کہانی کی کہانی:’’اس کہانی میں واقعات کو کم، ذہنی کیفیت اور دلی احساسات کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ان احساسات میں ملن ہے، محبت اور جدائی ہے۔ وقت کی مناسبت سے کئی کردار ابھرتے اور ماند پڑ جاتے ہیں۔ ہر کسی کی اپنی کہانی ہے، مگر جو کہانی کہتا ہے، اس کی خود کی کہانی کہیں دھندلی پڑ جاتی ہے۔‘‘
پریوں کی سرزمین کو ایک راستہ جاتا ہے شاہ بلوط اور صنوبر کے جنگلوں میں سے گزرتا ہوا جہاں روپہلی ندیوں کے کنارے چیری اور بادام کے سایوں میں خوب صورت چرواہے چھوٹی چھوٹی بانسریوں پر خوابوں کے نغمے الاپتے ہیں۔ یہ سنہرے چاند کی وادی ہے۔ Never Never Land کے مغرور اور خوب صورت شہزادے۔ پیٹر پین کا ملک جہاں ہمیشہ ساری باتیں اچھی اچھی ہوا کرتی ہیں۔ آئس کریم کی برف پڑتی ہے۔ چوکلیٹ اور پلم کیک کے مکانوں میں رہا جاتا ہے۔ موٹریں پٹرول کے بجائے چائے سے چلتی ہیں۔ بغیر پڑھے ڈگریاں مل جاتی ہیں۔
اور کہانیوں کے اس ملک کو جانے والے راستے کے کنارے کنارے بہت سے سائن پوسٹ کھڑے ہیں جن پر لکھا ہے ’’صرف موٹروں کے لیے‘‘
’’یہ عام راستہ نہیں‘‘ اور شام کے اندھیرے میں زناٹے سے آتی ہوئی کاروں کی تیز روشنی میں نرگس کے پھولوں کی چھوٹی سی پہاڑی میں سے جھانکتے ہوئے یہ الفاظ جگمگا اٹھتے ہیں، ’’پلیز آہستہ چلائیے۔۔۔ شکریہ!‘‘
اور بہار کی شگفتہ اور روشن دوپہروں میں سنہرے بالوں والی کر لی لوکس، سنڈریلا اور اسنو وائٹ چھوٹی چھوٹی پھولوں کی ٹوکریاں لے کر اس راستے پر چیری کے شگوفے اور ستارۂ سحری کی کلیاں جمع کرنے آیا کرتی تھیں۔
ایک روز کیا ہوا کہ ایک انتہائی ڈیشنگ شہ سوار راستہ بھول کر صنوبروں کی اس وادی میں آ نکلا جو دور دراز کی سرزمینوں سے بڑے بڑے عظیم الشان معرکے سر کر کے چلا آ رہا تھا۔ اس نے اپنے شان دار گھوڑے پر سے جھک کر کہا، ’’مائی ڈیر ینگ لیڈی کیسی خوش گوار صبح ہے!‘‘کر لی لوکس نے بے تعلقی سے جواب دیا، ’’اچھا، واقعی؟ تو پھر کیا ہوا؟‘‘
شہ سوار کی خواب ناک آنکھوں نے خاموشی سے کہا، ’’پسند کرو ہمیں۔‘‘ کر لی لوکس کی بڑی بڑی روشن اور نیلی آنکھوں میں بے نیازی جھلملا اٹھی۔ ’’جناب عالی ہم بالکل نوٹس نہیں لیتے۔‘‘ شہ سوار نے اپنی خصوصیات بتائیں۔ ایک شان دار سی امپیریل سروس کے مقابلے میں ٹاپ کیا ہے۔ اب تک ایک سو پینتیس ڈوئیل لڑ چکا ہوں۔ بہترین قسم کا Heart Breakerہو ں۔ کر لی لوکس نے غصے سے اپنی سنہری لٹیں جھٹک دیں اور اپنے بادامی ناخنوں کے برگنڈی کیوٹیکس کو غور سے دیکھنے میں مصروف ہو گئی۔ سنڈریلا اور اسنو وائٹ پگڈنڈی کے کنارے اسٹرابری چنتی رہیں۔ اور ڈیشنگ شہ سوار نے بڑے ڈرامائی انداز سے جھک کر نرسری کا ایک پرانا گیت یاد دلایا،
کر لی لوکس کر لی لوکس
یعنی اے میری پیاری چینی کی گڑیا۔
تمھیں برتن صاف کرنے نہیں پڑیں گے۔
اور بطخوں کو لے کر چراگاہ میں جانا نہیں ہو گا۔
بلکہ تم کشنوں پر بیٹھی بیٹھی اسٹرابری کھایا کرو گی۔
اے میری سنہرے گھنگھریالے بالوں والی مغرور شہزادی ایمیلیا ہنری ایٹامرایا۔۔۔ دو نینا متوارے تمھارے ہم پر ظلم کریں۔
اور پھر وہ ڈیشنگ شہ سوار اپنے شان دار گھوڑے کو ایڑ لگا کر دوسری سرزمینوں کی طرف نکل گیا جہاں اور بھی زیادہ عظیم الشان اور زبردست معرکے اس کے منتظر تھے اور اس کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آوازِ بازگشت پہاڑی راستوں اور وادیوں میں گونجتی رہی۔
پھر ایک اور بات ہوئی جس کی وجہ سے چاند کی وادی کے باسی غمگین رہنے لگے کیوں کہ ایک خوش گوار صبح معصوم کوک روبن ستارۂ سحری کے سبزے پر مقتول پایا گیا۔ مرحوم پر کسی ظالم نے تیر چلایا تھا۔ سنڈریلا رونے لگی۔ بے چارا میرا سرخ اور نیلے پروں والا گڈّو سا پرندہ۔ پرستان کی ساری چڑیوں، خرگوشوں اور گلہریوں نے مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد پتا چلا لیا اور بالاتفاق رائے اس کی بے وقت اور جوان مرگی پر تعزیت کی قرارداد منظور کی گئی۔ یونی ورسٹی میں کوک روبن ڈے منایا گیا لیکن عقل مند پوسی کیٹ نے، جو فل بوٹ پہن کر ملکہ سے ملنے لندن جایا کرتی تھی، سنڈریلا سے کہا، ’’روؤ مت میری گڑیا، یہ کوک روبن تو یوں ہی مرا کرتا ہے اور پھر فرسٹ ایڈ ملتے ہی فوراً زندہ ہو جاتا ہے۔‘‘ اور کوک روبن سچ مچ زندہ ہو گیا اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگے۔
اور ہمیشہ کی طرح وادی کے سبزے پر بکھرے ہوئے بھیڑوں کے گلے کی ننھی مُنّی گھنٹیاں اور دور سمندر کے کنارے شفق میں کھوئے ہوئے پرانے عبادت خانوں کے گھنٹے آہستہ آہستہ بجتے رہے۔۔۔ ڈنگ ڈونگ، ڈنگ ڈونگ بل، پوسی ان وَ ویل۔
ڈنگ ڈونگ۔ ڈنگ ڈونگ۔۔۔ جیسے کر لی لوکس کہہ رہی ہو، نہیں، نہیں، نہیں، نہیں!
اور اس نے کہا۔ نہیں نہیں۔ یہ تو پریوں کے ملک کی باتیں تھیں۔ میں کوک روبن نہیں ہوں، نہ آپ کر لی لوکس یا سنڈریلا ہیں۔ ناموں کی ٹوکری میں سے جو پرچی میرے ہاتھ پڑی ہے اس پر ریٹ بٹلر لکھا ہے لہٰذا آپ کو اسکارٹ اوہارا ہونا چاہیے۔ ورنہ اگر آپ جو لیٹ یا کلیوپٹرا ہیں تو رومیو یا انطونی صاحب کو تلاش فرمائیے اور میں قاعدے سے مس اوہارا کی فکر کروں گا۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ جو لیٹ یا بیٹرس یا ماری انطونی نہیں ہیں اور میں قطعی ریٹ بٹلر نہیں ہو سکتا، کاش آپ محض آپ ہوتیں اور میں صرف میں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ لہٰذا آئیے اپنی اپنی تلاش شروع کریں۔
ہم سب کے راستے یوں ہی ایک دوسرے کو کاٹتے ہوئے پھر الگ الگ چلے جاتے ہیں، لیکن پرستان کی طرف تو ان میں سے کوئی راستہ بھی نہیں جاتا۔
چوکو بارز کی اسٹالوں اور لکی ڈپ کے خیمے کے رنگین دھاری دار پردوں کے پیچھے چاندی کی ننھی منی گھنٹیاں بجتی رہیں۔ ڈنگ ڈونگ ڈنگ ڈونگ۔۔۔ پوسی بے چاری کنویں میں گر گئی اور ٹوم اسٹاؤٹ بے فکری سے چوکو بارز کھاتا رہا۔ پھر وہ سب زندگی کی ٹریجڈی میں غور کرنے میں مصروف ہو گیےکیوں کہ وہ چاند کی وادی کے باسی نہیں تھے لیکن اتنے احمق تھے کہ پرستان کی پگڈنڈی پر موسمِ گل کے پہلے سفید شگوفے تلاش کرنے کی کوشش کر لیا کرتے تھے اور اس کوشش میں انھیں ہمیشہ کسی نہ کسی اجنبی ساحل، کسی نہ کسی ان دیکھی، اَن جانی چٹان پر فورسڈ لینڈنگ کرنی پڑتی تھی۔
وہ کئی تھے۔ ڈک ڈنگٹن جسے امید تھی کہ کبھی نہ کبھی تو اسے فل بوٹ پہننے والی وہ پوسی کیٹ مل ہی جائے گی جو اسے خوابوں کے شہر کی طرف اپنے ساتھ لے جائے اور اسے یقین تھا کہ خوابوں کے شہر میں ایک نیلی آنکھوں والی ایلس اپنے ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھی اس کی راہ دیکھ رہی ہے اور وہ افسانہ نگار جو سوچتا تھا کہ کسی رو پہلے راج ہنس کے پروں پر بیٹھ کر اگر وہ زندگی کے اس پار کہانیوں کی سرزمین میں پہنچ جائے جہاں چاند کے قلعے میں خیالوں کی شہزادی رہتی ہے تو وہ اس سے کہے، ’’میری مغرور شہزادی! میں نے تمھارے لیے اتنی کہانیاں، اتنے اوپیرا اور اتنی نظمیں لکھی ہیں۔ میرے ساتھ دنیا کو چلو تو دنیا کتنی خوب صورت، زندہ، رہنے اور محبت کرنے کے قابل جگہ بن جائے۔‘‘
لیکن روپہلا راج ہنس اسے کہیں نہ ملتا تھا اور وہ اپنے باغ میں بیٹھا بیٹھا کہانیاں اور نظمیں لکھا کرتا تھا اور جو خوب صورت اور عقل مند لڑکی اس سے ملتی،، اسے ایک لمحے کے لیے یقین ہو جاتا کہ خیالوں کی شہزادی چاند کے ایوانوں میں سے نکل آئی ہے لیکن دوسرے لمحے یہ عقل مند لڑکی ہنس کر کہتی کہ افوہ بھئی فن کار صاحب! کیا cynicism بھی اس قدر الٹرا فیشن ایبل چیز بن گئی ہے اور آپ کو یہ مغالطہ کب سے ہو گیا ہے کہ آپ جینیس بھی ہیں اور اس کے نقرئی قہقہے کے ساتھ چاند کی کرنوں کی وہ ساری سیڑھیاں ٹوٹ کر گر پڑتیں جن کے ذریعے وہ اپنی نظموں میں خیالستان کے محلوں تک پہنچنے کی کوشش کیا کرتا تھا اور دنیا ویسی کی ویسی ہی رہتی۔ اندھیری، ٹھنڈی اور بد صورت۔۔۔ اور سنڈریلا جو ہمیشہ اپنا ایک بلوریں سینڈل رات کے اختتام پر خوابوں کی جھلملاتی رقص گاہ میں بھول آتی تھی، اور وہ ڈیشنگ شہ سوار جو پرستان کی خاموش، شفق کے رنگوں میں کھوئی ہوئی پگڈنڈیوں پر اکیلے اکیلے ہی ٹہلا کرتا تھا اور برف جیسے رنگ اور سرخ انگارہ جیسے ہونٹوں والی اسنو وائٹ جو رقص کرتی تھی تو بوڑھے بادشاہ کول کے دربار کے تینوں پری زاد مغنی اپنے وائلن بجانا بھول جاتے تھے۔
’’اور‘‘ ریٹ بٹلر نے اس سے کہا، ’’مس اوہارا آپ کو کون سا رقص زیادہ پسند ہے۔ ٹینگو۔۔۔ فوکس ٹروٹ۔۔۔ رومبا۔۔۔ آئیے لیمبتھ واک کریں۔‘‘
اور افروز اپنے پارٹنر کے ساتھ رقص میں مصروف ہو گئی، حالاں کہ وہ جانتی تھی کہ وہ اسکارلٹ اور ہارا نہیں ہے کیوں کہ وہ چاند کی دنیا کی باسی نہیں تھی۔ سبزے پر رقص ہو رہا تھا۔ روش کی دوسری طرف ایک درخت کے نیچے، لکڑی کے عارضی پلیٹ فارم پر چارلس جوڈا کا آرکیسٹرا اپنی پوری سوئنگ میں تیزی سے بج رہا تھا۔۔۔ اور پھر ایک دم سے قطعے کے دوسرے کنارے پر ایستادہ لاؤڈ اسپیکر میں کارمن میرانڈا کا ریکارڈ چیخنے لگا، ’’تم آج کی رات کسی کے بازوؤں میں ہونا چاہتی ہو؟‘‘ لکی ڈپ اور ’’عارضی کافی ہاؤس‘‘ کے رنگین خیموں پر بندھی ہوئی چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بجتی رہیں اور کسی نے اس کے دل میں آہستہ آہستہ کہا، موسیقی۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ زندگی۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ شوپاں کے نغمے۔۔۔ ’’جپسی مون۔‘‘ اور خدا!
اس نے اپنے ہم رقص کے مضبوط، پراعتماد، مغرور بازوؤں پر اپنا بوجھ ڈال کر ناچ کے ایک کوئیک اسٹیپ کا ٹرن لیتے ہوئے اس کے شانوں پر دیکھا۔ سبزے پر اس جیسے کتنے انسان اس کی طرح دو دو کے رقص کی ٹکڑیوں میں منتشر تھے۔ ’’جولیٹ‘‘ اور ’’رومیو‘‘، ’’وکٹوریہ‘‘ اور ’’البرٹ‘‘، ’’بیٹرس‘‘ اور ’’دانتے‘‘ ایک دوسرے کو خوب صورت دھوکے دینے کی کوشش کرتے ہوئے، ایک دوسرے کو غلط سمجھتے ہوئے اپنی اس مصنوعی، عارضی، چاند کی وادی میں کتنے خوش تھے وہ سب کے سب۔۔۔! بہار کے پہلے شگوفوں کی متلاشی اور کاغذی کلیوں پر قانع اور مطمئن۔۔۔ زندگی کے تعاقب میں پریشان و سرگرداں زندگی۔۔۔ ہُنہ۔۔۔ شوپاں کی موسیقی، سفید گلاب کے پھول، اور اچھی کتابیں۔ کاش! زندگی میں صرف یہی ہوتا۔
چاند کی وادی کے اس افسانہ نگار اویناش نے ایک مرتبہ اس سے کہا تھا۔ ہُنہ۔۔۔ کتنا بنتے ہو اویناش! ابھی سامنے سے ایک خوب صورت لڑکی گزر جائے اور تم اپنی ساری تخیل پرستیاں بھول کر سوچنے لگو گے کہ اس کے بغیر تمھاری زندگی میں کتنی بڑی کمی ہے۔۔۔ اور اویناش نے کہا تھا، کاش جو ہم سوچتے وہی ہوا کرتا، جو ہم چاہتے وہی ملتا۔۔۔ ہائے یہ زندگی کا لکی ڈپ۔۔۔! زندگی، جس کا جواب مونا لیزا کا تبسم ہے جس میں نرسری کے خوب صورت گیت اور چاند ستارے ترشتی ہوئی کہانیاں تمھارا مذاق اڑاتی، تمھارا منہ چڑاتی بہت پیچھے رہ جاتی ہیں، جہاں کوک روبن پھر سے زندہ ہونے کے لیے روز نئے نئے تیروں سے مرتا رہتا ہے۔۔۔ اور کر لی لوکس ریشمیں کشنوں کے انبار پر کبھی نہیں چڑھ پاتی۔ کاش افروز تم— اور پھر وہ خاموش ہو گیا تھا کیوں کہ اسے یاد آگیا تھا کہ افروز کو ’’کاش۔۔۔‘‘ اس سستے اور جذباتی لفظ سے سخت چڑ ہے۔ اس لفظ سے ظاہر ہوتا ہے جیسے تمھیں خود پر اعتماد، بھروسہ، یقین نہیں۔
اور افروز لیبتھ واک کی اچھل کود سے تھک گئی۔ کیسا بے ہودہ سا ناچ ہے۔ کس قدر بے معنی اور فضول سے Steps ہیں۔ بس اچھلتے اور گھومتے پھر رہے ہیں، بے وقوفوں کی طرح۔
’’مس اوہارا۔۔۔‘‘اس کے ہم رقص نے کچھ کہنا شروع کیا۔
’’افروز سلطانہ کہیے۔‘‘
’’اوہ۔۔۔ مس افروز حمید علی۔۔۔ آئیے کہیں بیٹھ جائیں۔‘‘
’’بیٹھ کر کیا کریں؟‘‘
’’ار۔۔۔ باتیں!‘‘
’’باتیں آپ کر ہی کیا سکتے ہیں سوائے اس کے کہ مس حمید علی آپ یہ ہیں، آپ وہ ہیں، آپ بے حد عمدہ رقص کرتی ہیں، آپ نے کل کے سنگلز میں پرکاش کو خوب ہرایا۔۔۔‘‘
’’ار۔۔۔ غالباً آپ کو سیاسیات سے۔۔۔‘‘
’’شکریہ، اویناش اس کے لیے ضرورت سے زیادہ ہے۔‘‘
’’اچھا تو پھر موسیقی یا پال مُنی کی نئی فلم۔۔۔‘‘
’’مختصر یہ کہ آپ خاموش کسی طرح نہیں بیٹھ سکتے۔۔۔‘‘وہ چپ ہو گیا۔
پھر شام کا اندھیرا چھانے لگا۔ درختوں میں رنگ برنگے برقی قمقمے جھلملا اٹھے اور وہ سب سبزے کو خاموش اور سنسان چھوڑ کے بال روم کے اندر چلے گئے۔ آرکیسٹرا کی گت تبدیل ہو گئی۔ جاز اپنی پوری تیزی سے بجنے لگا۔ وہ ہال کے سرے پر شیشے کے لمبے لمبے دریچوں کے پاس بیٹھ گئی۔ اس کے قریب اس کی ممانی کا چھوٹا بھائی، جو کچھ عرصے قبل امریکہ سے واپس آیا تھا، میری ووڈ سے باتیں کرنے میں مشغول تھا اور بہت سی لڑکیاں اپنی سبز بید کی کرسیاں اس کے آس پاس کھینچ کر انتہائی انہماک اور دل چسپی سے باتیں سن رہی تھیں اور میری ووڈ ہنسے جا رہی تھی۔ میری ووڈ، جو سانولی رنگت کی بڑی بڑی آنکھوں والی ایک اعلیٰ خاندان عیسائی لڑکی اور انگریز کرنل کی بیوی تھی، ایک ہندوستانی فلم میں کلاسیکل رقص کر چکی تھی اور اب جاز کی موسیقی اور شیری کے گلاسوں کے سہارے اپنی شامیں گزار رہی تھی۔
اور پائپوں اور سگرٹوں کے دھوئیں کا ملا جلا لرزتا ہوا عکس بال روم کی سبز روغنی دیواروں پر بنے ہوئے طیاروں، پام کے درختوں اور رقصاں اپسراؤں کے دھندلے دھندلے نقوش کو اپنی لہروں میں لپیٹتا، ناچتا، رنگین اور روشن چھت کی بلندی کی طرف اٹھتا رہا۔ خوابوں کا شبنم آلود سحر آہستہ آہستہ نیچے اتر رہا تھا۔
او ریک لخت، میری ووڈ نے زور سے ہنسنا اور چلّانا شروع کر دیا۔ افروز کی ممانی کے ہالی ووڈ پلٹ بھائی نے ذرا گھبرا کر اپنی کرسی پیچھے کو سرکا لی۔ سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔ آرکیسٹرا کے سُر آہستہ آہستہ ڈوبتے گیے اور دبی دبی اور مدھم قہقہوں کی آوازیں ابھرنے لگیں۔ وہ سبز آنکھوں والی زرد رو لڑکی، جو بہت دیر سے ایک ہندوستانی پرنس کے ساتھ ناچ رہی تھی، تھک کر افروز کے قریب آ کر بیٹھ گئی اور اس کا باپ، جو ایک ہندوستانی ریاست کی فوج کا افسر اعلیٰ تھا، فرن کے پتوں کے پیچھے گیلری میں بیٹھا اطمینان سے سگار کا دھواں اڑاتا رہا۔
پھر کھیل شروع ہوئے اور ایک بے حد اوٹ پٹانگ سے کھیل میں حصہ لینے کے لیے سب دوبارہ ہال کی فلور پر آ گیے اور افروز کا ہم رقص ریٹ بٹلر اپنے خواب ناک آنکھوں والے دوست کے ساتھ اس کے قریب آیا، ’’مس حمید علی آپ میری پارٹنر ہیں نا؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ آئیے۔‘‘
اور اس خواب ناک آنکھوں والے دوست نے کہا، ’’بارہ بجنے والے ہیں۔ نیا سال مبارک ہو۔ لیکن آج اتنی خاموش کیوں ہیں آپ؟‘‘
’’آپ کو بھی مبارک ہو لیکن ضرورت ہے کہ اس زبردست خوشی میں خواہ مخواہ کی بے کار باتوں کا سلسلہ رات بھر ختم ہی نہ کیا جائے۔‘‘
’’لیکن میں تو چاہتا ہوں کہ آپ اس طرح خاموش نہ رہیں۔ اس سے خواہ مخواہ یہ ظاہر ہو گا کہ آپ کو اس مجمعے میں ایک مخصوص شخص کی موجودگی ناگوار گزر رہی ہے۔‘‘
’’پر جو آپ چاہیں، لازم تو نہیں کہ دوسروں کی بھی وہی مرضی ہو۔ کیوں کہ جب آپ کچھ کہتے ہوتے ہیں اس وقت آپ کو یقین ہوتا ہے کہ ساری دنیا بے حد دل چسپی سے آپ کی طرف متوجہ ہے اور بعد میں لڑکیاں کہتی ہیں، افوہ! کس قدر مزے کی باتیں کرتے ہیں انور صاحب۔
اتنے میں پرکاش کاغذ اور پنسلیں تقسیم کرتی ہوئی ان کی طر ف آئی اور ان کو ان کے فرضی نام بتاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر کے لیے سب چپ ہو گیے۔ پھر قہقہوں کے شور کے ساتھ کھیل شروع ہوا۔ کھیل کے دوران میں اس نے اپنی خواب ناک آنکھیں اٹھا کر یوں ہی کچھ نہ کچھ بولنے کی غرض سے پوچھا، ’’جی، تو ہم کیا باتیں کر رہے تھے؟‘‘
’’میرا خیال ہے کہ ہم باتیں قطعی کر ہی نہیں رہے تھے۔ کیوں نہ آپ قاعدے سے اپنی پارٹنر کے ساتھ جا کر کھیلیے۔ آپ کو معلوم ہے کہ میں اسکارلٹ اوہارا ہوں۔ جو لیٹ ابھی آپ کو تلاش کر رہی تھی۔ پھر ڈاکٹر مہرہ اور اویناش اس کی طرف آ گیےاور وہ ان کے ساتھ کھیل میں مصروف ہو گئی۔
اور جب رات کے اختتام پر وہ رفعت کے ساتھ اپنا اوور کوٹ لینے کے لیے کلوک روم کی طرف جا رہی تھی تو گیلری کے سامنے کی طرف سے گزرتے ہوئے اس نے اس سبز آنکھوں والی زرد رو جولیٹ کے باپ کو اپنے دوستوں سے کہتے سنا، ’’آپ میرے داماد میجر بھنڈاری سے ملے؟ مجھے تو فخر ہے کہ میری بڑی لڑکی نے اپنے فرقے سے باہر شادی کرنے میں ذات اور مذہب کی دقیانوسی قیود کی پروا نہیں کی۔ میری لڑکی کا انتخاب پسند آیا آپ کو؟ ہی ہی ہی۔ دراصل میں نے اپنی چاروں لڑکیوں کا ٹیسٹ کچھ اس طرح Cultivate کیا ہے کہ پچھلی مرتبہ جب میں ان کو اپنے ساتھ یورپ لے گیا تو۔۔۔‘‘ اور افروز جلدی سے بال روم کے باہر نکل آئی۔ یہ زندگی۔۔۔ یہ زندگی کا گھٹیا پن!
واقعی۔۔۔! یہ زندگی۔۔۔!
اور جشن نو روز کے دوسرے دن اس بے چارے ریٹ بٹلر نے اپنے دوست، اس خواب ناک آنکھوں والے ڈیشنگ شہ سوار سے کہا، جو پرستان کے راستوں پر سب سے الگ الگ ٹہلا کرتا تھا، ’’عجب لڑکی ہے بھئی۔‘‘
’’ہوا کرے۔‘‘اور وہ خواب ناک آنکھوں والا دوست بے نیازی سے سگریٹ کے دھوئیں کے حلقے بنا بنا کر چھت کی طرف بھیجتا رہا۔ اور اس عجیب لڑکی کی دوست کہہ رہی تھی، ’’ہُنہ، اس قدر مغرور، مغالطہ فائیڈ قسم کا انسان۔‘‘
’’ہوا کرے بھئی۔ ہم سے کیا۔‘‘اور افروز بے تعلقی کے ساتھ نٹنگ میں مصروف ہو گئی۔
’’اتنی اونچی بننے کی کوشش کیوں کر رہی ہو؟‘‘رفعت نے چڑ کر پوچھا۔
’’کیا ہرج ہے۔‘‘
’’کوئی ہرج ہی نہیں؟ قسم خدا کی افروز اس اویناش کے فلسفے نے تمھارا دماغ خراب کر دیا ہے۔‘‘
’’تو گویا تمھارے لیے زنجیر ہلائی جائے۔‘‘
’’فوہ۔ جیسے آپ یوں ہی نو لفٹ جاری رکھیں گی۔‘‘
’’قطعی۔۔۔! زندگی تمھارے لیے ایک مسلسل جذباتی اضطراب ہے لیکن مجھے اصولوں میں رہنا زیادہ اچھا لگتا ہے۔۔۔ جانتی ہو زندگی کے یہ ایئر کنڈیشنڈ اصول بڑے کارآمد اور محفوظ ثابت ہوتے ہیں۔‘‘
’’فوہ۔۔۔ کیا بلند پروازی ہے۔‘‘
’’میں؟‘‘
’’تم اور وہ۔۔۔ خدا کی قسم ایسی بے پرواہی سے بیٹھا رہتا ہے جیسے کوئی بات ہی نہیں۔ جی چاہتا ہے پکڑ کر کھا جاؤں اسے۔ جھکنا جانتا ہی نہیں جیسے۔‘‘
’’ارے چپ رہو بھائی۔‘‘
’’سچ مچ اس کی آنکھوں کی گہرائیاں اتنی خاموش، اس کا انداز اتنا پر وقار، اتنا بے تعلق ہے کہ بعض مرتبہ جی میں آتا ہے کہ بس خودکشی کر لو۔ یعنی ذرا سوچو تو، تم جانتی ہو کہ تمھارے کشن کے نیچے یا مسہری کے سرہانے میز پر بہترین قسم کی کیڈ بری چاکلیٹ کا بڑا سا خوب صورت پیکٹ رکھا ہوا ہے لیکن تم اسے کھا نہیں سکتیں۔۔۔ الو!‘‘
’’کون بھئی۔۔۔؟‘‘پرکاش نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’کوئی نہیں۔۔۔ ہے۔۔۔ ایک۔۔۔ ایک۔۔۔‘‘رفعت نے اپنے غصے کے مطابقت میں کوئی موزوں نام سوچنا چاہا۔
’’بلّا۔۔۔‘‘افروز نے اطمینان سے کہا۔
’’بلا!‘‘پرکاش کافی پریشان ہو گئی۔
’’ہاں بھئی۔۔۔ ایک بلّا ہے بہت ہی Typical قسم کا ایرانی بلّا۔‘‘ افروز بولی۔
’’تو کیا ہوا اس کا؟‘‘پرکاش نے پوچھا۔
’’کچھ نہیں۔۔۔ ہوتا کیا؟ سب ٹھیک ہے بالکل۔ بس ذرا اسے اپنی آنکھوں پر بہت ناز ہے اور ان مسعود اصغر صاحب کا کیا ہو گا؟ جو مسوری سے مار خط پہ خط نہایت اسٹائیلش انگریزی میں تمھارے ٹینس کی تعریف میں بھیجا کرتے ہیں۔‘‘
’’ان کو تار دے دیا جائے۔۔۔ Nose upturned-Nose upturned-Riffat:
’’ہاں۔ یعنی لفٹ نہیں دیتے۔ جس کی ناک ذرا اوپر کو اٹھی ہوتی ہے وہ آدمی ہمیشہ بے حد مغرور اور خود پسند طبیعت کا مالک ہوتا ہے۔‘‘
’’تو تمھاری ناک اتنی اٹھی ہوئی کہاں ہے۔‘‘
’’قطعی اٹھی ہوئی ہے۔ بہترین پروفائل آتا ہے۔‘‘
’’واقعی ہم لوگ بھی کیا کیا باتیں کرتے ہیں۔‘‘
’’جناب، بے حد مفید اور عقل مندی کی باتیں ہیں۔‘‘
’’اور صلاح الدین بے چارہ!‘‘
’’وہ تو پیدا ہی نہیں ہوا اب تک۔‘‘ رفعت نے بڑی رنجیدہ انداز سے کہا۔
کیوں کہ یہ ان کا تخیلی کردار تھا اور خیالستان کے کردار چاند کی وادی میں سے کبھی نہیں نکلتے۔ جب کبھی وہ سب کسی پارٹی میں ملیں تو سب سے پہلے انتہائی سنجیدگی کے ساتھ ایک دوسرے سے اس فرضی ہستی کی خیریت پوچھی جاتی، اس کے متعلق اوٹ پٹانگ باتیں کی جاتیں اور اکثر انھیں محسوس ہوتا جیسے انھیں یقین سا ہو گیا ہے کہ ان کا خیالی کردار اگلے لمحے ان کی دنیا اور ان کی زندگی میں داخل ہو جائے گا۔
اور فرصت اور بے فکری کی ایک خوش گوار شام انھوں نے یوں ہی باتیں کرتے کرتے صلاح الدین کی اس خیالی تصویر کو مکمل کیا تھا۔ وہ سب شاپنگ سے واپس آ کر منظر احمد پر زور شور سے تبصرہ کر رہی تھیں جو ان سے دیر تک آرٹس اینڈ کریفٹس ایمپوریم کے ایک کاؤنٹر پر باتیں کرتا رہا تھا اور پرکاش نے قطعی فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ بے حد بنتا ہے اور افروز بے حد پریشان تھی کہ کس طرح اس کا یہ مغالطہ دور کرے کہ وہ اسے پسند کرتی ہے۔
’’لیکن اسے لفٹ دینے کی کوئی معقول وجہ پیش کرو۔‘‘
’’کیوں کہ بھئی ہمارا معیار اس قدر بلند ہے کہ کوئی مارک تک پہنچ نہیں سکتا۔‘‘
’’لہٰذا اب کی بار اس کو بتا دیا جائے گا کہ بھئی افروز کی تو منگنی ہونے والی ہے۔‘‘
’’لیکن کس سے؟‘‘
’’یہی تو طے کرنا باقی ہے۔ مثلاً۔۔۔ مثلاً ایک آدمی سے۔ کوئی نام بتاؤ۔‘‘
’’پرویز۔‘‘
’’بڑا عام افسانوی سا نام ہے۔ کچھ اور سوچو!‘‘
’’سلامت اللہ!‘‘
’’ہش۔ بھئی واہ، کیا شان دار نام دماغ میں آیا۔۔۔ صلاح الدین!‘‘
’’یہ ٹھیک ہے۔ اچھا، اور بھائی صلاح الدین کا تعارف کس طرح کرایا جائے؟‘‘
’’بھئی صلاح الدین صاحب جو تھے وہ ایک روز پرستان کے راستے پر شفق کے گل رنگ سائے تلے مل گیے۔‘‘
’’پرستان کے راستے پر؟‘‘
’’چپکی سنتی جاؤ۔ جانتی ہو میں اس قدر بہترین افسانے لکھتی ہوں جن میں سب پرستان کی باتیں ہوتی ہیں۔ بس پھر یہ ہوا کہ۔۔۔‘‘
’’جناب ہم تو اس دنیا کے باسی ہیں۔ پرستان اور کہانیوں کی پگڈنڈیوں پر تو صرف اویناش ہی بھٹکتا اچھا لگتا ہے۔‘‘
’’چچ چچ چچ۔ بے چارہ اویناش۔۔۔ گڈو۔‘‘
’’بھئی ذکر تو صلاح الدین کا تھا۔‘‘
’’خیر تو جناب صلاح الدین صاحب پرستان کے راستے پر ہرگز نہیں ملے۔ وہ بھی ہماری دنیا کے باسی ہیں اور ان کا دماغ قطعی خراب نہیں ہوا ہے۔ چنانچہ سب ہی میٹر آف فیکٹ طریقے سے۔‘‘
’’یہ ہوا کہ افروز دل کشا جا رہی تھی تو ریلوے کراسنگ کے پاس بے حد رومینٹک انداز سے اس کی کار خراب ہو گئی۔‘‘
’’نہیں بھئی واقعہ یہ تھا کہ افروز آفیسرز شاپ جو گئی ایک روز تو پتا چلا کہ وہ غلط تاریخ پر پہنچ گئی ہے، اور وہ اپنا کارڈ بھی گھر بھول گئی تھی۔ بس بھائی صلاح الدین جو تھے انھوں نے جب دیکھا کہ ایک خوب صورت لڑکی برگنڈی رنگ کا کیوٹکس نہ ملنے کے غم میں رو پڑنے والی ہے تو انھوں نے بے حد Gallantly آگے بڑھ کر کہا کہ ’’خاتون میرا آج کی تاریخ کا کارڈ بے کار جا رہا ہے، اگر آپ چاہیں۔۔۔‘‘
’’بہت ٹھیک۔ آگے چلو۔ پھر کیا ہونا چاہیے؟‘‘
’’بس وہ پیش ہو گیے۔‘‘
’’نہ پیش نہ زیر نہ زبر۔۔۔ افروز نے فوراً نو لفٹ کر دیا اور بے چارے دل شکستہ ہو گیے۔‘‘
’’اچھا ان کا کیریکٹر۔۔۔‘‘
’’بہت ہی بیش فُل۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔ کافی تیز۔۔۔ لیکن بھئی ڈینڈی قطعی نہیں برداشت کیے جائیں گے۔‘‘
’’قطعی نہیں صاحب۔۔۔ اور اور فلرٹ ہوں تھوڑے سے۔۔۔‘‘
’’تو کوئی مضائقہ نہیں۔۔۔ اچھا وہ کرتے کیا ہیں؟‘‘
’’بھئی ظاہر ہے کچھ نہ کچھ تو ضرور ہی کرتے ہوں گے!‘‘
’’آرمی میں رکھ لو۔۔۔‘‘
’’اووق۔۔۔ حد ہو گئی تمھارے اسسٹنٹ کی۔ کچھ سوال سروس وغیرہ کا لاؤ۔‘‘
’’سب بور ہوتے ہیں۔‘‘
’’ارے ہم بتائیں، کچھ کرتے کراتے نہیں۔ منظر احمد کی طرح تعلقہ دار ہیں۔ پچیس گاؤں اور ایک یہی رومینٹک سی جھیل جہاں پر وہ کرسمس کے زمانے میں اپنے دوستوں کو مدعو کیا کرتے ہیں۔ ہاں اور ایک شان دار سی اسپورٹس کار۔۔۔‘‘
’’لیکن بھئی اس کے باوجود بے انتہا قومی خدمت کرتا ہے۔ کمیونسٹ قسم کی کوئی مخلوق۔‘‘
’’کمیونسٹ ہے تو اسے اپنے پچیسوں گاؤں علاحدہ کر دینے چاہئیں کیوں کہ پرائیویٹ پراپرٹی۔۔۔‘‘
’’واہ، اچھے بھائی بھی تو اتنے بڑے کمیونسٹ ہیں۔ انھوں نے کہاں اپنا تعلقہ چھوڑا ہے؟‘‘
’’آپ تو چغد ہیں نشاط زریں۔۔۔ اچھے بھیا تو سچ مچ کے آدمی ہیں۔ ہیرو کو بے حد آئیڈیل قسم کا ہونا چاہیے۔ یعنی غور کرو صلاح الدین محمود کس قدر بلند پایہ انسان ہے کہ جنتا کی خاطر۔۔۔‘‘
’’افوہ۔۔۔ کیا بوریت ہے بھئی۔ تم سب مل کر ابھی یہی طے نہیں کر پائیں کہ وہ کرتا کیا ہے۔‘‘
’’کیا بات ہوئی ہے واللہ!‘‘
’’جلدی بتاؤ۔‘‘
’’اصفہانی چائے میں۔۔۔‘‘
اور سب پر ٹھنڈا پانی پڑ گیا۔
’’کیوں جناب اصفہانی چائے میں بڑے بڑے اسمارٹ لوگ دیکھنے میں آتے ہیں۔‘‘
’’اچھا بھئی قصہ مختصر یہ کہ پڑھتا ہے۔ فزکس میں ریسرچ کر رہا ہے گویا۔‘‘
’’پڑھتا ہے تو آفیسرز شاپ میں کہاں سے پہنچ گیا!‘‘
’’بھئی ہم نے فیصلہ کر دیا ہے آخر۔ ہوائی جہاز میں سول ایوی ایشن آفیسر ہے۔‘‘
’’یہ آئیڈیا کچھ۔۔۔‘‘
’’تمھیں کوئی آئیڈیا ہی پسند نہیں آیا۔ اب تمھارے لیے کوئی آسمان سے تو خاص طور پر بن کر آئے گا نہیں آدمی۔‘‘
’’اچھا تو پھر یہی مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور جو غرور کے مارے اب تک ڈیڈی پر کال کرنے نہیں آئے۔‘‘
اور اس طرح انھوں نے ایک تخیلی کردار کی تخلیق کی تھی۔ سب ہی اپنے دلوں میں چپکے چپکے ایسے کرداروں کی تخلیق کر لیتے ہیں جو ان کی دنیا میں آ کر بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ یہ بے چارے بے وقوف لوگ!
لیکن پرکاش کا خیال تھا کہ ان کی Mad-hatter’s پارٹی میں سب کے سب حد سے زیادہ عقل مند ہیں۔ مغرور اور خود پسند نشاط زریں جو ایسے Fantastic افسانے لکھتی ہے جن کا سر پیر کسی کی سمجھ میں نہیں آتا لیکن جن کی تعریف ایٹی کیٹ کے اصولوں کے مطابق سب کر دیتے ہیں جو اکثر چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھ کر بچوں کی طرح رو پڑتی ہے یا خوش ہو جاتی ہے اور پھر اپنے آپ کو سپر انٹلکچوئل سمجھتی ہے۔ رفعت، جس کے لیے زندگی ہمیشہ ہنستی ناچتی رہتی ہے اور افروز جو نہایت سنجیدگی سے نو لفٹ کے فلسفے پر تھیسس لکھنے والی ہے کیوں کہ ان کی پارٹی کے دس احکام میں سے ایک یہ بھی تھا کہ انسان کو خود پسند، خودغرض اور مغرور ہونا چاہیے کیوں کہ خود پسندی دماغی صحت مندی کی سب سے پہلی علامت ہے۔
ایک سہ پہر وہ سب اپنے امریکن کالج کے طویل دریچوں والے فرانسیسی وضع کے میوزک روم میں دوسری لڑکیوں کے ساتھ پیانو کے گرد جمع ہو کر سالانہ کونسرٹ کے اوپیرا کے لیے ریہرسل کر رہی تھیں۔ موسیقی کی ایک کتاب کے ورق الٹتے ہوئے کسی جرمن نغمہ نواز کی تصویر دیکھ کر پرکاش نے بے حد ہمدردی سے کہا، ’’ہمارے اویناش بھائی بھی تو اسکارف، لمبے لمبے بالوں، خواب ناک آنکھوں اور پائپ کے دھوئیں سے ایسا بوہیمین انداز بناتے ہیں کہ سب ان کو خواہ مخواہ جینیس سمجھنے پر مجبور ہو جائیں۔‘‘
’’آدمی کبھی جینیس ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ نشاط اپنے فیصلہ کن انداز میں بولی۔ ’’اب تک جتنے جینیس پیدا ہوئے ہیں سارے کے سارے بالکل Girlish تھے اور ان میں عورت کا عنصر قطعی طور پر زیادہ موجود تھا۔ بائرن، شیلے، کیٹس، شوپاں۔۔۔ خود آپ کا نپولین اعظم لڑکیوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا تھا۔‘‘ رفعت آئرش دریچے کے قریب زور زور سے الاپنے لگی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ مرمریں ایوانوں میں رہتی ہوں، گانے کی مشق کر رہی تھی۔ باہر برآمدے کے یونانی ستونوں اور باغ پر دھوپ ڈھلنا شروع ہو گئی۔ ’’سُپرب، میری بچیو! ہماری ریہرسلیں بہت اچھی طرح پروگرس کر رہی ہیں۔‘‘ اور موسیقی کی فرانسیسی پروفیسر اپنی مطمئن اور شیریں مسکراہٹ کے ساتھ میوزک روم سے باہر جا کر برآمدے کے ستونوں کے طویل سایوں میں کھو گئیں۔ نشاط نے اسی سکون اور اطمینان کے ساتھ پیانو بند کر دیا۔
زندگی کتنی دل چسپ ہے، کتنی شیریں۔ دریچے کے باہر سائے بڑھ رہے تھے۔ فضا میں ’’لابوہیم‘‘ کے نغموں کی گونج اب تک رقصاں تھی۔ چاروں طرف کالج کی شان دار اور وسیع عمارتوں کی قطاریں شام کے دھندلکے میں چھپتی جا رہی تھیں۔ میرا پیارا کالج، ایشیا کا بہترین کالج، ایشیا میں امریکہ! لیکن اس کا اسے اس وقت خیال نہیں آیا۔ اس وقت اسے ہر بات عجیب معلوم نہیں ہوئی۔ وہ سوچ رہی تھی ہم کتنے اچھے ہیں۔ ہماری دنیا کس قدر مکمل اور خوش گوار ہے۔ اپنی معصوم مسرتیں اور تفریحیں، اپنے رفیق اور ساتھی، اپنے آئیڈیل اور نظریے اور اسی خوب صورت دنیا کا عکس وہ اپنے افسانوں میں دکھانا چاہتی ہے تو اس کی تحریروں کو Fantastic اور مصنوعی کہا جاتا ہے۔۔۔ بے چاری میں!
موسیقی کے اوراق سمیٹتے ہوئے اسے اپنے آپ سے ہمدردی کرنے کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔ اس نے ایک بار اویناش کو سمجھایا تھا کہ ہماری شریعت کے دس احکام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیشہ اپنی تعریف آپ کرو۔ تعریف کے معاملے میں کبھی دوسروں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ محفوظ ترین بات یہ ہے کہ وقتاً فوقتاً خود کو یاد دلاتے رہا جائے کہ ہم کس قدر بہترین ہیں۔ ہم کو اپنے علاوہ دنیا کی کوئی اور چیز بھی پسند نہیں آ سکی کیونکہ خود بادلوں کے محلوں میں محفوظ ہو کر دوسروں پر ہنستے رہنا بے حد دل چسپ مشغلہ ہے۔ زندگی ہم پر ہنستی ہے، ہم زندگی پر ہنستے ہیں۔ ’’اور پھر زندگی اپنے آپ پر ہنستی ہے۔‘‘ بے چارے اویناش نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تھا اور اگر افروز کا خیال تھا کہ وہ اس دنیا سے بالکل مطمئن نہیں تو پرکاش اور نشاط زریں کو، جو دونوں بے حد عقل مند تھیں، قطعی طور پر یقین تھا کہ یہ بھی ان کی Mad-hatter’s پارٹی کی cynicism کا ایک خوب صورت اور فائدہ مند پوز ہے۔
اور سچ مچ افروز کو اس صبح محسوس ہوا کہ وہ بھی اپنی اس دنیا، اپنی اس زندگی سے انتہائی مطمئن اور خوش ہے۔ اس نے اپنی چاروں طرف دیکھا۔ اس کے کمرے کے مشرقی دریچے میں سے صبح کے روشن اور جھلملاتے ہوئے آفتاب کی کرنیں چھن چھن کر اندر آ رہی تھیں اور کمرے کی ہلکی گلابی دیواریں اس نارنجی روشنی میں جگمگا اٹھی تھیں۔ باہر دریچے پر چھائی ہوئی بیل کے سرخ پھولوں کی بوجھ سے جھکی ہوئی لمبی لمبی ڈالیاں ہوا کے جھونکوں سے ہل ہل کر دریچے کے شیشوں پر اپنے سائے کی آڑی ترچھی لکیریں بنا رہی تھیں۔ اس نے کتاب بند کر کے قریب کے صوفے پر پھینک دی اور ایک طویل انگڑائی لے کر مسہری سے کود کر نیچے اتر آئی۔ اس نے وقت دیکھا۔ صبح جاگنے کے بعد وہ بہت دیر تک پڑھتی رہی تھی۔ اس نے غسل خانے میں گھس کر کالج میں اسٹیج ہونے والے اوپیرا کا ایک گیت گاتے ہوئے منہ دھویا اور تیار ہو کر میز پر سے کتابیں اٹھاتی ہوئی باہر نکل آئی۔
کلاس کا وقت بہت قریب تھا۔ اس نے برساتی سے نکل کر ذرا تیزی سے لائن کو پار کیا اور پھاٹک کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے دیکھا کہ باغ کے راستے پر، سبزے کے کنارے، اس کا فیڈو روز کی طرح دنیا جہاں سے قطعی بے نیاز اور صلح کل انداز میں آنکھیں نیم وا کیے دھوپ سینک رہا تھا۔ اس نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ اس کے لمبے لمبے سفید ریشمیں بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس نے محسوس کیا، اس نے دیکھا کہ دنیا کتنی روشن، کتنی خوب صورت ہے۔ باغ کے پھول، درخت، پتیاں، شاخیں اسی سنہری دھوپ میں نہا رہی تھیں۔ ہر چیز تازہ دم اور بشاش تھی۔ کھلی نیلگوں فضاؤں میں سکون اور مسرت کے خاموش راگ چھڑے ہوئے تھے۔ کائنات کس قدر پرسکون اور اپنے وجود سے کتنی مطمئن تھی۔
دور کوٹھی کے احاطے کے پچھلے حصے میں دھوبی نے باغ کے حوض پر کپڑے پٹخنے شروع کر دیے تھے اور نوکروں کے بچے اور بیویاں اپنے کوارٹروں کے سامنے گھاس پر دھوپ میں اپنے کاموں میں مصروف ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے شور مچا رہی تھیں۔ روزمرہ کی یہ مانوس آوازیں، یہ محبوب اور عزیز فضائیں۔۔۔ یہ اس کی دنیا تھی، اس کی خوب صورت اور مختصر سی دنیا اور اس نے سوچا کہ واقعی یہ اس کی حماقت ہے اگر وہ اپنی اس آرام دہ اور پرسکون کائنات سے آگے نکلنا اور سایوں کی اندھیری وادی میں جھانکنا چاہتی ہے۔ ایسے Adventure ہمیشہ بے کار ثابت ہوتے ہیں۔ اس نے فیڈو کو پیار کر کے اس کی جگہ پر بٹھا دیا اور آگے بڑھ گئی۔
باغ کے احاطے کی دوسری طرف انگریز ہمسائے کا بچہ گلِ داؤدی کی کیاریوں کے کنارے کنارے اپنے لکڑی کے گھوڑے پر سوار دھوپ میں جھلملاتے پروں والی تیتریوں کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے خوب زور زور سے گا رہا تھا۔ “Ah! this bootiful, bootiful world!” اس نے سوچا، لٹل مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور، خوب گاؤ! اور اپنے لکڑی کے گھوڑے پر خیالی مہمیں سر کرتے رہو۔ ایک وقت آئے گا جب تمھیں پتا چلے گا کہ دنیا کتنی بوٹی فل نہیں ہے۔
اور امرودوں کے جھنڈ کے اس پار کالج کے میوزک روم میں تیزی سے ریکارڈ بجنے شروع ہو گیے اور اسے یاد آگیا کہ کالج سے واپسی پر اسے اوپیرا کے علاوہ بنگال ریلیف کے ورائٹی شوکی ریہرسل کے لیے بھی جانا ہے اور وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگی۔ شام کو پروگرام تھا اور چاروں طرف زور شور سے اس کے انتظامات کیے جا رہے تھے۔ بنگال کا قحط ان دنوں اپنی انتہا پر پہنچا ہوا تھا اور ہر لڑکی اور لڑکے کے دل میں کچھ نہ کچھ کرنے کا سچّا جوش موجزن تھا۔
ٹکٹ فروخت کرنے کے لیے سائیکلوں پر سول لائنز کی کوٹھیوں کے چکر لگائے جا رہے تھے۔ مشاعرے کے انتظام کے سلسلے میں بار بار ریڈیو اسٹیشن پر فون کیا جا رہا تھا کیوں کہ اسی ہفتے ریڈیو پر مشاعرہ ہوا تھا جس کی شرکت کے لیے بہت سے مشہور ترنّم سے پڑھنے والے شعرائے کرام تشریف لے آئے تھے۔
میوزک روم کے پیچھے کے اور چرڈ میں بہت سی لڑکیاں ایک درخت کے نیچے انتہائی انہماک سے مختلف کاموں میں مصروف تھیں۔ کچھ پروگرام کے خوب صورت کاغذوں پر پینٹنگ کر رہی تھیں، کچھ قہقہے لگا لگا کر اس افتتاحیہ نظم کی تک بندی کر رہی تھیں جو پروگرام شروع ہونے پر قوالوں کے انداز اور انھی کے بھیس میں گائی جانی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی ان میں شامل ہو گئی۔
’’اور ہمارے سپر جینیس گروپ کے باقی افراد کہاں رہ گئے؟‘‘ سعیدہ نے پوچھا۔
’’پرکاش تو آج کل مہرہ اور اویناش کے ساتھ ہندوستان آزاد کرانے میں سخت مصروف ہے اور رفعت دنیا کی بے ثباتی پر غور کرنے کے بعد محبت میں مبتلا ہو گئی ہے۔‘‘
’’ہا بے چاری۔۔۔ اور ہمارا زبردست ادیب، مصور اور افسانہ نگار ابھی تک نہیں پہنچا۔‘‘
’’آ گیے ہم۔۔۔‘‘ نشاط نے درخت کے نیچے پہنچ کر اپنی جاپانی چھتری بند کرتے ہوئے کہا۔
’’خدا کا شکر ادا کر بھائی، جس نے ایسا ادیب بنائی۔‘‘ جلیس ایک قلابازی کھا کر بولی، ’’چلو اب قوالی مکمل کریں۔‘‘ اور ہنس ہنس کر لوٹتے ہوئے قوالی تیار کی جانے لگی۔ کیسے بے تکے اور دل چسپ شعر تھے، ’’وہ خود ہی نشانہ بنتے ہیں، ہم تیر چلانا کیا جانیں۔۔۔ انورسٹی کے پڑھنے والے ہم گانا بجانا کیا جانیں۔‘‘ اور جانے کیا کیا۔ کتنی خوش تھیں وہ سب۔۔۔ زندگی کی یہ معصوم، شریر، چھوٹی چھوٹی مسرّتیں!
اور اس وقت بھی دنیا اتنی ہی خوب صورت اور روشن تھی جب کہ غروب ہوتے ہوئے سورج کی ترچھی ترچھی نارنجی کرنیں اس کے دریچے میں سے گزرتی ہوئی گلابی دیواروں پر ناچ رہی تھیں اور کتابوں کی الماریوں اور سنگھار میز کی صفائی کرنے کے بعد صوفے کو دریچے کے قریب کھینچ کر شال میں لپٹی ہوئی کلاس کے نوٹس پڑھنے میں مصروف تھی۔ باہر فضا پر ایک آرام دہ، لطیف اور پرسکون خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد دور مال پر سے گزرتی ہوئی کاروں کے طویل ہارن سنائی دے جاتے تھے۔ دوسرے کمرے میں رفعت آہستہ آہستہ کچھ گا رہی تھی اور مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور کے برآمدے میں مدھم سروں میں گتار بج رہا تھا۔
اس نے کشن پر سر رکھ دیا اور آنکھیں بند کر لیں۔ فرصت، اطمینان اور سکون کے یہ لمحات۔ کیا آپ کو ان لمحوں کی قدر نہیں جو ایک دفعہ افق کی پہاڑیوں کے اس پار اڑ کر چلے جائیں تو پھر کبھی لوٹ کر نہیں آتے۔ وہ لمحے جب جاڑوں کی راتوں میں ڈرائنگ روم کے آتش دان کے سامنے بیٹھ کر کشمش اور چلغوزے کھاتے ہوئے گپ شپ اور scandal mongering کی جاتی ہے۔ وہ لمحے جب دھوپ میں کاہلی کے احساس کے ساتھ سبزے پر بلّیوں کی طرح لوٹ لگا کر ریکارڈ بجائے جاتے ہیں اور لڑا جاتا ہے اور پھر ایسے میں اسی طرح کے بیتے ہوئے وقتوں کی یاد اور یہ احساس کہ اپنی حماقت کی وجہ سے وہ وقت اب واپس نہیں آ سکتا، کس قدر تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے۔
دریچے کے نیچے روش پر موٹر بائیک رکنے کی آواز آئی۔ اس نے کشن پر سے سر اٹھا کر دیکھا۔ شاید مہرہ آیا تھا۔ رفعت دوڑتی ہوئی برآمدے کی سیڑھیوں پر سے اتر کے باغ میں چلی گئی۔ اس نے پھر آنکھیں بند کر لیں اور اس کے دریچے کے سامنے روش پر سے وہ سب گزرنے لگے۔ وہ بے چارے فریب خوردہ انسان جنھیں زندگی نے رنجیدہ کیا، زندگی جن کی وجہ سے غمگین ہوئی لیکن پھر بھی وہ سب وہاں موجود تھے۔ اس کے خیالوں میں آنے پر مصر تھے۔ اسے شاید یاد آیا۔۔۔ اور اس کے سارے بھائی۔ دور دراز کی یونیورسٹیوں اور میڈیکل کالجوں میں پڑھنے والے یہ شریر، خوب صورت اور ضدی، افسانوی سے رشتے کے بھائی، جو چھٹیوں میں گھر آتے ہیں اور ان کے رشتے کی بہن یا ان کی بہنوں کی سہیلیاں ان کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں۔ وہ ان سے لڑتے ہیں، راتوں کو باغ میں چاند کو دیکھا جاتا ہے، پھر وہ ان سب کو دل شکستہ چھوڑ کر یا محاذ جنگ پر چلے جاتے ہیں یا ان میں سے کسی ایک سے شادی ہو جاتی ہے۔۔۔ اُف یہ حماقتیں۔۔۔! اور اسے وہ باتیں یاد کر کے ان سب پر بے اختیار ترس سا آگیا۔ یہ فریب کاریاں، یہ بے وقوفیاں!
اور اسے یاد آیا۔۔۔ فرصت اور بے فکری کے ایسے ہی لمحوں میں ایک مرتبہ اپنے اپنے مستقبل کی تصویریں کھینچی گئی تھیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں وہ سارے بہن بھائی ایک جگہ جمع ہو گیے تھے۔ دن بھر تصویریں اتاری جاتی تھیں۔ بزرگوں سے نظر بچا کر پینٹری میں سے حلوہ اور آئس کریم اڑائی جاتی تھی۔ بے تکی شاعری ہوتی تھی۔
اس نے کہا تھا، ’’اب بھئی اسلم کا حشر سنیے۔ جب آپ پاس کر کے نکلیں گے تو ہو جائیں گے ایک دم سے لفٹیننٹ، پھر کیپٹن، پھر میجر۔ ڈاکٹروں کو بڑی جلدی جلدی ترقی دی جاتی ہے۔ بس۔۔۔ اور جناب اس قدر خوش کہ دنیا کی ساری لڑکیاں آپ پر پیش ہیں۔ ہال میں جا رہے ہیں، پکچرز میں لڑکیاں اچک اچک کر آپ کی زیارت کر رہی ہیں، چاروں طرف برف کی سفید سفید گڑیوں جیسی، انگارہ سے سرخ ہونٹوں والی نرسیں بھاگی پھر رہی ہیں۔ چھٹی پر گھر آتے ہیں تو سب کا انتقال ہوا جا رہا ہے اور آپ مارے شان کے کسی کو لفٹ ہی نہیں دیتے۔ سٹیس یا مل کے ہاں بہترین پوز کی بہت سی تصویریں کھنچوا لی ہیں اور وہ اپنی ایڈمائرز کو عنایت کی جا رہی ہیں۔ پھر بھائی لڑائی کے بعد جو آپ کو کان پکڑ کر نکال کے باہر کھڑا کر دیا جائے گا کہ بھیا گھر کا راستہ لو تو جناب آپ امین آباد کے پیچھے ایک پھٹیچر سا میڈیکل ہال کھول کر بیٹھیں گے۔ اب بھائی اسلم بھائی ہیں کہ ایک بد رنگ سی کرسی پر بیٹھے مکھیاں مار رہے ہیں۔ کوئی مریض آ کے ہی نہیں دیتا۔ پھر بھئی ایک روز کرنا خدا کا کیا ہو گا کہ ایک شان دار بیوک رکے گی آپ کی دکان کے آگے اور اس میں سے ایک بے حد عظیم الشان خاتون ناک پر رومال رکھے اتر کر پوچھیں گی کہ بھئی ہمارے فیڈو کو زکام ہو گیا ہے۔ یہاں کوئی گھوڑا ہسپتال کا ڈاکٹر۔۔۔‘‘
اور اسلم نے کہا تھا، ’’ہش، چپ رہو جی۔۔۔ بیگم صاحبہ ہو کس خیال میں۔ بندہ تو ہو جائے گا لفٹننٹ کرنل تین سال بعد۔ اور لڑائی کے بعد ہوتا ہے سول سرجن۔ اور بھئی کیا ہو گا کہ ایک روز بی افروز اپنے پندرہ بچوں کی پلٹن لیے بیل گاڑی میں چلی آ رہی ہیں اور سامنے گاڑی بان کے پاس یہ بڑا سا زرد پگڑ باندھے اور ہاتھ میں موٹا سا ڈنڈا لیے بی افروز کے راجہ بہادر بیٹھے ہیں اور بھئی ہم چپراسی سے کہلوا دیں گے کہ سول سرجن صاحب معائنہ کرنے تشریف لے گیے ہیں، شام کو آئیے گا۔ اب جناب افروز بیگم برآمدے میں بینچ پر بیٹھی ہیں برقعہ پہنے۔۔۔‘‘
’’ہائے چپ رہو بھئی۔۔۔ خدا نہ کرے جو زرد پگڑ اور بیل گاڑی۔۔۔‘‘
’’اور کیا، منظر احمد سے جو تم شادی کرو گی تو کیا رولز رائس چلا کرے گی تمھارے یہاں؟ بیل گاڑیوں پر ہی پڑی جایا کرنا اپنے گاؤں۔‘‘
’’بیل گاڑی پر جانا تم اور زرد پگڑ بھی خدا کرے تم ہی باندھو۔ آئے وہاں سے بڑے بے چارے۔‘‘
’’اور بھئی حضرتِ داغ کا یہ ہو گا۔۔۔ شاہد نے اپنے مخصوص انداز سے کہنا شروع کیا، ’’کہ یہ خاکسار جب کئی سال تک ایم ایس سی میں لڑھک چکے گا تو وار ٹیکنیشنز میں بھرتی ہو جائے گا اور پھر بھی رفعت کی کوٹھی پر پہنچے گا کہ بھئی بڑے دن کے سلام کے لیے آئے ہیں۔ صاحب کہلوا دیں گے کہ پھر آنا، صاحب کلب گیے ہیں۔ بس بھئی ہم وہاں برساتی کی سیڑھیوں پر، گملوں کی آڑ میں، اس امید پر بیٹھ جائیں گے کہ شاید بی رفعت نکل آئیں اندر سے لیکن جب چپراسی کی ڈانٹ پڑے گی تو چلے آئیں گے واپس اور کوٹھی کے پھاٹک کے باہر پہنچ کر کان میں سے چونی نکال سگریٹ اور دو پیسوں والی سینما کے گانے کی کتاب خرید کر گاتے ہوئے گھر کا راستہ لیں گے۔۔۔ اکھیاں ملا کے۔۔۔ جیا برما کے۔۔۔ چلے نہیں جانا۔‘‘
’’نہیں بھئی، خدا نہ کرے، ایسا کیوں ہو! تم تو پروگرام کے مطابق اعلیٰ درجے کے فلرٹ بنو گے اور ریلوے کے اعلیٰ انجینئر۔ اپنے ٹھاٹ سے سیلون میں سیر کرتے پھرا کرو گے۔‘‘رفعت نے کہا تھا۔ باغ میں سے رفعت کے مدھم قہقہوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جو کچھ انھوں نے مذاق مذاق میں سوچا تھا وہ نہیں ہوا۔ وہ کبھی بھی نہیں ہوتا اور اسلم اور اس کی کھینچی ہوئی راجہ بہادر کی تصویر اس کی آنکھوں میں ناچنے لگی۔
اسلم، جو میدان جنگ میں جا کر عرصہ ہوا لاپتہ ہو چکا تھا اور منظر احمد، جو اس شام آرٹس اینڈ کریفٹس ایمپوریم کے بڑے بڑے شیشوں والی جھلملاتی ہوئی گیلری میں سے نکل کر اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا تھا لیکن جیسے اس کی آنکھیں کہہ رہی تھیں۔ ہمیں اپنے خیالوں سے بھی یوں ہی نکال دو تو جانیں۔
اور باغ میں اندھیرا چھانے لگا۔ گتار بجتا رہا اور افروز سوچتی رہی، زندگی کے یہ مذاق! اس روز ’’یوم ٹیگور‘‘ کے لیے ریڈیو اسٹیشن کے آرکیسٹرا کے ساتھ رقص کی ری ہرسل کرنے کے بعد وہ پرکاش اور اجلا کے ساتھ وہاں واپس آ رہی تھی اور لیلا رام کے سامنے سے وہ اپنی اسپورٹس کار پر آتا نظر آیا تھا۔۔۔ پرکاش کو دیکھ کر اس نے کار روک لی تھی، ’’کہیے مس شیرالے کیا ہو رہا ہے؟‘‘
’’گھر جا رہی ہیں۔‘‘
’’چلیے میں آپ کو پہنچا دوں۔‘‘
اور افروز نے کہنا چاہا تھا کہ ہماری کار آتی ہو گی، آپ تکلیف نہ کیجیے۔ لیکن پرکاش نے اپنی مثالی خوش خلقی کی وجہ سے فوراً اس کی درخواست قبول کر لی تھی اور پھر اس کے گھر تک وہ کار پندرہ میل کی رفتار سے اس قدر آہستہ ڈرائیو کر کے لایا تھا جیسے کسی بارات کے ساتھ جا رہا ہو، محض اس لیے کہ اسے افروز کو اپنی کار میں زیادہ سے زیادہ دیر تک بٹھانے اور اس سے باتیں کرنے کا موقع مل سکے اور اس نے سوچا تھا کہ اگر وہ اس منظر احمد کو بہت زیادہ پسند نہیں کرتی تو بہرحال مائنڈ بھی نہیں کرے گی، حالاں کہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اعلیٰ قسم کا فلرٹ ہے، کبھی کبھی ڈرنک بھی کر لیتا ہے اور نشاط نے تو یہ تک کہا تھا کہ اپنی ریاست میں اس کی کیپ بھی موجود ہے۔ ’’لیکن بھئی کیا تعجب ہے؟‘‘ نشاط کہہ رہی تھی، ’’سب ہی جانتے ہیں کہ تعلقہ داروں کے لڑکے کیسے ہوتے ہیں۔‘‘
اور پھر ایک روز وہ اور پرکاش خریداری کے بعد کافی ہاؤس چلے گیے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ برسات کی دوپہر! بارش ہو کر رکی تھی۔ فضا پر ایک لطیف سی خنکی چھائی ہوئی تھی۔ کافی ہاؤس میں بھی قریب قریب بالکل سناٹا تھا۔ وہ ایک ستون کی آڑ میں بیٹھ گیے اور سامنے کے مرمریں ستون پر لگے ہوئے بڑے آئینے میں انھوں نے دیکھا کہ دوسری طرف منظر احمد بیٹھا ہے۔ خوب! یہ حضرت دوپہر کو بھی کافی ہاؤس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اس نے ذرا نفرت محسوس کرنے کی کوشش کی اور پرکاش کو دیکھ کر وہ سگریٹ کی راکھ جھاڑتا ہوا ان کی میز پر آ بیٹھا، ’’ہلو۔۔۔ افروز سلطانہ۔۔۔ ہلو۔۔۔‘‘ اس نے اپنے لہجے میں بقدرِ ضرورت خنکی اور خشکی پیدا کرتے ہوئے مختصر سا جواب دے دیا اور کافی بنانے میں مشغول ہو گئی۔ وہ اپنی تخیلی سی آنکھوں سے باہر کی طرف دیکھتا رہا۔ اس وقت وہ غیر معمولی طور پر خاموش تھا۔ کتنا بنتا ہے۔ یہ شخص بھی کبھی سنجیدہ ہو سکتا ہے جس کی زندگی کا واحد مقصد کھیلنا اور صرف کھیلتے رہنا ہے؟
پرکاش خریداری کی فہرست بنانے میں منہمک تھی۔ پھر وہ یک لخت کہنے لگا، ’’افروز سلطانہ! آپ مجھ سے بات کیوں نہیں کرتیں؟ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے دل میں میری طرف سے بڑی خوف ناک قسم کی بدگمانیاں پیدا کر دی گئی ہیں۔‘‘
’’جی مجھے بدگمانی وغیرہ کی قطعی ضرورت نہیں۔ بدگمانیاں تو اسے ہوسکتی ہیں جسے پہلے سے آپ کی طرف سے حسنِ ظن ہو۔ یہاں آپ سے دل چسپی ہی کس کو ہے؟‘‘
’’ہنہ۔۔۔ ذرا بننا تو دیکھو۔‘‘ وہ کہتا رہا، ’’میں نے سنا ہے کہ آپ کو بتایا گیا ہے میں۔۔۔ میں ڈرنک کرتا ہوں۔۔۔ اور۔۔۔ اور اسی قسم کی بہت سی حرکتیں۔۔۔ مختصر یہ کہ میں انتہائی برا آدمی ہوں۔۔۔ کیا آپ کو یقین ہے کہ یہ باتیں صحیح ہو سکتی ہیں؟ کیا آپ مجھے واقعی ایسا ہی سمجھتی ہیں؟‘‘ اور اس نے آہستہ آہستہ بڑی رومینٹک نقرئی آواز میں بات ختم کر کے سگریٹ کی راکھ جھٹکی اور پام کے پتوں کے پرے دیکھنے لگا۔۔۔ اور وہ سچ مچ بہت پریشان ہو گئی کہ کیا کہے کیونکہ اس نے محسوس کیا کہ منظر احمد اس وقت بقول شخصے قطعی نون سیریس نہیں ہے اور اس نے کہا، ’’بھئی میں نے قطعی کوئی ضرورت نہیں سمجھی کہ اس کے متعلق۔۔۔‘‘
’’اچھا، یہ بات ہے۔‘‘ اس نے بات ختم کرنے کا انتظار کیے بغیر اسی نقرئی آواز میں آہستہ سے کہا، ’’اجازت دیجیے، خدا حافظ مس شیرالے۔۔۔‘‘ اور وہ ایک دم سے اس کی میز پر سے اٹھ کر چلا گیا اور کر لی لوکس کشنوں کے انبار پر سے گر پڑی۔ ’’جناب تشریف لے گیے۔‘‘ پرکاش نے فہرست کے کاغذ پر سے سر اٹھا کر پوچھا۔ باہر اگست کی ہوائیں ہال کے بڑے بڑے دریچوں کے شیشوں سے ٹکراتی رہیں۔
رات کی تاریکی باغ پر پھیل گئی۔ مہرہ کی گڑگڑاتی ہوئی موٹر بائیک روش پر سے گزر کر باہر ہال کے طویل اندھیرے میں کھو چکی تھی۔ نشاط اور رفعت باتیں کرتی اور گنگناتی ہوئی کمرے میں آ گئیں۔
’’جناب! بہترین اوپیرا رہے گا۔‘‘ رفعت کہہ رہی تھی۔
’’اور ہمارا تازہ افسانہ جو اس قدر سپرب تھا، اب ہماری کتاب کا ریڈیو پر بقول شخصے بڑا شان دار ریویو کیا جائے گا۔‘‘ نشاط صوفے پر کودتے ہوئے بولی۔
’’من ترا سپر جینیس بگویم۔۔۔ تم مہرہ کے انگریزی رسالے میں اپنے اوپیرا کی بہت سی تعریف کر دینا۔‘‘ رفعت نے کہا۔
’’ہاں یہ تو کریں گے ہی۔‘‘ نشاط جیسے یہ پہلے طے کر چکی تھی۔
’’بھئی ریڈیو اسٹیشن پر آج کل سب ایک سے ایک واش آؤٹ نظر آتے ہیں، کیا کیا جائے۔‘‘ رفعت اکتا کر بولی۔
’’اور شاہد بے چارہ زخمی ہو گیا۔‘‘ نشاط نے اور بھی زیادہ اکتا کر کہا۔
’’ممی کہہ رہی تھیں کہ محاذ پر گیس سے اس کی آنکھیں خراب ہو گئیں۔‘‘
’’ہا۔۔۔ چچ چچ۔۔۔ کافی خوب صورت آنکھیں تھیں اس بے چارے کی۔‘‘
اور تھوڑی دیر بعد اوپیرا کے اطالوی رقص کی مشق کے لیے پرکاش اور اس کے ساتھ بہت سی لڑکیاں آ گئیں اور وہ سب ڈرائنگ روم میں چلی گئیں۔
افروز کے کمرے میں اندھیرا ہو گیا۔ دور، زندگی کی Fantasy پر، دھندلی دھندلی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔
پھر شوپاں کی موسیقی فضا میں لہرا اٹھی۔ اس رات اوپیرا شروع ہو چکا تھا اور تاریکی کے پروں پر تیزی سے اڑتی ہوئی ساعتوں کے ساتھ ساتھ ختم ہو رہا تھا۔ رقص گاہ کے جگمگاتے دریچوں پر پردے گرائے جا رہے تھے۔ یوکلپٹس کی اونچی اونچی شاخوں سے بھیگتی رات کا تنہا اور خنک چاند ہال کے پچھلے دریچے میں سے اندر جھانک کر اوپیرا کا آخری نغمہ سننے کی کوشش کر رہا تھا، پیانو کے گہرے بھاری سروں کا نغمہ، جس کی لہریں جھلملاتے ہوئے عنابی مخملیں پردوں کے پیچھے ڈوبتی جا رہی تھیں۔
اور فٹ لائٹ کی تیز سفید کرنوں سے جگمگاتی اسٹیج پر نقرئی شیفون میں ملبوس سیاہ آنکھوں والی لڑکیوں کی ایک قطار ہاتھوں میں سنہری اور سیاہ پنکھیاں لیے ہوئے آئی اور دوسری طرف سے اطالوی نوجوانوں کا ایک پرا داخل ہوا جن کی ٹوپیوں میں لمبے لمبے خوب صورت پر شاہانہ انداز سے سجے ہوئے تھے اور جن کی روپہلی تلواریں اسٹیج کی روشنی میں جھلملا رہی تھیں۔ انھوں نے دو زانو جھک کر سینوریتاؤں سے رقص کی درخواست کی۔ سرخ گلابوں کے گچھے پھینکے گیےاور آرکیسٹرا کی ایک گونج دار دھمک کے ساتھ آخری رقص شروع ہو گیا۔ پھر تیزی سے گھومتے ہوئے رنگین سایوں، چکر کاٹتے ہوئے پروں اور تیز گرم موسیقی کے اس پر شور بھنور کی لہریں آہستہ آہستہ پھیلتی گئیں اور رقص کی رفتار دھیمی ہو کر پردے کے پیچھے سے بلند ہونے والے آخری سروں کی گونج میں ڈوب گئی۔
ہال روشنیوں سے جاگ اٹھا اور سرخ کشنوں پر بیٹھے، دبی دبی جمائیاں لیتے ہوئے تماشائی جیسے ایک طویل خواب سے چونک کر ایک بار پھر اپنی دنیا میں واپس آ گیے اور بھاری بھاری قدموں، خمار آلود آنکھوں کے ساتھ ہال سے نکل کر کلوک روم، گیلریوں اور پورچ کی سیڑھیوں پر اپنے اپنے دوستوں کے گروہوں میں شامل ہو کر موسیقی کی تنقید اور ادھر ادھر کی بے معنی، بے کار باتوں میں مصروف ہو گیے۔
’’سیزن کا بہتر امیچیر پرفورمینس رہا۔‘‘
’’جینٹ سسٹرز بالکل فلاپ ہو گئیں اس مرتبہ۔‘‘
’’آج پتا چلا کہ نشاط اور رفعت کتنی Talented لڑکیاں ہیں۔‘‘
’’مسوری میں پچھلے سال میں نے مارگیریٹ جورڈن کو یہی پارٹ کرتے دیکھا، کیا سپرب چیز تھی۔‘‘ پھر دوستوں کے گروپ منتشر ہونے شروع ہوئے۔ خواتین کلوک روم سے اوور کوٹ لیے، میک اپ ٹھیک کرتی ہوئی نکلیں اور شب بخیر اور خدا حافظ کی مدھم آوازوں کے ساتھ کاریں اسٹارٹ کی جانے لگیں۔
اور اس وقت انور نے افروز کو دیکھا جو رفعت، نشاط اور پرکاش کے ساتھ گرین روم سے نکل کر بے حد تکلف سے اپنا اوور کوٹ سنبھالے اپنے بھائیوں کے ساتھ مشغولیت سے باتیں کرتی پورچ کی مرمریں سیڑھیوں سے اتر کر لمبی لمبی چمکیلی کاروں کی طویل فلیٹ کی طرف اپنی مورس میں بیٹھنے کے لیے جا رہی تھی۔ ’’افوہ! رفی دیکھنا، چاند کتنا اسمارٹ لگ رہا ہے۔‘‘ لڑکیوں میں سے ایک نے چلتے چلتے کہا اور سب آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ چاند یوکلپٹس کی ٹہنیوں میں سے نکل کر آسمان کی شفاف سطح پر تیر رہا تھا۔ ’’خدا تم لڑکیوں سے ہر ذی ہوش جاندار کو محفوظ رکھے۔‘‘ یہ نشاط کے بھائیوں میں سے ایک کی آواز تھی اور پھر نشاط اسے پورچ کے ایک اونچے یونانی ستون کے پیچھے کھڑا دیکھ کر چپکے سے بولی، ’’جناب بھی تشریف لائے تھے۔‘‘
’’جی ہاں اور شاہد صاحب بھی۔‘‘رفعت نے کہا اور پھر ان کی کار زناٹے کے ساتھ سامنے سے نکل گئی اور لامارٹیز کے لڑکوں کی ایک ٹولی نے رقص گاہ سے نکل کر سڑک پر جاتے ہوئے ’’جپسی مون‘‘ اونچے سروں میں شروع کر دیا تھا۔
پھر وہ آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترتا ہوا اپنے دوستوں کے ساتھ اپنی کار کی طرف بڑھا جو موٹروں کی شان دار فلیٹ کے آخری سرے پر درختوں کے اندھیرے میں کھڑی تھیں۔ وہ سوچ رہا تھا، ہمیشہ یہی ہوتا ہے۔ تم سوچتے ہو گیتوں کی سرزمین میں رہنے والی وہ لڑکی جس کے بالوں میں سرخ گلاب سجے ہوئے ہیں کبھی نہ کبھی تو تمھارے خوابوں کے دریچے کے نیچے سے گزرے گی اور تم اسے اپنا گتار کا نغمہ سنا سکو گے اور سرخ گلابوں میں رہنے والی لڑکی کہتی ہے کہ ایک روز وہ موسم گل کا شہزادہ اس کے خوابوں کے ایوانوں میں سے نکل کر آئے گا اور بس پھر سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ٹریجڈی دیکھیے وہ دونوں اس پگڈنڈی پر مل جاتے ہیں جو پریوں کی سرزمین کو جاتی ہے لیکن ایک دوسرے کو دیکھے بغیر بے پرواہی اور بے نیازی سے گزر جاتے ہیں اور اوپیرا ختم ہو جاتا ہے اور تماشائی اپنے اپنے صوفوں پر بیٹھے بیٹھے پہلو بدل کر رومالوں اور دستی پنکھیوں کی اوٹ میں سے اپنے ساتھیوں سے کہتے ہیں،
’’کیوں۔۔۔ کیسی رہی؟‘‘
اور شاہد نے آگے بڑھ کر کہنا چاہا۔۔۔ کتنے جھوٹے ہو بھائی۔ تم سب شروع سے آخر تک ایک طویل مغالطے، ایک خوب صورت، دل چسپ فریب میں مبتلا رہنے کے اس قدر شوقین کیوں ہو؟ تمھارا ’’لابوہیم‘‘ کااوپیرا، ’’جپسی مون‘‘ کے نغمے اور شوپان کی موسیقی، تمھارے تلوتما کے تصورات، رفائیل اور لینارڈو کی تصویریں اور براؤننگ کی نظمیں۔ تمھاری بد دماغ افروز سلطانہ اور تمھاری سپر انٹلکچوئل اور مغرور افسانہ نگار نشاط، منظر احمد اور اس کی اسپورٹس کار، پرکاش اور اس کی Mad-hatter’s اویناش اور اس کی فیشن ایبل Cynicism تم سب ان سب چیزوں، ان ساری باتوں سمیت آج کی رات میرے بھوکے رہنے کی وجہ ثابت نہیں کر سکتے۔ تم تو اس کا خیال بھی نہیں کر سکتے کہ تم جیسا انسان، جو تمھارے ساتھ اوپیرا میں آ سکتا ہے اور جس کے شہر کے سارے کافی ہاؤس اور سارے فرانسیسی اور اطالوی ریسٹوران کھلے ہوئے ہیں، بغیر کچھ کھائے پئے بھی زندہ رہنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سلمنگ کے لیے نہیں، بلکہ اس لیے کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
میں تمھارے مسٹر شوپاں سے کہنا چاہتا ہوں، قبلہ! آپ کو اچھی طرح ڈنر اڑانے کے بعد ہی یہ آسمانی نغمے کمپوز کرنے کی سوجھتی ہو گی۔ آپ میری جگہ تشریف لے آئیے اور میں آپ کے پیانو پر پہنچ کر ایسے ایسے نغمے بنا سکتا ہوں جن کو سن کر دنیا آپ کے اور آپ کے سارے قبیلے والوں کے شاہکار، جو لوگوں کو اب تک احمق بناتے رہے ہیں، ہمیشہ کے لیے بھول جائے۔ تمھارا جپسی مون کم از کم میری آنکھیں تو ٹھیک نہیں کر سکتا۔ تمھاری عطر بیز ہوائیں انڈین ریڈ کراس کی اس خوب صورت ویلفیئر آفیسر تک میرا کوئی پیغام نہیں پہنچا سکتیں جو اس وقت قاہرہ میں زخمیوں کے ساتھ ایسی ہی فریب آلود خوش گوار باتیں کر کے انھیں اسی حماقت میں مبتلا کرنے کی کوشش میں مصروف ہو گی۔ وہ ویلفیئر آفیسر جو بچوں کی طرح لکڑی کے رنگیں ٹکڑوں اور چمکیلی تصویروں کے ذریعے بہلا کر یہ بھلانے کی کوشش کرتی تھی کہ میری آنکھیں، جو خوب صورت کہلاتی تھیں، جرمنوں کی گیس نے خراب کر دی ہیں اور مجھے ڈسچارج کر دیا جائے اور مجھے کہیں نوکری نہ مل سکے گی۔ یقیناً تمھاری مونالیزا اور تمھارا روپہلا چاند۔۔۔‘‘
اور چاند چرڈ پر تیرتا ہوا اس کی بالکونی کے بالکل اوپر پہنچ گیا۔ وہ باہر نکل آئی اور ریلنگ پر جھک گئی۔ مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور کا ڈرائنگ روم خاموش پڑا تھا اور کہیں مدھم سروں میں گتار بجایا جا رہا تھا اور اس نے کہنا چاہا۔۔۔ مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور۔۔۔ تم اتنے خاموش کیوں ہو؟ تم اور تمھارا سیاہ آنکھوں والا دوست۔۔۔ آدھی رات کے چاند کی طرح زرد اور غمگین۔۔۔ کیا تمھیں ہمسایوں کے اس چھوٹے بچے نے نہیں بتایا کہ دنیا کتنی بیوٹی فل ہے اور ایسی خوب صورت، شاداب اور بشاش دنیا میں غمگین رہنا جرم ہے اور مسرت کی صحت مندی کی توہین۔ کیا تم نے بھی تخیلی کردار بنائے ہیں؟ کیا تم کو بھی خواب دیکھنے آتے ہیں؟ جب روپہلا چاند سیب کے اور چرڈ پر جھلملاتا ہے اور فضاؤں میں موزارٹ کے نغمے رقصاں ہوتے ہیں اس وقت میں تم سے چپکے سے پوچھنا چاہتی ہوں۔۔۔ کیا تم مجھے جانتے ہو؟ کیوں کہ میں تم کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔۔۔ جیسے ہم جنم جنم کے ایک دوسرے کے خاموش ساتھی ہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کو جانتے ہیں لیکن کہہ نہیں سکتے۔ کیا تم بھی تنہا ہو۔ اتنی بڑی دنیا اور دنیا والوں میں گھرے ہوئے۔۔۔ لیکن بالکل تنہا!
اور نیچے پہلو کے باغ میں دو سائے آہستہ آہستہ ٹہل رہے تھے۔ اور ان میں سے ایک سایہ چاند کے مقابل میں کھڑا ہو کر کہنے لگا، خدا کی قسم، میرے دوست، تم جانتے ہو کہ یہ سب غلط ہے۔ یہاں سب جھوٹے ہیں لیکن پھر بھی تم بے وقوف بنتے ہو۔ مجھ سے پوچھو، میں تمھیں بتاؤں گا کہ زندگی کیا چیز ہے۔ وہ سبز آنکھوں والی زرد رو جولیٹ، جو نواب کے ساتھ والز کرتی تھی اور جس نے ایک دفعہ میرے ساتھ بھی رقص کیا تھا اور مجھے یقین ہو چلا تھا کہ میں ہز ہائنس کا اے ڈی سی بنا دیا جاؤں گا، وہ اب بھی کوک ٹیل پارٹیوں کے بعد ڈھولک کے ساتھ اسی طرح گاتی ہے، ’’میں نہ بولی چرّیا کو کاگ لیے جائے۔‘‘ سب سنتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔ تم نے اس لغویت، پر غور کیا ہے؟ چرّیاں اور کوّے۔۔۔ چرّیاں اور کوّے یا تتلیاں اور بھنورے۔۔۔ زندگی کا تعاقب۔۔۔ یہ دیوانگی۔۔۔ یہ جنون۔۔۔ مجھ سے میری بنتِ عم، خوب صورت اور شریر رفعت نے کہا تھا، ’’ہائے شاہد بھائی، تم کتنے گڈّو ہو۔ تم جنگ سے واپس آ جاؤ پھر بہت سارے پروگرام بنائیں گے۔‘‘
اور میں نے، کتنا احمق تھا میں، ان الفاظ کے سہارے پر کتنے خواب دیکھے۔ رفعت میرے ساتھ ہو گی اور زندگی کا خوش گوار اور پھولوں سے گھرا ہوا راستہ میرے سامنے لیکن اس وقت میں یہاں، اس اندھیرے میں، اکیلا ٹہل رہا ہوں اور میرے ساتھ صرف رفعت کا ایک خط ہے جس میں اس نے لکھا ہے، ’’ہائے شاہد بھائی، کتنا افسوس ہے تمھاری آنکھیں خراب ہو گئیں۔ خدا کرے جلد بالکل اچھے ہو جاؤ۔ شام کو ہمارے اوپیرا میں ضرور آنا۔‘‘ اور بے وقوف مہرہ رومان کی انھی پٹی ہوئی پگڈنڈیوں پر خوش خوش چل رہا ہے جن پر زرد چاند جھلملاتا ہے۔
اور زرد چاند درختوں کے پیچھے چھپ گیا۔ اس نے کہا ٹھیک ہے بھائی، لیکن اس حماقت میں مبتلا ہو جانے کا احساس ہی کتنا پر لطف اور دل چسپ ہوتا ہے۔ میں نے اس سے کہنا چاہا، سائمن اسٹائلاٹیز کی طرح جو اونچا ستون تم نے اپنے لیے منتخب کیا ہے اس کی بلندی پر سے ایک لمحے کے لیے نیچے اتر آؤ اور ان خود رو خوشبودار پھولوں کی جھاڑیوں کے پاس میرے پاس گھاس پر بیٹھو اور ہم محبت کے وہ گزرتے ہوئے گیت سنیں جو وقت کی سنہری ریت کے اس پار پہنچ کر پھر کبھی واپس نہیں آتے۔ محبت کے وہ آسمانی، الوہی نغمے جو شوپاں، مزارٹ اور ہینڈل نے ایسے ہی وقت میں، ان ہی لمحوں کے لیے، تخلیق کیے تھے۔
اس روز سعیدہ کہہ رہی تھی، انور بھائی کتنا اچھا لگتا ہے کوئی ہم کو پسند کرے، ہم کسی کو پسند کریں۔ کوئی ہمیں چاہے۔ زندگی کے خالی، بے معنی اور بے رنگ نقوش میں اپنی چھوٹی چھوٹی شکستوں کے رنج، فتح مندیوں کے غرور اور ننھی منی مسرتوں کے اطمینان بخش احساسات سے دل کشی اور خوب صورتی پیدا ہوتی ہے۔ یہ احمقانہ، طفلانہ خواہشیں۔۔۔ کوئی ہمیں چاہے!
تم یہ کہتے ہو۔۔۔ تم جو سوسائٹی کی ساری ’’ہائی لائٹس‘‘ کے پسندیدہ اور محبوب ہیرو ہو۔ نشاط جیسی مغرور لڑکی تمھارے ساتھ ناچتی ہے۔ جلیس تم کو روزانہ فون کرتی ہے۔ اُجلا، جو کبھی کسی کو گانا نہیں سناتی، ریڈیو پر محض اس لیے گاتی ہے کہ تم سنو اور چونکہ صرف ایک خود پسند لڑکی نے تمھارے سامنے جھکنے سے خاموشی سے انکار کر دیا ہے تو مرے جا رہے ہو، احمق!ہم سب احمق ہیں! اس نے کہا اور گتار کی آواز مدھم ہوتی گئی اور کنواری رات کا اندھیرا باغ پر جھک گیا۔
اور وہ بالکونی پر سے ہٹ کر اندر آ گئی۔ وہ اپنے بلند ستون پر سے نہیں اترسکتی تھی۔ نہیں اترنا چاہتی تھی۔ وہ اپنی شکست کے اعتراف کا خیال بھی نہیں کر سکتی۔ اس نے سوچا اور وہ پریوں کی سرزمین کو جانے والی دو متوازی پگڈنڈیوں پر تھوڑی دور تک اسی طرح چلتے رہے اور پھر یہ پگڈنڈیاں ایک دوسرے کو پار کرتی ہوئی علاحدہ ہو گئیں۔
اور رفعت نے ایک روز خوشی سے اچھلتے ہوئے کہا، افروز پیاری ایک ٹریجیڈی ہو گئی۔ تم نے تو نو لفٹ کر دیا اور اس بے چارے نے اپنی شکستہ دلی سے اکتا کر آخر شادی کی درخواست کر ہی دی اور اب میں تمھارے اور ممی کے ساتھ مسوری نہیں جا سکوں گی۔۔۔ ہم کشمیر جا رہے ہیں!
اور افروز کے خوابوں نے جس تخیلی کردار کو جنم دیا تھا وہ اسی کی حیثیت سے اس کی زندگی میں تھوڑے سے وقفے کے لیے آیا اور اسی طرح نکل گیا۔
افروز کے لیے وہ صرف Mr Next-door Boy تھا، چاند کی وادی کا باسی۔ لیکن اب وہ مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور نہیں رہا۔ رفعت کے نزدیک وہ محض انور تھا۔ سول سروس کا ایک اعلیٰ عہدیدار جو اگلے ماہ اس سے شادی کرنے والا تھا۔ کیونکہ رفعت، جس کے لیے زندگی ایک مسلسل جذباتی اضطراب تھی، اس کے تعاقب میں کامیاب ہو چکی تھی۔ رفعت ماہ عسل منانے کے لیے گلمرگ چلی گئی۔ افروز اپنے گھر والوں کے ساتھ حسب معمول مسوری جا رہی تھی۔
زرد چاند بہت دیر تک اس کے ساتھ ساتھ چلنے کے بعد شوالک کی پہاڑیوں کی لکیر کے پیچھے جا چھپا اور دہرہ ایکسپریس کے اندھیرے کمپارٹمنٹ میں وہ اس ادھیڑ اور باتونی کرنل کی مسلسل آواز سے جاگ اٹھی جس نے اپنا تعارف اپنے ہم سفروں سے کرنل بھروچہ یا چڈہ یا ہانڈو یا اسی قسم کے کسی خوب صورت سے نام سے کرایا تھا۔ وہ بے حد عمدہ اردو بول رہا تھا اور اپنے خیال میں کوئی بہت ہی ضروری نکتہ بیان کر کے جو منشی سے اور اچھے لہجے میں فارسی کا کوئی شعر پڑھ ڈالتا تھا۔ اس نے کھڑکیوں میں سے آتی ہوئی رات کی خنک ہواؤں سے بچنے کے لیے ساری کا آنچل چہرے پر ڈال لیا۔
وہ کہہ رہا تھا، ’’استغفراللہ! میں نے کہا، کیا قیامت ہے، مسلمان عورت کو شراب پلا رہے ہو۔ قائدِ اعظم کے پان اسلامک نظام کے اخلاقی اور مذہبی ستونوں کا کیا حشر ہو گا۔ جواب ملا، بندہ نواز! ایں ہندوستان نباشد۔ یہ جنگ کا زمانہ ہے اور یہ قاہرہ کی راتیں ہیں جہاں کی مسلمان عورتیں اپنی زندگی اور اخلاقی قدروں کو الزبتھ آرڈن اور میکس فیکٹر کے ڈبّوں میں ایئر ٹائٹ کروا کے پیرس اور نیویارک سے منگواتی ہیں اور پھر ہمارے لڑکے۔۔۔ میں کہتا ہوں عیش کر لینے دو۔ ساقِ سیمیں اور لب ہائے لعلیں کے شعر پڑھتے پڑھتے ختم ہو گیے۔۔۔ خوب پیتے ہیں۔۔۔ خوب ٹھاٹھ کرتے ہیں۔۔۔ بڑے بڑے شوہروں کی بیویاں اور اونچے اونچے باپوں کی بیٹیاں ان کے ساتھ قونصل خانے کے بال روم کی مرمریں ستونوں والی رقص گاہوں اور نیل کے روپہلے ساحلوں پر ان کے ساتھ ناچتی ہیں اور ہمارے لڑکے سب کچھ بھول کر ان وقتی لہروں کے ریلے میں بہتے جا رہے ہیں۔
میں کہتا ہوں ارے بیٹا، آج کل تمھارے تجربوں کے لیے اچھا زمانہ ہے۔ جنگ جاری ہے۔ لڑائی کے میدان سے اپنی میڈیسن اور سرجری کے ایسے ایسے نئے تجربے حاصل کرسکتے ہو جو پہلے کبھی نہ ملے تھے اور نہ اب آئندہ مل سکیں گے۔۔۔ پر انھیں کچھ پروا نہیں۔ میں سوچتا ہوں، چلنے دو۔ سب ٹھیک ہے۔ زندگی اسی کا نام ہے اور پھر یہ لڑکیاں۔۔۔ جو آپ کے چپراسیوں کے پٹکوں کی طرح کمر کے گرد دوپٹوں کے کراس بنائے اڑی پھرتی ہیں۔ یہ آندھی تو بھائی جان سب کو بہائے لیے جا رہی ہے۔ کہاں تک اس سے بچ پاؤ گے؟‘‘ اور اس کے ایک ساتھی نے کہنا چاہا، ’’لیکن کرنل۔۔۔ سیکس‘‘ اور کرنل نے فوراً اس کی بات کاٹ دی۔
’’Sex be damned my dear Sir۔ یہاں جو بات ہے وہ ہے، اسے گلاس کیس میں چھپا کر رکھ دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟‘‘
اُف۔۔۔ کیا لغویت ہے۔۔۔ اس نے سو جانا چاہا۔ کرنل اسی طرح باتیں کرتا رہا۔ رات کے خاموش اندھیرے میں پہیوں کے شور کی متوازن یکسانیت کرنل کی کرخت آواز سے مل جل کر بڑا ناگوار سا اثر پیدا کر رہی تھی۔ یا اللہ! زندگی کتنی ذلیل چیز ہے! اور کرنل کی باتوں کا سلسلہ جاری تھا۔
’’مشرقِ وسطیٰ میں مقیم ہندوستانی فوجوں کو محفوظ کرنے کے لیے ہندوستان سے جو ڈانسنگ پارٹی گئی تھی اس میں لاہور کی ایک ہندوستانی عیسائی لڑکی ریحانہ بھی تھی۔ مجھ سے پوچھا گیا، کرنل صاحب، آپ خاص قسم کا پرائیویٹ پرفورمینس بھی پسند کریں گے؟ میں نے کہا، بندہ نواز مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے؟‘‘
’’ایں۔۔۔ کیوں؟ ہی ہی ہی۔ ریحانہ مجھ سے ملی تو کہنے لگی، کرنل صاحب، آپ کے ہم نام ایک ڈاکٹر لاہور چھاؤنی میں بھی ہوا کرتے تھے۔ بہت اچھے آدمی تھے بے چارے۔ سنا ہے مر گیے۔ میری ماما ان کے ہسپتال میں نرس تھیں۔ بہت تعریف کیا کرتی تھیں ان کی۔ پر میں تو بہت چھوٹی تھی جب۔ میں نے ہنس کر کہا، مکرمہ! وہ تمھارے بڑے ہونے کا انتظار کرنے سے پہلے ہی کیسے مر سکتے تھے؟ ہی ہی ہی— کیوں؟ کیا خیال ہے تمھارا؟‘‘
افروز نے پھر سونے کی کوشش کی۔ کرنل کہتا رہا، ’’روسی چیف آف دی اسٹاف کے ساتھ کئی سائے والیاں بھی تھیں۔ امریکن قونصل کی لڑکی کہنے لگی، ’’کرنل تم بہت فضول آدمی ہو، باتیں بہت کرتے ہو۔ پہلے ہمارے زکام کا علاج کرو۔‘‘
’’میں نے کہا، فضول سہی، لیکن مکرمہ، جب سر میں درد ہوتا ہے تو ہم ہی یاد آتے ہیں۔ وہ کہتی تھی کلکتے اور شملے میں میں تم ہندوستانیوں سے ملتے ہوئے ذرا ہچکچاتی تھی۔ لیکن یہ قاہرہ ہے اور یہاں کی راتیں بہت گرم ہوتی ہیں اور ’’شرارت‘‘ کی خوشبو میں بہت تیز۔‘‘
ہوا افروز کا آنچل اڑا رہی تھی۔ ٹرین چلتی رہی۔ کرنل کہہ رہا تھا، ’’ابھی بیگماتِ اودھ نینی تال اور مسوری سے واپس نہیں آئی ہیں۔ ذرا بارشوں کے بعد لکھنؤ میں رونق آ جانے دو۔ خاکسار ایک کوک ٹیل پارٹی اور ایک ٹی ڈانس نہ چھوڑے گا۔ بھائی جان، خوب جانتا ہوں زندگی کا تعاقب کہاں تک کرنا چاہیے۔ میرا بڑا لڑکا بھی لفٹننٹ کرنل ہے اور اسے بھی معلوم ہے اور مجھے بھی کہ جہاں تک اصولوں کا تعلق ہے، ہم دونوں اپنے اپنے راستوں پر اطمینان سے چل رہے ہیں اور ہمارے راستے کبھی بھی ایک دوسرے کو نہیں کاٹ سکتے۔‘‘
اور ٹرین کی رفتار ایک اسٹیشن کے کہر آلود دھندلکے میں داخل ہوتے ہوئے دھیمی ہو گئی اور وہ اپنے ہم سفروں کو خدا حافظ کہتا ہوا پلیٹ فارم پر اتر گیا۔۔۔ زندگی کے تعاقب میں، افروز نے سوچا۔ اور کرنل کے جانے کے بعد اس کا ایک دوست دوسرے دوست سے کہہ رہا تھا، ’’کرنل کی باتیں سن کر تم نے خیال کیا ہو گا کہ یہ اعلیٰ درجے کا لفنگا شخص ہے، لیکن واقعہ یہ ہے بھائی جان کہ اس سے زیادہ شریف اور پر خلوص آدمی دنیا میں ہی نہیں مل سکتا۔ اگر تم رات کے دو بجے اسے بلاؤ تو اپنا بیگ سنبھالے ننگے پاؤں بھاگتا ہوا پہنچ جائے گا۔ یہ جو کچھ کہتا یا ظاہر کرتا ہے محض اپنا اور دوسروں کا جی خوش کرنے کے لیے۔ بیوی مر چکی ہے، بڑا لڑکا بھی لفٹننٹ کرنل ہے اور ایک داماد آئی سی ایس، تین لڑکیاں انگلینڈ میں ہندوستانی فوجوں کے لیے کینٹین چلا رہی ہیں۔‘‘
اور ٹرین چلنے لگی۔ کمپارٹمنٹ میں پھر اندھیرا ہو گیا۔ افروز نے آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے اور اسے منظر احمد یاد آگیا جو جلیس سے شادی کر کے اپنی نئی کار پر کشمیر جا کر ماہ عسل منانے کے پروگرام بنانے میں مصروف تھا اور اس وقت اس کو ایک بڑا پر مسرت، پرسکون سا احساس ہوا۔ اس کا ستون اب بھی سب سے علاحدہ اور سب سے بلند ہے۔ زندگی کی اس تگ و دو، اس کشاکش سے بے نیاز اور بے تعلق زندگی کی یہ مسلسل چلو پکڑو، جانے نہ پائے، چرّیاں اور کوّے، ’’تتلیاں اور بھونرے، ڈھولک پر ’’جیسے پتنگ پیچھے ڈور‘‘ گاتی ہوئی سبز آنکھوں والی جولیٹ اور اس کے پیچھے نواب، نشاط اور اس کے افسانے، رفعت اور اس کے پیچھے دوڑتی ہوئی منظر احمد کی تیز رفتار اسپورٹس کار، روسی چیف آف دی اسٹاف کی سائے والیاں اور ان کے پیچھے ان کے زکام اور درد سر کا علاج کرتا ہوا دل شکستہ کرنل چڈّہ یا بھڑوچہ یا ہانڈو جس کی بیوی مر چکی ہے اور جس کا بیٹا بھی لفٹننٹ کرنل ہے اور داماد آئی سی ایس اور جو ناعاقبت اندیش، نا تجربہ کار نوجوان ڈاکٹروں کو مشورہ دیتا ہے کہ بہترین موقع ہے میڈیسن اور نرسری کے تجربوں کا، زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا لو، نیل کے ساحلوں پر خوب ناچ لو، پھر کہاں یہ جنگ ہو گی، کہاں تم اور کہاں قاہرہ کی راتیں۔ دراصل وہ بہت اچھا آدمی ہے۔ یہاں سب بہت اچھے آدمی ہیں، ایک دوسرے کا خیال کرنے والے، ایک دوسرے کے تعاقب میں سرگرداں۔ سب اپنے اپنے محور پر تیزی سے گھوم رہے ہیں اور جو ان کی لپیٹ میں آ جاتا ہے وہ بھی اسی تیزی سے گھومنے لگتا ہے اور اس بھاگتی ہوئی دنیا میں صلاح الدین محمود اور مسٹر بوائے نیکسٹ ڈور کے تخیلی کرداروں کی قطعی کوئی جگہ نہیں۔
اور پھر یک لخت اسے ایک بے حد عجیب خیال آیا، نہایت شدت سے اس کا جی چاہا کہ وہ کھڑکی میں سے پکار کر کہے، کرنل چڈہ، ادھر آؤ، میری بات سنو، تم بالکل ٹھیک کہتے ہو۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ میری بات سنتے جاؤ۔ خوب زور زور سے چلّائے، کرنل چڈّہ، کرنل بھڑوچہ، کرنل ہانڈو!
لیکن کرنل کب کا پلیٹ فارم کے دھندلکے میں کھو چکا تھا۔
اور مونالیزا کے ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم بکھر گیا جیسے وہ یہ سب بہت پہلے سمجھ چکی ہے۔
مأخذ : Sitaron Se Aage
مصنف:قرۃ العین حیدر