کہانی کی کہانی:’’ایک ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو غریبی، بے بسی، بھٹکاؤ اور نیم خوابیدگی کے شعور کا شکار ہے۔ وہ اپنی معاشی اور معاشرتی حالت سدھارنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پاتا۔ رات میں چارپائی پر لیٹے ہوئے مچھروں کی بھنبھناہٹ اور کتوں کے بھونکنے کی آواز سنتا ہوا وہ اپنی بیتی زندگی کے کئی واقعات یاد کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس نے اس زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کتنی جد و جہد کی ہے۔‘‘
گھڑ گھڑ گھڑ گھڑ، ٹخ، ٹخ، چٹ، ٹخ ٹخ ٹخ، چٹ چٹ چٹ۔
گزر گیا ہے زمانہ گلے لگائے ہوئے۔ ے۔۔۔ ے۔۔۔ خاموشی اور تاریکی۔ تاریکی، تاریکی۔ آنکھ ایک پل کے بعد کھلی، تکیہ کے غلاف کی سفیدی، تاریکی، مگر بالکل تاریکی نہیں۔۔۔ پھر آنکھ بند ہو گئی۔ مگر پوری تاریکی نہیں۔ آنکھ دباکر بند کی، پھر بھی روشنی آہی جاتی ہے۔ پوری تاریکی کیوں نہیں ہوتی؟ کیوں نہیں؟ کیوں نہیں؟
بڑا میرا دوست بنتا ہے، جب ملاقات ہوئی، آئیے اکبر بھائی، آپ کے دیکھنے کو تو آنکھیں ترس گئیں۔ ہیں ہیں ہیں۔ کچھ تازہ کلام سنائیے۔ لیجیے سگریٹ نوش فرمائیے، مگر سمجھتا ہے، شعر خوب سمجھتا ہے۔ وہ دوسرا الو کا پٹھا تو بالکل خردماغ ہے۔ اخاہ! آج توآپ نئی اچکن پہنے ہیں۔ نئی اچکن پہنے ہیں۔۔۔ تیرے باپ کا کیا بگڑتا ہے جو میں اچکن پہنے ہوں۔ تو چاہتا ہے کہ بس ایک تیرے ہی پاس نئی اچکن ہو اور شعر سمجھنا تو درکنار صحیح پڑھ بھی نہیں سکتا۔ ناک میں دم کر دیتا ہے۔ بیہودہ، بدتمیز کہیں کا! مگر بڑا بھائی میرا دوست بنتاہے۔ ایسوں کی دوستی کیا! میری باتوں سے اس کادل ذرا بہل جاتا ہے، بس، یہی دوستی ہے۔ مفت کا مصاحب ملا، چلو مزے ہیں۔۔۔ خدا سب کچھ کرے غریب نہ کرے، دوسروں کی خوشامد کرتے کرتے زبان گھس جاتی ہے اور وہ ہیں کہ چار پیسے جو جیب میں ہم سے زیادہ ہیں تو مزاج ہی نہیں ملتے۔ میں نے آخر ایک دن کہہ دیا کہ میں نوکر ہوں، کوئی آپ کا غلام نہیں ہوں، تو کیا آنکھیں نکال کر لگا مجھے دیکھنے۔ بس جی میں آیا کہ کان پکڑ کے ایک چانٹا رسید کروں، سالے کا مزاج درست ہو جائے۔
ٹپ ٹپ کھٹ ٹپ ٹپ کھٹ ٹپ ٹپ کھٹ، ٹپ ٹپ ٹپ۔۔۔ ٹ۔۔۔
اس وقت رات کو یہ آخر کون جا رہا ہے؟ مرن ہے اس کی اور کہیں پانی برسنے لگے تو اور مزہ ہے۔ لکھنؤ میں جب میں تھا۔ ایک جلسہ میں، موسلادھار بارش۔ امین الدولہ پارک تالاب معلوم ہوتا تھا۔ مگر لوگ ہیں کہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتے اور کیا ہے کیا جو یوں سب جان پر کھیلنے کو تیار ہیں۔ مہاتما گاندھی کے آنے کا انتظار ہے۔ اب آئیں، تب آئیں، وہ آئے، آئے، آئے۔ وہ مچان پر مہاتما جی پہنچے۔۔۔ جے، جے، جے، خاموشی۔
میں آپ لوگوں سے یے کینا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ بدیشی کا پڑ پیننا بالکل چھوڑ دیں۔ یے سیطانی گورَن منٹ۔۔۔ یہاں پانی سرسے ہوکر پیروں سے پرنالوں کی طرح بہنے لگا۔ قدرت موت رہی تھی۔ سیطانی گورنمنٹ، شیطانی، گورنمنٹ کی نانی۔ اس گاندھی سے شیطانی گورنمنٹ کی نانی مرتی ہے۔ اہاہا، شیطانی اور نانی۔۔۔ اکبر صاحب، آپ تو ماشاء اللہ شاعر ہیں، کوئی قومی نظم تصنیف فرمائیے۔ یہ گل و بلبل کے افسانے کب تک۔ قوم کی ایسی تیسی! میرے ساتھ قوم نے کیا اچھا سلوک کیا ہے کہ میں گل و بلبل چھوڑ کر قوم کے آگے تھرکوں۔
مگر میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے آخر کسی کے ساتھ کیا برا سلوک کیا ہے کہ سارا زمانہ ہاتھ دھوکر میرے پیچھے پڑا ہے۔ میرے کپڑے میلے ہیں۔۔۔ ان سے بدبو آتی ہے۔۔۔ بدبو سہی۔ میری ٹوپی دیکھ کر کہنے لگا کہ تیل کا دھبہ پڑگیا، نئی ٹوپی کیوں نہیں خریدتے؟ کیوں خریدوں نئی ٹوپی۔ نئی ٹوپی۔ نئی ٹوپی۔ نئی ٹوپی میں کیا سرخاب کا پر لگا ہے؟ انگشت نما تھی کج کلاہی جن کی۔۔۔ وہ جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ آج ہم اوجِ طالع لعل و گہر کو۔۔۔
واہ وا واہ! کیا بے تکاپن ہے۔ جارج پنجم کے تاج میں ہمارا ہندوستانی ہیرا ہے۔ لے گیے چرا کے انگریز رہ گیے نامنہ دیکھتے! اڑ گئی سونے کی چڑیا، رہ گئی دم ہاتھ میں۔ اب چاہتے کہ دم بھی ہاتھ سے نکل جائے۔ دُم نہ چھوٹنے پائے۔ شاباش ہے میرے پہلوان! لگائے جا زور! دم چھوٹی تو عزت گئی۔ کیا کہا؟ عزت؟ عزت لے کے چاٹناہے۔ سوکھی روٹی اورنمک کھاکر کیا بانکا جسم نکل آیا ہے۔ فاقہ ہو تو پھر کیا کہنا اور اچھا ہے۔ پھر تو بس عزت ہے اور عزت کے اوپر خداوند پاک۔۔۔ خداوند پاک، اللہ، باری تعالی، رب العزت، پرمیشر، پرماتما، لاکھ نام لے جاؤ۔ جلدی، جلدی، جلدی اور جلدی۔ کیا ہوا؟ روحانی سکون؟ بس تمہارے لیے یہی کافی ہے۔ مگر میرے پیٹ میں تو دوزخ ہے۔ دعا کرنے سے پیٹ نہیں بھرتا، پیٹ سے ہوا نکل جاتی ہے۔ بھوک اور زیادہ معلوم ہونے لگتی ہے۔
بھوں، بھوں، بھوں۔۔۔
اب ان کا بھونکنا شروع ہواتو رات بھر جاری رہےگا۔ مچھر الگ ستا رہے ہیں۔ تو بہ ہے توبہ! ایک جالی کاپردہ گرمیوں میں بہت آرام دیتا ہے۔ مچھروں سے نجات ملتی ہے۔ مگر کیا، نجات کیا! دن بھر کی مشقت، چیخ پکار، کڑی دھوپ میں گھنٹوں ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتے گھومتے جان نکل جاتی ہے۔ اماں کہا کرتی تھیں، اکبر دھوپ میں مت دوڑ، آ، میرے پاس آکے لیٹ بچے! لو لگ جائے گی تجھے بچے۔ ایک مدت ہوگئی اسے بھی۔ اب تو یہ باتیں خواب معلوم ہوتی ہیں اور مولوی صاحب ہمیشہ میری تعریف کرتے تھے، دیکھو نالائقو! اجبر کو دیکھو، اسے شوق ہے علم کا۔ خواب، وہ سب باتیں خواب معلوم ہوتی ہیں۔ میں بستہ تختی لیے دوڑتا ہوا واپس آتا تھا۔ اماں گود سے چمٹا لیتی تھیں۔ مگر کیا آرام تھا! اس وقت بھی کیا آرام تھا! یہ سب چیزیں میری قسمت میں ہی نہیں۔ مگر جو مصیبت میں برداشت کر چکا شاید ہی کسی کو اٹھانی پڑی ہوں۔ اسے یاد کرنے سے فائدہ؟
خیراتی اسپتال، نرسیں، ڈاکٹر، سب ناک بھوں چڑھائے اور اماں کا یہ حال کہ کروٹ لینا محال اور ان کے اگالدان میں خون کے ڈلے کے ڈلے۔ معلوم ہوتا تھا کہ گوشت کے لوتھڑے ہیں۔۔۔ اور میں سب کو خط پہ خط لکھتا تھا۔ یہی سب جو رشتہ داربنتے ہیں! آئیے اکبر بھائی آئیے! آپ سے تو برسوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔۔۔ یہی! انھیں کے ماں، باپ۔ کیا ہو جاتا اگر ذرا اور مدد کر دیتے۔ دنیا بھر کی خرافات پر پانی کی طرح دولت بہاتے ہیں۔ کسی رشتہ دار کی مدد کرتے وقت مل مل کر پیسہ دیتے ہیں۔ اور پھر احسان جتانا اتنا کہ خدا کی پناہ! ایک دن میں کہیں باہر گیا ہوا تھا، انھیں صاحبزادے کی والدہ، اماں کو دیکھنے آئیں۔ میں جو پہنچا تو انھیں آئے ہوئے چند ہی منٹ ہوئے تھے۔ چہرہ سے ٹپک رہا تھا کہ انہیں ڈر ہے جراثیم ان کے سینے کے اندر نہ گھس جائیں۔ مگر بیمار کو دیکھنے آنا فرض ہے، ثواب کا کام ہے۔
یہ سب تو سب الٹے مجھے ڈانٹنا شروع کیا: کہاں گیے تھے تم اپنی والدہ کو چھوڑ کر۔ ان کی حالت ایسی نہیں کہ انہیں اس طرح سے چھوڑا جائے۔۔۔ مریض کے منہ پر اس طرح کی باتیں۔ میں غصہ سے کھولنے لگا، مگر مرتا کیا نہ کرتا۔ اسپتال کا خرچ انھیں لوگوں سے لینا تھا۔ میرے بیوی بچے کا ٹھکانا انہیں کے یہاں تھا۔۔۔ میری شادی کی جس نے سنا مخالفت کی۔ لیکن اماں بیچاری کا سب سے بڑا ارمان میری شادی تھی۔ اکبر کی دلہن بیاہ کے لاؤں، بس میری یہ آخری تمنا ہے۔ لوگ کہتے تھے کہ گھر میں کھانے کو نہیں۔ شادی کس بوتے پر کروگی۔ اماں کہتی تھیں کہ خدا رازق ہے۔ جب میری نسبت طے ہوگئی، شادی کی تاریخ مقرر ہو گئی، شادی کا دن آ گیا، تو وہی لوگ جو مخالفت کرتے تھے سب برات میں جانے کو تیار ہوکر آگیے۔ ساری بچی بچائی پونجی اماں کی مہمان داری اور شادی کے لوازمات میں خرچ ہو گئی۔ گیس کی روشنی، ریشمی اچکنیں، پلاؤ، باجہ، مسند، ہنسی مذاق، بھیڑ۔ کھانے میں کمی پڑ گئی۔ باورچی نے چوری کی۔ بادشاہ علی صاحب کا جوتا چوری گیا، زمین آسمان کے قلابے ملادیے۔ ابے الو کے پٹھے تو نے جوتا سنبھال کے کیوں نہیں رکھا۔ جی حضور! قصور میرا نہیں۔۔۔ مہر کا جھگڑا ہونا شروع ہوا۔ موجل اور معجل کی بحث۔ منہ دکھائی کی رسم، سلام کرائی کی رسم۔ مذاق، پھول، گالی گلوج۔ شادی ہوگئی۔ اماں کا ارمان پورا ہو گیا۔
محرم علی بیچارا چالیس برس کا ہو گیا اس کی شادی نہیں ہوئی۔ اکبر میاں شادی کروا دیجیے، شیطان رات کو بہت ستاتا ہے۔ شادی، خوشی۔ کوئی ہمدرد بات کرنے والا جس سے اپنے دل کی ساری باتیں اکیلے سنادیں۔ کوئی عورت جس سے محبت کر سکیں، دوگھڑی ہنسیں بولیں، چھاتی سے لگائیں پیار کریں۔۔۔ ارے مان بھی جاو میری جان! میری پیاری، میری سب کچھ۔ زبان بیکار ہے۔ ہاتھ، پیر، سارا جسم، جسم کا ایک ایک رونگٹا۔۔۔ کیوں آج مجھ سے خفا ہو؟ بولو! ارے تم نے تو روناشروع کیا۔ خدا کے واسطے بتاؤ آخر کیا بات کیا ہے؟ دیکھو، میری طرف دیکھو تو سہی۔ وہ آئی ہنسی، وہ آئی ہونٹوں پر۔ بس اب ہنس تو دو۔ کیا دو دن کی زندگی میں خواہ مخواہ کا رونا دھونا۔ افوہ، یوں نہیں یوں۔ اور اور اور زور سے میرے سینے سے لپٹ جاؤ۔
لکھنؤ کے کوٹھوں کی سیر میں نے بھی کی ہے۔ ایسا غریب نہیں ہوں کہ دور ہی سے رنڈیوں کو دیکھ کر سسکیاں لیا کروں۔ آئیے حضور اکبر صاحب! یہ کیا ہے جو مدتوں سے ہماری طرف رخ ہی نہیں کرتے۔ ادھر کوئی نئی چلتی ہوئی غزل کہی ہو تو عنایت فرمائیے۔ گاکر سناؤں۔ لیجیے پان نوش فرمائیے۔ ارے لو اور لو، ذرا دم تو لیجیے۔ نہیں آج تو معاف فرمائیے، پھر کبھی۔ میں تو آپ کی خادم ہوں۔۔۔ روپے کی غلام۔ سمجھتی ہے میرے پاس ٹکے نہیں۔ روپے دیکھ کر راضی ہوگئی۔ کیا سناؤں حضور۔۔۔! طبلہ کی تھاپ، سارنگی کی آواز، گانا بجانا۔ پھر تو میں تھا اور وہ تھی اور ساری رات تھی۔ نیند جسے آئی ہو وہ کافر۔ یہ راتوں کاجاگنا۔ دوسرے دن دردسر، تھکاوٹ، بدمزگی۔ اماں کی بیماری کے زمانے میں ان کی پلنگ کی پٹی سے لگا گھنٹوں بیٹھا رہتا تھا اور ان کی کھانسی۔ کبھی کبھی تو مجھے خود ڈر معلوم ہونے لگتا۔ معلوم ہوتا تھا کہ ہر کھانسی کے ساتھ ماں کے سینے میں ایک گہرا خم اور پڑ گیا۔ ہر سانس کے ساتھ جیسے زخموں پر سے کسی نے تیز چھری کی باڑھ چلا دی۔ اور وہ گھر گھراہٹ جیسے کسی پرانے کھنڈر میں لو چلنے کی آواز ہوتی ہے۔ ہولناک۔ مجھے اپنی ماں سے ڈر معلوم ہونے لگتا۔
اس ہڈی چمڑے کے ڈھانچے میں میری ماں کہاں! میں ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتا، دھیرے سے دباتا، ان کی آدھی کھلی آدھی بند آنکھیں میری طرف مڑتیں، ان کی نظر مجھ پر ہوتی۔ اس وقت اس شکستہ پامال، مردہ جسم بھر میں بس آنکھیں زندہ ہوتیں۔ ان کے ہونٹھ ہلتے۔ اماں! اماں! آپ کیا کہنا چاہتی ہیں، جی! میں اپنا کان ان کے لبوں کے پاس لے جاتا۔ وہ اپنا ہاتھ اٹھاکر میرے سر پر رکھتیں۔ میرے بالوں میں ان کی انگلیاں معلوم ہوتا تھا پھنسی جاتی ہیں اور وہ چھڑانا نہیں چاہتیں۔ بہت دیر ہوگئی، جاؤ تم سو رہو۔۔۔ اماں یونہی پلنگ پر لیٹی ہیں۔ ایک مہینہ، دو مہینہ، تین مہینہ، ایک سال، دو سال، سو سال، ہزار سال۔ موت کافرشتہ آیا۔ بدتمیز، بیہودہ کہیں کا! چل نکل یہاں سے، بھاگ، ابھی بھاگ، ورنہ تیری دم کاٹ لوں گا، ڈانٹ پڑے گی پھربڑے میاں کی! ہنستا ہے؟ کیوں کھڑا ہے سامنے دانت نکالے، تیرے فرشتے کی ایسی کی تیسی۔ تیرے۔۔۔ فرشتے۔۔۔ کی۔۔۔
ساری دنیا کی ایسی کی تیسی، میاں اکبر تمہاری ایسی تیسی۔ ذرا آپ کی قطع ملاحظہ فرمائیے۔ پھونک دو تو اڑ جائیں۔ بڑے شاعر غرا بنے ہیں۔ مشاعروں میں تعریف کیا ہو جاتی ہے کہ سمجھتے ہیں۔۔۔ کیا سمجھتے ہیں بیچارے سمجھیں گے کیا! بیوی جان کو سمجھنے بھی دیں۔ صبح سے شام تک شکایت، رونا دھونا۔ کپڑا پھٹا ہے۔ بچے کی ٹوپی کھو گئی، نئی خرید کے لے آؤ۔۔۔ جیسے میری اپنی ٹوپی نئی ہے۔۔۔ کہاں کھو گئی ٹوپی؟ میں کیا جانوں کہاں کھو گئی۔ اس کے ساتھ کونے کونے میں تھوڑی بھاگتی پھرتی ہوں۔ مجھے کام کرنا ہوتا ہے۔ برتن دھونا، کپڑے سینا۔ سارے گھر کا کام میرے ذمہ ہے۔ مجھے کسی کی طرح شعر کہنے کی فرصت نہیں۔ سن لو خوب اچھی طرح سے، مجھے کام کرنا ہوتا ہے۔ بھڑکا چھتہ چھیڑ دیا اب جان بچانی مشکل ہوئی۔ کیا قینچی کی طرح زبان چلتی ہے۔ ماشاءاللہ، چشم بددور۔۔۔ اچھی طرح جانتے ہو کہ میرے پاس پہننے کو ایک ٹھکانے کا کپڑا نہیں ہے۔ لڑکا تمہارا الگ ننگا گھومتا ہے، مگر تم ہو کہ معلوم ہوتا ہے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ جیسے کسی غیر کے بیوی بچے ہیں۔ ہائے اللہ میری قسمت پھوٹ گئی۔
اب رونا شروع ہونے والا ہے۔ میاں اکبر بہتر یہی ہے کہ تم چپکے سے کھسک جاؤ۔ اس میں شرمانے کی کیا بات ہے۔ تمہاری مردانگی میں کوئی فرق نہیں آتا۔ خیریت بس اب اسی میں ہے کہ خاموشی کے ساتھ کھسک جاؤ۔ ہجرت کرنے سے ایک رسول کی جان بچی۔ معلوم نہیں ایسے موقع پر رسول بیچارے کیا کرتے تھے، عورتوں نے ان کے بھی تو ناک میں دم کر رکھا تھا۔ تو پھر میری کیا ہستی ہے۔ اے خدا آخر تو نے عورت کیوں پیدا کی؟ مجھ جیسا غریب، کمزور آدمی تیری اس امانت کا بار اپنے کندھوں پر نہیں اٹھا سکتا اور قیامت کے دن میں جانتا ہوں کیا ہوگا۔ یہی عورتیں وہاں بھی چیخ پکار مچائیں گی، وہ غمزے کریں گی، وہ آنکھیں ماریں گی کہ اللہ میاں بیچارے خود اپنی سفید داڑھی کھجانے لگیں۔ قیامت کا دن آخر کیسا ہوگا؟ سوانیزے پرآفتاب، مئی جون کی گرمی اس کے سامنے ہیچ ہوگی۔۔۔ گرمی کی تکلیف، توبہ توبہ ارے توبہ! یہ مچھروں کے مارے ناک میں دم، نیند حرام ہو گئی۔
پن پن۔ چٹ۔ وہ مارا۔ آخر یہ کمبخت ٹھیک کان کے پاس آکے کیوں بھنبھناتے ہیں۔ خدا کرے قیامت کے دن مچھر نہ ہوں۔ مگر کیا ٹھیک۔ کچھ ٹھیک نہیں۔ آخر مچھر اور کھٹمل اس دنیا ہی میں خدا نے کس مصلحت سے پیدا کیے؟ معلوم نہیں پیمبروں کو کھٹمل اور مچھر کاٹتے ہیں یا نہیں۔ کچھ ٹھیک نہیں، کچھ ٹھیک نہیں۔۔۔ آپ کا نام کیا ہے؟ میرا کیا نام ہے۔ کچھ ٹھیک نہیں۔ واہ وا واہ! مصلحتِ خداوندی۔ خداوندی اور رنڈی اور بھنڈی۔ غلط! بھن ڈی ہے۔ بھنڈی تھوڑی ہے۔ میاں اکبر! اتنا بھی اپنی حد سے نہ باہر نکل چلے اور کیا ہے؟ بحر رجز میں ڈال کے بحر رمل چلے، بحر رمل چلے، خوب! وہ طفل کیا گرےگا جو گھٹنوں کے بل چلے۔ انگور کھٹے! آپ کو کھٹاس پسند ہے؟ پسند، پسند سے کیا ہوتا ہے؟ چیز ہاتھ بھی تو لگے۔ مجھے گھوڑی گاڑی پسند ہے مگر قریب پہنچا نہیں کہ وہ دولتی پڑتی ہے کہ سرپر پاؤں رکھ کر بھاگنا پڑتا ہے اور مجھے کیا پسند ہے؟ میری جان! مگر تم تو میری جان سے زیادہ عزیز ہو۔
چلو ہٹو! بس رہنے بھی دو، تمہاری میٹھی میٹھی باتوں کا مزہ میں خوب چکھ چکی ہوں۔۔۔ کیوں کیا ہوا کیا۔۔۔؟ ہوا کیا؟ مجھ سے یہ بے غیرتی نہیں سہی جاتی۔ تم جانتے ہو کہ دن بھر لونڈی کی طرح سے میں کام کرتی ہوں، بلکہ لونڈی سے بھی بدتر۔ جب سے میں اس گھر میں آئی ہوں کسی خدمت گارن کو ایک مہینہ سے زیادہ ٹکتے نہ دیکھا۔ مجھے سال بھر سے زیادہ ہوگیے اور کبھی جو ذرا دم لینے کی فرصت ملی ہو۔ اکبر کی دلہن یہ کرو، اکبر کی دلہن وہ کرو۔۔۔ ارے ارے کیا ہوا کیا، تم نے تو پھر رونا شروع کیا۔۔۔ میں تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں، مجھے یہاں سے کہیں اور لے جاکے رکھو۔۔۔ میں شریف زادی ہوں۔۔۔ سب کچھ تو سہہ لیا اب مجھ سے گالی نہ برداشت ہوگی۔ گالی! گالی! معلوم نہیں کیا گالی دی۔ میری بیوی پر گالیاں پڑنے لگیں۔
یا اللہ! یا اللہ! اس بیگم کمبخت کا گلا اور میرا ہاتھ۔ اس کی آنکھیں نکل پڑیں، زبان باہر نکلنے لگی۔ خس کم جہاں پاک۔۔۔ خدا کے لیے مجھے چھوڑ دو! قصور ہوا، معاف کرو، اکبر، میں نے تمہارے ساتھ احسان بھی کیے ہیں۔۔۔ احسان تو ضرور کیے ہیں۔ احسانوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مگر اب تمہارا وقت آ گیا۔ کیا سمجھ کے میری بیوی کو گالیاں دی تھیں؟ بس ختم! آخری دعا مانگ لو! گلا گھوٹنے سے سر کاٹنا بہتر ہے۔ بالوں کو پکڑ کر کٹا ہوا سر اٹھانا، زبان ایک طرف کو نکلی پڑ رہی ہے۔ خون ٹپک رہاہے۔ آنکھیں گھور رہی ہیں۔۔۔ یا اللہ آخر مجھے کیا ہو گیا؟ خون کا سمندر! میں خون کے سمندر میں ڈوبا جا رہا ہوں۔ چاروں طرف سے لال لال گولے میری طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ وہ آیا! وہ آیا! ایک، دو، تین! سب میرے سر پر آکر پھٹیں گے۔۔۔ کہیں یہ دوزخ تو نہیں؟ مگر یہ تو گولے ہیں، آگ کے شعلے نہیں۔۔۔ میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ میرے رونگٹے جل رہے ہیں۔ دوڑو! ارے دوڑو! خدا کے لیے دوڑو! میری مدد کرو، میں جلا جا رہا ہوں۔ میرے سر کے بال جلنے لگے۔ پانی! پانی! کوئی سنتا کیوں نہیں؟ خدا کے واسطے میرے سر پر پانی ڈالو! کیا؟ ان جلتے ہوئے انگاروں پر سے مجھے ننگے پیر چلنا پڑےگا؟ کیا؟ میری آنکھوں میں دہکتے ہوئے لوہے کی سلاخیں ڈالی جائیں گی؟ کیا؟ مجھے کھولتا ہوا پانی پینے کو ملےگا؟ کیا کیا کیا؟ مجھے پیپ کھانا پڑےگی؟
یہ شعلے میری طرف کیوں بڑھتے چلے آ رہے ہیں؟ یہ شعلے ہیں یا نیزے ہیں؟ آگ کے نیزے! زخم کی بھی تکلیف اور جلنے کی بھی۔ یہ کس کے چیخنے کی آواز آئی؟ میں تو سن چکا ہوں اس آواز کو۔ اُواُواُو۔۔۔ اُوووو۔۔۔ آواز دور ہوتی جاتی ہے۔ میرے لڑکے نے آخر کیا قصور کیا ہے؟ میرے لڑکے کو کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟ میرا لڑکا تو ابھی چار برس کا ہے۔ اسے تو معاف کر دینا چاہیے۔ میں گنہگار ہوں! میں خطاوار ہوں! یہ کون آ رہا ہے میرے سامنے سے؟ ارے معاذ اللہ! سانپ چمٹے ہوئے ہیں اس کی گردن سے۔ اس کے پستان کو کاٹ رہے ہیں۔۔۔ اے حضور! آداب عرض ہے! اے حضور بھول گئے ہم غریبوں کو؟ میں ہوں منی جان! کوئی ٹھمری، کوئی دادرا، کوئی غزل۔ اے ہے آپ تو جیسے ڈرے جاتے ہیں حضور! یہ سانپ آپ سے کچھ نہیں بولیں گے۔ ان کا بھی عجب لطیفہ ہے۔ میں جب یہاں داخل ہوئی تو داروغہ صاحب نے کہا، بی منی جان! سرکار کا حکم ہے پانچ بچھو تمہاری خدمت کے لیے حاضر کیے جائیں۔ میں حضور سہم گئی۔ بچپن سے مجھے بچھوؤں سے نفرت تھی۔ میں نے حضور بہت ہاتھ پیر جوڑے، مگر داروغہ صاحب نے کہا کہ سرکار کے حکم کی تعمیل ان پر فرض ہے۔ تب میں نے کہا کہ اچھا آپ مجھے سرکار کے دربار میں پہنچا دیں، میں خود ان سے عرضداشت کروں گی۔
داروغہ صاحب بیچارے بھلے آدمی تھے، مجھے اپنے پاس بلاکے بٹھایا، میرے گالوں پر ہاتھ پھیرے، آخر کار راضی ہوگیے۔ پہلے تو مجھے کئی گھنٹے انتظار کرنا پڑا۔ داروغہ صاحب نے کہا کہ اس وقت سرکار پیمبروں کی کونسل کر رہے ہیں، جب اس سے فرصت ہوگی تب میری پیشی ہوگی۔ میں نے جو یہ سنا تو کوشش کی کہ جھانک کر اپنے پیمبر صاحب کا جلوہ دیکھ لوں، مگر دروازے کے دربان، موئے مسٹنڈے دیو، مجھے دھکا دے کر الگ کر دیا۔ خیرحضور، آخرکار میری باری آئی۔ میرا دل دھڑ دھڑ کر رہا تھا کہ دیکھوں کیا ہوتا ہے۔ سرکار کے دربار میں داخل ہوتے ساتھ ہی میں گھٹنوں کے بل گرپڑی۔ میری اپنی زبان سے تو کچھ بولا نہ جاتا تھا، داروغہ صاحب نے میرا احوال بیان کیا۔
اتنے میں حکم ہوا کھڑی ہو۔ میں حضور کھڑی ہو گئی۔ تو سرکار خود اٹھ کے میرے پاس تشریف لائے۔ بڑی سی سفید داڑھی، گورا چٹارنگ، اور میری طرف مسکراکے دیکھا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر ایک بغل کے کمرے میں لے گیے۔ میری حضور سمجھ ہی میں نہیں آتا تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے۔۔۔ مگر حضور دیکھنے ہی میں بڈھے معلوم ہوتے ہیں، ایسے مرد دنیا میں تو میں نے دیکھے نہیں اور آپ کی دعا سے حضور میرے یہاں بڑے بڑے رئیس آتے تھے! خیر تو حضور بعد میں سرکار نے فرمایا کہ سزا تو مجھے ضرور ملے گی، کیونکہ ان کا انصاف تو سب کے ساتھ برابر ہے، مگر بجائے بچھو کے مجھے دو ایسے سانپ ملے جو بس میرے پستان چاٹا کرتے ہیں۔ سچ پوچھیے حضور تو اس میں تکلیف کچھ نہیں اور مزا ہی ہے۔۔۔ مگرآپ تو مجھ سے ڈرے جاتے ہیں۔ اکبر صاحب! اے حضور اکبر صاحب۔۔۔ کوئی ٹھمری، کوئی دادرا، کوئی غزل۔۔۔
یا اللہ مجھے جہنم کی آگ سے بچا! تو ارحم الراحمین ہے۔ میں تیرا ایک ناچیز گنہگار بندہ تیرے سامنے دست بدعا ہوں۔۔۔ مگر کچھ بھی ہو ذلت مجھ سے برداشت نہ ہوگی۔ میری بیوی پر گالیاں پڑنے لگیں۔ مگر میں کروں تو کیا کروں؟ بھوکا مروں؟ ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ اس پر ایک کھوپڑی، کھٹ کھٹ کرتی سڑک پر چلی جا رہی ہے۔ اکبر صاحب! آپ کے جسم کا گوشت کیا ہوا؟ آپ کا چمڑا کدھر گیا؟ جی میں بھوکا مر رہا ہوں، گوشت اپنا میں نے گدھوں کو کھلا دیا، چمڑے کے طبلے بنواکر بی منی جان کو تحفہ دے دیے۔ کہیے کیا خوب سوجھی! آپ کو رشک آتا ہو تو بسم اللہ میری پیروی کیجیے۔ میں کسی کی پیروی نہیں کرتا! میں آزاد ہوں ہواکی طرح سے! آزادی کی آج کل اچھی ہوا چلی ہے۔ پیٹ میں آنتیں قل ہو اللہ پڑھ رہی ہیں اور آپ ہیں کہ آزادی کے چکر میں ہیں۔ موت یا آزادی! نہ مجھے موت پسند نہ آزادی۔ کوئی میرا پیٹ بھر دے۔
پن، پن پن۔ چٹ، ہت ترے مچھر کی۔۔۔ ٹن ٹن ٹن۔۔۔ ٹن ٹن۔۔۔
مصنف:سجاد ظہیر