سریّا ہنس رہی تھی۔ بے طرح ہنس رہی تھی۔ اس کی ننھی سی کمر اس کے باعث دہری ہوگئی تھی۔ اس کی بڑی بہن کو بڑا غصہ آیا۔ آگے بڑھی تو ثریا پیچھے ہٹ گئی اور کہا، ’’جا میری بہن، بڑے طاق میں سے میری چوڑیوں کا بکس اٹھالا۔ پر ایسے کہ امی جان کو خبر نہ ہو۔‘‘
ثریا اپنی بڑی بہن سے پانچ برس چھوٹی تھی۔ بلقیس انیس کی تھی۔ ثریا نے جھنجھلاہٹ سے ہنستے ہوئے کہا، ’’اور جو میں نہ لاؤں تو؟‘‘
بلقیس نے جل کر اسے کہا، ’’ایک فقط تو مجھ اللہ ماری کا کام نہیں کرے گی ،نگوڑیاں ہمسائیاں چاہے تم سے اپلے تک تھپوالیں۔‘‘
ثریا کو اپنی بہن پر پیار آگیا۔ اس کے گلے سے چمٹ گئی، ’’نہیں باجی، ہمسائیاں جائیں جہنم میں۔ میں تو تمہاری خدمت کے لیے بھی تیار ہوں۔۔۔ میں چوڑیوں کا بکس ابھی لاتی ہوں۔‘‘
ثریا یوں چٹکیوں میں بکس اٹھا لائی اور بلقیس سے بڑے جاسوسانہ انداز میں کہا، ’’آپ ضرور سنیما دیکھنے جارہی ہیں۔‘‘
’’ثریا تو اب زیادہ بک بک نہ کر۔۔۔ تیری قسم میں سنیما نہیں جارہی۔‘‘
ثریا نے بچپنے کے سے انداز سے پوچھا، ’’تو پھر یہ تیاریاں کیوں ہو رہی ہیں؟‘‘
’’یہ تو میرا امتحان لینے کیا بیٹھ گئی ہے۔ اور میں بے وقوف نہیں جو تیری ہر بات کا جواب دیے چلی جاؤں۔ سن ساڑھے آٹھ بجے وہاں پہنچ جانا چاہیے۔ نئی چوڑیاں جائیں جہنم میں، نہیں پہنوں گی تو کون سا آفت کا پہاڑٹوٹ پڑے گا۔ تیری بحث تو پھر ختم نہیں ہوگی کم بخت۔‘‘
ثریا بے حد افسردہ ہوگئی۔ ننھی جان تھی۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا۔ اس نے اپنی بہن کا ہاتھ پکڑلیا،’’آپ ناراض ہوگئیں مجھ سے ؟‘‘
’’چل دور ہو۔۔۔ ‘‘بلقیس اپنے آپ سے بلکہ ہر چیز سے بےزار ہو رہی تھی،’’آج مجھے ضروری ایک کام سے باہر جانا ہے۔ پر مصیبت یہ ہے کہ امی جان اجازت نہیں دیں گی۔ کہیں گی متواتر تین شاموں سے تو باہر جارہی ہے اور میں ان سے وعدہ کرچکی ہوں کہ ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے پہنچ جاؤں گی۔ ‘‘
ثریا نے پوچھا، ’’کس سے ؟‘‘
بلقیس نے غیر ارادی طور پر جواب دیا،’’لطیف صاحب سے ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک دم خاموش ہوگئی۔ ثریا سوچنے لگی کہ یہ لطیف صاحب کون ہیں؟ ان کے ہاں تو کبھی اس نام کا آدمی نہیں آیا تھا۔ ثریا نے اس شش و پنج میں اپنی بہن سے پوچھا،’’یہ لطیف صاحب کون ہیں باجی ؟‘‘
’’لطیف صاحب۔۔۔ مجھے کیا معلوم۔۔۔ کون ہیں ار۔ ار۔ سچ مچ یہ کون ہیں۔‘‘
ایک دم سنجیدہ ہوکر، ’’ثریا۔۔۔ تو نے آج کا سق یاد کیا؟ تو بہت وہ ۔۔۔ ہوگئی ہے۔ اس لیے تو اوٹ پٹانگ سوال کرتی رہتی ہے۔‘‘
ثریا کی معصومیت کوٹھیس پہنچی، ’’باجی میں نے کبھی کوئی واہیات بات نہیں کی۔ آپ نے کس لطیف صاحب سے ملنے کا وعدہ کیا ہوا ہے؟‘‘
بلقیس اس کی معصومیت سے تنگ آگئی۔ جھنجھلا کر بولی، ’’خاموش رہ۔۔۔‘‘ اتنے میں اندر صحن سے بلقیس کی ماں کی آواز سنائی دی، ’’بلقیس۔ بلقیس۔‘‘
بلقیس کی آواز دب گئی۔ اس نے ہولے لہجے میں اپنی بہن سے کہا، ’’لے یہ اکنی‘‘ پرس میں سے اس نے ایک اکنی نکال کر اس کو دی،’’املی لے لینا۔ ہر روز ایک آنہ دیا کروں گی تجھے املی کے لیے۔ اور دیکھ آدھی آج میرے لیے رکھ چھوڑنا۔ امی مجھے بلا رہی ہیں۔ اور دیکھ جو باتیں ہوئی ہیں۔ ان کو نہ بتانا، لے وہ خود ہی آرہی ہیں۔‘‘ صحن کے آگے جہاں برآمدہ کے فرش پر بلقیس اپنی ماں کے قدموں کی چاپ سنتی ہے اور ثریا سے کہتی ہے۔۔۔’’لے بھاگ اب یہاں سے۔‘‘
بلقیس کی ماں آتی ہے۔ ایک ادھیڑ عمر کی عورت بہت غصیلی۔ اس کے چہرے کے خدوخال سے صاف عیاں ہے کہ وہ ایک جابر ماں ہے۔ آتے ہی بلقیس کو ڈانتی ہے۔
’’یہ جو میں دو گھنٹے سے تجھے بلا رہی ہوں تو نے کانوں میں روئی ٹھونس رکھی ہے کیا؟‘‘
بلقیس مسکین بلی کی سی آواز میں جواب دیتی ہے، ’’نہیں تو۔۔۔‘‘
بلقیس کی ماں کی آواز اور زیادہ بلند ہوجاتی ہے۔
’’اور یہ میں نے کیا سنا ہے؟ ‘‘
’’کیا امی جان؟‘‘
’’کہ تو پھر آج باہر جانا چاہتی ہے۔۔۔ شریف بہو بیٹیوں کی طرح تیرا گھر میں جی ہی نہیں لگتا۔۔۔ دیدے کا پانی ہی ڈھل گیا ہے۔‘‘
بلقیس نے آنکھیں جھکا کر بڑی نرم و نازک آواز میں کہا،’ آپ تو ناحق بگڑ رہی ہیں۔‘‘
بلقیس کی ماں جہاں آرا غضب ناک ہوگئی اور کہا، ’’ابھی ابھی ایک آدمی تمہاری کسی سہیلی کے یہاں سے آیا تھا۔ کہتا تھا کہ بی بی تیار رہیں۔ کالج کے جلسے میں جانا ہے۔‘‘
بلقیس نے یوں جھوٹ موٹ کا اظہار کیا، ’’ہائے۔۔۔ جلسے میں۔۔۔؟ میں تو بالکل بھول ہی گئی تھی۔۔۔ یہ جلسہ بہت ضروری ہے امی جان۔ میں نہ گئی تو پرنسپل صاحبہ بہت برا مانیں گی۔ میرا خیال ہے مجھے فوراً تیار ہوجانا چاہیے۔‘‘
ماں کو اس سے کام کرانا تھا۔ اسے کالج کے جلسے جلوسوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، ’’تو چل میرے ساتھ اور بیٹھ کے میرے ساتھ آٹا گوندھ۔‘‘
بلقیس نے اپنی سجاوٹ ایک نظر دیکھی اور بڑے پردرد لہجے میں کہا، ’’لیکن امی جان!‘‘
ماں کا لہجہ کڑا ہوگیا، ’’نہیں آج میری ساتھ کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔۔۔ سمجھیں؟‘‘
بلقیس نے ہار مان کر اپنی ماں سے کہا، ’’آٹا گوندھنے کے بعد تو مجھے اجازت مل جائے گی؟‘‘
ماں زیرِلب مسکرائی، ’’دیکھوں گی۔۔۔ چل بیٹھ جا میرے سامنے۔‘‘
بلقیس وہیں کمرے میں بیٹھنے لگی۔ مگر اسے ایک دم خیال آیا کہ باورچی خانہ اور صحن باہر ہیں۔ یہاں وہ اپنی ماں کا سر آٹا گوندھے گی، ’’چلیے امی جان۔‘‘
دونوں باورچی خانے میں داخل ہوئیں۔۔۔ کچھ اس طرح جیسے آگے آگے پولیس کا سپاہی اور پیچھے ہتھکڑی لگا ملزم۔ اس کی ماں ایک پیڑھی پر اپنا بھاری بھرکم جسم ڈھیلا چھوڑ کر بیٹھ گئیں کہ پیڑھی کو ضرب نہ پہنچے۔ پھر اس نے بلقیس کی طرف دیکھا اور کہا، ’’ٹکر ٹکر میرا منہ کیا دیکھتی ہے، بیٹھ جا یہاں میرے سامنے!‘‘
بلقیس گندے فرش پر ہی پیروں کے بل بیٹھ گئی اور منہ بنا کر پوچھا، ’’پانی کہاں ہے؟‘‘
پانی پاس ہی پڑا تھا۔ اصل میں اسے سجھائی کم دینے لگا تھا۔۔۔ سامنے پرات میں آٹے کی چھوٹی سی ڈھیری پڑی تھی۔ اس نے ڈھیری میں پاس پڑی گڑوی سے تھوڑا سا پانی بادل ناخواستہ ڈالا اور آٹے پانی کو ملا کر جلدی جلدی مکیاں مارنے لگی۔۔۔ لیکن اس نے دیکھا کہ سامنے صحن میں لگے کلاک کی سوئیاں بتا رہی تھی کہ آٹھ بجنے والے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس کی مُکیاں تیز ہو جائیں مگر وہ اس سوچ میں غرق تھی کہ جہاں اسے ساڑھے آٹھ بجے پہنچنا ہے کیا وہ یہ آٹا گوندھنے کے بعد پہنچ سکے گی۔
اس کی ماں اس کے سر پر کھڑی تھی۔ ایک دم چلائی، ’’بلقیس یہ مکیاں ماررہی ہے یا کسی کا سر سہلا رہی ہے؟‘‘
بلقیس ابھی سوچ ہی رہی تھی کیا کہے، اصل میں وہ یہ چاہتی تھی کہ اپنا گیلے آٹے سے بھرا ہاتھ مکا بنا کر یا اپنی ماں کے سر پر دے مارے یا اپنے سر پر۔ خود کو اتنا پیٹے کہ بے ہوش ہو جائے۔۔۔ لیکن اسے ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے وہاں پہنچنا تھا۔ اس لیے اس نے جلدی جلدی آٹا گوندھا اور فارغ ہوگئی۔
ہاتھ دھو کر اس نے ثریاسے کہا، ’’جاؤ ایک ٹانگہ لے آؤ۔‘‘
ثریا چلی گئی۔
بلقیس نے آئینے میں خود کو دیکھا۔ لپ اسٹک دوبارہ لگائی۔ کسی قدر بکھرے ہوئے بالوں کو درست کیا اور کرسی پر بیٹھ کر بڑے اضطراب میں ٹانگ ہلانے لگی۔ تھوڑی دیر بعد ثریا آگئی۔ اس نے اپنی بڑی بہن سے کہا، ’’باجی ٹانگہ آگیا ہے۔‘‘ بلقیس کی ٹانگ ہلنا بند ہوگئی۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ برقع اٹھایا ہی تھا کہ باہر صحن سے اس کے بھائی کی آواز آئی، ’’بلی ۔۔۔ بلی۔‘‘
بلقیس نے کہا، ’’کیا ہے بھائی جان؟‘‘
اس کےبھائی خود اندر تشریف لے آئےاور اس کے ہاتھوں میں اپنی قمیص دے کر کہا، ’’دھوبی کم بخت نے پھر دو بٹن غارت کر دیے۔ مہربانی کر کے۔۔۔‘‘
بلقیس کو ایسا محسوس ہوا کہ دو بٹن اس کے سر پر دو پہاڑ بن کر ٹوٹ پڑے ہیں، ’’نہیں بھائی جان مجھے ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے کالج کے جلسے میں پہنچناہے۔‘‘
اس کے بھائی نے بڑے اطمینان اور برادرانہ محبت سے کہا، ’’تم وقت پر پہنچ جاؤ گی۔۔۔ لو یہ دو بٹن ہیں۔۔۔ تم تو یوں چٹکیوں میں ٹانک دو گی۔‘‘
’’نہیں بھائی جان۔۔۔ وقت ہو گیا ہے ۔۔۔ سوا آٹھ ہوچکے ہیں۔‘‘
’’امی جان نے تمھیں اجازت دے دی ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’تو بٹن ٹانک دو۔۔۔ اجازت میں لے دوں گا۔‘‘
’’سچ۔۔۔؟‘‘
’’میں نے آج تک تم سے کوئی جھوٹی بات کہی ہے۔‘‘
’’لائیے۔۔۔‘‘
بلقیس نے بٹن لیے اور سوئی میں دھاگہ پرو کر بٹن ٹانکنے شروع کردیے۔ اس کی انگلیوں میں بلا کی پھرتی تھی۔ دو منٹ سے کم عرصے میں اس نے اپنے بھائی کی قمیص میں دو بٹن لگا دیے۔ وہ بہت ممنون و متشکر ہوا۔ باہر جا کر اس نے اپنی ماں سے سفارش کی کہ وہ بلقیس کو کالج کے جلسے میں جانے کی اجازت دے دے۔ اس کی یہ سفارش سن کر اس کی ماں اس پر برس پڑی،’’ تم دونوں آوارہ گرد ہو۔۔۔ گھر میں تمہارا جی ہی نہیں لگتا۔۔۔ تم کہاں جانے کی تیاریاں کررہے ہو؟ دیکھو میں تم سے کہے دیتی ہوں کہ نہ بلقیس کہیں جائے گی نہ تم۔ گھر میں بیٹھو اور کام کرو۔‘‘
’’لیکن امی جان، میں تو آپ ہی کے لیے باہر جارہا ہوں۔‘‘
’’مجھے کیا تکلیف ہے کہ تم میرے لیے باہر جارہے ہو۔۔۔ میرے لیے جب بھی تم گئے ڈاکٹر بلانے کے لیے گئے۔‘‘
’’لیکن امی جان۔۔۔ آپ کے زیوروں کا بھی تو پتہ لینا ہے۔۔۔ جس سنار کو آپ نے بننے کے لیے دیے تھے، وہ چار روز سے غائب ہے۔‘‘
’’ہائیں۔۔۔ تم نے مجھے پہلے کیوں نہ کہا۔۔۔کہاں غائب ہوگیا ہے؟‘‘
’’اب جاؤں گا تو معلوم کروں گا۔‘‘
’’جاؤ جلدی جاؤ۔۔۔ اور مجھے اطلاع دو کہ وہ واپس آگیا ہے کہ نہیں۔۔۔ میرا سونا اس سے واپس لے آنا۔۔۔ ساڑھے چار تولے دو ماشے اور چار رتیاں ہے۔‘‘
’’بہت بہتر۔۔۔ بلقیس کو اب آپ اجازت دیجیے۔‘‘
اس کی ماں نے بادلِ ناخواستہ کہا کہ چلی جائےمگر مجھے اس کا یہ ہر روز شام کا گھر سے باہر رہنا پسند نہیں۔ بلقیس کا بھائی زیرِ لب مسکرایا اور اندر جاکر اپنی بہن کو خوش خبری سنائی کہ امی جان سے جو اس نے فراڈ کیا ،وہ چل گیا اور اس کو اجازت مل گئی۔ بلقیس بہت خوش ہوئی۔ آٹھ بج کر بیس منٹ ہوئے تھے۔ اس نے اپنا برقعہ پہنا۔ باہر نکلنے ہی والی تھی کہ اس کی ماں نے اسے بلایا اور اس سے کہا، ’’دیکھو بلقیس تم جا تو رہی ہو، لیکن میرا ایک کام کرتی جاؤ۔‘‘
بلقیس کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کا ریشمی برقع لوہے کی چادر بن گیا ہے، ’’بتائیے امی جان!‘‘
’’ایک خط لکھوانا تھا تم سے۔‘‘
بلقیس نے ایک شکست خوردہ اور غلام کے مانند بدرجہ مجبوری ٹھنڈی سانس بھر کے کہا۔
’’لائیے لکھ دیتی ہوں۔‘‘
بلقیس کی آنکھیں تو نہیں بلکہ اس کے جسم کا رواں رواں رو رہا تھا۔ اس نے خط مکمل کیا۔ باہر تانگہ کھڑا تھا۔ اس میں بیٹھی اور اسے جہاں پہنچنا تھا پہنچی۔
اس نے دروازے پر دستک دی۔ مگر کوئی جواب نہ ملا۔۔۔ کواڑوں کو غصے میں آکر زور سے دھکیلا۔۔۔! وہ کھلے تھے، بلقیس گرتے گرتے بچی۔۔۔ اندر اس کا دوست جس سے وہ ملنے آئی تھی۔ خوابِ خرگوش میں تھا۔ اس نے اس کو جگانے کی کوشش کی مگر وہ بیدار نہ ہوا۔۔۔ آخر وہ جلی بھنی، بڑبڑاتی وہاں سے چلی گئی،’’میری جوتی کو کیا غرض پڑی ہے کہ یہاں ٹھہروں۔۔۔ میں اتنی مصیبت سے یہاں آئی اور جناب معلوم نہیں بھنگ پی کر سو رہے ہیں۔‘‘
مأخذ : کتاب : باقیات منٹو
مصنف:سعادت حسن منٹو