کہانی کی کہانی:’’یہ مشترکہ تہذیب کے بکھرنے کی کہانی ہے۔ اس مشترکہ تہذیب کی جسے برصغیر میں رہنے بسنے والوں کی صدیوں کے میل جول اور یکجہتی کا نمونہ مانا جاتا ہے۔ اس کہانی میں رشتوں کے ٹوٹنے، خاندانوں کے بکھرنے اور ماضی کے بہترین انسانی قدروں کے پامال ہونے کی ٹریجڈی کو پیش کیا گیا ہے۔‘‘
سندر لالہ۔ سجے دلالہ۔ ناچے سری ہری کیرتن میں۔
ناچے سری ہری کیرتن میں۔
ناچے۔
چوکھٹ پر اکڑوں بیٹھی رام رکھی نہایت انہماک سے چاول صاف کررہی تھی۔ اس کے گانے کی آواز دیر تک نیچے گموں والی سنسان گلی میں گونجا کی۔ پھر ڈاکٹر آفتاب رائے صدر اعلیٰ کے چبوترے کی اور سے بڑے پھاٹک کی سمت آتے دکھلائی پڑے۔
’’بندگی بھین صاحب۔۔۔‘‘ رام رکھی نے گھونگھٹ اور زیادہ طویل کرکے آواز لگائی۔’’بندگی۔۔۔ بندگی۔۔۔‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے نے زینے پر پہنچتے ہوئے بے خیالی سے جواب دیا۔
’’راجی کھسی ہو بھین صاحب۔۔۔‘‘ رام رکھی نے اخلاقاً دریافت کیا۔’’اور کیا۔۔۔ مجھے کیا ہوا ہے جو راضی خوشی نہ ہوں گا۔ یہ سوپ ہٹا بیچ میں سے‘‘ انہوں نے جھنجھلا کر کہا، ’’بھین صاحب ناج پھٹک رہی تھی۔‘‘
’’توناج پھٹکنے کے لیے تجھے گاڑی بھر راستہ چاہئے۔ چل ہٹا سب چیز۔۔۔‘‘
ڈاکٹر آفتاب رائے نے دنیا بھر کی ڈگریاں تولے ڈالی تھیں۔ لیکن حالت یہ تھی کہ ذری ذری سی بات پر بچوں کی طرح خفا ہوجایا کرتے تھے۔ رام رکھی پر برستے ہوئے وہ اوپر آئے اور مونڈھے پر پیرٹکا کر انہوں نے اپنی بہن کو آواز دی۔۔۔ جیجی۔۔۔ جی ای ای۔۔۔ جی ای ای ای۔۔۔ (چھوراہے اب تلک مورا بھین۔۔۔ ہیم کرن پیار سے کہا کرتیں)
دالان کے آگے کھلی چھت پر نیم کی ڈالیاں منڈیر پر جھکی پچھوا ہوا میں سرسرا رہی تھیں۔ شام کی گہری کیفیت موسم کی اداسی کے ساتھ ساتھ سارے میں بکھری تھی۔ دن بھر نیچے مہوا کے باغ میں شہد کی مکھیاں بھنبھنایا کرتیں۔ اور ہر چیز پر غنودگی ایسی چھائی رہتی۔ آم اب پیلے ہوچلے تھے۔’ٹھکرائن کی بگیا‘ میں صبح سے لے کر رات گئے تک روں روں کرتا رہٹ چلا کرتا۔
’’آوت ہن بھین صاحب۔۔۔‘‘ ہیم کرن نے دالان کا پیتل کے نقش و نگار والا کواڑ کھولتے ہوئے غلے کے گودام میں سے باہر آکر جواب دیا۔ اورکنجیوں کا گچھا ساری کے پلو میں باندھ کر چھن سے پشت پر پھینکتی ہوئی صحنچی میں آگئیں۔
’’جے رام جی کی بھین صاحب۔۔۔‘‘ رسویے نے چوکے میں سے آواز لگائی۔۔۔’’کٹہل کی ترکاری کھیٔو بھین صاحب۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔ ہاں ضرور کھیبابھائی۔۔۔‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے مونڈھے پر سے ہٹ کر ٹہلتے ہوئے تلسی کے چبوترے کے پاس آگئے۔صحنچی میں رنگ برنگی مورتیاں سا لگ رام سے لے کر بجرنگ بلی مہراج تک سیندورسے لپی پتی اور گنگاجل سے نہائی دھوئی قرینے سے سجی تھیں۔ ہیم کرن تھیں تو بڑی سخت رام بھگت، لیکن باقی کے سبھی دیوی دیوتاؤں سے سمجھوتہ رکھتی تھیں کہ نہ جانے کون کس سمے آڑے آجائے۔ سب سے بنائے رکھنی چاہئے۔ ابھی سرین اور راما کانت کھیل کے میدان سے لوٹیں گے۔ آٹھ بجے کھیما کتھک کے توڑے سیکھ کر جمنا مہراج کے ہاں سے واپس آئے گی۔ پھر چوکے میں کھانا پروسا جائےگا (پیتل کے برتن ٹھنڈی چاندنی میں جھلملائیں گے۔ نیچے آنگن میں رام رکھی کوئی کجری شروع کردے گی)یہاں پر بالآخر امن تھا۔ اور سکون۔
اب کھیم نیچے پکی گلیارے میں سے چلتی ہوئی اوپر آرہی تھی۔ ٹھکرائن کی بگیا میں سے ابھی اس نے کروندے اور کمر کھیں اور مکوہ توڑ کر جلدی جلدی منہ میں ٹھونسے تھے۔ دھاکر دادھی ناکت تا۔۔۔ دھاکردا۔۔۔ اس نے کھتک کے بول دہرائے۔۔۔ ارے باپ رے اس نے منڈیر پر سے اوپر جھانک کر دمینتی سے کہا۔۔۔ ماما آئے ہیں۔ بھاگ جا ورنہ ما ما مجھے ماریں گے کہ ہر سمے کھیلتی ہے۔۔۔ دمینتی بھاگ گئی۔
کھیم چھت پر آئی۔ لمبے سے ڈھیلے ڈھالے فراک میں ملبوس، جس پر موتیوں سے خوب تتلیاں اور پھول پتے بنے تھے، خوب کھینچ کر بالوں کی مینڈھیاں گوندھے، ہاتھوں میں چھنا چھن چوڑیاں بجاتی کھیم وتی رائے زادہ اپنے اتنے پیارے اور اتنے سندر ماما کو دیکھ کر بے حد خوش ہوئی۔
’’نمستے ماما۔۔۔ابھی کتابیں لاتی ہوں بس ذرا منہ ہاتھ دھو آؤں۔۔۔‘‘
’’چل چڑیل۔۔۔ بہانے باز۔۔۔ سبق سنا پہلے۔۔۔‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے نے پیارسے کہا (لیکن یہ کچھ تجربہ انہیں تھا کہ اپنے سے کم عمر لوگوں سے اور کنبے برادری والوں سے یہ گھر گرہستی اور لاڈ پیار کے مکالمے وہ زیادہ کامیابی سے ادا نہ کرپاتے تھے)
’’تجھے تو میں انٹرمیڈیٹ میں بھی حساب دلاؤں گا۔ دیکھتی جا۔۔۔‘‘ (انہوں نے پھر ماما بننے کی سعی کی، ’’ارے باپ رے۔۔۔! کھیم نے مصنوعی خوف کا اظہار کیا۔‘‘
’’اور تو نے چوڑیاں تو بڑی خوب صورت خریدی ہیں ری۔۔۔‘‘
’’ہی ہی ہی۔۔۔ ما ما۔۔۔‘‘ کھیم نے دلی مسرت سے اپنی چوڑیوں کو دیکھا، ’’اور تو ساری بھی تو پہنا کر کہ فراک ہی پہنے پھرے گی۔۔۔ باؤلی سی۔۔۔‘‘ (انہوں نے اپنی بزرگی کا احساس خود اپنے اوپر طاری کرنا چاہا۔)
جی ما ما۔۔۔ کھیم کے ذہن میں وہ ساریاں جھما جھم کرتی کوند گئیں جو ماں کے صندوقوں میں ٹھنسی تھیں۔ وہ تو خدا سے چاہتی تھی کہ کل کی پہنتی آج ہی وہ ساریاں پہن ڈالے۔ مگر ہیم کرن ہی پر انگریزیت سوار تھی۔ ایک تو وہ یہ نہیں بھولی تھیں کہ تھیں تو وہ جونپور کے اس ٹھیٹھ، دقیانوسی سریواستوا گھرانے کی بیٹا۔۔۔ پر ان کا بیاہ ہوا تھا۔ الٰہ آباد کے اتنے فیشن ایبل کنبے میں جس کے سارے افراد سول لائنز میں رہتے تھے۔ اور جوتے پہنے پہنے کھانا کھاتے تھے۔ اور مسلمانوں کے ساتھ بیٹھ کر چائے پانی پیتے تھے۔ اور ودھوا ہوئے ان کو اب سات برس ہونے کو آئے تھے اور تب سے وہ میکے ہی میں رہتی تھیں۔ لیکن محلے پر ان کا رعب تھا۔ کیوں کہ وہ الٰہ آباد کے رائے زادوں کی بہو تھیں۔۔۔
دوسرے یہ کہ یہ فراک کا فیشن ڈاکٹر سین گپتا کے ہاں سے چلا تھا۔ ڈاکٹر سین گپتا ضلع کے سول ہسپتال کے اسسٹنٹ سرجن تھے۔ اور ہسپتال سے ملحق ان کے پیلے رنگ کے اجاڑ سے مکان کے سامنے ان کی پانچوں بیٹیاں رنگ برنگے فراک پہنے دن بھر اودھم مچایا کرتیں۔ شام ہوتی تو آگے آگے ڈاکٹر سین گپتا دھوتی کا پلا نہایت نفاست سے ایک انگلی میں سنبھالے، ذرا پیچھے ان کی بی بی سرخ کنارے والی سفید ساڑی پہنے، پھر پانچوں کی پانچوں لڑکیاں سیدھے سیدھے بال کندھوں پر بکھرائے چلی جارہی ہیں، ہوا خوری کرنے۔ افوہ کیا ٹھکانہ تھا بھلا۔ بس ہر بنگالی گھرانے میں یہ لڑکیوں کی فوج دیکھ لو۔
ہیم کرن کو ڈاکٹر سین گپتا سے بڑی ہمدردی تھی۔ کھیم کی ان سب سے بہت گھٹتی تھی۔ خصوصاً موندیرا سے، اور اسکول کے ڈرامے کے دنوں میں تو بس کھیم اور موندیرا ہی سب پر چھائی رہتیں۔ کیا کیا ڈرامے مہادیوی کنیا پاٹھ شالہ نے نہ کر ڈالے۔۔۔ ’نل دمینتی‘۔ اور شکنتلا ہریش چندر، اور ’راج رانی میرا۔۔۔‘ اور اوپر سے ڈانس الگ۔۔۔ گربا بھی ہو رہا ہے کہ آر تیرے گنگا پارٹیرے جمنا بیچ میں ٹھاڑے ہیں نند لال۔۔۔ اور آپ کا خدا بھلا کرے رادھا کرشنا ڈانس بھی لیجئے کہ میں تو گردھر آگے ناچوں گی۔ جی ہاں اور وہ گکری والا ناچ بھی موجود ہے کہ چلو چلو سکھی سکھیاری ری چلو پنگھٹ بھروا پانی۔۔۔ اور ساتھ ساتھ موندیرا سین گپتا ہے کہ فراٹے سے ہار مونیم بجا رہی ہے۔
ایسے ہونے کو تومسلمانوں کا بھی ایک اسکول تھا۔ انجمن اسلام گرلز اسکول۔ وہاں یہ سب ٹھاٹھ کہاں۔ بس بارہ وفات کی بارہ وفات میلاد شریف ہوجایا کرتا۔ اس میں کھڑے ہو کر لڑکیوں نے خاصی بے سری آوازوں میں پڑھ دیا، ’’تم ہی فخر انبیاء ہو۔ یا نبی سلام علیک۔۔۔ چلیے قصہ ختم‘‘ ایک مرتبہ ایک سر پھری ہیڈ مسٹرس نے جو نئی نئی لکھنؤ سے آئی تھی۔ ’روپ متی باز بہادر‘ خواتین کے سالانہ جلسے میں اسٹیچ کروا دیا توجناب عالی لوگوں نے اسکول کے پھاٹک پر کمپٹنگ کرڈالی۔ اور روز نامہ صدائے حق نے پہلے صفحے پر جلی حروف میں شائع کیا، ’’ملت اسلامیہ کی غیرت کا جنازہ۔ گرلز اسکول کے اسٹیج پر نکل گیا۔‘‘
مسلمانو! تم کو خدا کے آگے بھی جواب دینا ہوگا۔ بنا ت اسلام کو رقص و سرور کی تعلیم۔ اسکول کو بند کرو۔ (یہ سب قصے کھیم کی مسلمان سہیلی کشوری اسے سنایا کرتی تھی جو پڑوس میں رہتی تھی) صدر اعلیٰ کے چبوترے کے آگے والے مکان میں وہ اسلامیہ گرلز اسکول میں پڑھتی تھی۔ اس کا بڑا بھائی اصغر عباس، سرین اور رما کانت کے ساتھ ہاکی کھیلنے آیا کرتا تھا۔ ویسے پڑھتے وہ لوگ بھی الگ الگ تھے۔ سرین اور رما کانت ڈی اے وی کالج میں تھے۔ اصغر عباس فیض اسلام کنگ جارج انٹر کالج میں۔
’’کیوں ری۔ ایف اے کرنے کہاں جائے گی۔ جولائی آرہی ہے۔ بنارس جائے گی یا لکھنؤ۔۔۔؟‘‘ ڈاکٹر آفتاب رائے نے چوکے میں بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔
اب یہ ایک ایسا ٹیڑھا اور اچانک سوال تھا۔ جس کا جواب دینے کے لیے کھیم وتی ہرگز تیار نہ تھی۔ دونوں جگہوں سے متعلق اسے کافی انفرمیشن حاصل تھی۔ لیکن دو ٹوک فیصلہ وہ فی الحال کسی ایک کے حق میں نہ کرسکتی تھی۔ بنارس میں ایک تو یہ کہ چوڑیاں بہت عمدہ ملتی تھیں۔ لیکن لکھنؤ کو بھی بہت سی باتوں میں فوقیت حاصل تھی۔ مثلاً سنیما تھے۔ اور دس سنیماؤں کا ایک سنیما تو خود مہیلا ودیالہ تھا۔ جہاں اسے بھیجنے کا تذکرہ ماما نے کیا تھا۔ پردہ غالباً اسے بہر صورت ہر جگہ کرنا تھا۔ تانگے پر پردہ یہاں بھی ہیم کرن اپنے اور اس کے لیے بندھواتی تھیں۔ اور ماما جو اتنا بڑا ڈنڈا لیے سر پر موجود تھے۔
یہ ماما اس کے آج تک پلّے نہ پڑے۔ ولایت سے ان گنت ڈگریاں لے آئے تھے۔ یونی ورسٹی میں پروفیسری کرتے تھے۔تاریخ پر کتابیں لکھتے تھے۔ فارسی میں شعر کہتے تھے۔ چوں چوں کا مربہ تھے کھیم کے ماما۔
رہے رما کانت اور سرین۔ تو رما کانت تو شاعرآدمی تھا۔ سارے مقامی مشاعروں میں جاکر وہ غزلے، سہ غزلے پڑھ ڈالتا۔ اور حضرت ناشاد جون پوری کے نام نامی سے یاد کیا جاتا۔ سرین اس کے برعکس بالکل انجینئر تھا۔ اس سال وہ بھی انٹر کر کے بنارس انجینئرنگ کالج چلا جائے گا۔ باقی کے سارے کنبے برادری کے بہن بھائی یوں ہی بکواس تھے۔ اس سلسلے میں اس کی گوئیاں کشوری یعنی کشور آرا بیگم کے بڑے ٹاٹھ تھے۔ اس کے بے شمار رشتے کے بھائی تھے اور سب ایک سے ایک سورما۔ یہاں کسی کے سورما پنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ کسی نے آج تک اس سے یہ نہ کہا کہ چل کھیم تجھے سرکس یانو ٹنکی ہی دکھلا دیں۔۔۔ (نوٹنکی کے دنوں میں رسویا تک لہک لہک کر گاتا۔۔۔ اب یہی ہے میں نے ٹھانی۔۔۔ لاؤں گا نوٹن کی رانی۔۔۔) کہاں کشوری کے ماجد بھائی ہیں تو اس کے لیے لکھنؤ سے چوڑیاں لیے چلے آتے ہیں۔ اکرام بھائی ہیں تو کشوری ان کے لیے جھپا جھپ پل اوور بن رہی ہے۔ اشفاق بھائی ہیں تو کشوری کو بیٹھے انگریزی شاعری پڑھا رہے ہیں۔ ان بھائیوں اور کھیم کے بھائیوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ کہاں کی چوڑیاں اور پل اوور۔ یہاں تو جوتیوں میں دال بٹتی تھی۔
ہیم کرن کو گھر کے کام دھندوں ہی سے فرصت نہ ملتی۔ آفتاب رائے ان کے لیے بڑا سہارا تھے۔ وہ ہر تیسرے چوتھے مہینے لکھنؤ سے آکر مل جاتے۔ رہنے والے ان کے بھین صاحب جون پور ہی کے تھے۔ پر یہاں ان کی کسی سے ملاقات نہ تھی۔ ’ضلع کے رؤساء اور مقامی عمائدین شہر‘ میں ان کا شمار تھا۔ پر آپ کا خیال اگر یہ ہے کہ ڈاکٹر اافتاب رائے جون پور کے ان معززین کے ساتھ اپنا وقت خراب کریں گے تو آپ غلطی پر ہیں۔ حکام سے ان کی کبھی نہ بنی۔ انٹلکچوئیل آدمی تھے۔ ان سول سروس اور پولس والوں سے کیا دماغ سوزی کرتے۔
جگن ناتھ جین آئی سی ایس جب نیا نیا حاکم ضلع ہو کر آیا تو اس نے کئی بار ان کو کلب میں بلا بھیجا۔ پر یہ ہرگز نہ گئے۔ رئیس الدین کاظمی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے دعوت کی۔ اس میں بھی نہ پہنچے۔ اور تواور ولایت واپس جاتے وقت مسٹر چارلس مارٹن نے کوئین وکٹوریہ گورنمنٹ انٹر کالج کی پرنسپل شپ پیش کی۔ لیکن کھیم کے ماما نے اسے بھی رد کردیا۔ یوں تو خیر کانگریسی ہونا کوئی خاص بات نہیں۔ شہر اور قصبہ جات کا ہر ہندو جو سرکاری ملاز م نہ تھا گھر پر ترنگا لگاتا تھا اور ہر مسلمان کے اپنے دسیوں مشغلے تھے۔ احرار پارٹی تھی، شیعہ کانفرنس تھی، ڈسٹرکٹ کانگریس کمیٹی میں مسلمان بھرے ہوئے تھے۔ مسلم لیگ کا تو خیر اس وقت کسی نے نام بھی نہ سنا تھا، پر بہت سے مسلمان اگر انصاف کی پوچھئے تو کچھ بھی نہ تھے، یا شاعری کرتے تھے۔ یا مجلسیں پڑھتے تھے۔
تو کہنے کا مطلب یہ کہ کوئی ایسی تشویش ناک بات نہ تھی۔ پر ڈاکٹر آفتاب رائے کی زیادہ تر لوگوں سے کبھی نہ پٹی۔ ارے صاحب یہاں تک سنا گیا ہے کہ تری پورہ کانگریس کے موقع پر انہوں نے سب کو کھری کھری سنا دی۔ گو یہ راوی کو یاد نہیں کہ انہوں نے کیا کہا تھا۔
ضلع کی سوسائٹی جن عنا صر پر مشتمل تھی۔ انہیں سے ڈاکٹر آفتاب رائے کوسوں دور بھاگتے تھے۔ وسط شہر میں مہاجنوں، ساہو کاروں اور زمین داروں کی اونچی حویلیاں تھیں۔ یہ لوگ سرکاری فنڈوں میں ہزاروں روپیہ چندہ دیتے۔ اسکول کھلواتے، مجرے اور مشاعرے اور دنگل کرواتے۔ جلسے جلوس اور سر پھٹول بھی ان ہی کی زیر سرپرستی منعقد ہوتے۔ ہندو مسلمانوں کا معاشرہ بالکل ایک سا تھا۔ وہی تیج تہوار۔ میلے ٹھیلے۔ محرم، رام لیلا، بالے میاں کی برات۔ پھر وہی مقدمے بازیاں۔ موکل، گواہ، پیشکار، سمن، عدالتیں، صاحب لوگوں کے لیے ڈالیاں۔
شہر کے باہر ضلع کا ہسپتال تھا۔ لق ودق ہری گھاس کے میدانوں میں بکھری ہوئی اداس پیلے رنگ کی عمارتیں۔ کچے احاطے۔ نیم کے درختوں کی چھاؤں میں آؤٹ ڈور، مریضوں کے ہجوم۔گرد آلود یکوں کے اڈے۔ سڑک کے کنارے بیٹھے ہوئے دو دو آنے میں خط لکھ کر دینے والے بہت بوڑھے اور شکستہ حال منشی جو دھاگوں والی عینکیں لگائے دھندلی آنکھوں سے راہ گیروں کو دیکھتے۔ پھر گلیاں تھیں جن کے گموں کے فرش پر پانی بہتا تھا۔ سیاہی مائل دیواروں پر کوئلے سے اشتہار لکھے تھے۔ حکیم مارکہ دھاگہ خریدیئے۔ پری برانڈ بیٹری پیو۔ ایک پیسہ باپ سے لو۔۔۔ چائے جاکر ماں کو دو۔۔۔ آگیا۔ آگیا۔ آگیا۔۔۔ سال رواں کا سنسنی خیز فلم ’لہری راجہ‘ آگیا، جس میں مش مادھوری کام کرتی ہے۔۔۔
پھر سایہ دار سڑکوں کے پرے آم اورمولسری میں چھپی ہوئی حکام ضلع کی بڑی بڑی کوٹھیاں تھیں۔ انگریزی کلب تھا۔ جس میں بے اندازہ خنکی ہوتی۔ چپ چاپ اور سائے کی طرح چلتے ہوئے مودب اور شائستہ ’بیرے‘ انگریز اور کالے صاحب لوگوں کے لیے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور برف کی بالٹیاں لاکر گھاس پر رکھتے، نیلے پردوں کی قناتوں کے پیچھے ٹینس کی گیندیں سبزے پر لڑھکتی رہتیں۔
اور سول لائنز کی اس دنیا میں اوپر سے آئی کنول کماری جین جگن ناتھ جین، آئی سی ایس کی بالوں کٹی بیوی جس نے لکھنؤ کے مشہور انگریزی کالج ازابلا تھوبرن میں پڑھا تھا اور جو گیند بلا کھیلتی تھی۔ کلب میں بڑی چہل پہل ہوگئی۔ گنتی کی کل تین تو میمیں ہی تھیں کلب میں۔ کوئین وکٹوریہ گورنمنٹ انٹر کالج کے انگریز پرنسپل کی میم ایک۔ زنانہ ہسپتال کی بڑی ڈاکٹرنی میم مس مک کنزی دو۔ اور اے پی مشن گرلز ہائی اسکول کی بڑی استانی مس سالفرڈ جو چن چنیامیم کہلاتی تھی کہ نوکروں پر چلاتی بہت تھی۔ ان تین کے علاوہ ڈاکٹر نی میم کی چھوٹی بہن مس اولیومک کنزی تھی۔ جو اپنی بہن سے ملنے نینی تال سے آئی ہوئی تھی اور ضلع کے غیر شادی شدہ حکام کے ساتھ ٹنس کھیلنا اس کا خاص مشغلہ تھا اوراس میں ایسا کچھ اس کا جی لگا تھا کہ اب واپس جانے کا نام نہ لیتی تھی۔
شام ہوتے ہی وہ کلب میں آن موجود ہوتی اور وے مسٹر سکسینہ اور وے مسٹر فرحت علی۔ اور وے مسٹر پانڈے۔ سبھی تو اس کے چاروں طرف کھڑے دانت نکھو سے ہنس رہے ہیں۔ اس ایک مسیانے بھائی لوگوں کو تگنی کا ناچ نچا رکھا تھا۔ باقی ماندہ حضرات بھی کہتے تھے کہ میاں کیا مضائقہ ہے۔ جون پور ایسی ڈل جگہ پر مس مک کنزی کا دم ہی غنیمت جانو۔ اب غور کرنے کا مقام ہے کہ مس شبیرہ حمایت علی جو دوسری لیڈی ڈاکٹر تھیں ان کا تو نام سن کر ہی جی بیٹھ جاتا تھا۔ مگر وہ خود بے چاری بڑی اسپورٹنگ آدمی تھیں۔ برابر جی داری سے ٹینس کھیلنے آیا کرتیں۔ لکھنؤ کے کنگ جارجز کی پڑھی ہوئی تھیں۔ لندن جا کر ایک ٹھو ڈ پلوما بھی مار لائی تھیں، لیکن کیا مجال جو کبھی بد دماغی دکھلا جاویں۔ لوگ کہتے تھے۔ صاحب بڑی شریف ڈاکٹر نی ہے۔ بالکل گائے سمجھئے، گائے۔ جی ہاں اب یہ دوسری بات ہے کہ آپ یہ توقع کریں کہ ہر لیڈی ڈاکٹر افسانوں اور ناولوں کی روایت کے مطابق بالکل حور شمائل مہ وش پری پیکر ہو۔ اچھی آدمی کا بچہ تھیں۔ بلکہ ایک مرتبہ تو ڈسٹرکٹ جج مسٹر کاظمی کی بیگم صاحب نے مسٹر فرحت علی سے تجویز بھی کی تھی کہ بھیا آزادی کا زمانہ ہے، مس شبیرہ ہی سے بیاہ کر لو۔ یہ جو سال کے سال چھٹیوں میں تمہاری اماں تمہیں لڑکیاں دیکھنے کے لیے نینی تال مسوری بھیجا کرتی ہیں۔ اس درد سرسے بھی نجات ملے گی اور کیا۔
راوی کہتا ہے کہ فرحت علی نے جو ان دنوں بڑے معرکے کا سپرنٹنڈنٹ پولس لگا ہوا تھا۔ بیگم کاظمی کے سامنے کان پکڑ کر اٹھک بیٹھک کی تھی۔ اور تھر تھر کانپا تھا۔ اور دست بستہ یوں گویا ہوا تھا کہ آئندہ وہ مس شبیرہ حمایت سے جو گفتگو کرے گا۔ وہ صرف چار جملوں پر مشتمل ہوگی۔آداب عرض۔ آپ اچھی طرح سے ہیں؟ جی ہاں میں بالکل اچھی طرح ہوں۔ شکریہ، آداب عرض۔
مصیبت یہ تھی کہ جہاں کسی شامت کے مارے نے کسی ’غیر منسلک‘ خاتون محترم سے سوشل گفتگو کے دوران میں ان چار جملوں سے تجاوز کیا تو بس سمجھ لیجئے ایکٹی وٹی ہو گئی۔
تو غرض یہ کہ راوی دریا کویوں کوزے میں بند کرتا ہے کہ کنول کماری کے میاں کا تقرر اس جگہ پر ہوا (انگریز حاکموں کی اصطلاح میں صوبے کا ضلع اسٹیشن کہلاتا تھا)
اور نئے حاکم ضلع کے اعزاز میں کنور نرنجن داس رئیس اعظم جون پور نے (کہ یہ سارا کا سارا ایک نام تھا) اپنے باغ میں بڑی دھوم کی دعوت کی۔ چبوترے پر زر تار شامیانہ تانا گیا۔ رات گئے تک جلسہ رہا۔ بیبیوں کے لیے اندر علاحدہ دعوت تھی۔ مصرانیوں نے کیا کیا کھانے نہ بنائے۔ مسلمان مہمانوں کے لیے باؤلے ڈپٹیوں کے وہاں سے باورچی بلوائے گئے تھے ( باؤلے ڈپٹیوں کا ایک خاندان تھا۔ جس میں عرصہ ہوا ایک ڈپٹی صاحب کا دماغ چل گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ پورا خاندان باؤلے ڈپٹیوں کا گھرانا کہلاتا تھا) کہار آواز لگاتے۔ اجی باؤلے ڈپٹیوں کے ہاں سے سواریاں آئی ہیں اتروالو۔ مہریوں سے کہا جاتا، ارے باؤلے ڈپٹیوں کے ہاں نیوتہ دیتی آنا ری رام رکھی۔ جھاڑو ڈپیٹی۔
ہیم کرن ایسے تو کہیں آتی جاتی نہ تھیں۔ پر رانی نرنجن داس کی زبردستی پر وہ بھی دعوت میں آگئی تھیں۔ کلکٹر کی بیوی، سے ملنے کے لیے عمائدین شہر کی بیویوں نے کیا کیا جوڑے نہ پہنے تھے۔ لیکن جب خود کنول کماری کو دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ تو پوری میم ہے۔ غضب خداکا ہاتھوں میں چوڑیاں تک نہ تھیں۔ ناک کی کیل تو گئی چولہے بھاڑ میں، ہلکے نیلے رنگ کی ساڑی سی پہنے، گاؤ تکیے سے ذرا ہٹ کر بیٹھی، وہ سب سے مسکرا مسکرا کر باتیں کرتی رہی۔
’’اے لو بیٹا تم نے تو سہاگ کی نشانی ہی کو جھاڑو پیٹے فیشن کی بھینٹ کردیا۔‘‘ صدر اعلیٰ کی بیگم نے ناک پہ انگلی رکھ کر اس سے کہا، ’’اے ہاں سچ تو ہے۔ کیا ڈنڈا ایسے ہاتھ لیے بیٹھی ہو۔ دور پار چھائیں پھویں دیکھے ہی سے ہول آتا ہے!‘‘ بیگم کاظمی نے بھی صاد کیا۔
کھیم کی توبہرحال آج عید تھی۔ اس نے تیز جامنی رنگ کی بنارسی ساری باندھی تھی۔ پاؤں میں رام جھول پہنے تھے۔ سونے کی کردھنی اور دوسرے سارے گہنے پاتے علاحدہ کندن کا چھپکا تو کشوری بھی پہن آئی تھی۔ لیکن کشوری کی اماں (جو محلے میں بڑی بھاوج کے نام سے یاد کی جاتی تھیں) بن بیاہی لڑکیوں کے زیادہ سنگار پٹار کی قطعی قائل نہ تھیں۔ ان کے یہاں تو لڑکیاں بالیاں مانگ تک بالوں میں نہ کاڑھ سکتی تھیں۔ پر اب زمانے کی ہوا کے زیر اثر نئی پود کی لڑکیوں نے سیدھی اور آڑی مانگیں کاڑھنی شروع کردی تھیں۔ کھیم دور سے بیٹھی کنول کماری کو دیکھتی رہیں۔ کتنی سندر ہے اور پھر ایم اے پاس۔ ایم اے پاس لڑکی کھیم اور کشوری کی نظروں میں بالکل دیوی دیوتا کا درجہ رکھتی تھی۔
کنول کماری جین ساری مہمان بیبیوں سے ہنس ہنس کر سخت خوش اخلاقی سے گفتگو کرنے میں مصروف تھی (اور ساری حاضرات محفل نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ لڑکی سابق کلکٹر کی بیوی اس چڑیل مسز بھارگوا سے کہیں زیادہ اچھی اور ملنسار ہے، رانی بٹیا ہے بالکل)
دالان کے گملوں کی اوٹ میں کھیم اور کشوری بیٹھی تھیں۔ اور منٹ منٹ پر ہنسی کے مارے لوٹ پوٹ ہوئی جاتی تھیں۔ اب ایک بات ہو تو بتلائی جائے۔ دسیوں تھیں۔ مثلاً موٹی مصرانی کی چال ہی دیکھ لو۔ اوراوپر سے کنور نرنجن داس صاحب خانہ کی اسٹیٹ کے منیجر صاحب لالہ گنیش مہاشے بار بار ڈیوڑھی میں آن کر للکارتے، ’’جی پردہ کر لو کہار اندر آرہے ہیں۔‘‘ تو ان کے حلق میں سے ایسی آواز نکلتی جیسے ہار مونیم کے پردوں کو برساتی ہوا مار گئی ہو۔
اب کے سے جب ماما لکھنؤ سے گھر آئے تو کھیم نے دعوت کی۔ ساری داستان ان کے گوش گزار کردی۔ کنول کماری ایسی۔ اور کنول کماری ویسی۔ ماما چپکے بیٹھے سنتے رہے۔
کھیم جب رات کا کھانا کھا کر سونے چلی گئی۔ اور سارے گھر میں خاموشی چھا گئی تو ڈاکٹر آفتاب رائے چھت کی منڈیر پر آکھڑے ہوگئے۔ باغ اب سنسان پڑے تھے۔ گرمیوں کا موسم نکلتا جارہا تھا۔ اور گلابی جاڑے شروع ہونے والے تھے۔ پروائی ہوا آہستہ آہستہ بہ رہی تھی۔ نیچے ٹھکرائن کی بگیاوالی گلی کے برابر سے مسلمانوں کا محلہ شروع ہوتا تھا، اس کے بعد بازار تھا۔ جس میں مدھم گیس اور لالٹین کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ پھر پولس لائنز کے میدان تھے۔ اس کے بعد کچہری اور سول لائنز۔
سول لائنز میں حاکم ضلع کی بڑی کوٹھی تھی۔ جس پر یونین جیک جھٹ پٹے کی نیم تاریکی میں بڑے سکون سے لہرا رہا تھا۔ سارے میں یہ تھکی ہوئی خاموشی چھائی تھی۔ سامنے عہد سلطان حسین شرقی کے اونچے پھاٹک اور مسجدوں کے بلند مینار رات کے آسمان کے نیچے صدیوں سے اسی طرح ساکت اور صامت کھڑے تھے۔ زندگی میں بے کیفی تھی اور اداسی، اور ذلت تھی اور شدید غلامی کا احساس تھا۔
عمر بھر آفتاب رائے نے یوں ہی سوچا تھا کہ اب وہ اور کچھ نہ کریں گے۔ لیکن دنیا موجودتھی۔ وہ کام بھی کرتے کھانا بھی کھاتے۔ سال میں چار دفعہ جون پور آکر جی جی سے دماغ سوزی بھی کرتے۔ زندگی کے بھاری پن کے باوجود گاڑی تھی کہ چلے جارہی تھی۔
کنول کماری اس منظر کے پرے مولسری کے جھنڈ کے دوسری طرف یونین جیک کے سائے میں براجتی تھی۔ بہت سے لوگ ہیں کہ جو راستہ سوچا اختیار کر لیا۔ آرام سے اس پر چلتے چلے گئے۔ یہاں کسی راستے کا تعین ہی نہ ہوپاتا تھا۔ ایک کے بعد ایک سب ادھر ادھر نکل گئے تھے۔ آفتاب رائے وہیں کے وہیں تھے، ’’کنول کماری۔۔۔؟ لاحول ولا قوۃ۔‘‘
جب وہ یونی ورسٹی سے ڈاکٹریٹ کے لیے ولایت جارہے تھے تو کنول نے ان سے کہا تھا، ’’آفتاب بہادر تم کو اپنے اوپر بڑا مان ہے۔ پر وہ مان ایک روز ٹوٹ جائے گا۔ جب میں بھی کہیں چلی جاؤں گی۔‘‘، ’’تم کہاں چلی جاؤ گی۔۔۔؟‘‘
’’افوہ۔۔۔ لڑکیاں کہاں چلی جاتی ہیں۔۔۔؟‘‘
’’گویا تمہارا مطلب ہے کہ تم بیاہ کر لو گی؟‘‘
’’میں خود تھوڑا ہی بیاہ کرتی پھروں گی۔ ارے عقل مند داس میرا بیاہ کردیا جائے گا‘‘ اس نے جھنجھلا کر جواب دیا تھا۔
’’ارے جاؤ۔۔۔‘‘ آفتاب رائے خوب ہنستے تھے۔۔۔‘‘ میں اس جھانسے میں آنے والا نہیں ہوں۔ تم لڑکیوں کی پسند بھی کیا شے ہے۔ تم جیسی موڈرن لڑکیاں آخر میں پسند اسی کو کرتی ہیں جو ان کے سماجی اور معاشی معیار پر پورا اترتا ہے۔ باقی سب بکواس ہے۔ پسند اضافی چیز ہے تمہارے لیے۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ بالکل اضافی چیز ہے۔ آفتاب بہادر۔۔۔‘‘ وہ غصے کے مارے بالکل خاموش ہوگئی تھی۔
وہ چاندباغ میں تھی۔ آپ بادشاہ باغ میں بڑی دھوم دھام سے براجتے تھے۔ یونین کی پریزیڈنٹی کرتے تھے۔ تقریریں بگھارتے تھے۔ ایک منٹ نچلے نہ بیٹھتے تھے تاکہ کنول نوٹس نہ بھی لیتی ہو تولے۔ وہ اے پی سین روڈ پر رہتی تھی اور سائیکل پر روز چاند باغ آیا کرتی تھی۔ لکھنؤکی بڑی نمائش ہوئی تو وہ بھی اپنے کنبے کے ساتھ میوزک کانفرنس میں گئی۔ وہاں یونی ورسٹی والوں نے سہگل کو اپنے محاصرے میں لے رکھا تھا۔ جس گانے کی یونی ورسٹی اور چاند باغ کا مجمع فرمائش کرتا۔ وہی سہگل کو بار بار گانا پڑتا۔ بھائی آفتاب بھی شور مچانے میں پیش پیش۔ لیکن اگلی صف میں کنول کو بیٹھا دیکھ کر فوراً سٹ پٹا کر چپ ہوگئے اور سنجیدگی سے دوستوں سے بولے کہ یار چھوڑو کیا ہلڑ مچا رکھا ہے۔ اس پر عزت نے عسکری بلگرامی سے کہا۔ (آج ان دونوں پیارے دوستوں کو مرے بھی اتنا عرصہ ہوگیا تھا، منڈیر پر کھڑے ہوئے آفتاب رائے کو خیال آیا)
’’استاد یہ اپنا آفتاب جو ہے یہ اس لونڈیا پر اچھا امپریشن ڈالنے کی فکر میں غلطاں و پیچاں ہے۔ اب خدا وند تعالیٰ ہی اس پر رحم کرے۔۔۔‘‘
’’بی اے کے بعد تم کیا کرو گی۔۔۔؟‘‘ ایک روز آفتاب رائے نے کنول سے سوال کیا، ’’مجھے کچھ پتہ نہیں۔۔۔‘‘ کنول نے کہا تھا۔ اس میں گویا یہ اشارہ تھا کہ مجھے تو کچھ پتہ نہیں تم ہی کوئی پروگرام بناؤ۔
لیکن کچھ عرصہ بعد وہ سیدھے سیدھے ولایت نکل لیے۔ کیوں کہ غالباً ان کی زندگی ان کے لیے، ان کے گھر والوں کے لیے کنول کے وجود سے کہیں زیادہ اہم تھی۔ پھر ان کی ٓائیڈیا لوجی تھی (یار کیا بکواس لگا رکھی ہے۔ عزت نے ڈپٹ کر کہا تھا)
پر ایک رو، لندن میں، جب وہ سینٹ ہاؤس کی لائبریری سے گھر کی اور جارہے تھے تو راہ میں انہیں مہی پال نظر آیا جس نے دور سے آواز لگائی۔۔۔‘‘ چائے پینے چلو تو ایک واقعہ فاجعہ گوش گزار کروں۔ کنول کمار کا جگن ناتھ جین سے بیاہ ہوگیا۔ وہی جو سن پینتیس کے بیچ کا ہے۔۔۔‘‘
لڑکیوں کی عجب بے ہودہ قوم ہے۔ اس روز آفتاب رائے اس نتیجے پر پہنچے، ’’ان کو سمجھنا ہمارے تمہارے بس کا روگ نہیں۔ میاں وہ جو بڑی انٹلکچوئیل کی ساس بنی پھرتی تھی، ہو گئی ہوگی۔ اب گلیڈ۔۔۔ جگن ناتھ جین مائی فٹ۔۔۔ کون تھا یہ الو۔۔۔ میں نے کبھی دیکھا ہے اسے۔۔۔؟‘‘ مہی پال کے کمرے میں پہنچ کر آتش دان سلگاتے ہوئے انہوں نے سوال کیا۔
مہی پال رائے زادہ کھڑکی میں جھکا باہر سڑک کو دیکھ رہا تھا۔ جہاں ٹھیلے والے کو کنی لکھنؤ یونی ورسٹی کے نامور طلباء دن بھر گلا پھاڑ کر چلاتے رہنے کے بعد اب اپنے اپنے ترکاریوں کے ٹھیلے ڈھکیلتے ہوئے سر جھکائے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ شام کا دھند لکا سارے میں بکھر گیا تھا۔ زندگی بڑی اداس ہے۔ اس نے خیال کیا تھا۔ ہاں۔ اس نے آفتاب رائے سے کہا تھا میں نے اسے پٹنے میں دیکھا تھا۔ کالا سا آدمی ہے۔ عینک لگاتا ہے۔ کچھ کچھ لومڑی سے ملتی جلتی اس کی شکل ہے۔
’’بے وقوف بھی ہے۔۔۔؟‘‘ آفتاب رائے نے پوچھا تھا، ’’خاصا بے وقوف ہے۔۔۔‘‘ مہی پال رائے زادہ نے جواب دیا تھا، ’’پھر کنول اس کے ساتھ خوش کیسے رہ سکے گی؟‘‘ آفتاب رائے نے مہی پال سے مطالبہ کیا۔
’’میاں آفتاب بہادر۔۔۔‘‘ مہی پال نے مڑ کر ان کو مخاطب کیا۔۔۔’’یہ جتنی لڑکیاں ہیں نا۔۔۔ جو افلاطون زماں بنی پھرتی ہیں۔ یہ بے وقوفوں کے ساتھ ہی خوش رہتی ہیں۔ آیا عقل میں تمہاری۔۔۔؟‘‘
’’ کیا بکواس ہے۔۔۔‘‘ آفتاب رائے نے آزردگی سے کہا۔
اب مہی پال رائے زادہ کو صریحاً غصہ آگیا۔ اس نے جھنجھلا کر کہا تھا۔۔۔‘‘ تو میاں تم کو روکا کس نے تھا اس سے بیاہ کرنے کو، جواب مجھے بور کر رہے ہو۔ کیا وہ تم سے خود آکر کہتی کہ میاں آفتاب بہادر میں تم سے بیاہ کرنا چاہتی ہوں۔ ایں۔۔۔؟ اور فرض کرو اگر وہ خود سے ہی انکارکر دیتی تو کیا قیامت آجاتی۔ میاں لڑکی تھی یا ہوا۔ کیا مارتی وہ تم کو بھاڑو لیکر۔۔۔ کیا کرتی۔۔۔؟ تم نے لیکن کہہ کے ہی نہیں دیا۔ خیر چلو۔۔۔ خیریت گذر گئی۔ اچھا ہی ہوا۔ کہاں کا جھگڑا مول لیتے بے کار میں۔ کیوں کہ میرا مقولہ ہے۔ (اس نے انگلی اٹھا کر عالمانہ انداز میں کہا) کہ شادی کے ایک سال بعد سب شادیاں ایک سی ہوجاتی ہیں۔۔۔ تم کو تو جگن ناتھ جین کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ اس نے تم کو ایک بار عظیم سے سبکدوش کیا۔ بلکہ وہ تمہارے حق میں بالکل دافع بلیات ثابت ہوا۔۔۔‘‘
’’بے ہودہ ہیں آپ انتہا سے زیادہ۔۔۔‘‘ آفتاب رائے نے جھنجھلا کر کہا تھا۔
لکھنؤ لوٹ کر ایک روز آفتاب رائے اتفاقاً اے پی سین روڈ پر سے گزرے۔ سامنے کنول کے باپ کی سرخ رنگ کی بڑی سی کوٹھی تھی۔ جس کی برساتی پر کاسنی پھولوں کی بیل پھیلی تھی۔ یہاں ایک زمانے میں کتنا اودھم مچتا۔ کنول کے سارے بہن بھائیوں نے مل کر اپنا آر کیسٹرا بنا رکھا تھا۔ کوئی بانسری بجاتا۔ کوئی جل ترنگ۔ کنول طبلہ بجاتی، ایک بھائی وائلن کا استاد تھا۔ سب مل کر جے جے ونتی شروع کردیتے۔ مورے مندر اب لوں نہیں آئے۔۔۔ کیسی چوک بھئی مو سے آلی۔۔۔ پھر ارچنابنرجی آجاتی اور کو ئل ایسی آواز میں گاتی۔۔۔ آمی پو ہوڑی جھورنا فکر مکر بوجوئے۔۔۔ بو جوئے ہو۔۔۔ اتوار کو دن بھر بیڈ منٹن کھیلا جاتا، ہر سمے تو آفتاب رائے ان لوگوں کے یہاں موجود رہتے تھے۔ اور جب ایک روز خود ہی چپکے سے ولایت کھسک لیے تو ان لوگوں کا کیا قصور۔ وہ لڑکی کو بنک کے سیف ڈپازٹ میں تو ان کے خیال سے رکھنے سے رہے اور جگن ناتھ جین ایسا رشتہ تو بھائی قسمت والوں ہی کو ملتا ہے۔
پھر ایک روز امین آباد میں انہوں نے کنول کو دیکھا۔ وہ کار سے اتر کر اپنی سسرال والوں کے ساتھ پارک کے مندر کی اور جارہی تھی اور سرخ ساڑی میں ملبوس تھی اور آلتا اس کے پیروں میں تھا (آلی ری سائیں کے مندر دیا بار آؤں۔ کر آؤں سولہ شرنگار۔۔۔ وہ گرمیوں کی شام تھی۔ امین آباد جگمگا رہا تھا۔ ہوا میں موتیا اور خس کی مہک تھی۔اور مندر کا گھنٹہ یکسانیت سے بجے جارہا تھا)
اب آفتاب رائے یونی ورسٹی میں تاریخ پڑھاتے تھے۔ ساتھیوں کی محفل میں خوب اودھم مچاتے، ٹینس کھیلتے اورصوفی ازم کی تاریخ پر ایک مقالہ لکھ رہے تھے۔ میں وہ نہیں ہوں جو میں ہوں۔ میں وہ ہوں جو میں نہیں ہوں۔ ہر چیز باقی ساری چیزیں ہیں۔ بھگوان کرشن جب ارجن سے کہتے ہیں، ’’اوپرنس ارجنا۔۔۔(ارے جا بے) عسکری ڈانٹ بتاتا۔ اگر تم اس چکر میں ہو کہ تم بھی پروفیسر ڈی پی مکرجی کی طرح مہاگروبن کے بیٹھ جاؤ گے تو تم غلطی پر ہو۔ ڈاکٹر آفتاب رائے، تمہارا تو ہم مارتے مارتے حلیہ ٹھیک کردیں گے۔‘‘ مہی پال اضافہ کرتا)
جون پور آکر وہ کھیم کو دیکھتے کہ تندہی سے کچالو کھا رہی ہے۔ کتھک سیکھ رہی ہے۔ جل بھرنے چلی ری گوئیاں آں آں گاتی پھر رہی ہے۔ یہ بھی کنول کماری کی قوم سے ہے۔
’’اری او باؤلی۔۔۔ بتا تو کیا کرنے والی ہے۔۔۔‘‘ وہ سوال کرتے، ’’پتہ نہیں ماما۔۔۔‘‘ وہ معصومیت سے جواب دیتی، ’’پتہ نہیں کی بچی۔۔۔ وہ دل میں کہتے تھے۔‘‘
چھت کی منڈیر پر ٹہلتے ٹہلتے آفتاب رائے نیم کی ڈالیوں کے نیچے آگئے۔ سامنے بہت دور سول لائنز کے درختوں میں چھپی ہوئی حاکم ضلع کی کوٹھی میں گیس کی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ پروائی ہوا بہے جارہی تھی۔ یہ چاند رات تھی اور مسلمانوں کے محلوں کی طرف سے محرم کے نقاروں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئی تھیں۔
محرم آگیا۔۔۔ آفتاب رائے کو خیال آیا۔۔۔ شاید اب کے سے پھر سر پھٹول ہو۔ بہت دنوں سے نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے سوچا۔
ویسے انگریز کی پالیسی یہ تھی کہ جن ضلعوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ وہاں ہندو افسروں کو تعینات کیا جاتا تھا۔ اورجہاں ہندو زیادہ ہوتے تھے۔ وہاں مسلمان حاکموں کو بھیجا جاتا تھا تاکہ توازن قائم رہے۔ یہ دوسری بات تھی کہ صوبے کی چھ کروڑ آبادی کا صرف ۱۳ فی صدی حصہ مسلمان تھے۔ لیکن اتنی شدید اقلیت میں ہونے کے باوجود تہذیبی اور سماجی طور پر مسلمان ہی سارے صوبے پر چھائے ہوئے تھے۔ جون پور، لکھنؤ، آگرہ، علی گڑھ، بریلی، مرادآباد، شاہجہاں پور، وغیرہ جیسے ضلعوں میں تو مسلمانوں کی دھاک بیٹھی ہی ہوئی تھی۔ لیکن باقی کے سارے خطوں میں بھی ان کا بول بالا تھا۔ صوبے کی تہذیب، سے مراد وہ کلچر تھا جس پر مسلمانوں کا رنگ غالب تھا۔ گلی گلی، محلے محلے، گاؤں گاؤں، لاکھوں مسجدیں اور امام باڑے موجود تھے۔ مکتب مدرسے، درگاہیں، قلعے حویلیاں، چپے چپے سے مسلمانوں کی آٹھ سو سال پرانی روایات وابستہ تھیں۔
ہندو مسلمانوں میں سماجی سطح پر کوئی زیادہ فرق نہ تھا۔ خصوصاً دیہاتوں اور قصبہ جات میں عورتیں زیادہ تر ساڑیاں اور ڈھیلے پائجامے پہنتیں۔ اودھ کے بہت سے پرانے خاندانوں میں بیگمات اب تک لہنگے بھی پہنتیں تھیں۔ لیکن بیاہی لڑکیاں ہندو اور مسلمان دونوں ساڑی کے بجائے کھڑے پائنچوں کا پائجامہ زیب تن کرتیں۔ ہندوؤں کے یہاں اسے ’اجا‘ کہا جاتا۔ مشغلوں کی تقسیم بڑی دل چسپ تھی۔ پولس کا عملہ اسی فیصد مسلمان تھا۔ محکمہ تعلیم میں ان کی اتنی ہی کمی تھی۔ تجارت تو خیرکبھی مسلمان بھائی نے ڈھنگ سے کر کے نہ دی۔ چند پیشے مگر خاص مسلمانوں کے تھے۔ جن کے دم سے صوبے کی مشہور صنعتیں قائم تھیں۔ لیکن خدا کے فضل و کرم سے کچھ ایسا مضبوط نظام تھا کہ سارا منافع تو بازار تک پہنچاتے پہنچاتے مڈل مین ہی مار لے جاتا تھا اور جو بھائی کے پاس بچتا تھا اس میں قرضے چکانے تھے، بٹیا کا جہیز بنانا تھا۔ اور ہزاروں قصے تھے، آپ جانیے۔
زبان اور محاورے ایک ہی تھے۔ مسلمان بچے برسات کی دعا مانگنے کے لیے منہ نیلا پیلا کیے گلی گلی ٹین بجاتے پھرتے اور چلاتے۔۔۔ برسو رام دھڑا کے سے، بڑھیا مر گئی فاقے سے۔ گڑیوں کی بارات نکلتی تو وظیفہ کیا جاتا۔۔۔ ہاتھی گھوڑا پالکی۔۔۔ جے کنہیا لال کی۔ مسلمان پردہ دار عورتیں جنہوں نے ساری عمر کسی ہندو سے بات نہ کی تھی۔ رات کو جب ڈھولک لے کر بیٹھتیں تو لہک لہک کر الاپتیں۔۔۔ بھری گگری موری ڈھرکائی شام۔۔۔ کرشن کنہیا کے اس تصور سے ان لوگوں کے اسلام پر کوئی حرف نہ آتا ہے۔ یہ گیت اور کجریاں اور خیال، یہ محاورے، یہ زبان، ان سب کی بڑی پیاری اور دلآویز مشترکہ میراث تھی۔ یہ معاشرہ جس کا دائرہ مرزا پور اور جون پور سے لے کر لکھنؤ اور دلی تک پھیلا ہوا تھا۔ ایک مکمل اور واضح تصویر تھا۔ جس میں آٹھ سو سال کے تہذیبی ارتقا نے بڑے گمبھیر اور بڑے خوبصورت رنگ بھرے تھے۔
ڈاکٹر آفتاب رائے نے (کہ ان کا نام ہی اس مشترکہ تمدن کی لطافت کا ایک مظہر تھا) ایک بار سوچا تھا کہ وہ کبھی ایک کتاب لکھیں گے کہ کس طرح پندرہویں صدی میں بھگتی تحریک کےذریعے۔۔۔ لیکن ذہن ہی کو مکمل سکون کہاں میسر تھا۔ پہلے یہ کنول کماری کود پڑی۔ پھر ان کی معاشی مجبوریاں آڑے آئیں اور ان کو ولایت سے لوٹ کر بنارس میں لیکچرر شپ سنبھالنی پڑی۔ جہاں دن رات ہندی اتھوا ہندوستانی کے گن گائے جاتے۔۔۔ یہ میں تم سے کہتا ہوں۔۔۔کہ شدھ ہندی اور گئو رکھشا، اور رام راجیہ یہ سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اس خطرے سے بچو۔ انہوں نے ایک دفعہ ایک کانفرنس کے پنڈال میں چلا کر کہا تھا۔
آفتاب رائے کے ساتھی مذاق میں انہیں جون پور کا قاضی کہا کرتے، ’’یہ جو کتاب تم لکھنے والے ہو اس کا نام رکھنا۔۔۔ جون پور کا قاضی۔۔۔ عرف، میں شہر کے اندیشے میں دبلا کیوں ہوا۔۔۔؟‘‘
رات کی ہوا میں خنکی بڑھ چکی تھی۔ نیم کے پتے بڑے پر اسرار طریقے سے سائیں سائیں کر رہے تھے۔ ہاں زندگی میں بے پایاں اداسی تھی اور ویرانہ اور تاریکی۔
محلے کے مکانوں میں مدھم روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ نیچے بڑی بھاوج کے مکان کے آنگن میں مجلس کے لیے جو گیس کا ہنڈہ نصب کیا گیا تھا۔ اس کی روشنی رات کے اس ویرانے میں لرزہ خیز معلوم ہوتی تھی۔ جیسے مہوے کے جنگل میں اگیا بھتال اور مسان چپکے چپکے روتے ہوں۔
مجلسوں کے گریہ و بکا کی مدھم آوازیں پروائی کے جھونکوں میں رل مل کر وقفے وقفے کے بعد یک لخت بلند ہوجاتی تھیں۔ نکڑ پر کنور نرنجن داس کے ہاں کی محرم کی سبیل کے پاس رکھی ہوئی نوبت یکسانیت سے بجے جارہی تھی۔
’’عاشور کی شب لیلیٰ ارے سرہانے شمع رکھ کر۔۔۔‘‘ بوا مدن نے تکیہ پر کرم خوردہ کتاب رکھ کر پڑھنا شروع کیا۔۔۔’’اے تکتی رہیں چہرہ علی اکبر کا۔۔۔‘‘ بگن نے باریک تیز آواز میں ساتھ دینا شروع کیا، ’’اے لو دونوں کی دونوں سٹھیا گئی ہیں۔۔۔ اے بیوی چاند رات کو نویں تاریخ کے مرثیے نکال کر بیٹھ گئیں۔۔۔؟‘‘ بڑی بھاوج نے باورچی خانے میں سے پکارا۔
’’توبہ توبہ کمبخت ایسی ساڑستی پڑی ہے کہ اب تو کچھ بھی یاد نہیں رہتا۔ اے لو میں تو عینک لانا ہی بھول گئی۔ مجھے کچھ سجھائی تھوڑی دے رہا تھا۔۔۔ میں نے تواٹکل سے پڑھنا شروع کردیا۔۔۔ اے بہن۔۔۔ اے نیازی بیگم۔۔۔ ذری اپنی عینک تو دینا۔۔۔‘‘ بوا مدن نے طویل سانس بھر کے کہا۔
نیازی بیگم نے اپنی عینک اتار کے دی جو بوا مدن نے ناک کی پھننگ پر رکھ کر پھر سے بیاض کی ورق گردانی شروع کی۔
’’اے بوا مدن نجم الملت کی بیاض بھی لائی ہو کہ نہیں۔۔۔؟‘‘ بڑی بھاوج نے تخت کے پائے کے قریب آکر اطمینان سے بیٹھتے ہوئے دریافت کیا۔
’’لڑکیوں سے پوچھیے۔۔۔ بڑی بھاوج۔۔۔ نجم الملت کے نوحے تو یہی لوگ پڑھت ہیں۔۔۔‘‘ بگن نے جواب دیا۔
’’ہاں بیٹا ہم تو پرانے فشن کے آدمی ہیں۔ اب تو نوحوں میں بھی نئے راگ رنگ نکلے ہیں۔۔۔‘‘ بوا مدن نے قدرے بے نیازی سے اضافہ کیا۔ یہ لڑکیوں پر صفا چوٹ تھی۔ بوا مدن نے لڑکیوں کی نوحہ خوانی کو کبھی بھی بہ نظر استحسان نہ دیکھا۔
کنبے اور محلے کی ساری لڑکیاں دیوار کے سہارے بڑے اسٹائل سے سیاہ جارجٹ کے دوپٹوں سے سرڈھانپے خاموش بیٹھی تھیں۔ بوا مدن کے اس طعنے کا انہوں نے ہرگز نوٹس نہیں لیا۔
’’سواری اتر والو۔۔۔‘‘ باہر سے رام بھروسے کی آواز آئی، ’’پردہ کر لو لوگو۔۔۔ کہار اندر آتے ہیں۔۔۔‘‘
فیرینی کی سینی دھم سے گھڑونچی پر ٹکا کر ممولہ تیز آواز میں چلائی۔۔، ’’چھمو بیگم آگئیں۔‘‘
چھمو بیگم ڈولی میں سے اتریں۔ اور پائنچے سمیٹ کے پانی سے لبریز نالی کو الانگنے کے ارادے سے آگے بڑھیں، ’’اللہ رکھے بڑی بھاوج کے ہاں تو ہر وقت بس بہیاسی آئی رہتی ہے‘‘، انہوں نے ذرا بے زاری سے کہا۔
کہیں ممولہ نے یہ سن لیا، ’’اے چھمو بیگم۔۔۔ ذری زبان سنبھال کے بات کیا کیجیے۔ بڑی بھاوج کے دشمنوں کے گھر بہیا آوے۔ شیطان کے کان بہرے۔۔۔ ایسا تو میں نے آنگن کا سارا پانی سونتا ہے۔ اپنے ہاں نہیں دیکھتیں۔ ساری گلی کو لے کے نوبت رائے کا تلاؤ بنا رکھا ہے۔ اتا اتا پانی آپ کے گھر میں کھڑا رہتا ہے۔ ہاں۔‘‘ اس نے منہ در منہ جواب دیا۔
’’اے بی ممولہ۔۔۔ ذری آپے میں رہنا۔۔۔ میں خود سے نہیں آگئی۔ بڑی بھاوج نے سو دفعہ بلایا کہ آکر مجلس پڑھ جاؤ۔۔۔ مجلس پڑھ جاؤ۔۔۔ میں اپنے گھر سے فالتو نہیں ہوں کہ ماری ماری پھروں۔ اور ٹکے کی ڈومنیوں کی باتیں سنوں۔ ہاں لو بھائی ڈولی واپس کرو۔۔۔‘‘ چھمو بیگم نے بیج آنگن میں کھڑے ہو کر رجز پڑھا۔
بڑی بھاوج جلدی سے اٹھ کر باہر آئیں۔ اے ہے۔۔۔ یہ کیا کوا نوچن مچی ہے۔ اماموں پر مصیبت کی گھڑی آن پہنچی اور تم لوگ ہوکہ کھڑی جھگڑ رہی ہو۔۔۔ چل نکل ممولہ یہاں سے۔۔۔ ڈوبی جب دیکھو تب یہی فضیحتاً شروع کرتی ہے۔ آؤ چھمو بیگم جم جم آؤ۔۔۔‘‘
ڈیوڑھی میں کہاروں نے زور سے ڈنڈا بجایا۔ اجی پیسے تو بھجوایئے بیگم صاحب۔۔۔
(ارے دیا رے۔۔۔ ساڑی دیہہ دکھن لاگت ہے۔۔۔) رام بھروسے نے دیوار سے لگ کر ماتا دین کی بیڑی سلگاتے ہوئے اظہار خیال کیا۔ ویسے محرم کی وجہ سے اب پیسے خوب ملیں گے چہلم تک دس دس پھیرے ایک گلی کے ہوتے تھے اور ہر پھیرا تین تین پیسے۔ دور کے محلوں تک آنے جانے کے تو دو دو آنے تک ہوجاتے تھے۔ بس چاندی تھی آج کل بھائی رام بھروسے اور ان کی برادری کی۔ اور ریڑوے جو چل رہے تھے وہ الگ۔ ریڑوہ ایک طرح کا لکڑی کا کرسی نما ٹھیلہ ہوتا تھا جس میں چاروں طرف پردہ باندھ دیا جاتا تھا۔ اندر دو دو تین تین سواریاں گھس پٹ کر بیٹھ جاتی تھیں۔ اور بچوں کی انگریزی پرام کی طرح پیچھے سے دھکیلا جاتا تھا۔ اور چرخ چوں کرتا ریڑوہ گلیوں کے پتھریلے فرش پر برے ٹھاٹھ سے چلتا۔ پالکی کا کرایہ بہت زیادہ تھا۔ یعنی چھ آنے فی پھیرا۔ پرائیوٹ پالکی چو پہلہ صرف صدراعلیٰ کے یہاں تھا۔
چھمو بیگم اس معرکے کے بعد ٹھمک ٹھمک چلتی آن کر چاندنی پر بیٹھ گئیں اور عینک لگا کر بڑے ٹھسے سے چاروں طرف نظر ڈالی۔ بوا مدن خود بڑی ہائی برو سوز خوان تھیں۔ انہوں نے کبھی چھمو بیگم کی پروانہ کی۔
سوز ختم ہوچکا تھا۔ گوٹے کے پھنکے لگاتی بوامدن طمانیت سے جاکر ایک کونے میں بیٹھ گئیں۔ چٹا پٹی کی گوٹ کا اودا پائجامہ اور طوطے کے پروں ایسے ہرے رنگ کا دوپٹہ اوڑھے اور اس شان سے دیوار سے لگ کر بیٹھتی تھیں کہ دور سے معلوم ہوجاتا تھا کہ ہاں یہ رام پور کی میریاسن ہیں۔ مذاق نہیں ہے۔
چھمو بیگم ایک تو یہ کہ سیدانی تھیں۔ دوسرے یہ کہ بگن سلمہا کے بیاہ کے سلسلے میں ان سے جنگ ہوچکی تھی۔ لہٰذا وہ بوا مدن کو ہر گز خاطر میں نہ لاتیں۔ بوا مدن کو اگر یہ زعم تھا کہ مالکوس اور سوہنی اور بہاگ میں وہ سوز ایسے پڑھتی ہیں کہ مجلس میں پٹس پڑ جاتی ہے تو چھمو بیگم کو بھی اپنے اوپر ناز بے جانہ تھا کہ آٹھویں تاریخ والا میر انیس کا مرثیہ پوری راگ داری کے ساتھ ان جیسا کوئی اور نہ پڑھ سکتا تھا۔
چھمو بیگم نے تہ در تہ ریشمی غلافوں میں سے چاند رات کا بیان نکالا اور مجمع کو نہایت گھور کے دیکھا۔
لڑکیوں کا گروہ اپنی جگہ پر ذرا چوکنا ہوگیا۔ ان لڑکیوں پر فرض تھا کہ جب چھمو بیگم حدیث پڑھیں یا وعظ کریں تو یہ لوگ دوپٹے منہ میں ٹھونس کر کھل کھل کر ہنسیں۔ پر بظاہر یہی معلوم ہوتا کہ زار و قطار رو رہی ہیں۔ اور چھمو بیگم کس قیامت کی حدیث پڑھتی تھیں کہ کہرام بپا ہوجاتا تھا۔
چھمو بیگم کے وعظ بہت موڈرن ہوتے تھے۔ کیا جناب کبن صاحب بلکہ خود قبلہ جار چوئی صاحب ایسے ایسے رموز و نکات، انگریزی فلسفے کے واقعہ شہادت میں سے نہ نکال سکتے۔ جو چھمو بیگم پل کی پل میں دریا کوزے میں بند کر کے رکھ دیتی تھیں۔
’’اے صاحبان مجلس۔۔۔ جب باری تعالیٰ نے اپنے نور کے دو حصے کیے۔۔۔‘‘ والی تمہید سے لے کر جب وہ اس کلائمیکس تک پہنچتی تھیں کہ’’اے بیبیو۔۔۔ جناب عباس نے رو کر کہا بالی سکینہ اٹھو۔۔۔‘‘ تو اس وقت مجلس میں نالہ و شیون سے قیامت بپا ہوچکی ہوتی تھیں۔ اندر باہر سب کہتے تھے کہ ماشاء اللہ سے چھمو بیگم نے سماں باندھ دیا۔ ان کی زور خطابت کا یہ عالم تھا کہ منٹوں میں بات کہیں سے کہیں پہنچتی تھی۔ ابھی حضرت جبریل علیہ السلام کا بیان ہو رہا ہے۔ ابھی یزید ملعون کے خاندان کا ذکر آگیا۔ جنگ جمل کا واقعہ سنا رہی ہیں۔ ساتھ ساتھ اس کا موازنہ جرمن اور انگریز کی لڑائی سے بھی ہوتا جاتا ہے۔ رسالت مآب ؐ کے بیان پر جب آتیں تو کہتیں۔۔۔ بیبیو۔۔۔ میں کوئی مورخ، کوئی تاریخ دان کوئی فلاسفہ نہیں ہوں۔ مگر اتنا جانتی ہوں اور کہے دیتی ہوں کہ ایک طرف عیسائیوں اور رومیوں کی دس لاکھ فوج تھی۔ ایک طرف جناب رسالت مآب ؐ کے ساتھ صرف پندرہ آدمی تھے۔ مگر وہ گھمسان کا رن پڑا تھا کہ سارے فرشتے چرخ اول پر اتر آئے تھے اور نور کی جھاڑو سے رسالت ماب کے لیے راستہ صاف کرتے جاتے تھے۔ خدا وند تعالیٰ کے مسئلہ پر فرماتیں۔۔۔ اے بیبیو۔۔۔ جو انگریزی داں دہریے خدا کے منکر ہیں۔ ان کا احوال مجھ سے سنو۔ اور کان کھول کے سنو۔۔۔ کہ خدا وند کریم ان سب شیطانی وسوسوں اور چالوں سے واقف ہے۔ جو فرنگیوں کے علم کے ذریعہ ابلیس ملعون نے تم مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دی ہیں۔ بلکہ میں تم کو آج یہ بتانا چاہتی ہوں اے مومنہ بیبیو۔۔۔ کہ قرآن حکیم کے اندر اللہ تعالیٰ نے خود انگریزی میں اپنی توحید کا ثبوت دیا ہے۔ فرماتا ہے وہ رب ذو الجلال کہ، ’’قل ھو اللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد۔‘‘ یہ ون کیا ہے۔۔۔؟ ون انگریزی میں ایک کو کہتے ہیں۔ مسئلہ توحید سے سلسلہ کھینچ کر پھر واقعہ کربلا اور شہادت علی اکبر سے ملا دیا جاتا تھا۔ یہ چھمو بیگم کے آرٹ کا کمال تھا۔
بڑی بھاوج کیا سارے محلے کو معلوم تھا کہ چھمو بیگم خاصی فراڈ ہیں۔ لیکن ان کی شمولیت کے بغیر مجلس میں جان ہی نہ پڑ سکتی تھی۔ لہٰذا ان کی بدمزاجی کو بھی برداشت کیا جاتا۔
برسوں سے جب سے بڑی بھاوج پیدا ہوئیں، تو وہ ہوئیں، رخصت ہوکر بارہ بنکی سے جون پور آئیں۔ زندگی کا ایک چلن قائم تھا۔ جس میں شادی بیاہ تیج تہوار، لڑائی جھگڑے محرم، کونڈے۔ جوگی رمپورے کی سالانہ زیارت، غرض یہ کہ ہر چیز کی اہمیت اپنی جگہ مسلم تھی۔
ڈپٹی جعفر عباس سے بڑی دھوم دھام سے ان کا بیاہ رچایا گیا تھا۔ جب وہ پندرہ سال کی تھیں۔ کیا زمانے تھے۔ دو میل لمبا تو ماہی مراتب ہی تھا۔ براتیوں کو چاندی کی طشتریوں میں سندیلے کے لڈو بانٹے گئے تھے۔ اور جناتیوں یعنی لڑکی کے گاؤں والوں کے یہاں ہفتوں مہینوں پہلے سے ڈھولک رکھ دی گئی تھی۔ ان کا میکہ و سسرال دونوں طرف سے ماشاء اللہ سے بھرا پرا کنبہ تھا۔ بس ایک چھوٹی اماں ہی سے ان کی نہ بنی۔ دیورانی جٹھانی کا دیوار بیچ گھر تھا۔ لیکن مدتوں کھڑکی میں تالا پڑا رہا۔ مقدمہ کا قصہ در اصل امام بارے والے آم کے باغ سے چلا تھا، بعد میں رفتہ رفتہ دونوں بھائیوں کے گھرانوں میں بول چال تک بند ہوگئی۔ سچ کہا ہے بوا کہ زر، زمین، زن، تین چیزیں گھر کا گھروا کردیتی ہیں۔ سگے بھائی غیر ہوجاتے ہیں۔
پر جب چھوٹی اماں بیمار پڑیں تو بڑی بھاوج نے وضع داری پر حرف نہ آنے دیا اور مرنے سے پہلے دیورانی نے ساری اگلی پچھلی شکایتوں کو بھول کر کہاسنا معاف کروا لیا۔ اس پر بھی کہنے والوں کا بہن منہ کس نے بند کیا ہے، محلہ میں اڑ گئی کہ یہ جو چھوٹی اماں اپنے غلے کی کوٹھڑی میں سونے کی مہریں دفن کیے بیٹھی تھیں۔ یہ ان کو حاصل کرنے کی ترکیبیں تھیں۔ پوچھو بڑی بھاو ج کے پاس خدا کا دیا خود کیا کچھ نہیں۔ جو وہ ایسے کمینے خیالات دل میں لاتیں۔ اور اصلیت یہ ہے کہ چھوٹی اماں کی وہ سونے کی مہروں والی جھجری جس پر وہ عمر بھر مایا کا سانپ بنی بیٹھی رہیں، اوت کے مال سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔ لڑکوں نے لے کر سارا پیسہ دو سال کے اندر اڑا دیا۔ بلکہ بوا مدن تو یقین محکم کے ساتھ کہتی تھیں کہ چھوٹی اماں اور بڑی بھاوج کی لڑائی کروانے میں زیادہ ہاتھ چھمو بیگم کا ہے۔ حرافہ ایسی ادھر ادھر لگاتی تھی اور پھر سال کے سال منبر پر مولون بن کر چڑھ بیٹھتی ہے، چڑیل۔
رونا بہر حال فرض تھا۔ خواہ چھمو بیگم جیسی کٹنی ہی بیان کیوں نہ پڑھے۔ لہٰذا بوا مدن دیوار کے سہارے بیٹھی بڑے مشہدی رومال سے منہ ڈھانپے شائستگی سے سسکیاں بھرتی رہیں۔ لڑکیاں دہلیز پر بیٹھی بیٹھی اونگھ رہی تھیں اور منتظر تھیں کہ کب حدیث ختم ہو اور نوحہ خوانی کی باری آئے۔
نوحے پڑھنے میں بڑی بھاوج کی لڑکی کشوری کوملکہ حاصل تھا۔ ہاتھ آئے تھے کیا کیا گل زہرا کو فدائی۔۔۔ نوماؤں نے دیکھی در خیمہ سے لڑائی۔۔۔ ارے لڑتے ہوئے گرتے ہوئے مرتے ہوئے دیکھا۔۔۔ اور جانے کون کون سے سارے جدید نوحے۔ جی ہاں ایسی پاٹ دار آواز میں آخری بند اٹھاتی کہ کھیم کے گھر تک آواز پہنچ جاتی تھی۔
نوحوں کی دھنیں نکالنا لڑکیوں کا خاص مشغلہ۔ جہاں کوئی چلتا چلتا لیکن غمگین سی دھن کا گیت ریڈیو پر سنا جھٹ ذرا سی تبدیلی کر کے نجم الملت کے کسی نوحے پر اس دھن کو چپکا دیا۔ طلعت آرا اس معاملے میں بڑی رجعت پسند واقع ہوئی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ بھئی یہ غلط بات ہے۔ یہ کیا ساتویں کی رات کو معلوم ہو کہ کانن بالا کا ریکارڈ بج رہا ہے۔ توبہ توبہ۔ مگر کشوری کس کی سنتی تھی، ویسے بھی وہ بڑی آزاد خیال روشن دماغ انسان تھی۔ ہائی اسکول تو اس نے پاس کر لیا تھا۔ وہ تو لکھنؤ جاکر لگے ہاتھوں انٹر اور بی اے بھی کر لے۔ لیکن چھوٹی اماں جب مرتے وقت بڑی بھاوج سے صلح صفائی کرنے پر تلیں تو یہاں تک طے کرتی گئیں کہ ان کے بڑے لڑکے میاں اعزاز سے اس کا بیاہ بھی کر دیا جائے۔
اب یہاں سے مسلم سوشل پکچر بننا شروع ہوئی۔ کشوری کہاں ایک تیز لڑکی۔ سارے نٹنگ کے نمونے اس کو آویں۔ جہاں پردہ باغ میں کوئی نیا نمونہ سوئٹر کا کسی کو پہنے دیکھ پاوے گھر آکر فوراً تیار۔۔۔ افسانے پڑھنے کی وہ شوقین۔ منشی فیاض علی کی ’انور‘ اور ’شمیم‘ سے لے کر کرشن چندر کی ’نظارے‘ اور حجاب امتیاز علی کی ’ظالم محبت‘ تک اس کی الماری میں موجود۔ سنیما بھی جب موقع ملتا ضرور دیکھ لیتی۔ میاں اعزاز ایک تو یہ کہ خاصے مولوی آدمی تھے۔ پی سی ایس میں آگئے تھے۔ کیننگ کالج سے ایم اے۔ ایل ایل بی کر رکھا تھا۔ لیکن اس کے روادار نہیں تھے کہ گھر کی لڑکیاں ذرا کی ذرا نمائش ہی میں ہو آئیں۔ خود بڑی دون کی لیتے تھے کہ مس سکسینہ سے یونین میں یوں بحث چلی اور مس صدیقی کے یہاں یوں چائے پر گیا۔ لیکن اپنے کنبے کی لڑکیوں کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ لڑکیاں جہاں گھر سے باہر نکلیں، میاں زمانہ خراب ہے۔ کسی کو بدنام ہوتے کیا دیر لگتی ہے۔
بڑھی بھاوج نے، لطیفہ یہ تھا کہ کشوری کے لیے بڑی منتیں مرادیں مان رکھی تھیں۔ عاشورہ کے روز جب ذو الجناح اندر لایا جاتا تو جلیبی کھلانے کے بعد اس کے کان سے منہ لگا کر ساری بیبیاں اور ساری لونڈی باندیاں دعامانگیں کہ یامولا کشوری بیٹا کا نصیبہ اب کے سال ہی کھلے۔
اب یہ پوچھو کہ یہ میاں اعزاز کے پلّے باندھنا نصیبے کا کھلنا سمجھا جارہا تھا۔ لیکن کشوری نے بھی طے کر لیا تھا کہ عین بیاہ کے موقع پر وہ انکار کردے گی۔ برات میں ایک ہڑبونگ مچ جائے گی۔ وہ جیسا کہ سوشل فلموں میں ہوتا ہے کہ عین وقت پر جب پھیرے پڑنے والے ہوں تو اصل ہیرو ہسپتال یا جیل سے چھٹ کر پہنچ جاتا ہے اور گرج کر کہتا ہے کہ ٹھہر جاؤ یہ شادی نہیں ہوسکتی۔۔۔
کشوری کے بابا سید جعفر عباس ڈپنی کلکٹر تھے۔ لیکن دل کے بڑے پکے قوم پرست مسلمان تھے۔ جب کانگریسی وزارت قائم ہوئی تو آپ نے بھی خوب خوب خوشیاں منائیں۔ حافظ ابراہیم ضلع میں آئے تو آپ مارے محبت کے جا کے ان سے لپٹ گئے۔ جب جنگ چھڑی اور کانگریسی وزارت نے استعفیٰ دیا اور مسلم لیگ نے یوم نجات منایا تو کشوری کے بابا کو بڑا دکھ ہوا۔
اب وہ ریٹائر ہوچکے تھے۔ اور چپوترے پر بیٹھے پیچوان لگائے سوچا کرتے کہ دنیا ہی بدلتی جارہی ہے۔ لڑکے جن کو نوکری نہ ملتی تھی۔ اب فوج میں چلے جارہے تھے۔ اپنا اصغر عباس ہی اب لفٹیننٹ تھا۔۔۔ مہنگائی شدید تھی۔ لیڈر جیل میں تھے۔ لیکن زندگی میں یک بیک ایک نیا رنگ آگیا تھا۔ حافظ ابراہیم کے استعفیٰ کے موقع پر ضلع کے اردو اخباروں نے لکھا تھا۔۔۔ کہاں گئی موٹر سرکاری، بیچا کر سبزی ترکاری، وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ۔۔۔ کشوری کے بابا کو یہ سب پڑھ اور سن کر صدمہ ہوتا۔ وہ بڑے پکے مسلمان تھے۔ در اصل مسلمان کے معاشرے کا استحکام ان ہی پرانے مدرسہ فکر کے ڈپٹی کلکٹروں کے دم قدم سے قائم تھا۔ پردے کے بڑے پابند۔ کیا مجال جو لڑکیاں بغیر قناتوں، چادروں کے گھر سے قدم نکالیں۔ (صوبے کے مشرقی اضلاع میں برقعے کا رواج نہ تھا۔ باعزت متوسط طبقے کی مسلمان اور ہندو عورتیں چادریں اور دلائیاں اوڑھ کر باہر نکلتی تھیں۔ ہندو عورتیں تو خیر گھونگٹ کاڑھ کر سڑک پر سے گزر جاتی تھیں۔ لیکن مسلمان بیبیوں کا دن دہاڑے باہر نکلنا سخت معیوب خیال کیا جاتا تھا)
اصغر عباس فوج میں رہ کر بالکل انگریز بنتا جارہا تھا۔ اب کے سے جب وہ چھٹی پر گھر آیا تو چند شرائط با باکے سامنے رکھیں۔
(الف) وہ خود کنبے میں بیاہ نہ کرے گا۔
(ب) کشوری جب اس کے ساتھ رہنے کے لیے جبل پور جائے گی تو پردہ نہ کرے گی۔
(ج) اعزاز میاں سے بیاہ کا پروگرام منسوخ۔
(د) کشوری کو ایف اے کے لیے مسلم گرلز کالج لکھنؤ بھیجا جائے گا۔
بڑے بحث مباحثے کے بعد بابا اور بڑی بھاوج دونوں نے ان شرائط کے بیش تر کے نکات منظور کرلیے۔
ہندوستان کے مسلمان متوسط اور اوپری متوسط طبقے کا کوئی ہی خاندن ایسا ہوگا جس کی لڑکیوں نے کبھی نہ کبھی علیگڑھ گرلز کالج یا لکھنؤ مسلم اسکول، میں نہ پڑھا ہو۔ بیش تر لڑکیوں کو اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ انہوں نے چاہے چند روز ہی کے لیے کیوں نہیں، لیکن پڑھا مسلم اسکول میں ہے۔
بعینہٖ یہی احوال مہیلا ودیالہ لکھنؤ کا تھا۔ صوبے کے سارے ٹھوس ہندو متوسط طبقے کی سپتریاں اس وِش ودیالے کی ودیار تھی رہ چکی تھیں۔ سرکاری اور عیسائی اداروں کا ماحول مختلف تھا۔ وہاں انگریز کے اقبال کی وجہ سے شیر بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے۔
اب کی جولائی میں کھیم اور کشوری اکٹھی ہی جون پور سے ٹرین میں سوار ہوئیں۔ اور لکھنؤ آن پہنچیں۔ چار باغ پر ماما، کھیم کو اتروانے کے لیے آگئے تھے۔ اور کشوری کو پہنچانے کے لیے تو ماجد بھائی بے چارے مردانہ ڈبے میں موجود ہی تھے۔اسٹیشن کی برساتی میں پہنچ کر کھیم اور کشوری نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا اور روئیں اور کبھی کبھی ملنے کی کوشش کرنے کا وعدہ کیا اور تانگوں میں بیٹھ کر اپنی اپنی راہ چلی گئیں۔
’’کھیم وتی رائے زادہ سے میری ملاقات اتنے برسوں بعد بینٹ ہال کی سیڑھیوں پر ہوئی۔۔۔ وہ چودھری سلطان کے لیکچر کے لیے اوپر جارہی تھی۔ میں احتشام صاحب کی کلاس کے بعد پرشین تھیٹر سے اتر رہی تھی۔۔۔‘‘ کشوری نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ اور پھر وہ خاموش ہوگئی۔۔۔ اور کھڑکی کے باہر دیکھنے لگی۔ جہاں برف کے گالے چپکے چپکے نیچے گر رہے تھے۔۔۔
’’ کیا تم نے کبھی سوچا ہے۔‘‘ اس نے ساتھیوں کو مخاطب کیا۔۔۔ کہ ہم جو چھ سو سال تک ایک دیوار کے سائے میں رہے۔ ایک مٹی سے ہماری اور اس کی تخلیق ہوئی تھی۔ اس کے اور ہمارے گھر والوں کو اپنی مشترکہ کلچر پر ناز تھا۔ اور ایک قسم کا احساس بر تری۔۔۔ چار سال بعد جب اس وقت کھیم نے مجھے دیکھا تو ایک لحظے کے لیے ذرا جھجکی پھر ’ہلو کشوری‘ کہتی ہوئی آگے چلی گئی۔
’’اور میں نے سوچا ٹھیک ہے۔ میں نے اور اس نے اسی دن کے لیے ساری تیاریاں کی تھیں۔ وہ مہیلا دویالہ کی لڑکی ہے۔ کانگریس میں یقین رکھتی ہے۔ میرے بابا بڑے نیشنلسٹ بنتے تھے۔ لیکن میں کٹر مسلم لیگی ہوں۔ یوم پاکستان کے جلسے کے موقع پر کھیم کے ساتھیوں نے ہمارے اوپر کنکریاں پھینکی تھیں۔ اکھنڈ ہندوستان ویک کے دنوں میں ہمارے رفقاء نے ان کے پنڈال پر پکٹنگ کی تھی۔ یہ جو کچھ ہو رہا ہے۔ یہی ٹھیک ہے اور بھائی زندگی نہ ہوئی شانتا رام کی فلم ہوگئی۔ بنو اچھے پڑوسی، کرو بھائی چارہ، نہیں کرتے بھائی چارہ میاں زبردستی ہے تمہاری۔ یہی ایک مثال میری اور کھیم کی دیکھ لو جنم جنم کے پڑوسی تھے اور کیا دوستی اور یگانگت کا عالم تھا۔ پر تھے ہم ان کے لیے ملچھ۔ ان کے چوکے کے قریب نہ پھٹک سکتے تھے۔ اور ہماری اماں کا یہ سلسلہ تھا کہ اگر ہندو کی دوکان سے کوئی چیز آئی تو اسے فوراً حوض میں غوطہ دے کر پاک کیا جاتا تھا۔ ایک قوم اس طرح بنتی ہے؟ تقسیم کا مطالبہ ہند کی ساری تاریخ کا نہایت فطری اور نہایت منطقی نتیجہ ہے۔۔۔‘‘ کشوری چپ ہوگئی۔
آتش دان میں آگ لہک رہی تھی۔ کسی نے آہستہ سے ایک انگارہ الاؤ میں سے نکال کر باہر گرا دیا۔ جہاں وہ چند لمحوں تک سلگتا رہا۔اور پھر بجھ گیا۔ نیچے سڑک پر کوئی بھکاری اکارڈین پر ’موجوں کے اوپر‘ کا والز بجاتا ہوا گزر رہا تھا۔
’’آج میں کنول کماری کے ہاں چائے پر گئی تھی۔‘‘ ارملا نے کہا، ’’وہاں بہت سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ ان سب سے میں نے کہا کہ ہمارے ’مجلس میلے‘ کو کامیاب بنانے کی کوشش کریں۔‘‘
’’کنول کماری۔۔۔؟‘‘ کشوری نےکچھ یاد کرتے ہوئے سوال کیا۔
’’ہاں۔ ہمارے نئے فرسٹ سیکرٹری کی بیوی اور میں نے سوچا کہ قابل عورت ہے۔ اس سے میلے کے موقع پر ہندوستانی آرٹ پر لگے ہاتھوں ایک تقریر بھی کر والیں۔ پام دت وغیرہ سبھی ہوں گے۔ بے چاری نے وعدہ کر لیا۔۔۔‘‘
’’سوریہ است ہوگیا۔ سوریہ است ہوگیا۔‘‘ دوسرے کمرے میں میلے کے پروگرام کی ریہرسل کرتے ہوئے چند لڑکیوں نے ہر پندر ناتھ چٹوپادھیا کا کورس یک لخت زور زور سے الاپنا شروع کردیا۔
’’میں نے بہت کوشش کر کے سوچا کہ میں جب یونی ورسٹی میں اور لوگوں سے ملتی ہوں۔۔۔ اٹلی کے لوگ ہیں، برازیل کے عراق اور مصر کے ہیں، ان سے اس طرح کیوں نہیں باتیں کرنا چاہتی۔ پھر ہمارے پروفیسر ہیں۔ ہم عصر فنون کی انجمن کے اراکین ہیں۔ انہوں نے ہمارے مسائل پر بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ ہمارا بڑا دقیق مطالعہ کیا ہے، اخباروں میں وہ ہمارے متعلق اڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ دار الاعوام میں اور ریڈیو پر بحثیں کرتے ہیں دارالعلوم میں اور ریڈیو پر بحثیں کرتے ہیں۔۔۔‘‘ کشوری نے کہا۔
’’چاروں اور آگ لگی۔۔۔ دل میں بھوک پیاس جگی۔۔۔ پگ پگ ہم گاتے۔۔۔ ہم گاتے ہم گاتے۔۔۔‘‘ لڑکیاں چلا رہی تھیں۔
’’میرا جی چاہتا ہے۔ میں تم سے یہ سب باتیں کہوں۔ تم کو یہ سارا قصہ یہ سارا گورکھ دھندا سمجھاؤں۔۔۔‘‘ اس نے ساتھیوں کو اداس آواز میں مخاطب کیا۔ تاکہ تم لوگ مجھے بھی ایک مضحکہ خیز کردار نہ سمجھو اور اس سارے پس منظر، اس ساری کہانی کو، اس فاصلے سے دیکھ کر اپنی نئی راہ کا تعین کرو۔
سڑک پر کیرل گانے والوں کی ٹولیاں گزرنی شروع ہوگئی تھیں، ’’کرسمس کا زمانہ بھی اختتام پر ہے۔‘‘ روز ماری نے اظہار خیال کیا۔
ہاں۔ جون پور میں، میرے محلے میں، شاید تین چار بچے کھچے سوگوار چہلم کے تعزیوں کے سائے میں بیٹھے اپنی قسمت کو روتے ہوں گے۔ نہیں شاید محرم کا زمانہ گذر گیا ہوگا۔ پرانے کیلنڈر بے کار ہوچکے ہیں۔ مجھے کچھ پتہ نہیں۔۔۔ کشوری نے دل میں کہا۔
’’برف باری شدید ہوگئی ہے۔ پھر بہار آئے گی۔ کیا سارے زمانے سارے موسم اتنے بے مصرف ہیں۔۔۔؟‘‘ روز ماری نے اپنے آپ سے بات کی۔۔۔’’نہیں۔۔۔‘‘ کشوری نے کہا۔
پگ پگ ہم گاتے چلیں۔۔۔ لڑکیوں کی آواز نے تکرار کی۔
چار باغ اسٹیشن پر کھیم کو آخری بار خدا حافظ کہنے کے بعد اب کشوری کو دم لینےکی فرصت بھی کہاں تھی۔ پہلے مسلم اسکول۔ پھر چاند باغ پھر کیننگ کالج۔ زمانہ کہاں سے نکل گیا تھا۔ ہر ہنگامے میں کشوری موجود۔ مباحثے ہو رہے ہیں۔ بیڈمنٹن ٹورنا منٹ ہیں۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی مصروفیات ہیں۔ادھر ہندو اسٹوڈنٹس فیڈریشن تھا۔ مہا سبھائی طالبات کے جلسے جلوس تھے۔ جن میں کبھی کبھی کھیم رائے زادہ دور سے نظر آ جاتی۔طالب علموں کی دنیا اچھی خاصی سیاسی اکھاڑہ بن گئی تھی۔ گھر پر واپس جاؤ تو وہی سیاست۔ کل کی تشویش، مستقبل کی فکر۔ ملک کی تقسیم ہوگی۔ نہیں۔ ہوگی، ہوگی، نہیں ہوگی۔
یونی ورسٹی میں لیکچرز کے دوران میں پروفیسروں سے جھڑپ ہو جاتی۔ سطحی طور پر ابھی دوستی اور بھائی چارہ قائم تھا۔ لیکن آخری ’شوڈاؤن‘ کے لیے اسٹیج بالکل تیار تھا۔
ڈاکٹر آفتاب رائے ابھی تک ہسٹری ڈپارٹمنٹ میں موجود تھے۔ ایک روز ایک لیکچر کے دوران میں ان سے بھی کچھ تکرار ہوگئی۔ ایک ہندو طالب علم نے کہا، ’’آزادی کا مطلب ڈاکٹرصاحب مکمل سوراج ہے۔ ہند کی دھرتی کو پھر سے شدھ کرنا ہے۔ ساری ان قوموں کے اثر سے آزاد ہونا ہے جنہوں نے باہر سے آکر حملہ کیا۔ یہی تلک جی نے کہا تھا، جی ہاں۔‘‘
اس پیریڈ میں شیوا جی کے اوپر گفتگو ہو رہی تھی۔ لہٰذا خانہ جنگی ناگزیر تھی۔ شام تک ساری یونی ورسٹی میں خبر پھیل گئی، کہ ڈاکٹر آفتاب رائے کی کلاس میں ہندو مسلم فساد ہوگیا۔
اگلی صبح کشوری پورا جلوس بنا کر ڈاکٹر آفتاب رائے کے دفتر میں پہنچی، ’’ڈاکٹر صاحب۔۔۔‘‘ اس نے نہایت رعب داب سے کہنا شروع کیا۔۔، ’’کل جس طرح آپ نے حضرت اورنگ زیب علیہ الرحمۃ کے متعلق اظہار خیال کیا۔ اس کے لئے معافی مانگیے۔ ورنہ ہم اسٹرائیک کردیں گے۔ بلکہ کر دیا ہے اسٹرائیک ہم نے، آپ نے ہماری سخت دل آزاری کی ہے۔‘‘
آفتاب رائے اچنبھے سے کشوری کو دیکھتے رہے اری تو توڈپٹی جعفر عباس کی بٹیا ہے نا۔ اری باؤلی سی۔۔۔ وہ بے ساختہ کہنا چاہتے تھے۔ لیکن کشوری کے تیور دیکھ کر رک گئے۔ اور پہلو بدل کر سنجیدگی سے کھنکارے، ’’بات یہ ہے مس عباس۔۔۔‘‘ انہوں نے کہنا شروع کیا، ’’سیاست اور حصول تعلیم کے درمیان جو۔۔۔‘‘
’’اجی ڈاکٹر صاحب بس اب رہنے دیجئے۔۔۔‘‘ کسی نے آگے بڑھ کر کہا۔۔۔’’ہم خوب اس ڈھونگ کو جانتے ہیں۔ معافی مانگئے قبلہ۔۔۔‘‘
’’ڈاکٹر صاحب میں نے کہا بنارس کیوں نہیں واپس چلے جاتے۔۔۔؟‘‘ دوسری آواز آئی۔
’’دیکھو میاں صاحبزادے۔۔۔‘‘ آفتاب رائے نے رسان سے کہا۔۔۔’’معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاریخ کے متعلق میرے چند نظریئے اور اصول ہیں۔ میں اور تمہاری دل آزاری کروں گا؟ کیا باتیں کرتے ہو۔۔۔؟‘‘
’’ہم کچھ نہیں جانتے۔۔۔‘‘ انہوں نے شور مچایا۔۔۔’’معافی مانگئے۔ ورنہ ہم کل اورنگ زیب ڈے منائیں گے۔‘‘
’’ضرور مناؤ۔۔۔‘‘ آفتاب رائے نے یک لخت بے حد اکتاکر کہا۔
’’اور مکمل اسٹرائک کریں گے۔‘‘
’’ضرور کرو۔۔۔ خدا مبارک کرے۔۔۔‘‘ انہوں نے آہستہ سے کہا۔ اور چق اٹھا کر اندر چلے گئے۔
’’کٹرمہا سبھائی نکلا یہ بھی۔۔۔‘‘ لڑکوں اور لڑکیوں نے آپس میں کہا اور برساتی سے باہر نکل آئے۔
وہ رات آفتاب رائے نے شدید بے چینی سے کاٹی۔ حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے۔ مسلمان طالب علموں کو اچھے نمبر نہ ملتے۔ ہندوؤں کو یوں ہی پاس کردیا جاتا۔ ہوسٹلوں میں ہندو مسلمان اکٹھے رہتے تھے۔ لیکن جس ہوسٹل میں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ اس پر سبز پرچم لہرانے لگا تھا۔ اس کے جواب میں عین مغرب کی نماز کے وقت ہندواکثریت والے ہوسٹلوں میں لاؤڈ اسپیکر نصب کر کے گراموفون بجایا جاتا۔
چند روز بعد آفتاب رائے کے سر میں جانے کیا سمائی کہ استعفیٰ دے دیا اور غائب ہوگئے۔ سارے میں ڈھنڈ یا مچ گئی۔ مگر ڈاکٹر آفتاب رائے نہ اب ملتے ہیں نہ تب۔ لوگوں نے کہا ایک چول ہمیشہ سے ڈھیلی تھی۔ سنیاس لے لیا ہوگا۔ پھر تقسیم کا زمانہ آیا۔ اب کسے ہوش تھا کہ آفتاب رائے کی فکر کرتا۔ اپنی جانوں کے لالے پڑے تھے۔
’’ملک آزاد ہوگیا۔ کھیم وتی کی شادی ہوگئی۔ کشوری کے گھر والے آدھے پاکستان چلے گئے۔ اس کے بابا اب بہت بوڑھے ہوگئے تھے۔ آنکھوں سے کم سجھائی دیتا تھا۔ ایک ٹانگ پر فالج کا اثر تھا۔ دن بھر وہ جون پور میں اپنے گھر کی بیٹھک میں پانگڑی پر لیٹے ناد علی کا ورد کیا کرتے۔ اور پولس ہر سمے ان کو تنگ کرتی۔ آپ کے بیٹے کا پاکستان سے آپ کے پاس کب خط آیا تھا۔ آپ نے کراچی میں کتنی جائداد خرید لی ہے۔ آپ خود کب جارہے ہیں۔‘‘
اصغر عباس ان کا اکلوتا لڑکا تھا اور اب پاکستانی فوج میں میجر تھا۔ نہ وہ ان کو خط لکھ سکتا تھا اور اگر مرجائیں تو مرتے وقت وہ اس کو دیکھ بھی نہ سکتے تھے۔ وہ تو کشوری کے لیے مصر تھا کہ وہ اس کے پاس راول پنڈی چلی آئے۔ لیکن ڈپٹی صاحب ہی نہ راضی ہوئے کہ انت سمے بٹیا کو بھی نظروں سے اوجھل کردیں۔
وہی کشوری تھی۔ جس کی ایسے بسم اللہ کے گنبد میں پرورش ہوئی تھی اور اب وقت نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ وہ جون پور کے گھرکی چار دیواری سے باہر مدتوں سے لکھنؤ کے کیلاش ہوسٹل میں رہ رہی تھی۔ ایم۔ اے۔ میں پڑھتی تھی اوراس فکر میں تھی کہ بس ایم۔ اے کرتے ہی پاکستان پہنچ جائے گی۔ اور ملازمت کرے گی اور ارے صاحب آزاد قوم کی لڑکیوں کے لیے ہزاروں باعزت راہیں کھلی ہیں۔ کالج میں پڑھائیے، نیشنل گارڈ میں بھرتی ہوجائے۔ اخباروں میں مضمون لکھئے، ریڈیو پر بولیئے، کوئی ایک چیز ہے، جی ہاں۔ وہ دن گن رہی تھی کہ کب دو سال ختم ہوں اور کب وہ پاکستان اڑنچھو ہو، لیکن پھر بابا کی محبت آڑے آجاتی۔ دکھیا اتنے بوڑھے ہوگئے ہیں۔ آنکھوں سے سجھائی بھی نہیں دیتا۔ کہتے ہیں بیٹا کچھ دن اور باپ کا ساتھ دے دو۔ جب میں مرجاؤں تو جہاں چاہنا جانا، چاہے پاکستان چاہے انگلینڈ اور امریکہ۔ میں اب تمہیں کسی بات سے روکتا تھوڑا ہی ہوں۔ بیٹا تم بھی چلی گئیں تو میں کیا کروں گا۔ محرم میں میرے لیے، سوز خوانی کون کرے گا۔ میرے لیے لو کی کا حلوہ کون بنائے گا۔ پوت پہلے ہی مجھے چھوڑ کر چل دیا۔ پھر ان کی آنکھیں بھر آتیں اور وہ اپنی سفید ڈاڑھی کوجلدی جلدی پونچھتے ہوئے یا علی کہہ کر دیوار کی طرف کروٹ کر لیتے۔
بڑی بھاوج ان سے کہتیں۔۔۔ دیوانے ہوئے ہو۔ بٹیا کو کب تلک اپنے پاس بٹھلاؤ گے۔ آج نہ گئی کل گئی۔ جانا تو اسے ہے ہی ایک دن۔ یہاں اس کے لیے اب کون سے رشتے رکھے ہیں۔ سارے اچھے اچھے لڑکے ایکو ایک پاکستان چلے گئے اور وہاں ان کی شادیاں بھی دھبا دھب ہو رہی ہیں۔ یہ اصغرعباس کے پاس پہنچ جاتی تو وہ اسے بھی کوئی ڈھنگ کا لڑکا دیکھ کر ٹھکانے لگا دیتا۔۔۔ بڑی بھاوج کی اس شدید حقیقت پسندی سے کشوری کو اور زیادہ کوفت ہوتی۔ اور یہ ایک واقعہ تھا کہ اس نے پاکستان کے مسئلے پر اس زاویے سے کبھی غور ہی نہ کیا تھا۔ ویسے وہ سوچتی کہ بابا ہندوستان میں ایسا کیا کھونٹا گاڑ کربیٹھے ہیں۔ اچھے خاصے ہوائی جہاز سے چلے چلتے مگر نہیں۔ اور یہ جوبابا کی ساری قوم پرستی تھی۔ سارا جون پور عمر بھر سے واقف ہے کہ بابا کتنے بڑے نیشنلسٹ تھے۔ تب بھی پولس پیچھا نہیں چھوڑتی۔ سارے حکام اور پولس والے جن کے سنگ جنم بھر کا ساتھ کا اٹھنا بیٹھنا تھا، وہی اب جان کے لاگوہیں۔ کل ہی عجائب سنگھ چوہان نے جو عمر بھر سے روزانہ بابا کے پاس بیٹھ کر شعر و شاعری کرتا تھا دوبارہ دوڑ بھجوا کر خانہ تلاشی لی۔ گویا ہم نے بندوقوں اور ہتھیاروں کا پورا میگزین دفن کر رکھا ہے۔ پھر اسے بابا پر ترس آ جاتا، بے چارے بابا۔
اب ڈپٹی صاحب کی مالی حالت بھی ابتر ہوتی جارہی تھی۔ اصغر عباس پاکستان سے روپہ نہ بھیج سکتا تھا۔ جو تھوڑی بہت زمینیں تھیں ان پر ہندو کاشت کار قابض ہوگئے تھے، اور دیوانی کی عدالت میں ڈپٹی صاحب کی فریاد کی شنوائی کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ چھوٹی اماں مرحومہ کی مقدمہ بازیوں کے بعد جو کچھ زیور بچ رہا تھا وہ بڑی بھاوج نے سمیٹ کر بہو کے حوالے کر دیا تھا جو وہ پاکستان لے گئی تھی۔ باقی روپیہ ڈپٹی صاحب کی پنشن کا کشوری کی تعلیم پر خرچ ہو رہا تھا۔ ان کے علاج کے لیے کہاں سے آتا۔ اور فالج تو بوا ایسا روگ ہے کہ جان لے کر پیچھا چھوڑتا ہے۔ چنانچہ نوبت یہ پہنچی کہ چپکے چپکے بڑی بھاوج نے چھمو بیگم کے ذریعے چند ایک گہنے جو بچ رہے تھے فروخت کروا دیئے۔ ویسے اس میں ایسی شرم کی تو کوئی وجہ نہ تھی۔ وہ جو مثل ہے کہ مرگ انبوہ جشنے دارد، ان گنت مسلمان گھرانے ایسے تھے جو اپنے اپنے گہنے اور چاندی کے برتن بیچ بیچ کر گزارہ کر رہے تھے، لیکن بڑی بھاوج ناک والی آدمی تھیں۔ اور ابھی ان کے بھلے وقتوں کو گزرے عرصہ ہی کتنا ہوا تھا۔ کشوری کو جب یہ معلوم ہوا تو اس کی تو سٹی گم ہوگئی۔ اس نے پاکستان جانے کا خیال بالکل ترک کردیا۔ اور سر گرمی سے ملازمت کی تلاش میں جٹ گئی۔
لیکن ایک جگہ تو اس سے صاف صاف کہہ دیا گیا صاحب بات یہ ہے کہ جگہ تو خالی ہےلیکن ہم شرنار تھی لڑکیوں کو ترجیح دے رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ آپ کسی خانگی مجبوری کی وجہ سے ہندوستان میں رکی ہوئی ہیں۔ پہلا موقع ملتے ہی آپ بھی پاکستان چلی جائیے گا۔
اور وہ گھوم پھر کر جون پور لوٹ آتی۔ بڑی بھاوج نے اس سے کہا۔۔۔ وہ تمہاری گوئیاں کھیم کے ماموں آفتاب بہادر تھے۔ ان کو ہی جاکر پکڑو۔ وہ تو بڑے با اثر آدمی ہیں۔ اور بڑے شریف، ضرور مدد کریں گے۔ اور کشوری کو خیال آیا۔ کس طرح وہ جلوس بنا کر ان کے پاس پہنچی تھی۔ اور ان کو سخت سست سنائی تھیں۔ اس کے اگلے ہفتے ہی وہ غائب ہوگئے تھے۔
آفتاب رائے۔۔۔ اب پتہ نہیں وہ کہاں ہوں گے۔ اڑتی اڑتی سنی تھی کہ بمبئی میں حکومت کے خلاف تقریر کرنے کے جرم میں ان کواحمد آباد جیل میں بند کر دیا گیاتھا۔ جیل سے چھوٹے تو کچھ اور گڑبڑ ہوئی اور اب شاید وہ روس میں ہیں اور سمرقند ریڈیو سے اردو میں خبریں سناتے ہیں۔دوسری روایت تھی کہ نہیں صاحب ڈاکٹر آفتاب رائے تو آج کل پنڈت نہرو کی بالکل مونچھ کا بال بنے ہوئے ہیں۔ اور ان کوری پبلک لمپی ڈورا میں ہند کا سفیر بنا کر بھیجا جارہا ہے۔ بہر حال۔ ڈاکٹر صاحب تو عرصے سے گویا مستقل ’زیر زمین‘ تھے۔ بے چارے آفتاب رائے۔
آج چاند رات تھی۔ محلے میں نقارہ رکھا جاچکا تھا۔ مجلسیں اب بھی ہوتیں۔ لیکن وہ چہل پہل، رونق، اور بے فکری تو کب کی خواب و خیال ہوچکی تھی۔ ڈیوڑھی میں ڈولیاں اترنی شروع ہوئیں اور بیبیاں آ آکر امام باڑے کے دالان میں بیٹھنے لگیں۔ کشوری بے دلی سے دہلیز پر اپنی پرانی جگہ پر بیٹھی رہی۔ دالان کی چاندنی جس پر تل دھرنے کو جگہ نہ ہوتی تھی، اب چھدری چھدری نظر آتی تھی۔ سارے خاندانوں میں دو دو تین تین افراد تو ضرور ہی ہجرت کر گئے تھے۔ بڑی بھاوج بہت مشکل سے پاؤںگھسیٹتی ادھر اُدھر چل پھر رہی تھیں۔ اب وہ اللے تللے کہاں۔ ساری مہریاں اور کہارنیں اور پاسنیں ایک ایک کر کے چھوڑکر چل دیں۔ بس نگوڑی ممولہ رہ گئی تھی۔ سواس کی آواز کو بھی پالہ مار گیا تھا لیکن چھمو بیگم کوآتا دیکھ کر وہ پھر للکاری۔ آگئیں چھمو بیگم۔۔۔ آؤ جم جم آؤ۔
چھمو بیگم چپ چاپ آ کر منبر کے پاس کھڑی ہوگئیں۔ زیارت پڑھ کے تعزیوں کو جھک کر سلام کرنے اور کنپٹیوں پر انگلیاں چٹخا کر جناب علی اصغر کے سبز جارجٹ کے گہوارے کی بلائیں لینے کے بعد انہوں نے علموں کو مخاطب کر کے آہستہ سے کہا، ’’مولا یہ میرا آخری محرم ہے۔ ارے اب تمہاری مجلسیں یہاں کیسے کروں گی۔۔۔‘‘ اور یہ کہہ کر انہوں نے زور شور سے رونا شروع کردیا۔
بوامدن اپنی پرانی ’دشمناگی‘ فراموش کر کے سرک ان کے قریب آ بیٹھیں اور بولیں۔۔۔’’لو بوا غم حسینؓ کو یاد کرو۔ اپنا غم ہلکا ہوجائے گا۔۔۔ مولا تو ہر جگہ ہیں کیا پاکستان میں نہیں ہیں۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘ باقی بیبیوں نے آنسو خشک کرتے ہوئے تائید کی۔۔۔’’مولا کیا پاکستان میں نہیں۔۔۔ تم وہاں مولا کی مجلسیں قائم کرنا۔‘‘
’’لو بوا۔۔۔ ہم بھی چل دیئے پاکستان۔۔۔‘‘ جب محفل کی رقت ذرا کم ہوئی اور چھمو بیگم چاند رات کا بیان ختم کر چکیں توبوا مدن نے اپنا اناؤنسمنٹ بھی کر ڈالا۔
’’سچ کہو بوا مدن۔۔۔‘‘ بڑی بھاوج نے گوٹا پھانکتے ہوئے پوچھا، ’’ہاں بیوی۔ چل دیئے ہم بھی‘‘، بوا مدن نے اعتراف کیا۔
’’کیسے چل دیں۔۔۔؟‘‘ بڑی بھاوج کو ایک طرح سے تو رشک ہی آیا۔ اچھے خاصے لوگ نکلتے چلے جارہے ہیں۔ سب فضیحتوں سے الگ۔ سارے دلدّر دور کٹ جاویں گے وہاں پہنچ کر۔۔۔
’’بس بڑی بھاوج لڑکا نہیں مانتا۔ وہاں سے ہر بار خط میں لکھتا ہے کہ بس اماں آ جاؤ۔ کوئی نگوڑی جگہ سکھر ہے۔ وہاں اس نے راشن کی ڈپو کھول لی ہے۔
’’اچھا۔۔۔؟ شکر ہے۔ مولا سب کی بگڑی بنائیں۔۔۔‘‘ بڑی بھاوج نے کہا۔
عاشور کی شب لیلیٰ۔۔۔ بوا مدن نے جو حسب معمول عینک گھر بھول آئی تھیں دوبارہ غلط مرثیہ شروع کیا۔ لیکن سب پر ایسی اداسی اور اکتاہٹ طاری تھی کہ کسی نے ان کی تصحیح کرنے کی ضرورت نہ سمجھی۔ بگن نے آواز ملائی۔۔۔ چراغوں کی روشنی دالان میں مدھم ساز روا جالا بکھیرتی رہی۔ آنگن کا گیس کا ہنڈہ پیلا پڑتا جارہا تھا۔
اس تاریکی میں کشوری سیاہ دوپٹے سے سر ڈھانپے اپنی جگہ پر اکڑوں بیٹھی سامنے رات کے آسمان کو دیکھتی رہی۔
کنول کماری جین نے مہمانوں کے جانے کے بعدنشست کے کمرے میں واپس آکر دریچوں کے پردے گرائے اور چائے کا سامان میزوں پر سے سمیٹنے لگی۔ مدراسی آیا ایک ہی تھی جسے وہ ہم راہ لیتی آئی تھی اور پردیس میں ملازموں کے فقدان پر اس نے ملٹری اڈوائزر بریگیڈیر کھنہ کی بیوی سے بڑا رقت انگیز تبادلہ خیالات کیا تھا۔ گھر کی صفائی اوربچے کی دیکھ بھال کے بعد جو اسے وقت ملتا اس میں وہ رائل اکیڈمی آف ڈریمیسٹک آرٹ جا کر یو گرافی سیکھتی تھی۔ سرلارنس اور لیڈی اولیویز، اینتھنی اپسکویتھ کرسٹفر فرائی، ان سب سے اس کی بڑی گہری دوستی تھی۔ یہ سب مل کر گھنٹوں فن اداکاری، جدید آرٹ اور ہندوستانی بیلے پر گفتگو کرتے۔
جین کے پاس ان سب بکھیڑوں کا وقت نہ تھا۔ ساڑھے آٹھ بجے رات کے تو وہ دفتر سے نپٹ کر انڈیا ہاؤس سے لوٹتا اور وہ تو صاف بات کہتا تھا کہ بھائی میں انٹلکچوئیل و نٹلکچوئیل نہیں ہوں۔ سیدھا سیدھا آدمی ہوں اور جس ڈھرے پرسن پنتیس سے چل رہا ہوں وہی میرے لیے ٹھیک ہے۔ انگریز کے زمانے میں وہ ملک کے طبقاتی قطب مینار کی سب سے اونچی سیڑھی پر پہنچ چکا تھا۔ اور اب تو وہ اتنا اونچا تھا کہ بالکل بادلوں پر براجمان تھا۔ انگریز کے زمانے میں ڈریس سوٹ پہنتا۔ اب سفید چوڑی دار پائجامے اور سیاہ شیروانی میں ملبوس سفارتی ضیافتوں میں کیا ہلکی پھلکی نپی تلی باتیں کرتا۔ خود کنول کیا کم معرکے کی ڈپلومیٹک وائف تھی۔ جہاں جاتی محفل جگ مگا اٹھتی۔ واہ واہ، مثلاً آج ہی کی پارٹی میں اس نے کوریا کی کرشنا مینن والی تجویز کے سلسلے میں ’نیو اسٹیٹس مین‘ اینڈ نیشن کے ایڈیٹر کنگز لے مارٹن اور جدید شاعر لوئی مک نیس دونوں کے چھکے چھڑا دیئے۔ سب کو قائل ہونا پڑا۔ چاند باغ کے اچھے پرانے سنہرے دنوں میں تو خیر وہ یوں ہی جھپسٹ میں انٹلکچوئیل بن گئی تھی کہ یہ یونی ورسٹی کی زندگی کا ایک لازمی جزو تھا۔ پر یہ تو ان دنوں اس کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک روزہ وہ ان ساری جید بین الاقوامی گلیمرس ہستیوں سے یوں بھائی چارے کے ساتھ ملاکرے گی جیسے وہ سب گاجر مولی ہیں۔
’’سوریہ است ہو گیا۔۔۔ سوریہ است ہوگیا۔۔۔‘‘ ارملا گنگناتی ہوئی اندر آئی، ’’کنول دیدی۔۔۔ جاتے جاتے مجھے خیال آیا کہ ایک بار آپ کو پھر یاد دلا دوں کہ آپ کو مجلس میلے میں آنا ہے، ’’ہاں ہاں بھئی۔۔۔‘‘’’کنول نے جواب دیا۔۔۔‘‘ اور وہ میری کتاب تو دیتی جاؤ۔۔۔‘‘
’’ارے ہائے۔۔۔‘‘’’ارملا نے رک کر کہا۔۔۔‘‘ وہ تو ڈاکٹر آفتاب رائے نے مجھ سے لے لی۔ وہ مجھے انڈیا آفس لائبریری سے نکلتے ہوئے مل گئے۔ چھین کر لے گئے، کہنے لگے کل دے دیں گے۔۔۔‘‘
ڈاکٹر۔۔۔ آفتاب۔۔۔ رائے؟ کنول نے دہرایا۔
’’ہاں۔۔۔ کنول دیدی۔۔۔‘‘ ارملانے اسی طرح لاپروائی سے بات جاری رکھی۔ وہ تو دن بھر یوں ہی لائبریریوں میں گھسے رہتے ہیں۔ آج کل ایک نئی کتاب لکھ رہے ہیں۔ آج مہینوں کے بعد اتفاقاً نظر آگئے۔ ان کا کوئی بھروسہ تھوڑا ہی ہے۔ لیکن کل وہ براڈ کاسٹنگ ہاؤس آرہے ہیں۔ وہاں کتاب مجھے لوٹا دیں گے۔ اچھا گڈنائٹ کنول دیدی۔۔۔‘‘
’’گڈ نائٹ ارملا۔۔۔‘‘
’’ارے ہاں‘‘، اس نے جاتے جاتے رک کر پھر کہا، ’’کل آپ رائل کمانڈ پر فورمنس میں جارہی ہیں۔۔۔؟ آپ کو تو سر رالف رچرڈسن نے خود ہی بلایا ہوگا۔‘‘
’’ارے نہیں بھئی۔۔۔‘‘ کنول نے پیشانی پر سے بال ہٹا کر تھکی تھکی ہوئی آواز میں کہا (یہ بھی اس کا ایک پوز ہے، ایک دل جلی مسز اچاریہ نے جو سکنڈ سکریٹری کی بیوی تھی، مارے حسد کے اپنی ایک سہیلی سے کہا تھا، ’’جانتی ہے کہ بکھرے ہوئے بال اس کے اوپر زیادہ اچھے لگتے ہیں۔ چڑیل کہیں کی۔‘‘) نہیں بھئی ارملا۔ مجھے یہ پارٹیوں اور سفارتی مصروفیتوں کا سلسلہ بعض دفعہ بالکل بور کردیتا ہے۔ اس سے کہیں پناہ نہیں۔۔۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ گڈ نائٹ۔‘‘
’’اچھی طرح سوؤ۔۔۔‘‘ کنول نے کہا۔ ارملا، ہریندر ناتھ چٹوپادھیا کا کورس گنگناتی ہوئی نچلی منزل میں اپنے کمرے کی طرف چلی گئی۔
انڈیا آفس لائبریری سے نکلتے ہوئے مل گئے۔ ڈاکٹر آفتاب رائے مل گئے۔۔۔
اجی ان کا کوئی بھروسہ تھوڑا ہی ہے۔ چھین کر لے گئے۔۔۔ کہنے لگے کل دے دیں گے۔۔۔ وہ صوفے پر بیٹھ گئی، وسنتی۔۔۔ اس نے چلا کر آواز دی، ’’ کھانا گرم پر لگا دو۔۔۔‘‘ اس نے ٹیلی ویژن کھولا۔ بکواس ہے۔ بند کردیا۔ پھر اس نے ریڈیو لگایا۔ بکواس تھا۔ اسے بھی بند کردیا۔ کیا پتہ اس سمے لکھنؤ ریڈیو پر ارچنا بنرجی گاتی ہو۔ پو ہوڑی چھورنا۔۔۔ نکر بو جوئے ہو۔۔۔ اور چاند باغ کی خاموش سڑکوں پر سے لڑکیاں لینٹرن سروس کے بعد لوٹتی ہوں گی۔
میں نے کیا کیا تھا۔۔۔؟ اس نے سوال کیا۔ کچھ نہیں۔ میں اب دس سال سے کنول کماری جین ہوں۔ یہ تو کچھ بات نہ بنی۔ بات کس طرح بنتی ہے۔ کیوں نہیں بنتی۔۔۔ سال گزرتے جارہے ہیں۔ میں کنول کماری جس نے یہ سب دیکھا۔ ایک روز یوں ہی ختم ہوجاؤں گی اور تب بہت اچھا ہوگا۔
ایسا نہ ہونا چاہئے تھا۔ پر ہوگیا۔
کنول ڈارلنگ۔۔۔ ثروت نے انگلی اٹھا کر سخت صوفیانہ انداز میں اسے کہا تھا۔ جن ڈھونڈھاتن پائیاں گہرے پانی پیٹھ۔۔۔
میں برہن ڈوبت ڈری رہی کنارے بیٹھ۔۔۔؟ کنول نے سوچا تھا کنارا بھی تو نہیں ہے۔
پانے کے کیا معنیٰ ہیں؟ کیا ملتا ہے؟
باہر اندھیرا تھا۔ اور سردی۔ اور بیکراں خاموشی۔ میں زندہ ہوں۔
ارے بھئی آفتاب بہادر۔۔۔ اس نے غصے سے سر ہلا کر دل میں سوال کیا۔۔۔ تم کیوں چلے گئے تھے۔ میں نے تمہارا کچھ بگاڑا تھوڑا ہی تھا۔ تم اپنے آپ میں مگن رہتے، میں وہیں کہیں تمہاری زندگی کے تانے بانے میں کسی کونے میں آکر چپکی بیٹھ جاتی اور بس تمہارے لیے پوریاں بنایا کرتی۔ تم اسی طرح رہتے۔ اس میں تمہاری شکست نہ تھی۔ تمہاری تکمیل تھی میاں آفتاب بہادر۔۔۔؟
نیچے کیرل گانے والے ہیتھ کی اور نکل گئے تھے۔
آفتاب بہادر۔۔۔ اب جو میں ہوں۔ اور جو تم ہو۔۔۔ کیا یہی بہت ٹھیک ہے؟
بہت زمانہ ہوا اس نے چاند باغ میں ایک لڑکی کو دیکھ کر جو آفتاب رائے کو بہت پہلے سے جانتی تھی، سوچا تھا کہ جنے آفتاب کی بیوی کیسی ہوگی (ایک بار خود اس کے لیے اس کی دوست ثروت نے ایک بور سے آدمی کی تصویر سامنے لاکر کہا تھا۔ آنے والے دور کی دھندلی سی اک تصویر دیکھ۔۔۔ اور کمال یہ کہ عین مین اسی طرف کا آدمی جین نکلا۔۔۔) آفتاب کی بیوی۔ یہ فقرہ کتنا عجیب لگتا تھا۔ کوئی ہوگی چڑیل۔ آخر میں یہ سب کرکر ی کھاتے ہیں۔ ثروت نے اضافہ کیا تھا۔ خوب صورت تو ضرورہوگی اور ٹینس کھیلتی ہوگی۔ جس کا آفتاب کو اتنا شوق ہے۔ لیکن فراٹے بھرنے اور ہوا میں اڑنے والی لڑکیاں تو وہ سخت ناپسند کرتا تھا۔ جس کو وہ پسند کرے گا۔ وہ تو بہت عمدہ ہوگی، بس بالکل مجموعہ خوبی۔ چندے آفتاب چندے مہتاب۔ جی ہاں۔ اور مجھ میں کیا برائی تھی؟ اس نے طےکرنا چاہا کہ آفتاب کا رویہ یہ تھاکہ اس پر کنول کماری پریہ وحی اترنی چاہئے تھی کہ یہ مہاپرش، آسمان پر سے خاص اس کے لئے بھیجا گیا ہے، لیکن یہ اس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ اس کنول کماری سے یا روزانہ آکر ملے یا کبھی نہ ملے۔ اس سے طبلہ اور جے جے ونتی سنے۔ پوریاں بنوا کر کھائے۔ پھر ایک روز اطمینان سے آگے چلآ جائے۔ اور یہ کنول کماری بعد میں بیٹھ کر تاکتی رہے۔ اور کیا وہ اس کے پیچھے پیچھے ڈنڈا لے کر دوڑتی کہ اے میاں آفتاب بہادر ایک بات سنتے جاؤ۔۔۔
ان دنوں ثروت نے ایک اور لطیفہ ایجاد کیا۔ چیپل کے بعد ایک روز اس نے ’گینگ‘ کی باقی افراد سے کہا۔۔۔ بھئی نمبر ۲۹۔ اے پی سین روڈ پر آج کل یہ سلسلہ ہے کہ اگر بھائی آفتاب چائے پیتے پیتے رک کے دفعتاً کنولا رانی سے کہتے ہیں بھئی کنول مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے، تو ہماری کنولا رانی کو فوراً یہ دھیان ہوتا ہے کہ اب شاید یہ پروپوز کرنے والا ہے۔ پر وہ بات محض اتنی ہوتی ہے کہ بھئی ذرا مہی پال کو فون کردو۔۔۔ کہ آم خریدتا لائے یا اسی قسم کی کوئی اور شدید اینٹی کلائمکس۔ ثروت اس قدر کمینی تھی۔ وہ سارے مسخرے پن کے قصے یاد کر کے اب اس نے دل میں ہنسنا چاہا۔ لیکن سردی بڑھتی گئی۔ اور بے کراں تنہائی اور زندگی کے ازلی اور ابدی پچھتاؤوں کا ویرانہ۔
آفتاب بہادر تم کو پتہ ہے کہ میری کیسی جلا وطنی کی زندگی ہے۔ ذہنی طمانیت اور مکمل مسرت کی دنیا جو ہوسکتی تھی۔ اس سے دیس نکالا جو مجھے ملا ہے اسے بھی اتنا عرصہ ہوگیا کہ اب میں اپنے متعلق کچھ سوچ بھی نہیں سکتی۔ اب میرے سامنے صرف رائل کمانڈ پر فورمنس ہیں اور جین کے صبح کے ناشتے کی دیکھ بھال اور یہ ہر دلعزیزی جو مجھ پر ٹھونس دی گئی ہے لیکن تم بھلا کیا سوچو گے (اس نے کہا تھا ارے تم لوگ اسی کو پسند کرتی ہو جو ایک مخصوص معیار پر پورا اترتا ہے۔) کیا الٹی منطق تھی۔ یعنی چت بھی تمہاری پٹ بھی۔ آخر اس ساری لفاظی، اس ذہنی اور تصوراتی گورکھ دھندے سے تمہارا مطلب کیا نکلا۔ واہ واہ چغد آدمی کہیں کے۔
ثروت نے اس کی شادی کے بعد ایک اور سہیلی کے سامنے نہایت جامع و مانع اختصار کے ساتھ اس طرح تشریح کردی تھی کہ قصہ کو یوں مختصر کرتی ہوں اے عزیزہ، کنول کی ٹریجڈی یہ ہوئی کہ ساری عمر تو کوئی ان کی سمجھ میں نہ آیا۔ سب میں مین میخ نکالتی رہیں اور مارے بد دماغی کے کسی کو خاطر ہی میں نہ لاویں اور جن بزرگوار کو آپ نے نہایت صدق دل سے پسند فرمایا۔ وہ خود ہی ہری جھنڈی دکھا گئے۔۔۔ بس اب کیا ہے پیاری بہن۔ جب آنکھ کھلی تو گاڑی نکل چکی تھی۔ پٹری چمک رہی تھی۔۔۔ جی ہاں۔
اری ثروت۔۔۔ کروک کہیں کی۔
مگر سوال یہ تھا کہ ہر چیز کے متعلق اس مذاق اور خوش دلی کا رویہ کہاں تک گھسیٹا جاسکتا تھا (لیکن اس کے علاوہ تم اور کر بھی کیا سکتی ہو۔ ثروت نے کہا تھا) زندگی نہ ہوئی اسٹیفن لیکاک کا مسخرہ پن ہوگئی۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ تمہارا مذاق کہاں ختم ہوتا ہے اور سنجیدگی کہاں سے شروع ہوئی ہے یا Vice Versa۔
ڈاکٹر صاحب تو دن بھر لائبریریوں میں گھسے رہتے ہیں اور آج کل ایک اور کتاب لکھ رہے ہیں۔ اسے ارملا نے مطلع کیا ہے۔ اب وہ کیا کر رہا ہے۔ ڈاکٹر ڈی پی مکرجی کی طرح مہا گرو بن چکا ہے۔ غالباً اس نے شادی کر لی ہوگی۔ یہاں پہنچ کر اسے عجیب و غریب اور نتہائی شدید تکلیف کا احساس ہوا۔ (وہ کون ہوگی۔۔۔ کیسی ہوگی۔۔۔ آفتاب کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی کیسی نظر آتی ہوگی۔ آفتاب اس سے کہاں ملا ہوگا) یا اب تک وہ کنفرمڈ بیچلر بن چکا ہوگا (بہت سے لوگوں کے لیے اس میں بھی سخت گلیمر تھا۔۔۔ کیا بات ہے صاحب۔۔۔ ان ساری حماقتوں سے علاحدہ اور برگزیدہ۔۔۔ اپنی نہایت شخصی دنیا، اپنے مشغلے، کتابیں، موسیقی، میتھوون کے کونسرٹ، چند دل چسپ سے گنے چنے دوست، اتوار کے روز دن بھر کسی کنٹری کلب کی لاؤنج میں بیٹھے ٹائمز پڑھ رہے ہیں۔ تیسرے پہر کو رائیڈنگ کو چلے گئے۔ اور ٹینس کھیلا۔ ادھر ادھرخواتین سے بھی مل لیے۔ لیکن لڑکیوں کو ہمیشہ بڑے ترحم کی نگاہوں سے دیکھا گویا۔ بے چاریاں! اور اپنا بے نیازی اور سرپرستی کا رویہ قائم رکھا۔۔۔ (یہ سب ثروت نے ایک دفعہ ارشاد کیا تھا) اچھا بھئی آفتاب بہادر۔۔۔ تم کتابیں لکھتے رہو، میں ان پر تھرڈ پروگرام میں ریویو کروں گی۔ راستہ اسی طرح طے ہوتا رہے گا۔
صبح ہوئی شام ہوئی۔۔۔ زندگی تمام ہوئی۔۔۔ زندگی تمام ہوئی۔۔۔ نچلی منزل میں ارملا ہریندر ناتھ چٹوپا دھیا کا وہ کمبخت کورس آہستہ آہستہ الاپے جارہی تھی۔
وہ دروازہ کھول کر باہرآگئی۔ کہرا اب کم ہوگیا تھا۔ اور آسمان کا رنگ قرمزی تھا جس کے مقابل میں کیتھولک چرچ کے منارے کا سلہٹ اپنی جگہ پر قائم تھا۔
اونی لبادوں میں ملفوف مشرقی یوروپ سے بھاگے ہوئے لوگ، بھاری بھاری قدم اٹھاتے ہاتھوں میں شمعیں لیے مڈنائٹ ماس کے لیے گرجا کی سمت بڑھ رہے تھے۔
صبح ہوئی، شام ہوئی
زندگی تمام ہوئی
زندگی تمام ہوئی
زندگی تمام ہوئی
’’جب مجھے ملازمت نہ ملی تو میں نے سمندر پار کے وظیفوں کے لیے ہاتھ پاؤں مارے۔ برٹش کونسل نے مجھے یہاں آنے کا وظیفہ دے دیا اور جب میں نے روانہ ہونے کی خبر بابا کو سنائی تو وہ بالکل چپ ہوگئے اور اس کے بعد ایک لفظ منہ سے نہ بولے اور ابھی میں راستے ہی میں تھی جب مجھے اطلاع ملی کہ بابا مرگئے۔۔۔‘‘ کشوری نے مدھم آوازمیں بات ختم کی اور چمٹے سے آتش دان میں لکڑی کے کندوں کو ٹھیک کرنے میں منہمک ہوگئی۔
’’آج مڈنائٹ ماس منانے جائیں گے‘‘، روز ماری نے اپنے برش اور کینوس سمیٹتے ہوئے کہا۔ چلو ہم برومپٹن اوریٹری چلیں، جہاں ایک شام میں نے پیلے بالوں اور اداس چہروں والی ایک ہینگرین پناہ گزیں لڑکی کو دیکھا تھا۔ وہ سر پر سیاہ اسکارف باندھے تسبیح ہاتھ میں لیے بہت دیر سے ساکت اور منجمد بیٹھی تھی۔ اس کا یہ انداز کتنا قابل رحم تھا۔ میں نے قربان گاہ کے ستونوں کے پیچھے چھپ کر اس کی تصویر بنائی۔ میں نے اس تصویر کا نام ’آزادی سے فرار‘ رکھا تھا۔ لیکن جب اسے نمائش میں رکھا جانے لگا تو ہم عصر فنون کی انجمن نے اس کا نام بدل کے ’آزادی کا شکرانہ‘ کردیا۔۔۔ آج کی رات میں وہاں امید اور ناامیدی کی ان کرب ناک کیفیتوں کے چند اور اسکیچ تیار کروں گی۔
کتنی کیفیتیں ہیں جنہیں الفاظ اور رنگوں کے روپ میں ڈھالا ہی نہیں جاسکتا۔ جن کے اظہار سے ان کی بے وقعتی اور توہین ہوتی ہے۔ کشوری نے سوچا (یہی بات اپنے لیے کتنی بارکنول نے محسوس کی تھی۔ لیکن کوئی کچھ نہ جانتا تھا)
کیسی بے بسی ہے کہ سب اپنے اپنے دماغوں میں محصور رہے جانے پر مجبور ہیں۔
’’تم کو معلوم ہے کہ میں یکلخت اس طرح تم سب سے یہ باتیں کیوں کر رہی ہوں‘‘ کشوری نے کہا۔
’’سنتے ہیں کہ جب مدتوں کے بچھڑے ہوئے دوجنے دوبارہ ملتے ہیں تو ساری پرانی یگانگت یاد آجاتی ہے۔ پرانے دوستوں سے مل کر سبھی کو خوشی ہوتی ہے‘‘، اس نے بات آہستہ آہستہ جاری رکھی، ’’لیکن پرانے ’دشمن‘ سے مل کر مجھے کیسی مسرت ہوئی۔ آج صبح مجھے بالکل اتفاقیہ کھیم وتی پھر سے نظر آگئی ہے۔ مجھے پتہ نہ تھا کہ وہ یہاں پر ہے۔ وہ ایک دوکان سے نکل رہی تھی، ’’ارے کھیم۔۔۔ کھیما۔۔۔‘‘ میں چلا کر اس کی اور دوڑی۔ اس نے مجھے واقعی نہ پہنچانا۔ وہ بہت موٹی ہوگئی تھی اور اس کے ساتھ غالباً اس کا شوہر تھا، ’’کھیما رانی تم ہم کانا ہیں چینہیں؟‘‘ میں نے بالکل بے ساختگی سے اپنی زبان میں اس سے کہا جو اس کی اور میری مشترکہ زبان تھی۔۔۔ ہلو کشوری۔۔۔ اس نے مطلق کسی گرم جوشی کا اظہار نہ کیا، نمستے۔ اس کے شوہر نے مسکرا کر سلام کیا، ’’یہ میرے پتی ہیں‘‘، کھیم نے اسی سرد مہری کے انداز میں بات کی، ’’نمستے بھائی صاحب۔۔۔‘‘ میں نے بے حد خوش دلی سے کہا۔
’’تم تو پاکستانی ہو۔ تمہیں نمستے نہ کہنا چاہئے‘‘، کھیم نے بڑی طنز کے ساتھ کہا۔ میرے اوپر جانو کسی نے برف ڈال دی۔ میں نے کھسیانی ہنسی ہنس کر دوسری اور دیکھا۔‘‘ اس کے شوہر نے جو بہت سمجھ دار معلوم ہوتا تھا۔ فوراً بات سنبھالی اور کہنے لگا، ’’اچھا بہن جی۔۔۔ اس سمے تو ہم بہت جلدی میں ہیں۔ آپ کسی روز ہمارے یہاں آئیے، ہم یہیں ساؤتھ کینز نگٹن میں رہتے ہیں۔۔۔ اچھا، ضرور آؤں گی۔ بائی بائی کھیم۔۔۔‘‘ میں نے مری ہوئی آواز میں جواب دیا اور آگے چلی گئی۔ میں نے اسے یہ بھی نہ بتانا چاہا کہ میں پاکستانی نہیں ہوں۔ اس سے کیا فرق پڑتا تھا۔
’’میں اس وقت کوئی رقت انگیز تقریرنہ کروں گی۔ میں یہ نہ کہوں گی کہ رفیقو انسان نے خود کشی کر لی۔ پرانی اقدار تباہ ہوگئیں۔ اپنے پرائے ہوگئے۔ یہ سب پچھلے پانچ سال سے دہراتے دہراتے تم لوگ اکتا نہیں گئے۔ یہ جو کچھ ہوا یہی ہونا تھا اور آپ تھیں کہ ایک نہایت رومینٹک تصور لیے بیٹھی تھیں۔ گویا زندگی نہ ہوئی شانتارام کا فلم ہوگئی۔ میں نے اور کھیم نے جو کچھ کیا وہ ان سب باتوں کا نہایت منطقی نتیجہ تھا اور باقی تم جوکہنا چاہتی ہو وہ جھک مارتی ہوسمجھیں۔
’’اس انداز سے میں نے اپنے آپ کو سمجھانا چاہا۔ لیکن چلو روز ماری۔ اب ہم نئی تصویریں بنائیں گے۔‘‘ اس نے روز ماری کو مخاطب کیا، ’’تم اگر ہمارے اسکیچ تیار کرو تو تمہاری آرٹ کو نسل اور ہم عصر فنون کی انجمن ان کے لیے کون سے عنوان منتخب کرے گی۔‘‘
’’ہم اپنے بدقسمت ملک کی وہ نوجوان نسل ہیں جو یورپ کی جنگ اور اپنے سیاسی انتشار کے زمانے میں پروان چڑھی۔ اپنی خانہ جنگی کے دور نے اس کی ذہنی تربیت کی، اور اب اس ہول ناک ’سرد لڑائی‘ کے محاذ پراسے اپنے اور دنیا کے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔‘‘
’’ہم لوگ یونی ورسٹی کی اونچی اونچی ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں۔ تہذیبی میلے اور تہوار منعقد کرنے میں مصروف ہیں۔ ہے مارکیٹ کے مخصوص تھیٹروں میں اپنے ملنے کے پروگرام پیش کرتے ہیں۔ امن کانفرنسوں اور یوتھ فیسٹولز میں شامل ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں سے واپس لوٹ کر کیا ہوگا۔۔۔
’’تم نے کبھی خیال کیا ہے کہ میں کہاں جاؤں گی۔۔۔؟ میرا گھر اب کہاں ہے؟ کیا میں اور میری طرح دوسرے ہندوستانی مسلمان ایسے مضحکہ خیز اورقابل رحم کردار بننے کے مستحق تھے۔۔۔؟‘‘
وہ خاموش ہوگئی۔ سب لوگ چپ چاپ بیٹھے آگ کے شعلوں کو دیکھتے رہے۔ سڑک کے دوسری طرف ایک مکان میں ’وائٹ کرسمس‘ گائی جارہی تھی۔
’’شاید میں نے تمہیں بتایا تھا۔۔۔‘‘ ارملا نے نیچی آواز میں کہا کہ آج دفتر سے واپسی میں ڈاکٹر آفتاب رائے مل گئے۔ میں نے ان سے پوچھا۔ ڈاکٹر صاحب میں نے تو سنا تھا کہ آپ ری پبلک آف لمپی ڈورا میں انڈیا کے سفیر ہیں۔ تم نے غلط سنا تھا۔۔۔! انہوں نے رسان سے مسکرا کر کہا۔ میں نے گھبرا کر ان کو دیکھا۔ تو کیا آپ بھی۔۔۔ میں نے سوال کرنا چاہا، ہاں۔۔۔ میں بھی۔۔۔ اتنا کہہ کر وہ جلدی سے خدا حافظ کہتے ہوئے مجمع میں غائب ہوگئے اور دوسرے لمحے اسٹیشن کی مہیب انڈر گراؤ نڈ نے ان کو نگل لیا۔ ان کے ہاتھوں میں چند کتابیں تھیں اور وہ کسی سے بات کرنا نہ چاہتے تھے۔۔۔ نہ جانے وہ کہاں رہتے ہیں۔ کیا کرتے ہیں۔ اتنا عرصہ انہوں نے کیسے گزارا۔ وطن واپس جانے کی اجازت انہیں کب ملے گی۔۔۔ کیا ہوگا۔۔۔‘‘
دور گرجاؤں کے گھنٹے بجنے شروع ہوگئے تھے۔ وہ سب باہر سڑک پر آگئے۔
ہماری غلطیوں کا سایہ ہمارے آگے آگے چلتا ہے۔ اور رات ہمارے تعاقب میں ہے۔ انہوں نے سوچا۔۔۔لیکن ہم رات کی وادی کو تیزی سے عبور کر رہے ہیں۔
ہمارے چاروں طرف یہ لاکھوں کروڑوں انسانوں کا ہجوم یہ لوگ اپنی قسمتوں کو روتے ہیں۔ لیکن دیکھو۔ یہ راستے، یہ جھیلیں، یہ باغات، ہمارے منتظر ہیں۔ سناٹے میں صرف موت کے قدموں کی چاپ تھی۔ اجنبی موت جو یک لخت ہمارے سامنے آگئی۔ لیکن ہم اسے چھوڑ کر ہنستے ہوئے آگے نکل جائیں گے۔ سنو۔ ہمارے پاس یقین ہے اور کامل اعتماد، جسے اس محبت نے تخلیق کیا ہے جو غداری کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔ یہ غداری محض یاسمین کے پھولوں کی آرزو ہے۔ وہ گرجا کی سمت بڑھتے رہے۔
سامنے راستے کی نیم تاریکی میں ایک الزبتھن وضع کے دو منزلہ مکان میں دھندلی روشنیاں جھلملا رہی تھیں۔ یہ ہندوستانی ہائی کمیشن کے فرسٹ سکریٹری کا مکان تھا۔ اس کے آگے پھر اندھیرا تھا۔ وہ کون دیوانی روح اپنی تنہائی سے گھبرا کر باہر نکل آئی ہے۔ انہوں نے سوال کیا۔ اس سے کہو یہ یہاں کیوں کھڑی ہے۔ ان لیمپوں کے نیچے گھاس کے ان راستوں پرزمین کے ان پھولوں کے درمیان اسے کچھ نہ ملے گا۔ سنسان سیڑھیوں پر یہ کون لوگ نظر آرہے ہیں۔ ان سے کہو کہ واپس جائیں اور صبح کا انتظار کریں۔
ہمارے اور ان کے خیالوں کے بھتنے۔۔۔؟
لیکن پھر گھنٹوں نے پکارا۔۔۔ آؤ۔۔۔ آج کی رات تمہارے وجود کے گناہ کا کفارہ ادا کیا جائے گا۔ میں تمہارے خدا کی آواز ہوں۔ اور تمہاری ہر تباہی میں شریک ہوں۔ اور ہر موت کا محافظ ہوں۔ اور اب پادریوں اور راہبوں کا جلوس آگے بڑھا۔ جو اپنے اپنے ملکوں سے جلا وطن ہو کر اس سمے خدا وند خدا کی تقدیس کرتے تھے۔ اور گرجا کی مرمریں سیڑھیوں پر سیاہ اسکارف سے سر ڈھانپے عورتیں بوڑھے اور جوان بڑے صبر سے بیٹھے تسبیحیں پھیر رہے تھے۔ اور ہولی کمیونین کے منتظر تھے۔
ایک راستہ یہیں پر آکر ختم ہوجاتا ہے۔ پھر ایک دیوار ہے۔ لیکن ریشمی پردوں میں سے چھن چھن کر روشنی ادھر بھی پہنچ رہی ہے۔ گو بہت سے سیاہ پوش مریض دیوانے فلسفی اور بیمار سیاست دان راستہ روکے کھڑے ہیں۔
ہمیں تمہاری موت عزیز ہے۔ کیوں کہ تمہاری موت میں نجات ہے۔ ماس کے گھنٹوں نے کہا۔
ہماری ماں، مریم۔ چٹانوں کی مقدس خاتون۔ سمندر کے روشن ستارے ہمیں چپکا بیٹھنا سکھا۔ یہ ہمارا عہد نامہ ہے۔
ہمارا پرانا عہد نامہ تھا۔ ان کے خیالات تباہ ہوچکے۔ اب ان کے پاس کیا باقی رہا ہے۔۔۔ آرگن کے مدھم اور لزہ خیز سروں کے ساتھ قدم اٹھاتے ہوئے وہ سب آہستہ سے اپنے راستے پر واپس آئے۔
کنولارانی۔۔۔ کسی نے اندھیرے میں یک لخت پہچان کر چپکے سے پکارا۔ یہاں آجاؤ۔
اور ہمارے ساتھ کھڑے ہوکر اس خوب صورت روشنی کو دیکھو جو آسمان پر پھیل رہی ہے اب کسی پچھتاوے، کسی افسوس کا وقت نہیں ہے۔
’’پرانے عہد نامے منسوخ ہوئے‘‘، کشوری نے آہستہ سے دہرایا، ’’ہم اس طرح زندہ نہ رہیں گے۔ ہم یوں اپنے آپ کو نہ مرنے دیں گے۔ ہماری جلاوطنی ختم ہوگی۔ ہمارے سامنے آج کی صبح ہے۔ مستقبل ہے۔ ساری دنیا کی نئی تخلیق ہے۔‘‘
لیکن کنول کماری۔۔۔ تم اب بھی رو رہی ہو۔۔۔؟
مأخذ : پت جھڑ کی آواز
مصنف:قرۃ العین حیدر