آفتاب افق کی گود سے نکلا۔ بچّہ پالنے سے وہی ملاحت، وہی سرخی، وہی خمار، وہی ضیا۔ میں برآمدہ میں بیٹھا تھا۔ بچّے نے دروازے سے جھانکا میں نے مسکراکر پکارا۔ وہ میری گود میں آکر بیٹھ گیا۔
اس کی شرارتیں شروع ہوگئیں۔ کبھی قلم پر ہاتھ بڑھایا۔ کبھی کاغذ پر دست درازی کی۔ میں نے گود سے اتاردیا۔ وہ میز کا پایہ پکڑے کھڑارہا۔ گھر میں نہ گیا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ ایک چڑیا پھدکتی ہوئی آئی اور سامنے کے صحن میں بیٹھ گئی۔ بچّہ کے لیے تفریح کا یہ نیا سامان تھا۔ وہ اس کی طرف لپکا۔ چڑیا ذرا بھی نہ ڈری۔ بچّہ نے سمجھا اب یہ پردار کھلونہ ہاتھ آگیا۔ بیٹھ کر دونوں ہاتھوں سے چڑیا کو بلانے لگا۔ چڑیا اڑگئی مایوس بچّہ رونے لگا۔ مگر اندر کے دروازہ کی طرف تاکا بھی نہیں۔ دروازہ کھلا ہوا تھا۔
گرم حلوے کی خوش آیند صداآئی۔ بچّہ کا چہرہ اشتیاق سے کھل اٹھا خوانچے والاسامنے سے گزرا۔ بچّے نے میری طرف التجا کی نظروں سے دیکھا جوں جو ں خوانچے والادور ہوتا گیا۔ نگاہ التجا احتجاج میں تبدیل ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ جب موڑآگیا۔ اور خوانچے والا نظروں سے غائب ہوگیا تو احتجاج نے فریادِ پر شور کی صورت اختیار کی مگر میں بازار کی چیزیں بچّوں کو نہیں کھانے دیتا۔ بچّہ کی فریاد نے مجھ پر کوئی اثر نہ کیا۔ میں نے آئندہ احتیاط کے خیال سے اور بھی اکڑ کرلی۔ کہہ نہیں سکتا۔ بچّے نے اپنی ماں کی عدالت میں اپیل کرنے کی ضرورت سمجھی یا نہیں۔ عام بچّے ایسی افتادوں کے موقع پر ماں سے اپیل کرتے ہیں۔ دروازہ کھلاہوا تھا۔
میں نے اشک شوئی کے خیال سے اپنا فاؤنٹین پن اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ بچّہ کو کائنات کی دولت مل گئی۔ اس کے سارے قوائے ذہنی اس نئے عقدے کو حل کرنے میں منہمک ہوگئے۔ دفعتاً دروازہ ہوا سے خود بخود بند ہوگیا۔ پٹ،کی آوازبچّہ کے کانوں میں آئی۔ اس نے دروازہ کی طرف دیکھا۔ اس کا وہ انہماک فی الفور غائب ہوگیا۔ اس نے فاؤنٹین پن پھینگ دیا۔ اور روتا ہوا دروازہ کی طرف چلا۔ کیونکہ دروزاہ بند ہوگیا تھا۔
مصنف :پریم چند