غزالی آنکھیں ستواں ناک، خوبصورت ہونٹ، کتابی چہرہ لمبی گردن جس پر تل کی موجودگی اس بات کی علامت تھی کہ شاید خدا نے نظر بد کے ڈر سے ٹیکا لگا ڈالا۔ نازک اندام اور سرو قد یہ کسی شاعر کا خواب نہیں بلکہ جیتی جاگتی سومیہ تھی۔ انتہائی زہین اور زندگی سے بھرپور۔ خود پر غرور حسن کا نہیں بلکہ عورت ہونے کا۔ اس کو آئینے کی پرواہ ہی نا تھی کہ کیا بولتا ہے اس کے لیے آئینے کا کام وہ تمام نظریں کرتی تھیں جو کہ اس کے حسن اندام کو خراج تحسین پیش کرتے نا تھکتیں۔
ان سب باتوں سے بے پرواہ وہ اپنا عورت ہونے کے غرور میں زندگی بتائے جا رہی تھی۔ جس کے نزدیک مرد کا وجود ایک پتھر سے کم نا تھا، جس کو وہ جب چاہے ٹھوکر مار کر اپنے راستے سے ہٹا سکتی تھی، کہ اس نے سن اور پڑھ رکھا تھا کہ کہ مرد مجازی خدا ہے اور اس کا ماننا تھا کہ خدا پتھر سے بنا ہے پسند نا آآئے تو توڑ دو۔ مورتی بناکر پوجوگی بھی تو اس پہ کیا اثر ہونا ہے۔ پتھر چاہے مورتی ہو یا راستے میں پڑا ایک کنکر، کوئی فرق نہیں۔ یہ تھے وچار اس مغرور اور حسین لڑکی کے۔ ماں لاکھ پیچھے پڑتی کہ شادی کر لے مگر وہ روز ایک نئی شرط لے آتی۔ اماں شکل اور قد دیکھ لینا۔ کبھی کہتی اعلی افسر ہو۔ کبھی یہ کبھی وہ ماں لاچار اور بےبس بیٹی کے تیور ہی نا ملتے تھے۔ آخر تھک کر ماں بولی جس سے تو راضی اس سے میں راضی بول۔ سومیہ بولی کوئی میرے قابل ہو تو بتاؤں نا۔ ایم بی اے کیا اور ایک بڑی کمپنی میں منیجر ہو گئی۔ اب تو کیا ہی کہنے بیگم سومیہ کے۔ خود آگاہی کے بعد خود شناسی کا موقع ملا تو وہ ساتویں آسمان سے جا لگی۔ محبت پر اس کا یقین یہ تھا کہ یہ اس کے نزدیک ایک بیوقوفی کا کھیل تھا اس لیے ہر ایک عاشق کا مذاق اڑانا اور اس کا دل توڑنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔
جب بھی لڑکوں کی چوکڑی بیٹھتی یہ ذکر ضرور ہوتا کہ وہ کس کے ہتھے چڑھے گی۔ کوئی کہتا ہوگا کوئی گلفام، کوئی کہتا کسی امیر کو پھانسے گی یہ کمبخت۔ ہمارے تو ہاتھ نا آئی۔ جب کہ بہت سے تو اس کے ساتھ رات گزارنے کی شرط بھی جیت چکے تھے اور اسے معلوم ہی نہ تھا کہ وہ کتنوں کی داشتہ مشھور ہے۔ یہ ہوتا ہے حسین ہونے کا جرم اور مرد کی ذہنیت۔
ایک دن وہ یونہی وقت گزاری کو انٹر نیٹ پر بیٹھی تھی کہ اس کو ایک مسیج آیا۔ اس نے بات شروع کر دی بندہ ان دیکھا تھا مگر ذہانت سومیہ کی کمزوری تھی، دوسرا وہ شخص اس کے حسن سے بے آشنا۔ بات شروع بھی نا ہوئی تھی کہ سومیہ ختم ہو گئی۔ کچھ ڈن تو یونہی سلسلہ چلتا رہا اور وقت گزاری ہوتی رہی۔ پھر سومیہ کو ندیم کی عادت سی ہونے لگی۔ ایک رات وہ سو رہی تھی کہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی، اس کو لگا کہ وہ کسی عفریت کی جکڑ میں ہے۔ پانی پیا اور مکمل جاگ گئی۔ وہ جکڑی جا چکی تھی مکمل طور پر۔ کہتے ہیں محبت کا مذاق مت اڑاؤ یہ تم کو مذاق بنا دیتی ہے۔ یہ اتنی حسین دیوی ہے کہ جان کا نذرانہ بھی وار دو تو کبھی کبھی تمہارے برباد نہیں ہوتی۔
محبت نہ ہوتی تو آج منصور بھی نہ ہوتا اس کو بھی تو محبت نے سولی پر چڑھایا تھا نا۔ کیا خود ختم ہوئی؟ آج بھی وہی شان ہے اس کی۔ کسی نے محبت پر انگلی نہ اٹھائی کبھی، بدنام ہوا برباد ہوا بیکار ہوا تو صرف انسان۔ محبت کی شان میں تو صرف قصیدے لکھے گئے۔ کیوں نہ ہو خدائی صفت ہے جو انسانوں میں پھونک مارنے والے رحمان کا وصف ہے۔ جب انسان میں روح پھونکی جاتی ہے تو اس میں باری تعالی کی اتنی محبت ہوتی ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی وہ ظالم سے ظالم انسان میں سرایت کر جاتی ہے اور پھر عورت کا تو مقام ہی الگ ہے وہ تو خالق کی تخلیقات میں سے وہ واحد مخلوق ہے جو خلق کرتی ہے۔ یہ خلق کرنے کا عمل عورت کے لیے وصال سے لیکر جنم دینے تک کتنا تکلیف دہ ہے کوئی نہیں جانتا لیکن یہ عورت ہی ہے جو دوبارہ اپنا خوں پلانے پر عمدہ ہو کر دوبارہ جنم دینے کو تیار رہتی ہے۔ اگر کوکھ سوکھی ہو تو کیا عورت کی ممتا مر جاتی ہے؟؟؟ تو بس اس کے اندر کا خوں جو کہ تخلیق کے کام آتا ہے مزید جوش مارتا ہے اور اس کی روح کو ہر وقت اک لاوے کی طرح پگھلاتا رہتا ہے۔
اس کی مامتا اس کے اندر کانٹے چبھوتی ہے کہ مجھے بچہ دے، میں کہاں جاؤں اگر تو بانجھ ہے تو میرا کیا قصور مجھے تو تیرے وجود کے ساتھ ہی پھونکا گیا تھا۔ سومیہ محبت میں گرفتار ہو چکی تھی سر سے پاؤں تک۔ وہ گھبرا گئی کیوں کہ اب وہ قید تھی ندیم کی محبت کے پنجرے میں۔ یہ وہ شخص تھا جس کو اس نے نا دیکھا نا سنا، وہ صرف تھا اور وہ بھی چبھتی ہوئی۔ وہ کوئی کامیاب انسان نہ تھا۔ بی۔ اے۔ کے بعد ایک دوکان پر سیلز مین کا کام کرتا تھا سارا ہفتہ پیسہ جمع کرتا کہ کسی طرح سومیہ سے فون پر بات کر سکے اور وہ بھی اس کے فون کے انتظار میں رہتی لمبی باتیں ہوتیں، شرابی بھی تھا اور عورت کا مزہ بھی خوب چکھ چکا تھا، ہر موضوع پر بات کرتے دونوں اور وہ دوسری عورتوں اور ان سے اس کی قربت کے قصے سن کر جلتی بھنتی مگر ظاہر نہ ہونے دیتی۔ وہ تو بس اس انتظار میں رہتی کہ ندیم کہیں سے کوئی بوتل چڑھائے اور فون کرے کیوں کہ نشے میں وہ جو بولتا اس کا سرور سومیہ کو کئی دنوں بہکائے رکھتا اور وہ خود کو بادلوں میں اڑتا محسوس کرتی۔
اگر کسی کو بھی علم ہوتا کہ سومیہ ایک نکمے سیلز مین کی محبت میں گرفتار ہے تو کوئی یقین ہی نہ کرتا عین ممکن تھا کہ ایک دو ناکام عاشق جو آس لگائے بیٹھے تھے پھندا ہی ڈال لیتے۔
آخر اس نے اور ندیم نے ملنے کا فیصله کیا۔ سومیہ نے کار لی اور لائبریری جا پہنچی۔ کوئی اور ہوتی تو ندیم کو دیکھ کر پلٹ جاتی مگر۔۔۔ سومیہ نے محبت کی تھی۔۔۔ اس کی پہلی اور یقینا آخری محبت۔ ایک عورت کا محبت۔ جو خالق بھی ہنے اور موحد بھی۔۔ ندیم ایک انتہائی سانولا موٹا اور بے ڈول انسان تھا۔ یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ ندیم کی لاٹری نکل آی تھی۔ محبت میں لاٹری نہیں ہوتی محبت خدا کا تحفہ ہے اس کی عطا کردہ وہ نعمت ہے جو کائنات کو چلائے جا رہی ہے۔ ندیم ششدر رہ گیا اس کی توقع اور تخیل سے بڑھ کر ایک حسین مجسمہ اس کے سامنے کھڑا تھا۔ دونوں میں ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا پہلے ہر ہفتے پھر ہر روز پھر سارا سارا دن دونوں گھومتے جھگڑتے اور باتیں کرتے پھرتے۔ وہ اس کو دوسری عورتوں کے قصے مزے لے لے کے سناتا اور وہ آگ بگولہ ہوتی رہتی مگر منہ سے کچھ نہ بولتی۔ دیکھنے والے اس بےہنگم جوڑے پر حیران رہتے کہ الله نے اس مرد کو کس نعمت سے نوازا ہے۔ مگر سومیہ کو اس کی کیا پرواہ تھی۔ اس کے دن رات صرف ندیم کے لیے تھے۔ آفس پہنچ کر وہ میٹینگ کا بہانہ کرتی گاڑی اٹھائی اور سارا دن ندیم کے ساتھ بتاتی۔
وقت گزرتا گیا جنوں بڑھتا گیا۔۔۔مگر دل چسپ بات یہ کہ ندیم جو عورت کا رسیا رہ چکا تھا اس نے کبھی سومیہ کو چھوا تک نہیں۔ اگر کبھی وہ قریب آتا تو وہ اسے پیچھے دھکیل دیتی اور وہ خاموش ہو جاتا۔
محبت میں جسم امر ہے مگر اس کے بغر محبت کی تکمیل اس کو خدائی درجہ دیتی ہے بندے اور اس کے رب کا رشتہ پاکی اسی لیے رکھتا ہے کہ اس میں قلب و روح کا عمل ہے۔ سومیہ جو ناک پر مکھی نا بیٹھنے دیتی تھی جس کی اڑان دیکھ کر اس کی ماں پریشا ن رہتی تھی۔ اس نے ایک ڈن ندیم سے شادی کا تقاضہ کر ڈالا۔ ندیم ششدر رہ گیا وہ ناکارہ نا کام انسان اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ وہ کبھی بھی سومیہ کو وہ مادی خوشیاں نہیں دے پائےگا جس کی وہ اسے حقدار سمجھتا ہے۔ ندیم نے اسے بتایا کہ اس کے والدین کافی سخت اور پرانے خیالات کے لوگ ہیں اور اس کی بھابھیاں بھی ایک جہنم ہی جھیل رہی ہیں۔ سومیہ تو محبت میں اندھی تھی تیار ہو گئی۔ مگر پھر ایک عجیب سوچ نے اس کے ذہن میں جنم لیا اور وہ خاموش ہوگی۔ ہمیشہ اس کے ساتھ رہنے کے لیے سومیہ نے اسے کبھی نہ پانے کا فیصلہ کر لیا جسم کا آستمال دوسری روح کو تو جنم دیتا ہے مگر اس کے بعد آپ کی روح کس حد تک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔
ندیم لاکھ کوشش کے باوجود گھر میں بات نہ کر پایا اسی دوران ندیم کے ماں باپ نے اس کی بات پکی کر دی۔ سومیہ کو علم ہوا تو اس نے صرف ایک بات کہی جب بھی جہاں بھی شادی کرو مجھے اس لمحے اس وقت اور اس دن کی خبر نا ہو۔ وہ اکثر اس سے اس کی منگیتر کا پوچھتی۔ عجیب محبت تھی ندیم کی۔ کسی اور کے ساتھ نسبت نے اس کی محبت کے پیمانے کو خراب نہ کیا جنوں قائم رہا۔
ایک روز وہ یونہی کسی جھیل کے کنارے کھڑی تھی کہ وہ اس کے قریب آئی اور اس کے گلے سے لگ گئی ندیم پہ حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، وہ لڑکی جو اس کے ہاتھ چومنے پر اتنا واویلا کرتی تھی اس کے گلے لگی کھڑی تھی۔ پاس ہی سے کسی بچے کی آواز سن کر وہ ایک دم پیچھے ہٹ گئی اور بولی، مجھے واپس جانا ہے، وہ ان کی آخری ملاقات تھی، وہ ادھورا لمس آج بھی سومیہ کی نس نس میں سانس لے رہا ہے اس ہلکے سے ادھورے لمس نے ساری عمر کے لیے اس کو حاملہ کر دیا۔ اس کی روح کو ایک لازوال اور اٹوٹ محبت کا حمل ہو گیا جو اس کے اندر سانس لیتے بل کھاتے زندہ ہے اور مرتے دم تک اس کی محبت کے وجود کو اپنی روح کی کوکھ میں لیے زندہ رہےگا۔
مصنف:سیمیں درانی