ساون کا مہینہ تھا، ریوتی رانی نے پاؤں میں مہندی رچائی، مانگ چوٹی سنواری۔ اور تب اپنی بوڑھی ساس سے جاکر بولی، ’’امّاں جی آج میں میلہ دیکھنے جاؤں گی۔‘‘
ریوتی پنڈت چنتا من کی بیوی تھی۔ پنڈت جی نے سرسوتی کی پوجا میں زیادہ نفع نہ دیکھ کر لکشمی دیوی کی مجاوری کرنی شروع کی تھی۔ لین دین کا کاروبار کرتے تھے۔ مگراور مہاجنوں کے خلاف خاص خاص حالتوں کے سوا پچیس فیصدی سے زیادہ سودلینا مناسب نہ سمجھتے تھے۔
ریوتی کی ساس ایک بچّے کو گود میں لیے کھٹولے پر بیٹھی تھیں۔ بہو کی بات سن کر بولیں۔
’’بھیگ جاؤ گی تو بچّے کو زکام ہوجائے گا۔‘‘
ریوتی۔ نہیں امّاں مجھے دیر نہ لگے گی ابھی چلی آؤں گی۔
ریوتی کے دو بچّے تھے ایک لڑکا دوسری لڑکی۔ لڑکی ابھی گود میں تھی اور لڑکا ہیرا من ساتویں سال میں تھا۔ ریوتی نے اسے اچھے اچھے کپڑے پہنائے، نظر بد سے بچانے کے لیے ماتھے اور گالوں پر کاجل کے ٹیکے لگادئیے۔ گڑیاں پیٹنے کے لیے ایک خوش رنگ چھڑی دے دی اور ہمجولیوں کے ساتھ میلہ دیکھنے چلی۔
کیرت ساگر کے کنارے عورتوں کا بڑا جمگھٹ لگا تھا۔ نیلگوں گھٹائیں چھائی تھیں۔ عورتیں سولہ سنگار کیے ساگر کے پر فضا میدان میں ساون کی رم جھم برکھاکی رت لوٹ رہی تھیں۔ شاخوں میں جھولے پڑے تھے۔ کوئی جھولا جھولتی، کوئی گانا گاتی، کوئی ساگر کے کنارے بیٹھی لہروں سے کھیلتی تھی۔ ٹھنڈی خوش گوار ہوا، پانی کی ہلکی پھوار، پہاڑیوں کی نکھری ہوئی ہریاول، لہروں کے دلفریب جھٹکولے موسم کو توبہ شکن بنائے ہوئے تھے۔
آج گڑیوں کی بدائی ہے، گڑیا اپنی سسرال جائیں گی، کنواری لڑکیاں اپنے ہاتھ میں مہندی رچائے گڑیوں کو گہنے کپڑے سے سجائے انھیں بداکرنے آئی ہیں۔ انھیں پانی میں بہاتی ہیں اور چہک چہک کر ساون کے گیت گاتی ہیں۔ مگردامن عافیت سے نکلتے ہی ان نازو نعمت میں پلی ہوئی گڑیوں پر چاروں طرف سے چھڑیوں اور لکڑیوں کی بوچھار ہونے لگتی ہے۔
ریوتی یہ سیر دیکھ رہی تھی اور ہیرا من ساگر کے زینوں پر اور لڑکیوں کے ساتھ گڑیاں پیٹنے میں مصروف تھا۔ زینوں پر کائی لگی ہوئی تھی۔ دفعتاً اس کا پاؤں، پھسلا تو پانی میں جا پڑا، ریوتی چیخ مارکر دوڑی اور سر پیٹنے لگی۔ دم کے دم میں وہاں مردوں اور عورتوں کا ہجوم ہوگیا۔ مگر یہ کسی کی انسانیت تقاضہ نہ کرتی تھی کہ پانی میں جاکر ممکن ہوتو بچّے کی جان بچائے، سنوارے ہوئے گیسو نہ بکھر جائیں گے۔ دھلی ہوئی دھوتی بھیگ جائے گی کتنے ہی مردوں کے دلوں میں یہ مردانہ خیال آرہے تھے۔ دس منٹ گذرگئے مگر کوئی ہمّت باندھتا نظر نہ آیا۔ غریب ریوتی پچھاڑیں کھارہی تھی۔ ناگاہ ایک آدمی اپنے گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا۔ یہ اژدہام دیکھ کر اتر پڑا اور ایک تماشائی سے پوچھا، ’’یہ کیسی بھیڑ ہے؟‘‘
تماشائی نے جواب دیا، ’’ایک لڑکا ڈوب گیا ہے۔‘‘
مسافر۔ کہاں؟
تماشائی۔ جہاں وہ عورت رورہی ہے۔
مسافر نے فوراً اپنے گاڑھے کی مرزئی اتاری اور دھوتی کس کر پانی میں کود پڑا۔ چاروں طرف سنّاٹا چھاگیا۔ لوگ متحیر تھے کہ کون شخص ہے اس نے پہلا غوطہ لگایا لڑکے کی ٹوپی ملی دوسرا غوطہ لگایا تو اس کی چھڑی ملی اور تیسرے غوطہ کے بعد جب وہ اوپر آیا تو لڑکا اس کے گود میں تھا۔ تماشائیوں نے واہ واہ کا نعرہ پر شور بلند کیا۔ ماں نے دوڑ کر بچّے کو لپٹا لیا۔ اسی اثنا میں پنڈت چنتا من کے اور کئی عزیز آ پہنچے اورلڑکے کو ہوش میں لانے کی فکر کرنے لگے۔ آدھ گھنٹہ میں لڑکے نے آنکھیں کھول دیں۔ لوگوں کی جان میں جان آئی۔ ڈاکڑ صاحب نے کہا کہ اگر لڑکا دو منٹ بھی پانی میں اوررہتا تو بچنا غیر ممکن تھا۔ مگر جب لوگ اپنے گم نام محسن کو ڈھونڈنے لگے تو اس کا کہیں پتہ نہ تھا۔ چاروں طرف آدمی دوڑائے، سارا میلہ چھان مارا، مگر نظر نہ آیا۔
بیس سال گذر گئے پنڈت چنتا من کا کاروبار روزبروز بڑھتا گیا اس دوران میں اس کی ماں نے ساتوں جاتر آئیں کیں اور مریں تو ان کے نام پر ٹھاکر دوار تیار ہوا۔ ریوتی بہو سے ساس بنی، لین دین اور کھاتہ ہیرامن کے ہاتھ آیا۔ ہیرا من اب ایک وجیہہ لحیم و شحیم نوجوان تھا۔ نہایت خلیق، نیک مزاج کبھی کبھی باپ سے چھپاکر غریب آسامیوں کو قرض حسنہ دیا کرتا تھا۔ چنتامن نے کئی بار اس گناہ کے لیے بیٹے کو آنکھیں دکھائی تھیں اور الگ کردینے کی دھمکی دی تھی۔ ہیرامن نے ایک بار سنسکرت پاٹ شالہ کے لیے پچاس روپے چندہ دیا، پنڈت جی اس پر ایسے برہم ہوئے، کہ دو دن تک کھانا نہیں کھایا۔ ایسے ایسے ناگوار واقعات آئے دن ہوتے رہتے تھے۔ انھیں وجوہ سے ہیرا من کی طبیعت باپ سے کچھ کھچی رہتی تھی۔ مگر اس کی ساری شرارتیں ہمیشہ ریوتی کی سازش سے ہوا کرتی تھیں۔ جب کسی قصبے کی غریب ودھوائیں یا زمینداروں کے ستائے ہوئے آسامیوں کی عورتیں ریوتی کے پاس آکر ہیرامن کو آنچل پھیلا پھیلا کر دعائیں دینے لگتیں تو اسے ایسا معلوم ہوتا کہ مجھ سے زیادہ بھاگو ان اور میرے بیٹے سے زیادہ فرشتہ صفت آدمی دنیا میں نہ ہوگا۔ تب اسے بے اختیار وہ دن یادآجاتا جب ہیرامن کیرت ساگر میں ڈوب گیا تھا۔ اور اس آدمی کی تصویر اس کی نگاہوں کے سامنے کھڑی ہوجاتی جس نے اس کے لال کو ڈوبنے سے بچایا تھا اس کے عمیق دل سے دعا نکلتی اور ایسا جی چاہتا تھا کہ اسے دیکھ پاتی تو اس کے پاؤں پر گر پڑتی، اب اسے کامل یقین ہوگیا تھا کہ انسان نہ تھا بلکہ کوئی دیوتا تھا، وہ اب اسی کھٹولے پر بیٹھی ہوئی جس پر اس کی ساس بیٹھتی تھی اپنے دونوں پوتوں کو کھلایا کرتی تھی۔
آج ہیرا من کی ستائیسویں سا لگرہ تھی۔ ریوتی کے لیے یہ دن سال بھر کے دنوں میں سب سے زیادہ مبارک تھا، آج اس کا دست کرم خوب فیا ضی دکھاتا تھا اور یہی ایک بے جا صرف تھا جس میں پنڈت چنتا من بھی اس کے شریک ہوجاتے تھے۔ آج کے دن وہ بہت خوش ہوتی اور بہت روتی اور آج اپنے گم نام محسن کے لیے اس کے دل سے جو دعائیں نکلتیں وہ دل و دماغ کے اعلیٰ ترین جذبات میں رنگی ہوئی ہوتی تھیں۔ اسی کی بدولت تو آج مجھے یہ دن اور سکھ دکھ دیکھنا میسّر ہوا ہے۔
ایک دن ہیرا من نے آکر ریوتی سے کہا، ’’امّاں سری پور نیلام پر چڑھا ہوا ہے، کہو تو میں بھی دام لگاؤں۔‘‘
ریوتی۔ سولھوانہ ہے؟
ہیرا من۔ سولھوانہ اچھا گاؤں ہے نہ بڑا نہ چھوٹا۔ یہاں سے دس کوس ہے۔ بیس ہزار تک بولی بڑھ چکی ہے سودوسومیں ختم ہوجائے گا۔
ریوتی۔ اپنے دادا سے تو پوچھو۔
ہیرامن۔ ان کے ساتھ دو گھنٹے تک سر مغزن کرنے کی کسے فرصت ہے۔
ہیرامن اب گھر کا مختارِ کل ہوگیا تھا اور چنتامن کی ایک نہ چلنے پاتی تھی۔ وہ غریب اب عینک لگائے ایک گدّے پر بیٹھے اپنا وقت کھانسنے میں صرف کرتے تھے۔
دوسرے دن ہیرا من کے نام پر سری پور ختم ہوگیا۔ مہاجن سے زمیندار ہوئے اپنے منیب اور دو چپراسیوں کو لے کر گاؤں کی سیر کر نے کو چلے۔ سری پور والوں کو خبر ہوئی۔ نئے زمیندار کی پہلی آمد تھی، گھر گھر نذرانے دینے کی تیاریاں ہونے لگیں۔
پانچویں دن شام کے وقت ہیرا من گاؤں میں داخل ہوئے، دہی اور چاول کا تلک لگایا گیا۔ اور تین سواسامی پہر رات تک ہاتھ باندھے ہوئے ان کی خدمت میں کھڑے رہے۔ سویرے مختارِ عام نے اسامیوں کا تعارف کرانا شروع کیا۔ جو اسامی زمیندار کے سامنے آتا۔ وہ اپنی بساط کے مطابق ایک دو روپے ان کے پاؤں پر رکھ دیتا۔ دوپہر ہوتے ہوئے وہاں پانچ سو روپے کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔
ہیرا من کو پہلی بار زمینداری کا مزہ ملا۔ پہلی بار ثروت اور طاقت کا نشہ محسوس ہوا۔ سب نشوں سے زیادہ تیز قاتل ثروت کا نشہ ہے جب اسامیوں کی فہرست ختم ہوگئی تو مختار سے بولے، ’’اور کوئی اسامی باقی تو نہیں ہے۔‘‘
مختار: ’’ہاں مہاراج ابھی ایک اسامی اور ہے‘‘ تخت سنگھ۔۔
ہیرامن: وہ کیوں نہیں آیا۔
مختار: ذرا مست ہے۔
ہیرا من: میں اس کی مستی اتاردوں گا، ذرا اسے کوئی بلالائے۔
تھوڑی دیر میں ایک بوڑھا آدمی لاٹھی ٹیکتا آیا اور ڈنڈوت کرکے زمین پر بیٹھ گیا نہ نذرانہ نیاز اس کی یہ گستاخی دیکھ کر ہیرامن کو بخار چڑھ آیا۔ کڑک کر بولے، ’’ابھی کسی زمیندار سے پالا نہیں پڑا ہے ایک ایک کی ہیکڑی بھلادوں گا۔‘‘
تخت سنگھ نے ہیرا من کی طرف غور سے دیکھ کر جواب دیا، ’’میرے سامنے بیس زمیندار آئے اور چلے گئے۔ مگرابھی کسی نے اس طرح کی گھڑکی نہیں دی۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے لاٹھی اٹھائی اور اپنے گھر چلا آیا۔ بوڑھی ٹھکرائن نے پوچھا۔ دیکھا زمیندار کو کیسے آدمی ہیں؟‘‘
تخت سنگھ۔ اچھے آدمی ہیں۔ میں انھیں پہچان گیا۔
ٹھکرائن۔ کیا تم سے پہلے کی ملاقات ہے،؟
تخت سنگھ، ’’میری ان کی بیس برس کی جان پہچان ہے گڑیوں کے میلے والی بات یاد ہے نا؟‘‘
اس دن سے تخت سنگھ پھر ہیرامن کے پاس نہ آیا۔
چھ مہینے کے بعد ریوتی کو بھی سری پور دیکھنے کا شوق ہوا، اور وہ اس کے بہو اور بچّے سب سری پور آئے گاؤں کی سب عورتیں ان سے ملنے آئیں ان میں بوڑھی ٹھکرائن بھی تھی۔ اس کی بات چیت، سلیقہ اور تمیز دیکھ کر ریوتی دنگ رہ گئی۔ جب وہ چلنے لگی توریوتی نے کہا۔ ٹھکرائن کبھی کبھی آیا کرو نا تم سے مل کر طبیعت بہت خوش ہوئی۔
اس طرح دونوں عورتوں میں رفتہ رفتہ میل ہوگیا۔ یہاں تو یہ کیفیت تھی اور ہیرا من اپنے مختار عام کے مغالطے میں آکر تخت سنگھ کو بے دخل کرنے کی بندشیں سوچ رہا تھا۔
جیٹھ کی پورن ماشی آئی ہیرامن کی سالگرہ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ریوتی چھلنی میں میدہ چھان رہی تھی کہ بوڑھی ٹھکرائن آئی ریوتی نے مسکراکر کہا’’ ٹھکرائن ہمارے یہاں کل تمھارا نیوتا ہے۔
ٹھکرائن۔ تمھارا نیوتا سر آنکھوں پر، کون سی برس گانٹھ ہے؟
ریوتی۔ انتیسویں۔
ٹھکرائن۔ نارائن کر ے ابھی ایسے ایسے سو دن اور تمھیں دیکھنے نصیب ہوں۔
ریوتی۔ ٹھکرائن تمھاری زبان مبارک ہو بڑے بڑے جنترمنتر کیے ہیں تب تم لوگوں کی دعا ہے سے یہ دن دیکھنا نصیب ہوا ہے۔ یہ ساتویں ہی سال میں تھے کہ ان کی جان کے لالے پڑ گئے۔ گڑیوں کو میلہ دیکھنے گئی تھی یہ پانی میں گر پڑے۔ بارے میں ایک مہاتما نے ان کی جان بچائی۔ ان کی جان انھیں کی دی ہوئی ہے۔ بہت تلاش کرایا۔ ان کا پتہ نہ چلا۔ ہر برس گانٹھ پر ان کے نام سے سو روپے نکال رکھتی ہوں۔ دو ہزار سے کچھ اوپر ہوگیاہے۔ بچّے کی نیت ہے کہ ان کے نام سے سری پور میں ایک مندر بنوادیں سچ مانوٹھکرائن۔ ایک بار ان کے درشن ہوجاتے تو زندگی سپھل ہوجاتی، جی کی ہوس نکال لیتے۔
ریوتی جب خاموش ہوئی تو ٹھکرائن کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
دوسرے دن ایک طرف ہیرا من کی سالگرہ کا جشن تھا اور دوسری طرف تخت سنگھ کے کھیت نیلام ہورہے تھے۔
ٹھکرائن بولی۔ میں ریوتی رانی کے پاس جاکر دھائی مچاتی ہوں۔
تخت سنگھ نے جواب دیا۔ میرے جیتے جی نہیں۔
اساڑھ کا مہینہ آیا۔ میگھراج نے اپنی جاں بخش فیاضی دکھائی۔ سری پور کے کسان اپنے اپنے کھیت جوتنے چلے۔ تخت سنگھ کی حسرت ناک اور آرزومند نگاہیں ان کے ساتھ ساتھ جاتیں یہاں تک زمین انھیں اپنے دامن میں چھپالیتی۔
تخت سنگھ کے پاس ایک گائے تھی وہ اب دن کے دن اسے چرایا کرتا تھا۔ اس کی زندگی کا اب بھی ایک سہاراتھا، اس کے اپلے اور دودھ بیچ کر گذرا ن کرتا، کبھی کبھی فاقہ کرنے پڑجاتے۔ یہ سب مصیبتیں اس نے جھیلیں مگر اپنی بے نوائی کا رونا رونے کے لیے ایک دن بھی ہیرامن کے پاس نہ گیا۔ ہیرا من اسے زیر کرنا چاہا تھا مگر خود زیر ہوگیا، جیتنے پر بھی اسے ہار ہوئی، پر انے لوہے کو اپنی کمینہ ضد کی آنچ سے نہ جھکا سکا۔
ایک دن ریوتی نے کہا، ’’بیٹا تم نے غریب کو ستایا ہے اچھا نہ کیا۔‘‘
ہیرا من نے تیز ہوکر جواب دیا، ’’وہ غریب نہیں ہے اس کا گھمنڈ توڑوں گا۔‘‘
ثروت کے نشے میں زمیندار وہ چیز توڑنے کی فکر میں تھا جس کا وجود ہی نہیں تھا جیسے بے سمجھ بچّہ اپنی پر چھائیں سے لڑنے لگتا ہے۔
سال بھر تخت سنگھ نے جوں توں کرکے کاٹا۔ پھر برسات آئی اس کا گھر چھایا نہ گیا تھا۔ کئی دن تک موسلا دھار مینھ برسا، تو مکان کا ایک حصّہ گر پڑا۔ گائے وہاں بندھی ہوئی تھی، دب کر مر گئی۔ تخت سنگھ کے بھی سخت چوٹ آئی۔ اسی دن سے اسے بخار آنا شروع ہوگیا۔ دواداروکون کرتا، روزی کا سہارا تھا وہ بھی ٹوٹا، ظالم بے درد مصیبت نے کچل ڈالا۔ سارا مکان پانی سے بھرا ہوا گھر میں اناج کا ایک دانہ نہیں۔ اندھیرے میں پڑا ہواکراہ رہا تھا کہ ریوتی اس کے گھر گئی تخت سنگھ نے آنکھیں کھول دیں اور پوچھا’’کون ہے؟‘‘
ٹھکرائن۔ ریوتی رانی ہیں۔
تخت سنگھ۔ میرے دھن بھاگ مجھ پر بڑی دیا کی۔
ریوتی نے شرمندہ ہوکر کہا۔ ٹھکرائن ایشور جانتا ہے میں اپنے بیٹے سے حیران ہوں۔ تمھیں جو تکلیف ہو مجھ سے کہو۔ تمھارے اوپر ایسی آفت پڑگئی اور ہم سے خبر تک نہ کی۔
یہ کہہ کر ریوتی نے روپوں کی ایک چھوٹی سی پوٹلی ٹھکرائن کے سامنے رکھ دی روپوں کی جھنکار سن کر تخت سنگھ اٹھ بیٹھا۔ بولا، ’’رانی ہم اس کے بھوکے نہیں ہیں۔ مرتے دم گنہگار نہ کرو۔‘‘
دوسرے دن ہیرا من بھی اپنے ہوا خواہوں کو لیے ہوئے ادھر سے جا نکلا، گرا ہوا مکان دیکھ کر مسکرایا۔ اس کے دل نے کہا۔ آخر میں نے اس کا گھمنڈ توڑ دیا۔ مکان کے اندر جاکر بولا’’ ٹھاکر اب کیا حال ہے؟‘‘
ٹھاکر نے آہستہ سے کہا’’ سب ایشور کی دیا ہے، آپ کیسے بھول پڑے۔
ہیرا من کو دوسری بار زک ملی۔ اس کی یہ آرزو کہ تخت سنگھ میرے پاؤں کو آنکھوں سے چومے، اب بھی پوری نہ ہوئی۔ اسی رات کوغریب آزاد منش ایماندار بے غرض ٹھاکر اس دنیا سے ر خصت ہوگیا۔
بوڑھی ٹھکرائن اب دنیا میں اکیلی تھی، کوئی اس کے غم کاشریک اور اس کے مرنے پر آنسو بہانے والا نہ تھا۔ بے نوائی اور بے مائیگی نے غم کی آنچ اور بھی تیز کردی تھی، سامان فراغت موت کے زخم کو گوبھر نہ سکیں مگر مرہم کا کام ضرور کرتے ہیں۔
فکر معاش بری بلا ہے ٹھکرائن اب کھیت اور چراگاہ سے گوبر چن لاتی اور اپلے بنا کر بیچتی۔ اسے لاٹھی ٹیکتے ہوئے کھیوں اور چراگاہوں کوجاتے اورگوبر کا ٹوکراسر پر رکھ کر بوجھ سے ہانپتے ہوئے آتے دیکھنا سخت دردناک تھا۔ یہاں تک ہیرامن کو بھی اس پر ترس آگیا۔ ایک روز انھوں نے آٹا چاول تھالیوں میں رکھ کر اس کے پاس بھیجا۔ ریوتی خود لے کر گئی مگر بوڑھی ٹھکرائن آنکھوں میں آنسوبھر کر بولی، ’’ریوتی جب تک آنکھوں سے سوجھتا ہے اور ہاتھ پاؤں چلتے ہیں مجھے اور مرنے والے کو گنہگار نہ کرو۔
اس دن سے ہیرا من کو پھر اس کے ساتھ عملی ہمدردی کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔
ایک دن ریوتی نے ٹھکرائن سے اپلے مول لیے گاؤں میں پیسے کے تین اپلے ملتے تھے۔ اس نے چاہا کہ اس سے بیس ہی اپلے لوں اس دن سے ٹھکرائن نے اس کے یہاں اپلے لانا بند کردیا۔
ایسی دیویاں دنیا میں کتنی ہیں کیا وہ اتنا نہیں جانتی تھی کہ ایک رازسربستہ زبان پر لاکر اپنی جاں کا ہیوں کا خاتمہ کرسکتی ہوں مگر پھر وہ احسان کا بدلہ نہ ہو جائے گا۔ مثل مشہور ہے نیکی کر اور دریا میں ڈال۔ شاید اس کے دل میں کبھی یہ خیال ہی نہیں آیا کہ میں نے ریوتی پر کوئی احسان کیا ہے۔
یہ وضع دار آن پر مرنے والی عورت شوہر کے مرنے کے بعد تین سال تک زندہ رہی۔ یہ زمانہ اس نے جس تکلیف سے کاٹا اسے یاد کرکے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کئی کئی دن فاقے سے گذر جاتے، کبھی گوبر نہ ملتا، کبھی کوئی اپلے چرالے جاتا۔ ایشور کی مرضی کسی کا گھر بھرا ہوا ہے کھانے والے نہیں کوئی یوں رو رو کر زندگی کاٹتا ہے۔
بڑھیا نے یہ سب دکھ جھیلا مگر کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا۔
ہیرا من کی تیسویں سالگرہ آئی ڈھول کی آواز سنائی دینے لگی۔ ایک طرف گھی کی پوریاں پک رہی تھیں۔ دوسری طرف تیل کی، گھی کی موٹے مغز برہمنوں کے لیے۔ تیل کی غریب فاقہ کش نیچوں کے لیے۔
یکایک ایک عورت نے ریوتی سے آکر کہا، ’’ٹھکرائن جانے کیسی ہوئی جاتی ہیں۔ تمھیں بلارہی ہیں۔‘‘
ریوتی نے دل میں کہا۔ ایشور آج تو خیریت سے کاٹنا کہیں بڑھیا نہ مر رہی ہو۔ یہ سوچ کر بڑھیا کے پاس نہ گئی۔ ہیرامن نے جب دیکھا امّاں نہیں جانا چاہتیں تو خود چلا۔ ٹھکرائن پر اسے کچھ دنوں سے رحم آنے لگاتھا۔ مگر ریوتی مکان کے دروازے تک اسے منع کرنے آئی۔ یہ رحم دل نیک مزاج شریف ریوتی تھی۔
ہیرا من ٹھکرائن کے مکان پر پہنچا تو وہاں بالکل سنّاٹا چھایا ہواتھا۔ بوڑھی عورت کا چہرہ زرد تھا اور جانکنی کی حالت طاری تھی۔ ہیرامن نے زور سے کہا، ’’ٹھکرائن میں ہوں ہیر امن۔‘‘ ٹھکرائن نے آنکھیں کھولیں اور اشارے سے اپنے سر نزدیک لانے کو کہا پھر رک رک کر بولی میرے سر ہانے پٹاری میں ٹھاکر کی ہڈّیاں رکھی ہوئی ہیں میرے سہاگ کا سیندور بھی وہیں ہے۔ یہ دونوں پر اگ راج بھیج دینا۔
یہ کہہ کر اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ ہیرا من نے پٹاری کھولی، تو دونوں چیزیں بہ حفا ظت رکھی ہوئی ہیں۔ ایک پوٹلی میں دس روپے بھی رکھے ہوئے ملے۔ یہ شاید جانے والے کا زادِراہ تھا۔
رات کو ٹھکرائن کی تکلیفوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوگیا۔
اسی رات کو ریوتی نے خواب میں دیکھا کہ ساون کا میلہ ہے گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں، میں کیرت ساگر کے کنارے کھڑی ہوں اتنے میں ہیرا من پانی میں پھسل پڑا۔ میں چھاتی پیٹ پیٹ کر رونے لگی۔
دفعتاً ایک بوڑھا آدمی پانی میں کود پڑا اور ہیرا من کو نکال لایا۔
ریوتی اس کے پاؤں پر گر پڑی اور بولی۔
’’آپ کون ہیں؟‘‘
اس نے جواب دیا۔
سری پور میں رہتا ہوں۔ میرا نام تخت سنگھ ہے۔
سری پور اب بھی ہیرا من کے قبضے میں ہے۔ مگر اب اس کی رونق دو چند ہوگئی ہے۔ وہاں جاؤ تو دور سے شوالے کا سنہری کلس دکھائی دینے لگتا ہے۔ جس جگہ تخت کا مکان تھا وہاں یہ شوالہ بنا ہوا ہے اس کے سامنے ایک پختہ کنواں اور پختہ دھرم شالہ ہے۔ مسافر یہاں ٹھہرتے ہیں اور تخت سنگھ کا گن گاتے ہیں۔
یہ شوالہ اور دھرم شالہ دونوں اس کے نام سے مشہور ہیں۔
مأخذ : پریم چند کے سو افسانے
مصنف :پریم چند