میں کیا کرتی میرے پر کاٹ دئیے گئے تھے۔ میری سوچ کے در بند کر کے ان پر تالے لگا دئیے گئے تھے۔ جن پہ زنگ نے میرے دشمنوں سے وفا کی، میری آنکھوں پہ شریعت نام کے پردے ڈال دئیے گئے تھے۔ ہاتھوں سے کتاب چھین کر، ایک مقدس کتاب مجھے تھما دی گئی، جسے میں پڑھ سکتی تھی۔۔۔ صرف۔۔۔کیونکہ اس کی زبان سے شناسائی نہیں تھی۔۔۔ اور مجھے بےرنگ کرنے کے لئے لفظوں کے رنگ چھین لئے گئے تھے۔ قلم بےباکی کا سبب ہے سو لے لیا گیا تھا۔۔۔ اور اگر مجھے لکھنا ہوتا تو میں انگلیوں میں سوراخ کر کے اپنے دل کے کاغذ پہ خون کے قلم سے لکھتی۔۔۔ مگر میں جو بھی لکھتی اسے پڑھنا نہیں جانتی تھی۔۔۔!
ہاں میرے دل کی فصیلوں پہ اتنی تحریریں کندہ ہیں مگر یہاں کوئی قاری نہیں آتا۔۔۔ شاید۔۔۔ ہاں کسی کو معلوم ہی نہیں کہ یہاں اک کھنڈر ہے۔۔۔ جو کھنڈر کبھی آباد ہی نہیں ہوا۔۔۔ اس عمارت کو ہمیشہ سے کھنڈر بنانے کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ کیونکہ اس عمارت کی جانب کوئی رستہ کبھی نہیں بنایا گیا تھا۔۔۔ کوئی رستہ نہ ادھر کو آتا تھا، نہ ادھر سے کہیں اور جاتا تھا۔۔۔!
لیکن کھنڈر کی عبارت اب بھی بتا سکتی ہے کہ یہ بھی اک تاج محل تھا۔۔۔ لیکن تحریر کھنڈرات کے قاری آج بھی نہیں جانتے کہ کون کون کھنڈر کہاں کہاں کس کس پردے میں زیست کو زیست کر رہے ہیں۔
اس عمارت شکستہ دل کے باہر کوئی باغیچہ نہیں تھا۔ بلکہ اندر بہت اندر اندھیر نگری کے بیچ ایک خودرو کیاری تھی۔۔۔جہاں نہ روشنی نہ پانی۔۔۔صرف بیج بمشکل پھٹ کٹ جاتے تھے۔۔۔ اور پھر خود ہی اپنا نشان چھوڑ کر دفن بھی ہو جاتے۔۔۔!
مگر پھر اک دن زمین نے انگڑائی لی، جسے زلزلہ کا نام دے دیا گیا۔۔۔ تو زمین کے اندر ہی کوئی چشمہ پھوٹا اور ان باقی ماندہ خشک بیجوں کو ساتھ بہا لے گیا۔۔۔ باہر کی فضا انہیں اجنبی لگی مگر پھر پھولوں نے کِھلنا سیکھ ہی لیا۔۔۔ لیکن مسکراتے نہیں تھے۔
تب اِک دن، ان آنکھوں، جن پر شریعت نام کے موٹے بے رنگ پردے جو سرتاپا ڈالے گئے تھے ان کا نور مضطرب ہوا، اس کا دم گھٹنے لگاکیونکہ نورانی پن خراج چاہتا تھا۔۔۔ وہ ظالم حسن سے جو بنا تھا۔۔۔ جگنو بننا چاہتا تھا، ضو فشانی جو تھی اس میں، سو۔۔۔ سو اس نے پانی کی طرح اپنا رستہ بنا لیا۔ اس اندھیر نگری کے چشمے سے نکلا اور رستہ تلاشتے پھول تک پہنچ گیا اور پھول میں آنکھیں بنا لیں۔
نور کے آتے ہی پھول مسکرانے لگا۔۔۔ مہکنے لگا۔۔۔ اٹکیلیاں کرنے لگا۔۔۔ تو، نور کو جمالِ قدرت سے اسیری کا احساس ہونے لگا۔ پھول پر جوبن کی بہار برسی تو بدنامی نے اس پر تہمت کی چاندنی بکھیر دی۔۔۔تب ایک گاڑی وہاں آکر رکی اور اس پھول کو ’’کاری‘‘ کر کے اپنے کوٹ کے کالر میں چپکے سے سجا لے گئی۔
یہ کوٹ کسی جانی پہچانی آواز کا عندیہ دے رہا تھا۔۔۔وہ تو اچھا ہوا کہ نور آتے ہوئے اپنے ساتھ اک سماعت کا پیالہ بھی لے آیا لیکن پیاسے لب وہیں چھوڑ آیا تھا۔ تب نور نے دیکھا اک محفل مردان خانہ ہے۔۔۔!
جہاں پرانے انگوری مشروب سے مدہوشی و خمار کی محفلیں گرم ہیں، کچھ زیبا فعل، نازیبا طور اور کچھ نازیبا فعل زیبا طور خود بخود ہی سرزد ہو رہے تھے اور محفل کی زیبائی زہرہ چار سو بکھری ہوئی تھی۔۔۔ ایک بڑی دیوار پرٹیلی ویژن تھا شاید۔۔۔ اک سکرین سی، اک پردہ سا لگا تھا۔ سنیما کی طرح، کہ جس پہ مرد و زن قدرتی لباس میں نئی نسل تخلیق کرنے کی بھرپور کاوشیں کر رہے تھے یا شاید۔۔۔ سیکھا رہے تھے۔ تب کچھ مدہوش، اپنی گاڑی کی اور بڑھے۔۔۔تو کسی نے ایک آواز دی، اک نام پکارا تو یہ کوٹ والا مڑا۔۔۔تب۔۔۔تب معلوم ہوا کہ۔۔۔!
اوہ۔۔۔!
یہ تو وہی ہے جو شریعت کا پردہ ڈال کر مقدس رنگین غلاف والی ایک پاکیزہ کتاب دے گیا تھا۔ جس کو پڑھنے سے بڑا ثواب ملتا ہے۔ سمجھنے سے نہیں۔۔۔ اور پردہ والی کے پڑھنے سے تو اس کے گھر کے ’’نر‘‘ کی بھی ناؤ آخرت میں پار لگ جاتی ہے۔
تب وہ گاڑی میں بیٹھا اور ایک بڑے سے دروازے والے ویلا کے باہر رک گیا۔دروازہ کھلا تو اندر بھی چلا گیا۔ وہاں کوئی خوشبوؤں سے معطر اک کمرے میں پہلے ہی اس کی منتظر تھی۔۔۔ کون تھی۔۔۔؟
ہاں اس کے ہونٹ بتا رہے تھے وہ خرید سکتا تھا۔ہر نشیب و فراز والی۔۔۔جس میں وہ ’اتر‘ و ’ابھر‘ بھی سکتا تھا۔۔۔ اس نے آتے ہی اسے قدرتی لباس پہنا دیا اور خود بھی یہی لباس زیب تن کر لیا۔۔۔ لباس فطری تھا، سو بہت حسین لگ رہا تھا۔ کسی بڑے تخلیق کار کے بڑے ہنر کا عکاس۔۔۔ وہ بھی اس اعترافِ تخلیق کے بنا نہ رہ سکا، اور جلد ہی تخلیقی کاوشیں شروع کر دیں وہی جو وہ دیکھ کر آ رہا تھا۔۔۔ وہ جو ہر بیٹا، اپنا باپ پیدا کرنے کے لئے کیا کرتا ہے۔
چونکہ ان آنکھوں کے لئے شریعت کا پردہ نہیں۔۔۔ہے۔۔۔ان کے لب۔۔۔!
ان کا قلم تو قدرت کی ہر حسین تخلیق کو اپنے ہاتھوں کی پوروں سے نوچ نوچ کر لکھ سکتا ہے۔ ان کی کتابوں میں تو ذہنی بلوغت کے لئے لفظوں کے ساتھ قدرتی تخلیقی عکس کو بھی آشکار کیا جاتا ہے۔ ان کو تو فکرِ فردا کے لئے ہر چھوٹے بڑے غار میں جانے کی آزادی ہوتی ہے کیونکہ غیرت کی کوئی زنجیر ان کی ذات کے واسطے نہیں۔۔۔ ان کو تو زنگ سے پاک رکھنے کے لئے ہر روغن کی ہرجا ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ ان کا تو ایک درجہ اس لئے زیادہ ہے کہ وہ انسان کو ’’فقیر‘‘ بنا کر اسے ’’شریعت‘‘ کے نام کی ’’بھیک‘‘ دیتا ہے۔ اس کو معذور کر کے اس پر ’’احسان‘‘ جتاتا ہے۔۔۔کیونکہ قبل از پیدائش ہی انہیں اک ’’راجا‘‘ ہر شب غازِ تخلیق میں جا کر بتاتا ہے کہ تو جو شے لے کر پیدا ہو رہا ہے۔ اس پر ’’من مانی‘‘ راج مہر ثبت ہے۔۔۔!
مصنف:رابعہ الربا