غازی پور کے گورنمنٹ ہائی اسکول کی فٹ بال ٹیم ایک دوسرے اسکول سے میچ کھیلنے گئی تھی۔ وہاں کھیل سے پہلے لڑکوں میں کسی چھوٹی سی بات پر جھگڑا ہوا اور مارپیٹ شروع ہوگئی۔ اور چونکہ کھیل کے کسی پوائنٹ پر جھگڑا شروع ہوا تھا، تماشائیوں اور اسٹاف نے بھی دل چسپی لی۔ جن لڑکوں نے بیچ بچاؤ کی کوشش کی انہیں بھی چوٹیں آئیں اور ان میں میرے بھائی بھی شامل تھے جو گورنمنٹ ہائی اسکول کی نویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ ان کے ماتھے میں چوٹ لگی اور ناک سے خون بہنے لگا۔ اب ہنگامہ سارے میدان میں پھیل گیا۔ بھگدڑ مچ گئی اور جو لڑکے زخمی ہوئے تھے اس ہڑبونگ میں ان کی خبر کسی نے نہ لی۔ اس پس ماندہ ضلع میں ٹیلیفون عنقا تھے۔ سارے شہر میں صرف چھ موٹریں تھیں اور ہاسپیٹل ایمبولنس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
وہ اتوار کا ویران سا دن تھا۔ ہوا میں زرد پتے اڑتے پھر رہے تھے۔ میں لق ودق سنسان پچھلے برآمدے میں فرش پر چپ چاپ بیٹھی گڑیاں کھیل رہی تھی۔ اتنے میں ایک یکہ ٹخ ٹخ کرتا آکے بر آمدے کی اونچی سطح سے لگ کر کھڑا ہوگیا اور سترہ اٹھارہ سال کے ایک اجنبی لڑکے نے بھائی کو سہارا دے کر نیچے اتارا۔ بھائی کے ماتھے سے خون بہتا دیکھ کر میں دہشت کے مارے فوراً ایک ستون کے پیچھے چھپ گئی۔ سارے گھر میں ہنگامہ بپا ہوگیا۔ اماں بدحواس ہوکر باہر نکلیں۔ اجنبی لڑکے نے بڑے رسان سے ان کو مخاطب کیا۔۔۔ ’’ارے ارے دیکھئے، گھبرائیے نہیں۔ گھبرائیے نہیں۔ میں کہتا ہوں۔‘‘ پھر وہ میری طرف مڑا اور کہنے لگا۔۔۔ ’’منی! ذرا دوڑ کر ایک گلاس پانی تو لے آ بھیا کے لیے‘‘، اس پر کئی ملازم پانی کے جگ اور گلاس لے کر بھائی کے چاروں طرف آن کھڑے ہوئے اور لڑکے نے ان سے سوال کیا۔۔۔ ’’صاحب کدھر ہیں؟‘‘ ’’صاحب باہر گئے ہوئے ہیں۔۔۔‘‘ کسی نے جواب دیا۔۔۔ ’’نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ دفتر میں بیٹھے ہیں‘‘، دوسرے نے کہا۔
لڑکا مزید توقف کے بغیر آگے بڑھا اور گیلری میں سے گزرتا ادھر ادھر دیکھتا ابا جان کے دفتر تک جا پہنچا۔ ابا جان دروازے بند کیے کسی اہم مقدمے کا فیصلہ لکھنے میں مصروف تھے۔ لڑکے نے دستک دی اور اندر داخل ہوگیا۔ اور میز کے سامنے جاکر بڑی خود اعتمادی اور متانت سے بولا، ’’صاحب! آپ کے صاحبزادے ہمارے اسکول میں میچ کھیلنے آئے تھے، ان کو تھوڑی سی چوٹ آئی ہے کیونکہ کھیل کھیل میں دنگا ہوگیا تھا۔ میرا نام اقبال بخت ہے۔ میں منشی خوش بخت رائے سکسینہ کا لڑکا ہوں، جو سٹی کورٹ میں مختار ہیں۔ آپ سے میری درخواست ہے کہ ہمارا اسکول بند کرنے کا حکم نہ دیں اور لڑکوں پر جرمانہ بھی نہ کریں، کیونکہ ایک تو ہمارے امتحان ہونے والے ہیں اور دوسرے ہمارے لڑکے بہت غریب ہیں۔۔۔‘‘
ابا جان نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور اس کی مدلل اور پر اعتماد تقریر سن کر بہت متاثر اور محظوظ ہوئے۔ انہوں نے اسے بڑی شفقت سے اپنے پاس بٹھایا۔
اسی طرح سے اقبال میاں کا ہمارے یہاں آنا جانا شروع ہوا۔ بھائی سے ان کی کافی دوستی ہوگئی۔ مگر وہ زیادہ تر گھر کی خواتین کے پاس بیٹھتے تھے۔ امور خانہ داری پر صلاح مشورے دیتے تھے۔ بازار کے بھاؤ اور دنیا کے حالات پر روشنی ڈالتے یا لطیفے سناتے۔ جب وہ دوسری مرتبہ ہمارے ہاں آئے تھے، تب میں نے بھائی کو آواز دی تھی۔۔۔ ’’اقبال میاں آئے ہیں۔‘‘ وہ فوراً نہایت وقار سے چلتے ہوئے میرے نزدیک آئے اور ڈپٹ کر بولے، ’’دیکھو منی! میں تم سے بہت بڑا ہوں۔ مجھے اقبال بھائی کہو۔۔۔ کیا کہوگی؟‘‘
’’اقبال بھائی۔۔۔‘‘ میں نے ذرا سہم کر جواب دیا۔
اقبال بھائی مجھے ہمیشہ منی ہی پکارتے رہے۔ مجھے ان کے دیے ہوئے اس نام سے سخت چڑھ تھی۔ مگر ہمت نہ پڑتی تھی کہ ان سے کہوں کہ میرا اصل نام لیا کریں۔ اب وہ سارے گھر کے لیے ’اقبال میاں‘ اقبال بھائی‘ اور ’اکبال بھیا‘ بن چکے تھے۔
پہلو کے لان پر املتاس کا بڑا درخت ہمارے لیے بڑی اہمیت رکھتا تھا کہ اس کے سائے میں کھاٹ بچھا کر فرصت کے اوقات میں محفل جمتی تھی۔ اس کی صدارت ڈرائیور صاحب کرتے تھے۔ نائب صدر اقبال بھائی خود بخود بن گئے۔ اس محفل کے دوسرے اراکین‘ استاد یوسف خاں‘ جمنا پانڈے مہاراج چپراسی‘ عبدل بیرا اور بھائی تھے۔ میں بن بلائے مہمان کی حیثیت سے ادھر ادھر لگی رہتی تھی۔
استاد یوسف خاں کے کمرے کا تعلق اندر کے کمروں سے نہیں تھا اور اس کا دروازہ اسی لان پر کھلتا تھا۔ استاد پرانے اسکول کے نہایت نستعلیق اور ثقہ موسیقار تھے۔ رام پور دربار سے ان کا تعلق رہ چکا تھا۔ شاعری بھی کرتے تھے اور دن بھر نول کشور پریس کے چھپے ہوئے کرم خوردہ ناول پڑھا کرتے تھے۔ بوڑھے آدمی تھے۔ آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے اور نوکیلی مونچھیں رکھتے تھے۔ دونوں وقت کا کھانا اور ناشتہ اور چائے بڑے اہتمام سے کشتی میں سجا کر ان کے کمرے میں پہنچا دی جاتی تھی۔ سہ پہر کو وہ اندر آکر بڑے تکلف سے اماں کو گر بھیروی اور گت بھیم پلاسی سکھلاتے تھے اور اماں بیٹھی ستار پر ٹن ٹن کیا کرتی تھیں۔ اقبال بھائی استاد کے یار غار بن گئے تھے اور آرایش محفل، طلسم ہو شربا، اسرار لندن اور شرر کے ناولوں کا لین دین دونوں کے درمیان چلتا رہتا تھا۔ اقبال بھائی اس سال انٹرنس کا امتحان دینے والے تھے۔
ایک روز مجھے ایک درخت کی شاخ سے لٹکتا دیکھ کر انہوں نے اماں سے کہا، ’’منی پڑھتی لکھتی بالکل نہیں۔ ہر وقت ڈنڈے بجایا کرتی ہے۔‘‘
’’یہاں کوئی اسکول تو ہے نہیں، پڑھے کہاں؟‘‘ اماں نے جواب دیا۔
پچھلے دنوں میرے ایک پھوپھی زاد بھائی نے مجھے حساب سکھانے کی ہر ممکن کوشش کر دیکھی تھی اور ناکام ہوچکے تھے۔ اب اقبال بھائی۔۔۔ فوراً والنٹیر بن گئے۔ ’’امتحان کے بعد میں اسے پڑھا دیا کروں گا۔‘‘
اگلے اتوار کو اقبال بھائی نے میرا انٹرویو لیا، ’’انگریزی تو اسے تھوڑی سی آگئی ہے، اردو فارسی میں بالکل کوری ہے‘‘، انہوں نے اماں کو رپورٹ دی اور اس کے بعد انہوں نے روزانہ نازل ہونا شروع کردیا۔ ان کی تنخواہ دس روپے ماہوار مقرر کی گئی۔ روز شام کے چار بجے ان کا یکہ دور پھاٹک میں داخل ہوتے دیکھ کر میری جان نکل جاتی۔ گرمیاں شروع ہوچکی تھیں۔ اقبال بھائی نے حکم دیا، ’’ہم باغ میں بیٹھ کر تجھے پڑھائیں گے، تیرا دماغ جس میں بھوسہ بھرا ہوا ہے، ٹھنڈی ہوا سے ذرا تازہ ہوگا۔‘‘ لہذا پچھلے باغ میں فالسے کے درخت کے نیچے میری چھوٹی سی بید کی کرسی اور اقبال بھائی کی کرسی میز رکھی جاتی۔ جس روز میں نیکی کی جون میں ہوتی تو مالی سے باغ کی بڑی جھاڑو مانگ لاتی اور فالسے کے نیچے اقبال بھائی کی کرسی کی جگہ پر خوب جھاڑو دیتی اور یوں بھی پڑھائی کے مقابلے میں مجھے باغ میں جھاڑو دینا کہیں زیادہ اچھا لگتا تھا۔
اقبال بھائی جمع تفریق پر سرکھپانے کے بعد حکم دیتے، ’’تختی لاؤ۔‘‘ تختی پر وہ بے حد خوش خطی سے لکھتے،
قلم گوید کہ من شاہ جہانم
قلم کش را بدولت می رسانم
اپنے ٹیڑھے میڑھے حروف میں میں اس شعر کو کئی مرتبہ لکھتی، یہاں تک کہ میری انگلیاں دکھنے لگتیں اور میں دعا مانگتی، ’’اللہ کرے اقبال بھائی مرجائیں۔۔۔ اللہ کرے۔۔۔‘‘
ایک مرتبہ میں سبق سنانے کے بجائے کرسی پر کھڑی ہوکر ایک ٹانگ سے ناچ رہی تھی کہ اقبال بھائی کو دفعتاً بے تحاشا غصہ آگیا۔ انہوں نے میرے کان اس زور سے اینٹھے کہ میرا چہرہ سرخ ہوگیا اور میں چلا چلا کر رونے لگی۔ مگر اس کے بعد سے میں نے شرارت کم کردی۔ اقبال بھائی ابھی مجھے پانچ چھ مہینے ہی پڑھا پائے ہوں گے کہ ابا جان کا تبادلہ غازی پور سے اٹاوے کا ہوگیا۔
اگلے دو تین سال تک اقبال بھائی کے اماں کے پاس کبھی کبھار خط آتے رہے، ’’اب ہم نے ایف۔ اے کرنے کا ارادہ بھی چھوڑ دیا ہے۔ انٹرنس میں تھرڈ ڈویژن ملا۔ اس وجہ سے ہمارا دل ٹوٹ گیا ہے۔ بس اب ہم بھی منصرم پیش کار قانون گو یا قرق امین کی حثییت سے زندگی گزار دیں گے، یا حد سے حد والد صاحب قبلہ کی مانند مختار بن جائیں گے۔ اس لیے کبھی سوچتے ہیں قانون کا امتحان دے ڈالیں۔ اور اس کوردہ میں رہ کر کر بھی کیا سکتے ہیں؟‘‘
پھر ان کے خط آنے بند ہوگئے۔
میں آئی۔ ٹی کالج لکھنو کے فرسٹ ایر میں پڑھ رہی تھی۔ اس دن ہمارے یہاں کچھ مہمان چائے پر آئے ہوئے تھے۔ سب لوگ نشست کے کمرے میں بیٹھے تھے کہ برآمدے میں آکر کسی نے آواز دی، ’’ارے بھائی کوئی ہے؟‘‘ ’’کون ہے؟‘‘ اماں نے کمرے میں سے پوچھا۔ ’’ہم آئے ہیں۔۔۔ اقبال بخت۔۔۔‘‘
اماں نے بے انتہا خوش ہوکر انہیں اندر بلایا۔ کمرے میں بہت جگمگاتے قسم کے لوگوں کا مجمع تھا۔ اقبال بھائی چاروں طرف نظر ڈال کر ذرا جھجکے۔ مگر دوسرے لمحے بڑے وقار کے ساتھ اماں کے قریب جاکر بیٹھ گئے۔ پھر ان کی نظر مجھ پر پڑی اور انہوں نے بے حد مسرت سے چلا کر کہا، ’’اری منی۔۔۔ تو اتنی بڑی ہوگئی؟‘‘
میں نئی نئی کالج میں داخل ہوئی تھی اور اپنے کالج اسٹوڈنٹ ہونے کا سخت احساس تھا۔ اقبال بھائی نے جب سب لوگوں کے سامنے اس طرح ’اری منی‘ کہہ کر مخاطب کیا تو بے حد کوفت ہوئی۔
اقبال بھائی میلا سا پائیجامہ اور گھسی ہوئی شیروانی پہنے تھے اور ظاہر تھا کہ ان کی مالی حالت بہت سقیم تھی۔ مگر انہوں نے مختصراً اتنا ہی بتایا کہ کان پور میں ملازم ہوگئے ہیں اور پرائیوٹ طور پر ایف۔ اے۔ سی۔ ٹی کرچکے ہیں۔ پھر وہ ابا جان کے کمرے میں گئے اور ان کے پاس بہت دیر تک بیٹھے رہے۔ اس کے بعد اقبال بھائی پھر غائب ہوگئے۔
دس سال بعد۔۔۔ مجھے لندن پہنچے چھ سات روز ہی ہوئے تھے، میں بی بی سی کے اردو سیکشن میں بیٹھی ہوئی تھی کہ کسی نے آواز دی، ’’ارے بھائی سکسینہ صاحب آگئے کہ نہیں؟‘‘
’’آگئے‘‘ یہ کہتے ہوئے اقبال بخت سکسینہ پردہ اٹھاکر کمرے میں داخل ہوئے۔ گھسی ہوئی برساتی اوڑھے۔ اخباروں کا پلندا اور ایک موٹا سا پورٹ فولیو سنبھالے میرے سامنے سے گزرتے، ایک میز کی طرف چلے گئے۔ پھر انہوں نے پلٹ کر مجھے دیکھا۔ پہلے تو انہوں نے مجھے نہیں پہچانا۔ ٹکٹکی باندھے چند لمحوں تک دیکھتے رہے، ’’اری منی!‘‘ ان کے منہ سے نکلا۔ پھر آواز بھرا گئی۔
وہ میرے پاس آکر بیٹھے اور ابا جان کی خیریت پوچھی۔۔۔ ’’ابا جان کا تو کئی سال ہوئے انتقال ہوگیا، اقبال بھائی!‘‘ میں نے کہا۔ یہ سن کو وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اردو سیکشن کے اراکین نے ان کو روتا دیکھ کر خاموشی سے اپنے اپنے کاغذات پر سرجھکا لیا۔
انہوں نے مجھے بتایا کہ کان پور کی ملازمت اسی سال چھوٹ گئی تھی۔ پھر وہ سارے ملک میں جوتیاں چٹخاتے پھرے۔ اسی دوران میں ان کے والدین کا انتقال ہوگیا۔ وہ اکلوتے بیٹے تھے۔ چھوٹی بہن کی کسی گاؤں میں شادی ہوچکی تھی۔ آزادی کے بعد جب قسمت آزمائی کے لیے انگلستان، کنیڈا اور امریکہ جانے کی ہوا چلی تو وہ بھی ایک دن غازی پور گئے۔ اپنا آبائی مکان فروخت کیا اور اس کے روپے سے جہاز کا ٹکٹ خرید کر لندن آپہنچے۔ پچھلے چار سال سے وہ لندن میں تھے اور یہاں بھی مختلف قسم کے پاپڑ بیل چکے تھے۔ کسی کو ان کے متعلق ٹھیک سے معلوم نہ تھا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ مجھ سے بھی انہوں نے ایک مرتبہ گول گول الفاظ میں صرف اتنا ہی کہا، ’’ریجنٹ اسٹریٹ پولی ٹیکنیک میں اکنومکس پڑھ رہا ہوں۔‘‘ جس ادارے کا انہوں نے نام لیا، میں اس کی اصلیت سے بخوبی واقف ہوچکی تھی۔ جب لوگ اسی مبہم سے لہجے میں یہ کہتے کہ وہ ریجنٹ اسٹرٹ پولی ٹیکنیک میں جرنلزم پڑھ رہے ہیں یا اکنومکس پڑھ رہے ہیں یا فن سنگ تراشی یا فوٹو گرافی سیکھ رہے ہیں، تو مزید کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہوسکتی تھی۔
لیکن بہت جلد مجھے یہ معلوم ہوگیا کہ اقبال بھائی لندن کے ہندوستانی اورپاکستانی طالب علموں کی کمیونٹی کے اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کوئی ہنگامہ، جلسہ، جلوس، جھگڑا، فساد، الیکشن، تیج تہوار ان کے بغیر مکمل نہ ہوسکتا تھا۔ تصویروں کی نمایش ہے تو ہال وہ سجا رہے ہیں۔ ناچ گانے کا پروگرام ہے تو مائیکرو فون لگا رہے ہیں۔ ڈراما ہے تو یہ ریہرسل کے لیے لوگوں کو پکڑتے پھر رہے ہیں۔ دعوت ہے تو ڈائننگ ہال میں مستعد کھڑے ہیں۔ کبھی کبھی وہ منظر پر سے غائب ہوجاتے اوراطلاع ملتی کہ اتوار کے روز پیٹی کوٹ لین کی منڈی میں لوگوں کو قسمت کا حال بتاتے ہوئے پائے گئے یا گلاسگو کے کسی بازار میں ہندوستانی جڑی بوٹیاں فروخت کرتے نظر آئے۔
ایک دفعہ معلوم ہوا کہ شہر کے ایک فیشن ایبل محلے کے ایک عالی شان فلیٹ میں فروکش ہیں۔ کبھی وہ بڑھیا ریسٹورانوں میں نظر آتے۔ کبھی مزدوروں کے چائے خانوں میں دکھائی پڑتے۔ اقبال بھائی شاعری بھی کرتے تھے۔ آسٹریلیا اور ایم سی سی کے تاریخی میچ کے دنوں میں انہوں نے ایک مرثیہ لکھا،
ہر تازہ وکٹ پر ہمہ تن کانپ رہا ہے
بولر ہے بڑا سخت ہٹن کانپ رہا ہے
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کا نپ رہا ہے
اقبال بھائی کو فن موسیقی، علم جیوتش، پامسٹری، ہومیو پیتھی، طب یونانی اور آیور ویدک سے لے کر پولٹری فارمنگ، کاشت کاری اور باغبانی تک ہر چیز میں دخل تھا اور حلقہ اربابِ ذوق کی محفلوں میں بلا ناغہ شرکت کرتے تھے۔
ہم دو تین لوگوں نے مل کر ایک فلم سوسائٹی بنائی، جس میں ہم بمبئی سے فلمیں منگوا کر ہندستانی اور پاکستانی پبلک کو دکھاتے تھے۔ اس دن اقبال بھائی برات کے دولہا بنے ہوئے ٹکٹ بیچ رہے ہیں۔ مہمانوں کو لالا کر بیٹھال رہے ہیں۔ فلم شروع ہونے سے پہلے اسٹیج پر جاکر مس مہتاب یا مس نسیم یا مس نمّی کو گلدستہ پیش کر رہے ہیں۔ اس زمانے میں انہوں نے یہ بھی طے کر لیا کہ بمبئی جاکر ایک عہد آفریں فلم بنائیں گے، جس کی کہانی مکالمے اور گیت خود لکھیں گے۔ ڈائرکٹ بھی خود کریں گے اور ہیرو کے بڑے بھائی یا ہیروئین کے باپ کا رول بھی خود ادا کریں گے اور مجموعی طور پر ساری فلم انڈسٹری پر رولر پھیر دیں گے۔
اقبال بھائی شراب کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے اور منگل کے منگل گوشت نہیں کھاتے تھے۔ ایک روز وہ مجھے ایک سڑک پر نظر آئے اس حالت میں کہ ہاتھ میں بہت قیمتی پھولوں کا ایک گچّھا ہے اور لپکے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ مجھے دیکھ کر بولے، ’’ آؤ۔۔۔ آؤ۔۔۔ میں ذرا ایک دوست کو دیکھنے ہسپتال جارہا ہوں۔۔۔‘‘ میں ساتھ ہولی۔ ہسپتال میں ایک اسلامی ملک کے سفیر کی بیگم صاحب فراش تھیں۔ اقبال بھائی نے ان کے کمرے میں داخل ہو کر گلدستہ میز پر رکھا اور نہایت خلوص سے مریض کی مزاج پرسی میں مصروف ہوگئے۔ اتنے میں سفیر کی بیٹی اندر آئی اور بے حد تپاک سے ان سے ملی۔ میں نے حیرت سے یہ سب دیکھا۔ باہر آکر کہنے لگے، ’’ بھئی یہ لوگ ہمارے دوست ہیں۔ بہت اچھے لوگ ہیں بے چارے۔‘‘
’’صاحبزادی سے آپ کی ملاقات کس طرح ہوئی؟‘‘
’’ لمبا قصّہ ہے، پھر کبھی بتائیں گے۔‘‘
وہ لڑکی بے حد بددماغ تھی۔ یونی ورسٹی میں پڑھتی تھی اور حد سے زیادہ اینٹی انڈین مشہور تھی۔ اس وقت بھی اس نے ہسپتال کے کمرے میں کوئی ناگوار سا سیاسی تذکرہ چھیڑ دیا تھا۔
’’بھئی اگر ہندوستان کو گالیاں دے کر اس کا دل ٹھنڈا ہوتا ہے‘‘، اقبال بھائی نے زینہ اترتے ہوئے مجھ سے کہا۔ ’’تو اس میں میرا کیا ہرج ہے؟ اس کو اسی طرح شانتی ملتی ہے۔۔۔‘‘
اس کے کچھ عرصے بعد ہی ایک شام وہ انڈر گراؤنڈ میں مل گئے۔ ساتھ ہی وہ لڑکی اور اس کی ایک کزن بھی تھی۔ لڑکی نے مجھ سے کہا، ’’ہم لوگ ایک مجلس میں جارہے ہیں۔ آپ بھی چلیے۔‘‘
’’میں تو نہ جاسکوں گی۔ میں نے تھیٹر کے ٹکٹ خرید لیے ہیں۔۔۔‘‘ میں نے معذرت چاہی۔ اقبال بھائی نے بڑے صدمے سے مجھے دیکھا، ’’محرم کی ساتویں تاریخ کو تھیٹر جارہی ہو؟‘‘ میں بے حد شرمندہ ہوئی۔ ’’مجھے یاد نہ رہا تھا‘‘، میں نے جواب دیا۔ ’’ آپ شیعہ ہیں یا سنّی؟‘‘ دوسری لڑکی نے سوال کیا۔ ’’میں قادیانی ہوں‘‘، میں نے جواب دیا۔
’’قادیانی؟‘‘ وہ خاموش ہوگئی۔ چند منٹ بعد سفیر کی لڑکی نے اظہار خیال کیا، ’’اقبال صاحب تو بڑے مومن آدمی ہیں۔ آج کل کے شیعوں میں اپنے مذہب کا اتنا درد کہاں ہے؟‘‘ اتنے میں اسٹیشن آگیا اور وہ تینوں ٹرین سے اتر گئے۔
اگلے روز بی بی سی میں اقبال بھائی سے ملاقات ہوئی تو میں نے کہا، ’’اقبال بھائی! اب آپ یہ فراڈ بھی کرنے لگے۔ ان لڑکیوں کے سامنے آپ نے خود کو مسلمان ظاہر کیا ہے؟ نہ صرف مسلمان بلکہ شیعہ۔۔۔‘‘
جواب ملا۔۔۔ ’’دیکھ منّی۔۔۔ دنیا میں اس قدر تفرقہ ہے کہ سب لوگ ایک دوسرے کی جان کو آئے ہوئے ہیں۔ میری جب اس لڑکی سے ملاقات ہوئی تو وہ میرے نام کی وجہ سے۔ مجھے مسلمان سمجھی اور میرے سامنے ہندوؤں کی اور ہندوستان کی خوب خوب برائیاں کیں۔ اس کے بعد اگر میں اسے بتا دیتا کہ میں ہندو ہوں تو اسے کس قدر خجالت ہوتی، اور پھر اس میں میرا کیا ہرج ہے۔ میرے خاندان میں سیکڑوں برس سے فارسی نام رکھے جاتے ہیں۔ اس سے ہندو دھرم پر کوئی آنچ نہیں آئی۔ اب اگر میں نے خود کو مسلمان ظاہر کردیا تو دنیا پر کون سی قیامت آجائے گی؟ بتاؤ؟ ارے واہ ری مُنّی! اتنی بڑی افلاطون بنتی ہو، مگر عقل میں وہی بھوسہ بھرا ہے۔‘‘
ایک شام میں اپنی ایک دوست زاہدہ کے ہاں گئی۔ وہ بے حد تند ہی سے پیکنگ میں جٹی ہوئی تھی اور اپنے سارے خاندان سمیت اگلے روز صبح سویرے رخصت پر کراچی واپس جارہی تھی۔ زاہدہ کے گھر پر مجھے یاد آیا کہ اقبال بھائی نے آسٹریلین طلبہ کی ایک تقریب میں مدعو کیا ہے، ’’ضرور آنا، آسٹریلین بے چارے یہ محسوس کرتے ہیں کہ انہیں بہت ہی غیر دل چسپ اور بے رنگ قوم سمجھا جاتا ہے۔ ان کا دل نہیں توڑنا چاہیے۔‘‘
چند روز قبل میں ایک نیا ہینڈ بیگ خرید کر زاہدہ کے ہاں چھوڑ گئی تھی۔ چلتے وقت خیال آیا کہ اسے لیتی چلوں، بیگ زاہدہ کی سنگھار میز پر رکھا تھا۔ وہ دوسرے کمرے میں اسباب باندھ رہی تھی۔ میں نے جاتے ہوئے اسے آواز دی کہ میں بیگ لیے جارہی ہوں۔ ’’اچھا‘‘ اس نے جواب دیا۔ میں نیچے آگئی۔
آسٹریلین طلبہ کے ہاں اقبال بھائی ہال کے وسط میں کھڑے آسٹریلیا اور ہندوستان کے دوستانہ تعلقات پر دھواں دھار تقریر کر رہے تھے۔ میں برابر کے کمرے میں گئی، جہاں بہت سے لڑکوں، لڑکیوں کا مجمع تھا۔ اور چار پانچ ویٹر چائے بنا بنا کر سب کو دے رہے تھے۔ میں نے نیا ہینڈ بیگ وہیں ایک کھڑکی میں رکھ دیا اور چائے پینے کے بعد ہال میں لوٹ آئی۔ چلتے وقت مجھے ہینڈ بیگ کا خیال آیا۔ میں اسے اندر سے اٹھا لائی اور اقبال بھائی کے ہاتھ میں دے دیا۔ شاید اس کا کھٹکا کھل گیا تھا۔ زینے سے اترتے ہوئے انہوں نے کھٹکا بند کیا اور بولے، ’’اتنے ڈھیر سارے نوٹ؟‘‘
میں نے بے دھیانی میں ان کی بات پوری طرح نہیں سنی اور ادھر ادھر کی باتوں میں لگی رہی۔ اسٹیشن پر اقبال بھائی نے بیگ مجھے تھما دیا۔ گھر پہنچ کر میں نے دیکھا کہ زاہدہ کی کار باہر کھڑی ہے اور دونوں میاں بیوی انتہائی سراسیمگی کی حالت میں لینڈ لیڈی مسز ونگ فیلڈ سے کچھ پوچھ رہے ہیں۔ زاہدہ مجھے دیکھ کر ہکلانے لگی۔۔۔ ’’وہ۔۔۔ وہ بیگ۔۔۔ وہ بیگ۔۔۔‘‘
’’ہاں! ہاں میرے پاس ہے تو۔۔۔ کیوں؟‘‘
’’اس میں میں نے پورے پانچ سو پاؤنڈ کے نوٹ ٹھونس دیئے تھے۔ تمہارے جانے کے یعد یاد آیا اور تمہاری بھلکّڑ عادت کا خیال کر کے جان نکل گئی کہ اگر تم نے بٹوہ راستے میں کہیں اِدھر اُدھر چھوڑ دیا تو کیا ہوگا۔۔۔؟ یا اللہ تیرا شکر۔۔۔ اللہ تیرا شکر۔۔۔ یا اللہ۔۔۔‘‘
دوسرے روز بی بی سی میں میں نے اقبال بھائی کو یہ سنسنی خیز واقعہ سنایا۔ اطمینان سے بولے، ’’وہ تو میں نے بیگ میں پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ نوٹ ٹھنسے ہوئے ہیں۔‘‘
’’ آپ نے مجھے اسی وقت کیوں نہ بتایا؟‘‘
’’ میں نے کہا تو تھا تم نے سُنا ہی نہیں۔‘‘
’’ آپ کو یہ خیال بھی نہ آیا کہ میرے پاس اتنا روپیہ کہاں سے آگیا، جسے میں اطمینان سے اَدھ کھلے بیگ میں لیے گھوم رہی ہوں۔‘‘
’’ میں نے سوچا، کہیں سے آہی گیا ہوگا۔ پوچھنے کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’اور دو گھنٹے وہ بیگ اسی طرح کھڑکی میں رکھا رہا۔ اگر اس وقت چوری ہو جاتا تو میں زاہدہ کو کیا منہ دکھاتی؟ یا اللہ۔۔۔! یا اللہ۔۔۔!‘‘
’’دیکھ مُنّی! ہونی کو کوئی اَنہونی نہیں کرسکتا۔ تیری گوئیاں کی قسمت میں تھا کہ اس کا روپیہ اسے صحیح سلامت واپس مل جائے۔ اب تُو کیوں فکر کر رہی ہے؟ یہ بتا تونے اچّھما کے لیے بات کی؟‘‘
اچّھما کو سوکٹی ایک پریشان حال، دل گرفتہ سی لڑکی تھی جو بہت دنوں سے ملازمت اور ایک سستے سے کمرے کی تلاش میں تھی۔ حال ہی میں مسز ونگ فیلڈ کے تہ خانے میں ایک کمرہ خالی ہوا تھا، جس کا کرایہ صرف ڈھائی پونڈ فی ہفتہ تھا۔ مسز ونگ فیلڈ کا اصرار تھا کہ وہ اپنے مکان میں ہر چلتے پھرتے، ایرے غیرے کو کرایے دار نہیں رکھتیں اور صرف بہترین خاندانوں اور اعلا طبقے کے افراد کو اپنے یہاں رہنے کا شرف بخشتی ہیں۔ ان کے مرحوم شوہر کو لوینل سروس میں تھے، اورمسز ونگ فیلڈ برسوں کولمبو میں بڑی میم صاحب کی حیثیت سے زندگی گزار چکی تھیں۔ ان کے سُسر نائٹ تھے وغیرہ وغیرہ، لیکن میاں کے مرنے اور سلطنت برطانیہ کے زوال کے بعد وطن واپس آکر انہیں لینڈ لیڈی بننا پڑا تھا۔ اکثر زینے پر چڑھتے یا اترتے ہوئے وہ میرا راستہ روک کر اپنی عظمتِ رفتہ کے قصے سنانے لگتیں۔
ایک دن انہوں نے بڑے رازدارانہ لہجے میں بے حد اداسی سے مجھ سے کہا تھا، ’’ایک بات سنو! اتنے اچھے اچھے جنٹلمین تمہارے دوست ہیں ان میں سے کسی ایک سے میری شادی کرادو۔‘‘
رات کو جب میں نے تہ خانے کے کمرے کے متعلق ان سے کہا تو نہ جانے وہ کس اچھی موڈ میں تھیں کہ انہوں نے اچّھما کو سوکٹی کے متعلق یہ تک نہیں پوچھا کہ وہ کیا کرتی ہے اور ہر ہفتے کرایہ ادا کرسکے گی یا نہیں۔ چنانچہ دو تین روز میں اچھما کو سوکٹی وہاں منتقل ہوگئی۔
میرا فلیٹ چوتھی منزل پر تھا۔ دوسری منزل پر اور لوگوں کے علاوہ ایک ٹیلی ویژن ایکٹرس ایڈوینا کارلائل رہتی تھی، جس کے متعلق مسز ونگ فیلڈ مجھ سے کہہ چکی تھیں کہ میں تو اسے کبھی اپنے یہاں جگہ نہ دیتی مائی ڈیئر، مگر وہ بڑی خاندانی لڑکی ہے، بس ذرا اس کی زندگی پٹری سے اتر گئی ہے۔ میری اس سے شناسائی صرف اس حد تک تھی کہ زینے پر مڈبھیڑ ہوجاتی تو وہ مسکرا کر ہلو کہہ دیا کرتی تھی۔ مسز ونگ فیلڈ نے اطلاع دی تھی کہ اکثر وہ دن دن بھر کمرے میں اکیلی بیٹھی شراب پیا کرتی ہے۔ وہ اپنے شوہر پر بری طرح عاشق تھی۔ مگر اس نے اس بے چاری کو طلاق دے دی تھی۔ جب ہی سے اس کا یہ حال ہوگیا تھا۔
ایک رات دو بجے کے قریب مدھم سے شور سے میری آنکھ کھل گئی۔ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے پولس کانسٹیبل کھڑا تھا اور اس کے پیچھے مسز ونگ فیلڈ مارے بدحواسی کے آئیں بائیں شائیں کر رہی تھیں۔۔۔ ’’غضب ہوگیا۔۔۔ غضب ہوگیا‘‘ انہوں نے کہا۔ ایڈوینا نے تمہارے غسل خانے کی کھڑکی سے کود کر خودکشی کر لی۔۔۔!‘‘
’’میرے غسل خانے کی کھڑکی سے؟‘‘
’’ہاں، سب سے اونچی کھڑکی، بے چاری ایڈوینا کو یہی دستیاب ہوئی۔‘‘
کانسٹیبل غسل خانے کے اندر گیا۔ کھڑکی کے دونوں پٹ کھلے ہوئے تھے۔ کھڑکی کے نیچے ٹب میں ایڈوینا کا ایک سلیپر پڑا تھا۔ غسل خانے کا دروازہ لینڈنگ پر کھلتا تھا اور مس ایڈوینا کارلائل بڑے اطمینان سے اس میں داخل ہو کر نیچے کود گئی تھیں۔ میرے ذہن میں صبح کے تہلکہ پسند اخباروں کی سرخیاں کو ند گئیں۔۔۔ اب رپورٹر میرا انٹرویو کریں گے۔ اس کھڑکی اور ٹب کی تصویریں کھینچیں گی۔ اللہ جانے کیا کیا ہوگا۔۔۔ نیچے سے آوازوں کی بھنبھناہٹ بلند ہوئی۔۔۔ ’’زندہ ہے۔۔۔ زندہ ہے۔۔۔!‘‘ میں نے جھانک کر نیچے دیکھا۔ ایڈوینا کو ایمبولینس میں لٹایا جاچکا تھا۔
’’زندہ ہے۔۔۔؟‘‘ مسز ونگ فیلڈ نے ذرا مایوسی سے پوچھا اور کانسٹیبل کے ساتھ تیزی سے نیچے اتر گئیں۔
صبح کو یہ واقعہ میں نے بی بی سی کینٹین میں جملہ خواتین و حضرات کو سنایا۔ اتنے میں اقبال بھائی آگئے۔ پورا قصہ سن کر بولے، ’’کس ہسپتال میں ہے؟‘‘ میں نے بتایا۔ اس کے بعد دوسری باتیں شروع ہوگئیں۔
اس بات کو چند ہفتے ہی گزرے تھے کہ رات کے بارہ ساڑھے بارہ بجے شور سے پھر میری آنکھ کھل گئی۔ کھڑکی میں سے میں نے جھانک کر دیکھا کہ گراؤنڈ فلور کی سیڑھیوں پر اقبال بھائی دم بخود کھڑے ہیں اور مسز ونگ فیلڈ ان پر بری طرح برس رہی ہیں۔ میں گھبرا کر نیچے اتری۔ مسز ونگ فیلڈ تقریباً ہسٹریائی انداز میں چیخ رہی تھیں۔
’’مسز ونگ فیلڈ! کیا بات ہے؟‘‘ میں نے ذرا درشتی سے پوچھا۔ وہ کمر پر ہاتھ رکھ کر میری طرف مڑیں۔۔۔ ’’تم خود فیصلہ کر لو۔۔۔ جو غنڈا ہوگا اسے غنڈا ہی کہا جائے گا۔‘‘ جب انہوں نے اقبال بھائی کو غنڈا کہا تو مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے منہ پر تھپڑ لگا دیا ہو۔ اقبال بھائی سر جھکائے کھڑے تھے۔
مسز ونگ فیلڈ گرجتی رہیں۔۔۔ ’’تم کو اچھی طرح معلوم ہے کہ میرے یہاں جنٹل مین لڑکیوں کے کمرے میں رات کو نہیں ٹھہر سکتے۔۔۔ یہ میرا قانون ہے۔۔۔ ابھی میرے یہاں ایک خودکشی کی واردات ہو چکی ہے۔ مجھے اپنے مکان کی نیک نامی کا خیال بھی کرنا ہے۔ میں صرف اعلا خاندان۔۔۔‘‘
’’مسز ونگ فیلڈ! اصل بات بتائیے کیا ہے؟ آپ مسٹر سکسینہ سے کیا کہہ رہی ہیں؟‘‘ میں نے آگ بگولا ہو کر پوچھا۔
’’ان سے پوچھ رہی ہوں کہ یہ رات کے ساڑھے بارہ بجے مس کو سوکٹی کے کمرے میں کیا کر رہے تھے؟‘‘
اقبال بھائی جیسے مہذب اور وضع دار آدمی کو میری موجودگی میں ایسی لیچڑ باتیں سننا پڑ رہی تھیں۔ ان کا چہرہ غم و غصے سے سرخ ہوگیا تھا مگر وہ خاموش رہے۔ مسز ونگ فیلڈ غصے سے بے قابو ہو کر چند منٹ تک اسی طرح چلاتی رہیں۔ گیلری کے دروازے کھلے اور بند ہوئے اوپر کی منزلوں کے دریچوں میں سے سر باہر نکال کر لوگوں نے جھانکا۔ اقبال بھائی چپ کھڑے رہے۔ پھر وہ دفعتاً خاموش ہوگئیں اوراپنے کمرے میں جاکر دروازہ زور سے بند کر لیا۔
نیچے تہ خانے میں اچھّما کو سوکٹی تیز بخارمیں نیم بے ہوش پڑی تھی۔ اقبال بھائی رات کے گیارہ بجے دوا لے کر اس کے پاس پہنچے تھے اور گھنٹے بھر سے اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ اسی وقت مسز ونگ فیلڈ نے زینے کے دروازے میں جاکر چلّانا شروع کردیا تھا۔ ’’مجھے معلوم نہ تھا کہ اچّھما بیمار ہے‘‘، میں نے نادم ہو کر کہا۔ ’’میں بھی دس بجے کے بعد واپس آئی ہوں۔‘‘
’’مجھے خود معلوم نہ تھا‘‘ اقبال بھائی نے کہا۔۔۔ ’’دس بجے اس کا فون آیا کہ اس کی طبیعت بہت سخت خراب ہے۔‘‘ پھر انہوں نے آہستہ سے برساتی کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور ایک لفافہ نکال کر مجھے دیا۔۔۔ ’’اسے روپے کی ضرورت ہوگی۔ صبح کو اسے دے دینا‘‘ اتنا کہہ کر وہ سر جھکائے ہوئے سیڑھیاں اتر کر پھاٹک سے باہر چلے گئے۔ میں نے لفافہ کھولا۔ اس میں دس پاؤنڈ کے نوٹ تھے۔ یہ دس پاؤنڈ اقبال بھائی نے جانے کون کون سے جتن کر کے کمائے ہوں گے۔ میں انہیں سر جھکائے، گھسی ہوئی برساتی اوڑھے تیز تیز قدم رکھتے سنسان سڑک پر ایک طرف کو جاتا دیکھتی رہی۔
دوسرے دن میں چند ہفتے کے لیے شہر سے باہر جارہی تھی۔ واپس آکر میں ایک اور جگہ منتقل ہوگئی۔ مجھے مسز ونگ فیلڈ سے کوفت ہونے لگی تھی۔ لینڈ لیڈیاں زیادہ تر عامیانہ ہوتی ہیں۔ مگر مسز ونگ فیلڈ جس انتہائی گھٹیا انداز میں اقبال بھائی پر چیخی تھیں، اس منظر کی یاد میرے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔
اچھما کو سوکٹی تندرست ہوچکی تھی۔ اسے کہیں نوکری بھی مل گئی تھی، مگر اپنے لیے ساری دوڑ دھوپ کروانے اور اپنے کام نکلوانے کے بعد اس نے اقبال بھائی کی طرف سے یکایک سرد مہری اختیار کر لی۔ لیکن وہ وضع داری سے اس سے شناسائی نبھاتے رہے۔ ایک روز فون کی گھنٹی بجی اور ایک خاتون کی آواز آئی، ’’ہلو۔۔۔ ہلو۔۔۔ میں مسز آلوو یہارے بول رہی ہوں!‘‘
’’مسز آلوو یہارے؟‘‘ میں نے دہرایا۔ ’’ہاں! تم مجھے پہچانتی نہیں۔۔۔؟ میں تمہاری پرانی لینڈ لیڈی ہوں، سابق مسز ونگ فیلڈ۔۔۔ میری شادی ہوگئی ہے۔ آج شام کو میرے ساتھ آکر چائے پیو!‘‘
شام کو مسز آلودیہارے اپنے کمرہ نشست کے دروازے پر شاداں فرحاں مجھ سے ملیں۔ کمرے کے آتش دان پر ایک تصویر رکھی تھی، جس میں مسز آلوو یہارے اپنے عمر سے کوئی دس سال چھوٹے ایک سنگھالی آدمی کے ساتھ پھولوں کا گچھا ہاتھ میں لیے کھڑی مسکرا رہی تھیں۔ دولہا کے برابر میں اقبال بخت سکسینہ کوٹ کے کالر میں کارنیشن سجائے متبسم تھے۔ ’’مسٹر سکسینہ میرے شوہر کے بیسٹ مین تھے‘‘ مسز آلوو یہارے نے اطلاع دی۔
اقبال بھائی۔۔۔! دوسرے روز میں نے موصوف سے استفسار کیا۔
’’دیکھ مُنّی بات یہ ہوئی کہ اس رات جو وہ بی بی پنجے جھاڑکر اس بری طرح میرے پیچھے پڑ گئیں تو میں فوراً سمجھ گیا کہ وہ حد سے زیادہ فرسٹرشین اور تنہائی کی شکار ہیں۔ ان کی مدد کرنا چاہیے۔ تو نے بتایا تھا کہ وہ کالے آدمی تک سے شادی کرنے کو تیار ہیں۔ میں کولمبو کے اس آلودیہارے کو جانتا تھا، جو کسی دولت مند بیوہ کی تلاش میں تھا۔ بڑا شریف اور غریب لڑکا ہے۔ میں نے مسز ونگ فیلڈ کا پتا اسے بتا دیا۔ دونوں کی زندگی بن گئی۔ اس میں کوئی حرج ہوا میرا؟‘‘
اقبال بھائی سمیت طلبہ کا بہت بڑا جتھا سالانہ یوتھ فیسٹیول کے لیے پراگ جارہا تھا۔ اس سال پاکستانی طلبہ کو کمیونسٹ ممالک جانے کی ممانعت کر دی گئی تھی اور ان میں سے چند لوگ اس وجہ سے بہت دل گرفتہ تھے۔ وفد کے پراگ روانہ ہونے سے ایک روز قبل ایک تقریب میں مشرقی پاکستان کے ایک طالب علم نے افسوس سے کہا، ’’ہم لوگ اس سال نہیں جا سکتے۔۔۔ ادھر ورلڈ کا سارا کنٹری ہوگا۔ خالی پاکستان نہیں ہوگا۔۔۔‘‘ اقبال بھائی فوراً اس کے پاس گئے اور رسان سے بولے۔۔۔’’نور الفرقان بھائی! دل چھوٹا مت کرو۔ پاکستان کی نمایندگی میں کردوں گا۔‘‘
پراگ میں دنیا بھر سے آئے ہوئے نوجوان ایک عظیم الشان کانسرٹ میں اپنے اپنے ملکوں کے عوامی گیت گارہے تھے۔ اتنے میں اسٹیج پر خاموشی چھائی۔ ایک لڑکی نے اناؤنس کیا، ’’اب ہمارے عزیز ملک پاکستان کے نمائندے اپنے دیس کے مزدوروں کا گیت سنائیں گے۔‘‘
پاکستان کے نام پر بہت دیر تک تالیاں بجتی رہیں اور سفید کھڑکھڑاتی ہوئی شلوار، سیاہ شیروانی اور بھوے رنگ کی قراقلی سے مزین بے حد رعب داب اور وقار سے چلتے ہوئے کامریڈ اقبال بخت مائیکروفون کے سامنے آئے۔ پاکستان میں عوامی اور ترقی پسند تحریک کی ناکامی کے اسباب پر روشنی ڈالی۔ اور کہا، ’’ساتھیو! اب میں آپ کو اپنے وطن عزیز کے محنت کش طبقے کا ایک محبوب اور روح پرور گیت سناتا ہوں۔‘‘ اور بے حد پاٹ دار آواز میں انہوں نے شروع کیا،
بوجھ اٹھا لو ہیّا ہیّا
بوجھ اٹھایا ہیّا ہیّا
محل بنے گا راجا جی کا
پیٹ پلے گا ہمارا تمہارا
اونچا کر لو ہیّا ہیّا
بوجھ اٹھا لو، شیربہادر، ہیّا ہیّا
مجمع پر اس گیت کا بے انتہا اثر ہوا، اور حسب معمول سامعین نے ساتھ ساتھ آواز ملانی شروع کردی۔ مگر آگے چل کر سید مطلبی فرید آبادی کے اس مشہور گیت کے باقی بول اقبال بھائی کے ذہن سے بالکل اتر گئے۔ در اصل ان کو یاد ہی صرف تین بول تھے۔ لیکن انہوں نے بڑے اطمینان سے گانا جاری رکھا،
پیالی اٹھاؤ کیسے بھائی
ایسے بھائی ہیّا ہیّا
مچہ اٹھاؤ، چمچہ اٹھایا
ہاں ہاں بھائی ہیّا ہیّا
ہزاروں کے مجمع نے ایک ساتھ دہرا دیا،
چمچہ اٹھاؤ، چمچہ اٹھایا
ہاں ہاں بھائی ہیّا ہیّا
اس طرح جو جو الفاظ اقبال بھائی کے دماغ میں آتے گئے وہ ہیّا ہیّا کے ساتھ جوڑتے گئے اور تالیوں کے طوفان میں ان کا گیت انتہائی کامیابی کے ساتھ ختم ہوا۔
چیکو سلواکیہ سے واپسی کے کچھ دن بعد اقبال بھائی نے اطلاع دی، ’’میں نے سانپوں کا کاروبار شروع کردیا ہے۔‘‘
’’سانپوں کا کاروبار؟‘‘ میں نے دہرایا۔ مگر مجھے مطلق تعجب نہ ہوا۔ کیونکہ اقبال بھائی کچھ بھی کرسکتے تھے۔
’’کئی سو بندر بھی ہیں۔۔۔‘‘ انہوں نے ذرا انکسار سے اضافہ کیا۔ ’’دراصل۔۔۔‘‘ انہوں نے کھنکارکر کہنا شروع کیا۔۔۔ ’’بات یہ ہے منّی کہ یہ اپنے خالد صاحب جو ہیں نا، ان کے سسر مسٹر چراغ دین امریکہ کے چڑیا گھروں اور تجربہ گاہوں کو سانپ اور بندر سپلائی کرتے ہیں۔ مجھے انہوں نے اپنی فرم میں نوکر رکھ لیا ہے اور اب میں وہاں کا کام سنبھالنے امریکہ جا رہا ہوں۔‘‘
چنانچہ اقبال بھائی سانپوں کا کاروبار کرنے امریکہ چلے گئے۔ ایک روز ڈاک کے ذریعہ مجھے ایڈوینا کار لائل کا مختصر سا خط ملا، جو آئرلینڈ سے آیا تھا۔ ایڈوینا کار لائل نے لکھا تھا،
’’ساری دنیا نے مجھے چھوڑ دیا تھا۔ مجھے اپنے وجود سے نفرت ہوچکی تھی۔ میں نے موت کا سہارا ڈھونڈا۔ مگر مرنے میں بھی اپنی زندگی ہی کی طرح ناکام رہی۔ سال بھر تک میں پلاسٹر آف پیرس میں جکڑی ہسپتال میں پڑی رہی اور مسٹر سکسینہ ہر ہفتہ ہر موسم میں، ہر حالت میں گھنٹہ بھر کے لیے میرے پاس آکر بیٹھتے تھے اور سمجھاتے تھے کہ زندہ رہنے کے لیے ہمت نہ ہارنا کس قدر ضروری ہے۔ مجھے معلوم نہیں آج کل وہ کہاں ہیں؟ یہ خط میں آپ کو اس لیے لکھ رہی ہوں کہ ان کو میرا سلام پہنچا دیجیے۔۔۔‘‘
مگر مجھے بھی معلوم نہیں تھا کہ مسٹر سکسینہ آج کل کہاں ہیں، انہوں نے امریکہ پہنچ کر کسی کو ایک کارڈ تک نہ بھیجا تھا۔
میں وطن واپس آگئی۔ اقبال بھائی کے بارے میں کسی کو معلوم نہ ہوا کہ وہ کون سی وادی اور کون سی منزل میں ہیں۔ لیکن کوئی چار سال ہوئے میری ایک چچا زاد بہن تعلیم ختم کر کے سان فرانسسکو سے لوٹی تو اس نے اطلاع دی، ’’میں نے اقبال بھائی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
’’کہاں۔۔۔؟‘‘
’’ہالی وڈ میں۔۔۔ خاص الخاص بیورلی ہلز پر۔۔۔‘‘
’’بیورلی ہلز پر کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’رہتے ہیں، ایک بہت عالی شان محل میں، جس میں دو سوئمنگ پل ہیں۔ کیڈلیک کاروں کی ایک فلیٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔ مجھے انہوں نے کھانے پر بھی بلایا اپنے ہاں۔۔۔ نیگر وبٹلر۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘
راوی نے مزید یہ بتایا کہ سانپوں کے کاروبار کے لیے امریکہ پہنچنے کے تیسرے دن ہی مسٹر چراغ دین اور مسٹر اقبال بخت سکسینہ کے درمیان کچھ اختلاف رائے ہوگیا، جس کے نتیجے کے طور پر مسٹر سکسینہ کو اپنی ملازمت سے مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے بعد سنہری مواقع کے اس دیس میں موصوف انواع و اقسام کی ملازمتیں اور مزدوریاں کرتے کیلی فورینا پہنچے۔ وہاں سکھ اور پنجابی مسلمان زمین داروں کے کھیتوں پر کام کرتے رہے۔ وہاں سے ہالی وڈ تشریف لے گئے اور مشرق کے متعلق بنائی جانے والی تصویروں میں چینی رکشا والے، ہندوستانی فقیر، قلی اور سپیرے اور عرب بدّو کے ایک ایک دو دو منٹ والے رول بخیر خوبی ادا کرتے رہے۔ اور ایک ریسٹوران میں ویٹر بن گئے۔ ایک مشہور پروڈیوسر کی کروڑ پتی بیوہ اس جگہ کبھی کبھی کھانا کھانے آیا کرتی تھی، وہ لاولد اور بے حد بوڑھی عورت تھی جسے آنکھوں سے بھی کم سجھائی دیتا تھااور وہ بیورلی ہلز پر اپنے شان دار محل کے اندر شدید تنہائی میں زندہ تھی۔۔۔
ہالی ووڈ حسن اور جوانی کا پرستار ہے۔ ایک پچھتّر سالہ بوڑھی اور اندھی عورت سے دو منٹ بات کرنے کا بھی وہاں کسی کے پاس وقت نہ تھا۔ جب وہ ریسٹوران میں آکر کونے میں اپنی مخصوص میز پر بیٹھ جاتی تو اقبال بھائی بڑی محبت سے اس کی مزاج پرسی کرتے۔ ان کو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ وہ کون ہے؟ بوڑھی ان کی بے حد ممنون ہوگئی اور اس نے ان کو اپنے گھر مدعو کیا۔ پھر وہ اکثر اس کے ہاں جاتے اور اسے اخبار اور رسالے پڑھ کر سناتے۔ اس بوڑھی کی کمپینین اپنی دوسراتھ کے معاوضے میں بھاری تنخواہ لیتی تھیں۔ اقبال بھائی محض جذبۂ انسانیت کی بنا پر اس کے پاس بیٹھے رہتے۔ آخر اس نے اصرار کیا کہ وہ اس کے ہاں منتقل ہوجائیں۔ چنانچہ اقبال بھائی اب بیورلی ہلز کے اس محل میں رہتے ہیں اور بڑھیا شاید قانونی طور پر ان کو اپنا بیٹا بنانے والی ہے۔
’’اقبال بخت سکسینہ کی داستان۔۔۔‘‘ یہ ساری کتھا سن کر کسی نے کہا، ’’ کامیابی کی کلاسیک داستان ہے۔‘‘
لیکن چھ مہینے کے بعد ایک اور صاحب امریکہ سے واپس آئے۔ انہوں نے اقبال بھائی کو اسی ریسٹوران میں ویٹر کے یونی فارم میں دیکھا۔ تب یہ معلوم ہوا کہ اس کروڑ پتی بڑھیا کاانتقال ہوگیا۔ وہ کافی خبطی اور سنکی ضعیفہ تھی اور اپنی ساری دولت اس نے پیرس کے کسی سبزی فروش کے نام چھوڑی ہے۔ اقبال بھائی اپنے کام پر واپس آچکے ہیں۔
آج تیسرے پہر کو میں شاردا مہتا کے گھر کے سامنے سے گزر رہی تھی کہ اس نے مجھے آواز دی۔ وہ اسی وقت کار میں سوار ہورہی تھی۔۔۔ ’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔ میں نے بتایا، ’’میں بھی اسی طرف جارہی ہوں۔۔۔‘‘
’’آؤ، تم کو راستے میں اتار دوں گی۔۔۔ ست سنگ کا سمے تین بجے کا تھا۔ مجھے دیر ہوگئی۔‘‘
شاردا مہتا ایک سیدھی سادی، نارمل، مذہبی قسم کی ہاؤس وائف ہے اور جب سے اس کی اکلوتی بیٹی پولیو میں مبتلا ہوئی ہے، پوجا پاٹ، مندروں، یاتراؤں، سادھو سنتوں، پیروں فقیروں، درگاہوں اور منتوں مرادوں کا سلسلہ اس کے یہاں بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ یوں بھی وہ ان لوگوں میں سے ہے، جن کی خوش عقیدگی، بھروسے، یقین اور رجائیت کی بِنا پر دنیا قائم ہے۔
مضافات میں پہنچ کر ایک جگہ ایک گجراتی سیٹھ کی شاندار ولا میں شاردا کی کار داخل ہوئی۔ ست سنگ ختم ہوچکا تھا اور موٹریں واپس جارہی تھیں۔ ’’ارے۔ تمہارا ست سنگ تو ختم ہوگیا‘‘، میں نے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں۔ میں گورو جی کے درشن تو کر لوں گی۔ وہ کل سویرے امرناتھ جارہے ہیں۔ مجھے پانچ منٹ لگیں گے۔ تم بھی اتر آؤ‘‘، اس نے جواب دیا۔
سامنے برآمدے میں ایک غیر ملکی خاتون سفید ساڑی میں ملبوس چندن کا بڑا سا ٹیکا پیشانی پر لگائے فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھی چند خواتین کو گیتا کا سبق دے رہی تھیں۔ ان کی عمر چالیس پینتالیس برس کی رہی ہوگی اور لب و لہجے سے امریکن معلوم ہوتی تھیں۔۔۔ شاردا نے نزدیک جاکر ان کو پرنام کیا۔ ’’یہ ماتا جی ہیں‘‘، اس نے چپکے سے مجھ سے کہا اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔
دہلیز پر چپّل اتار کر اور آنچل سے سر ڈھانپ کر میں بھی اندر گئی۔ کمرے میں سفید چاندنی بچھی تھی جس پر جابجا گیندے کے پھول اور گلاب کی پنکھڑیاں بکھری ہوئی تھیں۔ عقیدت مند ابھی ابھی اٹھ کر گئے تھے، اس لیے چاندنی پر سلوٹیں پڑیں تھیں۔ ایک طرف ہارمونیم، کھڑتالیں اور تان پورے رکھے تھے۔ چوکی پر سفید براق کپڑے پہنے کھچڑی بالوں کی لٹیں کندھے پر چھٹکائے گوروجی پدم آسن میں بیٹھے تھے۔ گیتا کا درس انہوں نے ابھی ختم کیا تھا۔ کتاب چوکی پر رکھی تھی اور وہ خاموشی سے دریچے کے باہر دیکھ رہے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر قطعاً تعجب نہ ہوا کہ وہ اقبال بخت سکسینہ تھے۔
انہوں نے شاید ایک بار پھرمجھے نہیں پہچانا۔ اگر پہچانا تو ظاہر نہیں کیا۔ چند لمحوں تک ٹکٹی باندھے وہ مجھے دیکھتے رہے۔ پھر اسی طرح انہوں نے خلا پر نظریں جمادیں۔ شاردا نے جھک کر انتہائی عقیدت سے ان کے پاؤں چھوئے اور پیچھے ہٹی اور اس نے آنکھوں سے مجھے اشارہ کیا کہ میں اس کے ساتھ باہر چلوں، کیونکہ وہ درشن کرچکی تھی۔ لیکن شاردا کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ میں آہستہ سے آگے بڑھی اور میں نے جھک کر گوروجی کے پاؤں چھوئے۔
بچپن میں اقبال بھائی نے میرے کان اینٹھے تھے۔ ڈانٹ ڈانٹ کر انتہائی سخت گیری اور محنت سے پڑھنا لکھنا سکھایا تھا۔ اور استاد کا رتبہ ماں باپ کے برابر ہوتا ہے۔ وہ دنیا کے لیے جانے کس چکّر میں اور کس طریقے سے ’گروجی‘ بن گئے تھے۔ لیکن ان کو گروجی سمجھنے کا حق صرف مجھے پہنچتا تھا۔
انہوں نے ہاتھ اٹھا کر خاموشی سے مجھے آشیرواد دی اور اسی طرح سامنے کی طرف دیکھتے رہے۔ میں نے دبے پاؤں دہلیز تک پہنچ کر چپّل پہنی اور شاردا کے ساتھ باہر آگئی۔ اب مردوں اور عورتوں کی ایک قطار درشن کے لیے اندر جا رہی تھی۔
اور برآمدے سے اترتے ہوئے میں نے سوچا کہ اگر میں ان سے سوال کرتی‘‘، اقبال بھائی! آپ نے اب کی بار اتنا لمبا چوڑا فراڈ کیوں کیا۔۔۔؟‘‘ تو وہ جواب دیتے، ’’دیکھ منّی! دنیا شانتی کی تلاش میں دیوانی ہوگئی ہے۔۔۔ اب اگر میں اس بھیس میں چند دکھی آتماؤں کو تھوڑی سی شانتی دے سکتا ہوں تو اس میں میرا کیا حرج ہے؟‘‘
اور کیا معلوم اقبال بھائی خود بھی مکتی کے راستے پر پہنچ گئے ہوں۔ اپنے دل کا بھید وہ خود جانیں۔۔۔ دوسرے جاننے والے کون۔۔۔؟
مأخذ : قرۃ العین حیدر کی منتخب کہانیاں
مصنف:قرۃ العین حیدر