کتنا افسوسناک، کتنا پردرد سانحہ ہے کہ وہی نازنین جو کبھی ہمارے گوشۂ جگر میں بستی تھی، اسی کے گوشۂ جگر میں چبھنے کے لیے ہمارا خنجر آبدار بیقرار ہورہا ہو۔ جس کی آنکھیں ہمارے لئے آبِ حیات کے چھلکتے ہوئے ساغر تھیں، وہی آنکھیں ہمارے دل میں شعلہ اور خون کا طوفان برپا کریں۔ حسن اسی وقت تک مایۂ راحت و شادمانی ہے۔ نعمت روحانی، جب تک اسکے قالب میں عصمت کی روح حرکت کررہی ہو۔ ورنہ وہ مایۂ شر ہے۔ زہرا ور عفونت سے لبریز، اسی قابل کہ وہ ہماری نگاہوں سے دور رہے اور پنجہ و ناخن کا شکار بنے۔
ایک زمانہ وہ تھا کہ نعیمہ، حیدر کے آرزوؤں کی دیوی تھی۔ طالب و مطلوب کی تمیز نہ تھی۔ ایک طرف کامل دلجوئی تھی۔ دوسری طرف کامل رضا۔ تب تقدیر نے پانسہ پلٹا۔گل و بلب میں نسیم کی غمازیاں شروع ہوئیں۔
شام کا وقت تھا۔ آسمان پر شفق کی دلفریب سرخی چھائی ہوئی تھی۔ نعیمہ امنگ اور فرحت اور شوق سے امڈی ہوئی، بالاخانہ پر آئی۔اسی شفق کی طرح اس کا چہرہ بھی اسوقت گلگوں ہورہا تھا۔ عین اسی وقت وہاں کا صوبہ دار ناصر اپنے بادرفتار گھوڑے پر سوار ادھر سے نکلا۔ اوپر نگاہ اٹھی تو حسنِ صبیح کا کرشمہ نظر آیا۔ گویا چاند شفق کے حوض میں نہا کر نکلا ہے۔ تیرِ نگاہ جگر کے پار ہوا۔ کلیجہ تھام کر رہ گیا۔ اپنے محل کو لوٹا۔ نیم جان اور خستہ۔ ہوا خواہوں نے طبیب کی تلاش کی اور تب راہ و رسم پید اہوئی۔ پھر تالیف اور تعشق کی دشوار منزلیں طے ہوئیں۔
وفا اور حیا نے بہت بے رخی دکھائی۔ مگر محبت کے شکوے اور عشق کی کفر شکن دھمکیاں آخر غالب آئیں۔ عصمت کا خزانہ لٹ گیا۔ اسکے بعد وہی ہوا جو ہوسکتا تھا۔ ایک طرف سے بدگمانی، دوسری طرف سے تصنع اور ریاکاری۔ شکر رنجیوں کی نوبت آئی۔ پھر دل خراشیاں شروع ہوئیں حتیٰ کہ دلوں میں میل پڑگئی۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ نعیمہ، ناصر کی آغوشِ محبت میں پناہ گزیں ہوئی اور آج ایک مہینہ کی بیقراری انتظار کے بعد حیدر اپنے جذبات کے ساتھ برہنہ شمشیر پہلو میں چھپائے اپنے جگر کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو نعیمہ کے خون سے بجھانے کے لیے آیا ہوا ہے۔
آدھی رات کا وقت تھا اور اندھیری رات تھی۔ جس طرح حرم سرائے فلک میں حسن کے ستارے جگمگارہے تھے اسی طرح ناصر کی شبستانِ حرم بھی حسن کے شمعون سے روشن تھی۔ ناصر ایک ہفتہ سے کسی مہم پر گیا ہوا ہے۔ اس لئے دربان غافل ہیں۔ انھوں نے حیدر کو دیکھا۔ لیکن ان کے منہ لقمہ تر سے بند تھے۔ خواجہ سراؤں کی نگاہ پڑی۔ لیکن وہ پہلے ہی شرمندۂ احسان ہوچکی تھیں۔ خواصوں اور کنیزوں نے بھی پرمعنی نگاہوں سے اسکا استقبال کیا اور حیدر انتقام کے نشہ میں مخمور، نعیمہ کی خوابگاہِ نازنیں جا پہونچا۔ جہاں کی ہوا صندل اور گلاب سے معطر تھی۔
کمرہ میں ایک مومی شمع روشن تھی اور اس کی رازدارانہ روشنی میں آرائش اور تکلف کی گلکاریاں نظر آتی تھیں۔ جو عصمت جیسی بیش بہا جنس کے بدلے میں خریدی گئی تھیں وہیں عشرت اور ملاحت کی گود میں لیٹی ہوئی نعیمہ مستِ خواب تھی۔
حیدر نے ایک بار نعیمہ کو آنکھ بھر کر دیکھا۔ وہی موہنی صورت تھی، دہی دلربا ملاحت، اور وہی تمنا خیز شگفتگی۔ وہی نازنین جسے ایک باردیکھ کر بھولنا غیر ممکن تھا۔
ہاں وہی نعیمہ تھی۔ وہی ساعدِسیمیں جو کبھی اسکے گلے کا ہار بنے تھے۔ وہی گیسوے عنبرین جو کبھی اس کے شانوں پر لہرائے تھے۔ وہی پھول سے رخسارے جو اسکی نگاہِ شوق کے سامنے سرخ ہوگئے تھے۔ انھیں گوری گوری کلائیوں میں اس نے نوشگفتہ کلیوں کے کنگن پہنائے تھے جنھیں وہ وفا کے کنگن سمجھا تھا۔ اسی گلے میں اس نے پھولوں کے ہار سجائے تھے اور انہیں پریم کا ہار خیال کیا تھا۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ پھولوں کے ہار، اورکلیوں کے کنگن کیساتھ وفا کے کنگن اور پریم کے ہار بھی مرجھا جائیں گے۔
ہاں یہ وہی گلاب کے سے ہونٹ ہیں جو کبھی اس کی دلجوئیوں میں پھول کی طرح کھِل جاتے تھے۔ جن سے الفت کی دل آویز مہک اڑتی تھی اور یہ وہی سینہ ہے جس میں کبھی اس کی محبت اور وفا کا جلوہ تھا۔ جو کبھی اس کی محبت کا کاشانہ تھا۔
مگر جس پھول میں وفا کی مہک تھی اس میں دغا کے کانٹے ہیں۔
حیدر نے شمشیرِ آبدار پہلو سے نکالی اور دبے پاؤں نعیمہ کے سرہانے کی طرف آیا۔ لیکن اس کے ہاتھ نہ اٹھ سکے۔ جس کے ساتھ بہارِ زندگی کی سیر کی۔ اسکی گردن پر چھری چلاتے ہوئے اس پر رقت کا غلبہ ہوا۔ اس کی آنکھیں آب گوں ہوگئیں۔ دل میں حسرتناک یادگاروں کا ایک طوفان سا آگیا۔ کیا خوبیٔ تقدیر ہے کہ جس محبت کا آغاز ایسا پر مسرت ہو اس کا انجام ایسا دلخراش ہو۔ اس کے پیر تھرتھرانے لگے۔ لیکن غیرت نے للکارا۔ دیوار پر لٹکی ہوئی تصویریں اس کی اس کمزوری پر مسکرائیں۔
مگر کمزور ارادہ ہمیشہ سوال و دلیل کی آڑ لیا کرتا ہے۔ حیدر کے دل میں خیال پیدا ہوا کیا اس باغِ محبت کے اجاڑنے کا الزام میرے اوپر نہیں ہے؟ جسوقت بدگمانیوں کے اکھوے نکلے اگر میں نے طعنہ اور نفرین سے سینچنے کے بجائے دلداریوں سے کام لیا ہوتا تو آج یہ دن نہ آتا۔ میری ہی ستم شعاریوں نے محبت اور وفا کی جڑ کاٹی۔ عورت کمزور ہوتی ہے۔ کسی سہارے کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ جس عورت نے محبت کے مزے اٹھائے ہوں اور الفت کی ناز برداریاں دیکھی ہوں، وہ طعن اور تحقیر کی آنچ کیا سہہ سکتی ہے۔ لیکن پھر غیرت نے اکسایا۔ گویا وہ دھندھلی شمع بھی اس کی کمزوریوں پر ہنسنے لگی۔
غیرت اور استدلال میں بھی سوال و جواب ہورہے تھے کہ دفعتاً نعیمہ نے کروٹ بدلی اور انگرائی لی۔ حیدر نے فوراً تلوار اٹھائی۔خطرہ جان میں پس و پیش کہاں۔ دل نے فیصلہ کرلیا۔ تلوار اپنا کام کرنے والی ہی تھی کہ نعیمہ نے آنکھیں کھولدیں۔ موت کی کٹار سرپر نظر آئی۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی حیدر کو دیکھا اور صورت حال سمجھ میں آگئی۔ بولی، ’’حیدر!‘‘
حیدر نے اپنی خفت کو غصہ کے پردہ میں چھپا کر کہا، ’’ہاں میں ہوں حیدر!‘‘
نعیمہ سر جھکا کر حسرتناک انداز سے بولی، ’’تمہارے ہاتھوں میں یہ چمکتی ہوئی تلوار دیکھ کر میرا کلیجہ تھرتھرا رہا ہے۔ تمہیں نے مجھے ناز برداریوں کا عادی بنا دیا ہے۔ ذرا دیر کے لئے اس کٹار کو میری آنکھوں سے چھپالو۔ میں جانتی ہوں کہ تم میرے خون کے پیاسے ہو۔ لیکن مجھے نہ معلوم تھا کہ تم اتنے بے رحم اور سنگدل ہو۔ میں نے تم سے دغا کی ہے۔ تمھاری خطا وار ہوں۔ لیکن حیدر یقین مانو۔ اگر مجھے چند آخری باتیں کہنے کا موقعہ نہ ملتا تو شائد میری روح کو دوزخ میں بھی یہی آرزو رہتی۔ سزائے موت کے پہلے اپنے یگانوں سے آخری ملاقات کی اجازت ہوتی ہے۔ کیا تم میرے لیے اتنی رعایت کے بھی روادار نہ تھے۔ مانا کہ اب تم میرے کوئی نہیں ہو۔ مگر کسی وقت تھے اور تم چاہے اپنے دل میں سمجھتے ہو کہ میں سب کچھ بھول گئی۔ لیکن میں اتنی محبت فراموش نہیں ہوں۔ اپنے ہی دل سے فیصلہ کرو۔ تم میری بیوفائیاں چاہے بھول جاؤ۔ لیکن میری محبت کی دل خوش کن یادگاریں نہیں مٹاسکتے۔ میر ی آخری باتیں سن لو اور اس ناپاک زندگی کا قضیہ پاک کرو۔ میں صاف صاف کہتی ہوں اس آخری وقت میں کیوں ڈروں میری جو کچھ درگت ہوئی ہے اس کے ذمہ دار تم ہو۔ ناراض نہ ہو۔ اگر تمھارا خیال ہے کہ میں یہاں پھولوں کی سیج پر سوتی ہوں تو وہ غلط ہے۔ میں نے عصمت کھوکر عصمت کی قدر جانی ہے۔ میں حسین ہوں۔ نازک اندام ہوں۔ دنیا کی نعمتیں میرے لئے حاضر ہیں۔ ناصر میری رضا کا غلام ہے۔ لیکن میرے دل سے یہ خیال کبھی دور نہیں ہوتا کہ وہ صرف میرے حسن اور ادا کا بندہ ہے۔ میری عزت اس کے دل میں کبھی ہو ہی نہیں سکتی۔ کیا تم جانتے ہو کہ یہاں خواصوں اور دوسرے محلوں کے پرمعنی اشارے و کنایے میرے خون و جگر کو نہیں جلاتے۔ آہ! میں نے عصمت کھوکر عصمت کی قدر جانی ہے۔ لیکن میں کہہ چکی ہوں اور پھر کہتی ہوں کہ اس کے ذمہ دار تم ہو۔‘‘
حیدر نے پہلو بدل کر پوچھا، ’’کیونکر؟‘‘
نعیمہ نے اسی انداز سے جواب دیا، ’’تم نے مجھے بیوی بناکر نہیں، معشوق بنا کر رکھا۔ تم نے مجھے نازبرداریوں کا عادی بنادیا۔ لیکن فرض کا سبق نہیں پڑھایا۔ تم نے کبھی نہ اپنی باتوں سے، نہ فلوشں سے، مجھے یہ خیال کرنے کا موقعہ دیا کہ اس محبت کی بنیاد فرض پر ہے۔ تم نے مجھے ہمیشہ رعنائیوں اور مستیوں کے طلسم میں پھنسا رکھا اور مجھے نفس کی وارسنگیوں کا غلام بنا دیا جسکی کشتی پر اگر فرض کا ناخدا نہ ہو تو پھر اسے بجز دریا میں ڈوب جانے کے اور کوئی چارہ نہیں لیکن اب ان باتوں سے کیا حاصل۔ اب تو تمہاری غیرت کی کٹار میرے خون کی پیاسی ہے اور یہ سرِ تسلیم اسکے سامنے خم ہے۔ ہاں میری ایک آخری تمنا ہے۔ اگر تمہاری اجازت پاؤں تو کہوں؟‘‘
یہ کہتے کہتے نعیمہ کی آنکھوں میں اشک کا سیلاب آگیا اور حیدر کی غیرت اس کے سامنے نہ ٹھہر سکی۔ غمگین انداز سے بولا، ’’کیا کہتی ہو؟‘‘
نعیمہ نے کہا، ’’اچھا اجازت دی ہے تو انکار مت کرنا۔ مجھے ایک بار پھر ان اچھے دنوں کی یاد تازہ کرلینے دو۔ جب موت کی کٹار نہیں محبت کے پیکانِ جگر کو چھیدا کرتے تھے۔ ایک بار پھر مجھے اپنے آغوشِ الفت میں لےلو۔ میری آخری التجا ہے۔ ایک بار پھر اپنے ہاتھوں کو میرے گردن کا حمائل بنادو۔ بھول جاؤ کہ میں نے تمہارے ساتھ دغا کی ہے۔ بھول جاؤ کہ یہ جسم گنہ آلود اور ناپاک ہے۔ مجھے سینہ سے لگا لو۔ یہ تلوار مجھے دیدو۔تمہارے ہاتھوں میں یہ زیب نہیں دیتی۔ تمہارے ہاتھ میرے اوپر نہ اٹھینگے۔ دیکھو کہ ایک کمزور عورت کس دلیری سے غیرت کی کٹار کو اپنے جگر میں رکھ لیتی ہے۔‘‘
یہ کہہ کر نعیمہ نے حیدر کے کمزور ہاتھوں سے وہ شمشیر آبدار چھین لی اور اس کے سینہ سے لپٹ گئی۔ حیدر جھچکا۔ لیکن وہ صرف عارفانہ جھچک تھی۔ غیرت اور جذبۂ انتقام کی دیوار ٹوٹ گئی دونوں ہم آغوش ہوگئے اور دونوں کی آنکھںچ آمڈآئیں۔
نعیمہ کے چہرہ پر ایک دل آویز جان بخش تبسم نظر آیا اور متوالی آنکھوں میں مسرت کی سرخی جھلکنے لگی۔ بولی، ’’آج کیسا مبارک دن ہے کہ دل کی سب آرزوئیں پوری ہوتی جاتی ہیں۔ لیکن یہ کمبخت آرزوئیں کبھی پوری نہیں ہوتیں۔ اس سینہ سے لپٹ کر اب مجھے الفت کے بغیر نہیں رہا جاتا۔ تم نے مجھے کتنی بار پریم کے پیالے پلائے ہیں۔ اس شیشہ و ساغر کی یاد نہیں بھولتی۔ آج ایک بار پھر مئے الفت کے دور چلنے دو۔ بادۂ مرگ سے پہلے الفت کی شراب پلادو۔ ایک بار پھر میرے ہاتھ سے پیالہ لےلو اور میری طرف انہیں پیار کی نگاہوں سے دیکھ کر جو کبھی آنکھوں سے نہ اترتیں تھیں پی جاؤ۔ مرتی ہوں تو ہنسی خوشی سے مروں۔‘‘
نعیمہ نے اگر عصمت کھوکر عصمت کی قدر جانی تھی تو حیدر نے بھی محبت کھوکر محبت کی قدر جانی تھی۔ اس پر اسوقت ایک مدہوشی کا عالم طاری تھا۔ ندامت اور التجا اور سرِ تسلیم یہ غصہ اور انتقام کے مہلک دشمن ہیں اور ایک نازنین کے نازک ہاتھوں میں تو ان کی کاٹ شمشیر آبدار کو بھی مات کردیتی ہے۔ مئے ناب کے دور چلے اور حیدر نے مستانہ بلا نوشی کے ساتھ پیالے پر پیالے خالی کرنے شروع کئے۔ اس کے جی میں بار بار آتا تھا کہ نعیمہ کے پیروں پر سر رکھ دوں اور اس سے التجا کروں کہ پھر میرے اس اجڑے ہوئے آشیانےکو آباد کر۔ پھر سرور کی کیفیت پیدا ہوئی اور اپنے قول و فعل پر اسے اختیار نہ رہا۔ وہ رویا، گڑگڑایا، منتیں کیں، یہاں تک کہ ان دغا کے پیالوں نے اسے سرنگوں کردیا۔
حیدر کئی گھنٹے تک بے سدھ پڑا رہا۔ وہ چونکا تو رات بہت کم باقی رہ گئی تھی۔ اس نے اٹھنا چاہا لیکن اس کے ہاتھ پیر ریشم کی ڈوریوں سے مضبوط بند ہے ہوئے تھے۔ اس نے بھوچک ہوکر ادھر ادھر دیکھا۔ نعیمہ اس کے سامنے وہی خنجر ِآبدار لئے کھڑی تھی۔ اسکے چہرے پر ایک قاتلانہ تبسم کی سرخی تھی۔ فرضی معشوق کی سفاکی و خنجر بازی کے ترانے وہ بارہا گا چکا تھا۔ مگر اس وقت اسے اس نظارہ سے شاعرانہ لطف اٹھانے کا جیوٹ نہ تھا۔ خطرۂ جان نشہ کے لئے ترشی سے بھی زیادہ قاتل ہے۔ گھبرا کر بولا، ’’نعیمہ؟‘‘
نعیمہ نے تیز لہجہ میں کہا، ’’ہاں میں ہوں نعیمہ۔‘‘
حیدر غصہ سے بولا، ’’کیا پھر دغا کی وار کی؟‘‘
نعیمہ نے جواب دیا، ’’جب وہ مرد جسے خدا نے شجاعت اور قوت اور حوصلہ دیا ہے دغا کی وار کرتا ہے تو اسے مجھ سے یہ سوال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ دغا اور فریب یہ عورتوں کے ہتھیار ہیں۔ کیونکہ عورت کمزور ہوتی ہے لیکن تم کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ عورت کے نازک ہاتھوں میں یہ ہتھیارکیسی کاٹ کرتے ہیں۔ یہ دیکھو یہ وہی شمشیرِ آبدار ہے جسے تم غیرت کی کٹار کہتے تھے۔ اب یہ غیرت کی کٹار میرے جگر میں نہیں تمھارے جگر میں چبھے گی۔ حیدر! انسان تھوڑا کھوکر بہت کچھ سیکھتا ہے۔ تم نے عزت و حرمت، ننگ و ناموس سب کچھ کھوکر بھی کچھ نہ سیکھا۔ تم مرد تھے۔ ناصر تمھارا رقیب تھا۔ تمھیں اسکے مقابلہ میں اپنی تلوارکے جوہر دکھانا تھا۔ لیکن تم نے نرالی روش اختیار کی اور ایک بیکس عورت پر دغا کا وار کرنا چاہا اور اب تم اسی عورت کے سامنے بے دست و پا پڑے ہوئے ہو۔ تمھاری جان بالکل میری مٹھی میں ہے۔ میں ایک لمحہ میں اسے مسل سکتی ہوں اور اگر میں ایسا کروں تو تمھیں میرا منت گزار ہونا چاہیۓکیونکہ ایک مرد کے لئے غیرت کی موت بے غیرتی کی زندگی سے اچھی ہے۔ لیکن میں تمھارے اوپر رحم کرونگی۔ میں تمھارے ساتھ فیاضی کا برتاؤ کروں گی۔ کیونکہ تم غیرت کی موت کے مستحق نہیں ہو۔ جو غیرت چند میٹھی باتوں اور ایک پیالہ شراب کے ہاتھوں بک جائے وہ اصلی غیرت نہیں ہے۔ حیدر تم کتنے سادہ لوح ہو۔ کیا تم اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ جس عورت نے عصمت جیسی بے بہا جنس دیکر یہ عیش اور تکلیف پایا ہے وہ زندہ رہ کر ان نعمتوں کا سکھ لوٹنا چاہتی ہے۔ جب تم سب کچھ کھوکر زندگی سے بیزار نہیں ہو۔ تو میں سب کچھ پاکر کیوں موت کی خواہش کروں اب رات بہت کم رہ گئی ہے۔ یہاں سے جان لیکر بھاگو۔ ورنہ میری شفاعت بھی تمھیں ناصر کے غصہ کی آگ سے نہ بچاسکےگی۔ تمہاری یہ غیرت کی کٹار میرے قبضہ میں رہے گی اور تمھیں یاددلاتی رہے گی کہ تم نے عزت کے ساتھ غیرت بھی کھودی۔‘‘
مأخذ : پریم چند: مزید افسانے
مصنف:پریم چند