سرکس آنے کی خبر سے قصبے میں ایک چہل پہل سی پیدا ہوگئی تھی۔۔۔ ہوسکتا ہے آپ کو لفظ قصبہ پر اعتراض ہو کہ جہاں ریلوے اسٹیشن ہو جس سے ریل گاڑیاں مختلف اطراف جاتی اور آتی ہیں۔ کپڑے بننے کا کارخانہ ہو، جس میں سینکڑوں مزدور کام کرتے ہیں۔ اسپات بنانے کی بھٹی ہو جس میں دن رات آگ دہکتی ہے اور پھر عدالتیں، پولیس تھانے، کالج، اسکول وغیرہ وغیرہ سب کچھ ہو اسے بھلا میں نے قصبہ، کیوں کہہ دیا۔۔۔؟
بات دراصل یہ ہے کہ ہزاروں برس سے قصبہ میں رہتے رہتے ذہن بالکل قصباتی ہوگیا ہے۔ اور یہ ساری ترقی جو دھیرے دھیرے ہماری زندگی میں بڑی خاموشی سے شامل ہوگئی ہے۔ اس کا احساس تک نہیں ہوتا کہ ایک طرف دو قدم بڑھتے محسوس ہوتے ہیں تو دوسری طرف رات کو کوئی بھیانک خواب دکھائی دے جاتا ہے کہ نیچے اور نیچے گرے جارہے ہیں۔ اپنا وزن کھوچکے ہیں۔ زمین میں کششِ ثقل باقی نہیں رہ گئی ہے۔ برف کے گالے سے ہوگئے ہیں گویا۔۔۔ ہاں تو لفظ قصبہ استعمال کرنے پر معذرت چاہتے ہوئے عرض ہے کہ چہل پہل اور گہماگہمی کی فضا سی قائم ہوگئی تھی اور وجہ تھی سرکس کی آمد۔
سرکس میں جانوروں کے کرتبوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے ریاض کا مظاہرہ بھی ہوتا ہے۔ یہ بات تو آپ کو اور ہم سب کو معلوم ہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کشش کی وجہ وہ عورتیں بھی ہوتی ہیں جو مختصر ترین لباس میں اپنے کمالات کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اور انھیں عورتوں میں سے ایک عورت کا بڑا سا کٹ آؤٹ قصبے، معاف کیجیے گا۔۔۔ شہر کے چوراہے میں بنی ایک بلند عمارت پر لگادیا گیا تھا۔
یہ واقعہ سرکس کی آمد سے پہلے کا ہے۔ جب گلی محلے کی دیواروں پر پوسٹر چسپاں کیے جارہے تھے۔ جن میں سرکس کا نام درج تھا اور نام کے ساتھ لفظ گریٹ لگایا گیا تھا۔ سرکس کی خصوصیات اور ان جانوروں کا ذکر تھا جو شاید پہلے اس طرح نہیں دکھائے گئے تھے۔ ایک توپ تھی جس کی نال میں سے بارود کی بجائے ایک خوبصورت جسم والی عورت نکل کر فضا میں اڑتی چلی جاتی تھی۔
مسئلہ یہ بھی زیر غور تھا کہ اس توپ میں گولہ ڈالنے والی جگہ سے عورت داخل کی گئی ہوگی یا مصالحہ اس قسم کا ڈالا گیا ہوگا جو عورت کی صورت میں برآمد ہوتا ہے۔ اور مسئلہ وہ بڑا سا کٹ آوٹ بھی تھا جس کا ذکر خاکسار نے اوپر کیا ہے۔۔۔ یعنی وہ عورت!
پلائی ووڈ کا دیوقامت کٹ آوٹ تھا۔ عورت کا جسم بڑا ہی گداز اور سڈول تھا۔ لباس انتہائی مختصر تھا۔ جتنا بھی لباس پینٹر صاحب نے بنایا تھا اس پر چمکی لگاکر جگمگا دیا تھا کہ دھوپ میں آنکھیں خیرہ ہوجاتی تھیں۔ عورت کے ہاتھ میں ایک لمبا سا ہنٹر تھا اور قریب ہی ایک ببر شیر دُبکا بیٹھا تھا۔
اب ایسا کون ہوگا، جس کے سینے میں دل بھی دھڑکتا ہو۔ اسے چوراہے سے گزرنے کااتفاق بھی ہو اور وہ اِک ذرا اس عورت پر نظر نہ ڈال لے۔ مقصد یہ کہ بہت ہی خوبصورت عورت بنائی تھی پینٹر صاحب نے۔۔۔ اور شیرِ ببر کے بارے میں ایک صاحب کا ریمارک قابلِ غور و ستائش ہے۔
’’کتا بناکے بٹھارکھا ہے سالے کو۔‘‘
اب ایک راز کی بات بھی سن لیجیے۔۔۔ کہ یہی عورت سرکس کی مالک تھی۔ چوراہے والے بنواری پنواڑی کی دکان پر شام جو محفل جمتی تھی اس میں اس بات کا چرچا تھا کہ پہلے اس گریٹ سرکس کا مالک اس عورت کا باپ تھا۔ اس نے یہ سب جانور اور کلاباز ایک ایک کرکے اکٹھا کیے تھے۔ کہتے ہیں، خود بھی اچھا کلاباز تھا۔ وہ اس سرکس کو لے کر ملکوں، ملکوں گھوما تھا اور جہاں جو بھی جانور اور کلاباز نظر آیا اسے اپنے ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دی۔ کچھ عرصہ ہوا ایک جانور کو سدھانے کے دوران حادثہ میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ اور سرکس کا سمبل۔۔۔ یعنی کہ یہ لمبا شاندار ہنٹر اس کی بیٹی نے سنبھال لیا۔ ویسے ہی جیسے کہ کسی وزارت کا بوجھ اٹھانے کو قلمدان سنبھالنا کہتے ہیں۔
بنواری پنواڑی کی دکان دنیا بھر کے مسائل، سیاست اور نیک و بد پر گفتگو کرنے کاایک سپاٹ ہے۔۔۔ جی۔۔۔؟ سپاٹ! جی ہاں میں نے یہ لفظ دھبہ کے معنی میں نہیں بلکہ مرکز کے معنی میں استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ مرکز مجھے کچھ مناسب نہیں لگا۔ کیونکہ سپاٹ میں جو وسعت ہے وہ مرکز کے حدود میں بند ہونے کو تیار نہیں۔۔۔ خیر صاحب ہمیں تو سرکس اور سرکس کی اس شاندار مالکن اور ریاض کے زیور سے آراستہ اس کے کلابازوں اور جانوروں کے بارے میں گفتگو کرنا تھی۔ یہ بیچ میں مقامی کالج کے فلاں خاں صاحب کہاں سے آگئے جو لفظ، لفظوں اور الفاظ، الفاظوں سے سرکھپایا کرتے ہیں۔ بھئی آبھی سکتے ہیں کہ اس قصبہ میں کالج بھی موجود ہیں۔ اور ان میں اساتذہ بھی ہیں جو اپنے فالتو وقت میں بچوں کو پڑھا بھی دیتے ہیں۔۔۔ ویسے ان کا سارا وقت۔۔۔ خیر صاحب میں قبول کرتاہوں کہ بہک گیا تھا۔ اور معذرت چاہتا ہوں۔ ذکر ہو رہا تھا ہنٹر والی دلکش عورت کا جو اس گریٹ سرکس کی مالکن تھی اور سرکس قصبہ میں آنے والی تھی، جس کا چرچا زبان زدِّ خاص و عام تھا۔۔۔ کہ اب گویا چند دن تفریح رہے گی۔ اور بنواری پنواڑی کی دکان کے سامنے گفتگو کا سپاٹ تھا۔ اور سب سے اہم بات جو ان دنوں چل رہی تھی وہ یہ کہ آدمی تو خیر ذہن رکھتا ہے۔ اشارے پر کرتب دکھاسکتا ہے سکھانے سےسیکھ سکتا ہے کہ سن سکتا ہے۔ دیکھ سکتا ہے اور اس کے ردِّعمل کا پتہ بھی چل سکتا ہے۔ لیکن ان جانوروں کو سدھانا سکھانا اور ان سے کمالات کروالینا کیسے ممکن ہے؟ اس کے پیچھے کون سا فن اور راز چھپا ہوا ہے؟ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو سامنے اس اونچی عمارت پر لگے بینر کے کٹ آوٹ میں بھیگی بلی بنا ببرشیر۔۔۔
جہاں بنارسی اور دیسی پان کے پتوں پر ایک سو بیس، تین سو، کشمیری قوام اور بابا چھاپ کے ساتھ، ساتھ کچا اور سنکا ہوا چھالیا چلتا رہتا وہاں یہ بات چیت بھی چلتی رہتی کہ کمال ہے بھائی۔۔۔ آدمی جو کچھ نہ کرے کم ہے۔۔۔ اور سائنس نے جس قدر بھی ترقی کی ہے وہ سب آدمی کی حاصل کردہ ہے۔ اور جانور کو جنگل سے پکڑ کر سدھاکر، پنڈال میں ہزاروں لوگوں کے سامنے کرتب کرنے پر مجبور کرنا بھی آدمی ہی کا کارنامہ ہے۔
لیکن نہ جانے کیوں میری تسلی نہیں ہو پارہی تھی۔ معاف کیجیے گا۔ اب جو بیانیہ میں، میں وارد ہواہوں تو آپ چاہیں گے کہ معلوم تو ہو کہ بھلا میں ہوں کون؟ سب معمہ حل ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ معمہ حل نہیں ہوسکتا۔۔۔ کیونکہ اپنا تعارف کروانے والے کو پہلے خود تو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کون ہے۔ اور ہمارے پاس اپنے بارے میں جو معلومات موجود ہوتی ہیں اور جن کی بناپر ہم فوراً ہی ہاتھ آگے بڑھاکر کہہ دیتے ہیں کہ خاکسار کو فلاں، فلاں اور فلاں کہتے ہیں۔ تو ہم یہ سب لوگوں کے کہے سنے کی بناپر کہہ دیتے ہیں ورنہ ہمیں خود اپنے بارے میں زندگی بھر کچھ پتہ نہیں چلتا کہ ہم کون ہیں؟ لہٰذا۔۔۔ چونکہ میں اپنے بارے میں بذاتِ خود کچھ نہیں جانتا اس لیے آپ یہی سمجھیں کہ غیب سے ایک آواز آرہی ہے جو الفاظ میں ڈھل جاتی ہے اور اس کے پیچھے جو نظر نہ آنے والی شخصیت ہے نا وہ کچھ بھی نہیں، ایک وہم ِمحض ہے۔ اور خود تشکیک کی بیماری میں مبتلا ہے۔۔۔ اور آپ کو ایک بیمار آدمی سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کہ آپ ایک صحت مند، توانا سماج کی تشکیل میں مصروف ہیں۔۔۔ اور بینر والے کٹ آوٹ میں بنی دلکش اور شاندار عورت کے ہاتھ میں لمبا ہنٹر ہے اور اس کے سامنے ایک ببر شیر دبکا بیٹھا ہے۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ اتنا طاقتور، نڈر اور خوفناک جانور آدمی کے اشاروں پر کرتب دکھانے کے لیے کیونکر رضامند ہوجاتا ہے؟
ایک صاحب نے خیال آرائی کی۔۔۔ ’’یہ صدیوں سے ہوتا آیا ہے۔۔۔ تفریح کے لیے آدمی کو آدمی سے لڑوانا، آدمی کو جنگلی درندے سے لڑوانا یا پھر ایک درندے کو دوسرے درندے سے لڑوانا۔‘‘
دوسرے نے کہا، ’’بھئی وہ تو ٹھیک ہے کہ یہ سب آدمی اپنی تفریح کے لیے کرتا ہے۔ لیکن آدمی اور درندہ اس کے لیے تیار کیونکر ہوجاتا ہے۔۔۔؟‘‘
لوگوں نے بنواری پنواری سے پان لے کر منھ میں رکھے۔ اور اصل سوال کا صحیح جواب دیے یا پائے بنا ہی اپنے اپنے گھر کی راہ لی۔
ایک روز سرکس اپنے پورے تام جھام کے ساتھ قصبے میں آپہنچا۔۔۔ قصبے کی خستہ پرانی فصیل کے باہر جو بڑا سا میدان تھا۔ اسمیں کشادہ پنڈال لگ گیا۔۔۔ اور ایک طرف کئی چھوٹے، چھوٹے خیمے ایستادہ کردیے گئے جن میں جانوروں کی دیکھ بھال کرنے والے رہنے لگے۔۔۔ اور دوسری طرف پنجروں کی قطاریں کھڑی کردی گئیں جن میں جانور اور درندے بےچینی سے ٹہلتے نظر آتے۔۔۔ یہ بے چینی کیوں تھی۔ شاید وہ اپنے پنجروں سے باہر نکل کر اپنے کرتب دکھانے کے لیے بے چین ہورہے تھے۔ یا پھر۔۔۔؟ نہیں بھلا اور کیا بات ہوسکتی ہے۔۔۔ کلاکاروں اور کلابازوں، آرٹسٹوں اور انتظامیہ کے لوگوں کے لیے قصبے کی سرکاری سرائے اور پنچایتی دھرم شالہ بک کروالی گئی تھی۔ گلی کوچوں اور بازاروں میں سے پوسٹر اٹھائے ہوئے سرکش کے ملازمین گزرتے اور منادی والا تماشے کے اوقات کا اعلان کرتا۔ اس جلوس کے ساتھ سرکس کے کئی جانور بھی ہوتے اور ایک جوکر بھی۔۔۔ جانور جوکر کے اشارے پر لوگوں کو سلام کرتے، گویا انھیں اپنے کمالات دیکھنے کے لیے آنے کی درخواست کر رہے ہوں۔۔۔ سرکس کی مالکن کی طرف سے سرکس میں کام کرنے والی عورتوں کو شہر میں نکلنے کی ممانعت تھی لیکن مرد کلاکار اپنے روزمرہ استعمال میں آنے والی چیزوں کی خریدوفروحت کے لیے بازاروں میں نظر آنے لگے۔ شہر کے بچے خاص طور پر انھیں یوں دیکھتے تھے جیسے وہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوں۔ ایک بھیڑ ان کے گرد جمع ہوجاتی اور پھر وہ جدھر جاتے وہ بھیڑ ان کے پیچھے کھنچی چلی جاتی۔۔۔ کتنی عجیب بات تھی کہ ایک معمولی سا فرق، فن یا اختیار ایک آدمی کو دوسرے آدمی سے ممیز یا افضل بنادیتا ہے۔
اس روز پہلا تماشہ تھا۔۔۔ اس کی رسم افتتاح معمول کے مطابق شہر کے سب سے اعلیٰ افسر کے ہاتھوں ہوئی۔۔۔ خاکسار بھی وہ کھیل دیکھنے گیا۔
میں تمام آئٹمز کی تفصیل بیان کرکے آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا کہ اس شو میں وہ سب کچھ ہوا جو ہرسرکس کے شو میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے تصور کی آنکھ سے نیم برہنہ عورتوں کو جھولا جھولتے۔۔۔ اور تنی ہوئی تار پر سائیکل چلاتے دیکھ سکتے ہیں۔ مرد کلاکاروں کو ہر کھیل میں ان کا ساتھ دیتے بھی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ توازن کے مختلف کمالات تصور کرنا بھی مشکل نہیں۔ جانوروں کا مالکن کے چابک کی شڑاپ، شڑاپ کی آواز پر ہرحکم کی تعمیل کرنا بھی سوچ سکتے ہیں۔ وغیرہ۔وغیرہ۔ لیکن اس خاکسار کو جو آئیٹم بہت ہی اَدبھت لگی۔۔۔ وہ تھی تمام جانوروں اور انسان کلابازوں کا ایک بڑی سی میز کے گرد بیٹھ کر اکٹھے کھانا کھانے کا منتظر۔ اب ذرا آپ اپنے تصور کی آنکھ کو چند لمحہ کے لیے اس منظر پر مرکوز رکھیں تو پھر میں آپ کو وہ بات بتانے جارہا ہوں جس نے سب کو حیران و پریشان کر رکھا تھا۔ یعنی یہ سب کیسے ہوتا ہے؟ اور اب اس حیران کرنے والی بات کا جواب اس خاکسار کو مل چکا تھا۔
لیکن اس سے پیشتر کہ خاکسار وہ بات آپ کے گوش گزار کرے چند باتیں آپ ذہن نشین کرلیں کہ سرکس کی مالکن اصل میں پینٹر صاحب کے بنائے ہوئے کٹ آوٹ سے زیادہ پرکشش شاندار اور خوبصورت نہ تھی۔ اور کہ اس کے دوبیٹے تھے دونوں اعلیٰ درجہ کے کلاباز تھے۔ لیکن بدقسمتی سے ایک بیٹا کرتب دکھانے کے دوران ایک حادثہ کا شکار ہوگیا تھا۔ گویا اس کا حشر بھی کچھ مالکن کے باپ جیسا ہی ہوا تھا۔۔۔ دوسرا بیٹا جوکر تھا اور ہر کرتب کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ لیکن اس طرح کہ تماشائی ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوجائیں۔ ایک بات سب سے اہم یہ تھی کہ اس سرکس میں ایک اپاہج کلاباز تھ جو جمناسٹک میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ شکل و صورت سے اچھا تھا۔۔۔ ٹانگیں فالج زدہ تھیں۔ لیکن بازوؤں میں بلا کی قوت تھی۔ وہ لکڑی کے گھوڑے پر دونوں بازوؤں اور کبھی ایک بازو سے اپنے جسم کو مختلف زاویوں پر لے جانے، جھولنے اور قلابازیاں کھانے کے شاندار کھیل دکھاتا تھا۔ (مقامی کالج کے فلاں صاحب سے معذرت چاہتا ہوں کہ اس سے پیشتر کلاباز کتے والے ک سے لکھا ہے اور اس بار قینچی والے ق سے قلابازی لکھا ہے)۔۔۔ یا پھر پنڈال کی چھت سے لٹکتے ہوئے دو رنگز کو پکڑ کر اپنے جسم کو عجیب و غریب توازنی زاویوں پر لے جاتا تھا۔۔۔
اب یہ اتفاق ہی سمجھیے کہ وہ دوسرے آرٹسٹوں کے ساتھ اسی سرائے میں قیام پذیر تھا۔ جس میں خاکستار کئی صدیوں سے رہ رہاتھا۔ صبح سویرے غسل خانہ استعمال کرنے کے سلسلے میں خاکسار کی اس سے تو، تو میں، میں ہوگئی۔ اور پھر یہ تو، تو۔ میں، میں تو ہی تو اور میں ہی میں کے عمل سے گزرتی ہوئی دوستی میں بدل گئی۔ وہ اچھا دوست، اچھاانسان اور اچھا رہبر ثابت ہوا۔
ہمارا کھانا پینا ایک ساتھ ہوگیا۔۔۔ اس نے اپنے ماضی کو کرید کر اپنے بارے میں مجھے سب کچھ بتایا جو اسے اس کے بارے میں دوسروں نے بتایا تھا کہ اس کا باپ پہلوان تھا۔ ایک شرط ہارنے کی وجہ سے خودکشی کرکے مرگیا۔ ماں نے اسے ہسپتال میں جنم دیا اور راہی ملکِ عدم ہوئی۔ نرسوں اور ڈاکٹروں کی لاپرواہی کی وجہ سے اس کی ٹانگیں فالج سے ناکارہ ہوگئیں اور اس نے اپنی زندگی خود شروع کی اور جمناسٹک سیکھ کر اس سرکس میں شامل ہوگیا۔۔۔ مگر میرے پاس بتانے کو تھا ہی کیا جو بتاتا۔۔۔ لہٰذا اپنی خاکساری کااظہار کرکے شرم سے سرجھکالیا۔
اسی کی وجہ سے میں نے دن کے وقت سرکس کے تمام پنجروں کا طواف کیا۔ مختلف آرٹسٹوں سے متعارف ہوا اور چند حسین عورتوں سے گفتگو کا لطف بھی لیا اور ایک بار سرکس کی شاندار اور پرکشش مالکن اور اس کے جوکر بیٹے سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہوا۔ اور پھر موقع پاکر میں نے پوچھ ہی لیا۔۔۔ کہ یہ معجزہ کیا ہے کہ آدمی اور جانور اور درندے اشاروں پر قلابازیاں کھانا قبول کرلیتے ہیں؟
میرا یہ پوچھنا تھا کہ اس کی عجیب کیفیت ہوگئی۔ جیسے اس کے اوپر کے دھڑ کو بھی فالج مار گیا ہو۔ اس کا رنگ فق ہوگیا۔ آنکھیں بے چینی سے تڑپنے لگیں اور چہرے پر ایک عجیب سا کرب چھاگیا۔۔۔ وہ دیر تک خاموش رہا اور میری طرف آنکھیں چھپکے بنا دیکھتا رہا۔۔۔ میں بھی قدرے پریشان و نادم سا ہوا کہ ایسی بات کیا پوچھ لی کہ جو مناسب نہ تھی؟
’’کیا بات ہے آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا سینڈو صاحب؟‘‘ (اسے سینڈو صاحب کے نام ہی سے پکارا جاتا تھا) میں نےہمت کرکے اور اپنی خفت مٹانے کے لیے کہا۔
اس نے ایک گہری سانس لی اور کہنے لگا۔۔۔ ’’لیکن یہ بات پوچھنےکی آپ کو ضرورت کیوں آن پڑی مسٹر خاکسار۔۔۔؟‘‘
’’دراصل بات یہ ہے کہ یہ صرف میرا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ اس سارے قصبے کے ذی ہوش لوگوں کا مسئلہ ہے۔ سبھی اس بات کاجواب چاہتے ہیں،‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’دیکھیے،‘‘ اس نے کہا اور پھر رک گیا۔ میں اس کے دوبارہ گویا ہونے کا منتظر رہا۔ کافی دیر کے بعد اس نے کہا۔۔۔ ’’یہ بات اتنی دیر تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک سرکس کے پورے سیٹ آپ کو نہ سمجھیں۔۔۔ درمیان میں ایک بہت بڑا رنگ ہوتا ہے۔ جس کے گرد کرسیوں اور بنچوں پر تماشائی بیٹھے رہتے ہیں۔ جن کی نظریں کرتب دکھانے والوں پر جمی رہتی ہیں۔ ایک کونے میں ایک کیبن بنایا جاتا ہے جس میں آرکسٹرا ہوتاہے۔ عام طور پر اس میں فوج سے ریٹایر ہونے والے سازندے کام کرتے ہیں۔ ہر کھیل کے ساتھ الگ دھن بجتی ہے۔ ہرکرتب کرنے والے کے ساتھ تین چار جوکر بھی ایرینا میں داخل ہوتےہیں جو عام طور پر مالکن کے خاص آدمی ہوتے ہیں۔ زرق برق لباس دیکھ کر اور چہروں پر موٹے میک اپ کی تہ سے آرٹسٹ کے اصلی حسن کا اندازہ لگانا بالکل مشکل ہے۔۔۔ اور پھر مالکن کے ہنٹر کی شڑاپ، شڑاپ کی آواز۔۔۔ جو ہر کھیل میں موجود رہتی ہے اور ہر آرٹسٹ کو ملنے والی داد خود سرجھکا، جھکا کر مسکراتے ہوئے قبول کرتی ہے۔۔۔ اچھا اب اس منظر پرآتے ہیں۔۔۔ جس میں ایک بڑی میز کے گرد۔۔۔ شیر، بکری، آدمی، بندر، کتا، گھوڑا ار ہاتھی اکٹھے بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔ اور یہیں آپ کی بات کا جواب پوشیدہ ہے۔ جو بڑی معمولی سی بات ہے۔ ہر اس بڑی بات کی طرح جو معلوم ہوجانے کے بعد معمولی نظر آنے لگتی ہے اور وہ بات یہ ہے جسے ہر مالک جانتا ہے کہ اگر آدمیوں، عورتوں، جانوروں اور درندوں سے کام لینا ہے تو انھیں آدھے پیٹ کھانا دینا چاہیے اور باقی آدھے پیٹ کا وعدہ۔۔۔‘‘
سرکس ہمارے شہر معاف کیجیے گا ہمارے قصبے سے اگلے قصبے میں جاچکی ہے۔ سینڈوصاحب بھی جاچکے ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں سے اس گہماگہمی اور چہل پہل کے نشانات مٹ چکے ہیں۔ چوراہے کی بلند عمارت پر لگا ہوا سرکس کی ہنٹر والی مالکن کا کٹ آوٹ اتارا جاچکاہے۔ لیکن نہ جانے کیوں جب کبھی میں بنواری پنواڑی کی دکان سے ایک سو بیس کا بنارسی پان کھاکر سرائے کی طرف جارہا ہوتا ہوں، تو میرے ذہن میں شڑاپ شڑاپ کی آواز گونجنے لگتی ہے۔۔۔ اور میں خوف زدہ ساہوجاتا ہوں۔
پس اذاں۔۔۔
کئی دن بعد، آج میں پھر بنواری پنواڑی کی دوکان پر کھڑا پان لے رہا ہوں۔ اور سامنے والی، بڑی عمارت کی اس خالی دیوار کو دیکھتا ہوں جس پر کبھی سرکس کی مالکن کا کٹ آوٹ آویزاں تھا۔
اس کےہنٹر کی شڑاپ شڑاپ کی آواز میرے ذہن کے کسی کونے میں سے ابھرتی ہے۔ لیکن آج مجھے اس آواز سے پہلے جیسا خوف محسوس نہیں ہوا۔ ایکا ایکی میرے ذہن میں ایک خیال پیدا ہوا ہے کہ میری طرح اگر سرکس کے تمام انسانوں اور جانوروں کے ذہن سے بھی ہنٹر کی آواز کا خوف جاتا رہا تو پھر کیا ہوگا؟
مصنف:سریندر پرکاش