صبح تک میں خود بھی اپنے آپ کو ایسا بیمار نہ سمجھتا تھا کہ وصیت کی فکر کرتا یا ان سب ناتمام کاموں کا انتظام کر جاتا جن کو میں کبھی اپنی ۴۰ سال کی عمر میں پورا نہ کر سکا تھا اور نہ شاید کبھی انجام تک پہنچا سکتا، خواہ اتنی ہی عمر اور کیوں نہ مل جاتی۔ صرف کبھی کبھی قلب کے حوال میں درد کی چمک محسوس ہوتی تھی اور میں سینہ پکڑ کر بیٹھ جاتا، دوپہر تک مجھے اور سب کو یہی یقین رہا کہ ریاح کا تکاثف ہے، فکر کی بات نہیں، لیکن جب شام کے وقت درد کے شدید و متواتر حملوں نے تشویش پیدا کی تو ڈاکٹر صاحب بلائے گئے۔ یہ میرے پرانے رفیق تھے۔ ان کو ہمیشہ یہی شکایت رہی کہ اس زمانہ میں لوگ تدافل نصلین کے وقت بھی اس قدر بیمار نہیں پڑتے جتنے پہلے اچھے موسم میں صاحب فراش ہو جاتے تھے، ہمیں شک نہیں کہ آدمی ذہین تھے تجربہ کار تھے، لیکن معلوم نہیں کیوں وہ ہمیشہ مفلوک الحال رہے۔ بہرحال وہ اس کی تاویل یہی کیا کرتے تھے۔ انہوں نے آتے ہی نبض دیکھی آنکھوں کے پپوٹے چیر کر معائنہ کیا، زبان نکلوا کر اس کا رنگ دیکھا اور پھر آلہ سینہ پر رکھ کر ضربات قلب کی حالت دیکھی اور حد درجہ مایوسانہ نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ کر میرے اعزہ اور تیمارداروں سے کہا کہ ’’آپ لوگ اگر چند منٹ کے لیے باہر چلے جاتے تو بہتر تھا۔‘‘میں اس وقت سکون کی حالت میں تھا۔ جب تنہائی ہو گئی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ بہت جری آدمی ہیں اس لیے مجھے امید ہے کہ آپ گھبرائیں گے نہیں اگر میں یہ کہوں کہ آپ جلد سے جلد اپنی وصیت مرتب کر لیجئے اور جو ہدایتیں اپنے پسماندگان کو کرنا ہیں کر دیجئے، کیونکہ آپ کے قلب کی حالت بہت نازک ہے اور مشکل ہی سے شاید دو گھنٹے وہ اپنا کام کر سکے۔‘‘
اس میں کلام نہیں کہ میں فطرتاً بہت جری ہوں اور بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی کبھی نہیں گھبرایا، لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس قدر ناگہانی طور پر صرف دو گھنٹے کا نوٹس، اس دنیا سے چلے جانے کا دیا جس میں میں نے اپنی زندگی کے چالیس سال اس قدر انہماک و تعلق شدید کے ساتھ بسر کر چکا تھا۔ میں واقعی گھبرا گیا۔ جیسا کہ میں نے ابھی ذکر کیا کہ واقعی میں کمزور طبیعت کا انسان نہیں ہوں لیکن یہ غلط نہ ہوگا کہ اگر یہ کہا جائے کہ میں موت سے بھی نہیں ڈرتا تھا۔ میرا خیال کیا یقین تھا کہ کم از کم ۸۰ سال ضرور جیوں گا کیونکہ میری صحت اچھی تھی میرے قواء صحیح تھے، بیمار بہت کم پڑتا تھا، پورے دو من کا وزن رکھتا تھا اور پھرسب سے زیادہ یہ کہ مجھے دنیا میں بہت سے کام کرنا تھے اور میں نہیں سمجھ سکتا تھا کہ فطرت اس قدر ظالم ہو سکتی ہے کہ وہ مجھے قبل از وقت اٹھا لے درآں حالیکہ میرے رہنے سے اس کا کوئی نقصان نہ تھا۔ اس لیے جب میں نے یہ سنا کہ ۸۰ سال میں دفعتہ ۴۰ سال کم ہو گئے ہیں اور میں اپنے تمام کاموں کو ادھورا چھوڑ جانے پر مجبور ہوں، تو میری تمام جرأت و ہمت مفقود ہو گئی اور میری حالت اس کبوتر کی سی ہو گئی جو باز کے پنجہ میں پہنچ کر بازو پھٹ پھٹانے کی بھی قوت کھو بیٹھتا ہے، سب سے پہلے مجھے اپنی بیوی کا خیال آیا کہ وہ اس صدمہ کو کیونکر برداشت کریں گی۔ بیس برس کی معیت کا یوں دفعتہ ختم ہو جانا، ان کو کس قدر بیتاب کر دے گا، اس کے بعد میں نے سوچا کہ میرے دو بچے جن کی تعلیم بھی ابھی پوری نہیں ہوئی کیا کریں گے۔ میری چھوٹی بچی جو مجھی کو دیکھ کر جی رہی ہے، کیونکر زندہ رہ سکےگی، روپیہ اپنی بےاحتیاطوں کی وجہ سے کبھی پس انداز نہیں کر سکا، کاروبار کی حالت درست نہیں او ہو بھی تو اس کا چلانے والا کون ہے، بیمہ کی رقم بھی اتنی نہیں کہ بیوی بچوں کے لیے معقول سہار ہو سکے۔ الغرض یہ تمام ہولناک خیالات مجسم ہو کر سامنے آ گئے اور میں ایسا محسوس کرنے لگا کہ جسم کے ریشہ ریشہ میں کسی نے برف پگھلا کر بھر دیا ہے۔ سرو پیشانی سے ٹھنڈا پسینہ بہہ بہہ کر ٹپکنے لگا اور ہاتھ پاؤں ایسے ڈھیلے پڑ گئے گویا ان کی جان نکل گئی ہے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ ڈاکٹر صاحب کو کوئی جواب دوں لیکن زبان نے کام نہ دیا اور میں بے ہوش ہو کر وہیں پلنگ پر گر پڑا۔ اس کے بعد مجھے مطلق خبر نہیں کہ میں کب مرا اور کس وقت قبرستان میں پہنچایا گیا۔
دفعتہ میں ے محسوس کیا کہ سامنے سے ایک بڑا شعلہ چلا آ رہا ہے، لیکن تاریکی کا یہ عالم ہے کہ اس کی روشنی بالکل نہیں پھیل سکتی اور گرمی کی شدت سے دم گھٹا جا رہا ہے۔ میں نے اپنے چاروں طرف ہاتھ پاؤں چلائے تو معلوم ہوا کہ میں کسی گڈھے کے اندر بند ہوں اور جگہ اس قدر تنگ ہے کہ اٹھ کر بیٹھ بھی نہیں سکتا۔ وہ شعلہ بڑھتے بڑتھے قریب آیا اور دو حصوں میں تقسیم ہو کر میرے دونوں پاؤں کے اوپر قائم ہو گیا۔ اب گرمی بہت زیادہ ہو گئی تھی اور کیفیت یہ تھی کہ جسم پسینہ کے ہاتھ گھلا جا رہا تھا۔ میں نے اپنے پاؤں سمیٹنے چاہے کہ کہیں یہ دونوں شعلے مجھے جلا نہ دیں لیکن میں اس میں کامیاب نہ ہوا۔ تھوڑی دیر میں وہ دونوں روشنیاں طول میں بڑھنے لگیں، یہاں تک کہ ان میں سے ہر ایک بہت لمبی سلاخ سی بن گئی اور عجیب قسم کی بھیانک سے چہرے ان میں سے پیدا ہو کر میری طرف گھورنے لگے۔ خوف سے میری آنکھیں بند ہو گئیں اور عجیب قسم کی ہیبت مجھ پر طاری ہو نے لگی۔ فوراً مجھے خیال آیا کہ کہیں نکیرین یہی تو نہیں ہیں، جن کا ذکر میں نے کتابوں میں دیکھا تھا اور اس خیال کے آتے ہی میں ایسا محسوس کرنے لگا گویا نہایت ہی وزنی گرز سر پر مار رہے ہیں اور میرا دماغ پاش پاش ہوا جا رہا ہے۔ میں چیخ اٹھا کہ ’’خدا کے لیے مجھے کیوں مارتے ہو؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’آج تو ہمیں خدا کا واسطہ دلاتا ہے لیکن یہ تو بتا کہ کبھی تونے بھی خدا سے کوئی واسطہ رکھا تھا، تونے اس کو ہمیشہ ایک قوت سمجھا اور قوت بھی مجبور قسم کی جو مقررہ اصول کے خلاف کچھ نہیں کر سکتی۔ پھر آج کیا ہوا جو اس کی پناہ میں آنا چاہتا ہے۔‘‘
اب مجھے غصہ آ گیا اور میں نے کہا کہ ’’یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ بات کا جواب بھی نہیں سنتے اور مارنا شروع کر دیتے ہو۔ مجھ سے سوال کیا ہے تو اس کا جواب سن لو پھر مارنے نہ مارنے کا تمہیں اختیار ہے۔‘‘
وہ لفظ ’’انسانیت‘‘ سن کر بہت ہنسے، ان کی ہنسی بہت ہی مہیب قسم کا زہر خند تھی اور بولے کہ ’’اے بیوقوف انسان اور انسانیت یہ سب دنیا اور مادی عالم کی اصطلاحیں ہیں یہاں ان کا استعمال درست نہیں۔ پھر یہ کہ ہم انسان کب ہیں جو ہم سے انسانیت کی توقع رکھتا ہے۔ ہم لوگ فرشتے ہیں فرشتے۔ یوں ہی گرز چلاتے چلاتے نہ معلوم کتنا زمانہ گزر گیا ہے اور دشمنی کی وہ آگ جو آدم کی پیدائش کے وقت سے مخفی طور پر ہماری مخلوق میں انسان کی طرف سے بھڑکتی آ رہی ہے، اسے اسی طرح بجھایا کرتے ہیں۔ بےشک ہم نے آدم کو سجدہ کیا تھا، لیکن وہ سجدہ مجبوری کا تھا نہ کہ دل کی خوشی کا۔‘‘
میں یہ خیال کرکے نہ ان کی گفتگو سے تو کچھ خدا کی طرف سے بھی بیزاری پائی جاتی ہے بہت خوش ہوکر کہا کہ ’’سچ کہتے ہو، واقعی تمہاری سخت توہین کی گئی کہ خاک کے پتلے کے سامنے جھکنے پر مجبور کئے گئے۔ اس لیے اگر تم مجھے مہلت دو، تو میں تمہیں خدا کی بندگی کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے آمادہ ہوں اور سچ پوچھو تو خدا تمہیں کو ہونا چاہیے کہ تمہارے گرز سے سام و نریمان، رستم و اسفندیار کا کلیجہ دہل سکتا ہے۔ میں نے تو خدا کا واسطہ صرف اس عادت کی بنا پر دلایا تھا جو دنیا کی زندگی میں پڑ گئی تھی اور جس سے مقصود گفتگو میں زور دینے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ اچھا تو مجھے اٹھاؤ اور اس تاریک غار سے باہر نکالو تا کہ میں آزادی سے سانس لے کر سوچوں کہ کیونکر تمہاری خدائی دنیا میں قائم ہو سکتی ہے۔‘‘
وہ یہ سن کر بہت ہنسے اور بولے کہ ’’ساری عمر میں توہی آج پہلا مردہ ایسا ملا ہے جو ہمیں بہکا کر خدا سے منحرف کرنا چاہتا ہے۔ احمق تجھے نہیں معلوم کہ ہماری تما م حرکتیں مشین کی طرح ہیں اور ہم کو سوچنے کا اختیار ہے، نہ اس کے علاوہ کچھ کرنے کا۔ جو بے اختیارانہ طور پر ہم سے سرزد ہوتا رہتا ہے، زیادہ بک بک نہ کر، اٹھ جہنم تیرا انتظار کر رہا ہے اور آگ کے شعلے تجھے ڈھونڈ رہے ہیں۔‘‘
اب مجھ کو پہلی مرتبہ واقعی طور پر معلوم ہوا کہ میں مر گیا ہوں اور جہنم کا نام سن کر پھر میرے حواس نے جواب دینا شروع کیا۔ آنکھ کھلی تو دیکھا کہ نکیرین غائب ہیں اور میرے گلے میں ایک زنجیر پڑی ہوئی ہے جو مجھ ے تپتے ہوئے ریگستان کے اوپر سے کھسیٹتی ہوئی کسی طرف لیے جا رہی ہے۔ ادھر ادھر جو میں نے نگاہ کی تو معلوم ہوا کہ دور دور فاصلہ پر مجھ ایسے سینکڑوں مردے گھسیٹے جارہے ہیں ان میں کوئی چیخ رہا ہے کوئی تڑپ رہا ہے اور بعض ایسے بھی ہیں جو میری طرح بالکل خاموش ہیں اور حد درجہ بےچارگی کے ساتھ گھسیٹے جا رہے ہیں۔ تھوڑی دور چل کر میں نے دیکھا کہ ہر مردہ کی سمت رفتار بدل گئی ہے اور اب میں تنہا رہ گیا ہوں، وہ زنجیر دفعتہ مجھے غار تک پہنچا کر غائب ہو گئی اورمیں اس کے اندر تیزی سے جانے لگا جیسے کوئی اژدھا اپنی گرم و مسموم سانس سے کھینچ رہا ہو، مجھے نہیں معلوم کہ میں کب تک اس طرح گھسٹتا رہا۔ دفعتہ یہ کشش بھی دور ہوئی اور میں نے اپنے آپ کو ایسے میدان میں پایا جو حد نظر تک وسیع تھا اور آگ کی گرمی سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے سرخ آندھی چھائی ہوئی ہو۔ جابجا چنگاریوں کے بگولے بلند ہو رہے تھے اورکہیں کہیں آگ کے فیل پیکر شعلے جن میں سے بعض بالکل تاریک تھے اور بعض بالکل سفید، اس طرح اٹھ رہے تھے جیسے طوفان میں سمندر موجیں لے رہا ہو۔ پیاس سے براحال ہو رہا تھا۔ زبان باہر ن کل پڑی تھی، تالو چٹخا جارہا تھا اور حلق میں کانٹے پڑ گئے تھے۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں سے کھولتا ہوا پانی ہی میسر آ جائے لیکن بالکل کامیاب نہیں ہوا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اگر مجھ پر عذاب ہی ہونا ہے،تو وہ کیوں نہیں شروع ہو جاتا اور کیوں نہیں مجھے آگ میں ڈال دیا جاتا کہ جل بھن کر خاک ہو جاؤں اور اس تکلیف سے نجات پاؤں۔ ناگہاں ایک فرشتہ سامنے سے اڑتا ہوا نظر آیا۔ جس کے پر و بازو شعلے کی طرح چمک رہے تھے اور جس کا چہر ہ ایسا نظر آتا تھا جیسے کھولتا ہوا تانبہ۔ اس چہر ہ میں صرف ایک آنکھ چاندی کی طرح درمیان میں چمک رہی تھی جس کے اندر سے کبود رنگ کی شعاعیں، ببول کے کانٹوں کی طرح نکل نکل کر جسم میں چبھتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں وہ میرے سامنے آکر قائم ہو گیا اس حال میں کہ اس کا سارا جسم ایسا نظر آتا تھا جیسے گندھک کے ڈھیر میں آگ دے دی گئی ہو۔
اس نے کہا، ’’تمہارے لیے یہ حکم ہوا ہے کہ فی الحال چند دن تک جہنم میں آزاد چھوڑ دئیے جاؤ اور سوائے اس ایذا کے جو یہاں کی فضا میں از خود تمہیں پہنچ جائے کوئی اور عذاب مسلط نہ کیا جائے۔‘‘
یہ کہہ کر فرشتہ دھوئیں کی شکل اختیار کرکے فضا میں ازخود تحلیل ہو گیا اور میں حیران کہ آزادی بھی ملی تو کہاں جاکر، لیکن اس خیال سے کہ خیر فردوس کی پابندی سے بہرحال جہنم کی آزادی بہتر ہے، آگے بڑھا اور یہ دیکھ کر مجھے سخت حیرت ہوئی کہ اب بجائے چٹیل میدان کے نہایت وسیع قلعہ کا سا حصار سامنے تھا۔ میں اس پھاٹک پر تھا جو سرنگ کی طرح بالکل گول تھا دفعتہ دروازہ کھلا اور میں اندر داخل ہو گیا۔ ایک طرف نہایت وسیع جھیل کھولتے ہوئے پانی کی تھی جس میں نئے مردے لاکر غوطہ دیے جا رہے تھے اور اس طرح گویا سب سے پہلے ان کی چربی نکالنے کی رسم پوری ہو رہی تھی۔ عفونت سے دماغ پھٹا جا رہا تھا اور چیخ و پکار سے کلیجہ دہلا جاتا تھا۔ داہنی نگاہ گئی تو بہت سے آہنی مکان نظر آئے جن کی دیواریں بلند تھیں لیکن شعلے ان کے اوپر سے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ ہر مکان کا ایک دروازہ تھا، لیکن بہت تنگ اور اس کے اندر سے بھی دہکتی ہوئی آگ اس طرح نظر آتی تھی جیسے انجن کی بھٹی دروازہ کھلنے کے بعد۔
سب سے پہلے مکان کے دروازہ پر آتشیں حروف میں ابلیس کے نام کا بورڈ لٹک رہا تھا۔ لیکن یہ مکان مکین سے خالی تھا کیونکہ قیامت کے دن تک یہ دنیا میں آزاد چھوڑ دیا گیا ہے۔ اندر صرف دھواں سا اٹھ رہا تھا اور آتش کدے ہنوز روشن نہیں کیے گئے تھے۔
اس کے پاس ہی دوسرے مکان پر فرعون کا نام درج تھا۔ یہ نام دیکھتے ہی تمام وہ جھگڑے سامنے آ گئے جو اس کے اور موسیٰ کے درمیان پیدا ہوئے تھے اور بیتابانہ اندر داخل ہو گیا دیکھا کہ ایک نہایت ہی مہیب شکل کا انسان بیتابانہ ادھر ادھر دوڑتا پھر رہا ہے تمام جسم میں اس کے سانپ بچھو لپٹے ہوئے ہیں اور وہ ان کے زہر کی تکلیف سے بے چین ہوکر قریب ہی ایک گڑھے میں جس کا پانی سرد معلوم ہوتا ہے کود پڑتا ہے لیکن اس کے کودتے ہی آگ لگ جاتی ہے اور پھر وہاں سے گھبرا کر باہر نکل آتا ہے۔ میں نے چاہا کہ کھڑے ہوکر کچھ حالات دریافت کروں لیکن اس کی بے تابی کسی ایک جگہ لمحہ بھر کے لیے بھی ٹھہرنے کی اجازت نہ دیتی تھی، اس لیے میں اس میں کامیاب نہ ہوا۔ سامنے اس کے عذاب کا مفصل پروگرام دیوار پر منقوش تھا اور اس کے دیکھنے سے معلوم ہوا کہ ہزار طرح کے عذابوں میں یہ صرف دوسرے قسم کا عذاب تھا جو ایک ہزار سال تک اسی طرح قائم رہےگا اس کے بعد تیسرے عذاب کا زمانہ آئےگا، پھر چوتھے کا یہاں تک کہ یہ ہزار قسم کے عذاب پورے ہو جائیں گے تو پھر دس لاکھ سال کا دوسرا پروگرام بنایا جائےگا۔
میں گھبرا کر یہاں سے نکلا تو قریب ہی قریب ہامان و شداد کے مکان نظر آئے لیکن میں اندر نہیں گیا اسی طرح قارون، نمرود سامری، ضحاک وغیرہ کی عذاب گاہوں سے گزر گیا، لیکن جب دفعتہ میری نگاہ کلیوپٹرا کے بورڈ پر پڑی تو ٹھہر گیا کیونکہ مجھے اس کی زیارت کا شوق تھا اور میں چاہتا تھا کہ دیکھوں اس میں وہ کونسی بات تھی جس نے مصر قدیم کو دیوانہ بنا رکھا تھا اندر گیا تو سب سے پہلے ایک آتشیں آبشار نظر آئی جو ایک سنگین مورت پر تیزی کے ساتھ گر رہی تھی۔ جس وقت اس آبشار کی دھار اس بت پر پڑتی تھی تو فوارہ کی شکل میں اس سے چنگاریاں بلند ہونے لگتی تھیں۔ یہ بت کیلو پیٹرا کا تھا، بلند و بالا، پرشباب، آشفتہ گیسو اور سر سے پاؤں تک بالکل عریاں و بے پردہ۔ میں حیران تھا کہ اگر کلیو پیٹرا کو پتھر بنا کر مبتلائے عذاب کیا گیا ہے تو اس کو خدا کے جمالیاتی ذوق کی رعایت کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ دفعتہ وہ بت شق ہوا اور اس کے اندر سے ایک عورت انسانی شکل و صورت اور خدوخال کی نمودار ہوئی۔ اس کے تمام جسم پر چھوٹے چھوٹے آبلہ موتی کی طرح جھلک رہے تھے، لبوں سے خون کے قطرے اور آنکھوں سے عنابی رنگ کے آنسو ڈھلک ڈھلک کر آبلوں پر رنگین خط ڈالتے ہوئے نیچے گر رہے تھے۔ گلے میں سفید انگاروں کا ایک ہار پڑا ہوا، آگ کی لپیٹ سے جنبش میں آکر جسم سے مس کرتا تھا اور ہر بار اس کے گورے جسم پر ایک سرخ نشان چھوڑ جاتا تھا۔ اس عالم میں بھی اس پر ایک شاہانہ جمال کا رنگ پیدا تھا اور قیصر و انظانی اگر اس حال میں بھی اسے دیکھ لیتے تو شاید اس سے دوبارہ مل جانے کے گناہ میں ایک عمر دوزخ اور بسر کرنے کے آمادہ ہو سکتے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ کسی طرح اس کی وہ نگاہیں دیکھوں جن سے مسحور ہوکر انسان خوشی سے جام زہر پی جایا کرتا تھا۔ اس کی لانبی لانبی پلکیں خون تو ضرور ٹپکاتی رہیں لیکن اس کی نگاہوں نے بلند ہو کر فضا کو مسموم نہیں کیا۔ تھوڑی دیر تک اسی حالت میں رہنے کے بعد وہ بت پھر شق ہوا اور اس کے اندر کلیو پیٹرا سمانے لگی۔ یہ غالباً اس کے لیے سب سے بڑا عذاب تھا۔ کیونکہ جتنا حصہ اس کے جسم کا پتھر میں تبدیل ہوتا جاتا تھا اسی قدر زیادہ اس کے چہرہ سے کرب و ملال کے آثار ظاہر ہوتے جاتے تھے، یہاں تک کہ جب گردن تک وہ پتھر کی ہوگئی تو ایک ایسی چیخ اس کے منہ سے نکلی جیسے سینکڑوں من بوجھ کے نیچے دب گئی ہو اور پھر دفعتہ اس کا چہر ہ بھی اسی سنگین حالت میں منتقل ہو گیا۔ دوزخ میں آنے کے بعد یہ پہلا منظر تھا جس نے بجائے غم و غصہ کے ملال کی کیفیت میرے اندر پیدا کی۔
یہاں سے نکلنے کے بعد مجھے نینوا و بابل کی اس مشہور رقاصہ کا مکان جس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ ہاروت و ماروت کو مبتلائے حسن کر کے اس نے اسم اعظم سیکھ لیا تھا اور آسمان پر زہرہ بن کر اڑ گئی تھی۔ یہاں آکر معلوم ہوا کہ آسمان پر اڑ جانا غلط خبر تھی بلکہ وہ قصر جہنم میں ہاروت و ماروت کے ساتھ پھینک دی گئی تھی، میں اس کے بھی دیکھنے کا شائق تھا اس لیے اندر گیا۔ یہاں میں نے نہایت ہی تاریک دھواں دیکھا، جس میں چنگاریاں جگنو کی طرح چمک رہی تھیں۔ دیر تک آنکھیں ملنے کے بعد اسی تاریکی میں دور ایک عورت نظر آئی جو انگاروں پر لوٹ رہی تھی اور جسم سے چربی اور خون کے جو قطرے ٹپک ٹپک کر آگ پر گرتے تھے تو سخت عفونت پیدا ہوتی تھی۔ میں یہاں زیادہ عرصہ تک نہیں ٹھہر سکا اور فوراً ناک بند کر کے باہر نکل آیا۔
میں یہاں سے نکل کر کہاں گیا اور کن کن لوگوں کو عذاب میں مبتلا پایا، اس کی تفصیل کسی آئندہ صحبت پر ملتوی رکھتے ہوئے صرف یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ جب اس طبقہ میں پہنچا جو صرف شاعروں کے لیے مخصوص تھا تو میر، مصحفی، ناسخ، آتش وغیرہ خدا معلوم کن کن شاعروں سے مل کر غالب کے پاس پہنچا، تو وہاں ایک عجیب و غریب لطیفہ انہوں نے سنایا کہ، جب میرے اعمال کا محاسبہ ہوا اور دوزخ کے قابل نہ سمجھ کر جنت کے ایک نہایت ہی حقیر حصہ میں لے جا کر ایک ایسے حجرہ میں بند کر دیا جہاں سوائے ایک خشک گملے کے اور کچھ نہ تھا تو مجھ سے دریافت کیا کہ تم اپنی بہت سی آرزوئیں نامکمل چھوڑ کر آئے ہو اور تمہارے بہت سے ناکردہ گناہوں کی حسرت ہنوز داد طلب پڑی ہوئی ہے اس لیے بتاؤ ان میں سے کوئی ایک آج پوری ہو سکتی ہے۔ میں نے فرط مسرت میں گھبرا کر کہہ دیا کہ ’’کوئی ایک‘‘ میرے منہ سے یہ نکلا ہی تھا کہ فردوس کے اس حجرہ کو اٹھا کر یہاں دوزخ میں ڈال دیا۔ میں حیران تھا کہ خدایا یہ میری کونسی آرزو تھی جو اس طرح پوری کی جا رہی ہے کہ ناگہاں سامنے دیوار پریہ مصرعہ نظر آیا کہ، دوزخ میں ڈال دے کوئی لے کر بہشت کواب میری سمجھ میں آیا کہ میرے اوپر اس مصرعہ کی وجہ سے یہ عذاب نازل کیا گیا ہے۔ خیر یہ تو کچھ ہوا سو ہوا، لیکن میری سمجھ میں آج تک یہ نہ آیا کہ اس شعر کا پہلا مصرعہ ’’طاعت میں نا رہے نہ مے وابگین کی لاگ‘‘ خدا کو سنایا گیا یا نہیں ظاہر ہے کہ وہاں تک یہ بات نہیں پہنچی ورنہ مجھے تو فردوس سے بھی بلند کوئی چیز ملنی چاہیے تھی نہ کہ ایسا حقیر و کثیف حجرہ جو اگر جہنم میں نہ ڈال دیا جاتا تو میں خود اس کے اندر آگ جلاکر اس کی گندگی و عفونت کو دور کرتا، میں سمجھتا ہوں کہ ان ظاہر پرست ملاؤں نے یہاں بھی اپنا اقتدار قائم کر دیا ہے اور افسوس کہ اب فردوس بھی رہنے کے قابل جگہ نہ رہی۔‘‘
میں نے یہ سن کر کہا کہ ’’آپ کا یہ خیال غالباً درست نہیں، کیونکہ میں نے تو آج ایسے ایسے مولویوں اور تہجد گزار بزرگوں کو دوزخ میں جلتے اور سسکتے دیکھا ہے کہ ان کی نسبت کبھی گمان بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ اعلی علیمین سے ایک قدم نیچے اتریں گے۔‘‘
یہ سن کر وہ بہت متحیر ہوئے اور بولے کہ پھر تو دوزخ بھی رہنے کے قابل نہ رہی۔ تمام عمران کے صلاح و تقرے کے وعظ نے مجھے دنیا میں چین نہ لینے دیا۔ فردوس کا حال معلوم نہیں کہ وہاں میں نے کچھ دیکھا نہیں۔ جہنم میں آیا تو معلوم ہوا کہ یہ عذاب یہاں بھی موجود ہے۔ لاحول ولاقوۃ کہو تم یہاں کس سلسلہ سے آئے ہو۔‘‘
میں نے عرض کیا کہ مجھے ابھی تک بالکل اس کا علم نہیں۔ فی الحال آزاد چھوڑ دیا گیا ہوں آئندہ دیکھئے کیا فیصلہ ہوتا ہے، ڈرتا ہوں کہ شاعروں کے سلسلہ میں کہیں جگہ نہ دی جائے کیونکہ ان پر جس قسم کے عذاب ہوتے میں نے دیکھا ہے وہ حد درجہ توہین آمیز ہے۔ ان کے ہر ہر جھوٹے شعر کی ایک تمثالی صورت عذاب کی صورت میں پیش کی جاتی ہے اور یہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ شاعر کس کس طرح جھوٹ بولتا ہے۔ معلوم نہیں آپ نے یہ شعر،
اسد خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے
کہا جو اس نے ذرا میرے پاؤں داب تو دے
کسی واقعہ کی بنا پر کہا ہے یا نہیں لیکن اگر یہ شعر جھوٹ کہا گیا ہے تو یقیناً یہ حرکت آپ کو یہاں کرنا پڑےگی اور ایک ہزار سال تک جو یہاں کی ریاضی کی اکائی ہے برابر آپ کو کسی نہایت ہی مردہ شکل والے کے پاؤں دابنا پڑیں گے۔ الغرض میں اس وقت سے کانپتا ہوں جب شعراء کے زمرہ میں مجھ پر عذاب نازل کیا جائے۔ ہر چند اس کا اندیشہ کم ہے کیونکہ اول تو میں نے شعر ہی بہت کم کہے ہیں اور جو چند کہے بھی ہیں تو وہ شعروں میں شمار ہونے کے قابل نہیں۔
وہ اس کا جواب دینا ہی چاہتے تھے کہ دفعتہ اپنے ہاتھوں سے اپنا منہ نوچنے لگے، سینہ زخمی کرنے لگے میں نے خیال کیا کہ یقیناًیہ بھی کوئی عذاب ہے اور دیر تک سوچنے کے بعد معلوم ہوا کہ یہ داد ہے ان کے اس شعر کی،
تابند نقاب کہ کشود ست غالب
رخسار بہ ناخن صلہ داریم و جگر ہم
میں یہ دیکھ کر یہاں سے دبے پاؤں باہر چلا گیا اور سوچتا رہا کہ دیکھئے اب کب تک غریب غالب اس حال میں مبتلا رہتا ہے۔
جہنم کے کتنے طبقات ہیں اس کا علم مجھے نہیں، لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ ہر گروہ و جماعت کے لیے ایک ایک حصہ مقرر ہے۔ مثلاً ایک حصہ جہنمی بادشاہوں کا ہے جن میں سے صرف فرعون کا حال میں نے لکھا، دوسرا حصہ حکماء اور علماء کا ہے جن میں سے ارسطو، افلاطون، فیثا غورث وغیرہ سینکڑوں کو مختلف عذاب میں میں نے مبتلا دیکھا، ایک حصہ مولویوں، متقیوں اور نمازیوں کا بھی ہے اور یہ دیکھ کر مجھے کتنی حیرت ہوئی کہ ان میں سے بعض ایسے ایسے اکابر بھی مبتلائے عذاب تھے جنہوں نے دنیا میں اپنی مستقل شریعتیں قائم کر رکھی تھیں، لیکن سب سے زیادہ ہنسی مجھے اس وقت آئی جب میں نے اپے محلہ کے ایک مولوی کو بھی یہاں دیکھا اور وہ مجھے دیکھ کر سخت شرمندہ ہوا۔ کیونکہ وہ مجھے ہمیشہ کافر اور جہنمی کہا کرتا تھا اور اپنے آپ کو رضوان کے بیٹے سے کم نہیں سمجھتا تھا۔ مجھے آزاد پھرتا دیکھ کر اسے بڑا رشک آیا، لیکن میں نے کوئی طعن آمیز فقرہ استعمال نہیں کیا، کیونکہ اس کی حالت خون اور پیپ پیتے پیتے بہت سقیم ہو گئی تھی اور اس کی زبان پر ببول کے کانٹوں کی طرح سینکڑوں خار پیدا ہو گئے تھے، جن کی وجہ سے وہ زبان کو اندر نہ لے جا سکتا تھا۔
جب بادشاہوں، امیروں، فلسفیوں، مولویوں، شاعروں اور مصنفوں کے طبقات سے گزر کر میں اس حصہ میں پہنچا جو عورتوں کے لیے مخصوص تھا تو مجھے سخت تکلیف ہوئی اور ایسا معلوم ہوا کہ کسی نے قطب مینار سے اٹھا کر مجھے نیچے پھینک دیا۔ میں چونک پڑا اور آنکھ کھلی تو دیکھا بیوی بری طرح رورہی ہیں بچے تڑپ رہے ہیں اور کچھ لوگ کفن لاکر میرے غسل کی تیاری میں مصروف ہیں۔ ٹھیک پانچ بجے شام کو ڈاکٹر صاحب نے میری دو گھنٹے کی زندگی کا اعلان کیا تھا اور ۷بجے شام کو دو گھنٹے بعد جو میری آنکھ کھلی تو میں زندہ تھا۔
مصنف:نیاز فتح پوری