فوٹوگرافر

0
230
Urdu Stories Afsana
- Advertisement -

کہانی کی کہانی:‘‘شمال مشرق کے ایک پرسکون قصبے میں واقع ایک ڈاک بنگلے کے فوٹوگرافر کی کہانی۔ ڈاک بنگلے میں گاہے ماہے ٹورسٹ آتے ہیں، جن سے کام پانے کی غرض سے اس نے ڈاک بنگلے کے مالی سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ انھیں ٹورسٹوں میں ایک شام ایک نوجوان جوڑا ڈاک بنگلے میں آتا ہے۔ نوجوان موسیقار ہے اور لڑکی رقاصہ۔ دونوں بےحد خوش ہیں اور اگلے دن باہر گھومنے جاتے وقت وہ فوٹوگرافر سے فوٹو بھی کھینچواتے ہیں، لیکن لڑکی فوٹو ساتھ لے جانا بھول جاتی ہے۔ پندرہ سال بعد اتفاق سے لڑکی پھر اسی ڈاک بنگلے میں آتی ہے اور فوٹو گرافر کو وہاں پا کر حیران ہوتی ہے۔ فوٹو گرافر بھی اسے پہچان لیتا ہے اور اسکے ساتھی کے بارے میں پوچھتا ہے۔ ساتھی جو زندگی کی رفتار میں کہیں کھو گیا اور اسے کھوئے ہوئے مدت ہو گئی ہے۔’’

موسم بہار کے پھولوں سے گھرا بے حد نظر فریب گیسٹ ہاؤس ہرے بھرے ٹیلے کی چوٹی پر دور سے نظر آجاتا ہے۔ ٹیلے کے عین نیچے پہاڑی جھیل ہے۔ ایک بل کھاتی سڑک جھیل کے کنارے کنارے گیسٹ ہاؤس کے پھاٹک تک پہنچتی ہے۔ پھاٹک کے نزدیک والرس کی ایسی مونچھوں والا ایک فوٹوگرافر اپنا سازوسامان پھیلائے ایک ٹین کی کرسی پر چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے۔ یہ گم نام پہاری قصبہ ٹورسٹ علاقے میں نہیں ہے اس وجہ سے بہت کم سیاح اس طرف آتے ہیں۔ چنانچہ جب کوئی ماہ عسل منانے والا جوڑا یا کوئی مسافر گیسٹ ہاؤس میں آ پہنچتا ہے تو فوٹو گرافر بڑی امید اور صبر کے ساتھ اپنا کیمرہ سنبھالے باغ کی سڑک پر ٹہلنے لگتا ہے۔ باغ کے مالی سے اس کا سمجھوتا ہے۔ گیسٹ ہاؤس میں ٹھہری کسی نوجوان خاتون کے لیے صبح سویرے گلدستہ لے جاتے وقت مالی فوٹو گرافر کو اشارہ کردیتا ہے اور جب ماہ عسل منانے والا جوڑا ناشتے کے بعد نیچے باغ میں آتا ہے تو مالی اور فوٹو گرافر دونوں ان کے انتظار میں چوکس ملتے ہیں۔

فوٹو گرافر مدتوں سے یہاں موجود ہے، نہ جانے اور کہیں جاکر اپنی دوکان کیوں نہیں سجاتا۔ لیکن وہ اسی قصبے کا باشندہ ہے۔ اپنی جھیل اور اپنی پاڑی چھوڑ کر کہاں جائے۔ اس پھاٹک کی پلیا پر بیٹھے بیٹھے اس نے بدلتی دنیا کے رنگارنگ تماشے دیکھے ہیں۔ پہلے یہاں صاحب لوگ آتے تھے۔ برطانوی پلانٹرز سفید سولا ہیٹ پہنے کو لونیل سروس کے جغادری عہدے دار، ان کی میم لوگ اور بابا لوگ۔ رات رات بھر شرابیں اڑائی جاتی تھیں اور گراموفون ریکارڈ چیختے تھے اور گیسٹ ہاؤس کے نچلے ڈرائنگ روم کے چوبی فرش پر ڈانس ہوتا تھا۔ دوسری بڑی لڑائی کے زمانے میں امریکن آنے لگے تھے۔ پھر ملک کو آزادی ملی اور اکاد کا سیاح آنے شروع ہوئے۔ یاسرکاری افسر یا نئے بیاہے جوڑے یا مصور یا کلاکار، جو تنہائی چاہتے ہیں، ایسے لوگ جو برسات کی شاموں کو جھیل پر جھکی دھنک کا نظارہ کرنا چاہتے ہیں، ایسے لوگ جو سکون اور محبت کے متلاشی ہیں جس کا زندگی میں وجود نہیں، کیوں کہ ہم جہاں جاتے ہیں فنا ہمارے ساتھ ہے۔ ہم جہاں ٹھہرتے ہیں فنا ہمارے ساتھ ہے۔ فنا مسلسل ہماری ہم سفر ہے۔

گیسٹ ہاؤس میں مسافروں کی آوک جاوک جاری ہے۔ فوٹو گرافر کے کیمرے کی آنکھ یہ سب دیکھتی ہے اور خاموش رہتی ہے۔

ایک روز شام پڑے ایک نوجوان اور ایک لڑکی گیسٹ ہاؤس میں آن کر اترے۔ یہ دونوں انداز سے ماہ عسل منانے والے معلوم ہوتے تھے لیکن بے حد مسرور اور سنجیدہ سے، وہ اپنا سامان اٹھائے اوپر چلے گئے۔ اوپر کی منزل بالکل خالی پری تھی۔ زینے کے برابر میں ڈائننگ ہال تھا اور اس کے بعد تین بیڈروم۔

- Advertisement -

’’یہ کمرہ میں لوں گا‘‘ نوجوان نے پہلے بیڈروم میں داخل ہوکر کہا جس کا رخ جھیل کی طرف تھا۔ لڑکی نے اپنی چھتری اور اوور کوٹ اس کمرے کے ایک پلنگ پر پھینک دیا تھا۔ ’’اٹھاؤ اپنا بوریا بستر‘‘ نوجوان نے اس سے کہا۔

’’اچھا۔۔۔‘‘ لڑکی دونوں چیزیں اٹھاکر برابر کے سٹنگ روم سے گزرتی دوسرے کمرے میں چلی گئی جس کے پیچھے ایک پختہ گلیارہ سا تھا کمرے کے بڑے بڑے دریچوں میں سے وہ مزدور نظر آرہے تھے جو ایک سیڑھی اٹھائے پچھلی دیوار کی مرمت میں مصروف تھے۔

ایک بیرا لڑکی کا سامان لے کر اندر آیا اور دریچوں کے پردے برابر کرکے چلا گیا۔ لڑکی سفر کے کپڑے تبدیل کرکے سٹنگ روم میں آگئی۔ نوجوان آتش دان کے پاس ایک آرام کرسی پر بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا، اس نے نظریں اٹھا کر لڑکی کو دیکھا۔ باہر جھیل پر دفعتا اندھیرا چھا گیا تھا وہ دریچے میں کھڑی ہوکر باغ کے دھندلکے کو دیکھنے لگی۔ پھر وہ بھی ایک کرسی پر بیٹھ گئی، نہ جانے وہ دونوں کیا باتیں کرتے رہے۔ فوٹو گرافر جو اب بھی نیچے پھاٹک پر بیٹھا تھا اس کا کیمرہ آنکھ رکھتا تھا لیکن سماعت سے عاری تھا۔

کچھ دیر بعد وہ دونوں کھانا کھانے کے کمرے میں گئے اور دریچے سے لگی ہوئی میز پر بیٹھ گئے۔ جھیل کے دوسرے کنارے پر قصبے کی روشنیاں جھلملا اٹھی تھیں۔

اس وقت تک ایک یورپین سیاح بھی گیسٹ ہاؤس میں آچکا تھا۔ وہ خاموش ڈائننگ ہال کے دوسرے کونے میں چپ چاپ بیٹھا خط لکھ رہا تھا۔ چند پکچر پوسٹ کارڈ اس کے سامنے میز پر رکھے تھے۔

’’سیاح اپنے گھر خط لکھ رہا ہے کہ میں اس وقت پر اسرار مشرق کے ایک پر اسرار ڈاک بنگلے میں موجود ہوں۔ سرخ ساری میں ملبوس ایک پر اسرار ہندوستانی لڑکی میرے سامنے بیٹھی ہے۔ بڑا ہی رومانٹک ماحول ہے!‘‘ لڑکی نے چپکے سے کہا۔ اس کا ساتھی ہنس پڑا۔

کھانے کے بعد وہ دونوں پھر سٹنگ روم میں آگئے۔ نوجوان اب اسے کچھ پڑھ کر سنا رہا تھا، رات گہری ہوتی گئی۔ دفعتہ لڑکی کو زور کی چھینک آئی اور اس نے سوں سوں کرتے ہوئے کہا، ’’اب سونا چاہئے۔‘‘

’’تم اپنی زکام کی دوا پینا نہ بھولنا‘‘ نوجوان نے فکر سے کہا، ’’ہاں، شب بخیر۔۔۔‘‘ لڑکی نے جواب دیا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔

پچھلا گلیارہ گھپ اندھیرا پڑا تھا۔ کمرہ بے حد پرسکون، خنک اور آرام دہ تھا زندگی بے حد پر سکون اور آرام دہ تھی، لڑکی نے کپڑے تبدیل کرکے سنگھار میز کی دراز کھول کر دوا کی شیشی نکالی کہ دروازے پر دستک ہوئی اس نے اپنا سیاہ کیمونو پہن کر دروازہ کھولا۔ نوجوان ذرا گھبرایا ہوا تھا سامنے کھڑا تھا۔‘‘ مجھے بھی بڑی سخت کھانسی اٹھ رہی ہے‘‘ اس نے کہا۔

’’اچھا!‘‘ لڑکی نے دوا کی شیشی اور چمچہ اسے دیا۔ چمچہ نوجوان کے ہاتھ سے چھٹ کر فرش پر گرگیا، اس نے جھک کر چمچہ اٹھایا اور اپنے کمرے کی طرف چلا گیا، لڑکی روشنی بجھا کر سوگئی۔

صبح کو وہ ناشتے کے لیے ڈائنگ روم میں گئی۔ زینے کے برابر والے ہال میں پھول مہک رہے تھے۔ تانبے کے بڑے بڑے گل دان برا سو سے چمکائے جانے کے بعد ہال کے جھلملاتے چوبی فرش پر ایک قطار میں رکھ دئیے گئے تھے اور تازہ پھولوں کے انبار ان کے نزدیک رکھے ہوئے تھے۔ باہر سورج نے جھیل کو روشن کردیا تھا اور زرد وسفید تتلیاں سبزے پر اڑتی پھر رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد نوجوان ہنستا ہوا زینے پر نمودار ہوا، اس کے ہاتھ میں گلاب کے پھولوں کا ایک کچھا تھا۔

’’مالی نیچے کھڑا ہے، اس نے یہ گلدستہ تمہارے لیے بھجوایا ہے۔‘‘ اس نے کمرے میں داخل ہوکر مسکراتے ہوئے کہا۔ اور گلدستہ میز پر رکھ دیا۔ لڑکی نے ایک شگوفہ اٹھاکر بے خیالی سے اسے اپنے بالوں میں لگالیا اور اخبار پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔

’’ایک فوٹو گرافر بھی نیچے منڈلا رہا ہے، اس نے مجھ سے بڑی سنجیدگی سے تمہارے متعلق دریافت کیا کہ تم فلاں فلم اسٹار تو نہیں؟‘‘ نوجوان نے کرسی پر بیٹھ کر چائے بناتے ہوئے کہا۔ لڑکی ہنس پڑی۔ وہ ایک نامور رقاصہ تھی۔ مگر اس جگہ پر کسی نے ان کا نام بھی نہ سنا تھا۔ نوجوان اس لڑکی سے بھی زیادہ مشہور موسیقار تھا۔ مگر اسے بھی یہاں کوئی نہ پہچان سکا تھا۔ ان دونوں کو اپنی اس عارضی گم نامی اور مکمل سکون کے یہ مختصر لمحات بہت بھلے معلوم ہوئے۔

کمرے کے دوسرے کونے میں ناشتہ کرتے ہوئے اکیلے یورپین نے آنکھیں اٹھاکر ان دونوں کو دیکھا اور ذرا سا مسکرایا۔ وہ بھی ان دونوں کی خاموش مسرت میں شریک ہوچکا تھا۔

ناشتہ کے بعد وہ دونوں نیچے گئے اور باغ کے کنارے گل مہر کے نیچے کھڑے ہوکر جھیل کو دیکھنے لگے۔ فوٹو گرافر نے اچانک چھلاوے کی طرح نمودار ہوکر بڑے ڈرامائی انداز میں ٹوپی اتاری اور ذرا جھک کرکہا، ’’فوٹو گراف لیڈی۔۔۔؟‘‘ لڑکی نے گھڑی دیکھی، ’’ہم لوگوں کو ابھی باہر جانا ہے۔ دیر ہوجائے گی۔‘‘

’’لیڈی۔۔۔‘‘ فوٹو گرافر نے پاؤں منڈیر پر رکھا اور ایک ہاتھ پھیلا کر باہر کی دنیا کی سمت اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔‘‘ باہر کار زارِ حیات میں گھمسان کارن پڑا ہے۔ مجھے معلوم ہے اس گھمسان سے نکل کر آپ دونوں خوشی کے چند لمحے چرانے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ دیکھئے اس جھیل کے اوپر دھنک پل کی پل میں غائب ہوجاتی ہے۔ لیکن میں آپ کا زیادہ وقت نہ لوں گا۔۔۔ ادھر آئیے۔‘‘

’’بڑا لسان فوٹو گرافر ہے۔‘‘ لڑکی نے چپکے سے اپنے ساتھی سے کہا۔

مالی جو گویا اب تک اپنے کیو کا منتظر تھا دوسرے درخت کے پیچھے سے نکلا اور لپک کر ایک اور گلدستہ لڑکی کو پیش کیا۔ لڑکی کھل کھلا کر ہنس پڑی وہ اور اس کا ساتھی امر سندری پاروتی کے مجسمے کے قریب جا کھڑے ہوئے۔ لڑکی کی آنکھوں میں دھوپ آرہی تھی اس لیے اس نے ذرا مسکراتے ہوئے آنکھیں ذرا سی چندھیادی تھیں۔

کلک۔۔۔ کلک۔۔۔ تصویر اتر گئی۔ ’’تصویر آپ کو شام کو مل جائے گی۔۔۔ تھینک یولیڈی۔۔۔ تھینک یوسر۔۔۔‘‘ فوٹو گرافر نے ذرا سا جھک کر دوبارہ ٹوپی چھوئی۔ لڑکی اور اس کا ساتھی کار کی طرف چلے گئے۔

سیر کرکے وہ دونوں شام پڑے لوٹے اور سندھیا کی نارنجی روشنی میں دیر تک باہر گھاس پر پڑی کرسیوں پر بیٹھے رہے۔ جب کہرہ گر نے لگا تو اندر نچلی منزل کے وسیع اور خاموش ڈرائنگ روم میں نارنجی قمقموں کی روشنی میں آبیٹھے۔ نہ جانے کیا باتیں کررہے تھے جو کسی طرح ختم ہونے ہی میں نہ آتی تھیں۔ کھانے کے وقت وہ اوپر چلے گئے۔ صبح سویرے وہ واپس جارہے تھے اور اپنی باتوں کی محویت میں ان کو فوٹوگرافر اور اس کی کھینچی ہوئی تصویر یاد بھی نہ رہی تھی۔

صبح کو لڑکی اپنے کمرے ہی میں تھی جب بیرے نے اندر آکر ایک لفافہ پیش کیا، ’’پھوٹو گرافر صاحب یہ رات کو دے گئے تھے۔‘‘ اس نے کہا، ’’اچھا۔ اس سامنے والی دراز میں رکھ دو‘‘ لڑکی نے بے خیالی سے کہا اور بال بنانے میں جٹی رہی۔

ناشتہ کے بعد سامان باندھتے ہوئے اسے وہ دراز کھولنا یاد نہ رہی اور جاتے وقت خالی کمرے پر ایک سرسری سی نظر ڈال کر وہ تیز تیز چلتی کار میں بیٹھ گئی۔ نوجوان نے کار اسٹارٹ کردی، کار پھاٹک سے باہر نکلی۔ فوٹو گرافر نے پلیا پر سے اٹھ کر ٹوپی اتاری۔ مسافروں نے مسکرا کر ہاتھ ہلائے۔ کار ڈھلوان سے نیچے روانہ ہوگئی۔

وہ والرس کی ایسی مونچھوں والا فوٹو گرافر اب بہت بوڑھا ہوچکا ہے اور اسی طرح اس گیسٹ ہاؤس کے پھاٹک پر ٹین کی کرسی بچھائے بیٹھا ہے۔ اور سیاحوں کی تصویریں اتارتا رہتا ہے۔ جو اب نئی فضائی سروس شروع ہونے کی وجہ سے بڑی تعداد میں اس طرف آنے لگے ہیں۔

لیکن اس وقت ایئرپورٹ سے جو ٹورسٹ کوچ آکر پھاٹک میں داخل ہوئی ان میں سے صرف ایک خاتون اپنا اٹیچی کیس اٹھائے برآمد ہوئیں اور ٹھٹھک کر انہوں نے فوٹو گرافر کو دیکھا، جو کوچ کو دیکھتے ہی فوراً اٹھ کھڑا ہوا تھا مگر کسی جوان اور حسین لڑکی کے بجائے ایک ادھیڑ عمر کی بی بی کو دیکھ کر مایوسی سے دوبارہ جاکر اپنی ٹین کی کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔

خاتون نے دفتر میں جاکر رجسٹر میں اپنا نام درج کیا اور اوپر چلی گئیں۔ گیسٹ ہاؤس سنسان پڑا تھا۔ سیاحوں کی ایک ٹولی ابھی ابھی آگے روانہ ہوئی تھی اور بیرے کمرے کی جھاڑ پونچھ کرچکے تھے۔ تانبے کے گل دان تازہ پھولوں کے انتظار میں ہال کے فرش پر رکھے جھل جھل کررہے تھے۔ اور ڈرائننگ ہال میں دریچے کے نیچے سفید براق میز پر چھری کانٹے جگمگا رہے تھے۔ نو وارد خاتون درمیانی بیڈ روم میں سے گذر کر پچھلے کمرے میں چلی گئیں اور اپنا سامان رکھنے کے بعد پھر باہر آکر جھیل کو دیکھنے لگیں۔ چائے کے بعد وہ خالی سٹنگ روم میں جا بیٹھیں اور رات ہوئی تو جاکر اپنے کمرے میں سوگئیں۔ گلیارے میں سے کچھ پرچھائیوں نے اندر جھانکا تو وہ اٹھ کر دریچے میں گئیں جہاں مزدور دن بھر کام کرنے کے بعد سیڑھی دیوار سے لگی چھوڑ گئے تھے۔ گلیارہ بھی سنسان پڑا تھا۔ وہ پھر پلنگ پر آکر لیٹیں تو چند منٹ بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ انہوں نے دروازہ کھولا باہر کوئی نہ تھا۔ سٹنگ روم بھائیں بھائیں کر رہا تھا، وہ پھر آکر لیٹ رہیں، کمرہ بہت سرد تھا۔

صبح کو اٹھ کر انہوں نے اپنا سامان باندھتے ہوئے سنگھار میز کی دراز کھولی تو اس کے اندر بچھے پیلے کاغذ کے نیچے سے ایک لفافے کا کونا نظر آیا جس پر اس کا نام لکھا تھا۔ خاتون نے ذرا تعجب سے لفافہ باہر نکالا۔ ایک کاکروچ کاغد کی تہہ میں سے نکل کر خاتون کی انگلی پر آگیا انہوں نے دہل کر انگلی جھٹکی اور لفافے میں سے ایک تصویر سرک کر نیچے گر گئی۔ جس میں ایک نوجوان اور ایک لڑکی امرسندری پاروتی کے مجسمے کے قریب کھڑے مسکرا رہے تھے۔ تصویر کا کاغذ پیلا پڑچکا تھا۔ خاتون چند لمحوں تک گم سم اس تصویر کو دیکھتی رہیں پھر اسے اپنے بیگ میں رکھ لیا۔

بیرے نے باہر سے آواز دی کہ ایئر پورٹ جانے والی کوچ تیار ہے، خاتون نیچے گئیں۔ فوٹو گرافر نئے مسافروں کی تاک میں باغ کی سڑک پر ٹہل رہا تھا اس کے قریب جاکر خاتون نے بے تکلفی سے کہا۔

’’کمال ہے پندرہ برس میں کتنی بار سنگھار میز کی صفائی کی گئی ہوگی مگر یہ تصویر کاغذ کے نیچے اسی طرح پڑی رہی۔‘‘ پھر ان کی آواز میں جھلاہٹ آگئی۔۔۔ ’’اور یہاں کا انتظام کتنا خراب ہوگیا ہے۔ کمرے میں کاکروچ ہی کاکروچ۔‘‘

فوٹو گرافر نے چونک کر ان کو دیکھا اور پہچاننے کی کوشش کی پھر خاتون کے جھریوں والے چہرے پر نظر ڈال کر الم سے دوسری طرف دیکھنے لگا، خاتون کہتی رہیں۔۔۔ ان کی آواز بھی بدل چکی تھی چہرے پر درشتی اور سختی تھی اور انداز میں چڑ چڑا پن اور بے زاری اور وہ سپاٹ آواز میں کہے جارہی تھیں۔

’’میں اسٹیج سے ریٹائر ہوچکی ہوں اب میری تصویریں کون کھینچے گا بھلا، میں اپنے وطن واپس جاتے ہوئے رات کی رات یہاں ٹھہر گئی تھی۔ نئی ہوائی سروس شروع ہوگئی ہے۔ یہ جگہ راستے میں پڑتی ہے۔‘‘

’’اور۔۔۔ اور۔۔۔ آپ کے ساتھی؟‘‘ فوٹوگرافر نے آہستہ سے پوچھا۔ کوچ نے ہارن بجایا۔

’’آپ نے کہا تھا نا کہ کار زارِ حیات میں گھمسان کارن پڑا ہے اسی گھمسان میں وہ کہیں کھوگئے۔‘‘

کوچ نے دوبارہ ہارن بجایا۔

’’اور ان کو کھوئے ہوئے بھی مدت گزر گئی۔۔۔ اچھا خدا حافظ‘‘ خاتون نے بات ختم کی اور تیز تیز قدم رکھتی کوچ کی طرف چلی گئیں۔

والرس کی ایسی مونچھوں والا فوٹوگرافر پھاٹک کے نزدیک جاکر اپنی ٹین کی کرسی پر بیٹھ گیا۔

زندگی انسانوں کو کھا گئی۔ صرف کاکروچ باقی رہیں گے۔

مصنف:قرۃ العین حیدر

مزید کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کریں۔

- Advertisement -

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here