ہانی کی کہانی:’’کہانی ایک مولانا کے ذریعے مذہبی روایات اور مولویوں کے ڈھونگ اور فریب کے اخلاق پر تلخ حملہ کرتی ہے۔ رمضان کے مہینے میں خدا کی عبادت میں ڈوبے مولانا صبح کی نماز پڑھتے ہوئے ایک خواب دیکھتے ہیں۔ خواب میں انہیں ایک عالیشان کمرا دکھائی دیتا ہے اور اس کمرے کی ہر کھلی کھڑکی میں ایک حور نظر آتی ہے۔‘‘
لکھنؤ اس زوال کی حالت میں بھی علوم اسلامیہ کا مرکز ہے۔ متعدد عربی مدارس آج کل کے پر آشوب زمانے میں شمع ہدایت روشن کیے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کے ہر گوشے سے حرارت ایمانی رکھنے والے قلوب یہاں آکر تحصیل علم دین کرتے ہیں اور اسلام کی عظمت قایم رکھنے میں معین ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے وہ دو فرقے جن کے مدارس لکھنؤ میں ہیں ایک دوسرے کو جہنمی سمجھتے ہیں۔ مگر اگر ہم اپنی آنکھوں سے اس فرقہ بندی کی عینک اتار دیں اور ٹھنڈے دل سے ان دونوں گروہ کے اساتذہ اور طلبا پر نظر ڈالیں تو ہم ان سب کے چہروں پر اس ایمانی نور کی جھلک پائیں گے جس سے ان کے دل اور دماغ منور ہیں۔ ان کے لبے بات کرتے اور قبائیں، ان کی کفش اور سلیپر، ان کی دو پلی ٹوپیاں، ان کا گھٹا ہوا گول سر اور ان کی متبرک داڑھیاں جن کے ایک ایک بال کو حوریں اپنی آنکھوں سے ملیں گی، ان سب سے ان کا تقدس اور زہد ٹپکتا ہے۔ مولوی محمد داؤد صاحب برسوں سے ایک مدرسے میں درس دیتے ہیں اور اپنی ذہانت کے لیے مشہور تھے۔ عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ ماہ مبارک رمضان میں رات کی رات، تلاوت و نماز خوانی میں گزر جاتی تھی اور انھیں خبر تک نہ ہوتی۔ دوسرے دن جب دوران درس میں نیند کا غلبہ ہوتا تھا تو طالب علم سمجھتے تھے کہ مولانا پر کیف روحانی طاری ہے اور خاموشی سے اٹھ کر چلے جاتے۔
رمضان کا مبارک مہینہ ہر مسلمان کے لیے رحمت الٰہی ہے۔ علی الخصوص جب رمضان مئی اور جون کے لمبے دن اور تپتی ہوئی دھوپ کے ساتھ ساتھ پڑے۔ ظاہر ہے کہ انسان جس قدر زیادہ تکلیف برداشت کرتا ہے اسی قدر زیادہ ثواب کا مستحق ہوتا ہے۔ ان شدید گرمی کے دنوں میں اللہ کا ہر نیک بندہ مثل ایک بپھرے ہوئے شیر کے ہوتا ہے جو راہ خدا میں جہاد کرتا ہو۔ اس کا خشک چہرہ اور اس کی دھنسی ہوئی آنکھیں پکار پکار کر کہتی ہیں کہ: اے وہ گروہ جو ایمان نہیں لاتے اور اے وہ بدنصیبو! جن کے ایمان ڈگمگا رہے ہیں، دیکھو! ہماری صورت دیکھو! اور شرمندہ ہو۔ تمہارے دلوں پر، تمہاری سماعت پر اور تمہاری بصارت پر اللہ پاک نے مہر لگا دی ہے، مگر وہ جن کے دل خوف خدا سے تھرا رہے ہیں، اس طرح اس کی فرماں برداری کرتے ہیں۔‘‘
یوں تو ماہ مبارک کا ہر دن اور ہر رات عبادت کے لیے ہے مگر سب سے زیادہ فضلیت شب قدر کی ہے۔ اس رات کو بارگاہ خداوندی کے دروازے اجابت دعا کے لیے کھول دیئے جاتے ہیں، گایہ گاروں کی توبہ قبول کر لی جاتی ہے اور مومنین بے حد و حساب ثواب لوٹے ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ بندے جو اس شب مسعود کو نماز خوانی اور تلاوت قرآن مجید میں بسر کرتے ہیں۔ مولوی داؤد صاحب کبھی ایسے اچھے موقعوں پر کو تاہی نہ کرتے تھے۔ انسان ہر ہر لمحہ اور ساعت میں نہ معلوم کتنے گناہوں کا مترتکب ہوتا ہے اچھے برے ہزاروں خیال دماغ سے گزرتے ہیں۔ قیامت کے ہولناک دن جب ہر شخص کے گناہ اور ثواب تولے جائیں گے اور رتی رتی کا حساب دینا ہو گا تو کیا معلوم کیا نتیجہ ہو۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا زیادہ ثواب ممکن ہو حاصل کر لیا جائے۔ مولوی داؤد صاحب کو جب لوگ منع کرتے تھے کہ اس قدر زیادہ ریاضت نہ کیا کریں تو وہ ہمیشہ یہی جواب دیتے۔
مولانا کا سن کوئی پچاس سال کا ہوگا، گو کہ پستہ قد تھے مگر توانا، گندمی رنگ، تکنی داڑھی، بال کھچڑی تھے۔ مولانا کی شادی انیس یا بیس برس کے سن میں ہو گئی تھی۔ آٹھویں بچے کے وقت ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہو گیا دو سال بعد انچاس برس کے سن میں مولانا نے دوسرا نکاح کیا۔ مگر ان کی نئی ممدوحہ کی وجہ سے مولانا کی جان ضیق میں رہتی۔ ان کے اور مولوی داؤد صاحب کے سن میں قریب بیس برس کا فرق تھا۔ گو کہ مولانا انہیں یقین دلایا کرتے تھے کہ ان کی داڑھی کے چند بال بلغم کی وجہ سے سفید ہو گئے ہیں۔ لیکن ان کی جوان بیوی فوراً دوسرے ثبوت پیش کرتیں اور مولانا کو چپ ہو جانا پڑتا۔
ایک سال کے شدید انتظار کے بعد شب قدر پھر آئی۔ افطار کے بعد مولانا گھنٹے آدھ گھنٹے لیٹے، اس کے بعد غسل کر کے مسجد میں نماز و دعا خوانی کے لیے فوراً روانہ ہو گئے۔ مسجد میں مسلمانوں کا ہجوم تھا۔ اللہ کے عقیدت مند اور نیک بندے، تہبندیں باندھے، لمبی لمبی ڈکاریں لیتے ہوئے مولانا داود صاحب سے مصافحہ کرنے کے لیے لپکے۔ مولانا کے چہرے سے نور ٹپک رہا تھا اور ان کا عصا گویا ان کے ایمان کی راستی کا شاہد بن کر سارے مجمع کو مرعوب کر رہا تھا۔ عشا کے بعد ڈیڑھ دو بجے رات تک اکتساب ثواب کا ایک لگاتار سلسلہ رہا، اس کے بعد سحر گہی کی حاضر لذت سے جسم نے نمو پائی اور مولانا گھر واپس چلے۔ جماہی پر جماہی چلی آتی تھی، شیرمال، پلاؤ اور کھیر سے بھرا ہوا معدہ آرام ڈھونڈھ رہا تھا۔ خدا خدا کر کے مولانا گھر واپس پہنچے۔ روح اور جسم کے درمیان سخت جنگ جاری تھی۔ لیلۃ القدر کے دو تین گھنٹے ابھی باقی تھے جو عبادت میں بسر کیے جا سکتے تھے۔ مگر جسم کو بھی سکون اور نیند کی بے انتہا خواہش تھی۔ آخرکار اس پرانے زاہد نے روحانیت کا دامن تھام لیا اور آنکھیں مل کر نیند بھگانے کی کوشش کی۔
گھر میں اندھیرا چھایا ہوا تھا، لالٹین بجھی پڑی تھی۔ مولانا نے دیا سلائی ادھر ادھر ٹٹولی مگر وہ نہ ملنا تھی نہ ملی۔ صحن کے ایک کونے میں ان کی بیوی کا پلنگ تھا، مولانا دبے قدم، ڈرتے ڈرتے، ادھر بڑھے اور آہستہ سے بیوی کا شانہ ہلایا۔ گرمیوں کی تاروں بھری رات، اور پچھلے پہر کی خنکی میں مولوی صاحب کی جوان بیوی گہری نیند سو رہی تھیں۔ آخر کار انھوں نے کروٹ بدلی، اور آدھے جاگتے، آدھو سوتے ہوئے دھیمی آواز سے پوچھا، ’’اے کیا ہے؟‘‘
مولانا اس نرم آواز کے سننے کے عادی نہ تھے۔ ہمت کر کے ایک لفظ بولے، ’’دیا سلائی۔‘‘
مولوی صاحب کی بیوی پر ابھی تک نیند غالب تھی مگر اس نیم بیداری کے عالم میں، رات کی تاریکی، ستاروں کی جگمگاہٹ اور ہوا کی خنکی نے شباب پر اپنا طلسم کر دیا تھا۔ یکبارگی انھوں نے مولانا کا ہاتھ اپنی طرف کھینچا اور ان کے گلے میں دونوں باہیں ڈال کر، اپنے گال کو ان کے منھ پر رکھ کر، لمبی لمبی سانسیں لیتے ہوئے کہا، ’’آؤ لیٹو۔‘‘
ایک لمحہ کے لیے مولانا کا بھی دل پھڑک گیا۔ مگر دوسرے لمحے میں انھیں حوا کی آرزو، آدم کا پہلا گناہ، زلیخا کا عشق، یوسف کی چاک دامانی، غرض عورت کے گناہوں کی پوری فہرست یاد آ گئی اور اپنے پر قابو ہو گیا۔ چاہے یہ سن کا تقاضا ہو، یاخوف خدا، یا روحانیت کے سبب سے ہو، بہرحال مولانا فوراً اپنی بیوی کے ہاتھ سے نکل کر اٹھ کھڑے ہوئے اور پتلی آواز سے پھر پوچھا، ’’دیا سلائی کہاں ہے؟‘‘
ایک منٹ میں عورت کی نیند اور اس کی بیساختہ خواہش کی ا منگ، دونوں غائب ہو کر طنز آمیز غصہ سے بدل گئی۔ مولانا کی بیوی پلنگ پر اٹھ بیٹھیں اور زہر سے بجھی ہوئی زبان سے ایک ایک لفظ تول تول کر کہا، ’’بڈھا موا! آٹھ بچوں کا باپ! بڑا نمازی بنا ہے! رات کی نیند حرام کر دی، دیا سلائی، دیا سلائی! طاق پر پڑی ہو گی۔‘‘
ایک مسن مرد کا دل دکھانے کے لیے اس سے زیادہ تکلیف دہ کچھ نہیں کہ اس کی جوان بیوی اسے بڈھا کہے۔ مولانا کانپ گئے مگر کچھ بولے نہیں۔
انھوں نے لالٹین جلا کر ایک تخت پر جا نماز بچھائی اور قرآن خوانی میں مشغول ہو گئے۔ مولانا کی نیند تو اڑ گئی تھی مگر تقریباً آدھے گھنٹہ کے بعد بھرے ہوئے معدے کے ابخارات نے جسم کو چور کر کے آنکھوں کو دبانا شروع کیا۔ سورۂ رحمن کی فصاحت اور مولانا کی دلآویز قرأت نے لوری کا کام کیا۔ تین چار مرتبہ اونگھ کر مولانا جا نماز ہی پر فَبِاَیِّ، اَیِّ کہتے کہتے سو گئے۔
پہلے تو ان پر نیند کی گم شدگی طاری رہی، اس کے بعد انھوں نے یکایک محسوس کیا کہ وہ اکیلے، تن تنہا، ایک تاریک میدان میں کھڑے ہوئے ہیں اور خوف سے کانپ رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد یہ اندھیرا روشنی سے بدلنے لگا اور کسی نے ان کے پہلو سے کہا، ’’سجدہ کر! تو بارگاہ باری تعالیٰ میں ہے۔‘‘ کہنے کی دیر تھی کہ مولوی صاحب سجدے میں گر پڑے اور ایک دل دہلا دینے والی آواز، بادل کی گرج کی طرح، چاروں طرف گونجتی ہوئی مولوی صاحب کے کان تک آئی، ’’میرے بندے ہم تجھ سے خوش ہیں! تو ہماری اطاعت میں تمام زندگی اس قدر محو رہا کہ کبھی تونے اپنی عقل اور اپنے خیال کو جنبش تک نہ دی جو دونوں شیطانی طاقتیں ہیں اور کفر والحاد کی جڑ ہیں۔ انسانی سمجھ ایمان و اعتقاد کی دشمن ہے۔ تو اس راز کو خوب سمجھا اور تونے کبھی نور ایمان کو عقل کے زنگ سے تاریک نہ ہونے دیا، تیرا انعام جنت ابدی ہے جس میں تیری خواہش پوری کی جائےگی۔‘‘ آواز یہ کہہ کر خاموش ہو گئی۔
تھوڑی مدت تک تو مولوی صاحب پر رعب خداوندی اس قدر غالب رہا کہ سجدے سے سر اٹھانے کی ہمت نہ ہوئی۔ کچھ دیر جب دل کی دھڑکن کم ہوئی تو انھوں نے لیٹے لیٹے کن انکھیوں سے اپنے داہنے، بائیں نظر ڈالی۔ ان آنکھوں نے کچھ اور ہی منظر دیکھا۔ سنسان میدان ایک عظیم الشان گول کمرے سے بدل گیا تھا۔ اس کمرے کی دیواریں جواہرات کی تھیں جن پر عجیب و غریب نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ سرخ، سبز، زرد، سنہرے اور روپہلے، جگمگاتے ہوئے پھول اور پھل۔ معلوم ہوتا تھا در و دیوار سے ٹپکے پڑتے ہیں۔ روشنی دیواروں سے چھن چھن کر آ رہی تھی، لیکن ایسی روشنی جس سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچے! مولانا اٹھ بیٹھے اور چاروں طرف نظر دوڑائی۔
عجب! عجب! ہر چہار طرف کمرے کی دیوار پر کوئی ساٹھ یا ستر قد آدم کھڑکیا ں تھیں اور ہر کھڑکی کے سامنے ایک چھوٹا سا دریچہ۔ ہر ایک دریچہ پر ایک حور کھڑی ہوئی تھی۔ مولانا جس طرف نظر پھیرتے حوریں ان کی طرف دیکھ کر مسکراتیں اور دلآویز اشارے کرتیں۔ مگر مولانا جھینپ کر آنکھیں جھکا لیتے۔ دنیا کا مہذب زاہد اس وجہ سے شرمندہ تھا کہ یہ سب کی سب حوریں سر سے پیر تک برہنہ تھیں۔ دفعتہ مولانا نے اپنے جسم پر جو نظر ڈالی تو وہ خود بھی اسی نورانی جامے میں تھے۔ گھبرا کر انھوں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی ہنس تو نہیں رہا ہے، مگر سوا ان حوروں کے اور کوئی بھی نظر نہ آیا۔ دنیا کی شرم گو کہ بالکل غائب نہیں ہوئی تھی، لیکن اس کے وجود کی سب سے بڑی وجہ یعنی اغیار کا طنز و تمسخر جنت میں کہیں نام کو بھی نہ تھا۔ مولانا کی گھبراہٹ کم ہوئی۔ ان کی رگوں میں جوانی کا خون ازسرنو دوڑ رہا تھا، وہ جوانی۔ جس کا زوال نہیں!
مولانا نے اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرا اور مسکراتے ہوئے ایک کھڑکی کی طرف بڑھے، حور آگے بڑھی اور انھوں نے اس پر سر سے پیر تک نظر ڈالی۔ اس کے جسم کا دمکتا ہوا چمپئی رنگ، اس کی کٹیلی آنکھیں، اس کا دل فریب تبسم، اس جنت نگاہ سے مولانا کی آنکھیں ہٹتی ہی نہ تھیں لیکن انسان ایک اچھی چیز سے بھلا کب سیر ہوتا ہے۔ مولانا کے قدم اٹھے اور وہ دوسرے در کی طرف بڑھے۔ اسی طرح وہ ہر در پر جا کر تھوڑی تھوڑی دیر رکتے، ان بہشتی ہستیوں کے ہر ہر عضو بدن کو غور سے دیکھتے اور مسکرا کر درود پڑھتے ہوئے آگے بڑھ جاتے۔ کسی کے گھونگھروالے بالوں کی سیاہی انھیں سب سے زیادہ پسند آتی، کسی کے گلابی گال، کسی کے عنابی ہونٹ، کسی کی متناسب ٹانگیں، کسی کی پتلی انگلیاں، کسی کی خمار آلود آنکھیں، کسی کی نوکیلی چھاتیاں، کسی کی نازک کمر، کسی کا نرم پیٹ۔
آخر کار ایک حور کی پیاری ادا نے مولانا کا دل موہ لیا۔ وہ فوراً اچک کر اس کے حجرے میں داخل ہوئے اور اسے بیساختہ اپنے سینے سے لگا لیا۔ مگر ابھی لب سے لب ملے ہی تھے کہ پیچھے سے قہقہے کی آواز آئی۔ اس بے موقعہ ہنسی پر مولانا کے غصہ کی کوئی انتہا نہ رہی۔ ان کی آنکھ کھل گئی۔ سورج نکل آیا تھا۔ مولانا جا نماز پر پیٹ کے بل پڑے ہوئے۔۔۔ کو سینے سے لگائے تھے۔ ان کی بیوی پہلو میں کھڑی ہنس رہی تھیں۔
مصنف:سجاد ظہیر