بازگوئی

0
197
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

صدیوں پرانے اس تاریخی شہر کے عین وسط میں عالمگیر شہرت کے چوراہے پر، بائیں طرف مضبوط اور کھردرے پتھروں کی وہ مستطیل عمارت زمانے سے کھڑی تھی جسے ایک دنیا عجائب گھر کے نام سے جانتی تھی۔۔۔ عجائب گھر کے بڑے ہال میں لمبے لمبے شوکیس پڑے تھے جن کے اندر ہزاروں برس پرانی تحریروں کے مسودے رکھے تھے۔

میں ان نسخوں کو دیکھتا ہوا دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا اور میری حیرانی بھی بتدریح بڑھ رہی تھی۔ عجیب و غریب رسم الخط تھے کہ۔۔۔ آج ہمارے قلم سے جو تحریر نکلتی ہے، وہ اس انسان کی تحریر سے کتنی مختلف ہے جو ہم سے ان گنت زمانے ادھر کھڑا ہے۔ یہ ساری تبدیلیاں کتنے انقلابوں کی تیز دھار پر سے چل کر رونما ہوئی ہوں گی؟

(جب میرے ذہن میں لفظ ’انقلاب‘ آیا تو میں ذرا سہم سا گیا۔۔۔ میں نے اپنی طرف سے بڑی ہوشیاری برتی اور نظریں چراکر ادھر ادھر دیکھا۔ کسی نے میرے خیال کو بھانپ تو نہیں لیا؟ لیکن میرے قریب اس وقت سوائے عجائب گھر کے اس افسر کے اور کوئی نہ تھا جو مجھے مسودے دکھارہا تھا اور اسے شاید کسی زندہ چیز، زندہ خیال یا زندہ تحریر سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔۔۔ ہاں، اگر آج ہم مرجائیں یا انقلاب کا تصور ان پرانے مسودوں کی طرح زرد اور بھربھرا ہوجائے تو وہ ہماری ممیوں کو اس عجائب گھر کے کسی شوکیس میں سجاکر رکھ دے گا۔)

ہم دونوں نے اچانک رک کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر بناکچھ کہے سنے آگے بڑھنے لگے۔۔۔ اس بڑے ہال سے باہر نکلنے والے دروازے کے قریب ایک مربع شکل اور نسبتاً مختصر شوکیس رکھا تھا جس میں صرف ایک مسودہ پڑا تھا۔

افسر نے کہا، ’’جناب والا! ایک مسودہ یہ بھی ہے۔ کس زبان میں لکھا گیا ہے، آج تک معلوم نہیں ہوسکا۔ کئی ماہر ِلسانیات اپنا سر کھپا چکے ہیں اور صرف کچھ لفظ پہچاننے میں کامیاب ہوسکے ہیں جیسے سوداگر، بچہ، دوشیزہ، شہرِ پناہ، رقص، نان، بازار۔۔۔ اور صرف یہی اندازہ لگاسکے ہیں کہ یہ کوئی بہت پرانی داستان ہے۔۔۔‘‘ میں اس کی بات غور سے سن رہا تھا اور میری نظریں مسودے پر جمی ہوئی تھیں۔

- Advertisement -

مجھے وہ تحریر کچھ جانی پہچانی لگی۔۔۔ پھر اس تحریر کے کچھ لفظ تصویروں کی طرح میرے ذہن میں ابھر آئے۔۔۔ پھر جیسے صحرا میں کوئی تیز بگولہ اٹھا۔۔۔ اور ساری بات آناً فاناً میرے ذہن میں ایک کلی کی طرح چٹک گئی، وہ میری ہی تحریر تھی۔

’’یہ تو میری ہی تحریر ہے۔۔۔‘‘ میں غیرارادی طو رپر چیخ اٹھا۔

افسر نے میرے تمتمائے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا اور مسکرانے لگا، ’’میں آپ کے جذبات کی قدر کرتاہوں۔ اپنے ورثے کو ہمیں اسی طرح اپنانا چاہیے۔‘‘

میں قدرے سنبھلا اور مجھے خیال آیا کہ اس تحریر کے بارے میں میرا بیان کئی قسم کی الجھنیں پیدا کرسکتا ہے۔ میں نے بات کا رخ بدلا، ’’بات یہ ہے جناب۔۔۔ میں تھوڑی سی کوشش سے یہ تحریر پڑھ سکتا ہوں۔۔۔ میں اس زبان سے واقف ہوں۔‘‘

’’تعجب ہے۔۔۔‘‘ اس نےحیرانی سے میری طرف دیکھا، ’’آپ تو لسانیات کے ماہر نہیں ہیں۔‘‘

’’جی ہاں! میں لسانیات کا ماہر نہیں ہوں لیکن کچھ زبانیں میں جانتا ہوں جو میں نے کسی سے سیکھی یا پڑھی نہیں ہیں۔۔۔ مثلاً میں آپ کو یہ تحریر پڑھ کر سناسکتا ہوں،‘‘ میں نے شوکیس میں رکھے ہوئے مسودے کے پہلے صفحے کی ابتدائی سطریں پڑھنا شروع کردیں۔

’’ابی نی او۔۔۔

نعمالِ فل اجانیر، شہر گرانیل ساحل۔۔۔

افتاد راغیاب آملو۔۔۔‘‘

عجائب گھر کا افسر تو گویا چکراکر گرنے ہی والا تھا کہ میں نے اسے تھام لیا۔ اس نے اپنی پتلون کی جیب میں سے میلا سا رومان نکالا اور اپنی پیشانی کا پسینہ پونچھنے لگا۔ پھر چند لمحوں کے بعد وہ بولا، ’’آپ۔۔۔ آپ نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا جھٹکا دیا ہے جناب والا! یہ ہزاروں سال پرانی تحریر آپ پانی کی روانی کی طرح پڑھ سکتے ہیں۔۔۔ کیا آپ اس کا مطلب بیان فرمائیں گے؟‘‘

’’ہاں کیوں نہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا اور پھر میں نے ان تین سطروں کامطلب بتایا جو ابھی میں نے پڑھی تھیں۔

’’یہ ان دنوں کی داستان ہے جب دریائے نیل کے ساحل پر ایک شہر آباد تھا۔ اس شہر کا نام اُجانیر تھا۔۔۔ اس شہر کے کھنڈروں میں آج میں اپنا غیاب بجاتا ہوا گھوم رہا ہوں اور پرانی داستان کھنڈروں کے پتھروں پر کھدی ہوئی ہے۔۔۔‘‘

عجائب گھر کے افسر کے گلے میں سے گھٹی گھٹی سی چیخیں نکلنے لگیں۔۔۔ اپنے استعجاب پر بمشکل قابو پانے کے بعد اس نے پوچھا، ’’یہ غیاب کیا بلا ہے؟‘‘

’’یہ اس زمانے کا ایک ساز تھا جس کی ترقی یافتہ شکل میں آج سارنگی موجود ہے،‘‘ میں نے جواب دیا۔

افسر لپکتا بھاگتا باہر نکل گیا۔۔۔ اور جب تھوڑی دیر بعد لوٹا، اس کے ساتھ عجائب گھر کے عملہ کے کافی سارے لوگ تھے۔ سب نے مجھے گھیر لیا۔۔۔ آخر طے یہ ہوا کہ میں وہ مسودہ سرکاری طور پر گھر لے جاؤں اور اس زبان اور داستان کا عقدہ حل کروں۔ لہٰذا میں وہ نسخہ اپنے گھر لے آیا۔

جب گھر پہنچا تو میں اداس اور پریشان تھا۔۔۔ ہزاروں سال پہلے کی اپنی زندگی کا ایک ایک واقعہ میرے دھیان میں آگیا تھا۔

زخم کے ہرا ہونے کا عمل اگر اندر سے دھیرے دھیرے زخم کے کھل جانے کو کہتے ہیں تو شاید آدمی آہستہ آہستہ سرایت کرتے ہوئے اس درد کاعادی ہوجاتا ہے۔ اور اگر اچانک زخم پر چوٹ لگے اور درد قابلِ برداشت نہیں ہوتا۔۔۔ میں اندر ہی اندر اس زخم پر لگی چوٹ کی وجہ سے بلبلا رہا تھا۔

آج ۱۹۸۷ء ہے اور ابھی سال بھر پہلے ہی ہم ایک زبردست سیاسی انقلاب میں سے گزرے ہیں۔۔۔ اس ملک کے عوام نے اندراگاندھی کے طرزِ عمل کے خلاف اپنے غم و غصہ کا بھرپور اظہار کیا اور چند ایک پرانے تجربہ کار سیاست دانوں اور چند ایک نئے خواہش مندوں کے ہاتھ اپنے ملک کی باگ ڈور سونپ دی۔۔۔ ان سب نے ایک ساتھ باپو کی سمادھی پر قسم کھائی کہ وہ ملک کی عظمت برقرار رکھیں گے اور نیک معصوم اور غریب عوام کی ایمانداری، نیک نیتی اور سچائی سے خدمت کریں گے۔

اور اسی دن کی رات نے جب اپنا دامن باپو کی سمادھی پر پھیلایا تو ایک جگنو مالکونی کی جھاڑیوں میں سے جگمگاتا ہوا نکلا۔ سمادھی تک پہنچنے سے پہلے وہ ہزاروں بار چمکا تھا۔ سمادھی پر پہنچ کر وہ بنا بجھے چمکنے لگا حتی کہ اپنے ہی بدن کی گرمی سے جل کر راکھ ہوگیا۔۔۔ اگلی صبح صفائی کرمچاریوں نے باسی پھولوں کے ساتھ ساتھ اس کی راکھ بھی سمیٹی اور جمنا کے پانی میں بہادی۔

اسی صبح اخباروں میں جو تصویریں اور خبریں چھپی تھیں، ان میں نہ جگنو دکھائی دیا تھا اور نہ ہی اس کی شہادت کی خبر۔

اُجانیر۔۔۔ اُجانیر۔۔۔

صحرا میں سے جو کارواں گزر رہے تھے، وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر خوشی سے پکار اٹھتے تھے، ’’اُجانیر، اُجانیر،‘‘ کہ یا تو لوگوں کا رخ اجانیر کی طرف ہوتا یا وہ اپنا سامانِ تجارت اجانیر کی منڈی میں اچھے بھاؤ پر بیچ کر شادمانی سے لوٹ رہے ہوتے۔۔۔ صحرا یہاں سے وہاں تک پھیلا ہوا تھا اور رہ رہ کر بگولے اٹھتے۔ سورج صحرا کے ذرے ذرے میں چمکتا تو لاکھوں کروڑوں سورج آنکھوں کے سامنے ناچ اٹھتے۔۔۔ دور سے گزرتے ہوئے کارواں حرکت کرتی ہوئی تصویروں کی طرح محسوس ہوتے۔

انہیں اڑتے ہوئے بگولوں اور حرکت کرتی تصویروں میں سے اس روز ایک کارواں دھیرے دھیرے شہر ِاجانیر جو ساحلِ نیل پر آباد تھا، کی سمت بڑھ رہا تھا۔ میرِ کارواں ملکِ ایران کا بہت بڑا سوداگر تھا اور تجارتی مال و اسباب میں خشک میوے، قالین اور جڑی بوٹیاں لے کر چلا تھا۔

اس کا نام فرید ابن سعید تھا اور اس کی نیک نیتی، ایمانداری او رمعاملہ فہمی کے چرچے قرب و جواب میں عام تھے۔ فرید ابن سعید جس ملک میں بھی تجارت کے لیے اپنا کارواں لے کر جاتا تھا، وہاں کا حاکم شہر کے دروازے پر اسے خوش آمدید کہتا۔ اسے اپنے ملک میں آزادی سے خریدفروخت کی پوری سہولیت دیتا اور اپنے تاجروں کو اس سے تجارت کا سلیقہ سیکھنے کی تلقین کرتا۔ فرید ابن سعید کا کسی ملک میں وارد ہونانیک فال سمجھا جاتا اور فرید ابن سعید سے لین دین کرنا خیروبرکت کی نشانی۔

ابھی اجانیر بہت دور تھا۔ سورج نے صحرا کے ذروں میں جگائے ہوئے چراغ ایک ایک کرکے بجھادیے تھے۔ نیل کی رگوں میں بہتا ہوا چاندی کا سیال کہیں نظر نہیں آرہا تھا کہ کارواں کو رات گزارنےکے لیے پڑاؤ ڈالنے کا حکم ہوا۔

خیمے تن گئے۔ اونٹوں کو وزن سے آزاد کردیا گیا، فرید ابن سعید کا خاص ملازم حقہ تازہ کرکے لے آیا۔ جیسے جیسے رات بڑھتی جارہی تھی خنکی بڑھتی جارہی تھی اور تھکے ہوئے مسافر اور جانور طعام کے بعد اونگھنے لگے تھے۔

فرید ابن سعید کے حقے میں سے ابھی تمباکو کا ذائقہ ختم نہیں ہوا تھا اور چلم میں ایک آدھ چنگاری کش لگانے سے ابھی چمک اٹھتی تھی کہ کہیں دور سے غیاب کی آواز سنائی دی۔

فرید ابن سعید کی نیم وا آنکھوں میں جیسے کوندہ سا لپک گیا۔ وہ ان سروں سے واقف تھا جو بہت دور کہیں گونجے تھے۔ کہاں کس نے غیاب بجایا ہوگا؟ زمین پر پھیلے ہوئے صحرا کے کون سے حصے میں؟ اس نےسوچا اور اس کے کان غیاب میں سے آہستہ آہستہ بیدار ہوتے ہوئے نغمے کے لیے بیتاب ہواٹھے۔

بہت دیر ہوگئی تو سر کچھ واضح ہوئے کہ صحرا میں چلنے والی ہوائیں شاید اپنے پاؤں میں گھنگھرو باندھنے کے لیے تھم گئی تھیں۔ وہ غیرواضح نغمہ ٹوٹ ٹوٹ کر اس تک پہنچ رہا تھا اور وہ اس کی گمشدہ کڑیاں خودبخود جوڑ رہا تھا۔

’’خدایا! تو نے مجھے ہاتھ عنایت فرمائے۔

تیرا شکریہ!

ہاتھوں کو تونے زنجیریں بنانے کا حکم دیا۔

تیرا شکریہ!

زنجیروں کو تونے میرے بدن کا زیور بنایا

تیرا شکریہ!

لیکن یہ مجھے کون گھسیٹ رہا ہے خدایا؟

یہ کوڑے کیا تیرے حکم سے برسائے جارہے ہیں؟

تو اپنے زیور واپس لے لے اور مجھے میرے ہاتھ دے دے۔

تیرا شکریہ!‘‘

فرید ابن سعید جانتا تھا کہ یہ غلاموں کا ترانہ ہے جو وہ اپنے آقاؤں سے چھپ کر ویرانوں میں جاکر گایا کرتے ہیں اور پھر ان کے چہرے آنسوؤں سے شرابور ہوجاتے ہیں اور ان پر عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور وہ الاؤ کی آخری لکڑی جلنے تک دیوانہ وار رقص کرتے ہیں کہ فرید ابن سعید کبھی خود غلام تھا اور اس نے یہ نغمہ اپنے غلام باپ کی آغوش میں بیٹھ کر سنا تھا اور پھر اپنی توتلی زبان سے آوازوں کے ساتھ اپنی آواز ملادی تھی، تیلا تکلیا! تیلا تکلیا! تیلا تکلیا!

اور اسے وہ منظر یاد آیا جب اس نے اپنے ننھے ہاتھ سے اپنے باپ کے چہرے سے آنسو پونچھے تھے۔

’’مہاتما گاندھی ہمارے راشٹرپتا تھے، پتاجی؟‘‘ میرے بیٹے نے پوچھا جو سامنے زمین پر بیٹھا اپنے اسکول کا ہوم ورک کر رہا تھا۔

’’ہوں۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘ میں نے چونک کر جواب دیا اور پھر مسودہ کھنگالنے میں لگ گیا۔

’’تو پھر ان کو مار کیوں دیا گیا؟ ‘‘اس نے پھر پوچھا۔

میرے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ میں نے بے دھیانی میں کہا، ’’ان کا شکریہ!‘‘

فرید ابن سعید بے تاب ہو اٹھا۔ اس نے اپنے خاص ملازم کو پکارا، ’’یوسف!‘‘

’’آق !‘‘کہیں دوسرے خیمے سے یوسف نے ہڑبڑاکر جواب دیا۔ اور پھر تیزی سے لپک کر اپنے مالک کے خیمے میں گھس گیا۔۔۔

’’آقا!‘‘ اس نے سرجھکا دیا۔

’’یہ نغمہ سن رہے ہو؟‘‘

یوسف مارے خوف کے کانپ اٹھا اور اس نے بغیر جواب دیے سر جھکادیا۔

’’جواب دو، بے وقوف ڈرو نہیں۔‘‘

’’ہاں آقا۔‘‘

’’کیا تم آواز کی سمت اندھیرے میں سیدھے جاسکتے ہو؟‘‘

’’ہاں آقا۔‘‘

’’تو جاؤ۔ اس مغنی کو ہمارے پاس لے آؤ اپنا سب سے زیادہ تیز رفتار اونٹ لے جاؤ۔‘‘

یوسف سرجھکائے ہوئے باہر نکل گیا۔ اس نے جگالی کرتے ہوئے تھکے ہارے اونٹ کو اٹھایا اور پھر صحرا کے اندھیرے میں گھس گیا۔

’’۱۹۴۲ء میں راشٹر پتا نے ’’ہندوستان چھوڑدو‘‘ کا نعرہ لگایا۔ سارا دیش ان کی آواز میں آواز ملاکر چیخ اٹھا، ’’ہندوستان چھوڑدو۔۔۔‘‘ میرا بچہ اپنی کتاب میں سے پڑھ رہاتھا۔

انگریزوں نے رہ نماؤں اور دیش بھگتوں کو چن چن کر جیلوں میں بند کردیا۔ سب طرف گولیوں کی آواز گونجنے لگی، لاٹھیوں سے بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کی ہڈیاں توڑی جانے لگیں۔ انگریز حکمراں ہر ابھرنے والی آواز دبادینا چاہتے تھے۔

گانے کی آواز کے ساتھ غیاب کی جھنکار صحرا کی خاموشی میں ایک پراسرار طلسم کی طرح آہستہ آہستہ ابھر رہی تھی جیسے کوئی بوڑھی عورت سسک رہی ہو اور اپنے جوان بیٹے کی لاش پر بیٹھی بین کر رہی ہو۔

یوسف اونٹ پر بیٹھا آندھی طوفان کی طرح آگے ہی آگے بڑھ رہا تھا۔ اسے یاد آیا اس کی ماں نے اسے آخری بار اپنی چھاتیوں سے دودھ پلایا تھا اور پھر جی بھر کر روئی تھی اور پھر اس کا ننھا سا جسم دوہاتھوں پر تھا۔ دو اجنبی ہاتھ، کرخت ہاتھ۔۔۔ اور اس کی ماں کی ہتھیلی پر چند سکے تھے۔

نغمے کی آواز آہستہ آہستہ قریب محسوس ہو رہی تھی۔

’’لیکن یہ مجھے کون گھسیٹ رہا ہے خدایا؟

یہ کوڑے کیا تیرے حکم سے برسائے جارہے ہیں؟

تو اپنے زیور واپس لے لے اور مجھے

میرے ہاتھ دے دے،

تیرا شکریہ!‘‘

آواز اب بالکل صاف سنائی دے رہی تھی۔ یوسف کو یاد آیا، یہ ترانہ ایک بار اس نے بھی گایا تھا۔ تب وہ بہت چھوٹا تھا۔ رات بہت اندھیری تھی۔ وہ سب ایک جنگل میں چلے جارہے تھے۔ جھاڑیاں ان کے جسموں پر کوڑوں کی طرح لگ رہی تھیں۔ ان سب نے زیور پہن رکھے تھے۔ جب وہ سب تھک کر چور ہوگئے، سب ایک جگہ ڈھیر کردیے گئے تھے۔ ان کی آنکھیں نیند کی وجہ سے بند ہو رہی تھیں۔ یہاں تک کہ ان کے آقا بھی سوگئے تھے اور پہرے دار بھی۔ تب دور ایک کونے میں کسی نے الاؤ جلادیا تھا سب ایک ایک کرکے اس الاؤ کے گرد جمع ہوگئے۔۔۔ اور کسی نے ’غیاب‘ پر نغمہ چھیڑ دیا۔ اور سب بیک آواز گانے لگے تھے، تیرا شکریہ! تیرا شکریہ!

اسے یاد آیا، آقاؤں کی نیند ان کے نغمے کی وجہ سے خراب ہوتی تھی اور انھوں نے پہرے داروں کو کوڑے برسانے کا حکم دیا تھا اور پھر سارے میں چیخ و پکار مچ گئی تھی۔

ہوا سیٹیاں بجاتی ہوئی کانوں کی لوؤں سے ٹکرا رہی تھی اور یوسف اونٹ کو پوری رفتار سے ہانکے جارہا تھا کہ اچانک اندھیرے میں اسے محسوس ہوا کہ وہ اس جگہ پہنچ گیا ہے جہاں ریت کے ٹیلے کافی اونچے ہیں۔۔۔ ایک ٹیلے پر ایک سیاہ دھبہ نظر آرہا ہے۔ اور غیاب کی آواز اسی دھبے میں سے ابھر کر چاروں طرف پھیل رہی ہے۔ کوئی مری ہوئی آواز میں ترانہ گا رہا ہے مگر الاؤ کہیں نہیں جل رہا ہے۔

’’تو اپنے زیور واپس لے لے اور مجھے

میرے ہاتھ دے دے،

تیرا شکریہ!‘‘

یوسف پکار اٹھا، ’’مغنی!‘‘

آواز سناٹے میں گونجی مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ یوسف نے اپنے اونٹ کا رخ ٹیلے کی طرح کردیا اور آگے ہی آگے بڑھنے لگا۔ حتی کہ وہاں پہنچ گیا جہاں دھبہ تھا۔ اس نے پھر آوازدی، ’’مغنی!‘‘

نہ دھبے میں کوئی حرکت ہوئی، نہ دھبے سے کوئی آواز نکلی۔ اس نے اونٹ کو وہیں بٹھادیا۔ نیچے اتر کر اور قریب جاکر اس نے دیکھا، ایک نیم مردہ شخص ہاتھ میں غیاب لیے پڑا ہے اس کے جسم میں کوئی حرکت نہیں، صرف چند سانسیں باقی رہ گئی ہیں، ہونٹوں سے ترانہ ابل رہا ہے اور ہاتھ اپنے آپ ہی غیاب کے تاروں پر گز پھرا رہے ہیں۔ ’’تیرا شکریہ! تیرا شکریہ!‘‘

یوسف نے مغنی کو اونٹ پر لادا کہ مغنی اس کی کسی بات کا جواب دینے کے قابل نہ تھا اور اس کا جسم بھی حرکت کرنے سے قاصر تھا اور پھر یوسف اپنے خیموں کی طرف روانہ ہوا۔

فرید ابن سعید اپنے خیمے میں اس کا منتظر تھا۔ اس کے حقے میں آخری چنگاری بھی بجھ چکی تھی اور تمباکو کا ذائقہ کسیلے غبار میں بدل چکا تھا۔

یوسف نے مغنی کو اس کے سامنے لاپٹکا اور اس کا غیاب اس کے قریب رکھ رک کھڑا ہانپنے لگا۔ کچھ کہنے کی ضرورت نہ تھی۔ فرید ابن سعید نے اپنی چھاگل میں سے مغنی کے چہرے پر پانی ٹپکایا تو اس کے سوکھے پپڑیوں جمے ہونٹوں میں حرکت ہوئی اور وہ قطرہ قطرہ پانی پینے لگا، مگر اسے ہوش پھر بھی نہ آیا۔ تب فرید ابن سعید نے یوسف کو اشارہ کیا کہ وہ طبیب کو بلائے۔ فوراً ہی آنکھیں ملتا ہوا طبیب حاضر ہوا اور اس نے سوجتنوں سے مغنی کو ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ اور جب مغنی نے آنکھیں کھول دیں تو سب کے دل کھل اٹھے اور چہروں پر رونق آگئی۔ فرید ابن سعید نے خدا کے آگے ہاتھ پھیلاکر دعا پڑھی، ’’خدایا تیرا شکریہ!‘‘

ایک رات ایک دن پڑاؤ رہا۔ آدمی اور جانور تازہ دم نظرآنے لگے۔ مغنی کھانے پینے کے قابل ہوچکا تھا کہ کارواں روانہ ہوا۔ ایک اونٹ پر اسے محمل میں لٹادیا گیا۔ میرِ کارواں بڑا رحم دل تھا اور شہرِ اجانیر ابھی بہت دور تھا جہاں نیل میں چاندی کا سیال سیال دھیرے دھیرے بہہ رہا تھا۔

اجانیر کا بوڑھا حاکم بڑا نیک دل انسان تھا۔ اس کے انتظام اور انصاف پسندی کا دور دور تک شہرہ تھا۔ اجانیر کے بازار کی رونق اسی کے دم سے تھی جہاں سوداگروں کا سامان اور خریداروں کی دولت بالکل محفوظ تھی۔ سرائے مسافروں سے بھری رہتی اور طعام خانوں سے پکوانوں کی خوشبوئیں اڑتی رہتیں۔ سپاہ لوگوں کی خدمت کے لیے تھی اور جیل خانے عرصہ سے مرمت نہیں کروائے گئے تھے۔

بوڑھا حاکم بازفادی کبھی کبھار اپنی جوان ملکہ شبروزی کے ساتھ اپنے محل سے نکل کر بازار کا نظارہ کرنے جاتا تو رعایا کی نظریں احترام سے جھک جاتیں۔ اس کی سپاہ کے جاں باز اس کے اشارے پر جان دینے کے لیے تیار رہتے اور پسینے پر خون بہانے کا فرض ادا کرنا اپنی خوش قسمتی سمجھتے۔

بازفادی بڑا سمجھ دار تھا۔ وہ مال خریدنے اور بیچنے والوں سے تھورا تھورا محصول وصول کرتا۔۔۔ اور آرام سے زندگی گزارتا۔ اس کا بیوپار اس کی نیکی کی شہرت پر منحصر تھا اور اس کے دن رات جوان ملکہ شبروزی کی آغوش میں چین سے کٹ رہے تھے۔۔۔ کہ۔ ۔۔کہ اچانک ایک رات کسی نے اسے قتل کردیا۔ اس رات بھی وہ شبروزی کے برہنہ جسم کو اپنے بوڑھے ہونٹوں سے چاٹ رہا تھا۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور صبح اس کی لاش خون میں لت پت پائی گئی۔

اس کے وزرا نے اتفاق رائے سے ملکہ کو اپنا نیا حاکم تسلیم کرلیا اور کاروبار معمول کے مطابق چلنے لگا۔ بازفادی کا ایک مجسمہ شہر کے چوک میں نصب کردیا گیا۔

فرید ابن سعید اجانیر میں واقع ہونے والی اس تبدیلی سےبالکل بےبہرہ تھا۔ اس کا کارواں تیز رفتاری سے صحرا کا سینہ چیرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔

ایک رات پھر پڑاؤ پڑا۔ مغنی اب بالکل بھلا چنگا تھا۔ الاؤ جلایا گیا اور اس کے گرد سب اکٹھا ہوئے اور اس نے نغمہ الاپا۔

’’جب صحرا تپتے ہیں، تیری رحمتیں کہاں جاتیں ہیں۔

اللہ ہو!

جب قزاق کارواں لوٹتے ہیں، تیرا انصاف کہاں جاتا ہے؟

اللہ ہو!

جب پکے پھلوں میں کیڑا پڑتا ہے، تیری قدرت کہاں جاتی ہے؟

اللہ ہو!

جب ننگے بدنوں پر کوڑے برستے ہیں، تیری شفقت کہاں جاتی ہے؟

اللہ ہو!

جب اونٹ کھڑے کھڑے دَم توڑ دیتے ہیں اور اسباب لاوارث ہوجاتا ہے۔ تیرے مددگار ہاتھ کہاں جاتے ہیں؟

اللہ ہو!

جب تیری پرستش کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ کاٹ دیے جاتے ہیں۔ تیری آنکھ کے آنسو کہاں جاتے ہیں؟‘‘

اور پھر سب ایک ساتھ پکار اٹھے، اللہ ہو، اللہ ہو! سب پر ایک کیفیت طاری ہوگئی اور سب بے اختیار رقص کرنے لگے۔ فرید ابن سعید کی آنکھوں سے بہنے والی آنسوؤں کو کسی ننھے سے ہاتھ نے پونچھا اور الاؤ کی آخری لکڑی جلنے تک رقص جاری رہا۔ یہ منظر بڑا دل گداز تھا۔

صبح جب کارواں روانہ ہونے لگا تو مغنی جس کا نام تلقار مس تھا، مالامال کردیا گیا۔ اسے ایک اونٹ، قالین اور دوسرا تجارت کا سامان انعام میں دیا گیا اور اسے ایک الگ بیوپاری کی حیثیت سے قافلہ میں داخل کرلیا گیا اور پھر کارواں اجانیر کی طرف بڑھا۔

اپنے اونٹ کی مہار پکڑے ہوئے تلقار مس نے پلٹ کر دیکھا۔ اونٹ مال و اسباب سے لداہوا سراٹھائے بڑے انداز سے چل رہا تھا۔ ایکا ایکی تلقار مس کو اپنے قدم وزنی محسوس ہوئے جیسے زنجیر سے وزن باندھ کر اس کے پاؤں کو جکڑ دیا گیا ہو لیکن بظاہر وہاں کچھ نہ تھا۔ وہ اس احساس سے حیران اور خوفزدہ سا ہوا۔ اور سرجھکائے قافلے کے ساتھ آگے بڑھنے لگا۔

سارا اجانیر نیند میں ڈوبا ہوا تھا۔ سارے چراع بجھ چکے تھے۔ بازار میں سے اونٹوں کی جگالی اور مسافروں کے خراٹوں کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔

محل میں حرم کی قندیلیں ابھی روشن تھیں۔ اور ملکہ شبروزی اپنے بستر پر برہنہ لیٹی ہوئی طلائی جام سے شراب کاایک ایک گھونٹ پی رہی تھی۔

اندھیری غلام گردش میں ایک سایہ رینگتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا۔ اندھیرے میں وہ بڑا پراسرار لگ رہا تھا جیسے کوئی بدروح اپنے منحوس پر پھڑپھڑاتی ہوئی آہستہ آہستہ تیر رہی ہو۔ وہ حرم کے دروازے پر جاکر رک گیا۔

پہرے دار گشت لگاکر جاچکے تھے اور خادماؤں نے سائے کو دیکھ کر اونگھنا شروع کردیا تھا۔ جب اس نے دروازے پر ذرا سا دباؤ ڈال کر پٹ اندر کو دھکیلا تو اندر جلنے والی قندیلوں کی روشنی میں اس کا سراپا جگمگا اٹھا۔

وہ اجانیر کی سپاہ کا افسرِ اعلیٰ جفیل تھا۔ اس نے حرم میں داخل ہوکر دروازہ اپنے پیچھے بند کردیا اور آہستہ آہستہ پلنگ کی طرف بڑھنے لگا۔ تب تک ملکہ شبروزی نے اپنی دونوں بانہیں اس کی طرف واکردی تھیں اور اس کے ہونٹ دعوتِ عیش دے رہے تھے۔ سپہ سالار جفیل نے پلنگ تک پہنچتے پہنچتے اپنے خوبصورت گٹھے ہوئے جسم کو لباس سے آزاد کردیا اور پھر اپنے ہونٹ ملکہ کے ہونٹوں پر جمادیے، کسی غیبی ہاتھ نے قندیل بجھادی۔

’’بڑی دلچسپ داستان ہے۔ کس نے لکھی ہے؟‘‘ میری بیوی نے پوچھا۔

بچے سب اسکول جاچکے تھے۔ میں بیٹھا مسودے سے سرکھپا رہا تھا اور میری بیوی سامنے بیٹھی سویٹر بن رہی تھی۔ ہم گھر میں بالکل اکیلے تھے۔

’’نہیں!‘‘ میں نے چونک کر جواب دیا، ’’داستان بہت پرانی ہے۔ کسی نامعلوم زبان میں لکھی ہوئی ہے۔ میں تو صرف اسے دہرا رہاہوں۔‘‘

’’ہزاروں سال گزر گئے، زندگی ویسی ہی چل رہی ہے! وہی سازشیں، وہیں قتل، وہی اندھیروں میں حرم کی طرف سفر کرتے ہوئے سائے۔۔۔‘‘ میری بیوی نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ باہر بنئے کا ملازم بل لیے کھڑا تھا۔

اجانیر کا اونچا دروازہ چاندنی میں دور سے یوں نظر آرہا تھا جیسے کوئی فرشتہ پر پھیلائے کھڑا ہو۔ قافلے کے لوگوں نے دروازے کی اوپری محراب میں سے چاند مسکراتا ہوا دیکھا۔ یہ نیک فال سمجھا جاتا تھا۔ سب کے چہرے شادمانی سے کھل گئے اور تھکے ہوئے قدم اپنے آپ تیز ہواٹھے۔ منزل سامنے نظر آرہی تھی۔۔۔ نیل شہر کی فصیل کے ساتھ ساتھ دوسری طرف بہتا تھا۔

ابھی آسمان پر چند ستارے باقی تھے کہ فرید ابن سعید کا کارواں شہر کے بڑے دروازے پرآرکا۔ اونٹوں کو سامان سمیت ہی بٹھادیا گیا اور قافلے کے لوگ شہر کی فصیل کے ساتھ پیٹھ ٹیک کر سستانے لگے۔ سب کو صبح کاانتظار تھا۔۔۔ جب بازفادی رسم کے مطابق قافلے کو خوش آمدید کہنے آئے گا، تحائف کا تبادلہ ہوگا۔ فرید ابن سعید خیروبرکت کی دعا مانگ کر قافلے کو اندر داخل ہونے کا حکم دے گا۔ مال و اسباب سرکاری گودام میں رکھا جائے گا تاکہ محفوظ رہے اور قافلے کے لوگ دریائے نیل میں غسل کے لیے کود جائیں گے۔۔۔ یہ منظر سب کی نظر میں گھوم گیا سوائے تلقار مس کے کہ اس کے لیے یہ زندگی کا پہلا سفر تھا اور پھر اس کے قدم وزنی بھی تھے۔

رسم کے مطابق فجر کو ملکہ شبروزی اپنے خاوند کی جگہ دنیا کے سب سے بڑے تجارتی قافلے کو خوش آمدید کہنےکے لیےدروازے تک آئی۔ اس کے پیچھے سارے شہر کی خلقت تھی اور اس کے ہم قدم سپہ سالار جفیل اپنی کمر کے ساتھ بندھی ہوئی تلوار کے دستہ پر ہاتھ رکھے موجود تھا۔ وزرا نے بڑے دروازے کے دونوں طرف زیتون کا تیل ٹپکایا اور فرید ابن سعید پر زرفنکی کے پھولوں کی بارش کردی۔ سب نے خوشی کے نعرے لگائے اس سے پیشتر کہ میرِ کارواں دروازے میں داخل ہو، اس نے اپنی جھولی میں سے ہیروں کا ایک ہار نکالا اور ملکہ شبروزی کے قریب جاکر تعظیم سے سرجھکاتے ہوئے کہا، ’’قابل احترام ملکہ اجانیر! میں یہ تحفہ اپنے دیرینہ دوست شاہ بازفادی کے لیے لایا تھا۔ افسوس، اب وہ نہیں رہے۔۔۔ یہ ہار آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے مجھے مسرت بھی ہو رہی ہے اور شاہ کی بے وقت موت پر گہرا رنج بھی۔۔۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی اس نے ہیروں کا قیمتی ہار ملکہ کے گلے میں ڈالنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھائے۔ ملکہ نے بھی اپنے سر کو تھوڑا سا جھکایا۔۔۔ اس سے پیشتر کہ اس کے ہاتھ ملکہ کی پیشانی تک بھی پہنچ پاتے، سپہ سالار جفیل نے تلوار کو میان میں کھینچا اور تلوار کی نوک پر ہار لے لیا۔ ہار تلوار کی تیز دھار پر سے پھسلتا ہوا اس کے ہاتھ میں آگیا۔

فرید ابن سعید نے حیرانی اور فکرمندی سے جفیل کے چہرے پر دیکھا۔ وہاں بالکل سپاٹ مسکراہٹ تھی۔ پھر اس کی نظر ملکہ شبروزی کے چہرے پر جم گئی۔ وہاں بھی سپاٹ مسکراہٹ تھی۔

اچانک جفیل کی آواز ابھری، ’’امیر فرید ابن سعید! شاہ بازفادی کے عہد میں جس طرح یہ تلوار تمہارے مال و متاع کی حفاظت کی ضمانت تھی، اسی طرح ملکہ شبروزی کے زمانے میں بھی یہ تلوار تمہاری حفاظت کی ضمانت ہے۔‘‘

فرید ابن سعید کے ذہن پر ایک خیال ہلکے سے بادل کی طرح چھا گیا۔ اس نے ایک لمحہ کے لیے کچھ سوچا اور ہاتھ اوپر اٹھاکر اپنے قافلے والوں کو شہر کے اندر داخل ہونے کا اشارہ کیا۔

ملکہ اور اس کے اہل کاروں نے قافلے کے لیے راستہ چھوڑ دیا۔ شہر کے اندر کی بھیڑ اور شہر کے باہر کی بھیڑ ایک دوسرے میں بالکل گھل مل گئی۔

فرید ابن سعید کے کارواں کے اجانیر پہنچنے کی خبر قرب و جوار میں پھیل چکی تھی اور اردگرد کی سلطنتوں کے بیوپاری پہلے ہی سے اپنامال و اسباب لے کراُجانیر پہنچ چکے تھے۔ سرائے میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ طعام خانے میں ایک ایک نان کے لیے چھینا جھپٹی ہونے لگی تھی اور اونٹوں کے چارے کے لیے لوگ مال خانے کے باہر کھڑے چلانے لگے تھے۔

دریائے نیل کے چاندی جیسے سیال میں انسانی جسموں کا میلہ سا لگ گیا۔ مہینوں کی گرد، دھول اور میل دھوتا ہوا پانی گہری سنجیدگی سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس کے کنارے سے بندھی کشتیاں حیرانی سے یہ منظر دیکھتی ہوئی خاموش کھڑی تھیں کہ اب ان کی جھولیں مال و اسباب سے بھر جائیں گی اور وہ اپنے وطنوں کو روانہ ہوں گی۔

بازاروں میں سے گزرتے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے اپنے سفر کی صعوبتوں کی داستان بیان کر رہے تھے۔ پچھلی ملاقات اور اس ملاقات کے درمیان جو وقت تھا اس میں کیا کمایا کیا کھویا، بتایا جارہا تھا۔ کہیں کوئی تکان۔ کہیں کوئی فکر کا نشان کسی کے چہرے پر نہ تھا۔۔۔ مگر فرید ابن سعید اپنے کمرے میں قالین پر بیٹھا ہوا حقہ گڑگڑاتا ہوا کسی گہری فکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کا خاص ملازم یوسف بڑی تندہی سے اس کی خدمت بجالانے کو تیار کھڑا تھا۔

کل جمعہ کا مبارک دن ہے اور وقت کا سب سے بڑا بازار لگنے جارہا ہے۔ تلقارمس جو ایک مغنی تھا، کل زندگی میں پہلی دفعہ ایک بیوپاری کی حیثیت سے انعام میں ملے ہوئے قالین، خشک میوے اور جڑی بوٹیاں لے کر بازار میں کھڑا ہوگا۔۔۔ وہ اندر ہی اندر کافی بے چین تھا۔

سورج نیل کے سیال میں دھیرے دھیرے ڈوبنے لگا اور چاندی کا سیال سونے کے رنگ میں رنگ کر سنہری ہوگیا۔۔۔ فرید ابن سعید نے جب دیکھا کہ رات نے ہر چیز پر اپنا طلسم پھونک دیا ہے تو یوسف کو اشارے سے پاس بلایا اور کہا، ’’عابد سے جاکر کہو، فرید ابن سعید نے سلام کہا ہے۔‘‘

یوسف سرکی جنبش سے احترام کا اظہار کرتے ہوئے باہر نکل گیا۔۔۔ سرائے سے باہر جاتے ہوئے اس نے دیکھا، تلقارمس اپنے غیاب پر بے خیالی میں دھیرے دھیرے گز پھرارہاہے۔

عابد کہنے کو تو حیوانوں کا طبیب تھا مگر اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔۔۔ فرید ابن سعید اور وہ دونوں اکٹھے ہی ایک بازار میں نیلام ہوئے تھے اور پھر ان کے آقا نے انھیں ایک ساتھ ہی آزاد کیا تھااور اپنا تجارت کا سامان فرید ابن سعید کو اور اپنا طب کا علم عابد کو دے کر خدا کو پیارا ہوا تھا۔ عابد کے باپ کا کسی کو کچھ علم نہ تھا، اس لیے وہ ایک ہی نام سے پکارا جاتا تھا۔ وہ بادشاہ بازفادی کے منظور نظروں میں سے تھا اور اکثر چوسر کا کھیل شاہی محل میں جاکر کھیلا کرتا تھا۔ بازفادی کے اونٹوں، گھوڑوں، خچروں اور دودھ دینے والی بھیڑوں کی صحت کی ذمہ داری بھی اس پر تھی۔ وہ اتنا ایماندار تھا کہ اکثر تاجر اس کے پاس اپنا فالتو سامان اور نقدی رکھ جایا کرتے تھے اور جب وہ دوبارہ آتے، انھیں تمام چیزیں صحیح و سلامت ملتیں۔ عابد مؤرخ کے فرائص بھی انجام دیتا تھا۔ اس کے پاس اس بات کااندراج موجود رہتا کہ کب کون آیا اور کون سا اہم واقعہ کب پیش آیا۔

عابد بیشتر فرید ابن سعید کو شہر کے دروازے پر ملا کرتا تھا، لیکن اس بار۔۔۔؟ اور یہی ایک خیال رہ رہ کر فرید ابن سعید کو ستارہا تھا۔

جہاں شہر کی چہاردیواری ختم ہوتی تھی، وہیں سے کھجور کا جنگل شروع ہوتا تھا۔ اس کے بعد وسیع چراگاہ تھی جس کے وسط میں ایک ٹیلہ تھا اور ٹیلے کے پہلو میں گرم پانی کاچشمہ تھا۔ اسی چشمے کے کنارے ٹیلے کی آغوش میں عابد کامکان تھا۔ مٹی کی اینٹوں سےدیواریں کھڑی کی گئی تھیں اور محرابوں پر چھت ڈالی گئی تھی۔

یوسف نے جنگل پار کرکے چراگاہ میں قدم رکھا اور دور چاندنی میں نظر آنے والے مکان کی طرف دیکھا۔ اسے کسی جھروکے میں روشنی دکھائی نہ دی۔ اس نے سر اٹھاکر آسمان کی طرف دیکھا۔ ستارے پوری آب و تاب سے چمک رہے تھے اور چاند محوِسفر تھا۔

’’وہاں روشنی کیوں نہیں؟‘‘ یوسف نے سوچا اور پھر آگے بڑھنے لگا۔

عابد کا مکان چاروں طرف سے بند تھا۔ کسی جاندار کے سانس لینے تک کی آواز نہ آہی تھی۔ یوسف نے مکان کے چاروں طرف گھوم کر دیکھا۔ اسے کہیں کچھ نظر نہ آیا۔ وہ ایک چکر لگاکر پھر صدر دروازے پر آگیا اور بے اختیار چلا اٹھا، ’’اے حکیم۔۔۔‘‘

شیشم کے ایک بڑے پیڑ پر سے ایک چیل چیختی ہوئی اڑی اورآسمان کی وسعت میں گم ہوگئی۔ یوسف کی چیخ سے نیل کے ساحل پر بیٹھی ہوئی ابابیلیں ’’چیاں چیاں‘‘ کرتی ہوئی نیل کے اوپر طواف کرنے لگیں اور پھر ہر طرف خاموشی چھاگئی۔

اس خاموشی اور تاریکی میں تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا یوسف شہر کی سرائے کی طرف لوٹ آیا۔

فرید ابن سعید نے سب حال سنا اور اپنی پشت پر ہاتھ باندھے کمرے میں ٹہلنے لگا۔

یوسف نے آقا کو فکر مند دیکھ کر کہا، ’’حقہ تازہ کرکے حاضر کروں؟‘‘

’’نہیں۔۔۔‘‘ فرید ابن سعید نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا، ’’اپنے سب بیوپاریوں سے کہہ دو کہ کل بازار نہیں لگے گا۔۔۔ اور مغنی سے کہو، غیاب پر غلاموں کا ترانہ بجائے اور سرائے کے صحن میں الاؤ جلادو۔۔۔‘‘

شاہی محل کے ایک کمرے میں قندیلیں روشن تھیں اور وسطی ہال میں فانوس اپنی نورانی کرنیں بکھیر رہے تھے۔ ایک بہت ہی خاص اجلاس بلایا گیا تھا۔ جس میں تمام وزرا اور مشیر مدعو تھے۔ شاہی نعمت خانے سے بھنے ہوئے گوشت کی سگندھ اٹھ رہی تھی اور بڑی میز پر شہتوت کی شراب کی صراحیاں سجی تھیں۔ تمام لوگ اجلاس کی غایت سے ناواقف تھے اور اسے محض شاہی دعوت سمجھ کر خوشی خوشی ناونوش میں غرق تھے۔

ملکہ تخت پر بیٹھی سب کو مسکراہٹیں بانٹ رہی تھی اور قریب ہی بیٹھا سپہ سالار جفیل ملکہ کے ساتھ سرگوشی میں گفتگو کر رہا تھا کہ اچانک وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے امرا و وزرا پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔۔۔ تب کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ میں ابھی تک ننگی تلوار ہے اور اس کے گلے میں فرید ابن سعید کا پیش کیا ہوا ہیروں کا ہار ہے۔

اسے کھڑا دیکھ کر سب طرف سناٹا چھا گیا۔ اس نے ایک بار پھر ملکہ شبزوری کے چہرے پر اپنی نظر ڈالی۔ دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں اور ایک بامعنی مسکراہٹ کا تبادلہ خیال ہوا۔ جفیل نے کہانا شروع کیا، ’’معززین، اس خاص اجلاس میں آنے کی تکلیف آپ لوگوں کو اس لیے دی گئی ہے کہ ایک بہت ہی اہم معاملے میں آپ لوگوں کی رائے کی ضرورت آن پڑی ہے۔۔۔‘‘ وہ تھوڑی دیر کے لیے رکا، پھر متحیر چہروں کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد کہنے لگا، ’’کل وقت کا سب سے بڑا بازار ہمارے شہر کی چہاردیواری کے اندر لگنے جارہا ہے جس میں قریب و دور کے سینکڑوں تاجر جامن کی گٹھلیوں سے لے کر غلاموں تک کی خرید و فروخت کریں گے اور جھولیاں بھر کر منافع کمائیں گے۔ اُجانیر دنیا بھر میں (جتنی دنیا دریافت ہوچکی ہے) اپنے وقت کی سب سے بڑی منڈی ہے۔ یہاں لوگوں کی عزت، مال و اسباب اور دولت، سب کی حفاظت ہوتی ہے۔ اور تاجر یہاں بلاخوف و خطر لین دین کرتے ہیں۔۔۔ ہمارے آنجہانی بادشاہ حضرت بازی فادی کے وقت میں دوباتیں رائج تھیں۔ ایک تو یہ کہ ہر مال کی فروخت پر ایک فی صدی محصول لیا جاتا تھا، دوسرے یہ کہ اگر کسی تاجر کو نقصان ہوجاتا تھا تو اسے سرکاری خزانے سے ایک برس کے لیے بلا سود قرض مل جاتا تھا۔ ایسے تاجر اور اس کے ضامنوں پر لازم تھا کہ اگلے برس جب وہ آئیں تو قرض کی رقم لوٹادیں، بصورت دیگر اسے اور اس کے ضامنوں کو بازارمیں خرید و فروخت کی اجازت نہ ملتی تھی۔۔۔ محترمہ ملکہ اس قانون کا پورا پورا احترام کرتی ہیں اور تاجروں کو زیادہ سے زیادہ سہولت دینےکے حق میں ہیں۔ لیکن وقت بدل گیا ہے۔ سرکاری اخراجات بڑھ جانے کی وجہ سے خزانے پر کچھ زیادہ ہی بوجھ آن پڑا ہے۔ اُجانیر اپنے محدود ذرائع سے اس بوجھ کو برداشت کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ لہٰذا ملکہ آپ لوگوں کے سامنےایک تجویز رکھتی ہیں کہ خرید وفروخت پر محصول تو ایک فی صدی ہی رہے لیکن خرید کرنے والے اور فروخت کرنے والے دونوں پر محصول لازم قرار دیا جائے۔۔۔ اور سرکاری خزانے میں سے دیے جانے والے قرض پر ایک فی صدی سود وصول کیا جائے۔ تجویز آپ کے سامنے ہے اور آپ سب حضرات کی منظوری لازمی ہے کہ یہی طریقہ اس ملک میں رائج ہے۔۔۔‘‘ چند لمحوں کے بعد جفیل نے اپنی ننگی تلوار فضا میں اٹھاتے ہوئے کہا، ’’آپ سب صاحبِ فہم لوگ ہیں۔ وقت کے تقاضے سے بخوبی واقف ہیں۔ ملکہ امید کرتی ہیں کہ آپ ان کی تجویز سے اتفاق کریں گے۔‘‘

سب طرف سناٹا چھا گیا۔ امرا و وزرا نے سرجھکالیے۔ سب طرف خوف ساطاری نظر آنے لگا۔ کسی نے زبان تک نہ کھولی۔

’’تو اس کا مطلب ہے، سب کو ملکہ کی تجویز منظور ہے۔۔۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے اور پھر تلوار بغل میں دباکر تالیاں بجائیں۔ سارے دربار میں اس کی تالیوں کی گونج سنائی دے رہی تھی اور ملکہ مسکراتے ہوئے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ اہلمد کو حکم دیا گیا کہ وہ شاہی تجویز کی منظوری پر سب کے دستخط کروالے۔۔۔ اور کانپتے ہوئے ڈھیروں ہاتھوں نے قلم تھام کر باری باری دستخط کردیے۔

جس وقت محل میں شاہی تجویز پر منظوری کے دستخط ہو رہے تھے، شہرِ اُجانیر کی سب سے بڑی اور سب سے عالیشان سرائے کے صحن میں الاؤ کے گرد لوگ دیوانہ وار ناچتے ہوئے غلاموں کاترانہ گا رہے تھے۔

’’تیرا شکریہ!

تیرا شکریہ!‘‘

اگلی صبح ویران اور بے رونق بازار میں سرکاری منّاد سپہ کی معیت میں داخل ہوا اور سرکاری اعلان پڑھ کر سنانے لگا۔

’’ملک خدا کا، حکم ملکہ کا، اطلاع برائے ہر خاص و عام۔ حاکمہ مقامی اور غیرمقامی تاجرین کو خوش آمدید کہتی ہے۔ ان کے جان و مال کی حفاظت کا یقین دلاتی ہے۔۔۔ یہ اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ آج سے اشیا کی خرید و فروخت، دونوں پر دونوں طرف سے ایک ایک فیصد محصول وصول کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ نقصان اٹھانے والے بیوپاریوں کو سرکاری خزانے سے حسبِ سابق قرض بھی دیا جائے گا لیکن اب قرض کی رقم پر محض ایک فیصد سود وصول کیا جائے گا۔۔۔ ملکہ کی نیک خواہشات خدا کے سب بندوں کو پیش کی جاتی ہیں۔‘‘

لوگوں نے یہ اعلان بازار میں کھڑے ہوکر نہیں، اپنے گھروں اور سرائے کے بلند دروازوں کے پیچھے کھڑے ہوکر سنا۔۔۔ اور سرکاری منّاد لوگوں کی بے توجہی سے بددل ہوکر جلد ہی واپس اپنے گھر لوٹ گیا۔

سورج کی روشنی محل کے گنبدوں پر پوری طرح پھیل گئی تھی جب ملکہ اور سپہ سالار شب باشی کے بعد اپنی نیند سے بیدار ہوئے۔ دونوں نے اپنے ہاتھ ایک دوسرے کے برہنہ جسموں پر پھرائے اور صبح کا پہلا بوسہ ایک دوسرے کے ہونٹوں پر ثبت کیا۔

غسل تیار تھا۔ دونوں نے خوب مل مل کر ایک دوسرے کے جسم سے، ایک دوسرے کی رطوبت اتاری اور تازہ دم ہوکر شاہی لباس زیبِ تن کیا اور ناشتہ بازار کی طرف کے جھروکے پہ لگوایا۔ دونوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر تازہ پھلوں کا رس پینے لگے۔ اچانک ان کی نظر بازار کی طرف اٹھ گئی۔ دونوں بھونچکے رہ گئے۔ بازار میں جہاں آج کھوسے سے کھوا چھلنا چاہیے تھا، کوئی نفس دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

دونوں ناشتہ نہ کرسکے۔ کھانے پینے کا سامان دسترخوان پر ویسے کا ویسا پڑا رہ گیا۔۔۔ دونوں جب دسترخوان سے اٹھے، خادمائیں دسترخوان پر بھوکی کتیوں کی طرح ٹوٹ پڑیں۔

سپہ سالار کے دفتر میں مخبر پہلے ہی سے کھڑے سپہ سالار کا انتظار کر رہے تھے۔ انھوں نے بتایا، محصول بڑھائے جانے کی خبر سے پہلے ہی فرید ابن سعید نے بازار نہ لگانے کا حکم دے دیا تھا۔۔۔ رات بڑی سرائے کے صحن میں الاؤ کے گرد غلاموں کا ترانہ بھی گایا گیا تھا۔ سب ساری رات ناچتے رہے تھے اور صبح ہونے تک تھک ہار کر سوگئے تھے۔۔۔

سپہ سالار جفیل کے ماتھے پر شکنیں پڑگئیں اور اس کا ہاتھ تلوار کے دستے پر جاکر ٹک گیا۔۔۔ اس نے داروغہ شہر کو حکم دیا کہ وہ فرید ابن سعید کو پکڑ کر ملکہ کے سامنے پیش کرے۔

فرید ابن سعید (اکیلا نہیں) اپنے سولہ جانبازوں کے ساتھ مسلح ہوکر دربار میں حاضر ہوا۔۔۔ جب وہ سرائے سے روانہ ہوا تھا، اس وقت تلقارمس سویا ہوا تھا۔ الاؤ کی راکھ میں چند چنگاریاں دبی پڑی تھیں۔ غیاب پاس پڑا تھا۔ فرید ابن سعید ایک لمحہ اس کے قریب رکا تھا۔ اسے بیدار کرنا چاہا تھا مگر پھر کچھ سوچ کر آگے بڑھ گیا تھا۔ لوگوں نے ویران بازار میں سے گزرتے ہوئے اسے دیکھا تھا اور ان کی طرف دیکھ کر اس کے جی میں آیا تھا، ’’کسی کو جھنجھوڑ کر جگانا ٹھیک نہیں!‘‘

ملکہ بڑی مروت سے پیش آئی۔ وزرا و امرا، سب خاموش بیٹھے تھے۔ جفیل کے چہرے پر بھی تناؤ نہ تھا، ایک ٹھہراؤ تھا اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔

’’آج جمعہ کی مبارک ساعت تھی۔ قاعدے کے مطابق بازار لگنا چاہیے تھا،‘‘ ملکہ نے بڑی ملائمیت سے کہا۔

’’جی ہاں ملکہ آپ ٹھیک فرماتی ہیں۔۔۔‘‘ فرید ابن سعید نے سنجیدگی سے جواب دیا، ’’میں جب بھی اپنی مال و اسباب لے کر اُجانیر آتا ہوں، قاعدے کے مطابق بازار لگنے سے پہلے حکیم عابد، خدا کے حضور میں تاجروں کی برکت کے لیے دعا کرتا ہے۔۔۔ وہ ابھی تک نہیں آیا ہے۔ رات میں نے اپنے ملازم کو اس کے گھر بھیجا تھا، وہاں نہ عابد تھا نہ کوئی اور نفس۔۔۔ مجبوراً بازار ملتوی کرنا پڑا۔‘‘

سارے دربارمیں ایک تناؤ سا پیدا ہوگیا۔ ملکہ نے سپہ سالار جفیل کی طرف دیکھا۔ وہ جیسے بے چین ہو رہاتھا۔ وزرا اور امرا، سب کے سر جھک گئے تھے۔۔۔ ملکہ گھبراسی گئی۔

سپہ سالار جفیل نے فوراً کہا، ’’محترم امیر، حکیم عابد کا اب دعا پڑھنا ممکن نہ ہوسکے گا۔ وہ حراست میں ہے اور اس کا مقدمہ زیر ِسماعت ہے۔۔۔ اس پر بادشاہ کو مارڈالنے کا الزام ہے۔ اس نے اونٹوں کو جلاب دینے والی دوا ہمارے نیک اور مہربان بادشاہ کو پلائی تھی جس سے ہمارے آنجہانی بادشاہ کی جلد پھٹ گئی تھی، خون پھوٹنے لگاتھا۔۔۔ وہ کربناک حالت میں جاں بحق ہوئے تھے۔‘‘

سپہ سالار جفیل کی اس اطلاع سے اُمرا اور وزرا کے چہرے حیرانی سے تن گئے۔ ملکہ کی گھبراہٹ دور ہوگئی اور اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے عاشق کی فہم و فراست کی داد دی۔

’’کیا اس بات کا علم اہل ِملک اور اہلِ دربار کو ہے؟‘‘ فرید ابن سعید نے معاملہ کی تہہ تک پہنچتے ہوئے پوچھا۔

’’فرید ابن سعید!‘‘ سپہ سالار جفیل دہاڑا، ’’تم ایک تاجر ہو اور تمہیں اپنی ہی حد تک رہنا چاہیے۔ ہمارے ملک کے سیاسی معاملات میں دخل دینے کا حق تمہیں کسی طرح نہیں پہنچتا کہ تم اس ملک کے باشندے نہیں ہو۔۔۔‘‘

’’جان کی امان پاؤں تو ملکہ صاحب میں کچھ عرض کروں۔۔۔‘‘ فرید ابن سعید جفیل کو نظر انداز کرتے ہوئے ملکہ سے مخاطب ہوا۔

’’اجازت ہے امیر!‘‘ ملکہ نے ایک ہاتھ ذرا سا اٹھاکر، سر کی جنبش سے اجازت دی۔

’’جس ملک میں سیاسی استحکام نہ ہو، تاجر اس ملک میں تجارت نہیں کرتا۔ شہر کے دروازے میں قدم رکھنے سے پہلے اس کا یہ جان لینا ضروری ہے کہ وہاں کا بادشاہ اور رعایا دونوں ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں یا نہیں۔۔۔ تاجر جس ملک میں بھی تجارت کرنے جاتا ہے اسے اپنا ہی ملک سمجھتا ہے۔ وہاں کے حاکم کا بھی فرض ہے کہ تاجر کو اپنے ہی ملک کا شہری سمجھے اور اسے وہی سہولتیں دے جو اپنے شہری کو دیتا ہے۔۔۔‘‘ فرید ابن سعید نے کہا۔

اس سے پہلے کہ سپہ سالار جفیل زبان کھولتا، ملکہ نے کہا، ’’ہم اپنے محترم مہمان کے خیالات کی قدر کرتے ہیں اور اسے اپنا ہی شہری سمجھتے ہیں۔۔۔ کیا امیر کو محصول کی شرح بڑھائے جانے پر بھی کچھ اعتراض ہے؟‘‘

’’جی ہاں ملکہ صاحبہ، یہ غیرواجب ہے۔ اس کا فیصلہ تجارت کرنے والوں کے مشورے کے بغیر نہیں کیا جانا چاہیے تھا!‘‘

’’ہم اپنا حکم واپس لیتے ہیں۔ اُجانیر کی شاندار روایت برقرار رکھنے کے لیے ہم ہر قربانی کے لیے تیار ہیں۔۔۔‘‘ ملکہ نے انتہائی فراخدلی کا ثبوت دیتے ہوئے بات کو بڑھنے سے روک دیا اور فرید ابن سعید کو باعزت طور پر دربار سے رخصت کیا۔

چائے میں چمچ چلاتے ہوئے میری بیوی نے پیالہ میرے سامنے رکھا اور مسکراکر کہنے لگی، ’’اب تک کی داستان سن کر دو سوال میرے ذہن میں ابھرتے ہیں۔‘‘

’’دوسوال؟‘‘ میں نے چائے کا گھونٹ بھرتے ہوئے پوچھا۔

’’داستان گو نے اپنے کرداروں کا حلیہ اور ان کے لباس اور ان کی وضع قطع کے بارے میں کچھ بیان نہیں کیا ہے، صرف ناموں سے فضا قائم کی ہے۔ دوسرے یہ کہ فرید ابن سعید شہریت کاحق پاکر اور محصول میں کمی کرواکر، بازفادی کے قتل اور عابد کے جرم کا سوال بالکل بھول گیا۔‘‘

میں نےتھوڑی دیر سوچنے کے بعد جواب دیا، ’’تم نے ٹھیک کہا۔ میں سمجھتا ہوں شاید داستان گو کا موضوع کردار، ان کا حلیہ اور ان کا زمانہ، نہیں بلکہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ کردار، حلیہ، نام، لباس اور وقت، سب بدل گئے ہیں مگر مسئلہ اپنی جگہ قائم ہے۔ غالباً اسی لیے داستان گو نے مسئلے کے خط و خال ابھارنے پر زور دیا ہے۔ شاید وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ ہم ہمیشہ چھوٹی چھوٹی مراعات پاکر بڑے بڑے سوالوں کو بھول جاتے ہیں۔ اب یہ تو خیر آگے پڑھنے پر ہی پتہ چلے گا کہ کیا فرید ابن سعید اپنے مہربان دوست بازفادی اور وفادار دوست عابد کو واقعی فراموش کرکے ملکہ شبروزی کے دربار سے رخصت ہوا۔۔۔‘‘ لہٰذا میں نے آگے پڑھنا شروع کیا۔

پہلے سات دن تک بازار لگا، ہر روز لاکھوں کا لین دین ہوتا رہا۔ آٹھویں دن لیکھا جوکھا کرنے کے لیے تاجروں نے چھٹی کی۔۔۔ تلقارمس نے انعام میں پایا ہوا سامان ایک ہزار اشرفی میں بیچنے کے بعد، ایک علیل تاجر کا سامان اونے پونے داموں خرید کر پھر بیچ ڈالا اور اسے مزید چارسو اشرفی منافع ہوا۔۔۔ اس نے اپنا غیاب سرائے کے کمرے میں رکھ دیا تھا اور تجارت کے اسرار و رموز جاننے میں لگا رہا تھا۔ اسے زندگی میں پہلی بار احساس ہوا تھا کہ نغمے الاپنے کے علاوہ بھی زندگی میں کچھ رکھا دھرا ہے۔ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کے خواب بننے لگا، مال و اسباب سے لدے ہوئے اونٹ، ملازم اور صحرا کی راتوں کی ٹھنڈی ہوا۔۔۔ آہ، ایسے میں غیاب بجانے کا لطف۔۔۔ وہ بہت مسرور تھا۔

چھٹی والی رات فرید ابن سعید کے دسترخوان پرایک مہمان آنے والا تھا۔ اس رات اس نے الگ سے طعام کا انتظام کیا۔۔۔ قافلے کے دوسرے لوگ اپنے نیفوں میں اشرفیوں کی تھیلیاں دبائے ہنستے کھیلتے، کھانے میں مصروف تھے کہ سرائے کی پچھلی طرف کی کھڑکی کے سامنے دو سائے رکے۔ دونوں سائے کمبلوں میں لپٹے چھپے تھے۔۔۔ پھر کھڑکی کھلی اور دونوں سائے اندر کود گئے اور راہ داری کے راستے فرید ابن سعید کے کمرے میں داخل ہوگئے۔ دروازہ ان کے داخلے کے ساتھ ہی بند ہوگیا۔

دونوں سایوں نے کمبل اتارے۔۔۔ ایک سایہ یوسف تھا اور دوسرا۔۔۔ دوسرا تھا داروغہ جیل۔ فرید ابن سعید نے کہا، ’’خوش آمدید!‘‘

داروغۂ جیل آگے بڑھا اور اس نے امیر کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھاما اور پھر اسے چوما، ’’کیوں شرمندہ کرتے ہو امیر! اگر تم نہ ہوتے، میرا وجود کب کا ختم ہوگیا ہوتا اور صحرا کے گدھوں تک کو میری لاش نہ ملتی۔ میں خود کو خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ تم نے مجھے یاد کیا۔ تم نے مجھے سازشی جفیل سے بچایا تھا، یہ میں کبھی بھول نہیں سکتا۔ میرے لیے کوئی حکم، کوئی خدمت؟‘‘

’’تو آؤ دسترخوان لگ چکا ہے۔۔۔‘‘ فرید ابن سعید نے مسکراتے ہوئے دسترخوان کی طرف اشارہ کیا۔

داروغۂ جیل نے پہلے امیر کی طرف دیکھا، پھر یوسف کی طرف اور ایک ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر پھیل گئی۔۔۔ پھر تینوں نے دعا کی، خدا کا شکر ادا کیا (کہ انھیں اس وقت کا رزق نصیب ہوا) اور کھانے میں مصروف ہوگئے۔

داروغۂ جیل جس کا نام مرشد تھا، بادشاہ بازفادی کے زمانے میں فوج میں ملازم تھااور یوں سپہ سالار جفیل کا رقیب تھا۔۔۔ امیر فرید ابن سعید (کہ مرشد کا محسن تھا) نے بادشاہ بازفادی سے کہہ کر مرشد کو فوج سے الگ کرواکر محکمۂ جیل میں رکھوادیا تھا۔۔۔ پیارے قارئین ویسے یہ بات کہنے کی کوئی ضرورت تو نہیں تھی۔۔۔

دورانِ طعام فرید ابن سعید نے پوچھا، ’’مرشد! کیا تم بتاسکتے ہو، عابد کا کیاہوا؟‘‘

مرشد نے نوالہ منہ میں ڈالنے سے پہلے ہاتھ روک لیا۔ وہ یکایک سنجیدہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر کچھ سوچتا رہا، پھر بولا، ’’عابد محل کےنیچے تہہ خانے میں قید ہے۔‘‘

’’کس جرم میں؟‘‘

’’آج کی تاریخ رقم کرنے کے جرم میں۔‘‘ مرشد نے جواب دیا اور نوالہ منہ میں ڈال لیا۔

’’کیا وہ بازفادی کے قتل کی اصلیت سے واقف ہے؟‘‘

’’ہاں امیر۔۔۔ اس نے اپنے روزنامچے میں درج کیا تھا کہ ملکہ اور جفیل نے مل کر بادشاہ کو قتل کیا۔ اس نے یہ بھی درج کیا تھا کہ خود پسند ملکہ شبروزی اپنے حسن کو قوت سمجھتی ہے اور اپنے حسن کے بل بوتے پر ملک کی حکومت اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے۔‘‘

’’کیا عابد کی رہائی ممکن ہے؟‘‘

مرشد سوچ میں پڑگیا، پھر بولا، ’’صرف ایک صورت ہے۔۔۔ اگر ہم عابد کی جگہ کسی اور کو تہہ خانے میں رکھ سکیں تو۔۔۔ لیکن بھید کھلتے ہی اس دوسرے شخص کی موت یقینی ہے۔‘‘

فرید ابن سعید نے ایک گہری سانس لی، ’’دوسرے شخص کا انتظام ہوجائے گا۔۔۔ مرشد! اب عابد کی رہائی تمہارے ذمے ہے۔‘‘

یوسف نے سراٹھایا، اپنے آقا کی طرف دیکھا، اور پھر مسکرایا، ’’آپ نے درست فرمایا امیر! دوسرا شخص حاضر ہے۔۔۔‘‘

فرید ابن سعید اور مرشد نے گھوم کر یوسف کی طرف دیکھا اور دونوں کے دل درد سے بھر گئے۔

بازار کل چودہ دن لگتا تھا۔۔۔ تیرہویں رات یوسف محل کے تہہ خانے میں بنے جیل میں بھڑبھونجے کے لباس میں عابد کو کھانا دینے گیا۔۔۔ ان کا انتظام مکمل تھا۔۔۔ اور پھر بھڑبھونجے کے لباس میں عابد جیل سے باہر نکل آیا۔

رات گہری تھی۔ چاند نظروں کے احاطوں میں نہیں تھا۔ ستاروں کی مدھم روشنی میں عبادت کدہ سرجھکائے خاموشی سے کھڑا تھا۔۔۔ عابد سرجھکائے عبادت کدے میں داخل ہوا (اس طے شدہ جگہ پر فرید ابن سعید اس کا منتظر تھا)۔ دونوں دوستوں نے نظریں ملتے ہی بازو ایک دوسرے کی طرف پھیلا دیے، دونوں بغل گیر ہوئے اور دونوں کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے۔

قارئین! وہ آنسو خوشی کے تھے یا غم کے، دونوں دوست بے خبر تھے۔ انھیں تو بس اتنی خبر تھی کہ ان کے دل کے کسی کونے میں ایک آواز گونج رہی ہے، مرحبا یوسف!

فرید ابن سعید نے بھنچی بھنچی آواز میں کہا، ’’ظالم جفیل اور بدکار ملکہ شاید اس لیے تمہیں قتل نہ کرسکے کہ خدا کو ہم دونوں کی ملاقات منظور تھی اور غائب میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔‘‘

’’تم ٹھیک کہتے ہو امیر! اس کے علاوہ ایک بات یہ بھی تھی کہ وہ اس مسودے کو حاصل کرنا چاہتے تھے جس میں میں حال کی تاریخ رقم کر رہا تھا۔۔۔ میں نے ہزار ظلم سہے، لاکھ صعوبتیں اٹھائیں لیکن انھیں یہ خبر نہ دی کہ مسودہ کہاں ہے۔۔۔ میں جانتا تھا کہ جیسے ہی ان ناہنجاروں کے ہاتھ مسودہ لگے گا، میرا سر تن سے جدا کردیا جائے گا۔‘‘

’’آفرین میرے دوست! کتنے ہوں گے تم جیسے جو ان مسودوں کو اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہیں جن میں وقت دل کی طرح دھڑکتا ہے۔۔۔‘‘

’’کل رات چلنے کی تیاری ہوگی اور پرسوں، فجر کے وقت کارواں روانہ ہوگا۔ تم اور تمہارا وہ مسودہ جس میں وقت دل کی طرح دھڑکتا ہے، کارواں کی حفاظت میں ہوگا۔۔۔ اور جب صدیوں بعد اُجانیر کے کھنڈروں میں سے گزرتےہوئے کوئی بکھرے ہوئے پتھروں سے یہ پوچھے گا، اے بدنصیب شہر! تجھ پر کیا بیتی؟ ہر پتھر کی زبان سازشوں اور ظلم کی داستان بیان کرے گی۔۔۔‘‘ فرید ابن سعید نے دھڑکتے دل سے کہا۔

دونوں عبادت کدے سے باہر نکلے اور صحرا کی گہری رات کے اندھیرے میں غائب ہوگئے۔

چودھویں رات اونٹوں کی پیٹھوں پر جھولیں ڈالی جارہی تھیں، محمل باندھے جارہے تھے کہ صحرا کی فجر کے اندھیرے میں کارواں کو کوچ کرنا تھا۔۔۔ ادھر جیسے سپہ سالار جفیل کے ننگے بدن پر چیونٹی رینگ گئی۔ وہ ملکہ شبروزی کے برہنہ جسم کی کڑی گرفت سے ایک تیز جھٹکے سے نکلا، دروازے تک آیا اور دروازے کے پٹ ذرا کھول، اس نے کرخت آواز میں پوچھا، ’’کون ہے؟ کس نے اس جگہ، اس وقت آنے کی ہمت کی ہے؟‘‘

دروازے کے باہر، ذرا ہٹ کر کھڑا جیل کا پہرے دار کانپتی آواز میں بمشکل تمام روداد بیان کرسکا۔۔۔ اس نے یہ بھی بیان کیا کہ فرید ابن سعید کا ملازم تو جیسے بالکل گنگ ہے، اس کے منہ سے تو چیخ تک نہیں نکلتی۔

سپہ سالار جفیل کا ننگا بدن غصے سے کانپنے لگا۔ پھر وہ غضب ناک آواز میں گرجا، ’’سپاہ کو تیار ہونے کا ہمارا حکم سنادو اور چھاؤنی کے میدان میں ہماری آمد کا انتظار کرو۔‘‘

تلقارمس نے اشرفیاں گنیں، تھیلی میں ڈالیں اور تھیلی کو نیفے میں اڑس لیا۔۔۔ اس کا اونٹ جگالی کرتا ہوا اس کی طرف تک رہا تھا۔ تلقارمس نے سوچا، وہ قافلے کے ساتھ اگلے شہر جائے گا اور یہاں سے خریدا ہوا سامان وہاں فروخت کرے گا، پھر وہاں سے خریدا ہوا سامان اگلے شہر میں فروخت کرے گا اور وہ دن دور نہیں، جب وہ شہر شہر، بازار بازار تجارت کرتا ہوا بہت بڑا تاجر بن جائے گا اور امیر فرید ابن سعید کی طرح ایک بڑے کارواں کا مالک ہوگا، سینکڑوں اونٹ اور لاکھوں کروڑوں کا مال اسباب اس کی ملکیت ہوگا۔

وہ اپنی خوش گوارسوچ میں غرق تھا کہ ہوا کے ایک تیز جھونکے سے دیوار کے ساتھ ٹکا رکھا اس کا غیاب زمین پر چھن سے آپڑا۔ اس کی سوچ کا سلسلہ ٹوٹا اور وہ غیاب کی طرف لپکا۔ اس نے غیاب اٹھایا۔ غیاب صحیح سلامت تھا۔ اس نے غیاب سینے سے لگایا تو اشرفیوں کی تھیلی نیفے سے پھسل کر زمین پر گرپڑی۔ اس نے جھک کر تھیلی اٹھائی تو غیاب کا گز ہاتھ سے پھسل کر زمین پر گرپڑا۔۔۔ وہ پریشان ہوگیا۔

شہر ِاُجانیر کا صدر دروازہ رات کو بند نہیں کیا گیا تھا۔ بہت سے تاجروں نے اپنےاونٹ شہر کے باہر فصیل کے ساتھ باندھ دیے تھے کہ کارواں چلے تو آگے جگہ پاسکیں۔ رات تھی کہ رتجگہ، رات بھر چہل پہل رہی تھی۔۔۔ رات کے پچھلے پہر مشرقی افق پر ایک ستارہ ٹوٹا اور لودے اٹھا۔ ستارے کی بشارت پاکر فرید ابن سعید نے کوچ کا حکم دیا۔۔۔ چند ہی لمحوں میں اونٹوں کی گردنوں کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔

آہ۔۔۔ فجر کا یہ وقت، خدائی رحمت جیسا دھندلکا، افق پر چمکتی ہوئی طلسمی آنکھ اور اونٹوں کی گردنوں میں جھولتی گھنٹیوں کے نغمے۔۔۔ تلقارمس کا جی چاہا، غیاب کی دھن پر الوداعی نغمہ چھیڑدے۔۔۔ اس نے دھیرے دھیرے نغمہ چھیڑا۔

اے نیل کے ساحل پر کھڑے فرشتے،

الوداع!

تم ہمیں بلانا، ہم پھر آئیں گے۔

تو ہمیں رزق دیتا ہے، جتنا ہمارے مقدر میں لکھا ہے۔

تیری مٹی پر سے ہمارے اونٹوں کے

نقشِ پا کبھی مٹ نہ سکیں گے۔

اگلی صبح جب ہم صحرا میں بیدار ہوں گے،

اللہ کی حمد گائیں گے کہ اس نےایک اور صبح ہمیں دکھائی

اور تمہیں ہم سلام بھیجیں گے۔

ہوائیں جب تمہیں ہمارا سلام دیں تو

اے اُجانیر کے فرشتے!

تو ہمیشہ کی طرح

اپنی شفقتیں ہمیں بخشنا!‘‘

نغمہ سن، سب سوگوار ہوگئے اور یوں تاجر بچے بھرے بھرے دلوں سے اُجانیر کے صدر دروازے سے باہر نکل کر، قطار درقطار آگے بڑھنے لگے۔

اُجانیر کا گردونواح کہ ایک عظیم نخلستان تھا، کارواں نخلستان کی ہریالی پیچھے چھوڑ کر، سامنے پھیلے صحرا کی ریت کے لب چومنے ہی والا تھا کہ سامنے ہزاروں چمکتی ہوئی ننگی تلواریں دکھائی دیں۔۔۔ تلواریں سیلاب کی طرح کارواں کی طرف بڑھنے لگیں۔ سب حیرانی سے چندلمحوں کے فاصلے سے آتی ہوئی افتاد کو دیکھ رہے تھے لیکن کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ ماجرا کیا ہے۔ آناً فاناً تلواریں اٹھیں اور تاجروں کے جسموں پر آن گریں۔۔۔ فضا میں خون کے فوارے اچھل پڑے۔

فرید ابن سعید پہلے تو کچھ نہ سمجھا لیکن پھر وہ بھید دوزخ کے دروازے کی طرح کھل گیا۔ اس نے محمل میں چھپے بیٹھے عابد کی طرف دیکھا جو مارے خوف کے دبکا پڑا تھا۔۔۔ فرید ابن سعید نے میان میں اپنی شمشیر کھینچ نکالی اور اللہ کا نام لیتے ہوئے اونٹ سے نیچے کود گیا۔ دوسرے تاجروں نے بھی تلواریں اور بھالے سونت لیے اور پھر جم کر لڑائی شروع ہوئی۔ مگر کب تک؟ تاجر بچہ گھر سے تجارت کرنے نکلتا ہے، لڑائی لڑنے نہیں۔ بہت سے تاجر شہید ہوگئے، بہت سے تاجر سپہ سالار جفیل کی فوج کے نرغے میں پھنس کر گرفتار ہوگئے، کچھ نکل بھاگے۔ نکل بھاگنے والوں میں تلقارمس بھی تھا۔ اس کی اشرفیوں کی تھیلی کہیں پھسل کر گر گئی تھی۔ وہ بمشکل اپنا غیاب بچاپایا تھا۔۔۔ فرید ابن سعید شدید طور پر مجروح ہوا اور گرفتار ہوا۔ عابد اس مسودے سمیت جس میں وقت دل کی طرح دھڑکتا تھا، پکڑا گیا۔

دربارِ عام میں زنجیروں میں بندھے جکڑے فرید ابن سعید، عابد اور یوسف کو پیش کیا گیا۔ استغاثہ نے تینوں کے جرائم کی تفصیل پیش کی۔ شاہانہ ٹھاٹ سے تخت پر سجی بیٹھی ملکہ شبروزی نے بڑی سنجیدگی سے مقدمے کی کارروائی سنی اور پھر ملزوں سے مخاطب ہوئی، ’’آپ لوگ اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہیں؟‘‘

دربارِ عام کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ تمام امرا و وزرا بہترین لباسوں میں، چمکتی ہوئی پیشانیوں کے ساتھ موجود تھے۔۔۔ سب طرف سناٹا تھا۔

ملکہ نے قریب ہی پڑی ہوئی ایک چوکی پر رکھی ہوئی کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پھر کہا، ’’ہمارے ملک کے دستور کے مطابق ملزموں کو اپنی صفائی پیش کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ تینوں ملزم اپنے حق کا استعمال کریں۔‘‘

وہ کتاب کافی بھاری بھرکم تھی۔ اس کی جلد پر خون سے لتھڑے بیسیوں انگوٹھوں کے نشان تھے کہ قاعدے کے مطابق ہر حکمران کو تاج پوشی کے وقت اپنے ہی خون میں اپنے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا ڈبوکر کتاب پر لگانا پڑتا تھا اور قسم کھانی پڑتی تھی کہ وہ ملک اور قوم کا وفادار رہے گا۔۔۔ اور اس کتاب میں سب رقم تھا کہ حاکم کو اپنی رعایا پر کس طرح حکومت کرنا ہے۔۔۔ صدیا ں بیت چکی تھیں، کئی حکمران بدل چکے تھے لیکن کتاب میں لکھی ہوئی ہدایتیں ویسی کی ویسی تھیں۔ جو حاکم بھی آیا، اس نے کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھا اور محسوس کیا کہ کتاب میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس سے اس کی اپنی ہستی خطرے میں پڑتی ہو۔۔۔

اس کتاب کی جلد کے ایک کونے میں ملکہ شبروزی کے دائیں ہاتھ کے انگوٹھے کا نشان موجود تھا۔۔۔ ملکہ نے تیسری بار کہا، ’’دستور کے مطابق ملزم سے تین بار پوچھنا ہمارا فرض ہے۔۔۔ ’’آپ لوگ اپنے صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہیں؟‘‘

فرید ابن سعید شدید طور پر مجروح تھا۔ وہ کچھ کہنے کے قابل نہ تھا۔ یوسف اپنے آقا اور اپنے آقا کے دوست عابد کی موجودگی میں زبان کھولنا مناسب نہ سمجھتا تھا۔۔۔آخر عابد نے دھیرے سے گردن اونچی کی، درباریوں کو ایک نظر دیکھا، ملکہ شبروزی کے چہرے پر نگاہیں جمائیں اور پھر سپہ سالار جفیل پر گاڑدیں۔ پھر دستور کی کتاب کو گھورتا ہوا بولا، ’’اس کتاب سے انصاف کی کوئی امید نہیں۔۔۔‘‘ اس حکومت سے انصاف کی کوئی امید نہیں۔ اس نظام سے انصاف کی کوئی امید نہیں۔۔۔‘‘ سب طرف چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ عابد کی جسارت سے لوگ خوفزدہ ہوگئے۔

سپہ سالار جفیل اٹھ کھڑا ہوا اور غضب ناک آواز میں گرجا، ’’اس کتاب سے انحراف بغاوت ہےاور اس کی سزا۔۔۔‘‘

’’یہ کتاب تم جیسے سازشیوں کی رفیق ہے۔ اس میں لکھا ہوا دستور، جرائم اور سزاؤں کا احوال جب آنے والی نسلیں جانیں گی تو تمہاری ذات پر حیف کہیں گی۔۔۔‘‘ عابد کی کڑک دار آواز گونجی، ’’جسے تم باغی قرار دیتے ہو، وہ عوام کے لیے نہیں تمہارے لیے خطرناک ہوتا ہے۔ کیا تمہاری یہ اندھی اور بہری کتاب کسی باغی کے دل کی دھڑکن دیکھ سکتی ہے، سن سکتی ہے؟‘‘

ملکہ شبروزی نے ہاتھ بلند کیا تو سناٹا چھاگیا، ’’بزرگ عابد! اس اندھی اور بہری کتاب ہی نے تمہیں یہ آزادی دی ہے کہ تم سرِبازارحاکموں کو سازشی کہہ رہے ہو۔ ہماری خواہش تھی، تم اپنے جرم کا اقبال کرلیتے اور رحم کی درخواست کرتے۔۔۔ اور ہم تمہاری پرانی خدمات کے صلے میں تمہاری جان بخش دیتے۔‘‘

’’اے بدکردار عورت، تم سے بھیک میں ملی ہوئی جان مجھے قبول نہیں۔ حق اور صداقت کی راہ میں موت یقینی ہے اور ہمیں منظور ہے۔ آج ہم اس منزل پر آپہنچے ہیں جہاں زندگی مکروہ ہے، موت حسین ہے۔۔۔‘‘

’’ع آ آ آعابد۔۔۔!‘‘ ملکہ چنگھاڑی اور غصے سے کانپتی مسند سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ سب کھڑے ہوگئے۔ سب خاموش تھے۔ کوئی سانس تک نہ لے رہاتھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے کسی پرانے عبادت کدے میں مجسمے رکھے ہوئے ہیں۔

ملکہ شبروزی جب دوبارہ اپنی مسند پر بیٹھی (دھیرے دھیرے سب لوگ اپنی اپنی جگہوں پر بیٹھ گئے) تو اس کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔ اس نے بمشکل کہا، ’’مجرموں کو دستور کے مطابق سزا دی جائے۔۔۔‘‘

دربار کا مہتمم آگے بڑھا۔ اس نے چوکی پر رکھی ہوئی دستور کی کتاب اٹھائی، ورق پلٹے اور ایک ورق پر لکھی ہوئی تحریر پڑھنا شروع کیا۔۔۔ ’’وہ جو حکومتِ وقت کے رائج کردہ قوانین پر شک کرے گا۔ انتظامیہ میں رخنہ ڈالے گا، سازش کرے گا، اسے باغی جانا جائے گا اور اسے بذریعہ سنگ باری سزائے موت دی جائے گی۔ اور ملک کا جو شہری باغی پر سنگ باری کرنے سے انکار کرے گا، اسے بھی باغی جانا جائے گا اور اسے بھی یہی سزا دی جائے گی۔۔۔‘‘

’’دربار برخواست۔۔۔!‘‘ ملکہ شبروزی اٹھی اور دربارِ عام سے چلی گئی۔۔۔ اس کے پیچھے سپہ سالار جفیل تھا۔

ہر طرف ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ وہ شور و غل تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔۔۔ سپاہ تینوں مجرموں کو دربارِ عام سے گھسیٹ لے گئی۔ مجرموں کو زنجیروں کی جھنکار شور و غل تلے دبی رہ گئی۔

اگلی صبح شہرِ اُجانیر کے مرکزی چوراہے پر، جس کے وسط میں بادشاہ بازفادی کا مجسمہ نصب تھا۔ زنجیروں میں جکڑے بندھے تینوں مجرموں کو لاپٹخا گیا۔۔۔ پھر شاہی منّاد نےشہر کے گلی کوچوں میں شاہی فرمان سنایا، ’’ملک خدا کا، حکم ملکہ کا۔۔۔ حکیم عابد و امیر فرید ابن سعید و غلام یوسف کہ جن پر انتظامیہ میں رخنہ ڈالنے، سازش اور بغاوت کرنے کا جرم ثابت ہوچکا ہے اور جنھیں بذریعہ سنگ باری سزائے موت دی گئی ہے، ملک کے عوام کے سامنے پیش ہیں۔ ہمارے ملک کی عظیم الشان روایت اور ہمارے ملک کے دستور کے مطابق خلقِ خدا خود اپنے ہاتھوں مجرموں کو سزا دے گی۔ ہر شہری کا قومی فرض ہے کہ وہ مجرموں پر سنگ باری کرے۔۔۔ حکم عدولی کرنے والے کو بھی یہی سزا دی جائے گی۔‘‘

سپاہ لوگوں کو گھروں سے نکال رہی تھی اور مرکزی چوک کی طرف دھکیل رہی تھی۔۔۔ خدا کے تینوں نیک بندوں پر سنگ باری شروع ہوچکی تھی۔

میرے بچے اسکول سے واپس آگئے تھے۔ میری بیوی ان کے لیے کھانا اور میرے لیے چائے بنارہی تھی۔

میں نے مسودہ ایک طرف رکھ دیا اور آنکھیں موند لیں، یہ دستور بھی عجیب چیز ہے۔ اس دستور کے مطابق حکومت کا سارا کام کاج چلتا ہے، پھر بھی مخالف پارٹی برسرِاقتدار پارٹی پر الزام لگاتی ہے کہ برسراقتدار پارٹی ڈھنگ سے کام نہیں کر رہی ہے، دستور کی بے حرمتی کر رہی ہے۔ برسرِاقتدار پارٹی یہ دلیل دیتی ہے کہ وہ جو کچھ بھی کر رہی ہے، دستور کے مطابق کر رہی ہے۔۔۔ پھر مخالف پارٹی برسرِاقتدار پارٹی بن جاتی ہے اور دستور کے مطابق کام کرنے لگتی ہے۔ اب پھر وہی الزام لگائے جاتے ہیں۔ یوں زندگی اسی طرح چلتی رہتی ہے۔ کہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ صرف پارٹیوں کا رول بدلتا رہتا ہے۔۔۔آخر اس دستور میں ایسی کیا بات ہے کہ ہر کام اس کے مطابق ہوتا ہے مگر عوام کے مسائل حل نہیں ہوپاتے لیکن پھر بھی ہر پارٹی کو یہ دستور قبول ہے۔۔۔ دستور کو بدلنے کو کوئی بھی تیار نہیں۔

کہیں ایسا تو نہیں، دستور صرف حکمرانوں کی سہولت کے لیے ہے؟

’’آپ نے کچھ کہا؟‘‘ میری بیوی نے رسوئی گھر سےآواز دی۔

’’نہیں تو۔۔۔‘‘ میں حیران ہوگیا۔ آخر میری سوچ نے جس نے آواز کا سہارا نہیں لیا تھا، میری بیوی تک کیسے پہنچ گئی؟

بازفادی سے پہلے، اس سے پہلے اور اس سے پہلے کوئی اور بادشاہ رہا ہوگا۔۔۔ جب ملکہ شبروزی کا عہد آیا، تب بھی سب لوگ دستور کا احترام کرتے رہے۔۔۔ سارے ستم دستور کی اسی کتاب کے مطابق ڈھائے گئے۔ فرید ابنِ سعید اور عابد پر بارش ِسنگ اسی کتاب کے حکم سے ہوئی۔

تلقارمس کارواں کے چند ساتھیوں کے ساتھ آہستہ آہستہ شہر کے مرکزی چوراہے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں غیاب تھا۔ دوسرے ہاتھ سے وہ زمین پر بکھرے پڑے پتھر چن چن کر اپنےجھولے میں سمیٹ رہا تھا۔ یہ پتھر اسے اپنے محسن پر برسانا تھے۔ وہ اپنی اشرفیاں خون خرابے میں کھوچکا تھا۔ اب اس کے پاس کھونے کو کچھ باقی نہ بچاتھا۔

دھوپ میں تینوں مجرم تین کھمبوں کے ساتھ بندھے ہوئے تھے۔ ان کے جسموں پر جگہ جگہ زخم تھے۔ زخموں سے خون بہہ رہا تھا اور ان کے لباسوں کو گلزار بنارہا تھا۔ وہ ظلم اور سازش کے خلاف کھڑے ہوئے تھے اور ان کو حق اور صداقت کا ساتھ دینے کی سزا مل رہی تھی۔۔۔ ان پر پتھر برسانے والے اکثر مرد، بچے اور عورتیں رورہے تھے۔۔۔ پتھر پھینکتے ہوئے ان کےہاتھ کانپ کانپ جاتے۔ جب کسی کاپتھر مجرموں پر ٹھیک نہ بیٹھتا، اس کے جسم پر سپاہ کے کوڑے سڑاپ سے پڑتے اور وہ تیزی سے پتھر اکٹھا کرنےلگ جاتا۔ پتھر اکٹھا کرتے ہوئے کئی بار وہ مجرموں کے قریب پہنچ جاتااور سہمی ہوئی نظروں سے ان کی طرف دیکھتا۔ غیرمتوقع طور پر ان کی آنکھوں میں خوف کے برعکس فرشتوں کی شفقت دکھائی دیتی۔ ان کی آنکھیں کہہ رہی ہوتیں، ’’تیرا شکریہ عزیز من! تو ہماری موت کو نزدیک لارہا ہے اور ہمیں اس عذاب سے رہائی دلارہاہے۔‘‘ اور پتھر اکٹھاکرنے والا چھلکتی ہوئی آنکھیں لیے بھاگ کر وہاں لوٹ آتا جہاں سے اسے پتھر برسانا ہوتے۔

تلقارمس جب وہاں پہنچا، اس کا دل یہ منظر دیکھ بھر آیا۔ اس نے اپنےجھولے میں سے پتھر نکالنے کےلیے ہاتھ ڈالا تو اس کی ماں کاچہرہ اس کی نظروں میں گھوم گیا۔ اس کی ماں نےاس کے ہاتھ میں غیاب تھماتے ہوئے کہا تھا، ’’خدا کی رحمتیں، میرے بچے، ہمیشہ تیرے ساتھ رہیں۔ تو مغنی ہے اور یہ تیرے مرحوم باپ کاغیاب ہے۔ تیرے باپ کے گلے میں اللہ نے وہ سوز پیداکیا تھا کہ پتھر بھی پگھل جاتے تھے۔ ایک دن تیرے باپ کا گلا اس لیے کاٹ دیا گیا کہ وہ ایک امیر کے مظالم کے خلاف نغمہ سراپا ہوا تھا۔ تب تو بہت چھوٹا تھا میرے بچے! آج کہ تو غیاب تھامنے کے قابل ہوگیا ہے، جا اور اپنے باپ کاادھورا کام پورا کر۔۔۔ گھر سے باہر نکل کر، گھر کی طرف پشت کرکے پیچھے کی طرف سات پتھر اپنے آنگن میں پھینک دینا کہ تمہیں گھر کی یاد نہ ستائے اور اللہ کی یاد ہمیشہ خون کی طرح تمہاری رگوں میں دوڑتی رہے۔۔۔‘‘ اس نے غیاب تھام لیا تھا اور ماں کے پاؤں کو بوسہ دیتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ ظالم کے لیے نہیں، مظلوم کے لیے اپنے غیاب کے تار چھیڑے گا۔

’’کیا وہ اپنا وعدہ پورا کر رہا ہے؟‘‘ وہ چونکا اور فوراً ہی اس کا سر شرم سے جھک گیا۔ اس کا ایک ہاتھ کہ جھولے میں سے پتھر نکالنے کےواسطے داخل ہوا تھا، خالی باہر نکلا۔۔۔ اس نے غیاب کا گز سنبھالا اور اب جو اس نے سراٹھایا، اس کے ہونٹوں پر غلاموں کا ترانہ تھرک رہاتھا، ایک اسم کی طرح جس میں بلا کی طاقت تھی۔

’’خدایا تونے مجھے ہاتھ عنایت فرمائے،

تیرا شکریہ!

ہاتھوں کو تونے زنجیریں بنانے کاحکم دیا،

تیرا شکریہ!‘‘

لوگ دھیرے دھیرے اس کے گرد اکٹھا ہونے لگے اور رفتہ رفتہ اس کی آواز کے ساتھ آواز ملاکر گانے لگے۔

’’ لیکن یہ مجھے کون گھسیٹ رہا ہے خدایا؟‘‘

تلقارمس نے تان اونچی اٹھائی اور نادانستہ طور پر جھولے میں سے پتھر نکال کر قریب کھڑی سپاہ پر پھینک دیا۔۔۔ ہزاروں پتھر سپاہ پر برسنے لگے۔۔۔

’’یہ کوڑے کیا تیرے حکم سے برسائے جارہے ہیں؟‘‘

اس نے تان اور اونچی اٹھائی۔ لوگ جوش میں تھر تھر کانپنے لگے۔۔۔ ہزاروں لاکھوں پتھروں کی بارش میں سپاہ کے کوڑوں کی سڑاپ اور تلواروں کی دھار کسی کام نہ آئی اور ظالم سپہ سالار کی سپاہ لہولہان ہوکر محل کی طرف بھاگنے لگی۔

’’تو اپنے زیور واپس لے لے اور مجھے

میرے ہاتھ دے دے،

تیرا شکریہ!‘‘

لوگوں میں عجیب ناقابل بیان جوش بیدار ہوگیا تھا۔۔۔ محل کے دروازے بند کردیے گئے۔ سارے چھوٹے بڑے حاکم محل کے اندر تھے اور سارے محکوم محل کی چاردیواری کے باہر بڑے دروازے پر کھڑے اونچی آواز اور اونچے سروں میں گا رہے تھے،

’’تو اپنے زیور واپس لے لے اور مجھے

میرے ہاتھ دے دے،

تیرا شکریہ!‘‘

محل کے اندر ایک سراسیمگی پیدا ہوگئی تھی۔ مٹھی بھر مسلح سپاہ نے ہزاروں لوگوں اور لاکھوں پتھروں کے سامنے جانے سے انکار کردیا تھا۔۔۔ ملکہ شبروزی نے چوکی پر رکھی دستور کی کتاب پر اپنے خون میں رنگے انگوٹھے کے نشان کو دیکھا اور مسکرائی اس نے قریب کھڑے سپہ سالار جفیل کی طرف دیکھا اور دوسرے ہی پل بڑھ کر سپہ سالار جفیل کی کمر سے بندھی ہوئی میان میں سے تلوار کھینچ لی اور اپنے ذاتی محافظ کو حکم دیا کہ جفیل کو گرفتار کرلیا جائے۔

تلقارمس جب شہر کے مرکزی چوراہے میں بندھے ہوئے ان تین مجرموں کے قریب گیا، اس نے دیکھا وہ دم توڑ چکے ہیں۔۔۔ ان کے لہولہان چہروں پر عجیب ملکوتی مسکراہٹیں تھیں۔

تلقارمس نے ان کے قریب بیٹھ کر ایک بار پھر غلاموں کا ترانہ چھیڑا اور لوگوں نے روتے روتے ان کے مردہ جسموں کو زنجیروں سے آزاد کردیا۔۔۔ تینوں مجرم نہ رہے تھے۔

’’تیرا شکریہ! تیرا شکریہ! تیرا شکریہ!‘‘

سورج غروب ہونے سے پہلے محل کا دروازہ آہستہ آہستہ کھلا۔۔۔ ملکہ شبروزی کے ہاتھ میں سفید جھنڈا تھا۔ آگے پیچھے امرا، مشیر اور وزرا تھے۔ مٹھی بھر مسلح سپاہ کے بیچ زنجیروں میں بندھا جکڑا، زخمی اور نڈھال جفیل تھا۔

لوگوں نے جو اک ہجوم کی صورت اکٹھا تھے، ملکہ کو دیکھا اور آپ سے آپ دائیں بائیں ذرا دبنے سمٹنے لگے۔ ہجوم کے درمیان آپ سے آپ راہ بنتی چلی گئی۔۔۔ ملکہ شبروزی شہر کے مرکزی چوراہے کی طرف بڑھی جہاں تلقارمس تین آزاد مردہ جسموں کے پاس غیاب بجارہا تھا اور نغمہ سرا تھا۔

ملکہ شبروزی نےمٹھی بھر مسلح سپاہ کو حکم دیا کہ تمام ہتھیار مغنی تلقارمس کے قدموں میں ڈال دیے جائیں۔ چند ہی لمحوں میں گم سم تلقارمس کے قریب ہتھیاروں کا ڈھیر لگ گیا۔ اس نے بھیگا ہوا، غم میں ڈوبا ہوا چہرہ اٹھایا اور ملکہ شبروزی کی طرف دیکھا۔۔۔ ملکہ پلکیں جھپکائے بنا اسے تک رہی تھی۔۔۔ دونوں کی نظریں چار ہوئیں۔ تلقارمس کو محسوس ہوا، اس کا غمزدہ دل پھڑپھڑا رہا ہے۔

ملکہ شبروزی نے تھرتھرائی ہوئی آواز میں کہنا شروع کیا، ’’اے مغنی! میں اپنے کیے پر نادم ہوں۔ میری عقل پر پتھر پڑگئے تھے۔ عوام اور تیرے مجرم کو میں نے اب پہچانا ہے۔۔۔ جس شخص نے ظلم ڈھائے، میں اسے تیرے حوالے کرتی ہوں۔ انصاف تیرے ہاتھ میں ہے۔۔۔ میں مجبور تھی، میری زبان پر تالے لگادیے گئے تھے لیکن آج میں یہ راز افشا کرتی ہوں کہ میرے خاوند مرحوم بادشاہ بازفادی کو سابقہ سپہ سالار جفیل کی ایما پر ہی قتل کیا گیا تھا۔۔۔ حکومتِ اُجانیر کی پرانی مجلسِ مشاورت توڑی جاتی ہے۔۔۔ میں صدق دلی سے اعلان کرتی ہوں کہ اُجانیر کے عوام، میری رعایا اپنے جن نمائندوں کو چنے گی، میں ان کی مدد اور مشورے سے حکومت کروں گی۔۔۔ میں نے داروغۂ جیل کو سپہ سالار مقرر کیاہے جو دراصل اس عہدے کا صحیح حقدار تھا اور اس کی حق تلفی ہوئی تھی۔۔۔ اے مغنی! آج تو نے، تیرے نغمے نے اُجانیر کے عوام ہی کو نہیں، مجھے بھی ظلم اور ناانصافی کے عہدے نجات دلائی ہے۔ میری اور میری رعایا کی نظروں میں تیرا بہت احترام ہے۔۔۔‘‘

ملکہ شبروزی وہیں زمین پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اس نے تلقارمس کے سامنے سرخم کردیا۔

لوگوں کا ناقابل بیان جوش جو ملکہ شبروزی کے ہاتھ میں سفید جھنڈا دیکھ کر تھم سا گیا تھا، اب ملکہ کی تھرتھراتی ہوئی آواز اور جھکے ہوئے نادم سر کو دیکھ کر پھر بپھر پڑا۔

’’ہمارا مغنی، زندہ باد!‘‘

’’ملکہ شبروزی، زندہ باد!‘‘

فرید ابن سعید، عابد اور یوسف کے آزاد مردہ جسموں کو نہایت احترام کے ساتھ شاہی قبرستان میں دفن کردیا گیا۔

جفیل کو ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔۔۔ وہ رات بھر کراہتا رہا اور انصاف کا انتظار کرتا رہا۔

رات بھر اُجانیر بیدار رہا۔

صبح دربار لگا۔ ملکہ شبروزی تخت پر سجی بیٹھی تھی۔ برابر کی نشست پر تلقارمس بیٹھا تھا۔ اس کا غیاب نشست کی پشت کے ساتھ ٹکا ہوا تھا۔ وزرا اور مشیروں کی نشستیں خالی تھیں۔

اتفاقِ رائے سے عوام نے تلقارمس کو وزیراعلیٰ چنا اور اسے اپنے مشیر چننے کا حق دیا۔

تلقارمس نے شہرِ اُجانیر کے تیرہ نہایت معتبر لوگوں کا انتخاب کیا۔۔۔ سب مسکراتے ہوئے چہرے لیے خالی نشستوں پر جابیٹھے۔ دربار تالیوں اور نعروں سے گونجنے لگا۔

سب تعظیم سے کھڑے ہوئے اور سب نے دستور کا وفادار رہنےکی قسم کھائی۔

نئی حکومت کا پہلا کام جفیل کامقدمہ تھا۔۔۔ زنجیروں میں جکڑےہوئے جفیل کو پیش کیا گیا اور دستور کے مطابق حکم پڑھا گیا کہ اس کا سر تن سے جدا کردیا جائے۔

جفیل نے حکم سنا اور اپنی سرخ آنکھیں ملکہ شبروزی کے رنگ بدلتے چہرے پر گاڑدیں۔۔۔ چند لمحوں کے بعد اس نے پھنسی پھنسی آوازمیں کہا، ’’کتیا!‘‘ اور حقارت سے فرش پر تھوک دیا۔

اُجانیر کا وہ دن نجات کا دن تھا، اس دن کی رات آزادی کی رات تھی اور اسی طور منائی گئی۔ دریائے نیل میں سینکڑوں جلتے ہوئے چراغ بہائے گئے۔ بھٹیارخانوں میں تمام رات گوشت بھنتا رہا اور لوگوں نے ایک دوسرے پر شرابیں انڈیل دیں۔

اُدھر محل میں جشن کا رنگ ہی کچھ اور تھا۔۔۔ تمام امرا، وزرا اور عہدے دار رات بھر دادِ عیش دیتے رہے۔۔۔ اور جب ہر شخص ترنگ میں تھا، آس پاس سے بے خبر تھا اور چاند آسمان کے بالکل وسط میں تھا، ملکہ شبروزی نے تلقارمس کا ہاتھ تھام کر دل گرماتی ہوئی بھنچی بھنچی آواز میں کہا، ’’آؤ تمہیں دکھاؤں، ہمارا اُجانیر اور اس کا گرد و نواح اور اس پر جھکا ہوا آسمان کتناحسین ہے۔۔۔‘‘

تلقارمس آپ سے آپ ملکہ کے ساتھ کھنچتا چلا گیا۔۔۔ غلام گردشیں، زینے۔۔۔ زینہ کھنچتا کھنچتا وہ محل کی چھت پر پہنچ گیا۔ ملکہ اسے محراب کے نیچے کھینچ لے گئی۔

یہی محراب اس نے محل کے نیچے سے، محل کے باہر سے بھی دیکھی تھی۔ باہر سے اس نے جب بھی محل دیکھا تھا، اسے بہت خوبصورت لگا تھا۔۔۔ چاند آسمان کے بالکل وسط میں تھا۔ اسے دھیان آیا، جب وہ فرید ابن سعید کے قافلے کے ساتھ شہرِاُجانیر میں وارد ہواتھا، اس رات سب نے چاند دیکھا تھا اور کہا تھا کہ یہ نیک فال ہے۔۔۔ محل کی چھت پر جھکا ہوا آسمان۔ آسمان کے وسط میں چاند، نیچے شہر، پیڑ اور چاندی کی لکیر سا دریائے نیل، مکان اور مکانوں کے سائے۔ جی تڑپے کہ عمرِ جاودانی مل جائے! محل کی یہ چھت، یہ محراب، یہ منظر۔۔۔ حسن کی یہ تصویر کشی۔۔۔

’’کیا تم میرے لیے ایک نغمہ گاؤگے؟‘‘

سکوت میں سے دھیرے سے ابھرتی آواز نے تلقارمس کو چونکا دیا۔ اس نےتعجب سے ملکہ شبروزی کی طرف دیکھا۔۔۔ اسے ملکہ شبروزی حسن کی تصویر کشی کا بھید محسوس ہوئی۔ وہ بمشکل کہہ سکا، ’’ میرا غیاب۔۔۔؟ میرا نغمہ۔۔۔!‘‘

ملکہ شبروزی نے ایک ہاتھ سے تلقارمس کا ہاتھ تھام رکھا تھا اور اس کے دوسرے ہاتھ میں پشت سے لگا ہوا تلقارمس کا غیاب تھا، ’’تمہارا غیاب مجھ سے جدا نہیں۔۔۔ یہ لو!‘‘ اس نے بڑی پرکشش آواز میں کہا۔

تلقارمس نے کانپتے ہاتھوں سے غیاب تھاما، اس کے تاروں پر گز پھیرا اور پھر نغمہ اسے لے اڑا۔

’’میں کہاں ہوں، یہ لگن کیا ہے!

تم ہی کہو، یہ مژدہ بہار ہے؟

بھٹکتا، ٹھوکریں کھاتا

منزل پر پہنچا ہوں،

مگر یہ انتظار کے فاصلے کیسے ہیں؟

کتنے دردناک لمحے ہیں!‘‘

غیاب کی دھن، نغمے کے بول، سکوت کو چیرتی ہوئی حسرت بھری آواز۔۔ تلقارمس آسمان میں کہیں کھوگیا۔ اپنے ہونے نہ ہونےکا، چاند اور گنبدوں کا، برجیوں کے سایوں کا، اسے کسی کے وجود کا احساس نہ رہا۔ دھیرے دھیرے اس کی حسرت بھری آواز غیاب کی دھن اک انجانی تھکن اک انجانی نیند میں ڈوب گئی۔۔۔ جب وہ بیدار ہوا، اس کے لبوں پر ملکہ شبروزی کے شہوانی لب پیوست تھے، ’’اتنا دل پذیر نغمہ میں نے آج تک نہیں سنا ہے۔۔۔ یہ رس بھرا بوسہ میری قدردانی ہے۔۔۔ عورت جب کسی کی قدر کرتی ہے، یہی لازوال سوغات دیتی ہے۔۔۔‘‘

ابھی تلقارمس نہ سنبھل پایا تھا، نہ کچھ سمجھ سکا تھا، ملکہ شبروزی زینوں میں کہیں اوجھل ہوگئی۔

میری بیوی اور بچے بڑے انہماک سے داستان سن رہے تھے کہ یہ داستان کا بڑا خطرناک موڑ تھا، میں نے دیکھا، ان کے چہرے قدرے زرد پڑگئے ہیں اور ان کے ہونٹ سوکھ سے گئے ہیں۔ ان کی آنکھوں کی چمک ماند پڑگئی تھی۔۔۔ وہ داستان میں کھوئے ہوئے تھے۔

اُجانیر میں ملکہ شبروزی کی سرپرستی میں نئی حکومت قائم ہوئے کئی مہینے گزر چکے تھے۔ حکومت کا کام کاج بڑی خوش اسلوبی سے، لوگوں کی خواہش کے مطابق چل رہا تھا۔۔۔ ملکہ شبروزی اور تلقارمس راتوں کوشہر کے گلی کوچوں اور بازاروں میں گھومتے اور دیکھتے بھالتے، کوئی سردی سے ٹھٹھر تو نہیں رہا، کوئی بھوکا تو نہیں سوگیا۔

تلقارمس نے سوچ رکھا تھا، شہرِ اُجانیر میں ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو اس کی ذمہ داری میری ہوگی۔

ملکہ کا دن رات کا ساتھ تلقارمس کو اندر ہی اندر سلگارہا تھا۔ وہ اس احساس کو کوئی نام نہ دے پارہا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ ملکہ کے لیے تڑپ رہا ہے اور وصال ہی سے اس کے اندر کی آگ بجھ سکتی ہے۔

ملکہ شبروزی تلقارمس کی ذہنی حالت سے باخبر تھی۔۔۔ وہ طرح طرح سے اس کی آگ بھڑکاتی۔ کبھی کبھی وہ دانستہ بے خبری برتتے ہوئے اپنا جسم تلقارمس کے سلگتے ہوئے جسم سے مس کرتی اور پھر یوں الگ ہوجاتی جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ تلقارمس لمس کی حدت لیے تڑپتا رہ جاتا۔۔۔ وہ اب ملکہ سے آنکھ ملاکر بات کرنے کے قابل بھی نہ رہاتھا۔

تنہائی کے اداس لمحوں کی شدت سے اس کا سر گھوم جاتا اور وہ دھیان ہی دھیان میں ملکہ شبروزی کے برہنہ جسم کی اٹھانیں چومتا، گولائیاں چاٹتا، ایک ایک عضو پر بوسے دیتا۔۔۔ آخر اسے دھیان کی دنیا سے لوٹنا پڑتا۔ اس کاجسم اینٹھ اینٹھ کرٹوٹ چکا ہوتا۔

اب اس کے نغمے ملکہ کے حسن کا چرچا تھے لیکن ملکہ شبروزی نے کبھی وہ مرحلہ آنے ہی نہ دیا کہ وہ نغمے گوش گزار کرسکتا۔ وہ ہمیشہ کام کاج کی زیادتی کے بہانے ٹل جاتی اور تلقارمس شکست خوردگی کے احساس میں ڈوب جاتا۔

ایک شب انہیں شہر نوردی کے لیے نکلنا تھا۔۔۔ ملکہ نے دربار میں بنا اس کی طرف دیکھے اسے کہا تھا۔۔۔ وہ ملکہ کو ساتھ لینے کے واسطے گیا۔ ملکہ اسے کہیں دکھائی نہ دی۔ کہیں کوئی کنیز بھی نظر نہ آرہی تھی کہ پوچھ پاتا۔ وہ سیدھا اندر چلا گیا۔ اس کا دل دھک کرکے رہ گیا۔ ملکہ کے انگ انگ کا لباس قدم قدم بکھرا پڑا تھا۔۔۔ اس کے رکتے بڑھتے بے قابو قدم اسے حمام تک کھینچ لے گئے۔

ملکہ شبروزی حمام کے چوبچے میں برہنہ بدن نہا رہی تھی۔۔۔ اس کے پاؤں پتھر ہوگئے۔ وہ جہاں رک گیا تھا، وہیں کا ہو رہا۔۔۔ وہ جسم جو اس کی آنکھوں کے سامنے تھا، اس جسم سے کہیں زیادہ خوبصورت تھا جسے اس نے اپنے دھیان میں چوما تھا، چاٹا تھا اور جس کے ایک ایک عضو پر ہزار ہزار بوسے دیے تھے۔

وہ کب تک وہاں کھڑا رہا۔ اسے کچھ خبر نہ تھی۔

چونکنے کے بعد وہ اپنے آپ میں آیا تو ملکہ شبروزی کہہ رہی تھی، ’’وزیراعلیٰ اور ملکہ کے حمام میں؟ کیا یہ مناسب ہے۔۔۔؟‘‘

وہ کچھ نہ کہہ سکا۔ اس نےملکہ کے چہرے کی طرف دیکھا۔ عجیب شرارت بھری مسکراہٹ تھی ملکہ کے چہرے پر۔ اس نے پھر کچھ کہنا چاہا مگر کچھ نہ کہہ سکا۔ پشیمانی میں اس نے نظریں نیچی کرلیں۔

ملکہ نے ہلکا سا قہقہہ اس کی طرف اچھال دیا اور۔۔۔ تلقارمس نے ملکہ کو انگ انگ لباس پہنتے دیکھا۔

کپڑے پہن، بن سنور وہ باہر نکل گئی۔۔۔ وہ لپکا۔ دونوں محل کی غلام گردشوں سے ہوتے ہوئے بڑے دروازے کے راستے باہر نکل گئے۔

اس رات ملکہ کے قدم شہر کی طرف نہ اٹھے۔ وہ کھجور کے جنگل سے ہوکر مرحوم عابد کے ویران گھر کی طرف نکل گئی۔ تلقارمس سائے کی طرح ساتھ لگا رہا۔

ان کے قدموں کی آہٹ سے قرطونی کے پیڑ پر ایک چیل چیخی اور آسمان کی سمت اڑنے لگی۔

ملکہ شبروزی مارے خوف کے تلقارمس کی بانہوں میں آن گری اور گہرے لمبے سانس لینے لگی۔۔۔ سانس درست کرنے کے بعد ذرا مچلتے ہوئے بانہوں کے حلقے سے نکلنے لگی تو تلقارمس نے ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا، ’’میں مرجاؤں گا شب۔۔۔‘‘

’’کیا ہوا میرے محترم وزیر اعلیٰ؟‘‘

’’نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔ وزیر اعلیٰ نہیں۔۔۔ خادم تمہاراخادم۔۔۔‘‘

ملکہ شبروزی ہلکا سا قہقہہ فضا میں گونج پیدا کرگیا۔۔۔ تلقارمس کو محسوس ہوا، چیل پھر چیخی ہے، لیکن نہیں۔۔۔

’’شبروزی۔۔۔‘‘

’’مجھے حاصل کرنا چاہتے ہو؟‘‘

’’شب رو۔۔۔‘‘

’’صلہ کیا دوگے؟‘‘

’’تمہارا حکم شبروزی، تمہارا حکم۔۔۔‘‘

’’دنیا میں سب سے زیادہ کیا عزیز ہے تمہیں۔۔۔ میرے علاوہ؟‘‘

’’ماں اور غیاب۔۔۔‘‘

’’میں غیاب مانگ کر تمہارے دل پذیر نغمے نہیں چھیننا چاہتی جو مجھے جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔۔۔ کیا تم میرے لیے اپنی ماں کا دل نکال کر لاسکتے ہو؟‘‘

’’کیا۔۔۔؟‘‘ تلقارمس چونکا اور اس کی بانہو کا حلقہ کھل گیا۔

’’زندگی میں کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔۔۔ جس دن یہ بات سمجھ میں آجائے، چلے آنا۔۔۔‘‘ ملکہ شبروزی نے کہا اور تیزی سے اندھیرے میں غائب ہوگئی۔

تلقارمس جب اپنے گاؤں کے قریب پہنچا۔ گہری سیاہ رات میں سب کچھ ڈوب چکاتھا۔ گاؤں کے باہر کا ٹیلہ،شیشم کے درخت، مکی کی کھیتیاں، کپاس کے پودے، پگڈنڈیاں، کنواں اور ان کے کچے مکانوں میں اس کا اپنا مکان جہاں ایک بوڑھی فرشتہ سیرت عورت اپنے خاوند کی روح کے سکون کی خاطر اور اپنے بچے کی کامیابی اور شادمانی کے لیے تسبیح کے دانے گنتے گنتے سوگئی تھی۔

تلقارمس اور اس کاگھوڑا پسینے میں بھیگے ہوئے تھے اور بری طرح ہانپ رہے تھے۔ گہری سیاہ رات میں گھوڑا عین ہمارے گھر کے سامنے رکا تو مکان کے اندر سے آوازآئی، ’’آئی میرے بچے! میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی۔۔۔‘‘

تھکے ہارے تلقارمس کو ماں کے قدموں کی چاپ سنائی دی اور پھر دروازہ کھل گیا۔۔۔ جب اس نے چوکھٹ کے اس طرف آنگن میں قدم رکھا، اسے محسوس ہوا، وہ رحمتوں کی آغوش میں پہنچ گیا ہے۔

ماں نے دروازے کے باہر ہانپتے ہوئے گھوڑے کو دیکھا، تھکے ہارے بیٹے کو دیکھا۔۔ ۔ غیاب کہیں نظر نہ آیا تو چپ چاپ سرجھکائے اس کمرے میں گئی جس میں چراغ روشن تھا۔

ماں اور بیٹے دونوں نے ایک دوسرے سے کچھ نہ کہا۔

ماں نے دسترخوان بچھایا اور اس پر دنیا کی نعمتیں چن دیں۔ پانی سے بھری صراحی قریب ہی رکھنے کے بعد وہ باہر چلی گئی۔۔۔ گھوڑے کے سامنے چارہ ڈالا اور پانی سے بھرا بڑا سا آب خوردہ رکھا۔

تلقارمس کھانے سے فارغ ہوا تو اس نے د یکھا، نرم اور آرام دہ بستر لگا ہوا ہے۔ بستر پر پڑتے ہی اسے نیند آگئی۔۔۔ خواب میں اس نے ملکہ شبروزی کے ساتھ جماع کیا۔ صبح دیر بعد اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو تازہ دم پایا۔۔۔ گھوڑا بھی تازہ دم تھا۔

رات آئی اور جب وہ سونے کی تیاری کرنے لگا تو ماں نے ایک آب دار خنجر اس کے سرہانے رکھتے ہوئے کہا، ’’لوہا سرہانے رکھ کر سوئیں تو برے خواب نہیں آتے۔۔۔‘‘

تلقارمس کانپ اٹھا۔

نیندکوسوں دور تھی۔۔۔ آدھی رات ہوئی تو اسے ماں کے خراٹوں کی آواز سنائی دی۔ وہ آہستہ سےاٹھا۔ سرہانے سے خنجر اٹھاکر اندھیرے میں ماں کی طرف بڑھا۔ بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے ماں کی بائیں چھاتی ٹٹولی اور دائیں ہاتھ سے خنجر کا بھرپور وار کیا، ’’اللہ تمہاری مرادیں پوری کرے۔۔۔‘‘ ماں کے منہ سے دعا نکلی۔

اُجانیر کی طرف منہ کیے صحرا میں سرپٹ بھاگتے ہوے گھوڑے کی باگ تلقارمس کے دائیں ہاتھ میں تھی اور بائیں ہاتھ میں ایک تھیلی تھی جس میں اس کی ماں کا دل تھا جو ابھی تک دھڑک رہا تھا۔۔۔ شہر کے قریب پہنچتے پہنچتے تڑکا ہوگیا۔ ایک نالہ پھلانگتے ہوئے گھوڑا بے دم ہوگیا یا تلقارمس توازن کھوبیٹھا، دونوں نالے کے اس طرف دھڑام سے جاپڑے۔ تلقارمس سنبھل کر اٹھنے لگا تو قریب ہی گری پڑی تھیلی سےماں کے دل کی آواز آئی، ’’میرے بچے! کہیں چوٹ تو نہیں لگی۔۔۔‘‘

تلقارمس کادل درد سے بھر گیا اور وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔

تلقارمس اور ملکہ شبروزی کی شادی دھوم دھام سے ہوئی۔ دور نزدیک کے ملکوں کے بادشاہ، شہزادے اور شہزادیاں، سب شادی میں شریک ہوئے۔۔۔ رات سیاہ تھی مگر شہر میں وہ چراغاں ہوا کہ رات دن سے اجلی اور روشن ہوگئی، برسوں کی جمع کی ہوئی چربی صرف ہوگئی۔تمام جانور دعوتوں کی خاطر ذبح کردیے گئے۔ نان حلوے کے لیے سرکاری مال خانے کا دانہ دانہ کام آگیا۔ درودیوار اس طور سجائے گئے کہ نخلستان کے تمام پیڑ ٹنڈ منڈ ہوگئے۔ مہمانوں کو اتنے تحائف دیے گئے کہ سرکاری خزانہ خالی ہوگیا۔۔۔ اور شبِ وصل کے لیے ایسا حجلہ عروسی بنایا گیا کہ چمن میں ایک پھول تک نہ رہا۔

شب وصل کے بعد کی صبح تلقارمس نے مہمانوں کی موجودگی میں اپنے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا ذرا کاٹ کر اور اپنے خون میں رنگ کر دستور کی کتاب کی جلد پر لگایا۔۔۔ اس رسم کے بعد مہمان رخصت ہوئے تو شہرِ اُجانیر ایک لٹا ہوا شہر تھا اور۔۔۔ اور اس شہر کا بادشاہ مغنی تلقارمس تھا۔

پہلے تو وہاں قحط پڑا، پھر وبا پھوٹ پڑی اور دریائے نیل کے کنارے فرشتے کی طرح کھڑا شہرِ اُجانیر زخمی نڈھال اور معمر نظر آنے لگا۔

سرکاری اور شاہی اخراجات پورا کرنے کے لیے طرحے طرح کے محصول لگائے گئے۔ لوگ یہ سوچ سوچ کے حیران اور پریشان تھے کہ یہ سب اس شخص کے حکم سے ہو رہا ہے جس نےانھیں ظالم جفیل سے نجات دلائی تھی۔ اور اس بات پر بھی متحیر تھے کہ ان کے چنے ہوئے تیرہ نمائندوں پر مشتمل مجلسِ مشاورت کو کیا ہوا؟

مجلس مشاورت تو اسی دن ٹھکانے لگا دی گئی تھی جس دن ملکہ شبروزی کی فرمائش پر تلقارمس اپنی ماں کا دل نکالنے کے لیے روانہ ہوا تھا۔ مشیروں کی جگہ ان کے مجسمے نشستوں پر رکھ دیے گئے تھے۔ مجسموں کی گردنیں بانس کی کھپچیوں پر لگی ہوئی تھیں۔ ہوا چلتی تو گردنیں اس طرح ہلتیں گویا حامی بھر رہی ہوں۔

تلقارمس تو پہلے ہی ملکہ شبروزی کے جسم کی چاہت میں تڑپ تڑپ کر دل و دماغ کھوچکا تھا، اب تو اسے وہ جسم مہیا تھا اور وہ اس جسم میں بری طرح غرق ہوچکا تھا۔

اور اب ملکہ شبروزی اسی طرح من مانی کر رہی تھی جس طرح وہ بادشاہ بازفادی اور سپہ سالار جفیل کے زمانے میں کرتی تھی۔

اور عوام سوچ سوچ کر تھک ہار بیٹھے، ان کے مقدر میں یہی کچھ ہے۔اللہ کو یہی منظور ہے۔ حکومت کے عمل دخل میں ہم لوگوں کی تکلیف کے کوئی معنی نہیں۔۔۔ وگرنہ اپنا مغنی تلقارمس غیاب کی دھن پر وہ نغمہ چھیڑتا کہ محلوں کی دیواریں کانپ اٹھتیں۔

خدا خدا کرکےایک برس بیتا۔ ٹنڈ منڈ پیڑوں پر پھر سے پتیاں نظر آنے لگیں۔ نخلستان میں پودوں کے دامن کو نپلوں سے بھرنے لگے۔ کھیتوں میں پھر سے خوشے سراٹھانے لگے۔ اُجانیر کی فضا پھر سے پرامید نظر آنے لگی۔ تاجروں کے قافلے اور کارواں پھر سے ادھر اُدھر کا رخ کرنے لگے اور پھر سال کا سب سے بڑا بازار لگنے کی تیاری شروع ہوئی۔۔۔ اس بار دریائے نیل کا پانی مٹیالا تھا اور اس کا بہاؤ بھی تیز تھا۔

امیر فرید ابن سعید کا بھانجا قاسم بن ہدا تاجروں کے سب سے بڑے قافلے کا سالار تھا۔ اس کا قافلہ اُجانیر کارخ کیے ہوئے تھا۔ وہ اپنے مرحوم ماموں کی قبر پر دعا بھی پڑھنا چاہتا تھا۔

قافلے شہر کے صدر دروازے کے باہر فصیل کے ساتھ ساتھ اترنےلگے۔ قاسم بن ہدا کا قافلہ بھی وہیں اُترا۔

اس رات قاسم بن ہدا کے حکم سے بہت بڑا الاؤ جلایا گیا۔۔۔الاؤ کےگرد لوگ اکٹھا ہوئے تو قاسم بن ہدا نے غیاب سنبھالا اور غلاموں کا نغمہ چھیڑ دیا (یہ قاعدے کے خلاف تھا)۔

’’تیرا شکریہ!

تیرا شکریہ!‘‘

چاند محل کی محراب کے اوپر تھا اور الاؤ کے گرد لوگ دیوانہ وار ناچ رہے تھے۔

ملکہ شبروزی کے حکم سےمحل کی کھڑکیاں اور سب دروازے بند کردیے گئے کہ آواز منتظر کانوں تک راہ نہ پاجائے۔

تلقارمس نشےمیں تو تھا مگر ابھی اس نے ہوش و حواس نہیں گنوائے تھے۔۔۔ نیم برہنہ سی ملکہ شبروزی تلقارمس کے رُوبرو کچھ اس طور آن کھڑی ہوئی، جسم کو خم دیے ہوئے کہ اس کا حلق سوکھ گیا، لب خشک ہوگئے اور خشک لبوں پر سوکھی زبان پھرنے لگی۔۔۔ نیم برہنگی سے برہنگی تک پہنچتے پہنچتے ملکہ شبروزی نے جیسے زمانے گزار دیے۔ پھر اس نے بڑھ کر بھرپور جام بنایا اور جام تھامے تلقارمس کے سامنے دراز ہوگئی۔ چند ہی ساعتوں کے بعد ایک ہاتھ سے اس نے جام اپنے گول، رس بھرے، نوکیلے پستانوں کے بیچ تھام کر دوسرے ہاتھ کی انگلی جام میں ڈبوکر، بھگو کر پستانوں کی مرجھائی ہوئی کلیاں ترکیں۔ کلیاں جیسے جاگ گئیں۔۔۔ اس رات ملکہ شبروزی اپنے جسم کے ہر حصے پر جام کے جام لنڈھاتی رہی اور تلقارمس ملکہ شبروزی کے جسم سے قطرہ قطرہ شراب پیتا رہا۔۔۔ وہ بہت مسرور تھا۔ اس کا دل مسرت سے بھر گیا، اس سے زیادہ سکون بھلا زندگی میں اور کہاں ملے گا؟ اور بے اختیار اس کے منہ سے نکل گیا، تیرا شکریہ!

قاسم بن ہدامستی کے عالم میں غیاب بجاتا ہوا گا رہا تھا۔الاؤ کے گرد لوگ دیوانہ وار ناچ رہے تھے۔

’’تیرا شکریہ!

تیرا شکریہ!‘‘

تلقارمس کی آغوش میں ملکہ شبروزی کا سونے میں ڈھلاہوا جسم تھا۔ سارے میں دھندلکا تھا۔ دور ایک کونے میں مدھم سی قندیل جل رہی تھی۔۔۔ اس نے ایک بار پھر ملکہ شبروزی کے پستانوں کی رس بھری کلیوں سے شراب پی۔۔۔ پھر وہ چونک اٹھا۔ اسے محسوس ہوا، ساتویں آسمان سے کوئی آواز اس تک پہنچ رہی ہے۔

’’تیرا شکریہ!‘‘

ملکہ شبروزی کے جسم کی شراب میں تلقارمس ڈوب چکاتھا۔

صبح ہوئی تو ملکہ شبروزی، وزرا اور امرا کے ساتھ تاجروں کو خوش آمدید کہنے شہر کے صدر دروازے پر پہنچی۔

قاسم بن ہدا اونٹ پر سوار تھا۔ اس کے پیچھے غلام تحائف لیے کھڑے تھے۔ قاسم بن ہدا کو تلقارمس دکھائی نہ دیا تو اس نے بلند آوازمیں کہا، ’’ملکہ محترمہ! رسم کے مطابق اُجانیر کے بادشاہ وقت کو ہی ہمیں خوش آمدید کہنے آنا چاہیے۔ آپ اپنے خاوند کے حق میں دست بردا رہوچکی ہیں۔ اس لیے سال کے سب سے بڑےبازار کی رسمِ افتتاح کے لیے آپ کاتنہا آنا نیک فال نہیں۔۔۔!‘‘

امرا اور وزرا سب گھبراگئے لیکن ملکہ شبروزی نے بڑے تحمل سےمسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’اے امیر! تم نے ٹھیک کہا۔۔۔ لیکن بادشاہ کی علالت کے سبب مجھے تنہا آنا پڑا۔۔۔ میں نے اپنے مہمانوں کابے سبب شہر کی فصیل کے باہررکے رہنا مناسب نہ سمجھا۔۔۔‘‘

قاسم بن ہدا نے کچھ دیر سوچنے کے بعد کہا، ’’نہیں ملکہ محترمہ! ہم تاجر جہاں اتنے دنوں سفر کی صعوبتیں جھیلتے رہے ہیں، وہاں ہم بادشاہ تلقارمس کے صحت یاب ہونے کا انتظار بھی کرسکتے ہیں۔‘‘

ملکہ نے فوراً جواب دیا، ’’اگر امیر کی یہی خواہش ہے اور بادشاہ کاآنا اتنا ہی ضروری ہے تو بادشاہ تک ابھی پیغام بھجواتی ہوں۔۔۔‘‘

ملکہ کے محافظ محل کی طرف لپکے اور تھوری ہی دیر میں انھوں نے نشے میں دھت بادشاہ تلقارمس کو ملکہ شبروزی کی بغل میں لاکھڑا کیا۔ وہ کھڑا بھی نہ ہو پارہا تھا۔۔۔ قاسم بن ہدیٰ کا ماتھا ٹھنکا۔

تمام رسومات اداہوئیں اور تاجر تجارت کے سامان سےلدے اونٹوں کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے۔۔۔ اور شہر کے بازاروں میں گزشتہ سال کی طرح چہل پہل نظر آنے لگی۔

سورج غروب ہونےسے پہلے قاسم بن ہدا اپنے ماموں کی قبر پر دعا پڑھنے گیا۔۔۔ فرید ابن سعید، عابد، یوسف، تینوں کے لیے دعا پڑھنے کے بعد اس نے تعظیم سے سرجھکاکر سجدہ کیا تو تینوں قبروں کے سینے شق ہوگئے۔۔۔ قاسم بن ہدا اس بشارت کا مطلب سمجھ گیا کہ مرحومین کی روحیں انتقام چاہتی ہیں۔

اس نے جلدی سے قبروں کی دراڑیں مٹی سے بھردیں کہ کسی کواس بشارت کا علم نہ ہو۔

ملکہ شبروزی نے شہر کا صدر دروازہ تاحکمِ ثانی بند کردینے کا حکم دےدیا تھا کہ وہ قاسم بن ہدا کی نیت جان سکے۔ اسے قاسم بن ہدا کی صبح کی گفتگو سے نفرت کی بو آتی محسوس ہوئی تھی۔

آدھی رات کے بعد ملکہ، تلقارمس کی نشے میں ڈوبی ہوئی گرفت سے نکلی اور لباس زیب ِتن کرنے کے بعد اپنے مخصوص حجرے میں مخبر کاانتظار کرنے لگی۔۔۔ مخبر نے اطلاع دی کہ قاسم بن ہدا کسی اور ہی ارادے سے اُجانیر میں وارد ہواہے، اس کے سامانِ تجارت میں اور چیزوں کے مقابلے سب سے زیادہ تعداد سامانِ حرب کی ہے اور اس کے غلاموں میں زیادہ تر غلام ماہر ِحرب ہیں۔

شہر میں چہل پہل تھی۔ رنگارنگ کے ساتھ وقت کا سب سے بڑا بازار لگ رہاتھا۔ تاجر اور خریدار بھی سودے بازی میں مصروف تھے کہ سرکاری منّاد کی آمد ہوئی۔۔۔ نقارہ پٹا تو لوگ متوجہ ہوےاور منّاد سرکاری اعلان پڑھنے لگا۔

’’ملک خدا کا، حکم بادشاہ کا، اطلاع برائے ہر خاص و عام۔ حاکم مقامی اور غیرمقامی تاجرین کو خوش آمدید کہتاہے۔ ان کی جان و مال کی حفاظت کایقین دلاتا ہے۔۔۔ یہ اعلان بھی کیا جاتا ہے کہ متواتر بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات اور ملک پر پڑنے والی آفتوں کے پیش نظر آج سے اشیاء کی خرید اور فروخت، دونوں پر دونوں طرف سے پانچ پانچ فیصد محصول وصول کیا جائے گا۔۔۔ یہ اطلاع بھی دی جاتی ہے کہ سرکاری خزانے کی غیرتسلی بخش حالت کے پیش نظر اب تاجروں کو قرض نہ دیا جاسکےگا۔۔۔ بادشاہ کی نیک خواہشات خدا کے سب بندوں کو پیش کی جاتی ہیں۔‘‘

لوگوں کے چہرے اعلان سن کر فق ہوگئے۔۔۔ انھوں نے شہر کے مرکزی دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازہ بند تھا۔

سرائے کے ایک بڑے کمرےمیں قاسم بن ہدا چھوٹی چھوٹی توپوں کے الگ الگ حصوں کو احتیاط اور حفاظت سے قطار میں رکھوا رہا تھا کہ اس قافلے کے کچھ تاجر گھبرائے ہوئے آئے اور اسے سرکاری اعلان کی اطلاع دی۔

قاسم بن ہدا نے بازار بند کردینے کی ہدایت دی اور اپنے جانبازوں کو الگ الگ حصے جوڑ کر توپیں تیار کرنے کاحکم دیا۔ اور پھر کمر کے ساتھ تلوار باندھ کر سولہ جانبازوں کے ساتھ محل کی طرف روانہ ہوا۔

وہ بازار میں سے ہوتے ہوئے محل کی طرف جانے والی سڑک کی طرف مڑے ہی تھے کہ انھیں محل کی فصیل کے ساتھ ساتھ گھوڑسوارمسلح سپاہ دکھائی دی۔

قاسم بن ہدا کا دایاں ہاتھ تلوار کے دستے پر جاپڑا۔ اس نے جانبازوں کی طرف دیکھا۔ سب کے ہاتھ تلواروں کے دستوں پر تھے۔۔۔ وہ بڑھتے رہے۔۔۔ گھوڑسوار سپاہ سے ان کا سامنا ہوا تو سپاہ نےانھیں گھیر لیا اور اطلاع دی کہ وہ بادشاہ تلقارمس کے حکم سے حراست میں ہیں، اس لیے وہ اپنی تلوارسپاہ کے حوالے کردیں۔

قاسم بن ہدا نےکڑک کر کہا، ’’خبردار۔۔۔ ہم خود بادشاہ تلقارمس سےملنےجارہے ہیں۔‘‘

گھوڑسوار سپاہ کی ٹکڑی کے سالارنے قاسم بن ہدا کے غیض و غضب کو دیکھا تو وہ ٹھٹک گیا۔۔۔ اس نے سپاہ کو حکم دیا کہ قاسم بن ہدا اور اس کے رفیقوں کونرغے میں لے کر وہ محل کی طرف بڑھیں۔

قاسم بن ہدا سولہ جانبازوں کے ساتھ دربار میں داخل ہوا۔ اس نے دیکھا۔۔۔ بادشاہ تلقارمس سرلنڈھائے تخت پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے دائیں طرف دوسرے تخت پر ملکہ شبروزی بھڑک دار لباس میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ مشیروں کی نشستوں پر منڈیاں ہلاتے ہوئے مٹی کے مجسمے رکھے ہوئے تھے۔

قاسم بن ہدا نے میان میں سے تلوار کھینچ لی اور اونچی آواز میں کہا، ’’جس ملک کا شاہی دربار سازشوں کامسکن ہو، جہاں ایک مغنی بادشاہ بن جائے اور شراب اور حسن کے چوبچےمیں غرق ہو جائے، جہاں مٹی کے مجسمے حکومت کے مشیر ہوں، اس ملک سے انصاف اور صداقت کمبل اوڑھ راتوں رات چپکے سے رخصت ہوجاتے ہیں۔۔۔‘‘

بادشاہ تلقارمس جوں کاتوں سرلنڈھائے بیٹھا رہا۔ ملکہ شبروزی نے قاسم بن ہدا اور اس کے رفیقوں کی طرف دیکھا اور مخبر کی بات کو دھیان میں لاتے ہوئے بظاہر تحمل سےمخاطب ہوئی، ’’اے نڈر اور خوبصورت نوجوان! تمہاری تلوار اور تمہارا انداز ِگفتگو؟ ہم متاثر ہوئے۔۔۔ لیکن ہم مجبور ہیں۔۔۔ جو شاہی حکم کی خلاف ورزی کرتاہے،اسے دستور کے مطابق سزا دی جاتی ہے۔۔۔ تم ہماری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ، ہم محصول کے سلسلے میں غور کرسکتے ہیں۔۔۔ اور تمہیں معزز مہمان کے طور پر محل میں اپنے ساتھ ایک رات بسر کرنے کی دعوت دے سکتے ہیں۔۔۔ تلوار میان میں رکھو اور ہماری دعوت قبول کرو۔۔۔‘‘ ملکہ کی آوازمیں لپک تھی۔

قاسم بن ہدا نے حقارت سے پوچھا، ’’یہ ایک ملکہ کے الفاظ ہیں؟‘‘

’’ہاں۔۔۔ ملکہ شبروزی ان الفاظ میں تمہیں دعوت دے رہی ہے۔۔۔‘‘

’’نہیں۔۔۔ ملکہ شبروزی نہیں،ایک بازاری عورت۔۔۔‘‘

’’قاسم۔۔۔‘‘ ملکہ شبروزی چلائی، ’’بادشاہ کے قہر سے ڈرو۔۔۔ہمارے ملک کے دستور سے ڈرو۔۔۔ تمہارا خوبصورت جسم بوٹی بوٹی کتوں کے آگے ڈال دیا جائے گا۔۔۔‘‘

’’بادشاہ۔۔۔؟ پرانے وقتوں کاآتش بیان مغنی تلقارمس؟ جس نے نغموں کا گلا گھونٹ ڈالا، آدمیوں اور آدمیت سےرشتہ توڑ لیا، جو اپنا غیاب ایک بدکار عورت کی فرج میں بھول بیٹھا، اس بادشاہ کاقہر۔۔۔‘‘ قاسم ذرا رکااور پھر چیخ پڑا، ’’میں اس دستور کی کتاب کو نہیں مانتا جس کی جلد پر خون کے نشانات ہیں۔۔۔‘‘ اور اسی لمحے اس نے قریب ہی چوکی پر رکھی ہوئی دستور کی کتاب پر ننگی آب دار تلوار کا بھرپور وار کیا۔۔۔ دستور کی کتاب دوٹکڑے ہوکر فرش پر جاپڑی۔

ملکہ شبروزی کانپنے لگی اور پوری قوت سے چلائی کہ قاسم اور اس کے رفیقوں کے سرکاٹ کر شہر کے مرکزی دروازے کے باہر لٹکادیے جائیں کہ آنےوالی نسلوں کو عبرت حاصل ہو۔

پیشتر اس کے کہ سپہ سالار اور سپاہ قاسم بن ہدا اور اس کے جانبازوں کی طرف بڑھتی، دربار میں گھمسان کا رن پڑنے لگا۔

ملکہ شبروزی گھبراگئی اور کھسک گئی۔۔۔ بادشاہ تلقارمس سرلنڈھائے تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔

لوگ تلواریں، نیزے اور پتھرلئے محل کی طرف بڑھنے لگے۔۔۔ سپاہ کاقلع قمع ہونےلگا۔

سورج ڈوبتے ڈوبتے محل کی فصیل میں شگاف پڑچکے تھے۔۔۔ خون کی ندی دریائے نیل کے چاندی جیسے سیال کی طرف بڑھ رہی تھی۔

آسمان کی رنگت بتدریج سرخ ہونےلگی اور پھر تیز آندھی اٹھی اورسارے شہرمیں اندھیرا ہوگیا۔ پھر آسمان پر رعد کڑکی اور اس لمحے لوگوں نے دیکھا، ملکہ شبروزی محل کی چھت پر محراب کی منڈیر پر کھڑی ہے۔۔۔

پھر گھروں سے اٹھتا ہوا دھواں تھا، اونٹوں کی لاشیں تھیں، خون کی ندی تھی اور شہر کی بربادی۔

تلقارمس کے ہوش وحواس درست ہوئے تو اسے محسوس ہوا، وہ تخت پر بیٹھا ہوا ہے اور وہ اورتخت، سیاہی اور سناٹے کے نرغے میں ہیں۔ گرتا پڑتا نرغے میں سے نکلا تو آسمان پر رعد کڑکی اور اس نے دیکھا، وہ تھا اور کھنڈر ہی کھنڈر تھے۔

’’میں کہاں ہوں خداوند۔۔۔؟‘‘ اس نے پکارا۔۔۔ اور پھر اس نے سنا۔

’’شبروزی اندھی قوت کااستعارہ ہے۔ جو کوئی اسے کنیز بنانےکی کوشش کرتاہے۔ خود اس کا اسیر بن جاتا ہے۔۔۔ اب تو توتنہاہے۔۔۔ پتھروں پر اپنی بدکرداری اور بداعمالیوں کی داستان لکھ کہ یہی اب تیری زندگی ہے۔۔۔ تجھے یاد ہے، تھیلی میں رکھے ہوئے ماں کے دل کی آواز سن کر تو بلک بلک کر رونے لگاتھا۔ تیرے وہی آنسو تیری نجات کا سبب ہیں۔ تو غیاب کھو بیٹھا، اب یہ لمحہ مت کھو! اور پتھروں پر اپنے غیاب بجانے والے ہاتھوں سے لکھ دے یہ داستان۔۔۔‘‘

تلقارمس کے منہ سے بے اختیار نکل گیا، ’’تیرا شکریہ! تیرا شکریہ!’’

اور پتھروں کی چھاتی پر داستان رقم کرتے کرتے تلقارمس کھنڈروں میں کھنڈر ہوگیا۔

اور جب کبھی ان کھنڈروں کے قریب سے تاجروں کے قافلے گزرتے ہیں، کبھی کبھی انھیں کسی کے رونے کی آواز سنائی دیتی ہے تو وہ اپنے اونٹوں کی رفتار تیز کرلیتے ہیں۔

’’کمال کی داستان ہے۔۔۔!‘‘ میری بیوی نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ اس کی نظریں مسودے پر جمی ہوئی تھیں۔

میں نے ایک گہری سانس لی۔۔۔ میں کچھ نہ کہہ سکا، آنکھیں موندے سوچ میں غرق رہا۔ نجانے کیوں اور کب میں نے پوچھا، ’’اگر یہ داستان کسی ایسے شخص نے لکھی ہے تو آج ہمارے زمانے میں بھی زندہ ہے تو وہ کون ہوسکتا ہے؟‘‘

نجانے کب تک میری بیوی سوچتی رہی۔ آخر اس نے جواب دیا، ’’کرشن چندر۔۔۔!‘‘

’’نہیں!‘‘

’’خواجہ احمد عباس۔۔۔ احمد ندیم قاسمی۔۔۔‘‘

’’نہیں!‘‘

’’رام لعل۔۔۔ جوگندرپال۔۔۔‘‘

’’نہیں!‘‘

’’انور عظیم۔۔۔‘‘

’’نہیں!‘‘

’’تو پھر کون ہوسکتاہے۔۔۔‘‘ میری بیوی نے آخر تھک ہار کر مجھ سے سوال کیا۔

میں نے ایک نظر بیوی کو دیکھا اور پھر قریب بیٹھے ہوئے بچوں پر نگاہ ڈالی جو انہماک سے داستان سننے کے بعد چپ چاپ بیٹھے ہوئے تھے۔

’’خاموش کیوں ہوگئے۔۔۔؟ بولونا، کون ہوسکتا ہے؟‘‘

میں نے بیوی کی طرف دیکھا، ’’میں! تلقارمس میں ہی تھا۔۔۔ یہ داستان میں نے ہی لکھی تھی۔۔۔‘‘

میری بیوی سہم گئی۔ اس کا چہرہ مارے خوف کے زرد پڑگیا۔ آنکھیں بجھ گئیں۔۔ ۔ اس نے بچوں کو بازوؤں میں سمیٹ کر چھاتی سے لگالیا۔

وہ بمشکل کہہ سکی، ’’کیا میں پچھلے بیس برس سے ہزاروں برس پرانے بھوت کے ساتھ زندگی گزار رہی ہوں۔۔۔‘‘

مصنف:سریندر پرکاش

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here