سادھوسنتو ں کی صحبت میں برے بھی اچھے ہوجاتے ہیں مگر پیاگ کی بدنصیبی تھی کہ اس پراس کا الٹا اثرہوا۔ اسے گانجا چرس اوربھنگ کی چاٹ پڑگئی جس کا نتیجہ ہوا کہ ایک محنتی اور ذہین نوجوان کاہلی کا شکاربن گیا۔ دوڑدھوپ اورجدوجہد کی زندگی میں یہ مزہ کہاں۔۔۔ کسی برگد کے سائے میں دھونی جمی ہوئی ہے اور ایک جٹادھاری مہاتما رونق افروز ہیں، عقیدت مندگھیرے بیٹھے ہوئے ہیں اور چرس کے دم لگ رہے ہیں۔ بیچ بیچ میں بھجن بھی ہوجاتے ہیں۔ کام کاج میں یہ لطف کہاں؟ چلم کا بھرناپیاگ کاکام تھا۔۔۔ بھگتوں کو ثواب کے لئے پرلوک کاانتظار کرناپڑتاتھا لیکن پیاگ کی تقدیر اپنے ہاتھ میں تھی۔۔۔ چلم پرپہلا حق اس کا ہوتا تھا۔۔۔ آہ! مہاتماؤں کی صحبتوں میں اسے کتناروحانی سرورحاصل ہوتاتھا، اس پربے خودی طاری ہوجاتی تھی۔۔۔ وہ کسی منور اور مرصع دنیا میں پہنچ جاتاتھا۔ اسی لئے جب اس کی بیوی رکمن رات کودس گیارہ بج جانے پر اسے بلانے آتی تو پیاگ کوحقیقت کاتلخ تجربہ ہوتا۔ دنیا اسے کانٹوں بھراجنگل نظر آتی تھی۔ بالخصوص جب گھر آنے پراسے معلوم ہوتاکہ چولہا نہیں جلا اورکھانے پینے کی کچھ فکر کرناہے۔ وہ ذات کاسبھرتھا۔ گاؤں کی چوکیداری اس کی میراث تھی۔ دو روپے اورکچھ آنے تنخواہ ملتی تھی۔ وردی اور صافہ مفت۔
کام تھا ہفتے میں ایک دن تھانے جانا۔ وہاں افسروں کے دروازے پر جھاڑو لگانا، اصطبل صاف کرنا، لکڑی چیرنا۔۔۔ پیاگ خون کے گھونٹ پی پی کر یہ کام کرتا کیوں کہ سرکشی مالی اورجسمانی دونوں ہی پہلوؤں سے مہنگی پڑتی تھی۔ آنسو یوں پچھتے تھے کہ چوکیداری میں اگرکوئی کام تھاتواتناہی اورمہینے میں چاردن کے لئے دو روپے کچھ آنے کم نہ تھے۔ پھرگاؤں میں بھی اگربڑے آدمیوں پرنہیں تونیچوں پررعب تھا۔ تنخواہ پنشن تھی اورجب سے مہاتماؤں سے تعلق ہوا تووہ پیاگ کے جیب خر چ کی مد میں آگئی اور کھانے کامسئلہ روزبروز تشویشناک صورت اختیار کرنے لگا۔
ان سنت سنگوں سے پہلے کنبہ گاؤں میں مزدوری کرتا تھا۔ رکمن لکڑیاں توڑکر بازارلے جاتی۔۔۔ پیاگ کبھی آراکشی کرتا کبھی رہٹ چلاتا۔ غرض جوکام سامنے آجائے اس میں جٹ جاتاتھا۔ ہنس مکھ، زندہ جل، نیک سیرت اورمحنتی آدمی تھااورایسا آدمی کبھی بھوکوں نہیں مرتا۔ پھربااخلاق ایسا کہ کسی کام کے لئے نہیں نہ کرتا۔۔۔ کسی نے کچھ کہا اوروہ اچھا بھیاکہہ کر دوڑا۔ اسی لئے گاؤں میں اس کی عزت تھی۔ اس عادت کی بدولت نکما ہونے پربھی دوتین سال زیادہ تکلیف نہ ہوئی۔ دونوں وقت کاتوذکر ہی کیا۔ جب مہتو کویہ بات حاصل نہ تھی جس کے دروازے پر چھ بیل بندھے نظرآتے تھے توپیاگ کی کیا ہستی تھی۔ ہاں ایک وقت کی دال روٹی میں شبہ نہ تھا مگر یہ مسئلہ روزبروز دشوارتر ہوتا جاتاتھا۔ اس پرمزید کہ رکمن اب کسی وجہ سے اتنی وفاکیش، اتنی جاں نثار، اتنی جفاکش نہ رہی تھی۔ اس کی قوت اظہار اوربیان میں حیرت انگیز تغیرہوتا تھا۔ پیاگ کسی ایسے سخی کی تلاش میں تھا جواسے فکرِمعاش سے آزادکردے اور وہ بے فکرہوکر روحانیت سے بہرہ ور ہو۔ ایک دن رکمن بازار سے لکڑیاں بیچ کر لوٹی توپیاگ نے کہا۔۔۔
’’لاکچھ پیسے دے دے، دم لگاآؤں۔‘‘
رکمن نے منہ پھیر کرکہا، ’’دم لگانے کا شوق ہے توکام کیوں نہیں کرتے۔ کیا آج کل کوئی بابا نہیں ہیں؟‘‘
پیاگ نے کہا، ’’بھلاچاہتی ہے توپیسے دے دے۔ نہیں اس طرح تنگ کرے گی توایک دن کہیں نکل جاؤں گا، تب روئے گی۔‘‘
رکمن نے انگوٹھا دکھاکرکہا، ’’روئے میری بلا۔ تم رہتے ہو توکون ساسونے کا نوالہ کھلادیتے ہو۔ اب بھی چھاتی پھاڑتی ہوں تب بھی چھاتی پھاڑوں گی۔‘‘
’’تویہی پھیسلا ہے؟‘‘
’’ہاں ہاں کہہ تو میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔‘‘
’’گہنے بنوانے کے لئے پیسے ہیں اور میں چارپیسے مانگتا ہوں تویوں جواب دیتی ہے۔‘‘
رکمن نے تنک کرکہا، ’’گہنے بنواتی ہوں توتمہاری چھاتی کیوں پھٹتی ہے۔ تم نے ایک پیتل کا چھلا بھی تونہیں بنوایا۔‘‘
پیاگ اس دن گھر نہ آیا۔ رات کے نوبج گئے تب رکمن نے کواڑبند کرلئے۔ سمجھی کہ کہیں گاؤں میں چھپابیٹھاہوگا۔ سمجھتا ہوگا، مجھے منانے آئے گی میری بلاجاتی ہے۔ دوسرے دن بھی پیاگ نہ آیا۔ تب رکمن کوفکر ہوئی۔ گاؤں بھرچھان آئی، چڑیا کسی اڈے پرنہ ملی۔ اس نے اس دن رسوئی نہیں بنائی۔ رات کولیٹی تھی توبہت دیر تک آنکھ نہ لگی۔ خوف ہورہا تھا کہ پیاگ سچ مچ سادھوتو نہیں بن گیا۔ اس نے سوچا کہ سویرے چل کرسب پتاپتا چھان ڈالوں گی۔ کسی سادھوسنت کے پاس بیٹھا ہوگا۔ جاکر تھانے میں رپٹ کردوں گی۔ ابھی سویرا ہی تھا کہ رکمن تھانے میں چلنے کو تیار ہوگئی۔ کواڑ بندکرکے نکلی ہی تھی کہ پیاگ آتا ہوادکھائی دیا مگروہ اکیلا نہ تھا۔ اس کے پیچھے پیچھے ایک عورت بھی تھی۔ اس کی چھینٹ کی نئی ساری، رنگی ہوئی چادر اورلمباگھونگھٹ اورشرمیلی چال دیکھ کررکمن کاکلیجہ دھک سے رہ گیا۔ وہ ایک لمحے تک مفلوج سی کھڑی رہی تب بڑھ کر نئی سوت کودونوں ہاتھوں کے بیچ میں لے لیااور اسے اس طرح لے کرآہستہ آہستہ گھرکے اندر لے چلی جیسے کوئی مریض علاج سے مایوس ہوکرزہر کاگھونٹ حلق کے اندر لے جائے۔ جب محلے کی عورتیں چلی گئیں تورکمن نے پیاگ سے پوچھا، ’’اسے کہاں سے لائے؟‘‘
پیاگ نے ہنس کرکہا، ’’گھرسے بھاگی جاتی تھی۔ مجھے راستے میں مل گئی، گھر کا کام دھندا کرے گی پڑی رہے گی۔‘‘
’’معلوم ہوتا ہے کہ مجھ سے تمہارا دل بھرگیا۔‘‘
پیاگ نے ترچھی چتونوں سے دیکھ کرکہا، ’’دھت پگلی، اسے تیری سیوا ٹہل کرنے لایاہوں۔‘‘
’’نئی کے آگے پرانی کو کون پوچھتا ہے؟‘‘
’’چل من جس سے ملے وہی نئی ہے۔ جس سے نہ ملے وہ پرانی ہے۔ لا، کچھ پیسے ہوں تو دے دے۔ تین دن سے دم نہیں لگایا، پیرسیدھے نہیں پڑتے۔ ہاں دیکھ دوچار دن اس بے چاری کوکھلاپلادے۔ پھرتو آپ ہی کام کرنے لگے گی۔‘‘
رکمن نے پورا روپیہ لاکر پیاگ کودیا۔ دوسری بار کہنے کی ضرورت نہ پڑی۔
پیاگ میں اورکوئی خوبی ہویا نہ ہو، مگر یہ ماننا پڑے گا کہ وہ حکمرانی کے ابتدائی اصولوں سے واقف تھا۔ اس نے اختلاف سے فائدہ اٹھانے کی پالیسی کواپنا مقصد بنالیاتھا۔ ایک مہینے تک کسی قسم کی پریشانی نہ ہوئی۔ رکمن بے عذر ہوگئی تھی۔ بڑے سویرے اٹھتی اورکبھی لکڑیاں توڑتوڑکر، کبھی چاراکاٹ کر، کبھی اپلے تھاپ کر بازار لے جاتی۔ وہاں جوکچھ ملتا، اس کانصف توتیاگ کے ہتھے چڑھادیتی اور نصف میں گھر کاکام چلتا۔ وہ سوت کوکوئی کام نہ کرنے دیتی۔ پڑوسیوں سے کہتی، ’’بہن سوت ہے توکیاہے، ہے توابھی بہریا (دلہن) دوچارمہینے بھی آرام سے نہ رہے گی تو کیا یادکرے گی۔ میں توکام کرنے کوہوں ہی۔‘‘
گاؤں بھر میں رکمن کے اس نیک نفسی کاچرچاہونے لگامگر صحبت یافتہ گھاگ پیاگ سب کچھ سمجھتا تھا اور اپنی پالیسی کی کامیابی پرخوش ہوتا تھا۔
ایک دن نئی بہونے کہا، ’’دیدی اب توگھرمیں بیٹھے بیٹھے جی اوبتا ہے، مجھے کوئی کام دلادو۔۔۔‘‘
رکمن نے محبت بھرے لہجے میں کہا، ’’کیا میرے منہ میں کالک تھپوانے پرلگی ہوئی ہے۔ بھیتر کا کام کئے جاباہر کے واسطے تومیں ہوں ہی۔۔۔،،
بہوکا نام کوشلیاتھا جوبگڑکر سلیا ہوگیاتھا۔۔۔ اس وقت توسلیا نے کچھ جواب نہ دیا لیکن یوں لونڈیوں کی زندگی اس کے لئے ناقابلِ برداشت تھی وہ دن بھر گھرکا کام کرتے کرتے مرے، کوئی نہیں پوچھا۔ رکمن باہر سے چارپیسے لاتی ہے توگھر کی مالکن بنی ہوئی ہے۔ اب سلیا بھی مجوری کرے گی اورمالکن کا گھمنڈ توڑدے گی۔۔۔ پیاگ توپیسے کایارہے۔ یہ بات اس سے چھپی نہ تھی۔ جب رکمن چارا لے کربازار چلی گئی تو اس نے گھرکا شٹرلگایا اور گاؤں کا رنگ ڈھنگ دیکھنے کے لئے نکل پڑی۔
گاؤں میں برہمن، ٹھاکر، کائستھ، بنئے سبھی تھے۔ سلیا نے نیک مزاجی کا ایسا سوانگ رچا کہ سب پرعورتیں اس پرلٹوہوگئیں۔ کسی نے چاول دیا کسی نے دال، کسی نے کچھ۔ نئی بہو کی آؤبھگت کون نہ کرتا؟ پہلے ہی دورے میں سلیا کومعلوم ہوگیا کہ گاؤں میں پنہاری کی جگہ خالی ہے اووہ اس کمی کوپورا کرسکتی ہے۔ وہ یہاں سے لوٹی تواس کے سرپر گیہوں سے بھری ہوئی ایک ٹوکری تھی۔
پیاگ نے پہررات ہی سے چکی کی آواز سنی تورکمن سے بولا، ’’آج تو سلیا ابھی سے پیسنے لگی۔‘‘
رکمن بازار سے آٹا لائی تھی۔ اناج اور آٹے کے بھاؤ میں خاص فرق نہ تھا۔ اسے تعجب ہوا کہ سلیا اتنے سویرے کیا پیس رہی ہے۔۔۔ اٹھ کرکوٹھری میں گئی تودیکھا سلیا اندھیرے میں جو کچھ پیس رہی ہے، رکمن نے جاکراس کاہاتھ پکڑ لیا اورٹوکری کو اٹھاکر بولی، ’’تجھ سے پیسنے کو کس نے کہا ہے؟ کس کااناج پیس رہی ہے۔۔۔‘‘
سلیانے بے باکانہ انداز سے کہا، ’’تم جاکر آرام سے سوتی کیوں نہیں۔ میں پیستی ہوں تو تمہارا کیا بگڑتاہے۔ چکی کی گھمڑگھمڑبھی نہیں سہی جاتی۔ لاؤ ٹوکری دے دو، بیٹھے بیٹھے کب تک کھاؤں گی، دومہینے توہوگئے۔‘‘
’’میں نے توتجھ سے کچھ نہیں کہا۔‘‘
’’تم کہوچاہے نہ کہو۔ اپنا دھرم بھی تو کچھ ہے۔‘‘
’’تو ابھی یہاں کے آدمیوں کونہیں جانتی۔ آٹاپساتے تو سب کو اچھا لگتاہے اور پیسے دیتے روتے ہیں۔ کس کاگیہوں ہے، میں سویرے اس کے گھرپٹک آؤں گی۔۔۔‘‘
سلیا نے رکمنی کے ہاتھ سے ٹوکری چھین لی اور بولی، ’’پیسے کیوں نہ دیں گے کچھ بیگارکرتی ہوں۔‘‘
’’تونہ مانے گی؟‘‘
’’تمہاری لونڈی بن کرنہ رہوں گی۔‘‘
پیاگ یہ تکرارسن کر آپہنچا اور رکمن سے بولا، ’’کام کرتی ہے توکرنے دے۔ اب کیا جنم بھر بہریا ہی بنی رہے گی، ہوتو گئے دومہینے۔‘‘
’’تم کیاجانو ناک تومیری کٹے گی۔۔۔‘‘
سلیا بول اٹھی، ’’تو کیا کوئی بیٹھے بیٹھے کھلاتاہے۔ چوکابرتن جھاڑو بھارو، روٹی پانی، پیسنا کوٹنا یہ کون کرتا ہے۔ پانی کھینچتے کھینچتے میرے ہاتھوں میں گٹے پڑگئے۔ مجھ سے اب یہ تمہارا کام نہ ہوگا۔‘‘
پیاگ نے کہا، ’’توہی بازارجایاکر، گھرکاکام رہنے دے رکمن کرے گی۔‘‘
رکمن نے آہستہ سے کہا، ’’ایسی بات منہ سے نکالتے لاج نہیں آتی۔ تین دن کی بہریابازارمیں گھومے گی تو سنسار کیاکہے گا۔۔۔‘‘
سلیا کی ڈگری ہوگئی۔ حکومت رکمن کے ہاتھ سے نکل گئی۔۔۔ سلیا کی عملداری ہوگئی۔ جوان عورت تھی۔ گیہوں پیس کراٹھی توعورتوں کے ساتھ گھاس چھیلنے چلی گئی اوراتنی گھاس چھیلی کہ سب دنگ رہ گئیں۔ گٹھااٹھائے نہ اٹھتا تھا جو مرد اس کام میں بہت مشاق تھے ان سے بھی بازی مارلی۔ یہ گٹھا بارہ آنے کوبکا۔ سلیا نے آٹا، چاول، دال، تیل، نمک، ترکاری مصالحہ سب کچھ لیا اورچار آنے بھی بچالئے۔ رکمن نے سمجھ رکھا تھا کہ سلیا بازار سے دوچارآنے پیسے لے کرلوٹے گی تو اسے ڈانٹوں گی اوردوسرے دن سے پھربازارجانے لگوں گی پھرمیرا راج ہوجائے گا مگریہ سامان دیکھے تو اس کی آنکھیں کھل گئیں۔۔۔
پیاگ کھانے بیٹھا تومسالے دارترکاری کی تعریف کرنے لگا۔۔۔ مہینوں سے ایسی مزے دارچیزمیسر نہ ہوئی تھی، بہت خوش ہوا۔ کھانا کھاکرباہر جانے لگا تو سلیا بروٹھے میں کھڑی مل گئی۔ بولا، ’’آج کتنے پیسے ملے؟‘‘
’’بارہ آنے ملے تھے۔‘‘
’’سب خرچ کرڈالے۔ کچھ بچے ہوں تو مجھے دے دے۔‘‘
سلیا نے بچے ہوئے چار آنے پیسے دے دیئے۔ پیاگ پیسے کھنکھناتا ہوا بولا، ’’تونے توآج مالا مال کردیا۔ رکمن نے توچارپیسوں میں ٹال دیتی تھی۔‘‘
’’مجھے گاڑکر رکھنا تھوڑا ہے۔۔۔ پیسے کھانے پینے کے لئے ہیں یاگاڑکر رکھنے کے لئے؟‘‘
’’اب توہی بازار جایاکر۔ رکمن گھر کا کام کرے گی۔‘‘
رکمن اورسلیا میں اب معرکہ گرم ہوگیا۔ سلیا اپنا اقتدارجمائے رکھنے کےلئے جان توڑمحنت کرتی۔ پہررات ہی سے اس کی چکی کی آوازکانوں میں آنے لگتی۔ دن نکلتے ہی وہ چلی جاتی اور ذرادیرسستاکربازار کی راہ لیتی۔ وہاں سے لوٹ کربھی بیکار نہ بیٹھتی۔ کبھی سن کاتتی، کبھی لکڑیاں توڑتی، کبھی رسی بٹتی۔ رکمن اس کے کام میں برابر عیب نکالتی اور جب موقع ملتا تو گوبر بٹورکر اوپلے تھاپتی اورگاؤں میں بیچتی۔ پیاگ کے دونوں ہاتھوں میں لڈوتھے۔ دونوں عورتیں اسے زیادہ سے زیادہ پیسے دینے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش میں رہتیں۔۔۔ مگرسلیا نے کچھ ایسا قبضہ جمالیاتھاکہ کسی طرح ہٹائے نہ ہٹتی تھی۔۔۔ یہاں تک کہ ایک دن دونوں میں اعلانِ جنگ ہوگیا۔
ایک دن سلیا گھاس لے کرآئی توپسینے میں ترتھی۔ پھاگن کامہینہ تھا، دھوپ تیز تھی۔ اس نے سوچا کہ نہاکر تب بازار جاؤں گی۔ گھاس دروازے پر ہی رکھ کروہ تالاب میں نہانے چلے گی۔۔۔ رکمنی نے تھوڑی سی گھاس نکال کر پڑوسن کے گھرمیں چھپادی اورگٹھے کوڈھیلا کرکے برابر کردیا۔ سلیا نہاکرلوٹی توگھاس کم معلوم ہوئی۔ رکمن سے پوچھا۔ اس نے کہامیں نہیں جانتی۔ سلیا نے گالیاں دینی شروع کیں، ’’جس نے میری گھاس چھوئی ہو، اس کے بدن میں کیڑے پڑیں۔ اس کے باپ اورماں مرجائیں اس کی آنکھیں پھوٹ جائیں۔‘‘
رکمن کچھ دیر تک توضبط کئے بیٹھی رہی مگرآخر خون میں ابال آہی گیا۔ جھلاکر اٹھی اورسلیا کے دوتین طمانچے لگادیئے۔ سلیا چھاتی پیٹ پیٹ کر رونے لگی۔ سارا محلہ جمع ہوگیا۔۔۔ سلیا کی ذہانت اور کارکردگی سب ہی کی آنکھوں میں کھٹکتی تھی۔ وہ سب سے زیادہ گھاس کیوں چھیلتی ہے؟ سب سے زیادہ لکڑیاں کیوں توڑلاتی ہے؟ اتنے سویرے کیوں اٹھتی ہے؟ اتنے پیسے کیوں کماتی ہے؟ ان خوبیوں نے اسے پڑوسیوں کی ہمدردی سے محروم کردیاتھا۔ سب اسی کوبرابھلا کہنے لگیں۔ مٹھی بھر گھاس کے لئے اتنا شورمچاڈالا، اتنی گھاس توآدمی جھاڑکرپھینک دیتاہے۔ پھر تمہیں سوچناچاہئے تھا کہ اگرکسی نے لے لی تو گاؤں کاہی ہوگا۔ باہر کا چور توآیا نہیں پھر تم نے اتنی گالیاں کس کو دیں۔ پڑوسیوں کوہی تو۔۔۔
اس دن پیاگ تھانے گیاتھا۔ شام کو لوٹا تو تھکا ہوا تھا۔ آتے ہی سلیا سے بولا۔۔۔ ’’لاکچھ پیسے دے دے تودم لگاآؤں۔ تھک کرچورہوگیا ہوں۔‘‘ سلیا اسے دیکھتے ہی ہائے ہائے کرکے رونے لگی۔
پیاگ نے گھبراکر پوچھا، ’’کیاہوا کیا؟ کیوں روتی ہے، کہیں گمی (غمی) تونہیں ہوگئی۔۔۔ ‘نے ہر‘سے توکوئی آدمی نہیں آیا؟‘‘
’’اب میرا اس گھر میں رہنانہ ہوگا۔ میں اپنے گھرجاؤں گی۔‘‘
’’ارے منہ سے توکچھ بول، ہواکیا؟ گاؤں میں کسی نے گالی دی ہے، گھرپھونک دوں، اس کا چالان کرادوں۔‘‘
سلیا نے رورو کر سارا قصہ بیان کیا۔ پیاگ پرآج تھانے پرخوب مارپڑی تھی۔ جھلایاہوا تھاہی۔ یہ قصہ سناتو بدن میں آگ لگ گئی۔ رکمن پانی بھرنے گئی تھی۔ وہ گھڑا بھی نہ رکھنے پائی تھی کہ اس پر پل پڑا اور مارتے مارتے بے دم کردیا۔ وہ مار کا جواب گالیوں سے دے رہی تھی اوریہ ہرایک گالی پرجھلاجھلاکر اوربھی مارتا تھا یہاں تک کہ رکمن کے گھٹنے پھوٹ گئے تھے، چوڑیاں ٹوٹ گئی تھیں۔
سلیا بیچ بیچ میں کہتی جاتی تھی، ’’واہ رے تیرا دیدہ! واہ ری زبان۔ ایسی تو عورت ہی نہیں دیکھی۔ عورت کا ہے کو، ڈائن ہے۔ ذرابھی منہ میں لگام نہیں۔۔۔‘‘
رکمن اس کی باتوں کوگویا سنتی ہی نہ تھی۔ اس کی ساری طاقت پیاگ کو کوسنے میں لگی ہوئی تھی۔ پیاگ مارتے مارتے تھک گیا لیکن رکمن کی زبان نہ رکی۔
’’تومرجا! تیری مٹی نکلے تیری لاش نکلے، تجھے بھوانی کھائیں، تجھے مرگی آئے۔‘‘
پیاگ رہ رہ کر غصے سے بے اختیار ہوجاتا اور جاکر دوچار لاتیں جمادیتا۔ پررکمن میں غالباً اب حس ہی نہ تھی۔ وہ سرکے بال کھولے وہیں زمین پربیٹھی انہیں منتروں کا جاپ کررہی تھی۔ اس کے لہجے میں اب غصہ نہ تھا، بس ایک مجنونانہ بے ساختگی تھی۔ اس کے وجود کاذرہ ذرہ انتقام کی آگ میں جل رہاتھا۔۔۔ اندھیرا ہوا تو رکمن اٹھ کرایک طرف نکل گئی جیسے آنکھوں سے آنسو کی دھارنکل جاتی ہے۔ سلیا کھانا بنارہی تھی۔ اس نے اسے جاتے دیکھا بھی مگر کچھ پوچھا نہیں۔ دروازے پرپیاگ بیٹھا چلم پی رہا تھا اس نے بھی کچھ نہ کہا۔
جب فصل پکنے لگتی تھی توڈیڑھ دومہینے پیاگ کوہارکی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی۔ اسے کسانوں سے دونوں فصلوں پر ہل پیچھے کچھ اناج بندھا ہواتھا۔ ماگھ ہی میں وہ ہار کے بیج میں تھوڑی سی زمین کرکے ایک منڈیاڈال لیتاتھا اوررات کوکھاپی کرآگ چلم تمباکو چرس لئے ہوئے اسی منڈیا میں آکرپڑا رہتا تھا۔ چیت کے آخر تک اس کا یہی شغل رہتا تھا۔ آج کل وہی دن تھے۔
فصل پکی ہوئی تیار کھڑی تھی۔ دوچار دن میں کٹائی شروع ہونے والی تھی۔ پیاگ نے دس بجے رات تک رکمن کی راہ دیکھی۔ پھریہ سمجھ کرشاید کسی پڑوسن کے یہاں سورہی ہوگی۔ اس نے کھاپی کراپنی لاٹھی چلم تمباکو آگ اٹھالی اورسلیا سے بولا، ’’کواڑبند کرلے۔ اگر رکمن آئے توکھول دینا اورمناکر تھوڑا ضرور کھلادینا۔ تیرے پیچھے آج اتنا طوفان ہوگیا۔ آج نہ جانے مجھے اتناغصہ کیسے آگیا۔ میں نے اسے آج تک پھول کی چھڑی سے بھی نہیں چھوا تھا، کہیں ڈوب دھنس نہ مری ہو، نہیں تو کل آفت آجائے۔‘‘
سلیا بولی، ’’نہ جانے وہ آئے گی کہ نہیں۔ اکیلی کیسے رہوں گی۔ مجھے توڈرلگتا ہے میں اکیلے گھرمیں کبھی نہیں رہی۔‘‘
’’توگھر میں کون رہے گا۔ سونا گھرپاکر کوئی لوٹا تھالی لے جائے گا تو؟ ڈرکس بات کاہے۔ پھر رکمن توآتی ہی ہوگی۔۔۔‘‘
سلیا نے شٹراندرسے بندکرلیا۔ پیاگ ہار کی طرف چلا۔ چرس کی ترنگ میں ایک بھجن گاتاجاتاتھا۔۔۔
’’ٹھگنی کیوں نینا جھمکادے
کدوکاٹ مردنگ بنادے
نیبوکاٹ مجیرا
پانچ تروئی منگل گاویں، نا چ بالم کھیرا
روپاپہر کے روپ دکھاوے، سونا پہر رجھاوے
گلے ڈالی تلسی کی مالا، تین لوک بھرماویں
’’ٹھگنی۔۔۔‘‘
یکایک اس نے دیکھا کہ سامنے ہارمیں کسی نے آگ جلائی، ایک شعلہ اٹھا اور اس نے چلاکر پوچھا، ’’کون ہے؟ ارے یہ کون آگ جلاتا ہے؟‘‘ اس کا جواب بلند ہونے ہونے والے شعلو ں نے دیا۔
اب پیاگ کومعلوم ہواکہ اس کی منڈیا میں آگ لگ گئی ہے۔ اس کی چھاتی دھڑکنے لگی، اس کی منڈیا میں آگ لگانا روئی کے ڈھیر میں آگ لگاناتھا۔ ہواچل رہی تھی۔۔۔ منڈیاکے چاروں طرف ایک ہاتھ ہٹ کرپکی ہوئی فصل کی چادرسی کھڑی تھی۔ رات میں بھی ان کا سنہرا رنگ جھلک رہاتھا۔ آگ کی ایک لپٹ، صرف ایک ذرا سی چنگاری سارے ہارکوبھسم کردے گی۔ سارا گاؤں تباہ ہوجائے گا۔ اسی ہار سے ملے ہوئے دوسرے گاؤں کے بھی ہارتھے، وہ بھی جل اٹھیں گے۔ اوہ! شعلے بڑھتے جارہے ہیں۔ اب سوچنے کاموقع نہ تھا۔ پیاگ نے اپنااوپلا اورچلم وہیں پٹک دیا اورکندھے پرلوہ بند لاٹھی رکھے ہوئے بے تحاشہ منڈیا کی طرف دورڑا۔ مینڈوں سے جانے میں چکرتھا۔ وہ کھیتوں میں ہوکر بھاگاجارہا تھا۔ ہر شعلے بلند تر ہوتے جارہے تھے اورپیاگ کے قدم تیزتر، کوئی تیزگھوڑا بھی اسے نہ پاسکتا۔ اسے خود بھی اپنی تیزی پرحیرت ہورہی تھی۔۔۔ معلوم ہوتا تھا کہ پاؤں زمین پرپڑتے ہی نہیں۔ اس کی آنکھیں منڈیا پر لگی ہوئی تھیں، دائیں بائیں اسے کچھ بھی نہ سوجھتا تھا۔۔۔ اس کی یکسوئی نے اس کے پیروں میں پرلگادیئے۔ نہ دم پھولتا تھااور نہ پاؤں تھکتے تھے۔ تین چار فرلانگ اس نے دومنٹ میں طے کرلئے اورمنڈیا کے پاس جاپہنچا۔
وہاں کوئی آدمی نہ تھا۔۔۔ کس نے یہ کرم کیاہے، یہ سوچنے کا موقع نہ تھا۔ اسے تلاش کرنے کی توبات ہی اورتھی۔ پیاگ کاشبہ رکمن پرہوا مگر یہ غصے کاوقت نہ تھا۔ شعلے شریر لڑکوں کی طرح قہقہہ مارتے، دھکم دھکا کرتے، کبھی دائیں طرف لپکتے کبھی بائیں طرف۔ بس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لپٹ اب کھیت تک پہنچی۔ گویا شعلے قصداً کیاریوں کی طرف لپکتے تھے اور ناکام ہوکر دوسری بارپھر دونے جوش سے بڑھتے تھے۔ آگ کیسے بجھے؟ لاٹھی سے پیٹ کرآگ بجھانے کا موقع نہ تھا۔ وہ تو کھلی حماقت تھی۔ پھر کیاہو؟ فصل جل گئی تووہ کسی کومنہ نہ دکھاسکے گا۔ آہ! گاؤں میں کہرام مچ جائے گا، تباہی آجائے گی۔۔۔
اس نے زیادہ نہیں سوچا۔ گنواروں کوسوچنا نہیں آتا۔۔۔ پیاگ نے لاٹھی سنبھالی اور زور سے ایک چھلانگ مارکر آگ کے اندرمنڈیا کے دروازے پرجاپہنچا۔ جلتی ہوئی منڈیا کواپنی لاٹھی پراٹھایا اور اسے سرپرلئے سب سے چوڑی مینڈ پر گاؤں کی طرف بھاگا۔
ایسا معلوم ہوا کہ کوئی آگ گاڑی ہوا میں اڑتی چلی جارہی ہے۔ پھوس کی جلتی ہوئی دھجیاں اس کے اوپر گررہی تھیں۔ مگراسے اس کا احساس بھی نہ ہوتاتھا۔ ایک بار ایک موٹھا الگ ہوکر اس کے ہاتھ پرگرپڑا۔ سارا ہاتھ بھن گیا مگرپاؤں پل بھر کے لئے نہ رکے، ہاتھوں میں ذرا بھی جنبش نہ ہوئی۔ ہاتھوں کا ہلنا کھیتی کاتباہ ہوناتھا۔ آگ کی طرف سے اب زیادہ ڈرنہ تھا۔ اگرخوف تھا تویہی کہ وہ بیچ کاحصہ جہاں اس نےلاٹھی ڈال کر منڈیا اٹھائی تھی، نہ جائے، ورنہ سوراخ کے بڑھتے ہی منڈیا اس کے اوپر آرہے گی اور وہ اس اگنی سمادھی میں دب جائے گی۔ پیاگ یہ جانتا تھا اس لئے وہ ہوا کی رفتار سے اڑاجاتاتھا۔
چارفرلانگ کی دوڑہے۔ موت آگ کی شکل میں پیاگ کے سرپرکھیل رہی ہے اور گاؤں کی فصل پر۔ اس کی دوڑمیں اتنا جوش ہے کہ شعلوں کامنہ پیچھے کوپھرگیا ہے اس کی قوت کا بیشتر حصہ ہوا کامقابلہ کرنے میں صرف ہورہا ہے ورنہ اب تک کب کا مرکزی حصہ جل گیاہوتا اور پیاگ شعلوں کے نیچے دب جاتا۔
ایک فرلانگ اورطے ہوگیا۔ بس ایک فرلانگ اورکسر ہے۔
دیکھنا پیاگ! قدم ذرا بھی سست نہ ہوں۔ لاٹھی کے کندے پرشعلے پہنچے اور تمہاری زندگی کا خاتمہ ہے اورمرنے کے بعدبھی تمہیں گالیاں ملیں گی اورتم ہمیشہ ہمیشہ آہوں کی آگ میں جلتے رہوگے۔ بس ایک منٹ اور! صرف دوکھیت رہ گئے ہیں۔ آہ! منڈیا نیچے کھسک پڑی۔ لاٹھی کاکندا بھر کر نکل گیا۔ سروناش! اب کوئی امید نہیں۔ شعلے ایک ایک انچ کھسکتے آرہے ہیں۔ وہ آخری کھیت آپہنچا۔ اب صرف دو سکنڈ کااورمعاملہ ہے۔ فتح کا دروازہ وہ سامنے بیس ہاتھ کے فاصلے پرہے۔ ادھر جنت ہے ادھرجہنم۔ مگروہ منڈیا کھسکتی ہوئی پیاگ کے سرپرآپہنچی وہ اب بھی اسے سرسے پھینک کراپنی جان بچاسکتاہے۔ مگراسے اپنی زندگی کالالچ نہیں۔ وہ اس جلتی ہوئی آگ کوسرپر لئے بھاگا جارہاہے۔ وہاں اس کے پاؤں لڑکھڑائے۔
اب آگ کا یہ ظالمانہ تماشانہیں دیکھا جاتا۔ یکایک ایک عورت سامنے کے درخت کے نیچے سے بے تحاشہ دوڑتی ہوئی پیاگ کے پاس آپہنچی۔ یہ رکمن تھی، اس نے فورا پیاگ کے سامنے آکر گردن جھکائی اورجلتی ہوئی منڈیا کے نیچے پہنچ کر اسے اپنے دونوں ہاتھوں پر لے لیا۔ اسی وقت پیاگ بے ہوش ہوکرزمین پر گرپڑا۔ اس کا سارا منہ جھلس گیاتھا۔ الاؤ کولے ایک سکنڈمیں آخری کھیت کے ڈانڈے پرجاپہنچی مگراتنی ہی دور میں اس کے ہاتھ جل گئے۔ منہ جل گیا اورکپڑوں میں آگ لگ گئی۔ اسے اب اتنا ہوش بھی نہیں تھا کہ وہ منڈیا سے باہر نکل آئے۔ وہ منڈیا کولئے ہوئے گرپڑی۔ اس کے بعدکچھ دیرتک منڈیا ہلتی رہی۔ رکمن ہاتھ پاؤں پھینکتی رہی۔ پھر آگ نے اسے نگل لیا۔ رکمن نے اگنی سمادھی لے لی۔ کچھ دیربعدپیاگ کو ہوش آیا۔ ساراجسم جل رہا تھا۔ اس نے دیکھادرخت کے نیچے اس کی لال آگ چمک رہی ہے۔ اٹھ کر دوڑااورپیر سے آگ کو ہٹادیا۔ نیچے رکمن کے سوختہ لاش پڑی ہوئی تھی۔ اس نے بیٹھ کر دونو ں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ لیا اوررونے لگا۔
صبح سویرے گاؤں کےلوگ پیاگ کواٹھاکر اس کے گھر لے گئے۔ ایک ہفتے تک اس کا علاج ہوتا رہا، مگربچا نہیں۔ کچھ توآگ نے جلادیاتھا اور جوکچھ کسر تھی وہ صدمے کی آگ نے پوری کردی۔
مأخذ : پریم چند کے مختصر افسانے
مصنف :پریم چند