منی اورمیشاآنگن میں اتری ہوئی دھوپ میں کھیل رہے تھے۔ سرسوتی انہیں نہلانے کے لیے جلدی جلدی گرم پانی، تولیہ، صابن، ان کے کپڑے وغیرہ غسل خانے میں رکھے جارہی تھی جوآنگن کے ایک کونے میں ایک چھوٹی سی دیواراٹھاکربنایاہواتھا۔ اس نے بچوں کوپکارا، ’’نی منی!وے میشے!چلوآؤ، ابھی نہالو، پھرمجھے قت نہیں ملے گا۔ سناکہ نہیں؟‘‘
بچے کھیلنے میں مصروف رہے۔ سرسوتی نے آگے بڑھ کر دونوں کوبازوؤں سے پکڑکر اٹھایا، ’’رُڑجانٹرے!ہروقت مٹی گھٹے میں کھیلتے رہتے ہیں۔ چلوسیدھے ہوکرچلو۔ ٹانگیں ٹوٹ تو نہیں گئیں!‘‘
وہ اس کے بازوؤں کے ساتھ لٹکے لٹکے اورزمین پرگھسٹتے بھی رہے۔ سرسوتی نے انہیں پانی کے ٹب کے پاس لے جاکرکھڑا کردیااور وہ پانی میں ہاتھ مارمارکر کلکاریاں مارنے لگے تووہ چیخی، ’’نامرادو، کبھی شرارت کیے بنارہتے بھی ہو!‘‘بچوں کے ہاتھ پاؤں میں اس کا دوپٹہ الجھ کر زمین پرہی گرگیا، جسے اس نے لپک کر غسل خانے کی دیوار پر ڈال دیا۔
چھبیس ستائیس برس کی خوبصورت، اونچی اورچست بدن والی ماں اپنے بچوں کوصابن مل کرنہلانے لگی۔ پانی کے چھینٹے اڑنے سے اس کی قمیص شلواربھیگ بھیگ گئیں۔ بچے آنکھوں میں صابن پڑجانے پر رونے چیخنے لگے۔ وہ دونوں کوایک ایک دھپ لگاکر بولی، ’’تمہارے ڈیڈی ابھی آجائیں گے بھوک بھوک کرتے ہوئے۔ ان کے کھانے کاوقت ہوچکا ہے۔ کیاکریں بھوک تولگ ہی جاتی ہے۔ اتناوقت ہوجانے پر بچارے صبح سویرے سے مزدوروں کے سرپرچڑھ کرسرکاری کوارٹر بنوانے میں لگ جاتے ہیں۔ تمہارا کیا ہے، تم تو ہروقت کچھ نہ کچھ چرتے ہی رہتے ہو!‘‘
اسی وقت دروازے پر دستک بھی سنائی دی۔
’’لووہ بھی آگئے، کہاتھانا میں نے، وہ آتے ہوں گے۔‘‘اس نے قدرے اونچی آوازمیں بیٹھے بیٹھے ہی دیوار کی اوٹ سے دستک کا جواب دیا، ’’آئی جی!انہیں ذرا ٹھکانے لگادوں۔‘‘
’’تیرا بیڑہ ترجائے!اس نے دونوں کو ایک ایک بازو سے پکڑکردھوپ میں بچھی ہوئی کھاٹ پر لاپٹخا۔ ان کے پانی ٹپکتے ہوئے جسموں کے ساتھ لگنے سے اس کی اپنی ساری قمیص بھیگ کربدن کے ساتھ چپک گئی تھی۔ ا ن کی طرف تولیہ پھینک کربولی، ’’لوپونچھو، میں آتی ہوں۔‘‘وہ دروازہ کھولنے چل دی، چلتے چلتے بولتی بھی گئی، ’’مجھے پتہ تھا آپ آتے ہوں گے، آپ کوبڑی زور کی بھوک لگی ہوگی، ان سے یہی کہہ رہی تھی۔ ترکاری میں نے بنارکھی ہے۔ صبح آپ کھمبیاں بنانے کے لیے کہہ گئے تھے نا۔‘‘
اس نے کنڈی کھول دی اور دونوں کواڑبھی واکردیے لیکن اپنے سامنے شوہر کے بجائے ایک دوسرے ہی شخص کوکھڑا دیکھ کرسرسوتی کی ادھوری بات منہ میں ہی رہ گئی۔ وہ حیران، ششدر اور گھبرائی ہوئی سی جلدی سے ایک طرف کوہوگئی۔ اس کے بدن پردوپٹہ بھی تونہیں تھا۔ اس نے جلدی سے بھاگ کردوپٹہ اٹھایا اور سرپراوڑھ لیا۔ بچے جوپارپائی پرپانی میں تربتر بیٹھے، ایک دوسرے سے تولیہ کے لیے چھینا جھپٹی کررہے تھے، حیران ہوکر دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔۔۔ وہ کون ہے۔
دھاریوں والی نیلی قمیص اور سفیدشلوار اورموٹی چپل پہنے، اونچا، سڈول، کچھ پریشان پریشان سے گھنگھریالے بالوں والا شخص، جس کی چھوٹی چھوٹی ترشی ہوئی، مرجھائی ہوئی مونچھیں تھیں اوران پرکہیں کہیں گرد کے ذرے اٹکے ہوئے تھے اوراس کے سوکھے ہوئے ہونٹ سرسوتی کودیکھ دیکھ کر کبھی مسکراتے ہیں کبھی سکڑسے جاتے ہیں، اس کے ایک ہاتھ میں چمڑے کا بیگ ہے اور دوسرے میں تہہ کیاہوا ملٹر ی کا کمبل!
’’نہیں پہچانا مجھے؟‘‘نووارد نے بھاری گمبھیر لہجے میں پوچھا اور ایک بار پھر مسکرانے کی ناکام کوشش کی۔ سرسوتی اسے بڑے غور سے دیکھ چکی تھی۔ اب وہ سرجھکائے زمین پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔ اتنی سی دیر میں اس کے ماتھے پرپسینے کی کئی ہزاربوندیں نمودار ہوگئی تھیں۔ نووارد نے پھرکہا، ’’میں بلدیوں ہوں سرسوتی، یادنہیں!‘‘
سرسوتی نے ایک بار پھرپلکیں اٹھاکر اس کی طرف دیکھا اور سرجھکالیا۔ کوئی جواب دینے کے بجائے بچوں کی طرف بڑھ گئی۔ دھیرے دھیرے قدموں سے۔ اسی طرح حیرت زدہ اورپریشان۔ جیسے اسے سب کچھ یادتو ہے۔ ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ اس کے چہرے کی کیفیت بتاتی ہے کہ وہ اسے ہرگز نہیں بھولی ہے۔ وہ توبلدیو کودیکھتے ہی پہچان گئی ہے۔
بچے ماں کے پاس کھسک آئے۔ سرسوتی اسی محویت اور گھبراہٹ کے عالم میں ان کے بدن پونچھنے لگی۔ بلدیو آہستہ آہستہ چلتا ہوا اندرآگیا۔ آکرچارپائی کے پاس رک گیا جہاں سرسوتی بیٹھی تھی۔ وہ سرسوتی اوراس کے بچوں کوگھورنے لگا۔ اس کے چہرے پربھی کئی رنگ آجارہے تھے۔ کئی لہریں ابھرتی تھی اورلوٹ جاتی تھیں۔ یہ سارے تاثرات اورکیفیتیں اس کے اندر کے متلاطم طوفان کی ہی غماز تھیں۔
اچانک سرسوتی اپنی محویت سے چونکی۔ اس نے ابھی تک بلدیو کو بیٹھنے کے لیے نہیں کہا ہے۔ اس نے دیوار کے ساتھ لگی ایک اورچارپائی گراکر ذرا آگے گھسیٹ دی، جہاں دھوپ آرہی تھی۔ بلدیو نے بیگ اور کمبل اسی چارپائی پررکھ دیا اورپوچھا، ’’یہ تمہارے بچے ہیں؟‘‘
سرسوتی خاموش رہی۔ تولیہ جو اس کے ہاتھوں میں تھا، اس کے ایک تارکو وہ بالکل انجانے میں ہی کھینچتی چلی گئی۔ وہ تارٹوٹ گیا تو اس نے ایک اورپکڑلیالیکن وہ بلدیو کے سوال کا جواب نہ دے سکی۔ بلدیو نے ذراآگے بڑھ کربچوں کے سرپرہاتھ پھیرا۔ ایسا کرتے ہوئے اس کی پلکیں پرنم ہوگئیں۔ وہ گلوگیر ہوکربولا، ’’میرا بھی یہی خیال تھا۔ تم نے دوسرا بیاہ کرلیا ہوگا۔ کرناہی چاہئے تھا لیکن جب مجھے پتہ لگا تم زندہ ہوتو تم سے ملنے کے لیے میں فوراً چل پڑا۔ صفو نے توبہت روکا، وہ بہت روئی۔ تمہیں یاد ہے نا اپنے مستری میاں شریف کی بیٹی صفیہ۔ جب تم نے اسے آخری بار دیکھا تھا، وہ بہت چھوٹی تھی۔ اب توبہت بڑی ہوگئی ہے۔ میر ے کندھوں تک اونچی ہوگئی ہے۔‘‘
بلدیو کی آنکھیں اب صرف سرسوتی پرٹکی تھیں۔ شعروشراب کی کیفیت میں ڈوبی ڈوبی اس کی خوبصورت آنکھیں اوربھرے بھرے گلابی ہونٹ، اس کا جوان چھریراجسم اور اس کی محبت اور اس کی ساری کائنات کبھی اسی کی تھی، اس کی اپنی۔ وہی اس کا مالک تھا۔ وہ اس کی طرف بڑے پیار سے دیکھتارہا۔ دل میں اٹھتے ہوئے طوفان کودباکرآنکھوں میں اپنے بے پناہ پیار کا امرت لیے ہوئے، اگرچہ مایوسی اورحسرت کے گردوغبار سے بھی اس کی آنکھوں کی نیلی پہنائیاں بچی ہوئی نہیں تھیں۔ سرسوتی کا چہرہ شرم سے کبھی لال ہواٹھتا، کبھی راکھ کی طرح مٹ میلا اور سردہوکر مرجھاسا جاتا۔ اس کے دھوپ میں چمکتے ہوئے روکھے سوکھے بھورے بالوں کی ایک لٹ اس کے کان کے پیچھے سے اترکرچہرے پرآگئی تھی، جوبار بارجھٹکے کھاکر اس کی پتلی ناک کوچھولیتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ڈبڈباگئے آنسو اب رخساروں پربہہ بہہ کر قطرہ قطرہ اس کے آنچل میں گررہے تھے اوروہیں جذب ہونے لگے تھے۔
بلدیو نے پاؤں میں پہنی ہوئی پشاوری چپل کی نوک سے زمین پرلکیریں کھینچیں۔ کئی مستطیلیں اورکئی تکونیں اوردائرے بنائے بالکل بے خیالی میں۔ پھر انہیں مٹابھی ڈالا۔ اوربولا، ’’میں پاکستان سے آرہاہوں۔‘‘
یہ سن کر سرسوتی بس ذرا سی چونکی۔ اس پربلدیو کے ہونٹوں پرپھرمسکراہٹ آگئی۔ بولا، ’’ہاں ہاں۔ سیدھا پاکستان سے اور اپنے شہر میانوالی سے۔ لیکن اب یہیں رہوں گا۔ مجھے یہیں رہنا چاہئے نا!‘‘
اچانک وہاں ایک ادھیڑ عمرکی عورت آگئی۔ باہر سے توہنستی ہوئی چلی آرہی تھی لیکن بلدیو کودیکھتے ہی اس کامنہ کھلا کاکھلا رہ گیا۔ اس کی آنکھیں کئی بار سکڑیں اور پھیلیں۔ جیسے اسے بلدیو کے واقعی بلدیو ہونے کا یقین نہ آرہاہو۔ پھروہ قریب قریب چیخ کر بولی، ’’وے توبلدیوہے کیا؟‘‘بلدیو نے اٹھ کر اس کے پاؤں چھولئے، ’’ہاں اماں! آپ نے پہچان لیانا!‘‘
’’ارے نہیں کیسے پہچانتی؟ پرتو!توزندہ کیسے ہے؟ ہم توسمجھے تھے۔۔۔! وہ کچھ کہتے ہوئے رک گئی۔ پھر اپنی بیٹی سرسوتی کی طرف دیکھا اور اس کی پیٹھ پرزور سے دوہتڑ مارکربولی، ’’تویہاں بیٹھی کیاکررہی ہے؟ شرم نہیں آتی؟ چل اندر۔‘‘
سرسوتی نے جلدی سے اپنے آپ کو دوپٹے کے اندرچھپایا اور زخم خوردہ سی ہوکر بچوں کوگھسیٹتی ہوئی کمرے کے اندرچلی گئی۔
اس کی ماں بلدیو کے سامنے چارپائی پربیٹھ کربولی، ’’توزندہ ہے۔۔۔ اس کے لیے توبھگوان کالاکھ لاکھ شکر ہے۔ رب کرے تو ہزار سال جیے۔ تجھے تتی ہوابھی نہ لگے۔ پراب ہوگا کیا؟ ہم تو سمجھے تو۔۔۔! ہائے میں کیا کہنا چاہتی ہوں۔ میری جیبھ پر انگارپڑیں۔ کہتے ہوئے بھی ہول اٹھتاہے۔ اب!اب میں کیا کروں؟‘‘
وہ جلدی سے اٹھ کر کمرے کی طرف چل دی۔ بولتی ہوئی، ’’پرسرسوتی، اب کیاہوگا میں پوچھتی ہوں۔ میر ا تودماغ کام نہیں کرتا۔‘‘
وہ سرسوتی سے کوئی جواب لیے بغیر ہی الٹے پیروں پرلوٹ آئی۔ وہ اب گھر سے باہرنکل جاناچاہتی تھی۔ کسی کوبلاکر لے آناچاہتی تھی لیکن بلدیو نے اس کا راستہ روک لیا۔ اسے کندھوں سے پکڑکرچارپائی پربٹھادیا اور کہا، ’’ماں، آپ اتنی گھبراکیو ں اٹھتی ہیں؟ میرے آجانے پر آپ خوش نہیں ہوئیں نا؟‘‘
سرسوتی کی ماں ددنوں ہاتھوں سے منہ پردوپٹے کا پلو رکھ کرسسکنے لگی، ’’میری بیٹی کی زندگی تو غارت ہوگئی۔ ساری عزت مٹی میں۔۔۔ ہائے اس کے جیتے جی دودو گھر والے موجود ہوئے۔ ہائے ہائے بیٹی تومرکیوں نہیں جاتی اسی دم!تیرے لیے دھرتی کیوں نہیں پھٹ جاتی!پاکستان سے توعزت بچاکریہاں آگئی تھی۔ اب مرجانے کے سوا اورکون سا چارہ رہ گیاہے تیرے لیے۔۔۔‘‘
وہ اورزیادہ زور سے رونے لگی توبلدیو دونوں ہاتھوں میں اپنا سرتھام کررہ گیا۔ وہ اس کی توکوئی بات سنتی ہی نہیں تھی۔ وہ موقع پاکرکھنکار کرگلاصاف کرتے ہوئے بولا، ’’میں بھی تویہی سمجھے ہوئے تھا اماں کہ آپ سب ماردیے گئے۔ بھولے کے مکان میں سرسوتی کے چاچا کی لاش میں نے اپنے آنکھوں سے دیکھ لی تھی۔ رام چندر اوراس کے بیٹوں کوان کے مکانوں کے سامنے مرا پڑا دیکھا تھا۔ نونیت اور لاجونتی کوتومیرے سامنے ہی ان کی چھت پر سے نیچے پھینک دیاگیاتھا۔ پور ا زمانہ کوئی چھوٹی مو ٹی آفت کے نرغے میں تھوڑے ہی تھا۔ پورے ملک میں سرحد کے دونوں طرف ایک لہر آگئی تھی۔ قیامت اماں قیامت۔ آپ سب کے بارے میں بھی مجھے یہی بتایاگیاتھا۔ کوئی بھی نہیں بچا ہے۔ میں نے بھی یقین کرلیاتھا۔‘‘
’’پھر! پھر؟ پھرتو چھپ کرکہاں بیٹھ رہا؟ ہمیں تلاش کرنے کا کوئی جتن کیوں نہ کیا؟ میں پوچھتی ہوں، جواب دے اس بات کا!‘‘وہ زخمی شیرنی کی مانند بپھر کربولی۔
’’پھرمیں کرتا ہی کیا اماں!جب یقین ہوگیا اب میرا کوئی نہیں بچاتو پھرتلاش بھی کسے کرتا؟‘‘
’’یہی توہم نے بھی سمجھ لیاتھا تیرے بارے میں۔ اس میں ہمارا کئی قصورنہیں۔ ہم یہ تھوڑے ہی چاہتے تھے کہ تومرجائے اور ہم بیٹی کا ہاتھ کسی دوسرے کے ہاتھ میں دے دیں۔ ایسے کون سے کمینے ماں باپ ہوں گے!ہم توایسا کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ نہیں بیٹا! کبھی نہیں!‘‘وہ زاروزار روتے ہوئے ہوامیں انگلی لہراکر بولی، ’’ہائے تیری خبرتوکسی سے بھی نہ مل سکی۔ میں اورسرسوتی دونوں ہرجگہ، ہر کیمپ میں، ہر گاڑی اور اسٹیشن پرجہاں جہاں شرنارتھی آپہنچے تھے، تجھے تلاش کرتی پھریں۔ تیرا نام لے لے کرروتی اورپکارتی پھریں، جب تیرے سارے بھائی، ماں باپ اور گھروالوں کے مار ڈالے جانے کی خبریں ملتی گئیں توپھریہ یقین کیسے کرلیتی، توہی اکیلا بچ گیاہوگا۔ مارنے اوربچانے والا توبیشک وہی ایک رب ہے پتر، وہی بھگوان جس نے ہماری آنکھوں پر بھی پردہ ڈال دیاتھا۔‘‘
’’پھر بھی، میرا انتظار توکرلیا ہوتا اماں!‘‘
’’انتظار!انتظار توتیرا میں اپنی دھی کے مرجانے تک بھی کرتی۔ اس کی چتا کو آگ ہی نہ لگانے دیتی اگرمجھے یہ خبر مل جاتی کہ توزندہ سلامت ہے۔ یہ تو وہیں مرہی چلی تھی جب اس کے کندھے پر گولی لگ گئی تھی۔ مرہی جاتی تواچھا ہوتا۔ سندرداس میری کوکھ جلانے کو اسے زخمی حالت میں اٹھاکرہمارے پاس کیمپ میں لے آیا۔ ہم سب کوبھی وہی اپنی جان پرکھیل کھیل کربچاتارہا۔ ہندوستان پہنچ کر بھی ہماری اب تک سیواکررہا ہے۔‘‘
بلدیو نے اپنے سر اور کندھوں پرلگے ہوئے زخموں کے نشان دکھاتے ہوئے کہا، ’’میں توان کی وجہ سے اپنے مکان کی چھت پر بے ہوش پڑا تھا۔ ورنہ میں بھی آپ لوگوں کی خدمت کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھتا۔‘‘
وہاں کچھ لوگ اوربھی آگئے۔ سرسوتی کا بوڑھاباپ، اس کی مامی اورکچھ پڑوسی اور پڑوسنیں۔ سب نے بلدیو کوگھورگھور کردیکھا، نگاہوں سے ٹٹولا۔ جب کچھ لمحوں تک کوئی نہ بول سکا تو سرسوتی کی ماں چلاکر بولی، ’’پہچانتے کیوں نہیں ہواسے!بلدیو ہے اورزندہ ہے۔ میری بیٹی کی ناک کاٹ لینے کے لیے۔ اب سارا جگ دیکھے گا تماشا!‘‘
سرسوتی کا باپ سکتے میں آگیا۔ باقی بھی جہاں تھے، جمے سے کھڑے رہ گئے۔
’’کیاتو سچ مچ بلدیو ہے؟‘‘لالہ بودھراج کی سفید گھنی مونچھوں میں سے جیسے چھن کرڈوبتی ہوئی آواز نکلی۔
’’جی ہاں لالہ جی۔‘‘ بلدیو نے آگے بڑھ کر اس کے پاؤں چھولئے۔
’’پرتو رہا کہاں اتنے عرصہ تک؟‘‘
’’پاکستان میں۔ اپنے گھرمیں ہی لالہ جی۔‘‘
’’پاکستان میں! پروہاں اب تک کیا کرتا رہاپگلے؟‘‘
بلدیو نے اپنے ہونٹوں پرایک سوکھی ہوئی پپڑی دانتوں سے کاٹ کرجوا ب دیا، ’’وہی جواپنی چھوٹی سی دکانداری تھی، اب بھی کررہاہوں۔‘‘
’’عجب احمق ہے تو!ہندوستان کیوں نہیں چلا آیا۔‘‘
’’میں سمجھا اب میرا اپنا کوئی بچاہی نہیں تویہاں آکربھی کیاکرتا؟‘‘
’’اوہو، پرتجھے وہاں اپنی جان کا کوئی خطرہ نہیں تھا؟‘‘
بلدیوہنس کربولا، ’’انہوں نے اپنے طورپرتومجھے مارہی ڈالاتھا۔ جب ہندوستان سے بھی بے شمارزخمی اور تباہ حال مہاجروں کے قافلے وہاں پہنچ گئے تومیرے لیے وہاں رہناقریب قریب ناممکن ہی ہوگیاتھا لیکن خدا بھلاکرے اپنے پڑوسیوں مستری میاں شریف اورہیڈماسٹر ملک خدادادخاں کا۔ انہوں نے ہرموقع پر میری مدد کی۔ فولاد کی ڈھال بن کر مخالفوں سے مجھے بچاتے رہے۔ انہی کی وجہ سے آج میں، میرا آبائی مکان اور دکان بھی محفوظ ہے۔‘‘
بلدیو کے اس جواب سے بھی جیسے لالہ بودھراج کی تسلی نہ ہوئی، اسی طرح جلدی اور گھبراہٹ سے پوچھا، ’’ہچھا! تو تونے وہاں اب تک شادی وادی کرلی کہ نہیں!‘‘
’’شادی!’’ بلدیو نے حیران ہوکر سب کی طرف دیکھا۔ وہ سب اس کے گردگھیراساڈالے ہوئے کھڑے ہیں۔ اس کے اسی سوال کے جواب کے منتظر ہیں۔ ہرشخص کی نظروں میں ایک ہی سوال دکھائی دے رہاہے۔ شاید سرسوتی بھی یہی جانناچاہتی ہوگی، جو کمرے کے اندر کواڑ کے پیچھے ماتھاٹیکے کھڑی ہے۔ وہ کیا کہے ان سے؟ وہ لوگ اس سے کس قسم کے جواب کی توقع رکھتے ہیں؟ سرسوتی کی ماں کی دھاڑیں، اس کے بوڑھے باپ کی نمناک پلکیں اورشرم سے کپکپاتی ہوئی چہرے کی جھریاں! یہ پورا ان دیکھا ماحول جس کی کشش اسے یہاں تک کھینچ کرلے آئی ہے، اس سے اور کون سی حقیقت جاننا چاہتے ہیں؟
اچانک گلی کے دروازے سے ایک اور شخص اندرآگیا۔ خاکی نیکر اور سفیدقمیص پہنے، سائیکل تھامے، سر کے بالوں اورکپڑوں پرگرد کی تہیں سی جمی ہوئیں۔۔۔ اتنے سارے لوگوں کا اکٹھ دیکھ کر اسے بھی حیرانی ہوئی۔ سائیکل دیوار کے ساتھ ٹکاکربوٹوں پرپڑی ہوئی گرد کوزمین پر زور زور سے پاؤں مارکر جھاڑتا ہوا اور رومال سے ہاتھوں اور منہ کا پسینہ پونچھتا ہواان کے پاس آگیا۔ پوچھا، ’’کیاہوا؟ کیا بات ہے؟‘‘
سب نے اسے اپنے درمیان آجانے دیا۔ درمیان میں ہی ایک چارپائی کے کنارے پربلدیو بیٹھاتھا۔ اس کی طرف بھی اس نے حیرانی سے دیکھا لیکن اسے فورا ًپہچان نہ سکا۔ اسے ایک سوالیہ نشان ہی سمجھ کرگھورگھور کردیکھنے لگا۔ بلدیو بھی اسے گھورنے لگا۔ اس کی نظریں اس آدمی کے گال پر تھوڑی تک پڑے ہوئے ایک پرانے زخم کے لمبے نشان پرجم کررہ گئیں۔ وہ اٹھ کرکھڑا ہوگیا اورلالہ بودھراج سے بولا، ’’یہی سندر داس ہے نا؟ اسے تو میں پہچانتاہوں۔‘‘
’’ہاں!‘‘ لالہ بودھراج نے سندرداس کے دونوں کاندھوں پر اپنا بازو پھیلادیا، ‘‘یہی وہ سندر داس ہے جس نے ہم سب کی جان بچائی۔ ہمارے ساتھ ساتھ رہ کر ریفیوجی کیمپوں کی سردیاں گرمیاں، ساری مصیبتیں برداشت کیں۔ کلیموں اورمکانوں کی الاٹمنٹ کے سارے جھگڑے بکھیڑے نمٹائے۔ ہمیں یہاں آکرپھر سے بسنے میں جوجودکھ اٹھانے پڑے، انہیں دورکرنے میں اس شیرجوان کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ یہ چھوٹا سا گھردیکھتے ہونا!یہ بھی اسی کا ہے۔ یہ اس کی اپنی محنت کاپھل ہے اوراس کے اندر اس کی چھوٹی سی دنیا آباد ہے۔ محبت سے بھرپوردنیا، ایک بیوی اوردومعصو م بچوں پرمشتمل!ہماری بیٹی کوبیوہ سمجھ کر اسی بلنداخلاق جوان نے اس کے ساتھ شادی کرنامنظوکرلیاتھا۔ ہمارے لیے دکھیاری سرسوتی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دینے کے سوا اورچارہ ہی کیا رہ گیاتھا!تمہاری توکوئی خیر خبرہی نہیں ملی تھی، سب لوگوں نے یہی مشورہ دیاتھاکہ غریب لڑکی کو جوانی کے عذاب میں نہ ڈالیں۔‘‘
یہ کہتے کہتے لالہ بودھراج کا گلا بھرآیا۔ ان کی آنکھیں بھی چھلک پڑیں لیکن بلدیو کی آنکھیں ابھی تک سندر داس کے چہرے پرہی جمی ہوئی تھیں۔ اس کے گال اورتھوڑی کے گہرے نشان پر۔ اس گہری سرخ کھائی کے اندر وہ پندرہ برس پہلے کا ایک واقعہ دیکھ رہاتھا۔ حسد اور رقابت سے بھرپورواقعہ۔ میونسپل کمیٹی کے آفس کے پیچھے ایک آزادانہ لڑی ہوئی لڑائی کا ہی یہ زخم یادگارتھا۔ اس واقعہ کو سرسوتی بھی جانتی تھی جوسندر داس کوبھی کبھی منہ نہیں لگاتی تھی۔ حالات نے سرسوتی کو اس سے چھین کرسندر داس کے حوالے کردیاہے، ورنہ اس کے جیتے جی سندرداس اس کا تصوربھی نہیں کرسکتا تھا۔ اب سندرداس کے چہرے پر بھی برہمی کی کیفیت پیدا ہونے لگی۔ اس کے جبڑوں میں کساوپیدا ہوگیا۔ اس کے تھکے ہوے چہرے پرہرلمحے ایک سرخ لہرسی دوڑجاتی تھی، جیسے وہ بہت جلدی جلدی کچھ سوچنے میں مصروف ہو۔ اچانک وہ لوگوں کے درمیان سے نکل کر کمرے کے اندرچلاگیا۔ سب لوگ ادھر ہی دیکھنے لگے۔ بلدیو کی نظریں بھی ادھرجم گئیں۔
سرسوتی کی ماں اب بھی رورہی تھی۔ اس کا چہرہ آنسو ؤں سے بھیگا ہواتھا۔ چندلمحوں کے بعد سندرداس لوٹ آیا۔ وہ سیدھا بلدیو کے پاس پہنچا۔ نیکرکی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے، سرکوسینے پرجھکائے، جیسے وہ
گہری سوچ میں غلطاں ہو۔ اس نے سراٹھاکر بلدیو کوگھورا اور آہستہ سے بولا، ’’ٹھیک ہے۔ تم چاہو توعدالت کا دروازہ کھٹکھٹاسکتے ہو۔‘‘
یہ سن کرجیسے سب کی جان میں جان آگئی۔ جیسے وہ یہی چاہتے تھے۔ اب سب لوگ بلدیو کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ سب ایک طرف تھے اوربلدیو دوسری طرف۔ تنہا اور خاموش۔ دس سال تک تنہائی اورخاموشی کی اذیت برداشت کرتے رہنے کے بعد بھی وہ تنہا اور خاموش تھا اوربے بس تھا۔ اس کا چہرہ اس کی ہرصعوبت کا ترجمان تھا۔ وہ کچھ لمحوں تک کوئی جواب دیے بغیرسندر داس کودیکھتارہا پھرکھنکارکر گلاصاف کرتے ہوئے اس نے کمرے کے نیم وا دروازے کے کانپتے ہوئے پٹ کی طرف دیکھا اورکہا، ’’سرسوتی میری ہی بیوی ہے۔ وہ میری محبت کوکبھی بھلانہیں سکے گی۔ اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے آپ لوگ مجھے عدالت کا دروازہ دکھارہے ہیں۔ یہ بات میں بھی جانتاہوں، عدالت بھی انصاف ہی کرے گی لیکن کب؟ کتنے سال بعد؟ کون جانتا ہے؟ میں ایک دوسری ہی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاناچاہتا ہوں۔ ابھی۔۔۔ اسی جگہ! مجھے اسی کے انصاف پرپورا بھروسہ ہے۔‘‘
یہ کہتے کہتے بلدیو کا گلارندھ گیا۔ وہ اورکچھ نہ کہہ سکا۔ اس کی آنکھوں پرآئے ہوئے بادل بھی برس پڑے۔ وہ نیم وا کانپتے ہوئے کواڑوں پرنگاہ جماکر روہانساسا اونچی آوازمیں بولا، ’’جواب دوسری سرسوتی، میں کسی اورسے نہیں پوچھتا۔ تم سے پوچھتا ہوں۔ صرف تم سے سرسوتی!‘‘اسی وقت کمرے کے اندرایک دلدوزچیخ بلندہوئی۔ سرسوتی زور زور سے رونے لگی۔ ساری عورتیں گھبراکر اندربھاگ گئیں۔ اسی وقت گلی کے دروازے پرایک اور شخص نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں ایک خاکستری رنگ کا سرکاری کاغذتھا۔ وہ اندرآکر پوچھنے لگا، ’’یہاں پاکستان سے کوئی شخص آیاہے۔ اسی گھرمیں ٹھہراہواہے نا!‘‘
بلدیو نے اس کے ہاتھ سے کاغذ لے لیا۔ کچھ لمحوں تک اسے پڑھتا رہا، پھراسے لوٹاتے ہوئے بولا، ’’ہاں۔ وہ یہیں موجود ہے۔ آج ہی لوٹ جائے گا۔‘‘
یہ کہہ کراس نے اپنی اشکبار آنکھوں کودائیں آستین سے پونچھا اورپھر اپنا بیگ اورملٹری کا پرانا کمبل اٹھاکر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتاہوا باہرچلاگیا۔
مأخذ : کہانیاں
مصنف:خواجہ احمد عباس