نہ اٹھانا پڑتی۔۔۔ اب سوچتے کیا ہو۔۔۔سوئیاں گھماتے جاؤ۔ کوئی نہ کوئی کام کی چیز نکل ہی آئے گی۔

(ریڈیوسٹ کرنے کی آواز۔۔۔ کھرکھراہٹ)

لاجونتی: بمبئی لگاؤ۔

ریڈیو: یہ بمبئی ہے‘ ابھی آپ شری یت دیش پانڈے سے مرہٹی زبان میں تقریر سن رہے تھے‘ اب آپ کومسٹر ایس ‘ ایچ منٹو کا لکھا ہوا ڈرامہ ریڈیو سنا یاجائے گا۔

لاجونتی: لگائے رکھو‘ لگائے رکھو۔۔۔ ذرا سنیں گے۔

ا۔ جی ہاں‘ میں ریڈیو بنانے کا کام کرتا ہوں‘ فرمائیے آپ کا ریڈیو کہاں کا بنا ہوا ہے؟

ب۔ بریلی کا۔

ریڈیو: بریلی کا؟۔۔۔یعنی کیا؟۔۔۔ آپ نے بریلی کہا تھانا؟

ب: جی ہاں۔

ا: جہاں کے بانس بہت مشہور ہیں۔

ب: جی ہاں‘ اسی بریلی کا۔

ا: کیا وہاں ریڈیو بنانے کاکوئی کارخانہ کھلا ہے یا ایریل لگانے میں جو بانس کام آتے ہیں اس سے آپ نے یہ سمجھ لیا کہ۔۔۔

ب: دیکھئے آپ کوزیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ بات یہ ہے کہ ایک روز میری الفت نے آپ کے اس ریڈیو مرمت کے لیئے بھیجا تھا آپ نے اس کے تمام Atmospheriesبند کر دئیے تھے۔ اب ہوا یہ ہے کہ یہ تمام Atmospheriesاس میں یعنی میری وائف میں پیدا ہو گئے ہیں۔ ریڈیو بغیر شور کے چلتا ہے مگر اس کی زبان برابر شور مچاتی رہتی ہے۔ کیا آپ کوئی علاج بتا سکتے ہیں۔۔۔ یعنی جس سے اس کا شور بند ہو جائے۔

ا: آپ کی بیوی کا میکرکیا ہے۔

ب: بنی ہندوستان میں تھی پرچھاپ ولایت کا ہے۔

ا: تویوں کیجئے ‘ کسی روز انہیں گھر کے نل کے ساتھ کس کر باندھ دیں میرا خیال ہے کہ ارتھ ہو ہوا کے وہ بالکل ٹھیک ہو جائیں گی۔

(ریڈیو بند کرنے کی آواز)

کشور: ارے یہ کیا؟۔۔۔ بند کیوں کر دیا‘ ذرا سننے تو دو‘ کیا دلچسپ ڈرامہ تھا۔

لاجونتی: بے ہودہ ‘ واہیات‘نا معقول۔۔۔ کوئی شرم حیانہیں رہی ان مردوں کو۔۔۔ بیویوں کو تو بس کھلونا سمجھ لیا گیا ہے فلموں میں ان کے ساتھ مذاق ‘ ناولوں میں ان بیچاریوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ‘ نظموں میں انکی مٹی پلید۔ اب یہ ریڈیو باقی رہ گیا تھا‘ سو اس پر بھی ان کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔۔۔ میرے بس میں ہو تو ایسے تمام مردوں کی ایک گردن بنا کر پھانسی کے پھندے میں دے دوں۔

کشور: لیکن ڈرامہ ہے بہت خوب۔۔۔ ذرا آگے سنتے ہیں۔۔۔

لاجونتی: خبردار جو ایسا کیا۔۔۔ میں کہتی ہوں لڑائی ہو جائے گی۔۔۔ ہر وقت کا مذاق مجھے اچھا معلوم نہیں ہوتا۔

کشور: کیا حرج ہے۔ اگر اس میں کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تو بند کر دیں گے۔ ریڈیو میں یہی تو ایک اچھی بات ہے کہ مرضی ہوئی سنا‘ مرضی ہوئی نہ سنا۔۔۔ یہ تم تھوڑی ہو جس کی ہر بات ہر حالت میں سننا پڑتی ہے۔۔۔ تمہیں ڈرامہ پسند نہ آیا اور تم نے جھٹ سے بولنے والوں کا گلا گھونٹ دیا۔ فرض کرو کسی روز مجھے تمہاری باتیں پسند نہ آئیں اور میں تمہارے منہ میں کپڑا ٹھونس دوں تو بتاؤ تمہیں کتنا غصہ آئے ۔۔۔ اور اب من جاؤ اور سننے دو یہ ڈرامہ۔

لاجونتی: (غصے میں) خبردار۔۔۔میں۔۔۔میں۔۔۔ ریڈیو کھولنے کی آواز‘ کھرکھراہٹ)

ریڈیو: مندرجہ ذیل ریکارڈ پانچ چھ سیکنڈ تک بجایا جائے۔

پہلے بول: میں تم سے ناہیں بولوں گی

کشور: بلا سے۔۔۔ ناہیں بولوں گی‘ ناہیں بولوں گی۔۔۔ نہ بولو۔۔۔ریڈیو کھولنے کی آواز۔

ریڈیو: (مندرجہ ذیل ریکارڈ پانچ سکنڈ تک بجایا جائے)

پہلے بول: ان دنوں جوش جنوں ہے تیرے دیوانے کو

(ایک دم ریڈیو بند کرنے کی آواز)

لاجونتی: (ریڈیو بند کر دیتی ہے) ان دنوں کیا۔۔۔ ایک زمانے سے آپ کی دیوانگی زوروں پر ہے۔ وہ تو میں ہی ہوں جویہ پاگل پن سہ لیتی ہوں۔ کوئی اور ہوتی تو جناب کو ناکوں چنے چبوا دیتی۔

کشور: لاجونتی‘ میں تم سے ایک بات پوچھوں؟

لاجونتی: پوچھو۔۔۔ پر یہ گھور گھور کے کیا دیکھتے ہو؟

کشور: کیا تم نے سچ مچ لڑائی کی ٹھانی ہے۔۔۔ یعنی اگر تم لڑنا چاہتی ہو تو صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتیں۔

لاجونتی: میرے سرسینگ تو نہیں جو لڑنا شروع کر دُوں۔

کشور: سینگ میرے ہی سر پر ہیں بیل ‘ بھینسا ‘ سانڈ‘ گینڈا ‘ گدھا سبھی کچھ میں ہوں۔۔۔

لاجونتی: گدھے کے سرسینگ نہیں ہوتے۔

کشور: بے وقوف تو ہوتا ہے۔۔۔ اور مجھ سے بڑھ کر اور کون بیوقوف ہو گا جس نے سب کچھ جانتے بوجھتے یہ ریڈیو تمہیں خرید دیا۔۔۔ میں اگر دہلی کہوں‘ تم مدراس سنو گی‘ میں اگر لاہور سننا چاہوں تم کلکتہ سننے پر اڑجاؤگی‘ میں پورب جاتا ہوں تم پچھم۔۔۔ میں کہتا ہوں رفیق غزنوی اچھا ہے تم کہتی ہو کے سی ڈے۔۔۔ اب بتاؤ میری تمہاری کیسے نبھ سکتی ہے۔۔۔

لاجونتی: بڑے کوڑھ مغزے ہو۔۔۔ کیا گاتا ہے کے سی ڈے۔۔۔کبھی سنا بھی ہے اس کا ریکارڈ۔۔۔ تیری گٹھڑی میں لاگا چور مسافر جاگ ذرا۔۔۔ اُف اُف‘ اس بڈھے کے گلے میں کیا چلت پھرت ہے‘ گلے میں کتنے برہار کے دانے ہیں ۔۔۔ آواز ہے ‘ معلوم ہوتا ہے کوئل کو ک رہی ہے۔

(ریڈیو کھولنے کی آواز)

ریڈیو: کے سی ڈے کا یہ ریکارڈ لگایا جائے

پہلے بول: بابا من کی آنکھیں کھول

یہ دنیا ہے ایک تماشا ۔ چاردنوں کی جھوٹی آشا

لاجونتی: لو اتفاق دیکھو‘ اسی کاریکارڈ بجایا جا رہا ہے۔

ریڈیو: بابا من کی آنکھیں کھول۔

کشور: (ریڈیو بند کرکے) من کی آنکھیں کھول سننے کے تو یہ معنی تھے کہ تمہارے من کی آنکھیں بھی کھل جاتیں کھلنی تو درکنار جو کچھ تھوڑی بہت نیم باز تھیں وہ بھی پٹم ہو گئیں۔

لاجونتی: یعنی تو اس کا یہ مطلب ہوا کہ میرے دیدے ٹپم ہو گئے ہیں۔ دیکھو میں کہے دیتی ہوں۔ سب کچھ کہو‘ میرے دیدوں کو اگر کچھ کہا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔ دیدے ٹپم ہوں میرے دشمن کے جو مجھے دیکھ نہ سکیں۔

کشور: اور تم دیدہ دانستہ اچھے گانوں کو برا اور بروں کو اچھا کہتی ہو۔ آنکھیں بند کرکے جو منہ میں آیا بک دیا۔

لاجونتی: دیکھو منے کے پتا‘ یہ پیپر ویٹ ایک ہی کھینچ کر ایسا لگاؤں گی کہ تمہارا ریڈیو سیڈیوچکنا چور ہو جائے گا۔ اس پیپرویٹ کاوزن پکا دو سیر ہے سمجھ لو۔

کشور: عقل کے ناخن لو۔ ابھی اپر وول پرلایا ہوں۔۔۔

پورے چار سو ساٹھ بھر دینے ہوں گے۔

لاجونتی: میری جوتی سے بھرنے ہوں گے۔

کشور: اب جوتی پیزار پر اُتر آئیں۔

لاجونتی: اُتر نہ آؤں ۔ جیسا منہ ویسی بات۔

کشور: تو میرا منہ تمہاری جوتی کے لائق ہے ‘ کیوں؟

لاجونتی: تم اپنے منہ سے کہہ رہے ہو۔ میرا تو یہ مطلب نہیں ۔ میں تو کہتی ہوں تم کو روپے بھرنا پڑے تو میری پیزار سے ‘ مجھے کیا۔

کشور: پھر وہی یہی پیپرویٹ تمہارے منہ پر ایسا ماروں گا کہ سارے دانت حلق کے اندر ہوں گے۔

لاجونتی: ہے ہے ‘ اس موئے ریڈیو کے چلتے میرے دانت حلق کے اندر کیئے جائیں گے۔ اس ریڈیو کو آگ لگے۔ اس پر کڑکتی بجلی گرے‘ رکھے کا رکھا زمین میں سما جائے۔ اس گھر میں اس کو پھربجنا نصیب نہ ہو۔

(کھانسنے کی آواز۔۔۔ نرائن کی آمد)

کشور: کون؟

نرائن: میں ہوں نرائن

کشور: آؤ بیٹھو۔

نرائن: (آہستہ سے بجھی ہوئی آواز میں ) چپ بھی کرو‘ آہستہ بول‘ وہ آگیا ہے‘

باہر کھڑا ہے

لاجونتی: کون؟

نرائن: وہی۔

لاجونتی: وہی کون؟

نرائن: انسپکٹر۔۔۔ انسپکٹر۔۔۔ ریڈیو کا انسپکٹر

کشور: تو کیاہوا؟

نرائن: معلوم ہوتا ہے ‘ تم لوگوں نے لائسنس نہیں لیا ہے۔ اب ریڈیو بھی کاٹ دیا جائے گا اور پچاس روپے جرمانہ الگ بھرنا پڑے گا۔

کشور: جس کے پاس لائسنس نہ ہو‘ لیکن ہمارے پاس تو ہے۔

نرائن: کیا ہے؟۔۔۔خاک ہے تمہارے پاس۔۔۔

کشور: میں کہتا ہوں۔۔۔

نرائن: تم کچھ نہیں کہتے۔۔۔ تمہارے پاس لائسنس نہیں ہے مان لو نا۔۔۔

ا رے چغد ہو۔۔۔ اتنی سیدھی سادی بات نہیں سمجھتے۔۔۔ ارے

بھئی‘ جسے تم لائسنس سمجھتے ہو وہ ریڈیوکی رسید ہے‘ سمجھے ۔۔۔ لو اب خاموش رہو

لاجونتی: تو پھر کیا کرنا چاہیئے؟

نرائن: دس روپے جلدی دیجئے تاکہ اس کو کسی طرح راضی کیا جائے۔

لاجونتی: یہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ریڈیو کیا کوئی پستول ہے یا بندوق جو اس کا لائسنس لیا جائے۔۔۔ واہ یہ تو بڑا ظلم ہے۔

نرائن: بھابی جان آپ بھی غضب کرتی ہیں‘ گورنمنٹ کے جو اس قدر ریڈیو اسٹیشن کی تعمیر وغیرہ پر روپے خرچ ہوئے اور بجلی جو اتنی صرف ہوتی ہے‘ یہ جو آپ کو ملک ملک کی خبریں سنائی جاتی ہیں یہ جونئے نئے گّویوں اور اُستادوں کے گانے آپ سنتی ہیں‘ یہ کیا سب مفت میں ہو جاتا ہے۔ اس پر کیا آپ کے خیال میں کچھ خرچ نہیں ہوتا۔۔۔ لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں‘ لاکھوں روپے

لاجونتی: یہ بات ہے تو ٹھیک ہے۔

نرائن: تو اٹھئے جلدی دس روپے دارائیے اور آپ اٹھ کر ذراچلی بھی جائیے‘ تاکہ انسپکٹر صاحب۔ کو معذرت وعذرت کرکے مناونا کر دس روپے دیدوں۔

لاجونتی: اس مہینے کی تنخواہ میں سے ایک ہی نوٹ دس کا میں نے بچا کر رکھا تھا اس کو یوں غارت ہوا۔۔۔ یہ لیجئے۔۔۔ مگر انسپکٹر صاحب سے یہ ضرور کہئے گا۔ کہ اختری بائی فیض آبادی کو ہر روزگوایا کریں۔

نرائن: بہت بہتر میں کہہ دوں گا۔۔۔ آپ دوسرے کمرے میں چلی جائیے۔

(تھوڑا وقفہ)

نرائن: کہو‘ دادتو نہ دو گے۔

کشور: بھئی واہ۔۔۔ کمال کر دیا۔ خوب کیا‘ بہت ہی خوب سوجھی۔ تم نے جو کنکھیوں سے اشارہ کیا تو میں فوراً سمجھ گیا کہ تم کوئی عیّاری کرنے والے ہو۔

نرائن: کس طرح بھابی کو ٹالا۔ سارا غصہ رفوچکر ہو گیا۔ ریڈیو بھی ٹوٹنے سے بچا اور دس روپے بھی اینٹھ لیئے۔سُنا تم نے میٹرو میں بہت ہی اچھا فلم آیا ہے۔ پانچ روپے تمہارے اور پانچ میرے ۔ کچھ چورندم خور ندم ہو اور تماشہ بھی دیکھیں۔

کشور: بھئی خوب کہی‘ چلو ابھی چلتے ہیں (اونچی آواز میں) لا جونتی ہم دونوں ذرا انسپکٹر صاحب کے ساتھ باہر چلے ہیں‘ ابھی واپس آجائیں گے۔

فیڈ آؤٹ

مصنف:سعادت حسن منٹو

مزید ڈرامے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here