میرے دماغ میں اتنے بہت سے خیالات تیزی سے رقص کررہے ہیں۔۔۔ یہ بے معنی اور بے سروپا باتیں۔۔۔ نہ معلوم میرے چھوٹے سے سر میں اتنی ساری باتیں کیسے ٹھونس دی گئیں۔۔۔ میرا بے چارہ چھوٹا سا سر۔۔۔ بالوں کی سیاہ لٹوں میں لپٹا ہوا۔۔۔ میرے سیاہ بال اور نیلی آنکھیں بہت پسند کی جاتی ہیں۔۔۔ ڈینیوب کے نیلے پانیوں کی طرح جھلکتی ہوئی آنکھیں۔۔۔ ڈینیوب اور والگا۔۔۔ اطالوی اور روسی تاکستانوں کے گھنے سائے اورسیب کے درختوں کے جھنڈ۔۔۔ رومان۔۔۔ زندگی۔۔۔
لیکن میری زندگی پر بڑی قنوطیت سی چھائی جارہی ہے ۔ شاید موسم بدل رہا ہے اس لیے۔۔۔ بے مزہ اور پھیکی پھیکی ہوائیں ہیں کہ چلے جارہی ہیں۔۔۔ پت جھڑ ختم ہونے ہی میں نہیں آتی۔ یہ ویران سبزہ گاہیں اور سڑکوں پر خاموشی سے چکر کاٹتے ہوئے بگولے۔۔۔ یہ صحرائی جھونکے جب اپنے دامن میں شاہ بلوط اور شہتوت کے خشک پتوں کو سمیٹے ہوئے میرے دریچے کے سامنے سے گزرتے ہیں تو مجھے بڑے زوروں سے غصہ آجاتا ہے۔۔۔ نہ معلوم بہار کب آئے گی!
گذشتہ موسم گل میں تو ہمارا گھر گہرے نیلے اور قرمزی رنگ کے پھولوں کی گنجان بیلوں میں بالکل چھپ گیا تھا اورباغ میں شہد کی مکھیاں خوب اونچے سروں میں بھنبھنایا کرتی تھیں اور خالد ٹینس کھیلتے کھیلتے سیٹیاں بجانی شروع کردیتا تھا۔۔۔ لیکن بھئی مجھے اس سے کیا!
رضیہ مجھ سے ایک دن کہہ رہی تھی کہ تم کتابیں و تابیں بہت پڑھتی رہتی ہو اسی لیے تمہارا دماغ خراب ہو چلا ہے۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے ہندوستان کو رومان کی ضرورت نہیں۔ اسے روٹی چاہئے۔۔۔ ٹھیک تو ہے۔۔۔ ہا! بے چارہ کلرکوں اور مزدوروں کا ہندوستان۔ لیکن میں اکیلی بھلا کیا کرسکتی ہوں اس کے لیے!
پچھلے نومبر کی ایک سرد رات۔۔۔ سنیما سے واپسی پر خالد نے میرا تعارف ایک بہت اچھے سے انسان سے کرایا اور میرا خیال ہے کہ پہلی ملاقات میں ہی میں نے اسے بے حد پسند کیا تھا۔ اس کے بعد میں نے اسے چائے پر بلایا۔ لیکن نہ معلوم وہ کیوں نہیں آیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں بہت رات گیے تک برآمدے میں بیٹھی اس کا انتظار کرتی رہی تھی۔۔۔ کہرہ اور دھند لکا بڑھتا جارہا تھا اور بارش شروع ہوگئی تھی۔ سامنے سڑک پر بڑی بڑی موٹریں کیچڑ کے چھینٹے اڑاتی ہوئی نکلی چلی جارہی تھیں اور ان کی پچھلی سرخ روشنیاں تھوڑی دور تک نظر آنے کے بعد دھندلکے میں غائب ہوجاتی تھیں۔ لیکن وہ آیا ہی نہیں اور مجھے اتنی دیر تک ٹھنڈ میں موجود رہنے کی وجہ سے زکام بھی ہوگیا۔ اس رات کھانے کی میز پر رضیہ نے مجھے بتایا کہ میں بہت زیادہ بے وقوف ہوں۔
چند روز بعد وہ مجھے ایک کافی ہاؤس میں ملا۔ میں نے اس سے کہا کہ ٹی پارٹی پر میں نے اس کا بہت انتظار کیا۔ شاید بارش کی وجہ سے راستے میں موٹر خراب ہوگئی اس لیے وہ نہ آسکا ہوگا۔
’’میرے پاس موٹر نہیں ہے۔‘‘ اس نے لاپرواہی سے جواب دیا اور دوسری طرف دیکھنے لگا۔
’’تو آپ نے مجھے فون کردیا ہوتا، کار بھیج دیتی۔‘‘
’’میرے پاس فون بھی نہیں ہے۔‘‘
۔۔۔ہا بے چارہ آدمی۔۔۔! کار اور ٹیلی فون کے بغیر کیسے زندگی گزارتا ہوگا۔ میرے دل میں اس کے لیے بے انتہا ہمدردی پیدا ہوگئی۔
اور پھر ہم دونوں میں دوستی ہوگئی۔ اس کے دماغ میں بھی ایسی باتیں ٹھنسی ہوئی تھیں جنہیں انگریزی میں ideas کہتے ہیں۔ اس نے مجھے چند کتابیں پڑھنے کو دیں ۔۔۔ ان میں روٹی اور زندگی کے متعلق بہت ساری باتیں لکھی ہوئی تھیں جنہیں میں سمجھ ہی نہ سکی۔ وہ مجھے ’’ماری انطونی‘‘ کہا کرتا تھا۔ اسے مصوری بھی آتی تھی اور میں نے اسے بتایا تھا کہ مجھے لمبے لمبے بالوں والے پائپ پیتے ہوئے آرٹسٹ بالکل چغد لگتے ہیں۔
اس کی باتیں بے حد دل چسپ ہوتی تھیں اور میرا دل چاہتا تھا کہ کشنوں کے سہارے بیٹھ کر انہیں سنتی رہوں یہاں تک کہ اس کے سگریٹ کا دھواں ساری کائنات کو اپنے حلقوں میں جکڑے اور پھر میں صوفے پر بیٹھی بیٹھی اتنے زور سے ٹھوکر لگاؤں کہ یہ احمق اور بے تکی سی دنیا لڑھکتی ہوئی دور چلی جائے اورپھر بہت اچھی اچھی سی باتیں ہوں جو نہیں ہوسکتیں اور سب چیزیں ٹھیک ٹھیک ہوجائیں۔
وہ ہمارے یہاں بہت کم آتا تھا۔ نہ معلوم کیوں۔ آخری مرتبہ وہ چچا میاں کے پاس کسی کام سے آیا۔ چچا میاں وائے سرائے گل لاج کی پارٹی میں گیے ہوئے تھے۔ وہ باہر ہی سے واپس جارہا تھا لیکن میں نے اسے اندر بلالیا۔ ہم دونوں کافی دیر تک آتش دان کے پاس بیٹھے رہے۔ جگمگاتا ہوا ڈرائنگ روم۔۔۔ نرم و گرم صوفے اور قالین۔۔۔ قہوے کی پیالیوں میں سے اٹھتی ہوئی بھاپ۔۔۔ اور ریڈیو کی ہسپانوی موسیقی۔۔۔ مجھے اس وقت اپنا گھر اور زندگی بے حد پیاری اور عزیز معلوم ہورہی تھی اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ کاش اس کو بھی اتنی ہی راحت اور خوشی محسوس ہوسکے۔ مجھے یقین تھا کہ ساری دنیا میری طرح خوش و خرم ہے اور چند روز بعد سنیما ہال سے باہر نکلتے ہوئے میں نے سنا کہ اس کو شاید نمک کے محکمے میں نوکری مل گئی ہے اور وہ کہیں اور چلا گیا ہے۔ سویا سوا سو روپے کی نوکری۔۔۔ اور میں سوچنے لگی کہ شاید خدا نے دنیا اسی لیے بنائی ہے کہ اس میں سو روپے کی کلرکی کی جائے اور بس۔
لیکن جب میری پیکارڈ سڑک پر ٹھہرے ہوئے بارش کے پانی کو زنّاٹے سے چیرتی ہوئی، جگمگاتی تفریح گاہوں کے سامنے سے گزر رہی تھی تو میں نے سوچا کہ جس نظام کے ماتحت ہماری زندگی رواں ہے اسے میں بدل نہیں سکتی۔ تھوڑا ہی سکتی ہوں، جو ہورہا ہے اور ہوتا آیا ہے وہی ہوگا۔ بھئی خالد جو امپیریل سروس میں آگیا ہے تو اس لیے کہ چچا میاں ’’ نائٹ‘‘ ہیں۔۔۔ اور وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ افوہ۔۔۔
اور موسم خزاں پھر آگیا۔ رات میں اپنے ڈریسنگ روم کے دریچے سے باہر دیکھ رہی تھی۔ سڑک کے لیمپوں کی مدھم روشنیوں میں بھیگی ہوئی چھتوں اور گیلے کھمبوں کا غیر دل چسپ سا سلسلہ دور تک چلا گیا تھا۔۔۔ جس طرح میری زندگی ایک خاموش ہمواری اور یکسانیت سے گزرتی چلی جارہی ہے۔ لیکن اچھے سے آدمی! میں اب تک تمہیں بھولی نہیں ہوں۔۔۔ شاید اگلے موسمِ بہار تک بھول جاؤں۔۔۔ پر بہار کب آئے گی؟
مصنف:غلام عباس