کہانی کی کہانی:’’اس کہانی میں ابہام کے بہت سارے رنگ ہیں۔ کہانی حافظہ کی کمزوری کی شکایت سے شروع ہوتی ہے اور پھر اس علام تک پہنچتی ہے جو شہر کا بدمعاش تھا اور راوی کے والد کے بچپن کا دوست تھا۔ اس کے بیٹے کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کا بچپن بھیڑیوں کے دمیان گزرا ہے، وہ جنگلوں سے مختلف قسم کے جانور پکڑ کر بازار میں فروخت کرتا تھا اور ہمیشہ کالی کفنی پہنے رہتا تھا۔ اخیر عمر میں وہ بیٹھ نہیں سکتا تھا، صرف کھڑا رہ سکتا تھا یا لیٹ سکتا تھا۔ ایک دن بازار میں وہ کھڑا کھڑا گر گیا اور راوی اسے اپنے گھر لے آیا ،لیکن وہ اسے علام کا بیٹا سمجھے ہوا تھا۔ اخیر کے مکالموں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ علام ہی تھا جو اپنے بیٹے کی گمشدگی کے بعد سے اس حالت میں رہنے لگا ہے۔ جاتے وقت وہ راوی سے کہتا ہے،چھوٹے صاحب نہیں دکھائی دیئے، اب تو بڑے ہو گئے ہوں گے ماشاء اللہ۔‘‘
میں جانتا ہوں، پہلے بھی جانتا تھا کہ ایک عمر کو پہنچ کرعام آدمی کئی ہزار، یا شاید کئی لاکھ باتیں روزانہ بھولنے لگتا ہے لیکن کئی برس تک اس کو پتا نہیں چلتا کہ اس کے حافظے سے کچھ غائب ہو رہا ہے۔ اس کی یادوں کا ذخیرہ اتنا بڑا ہے کہ اس میں سے ہزاروں یا لاکھوں چیزوں کا لگاتار گم ہوتے رہنا ایک مدت تک اس ذخیرے میں کسی نقصان کا شبہ پیدا نہیں کرتا۔
اسی لئے اپنی ملازمت کی مدت ختم ہونے سے پہلے پہلے میں اس حقیقت کو محسوس کیے بغیر قبول کر چکا تھا کہ اب میں ہر روز بہت کچھ بھول رہا ہوں۔ پھر مجھ پر بےوقوفی کا سا دورہ پڑا اور میرا بہت سا وقت یہ یاد کرنے کی بے حاصل کوشش میں برباد ہونے لگا کہ میں کیا کیا بھول رہا ہوں۔ پھر میں کوشش کر کے اس دورے سے نکل گیا۔ لیکن بہت دن نہیں گزرے تھے کہ مجھ پر بےوقوفی کا اس سے بھی بڑا دورہ پڑا اور میں نے یہ یاد کرنے کی کوشش میں وقت برباد کرنا شروع کر دیا کہ کون کون سی چیزیں میرے حافظے سے غائب نہیں ہوئی ہیں۔ یہ کوشش بے حاصل نہیں تھی لیکن اس سے مجھ کو الجھن کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا تھا۔
اسی شغل کے زمانے میں میری ملازمت کی مدت پوری ہوئی اور میرے پاس برباد کرنے کے لئے وقت کی فراوانی ہو گئی۔ اس شغل میں بہت سا وقت برباد کر کے آخر میں نے سمجھ لیا کہ میری یادوں کے ذخیرے میں جو کچھ باقی ہے اس کا شمارممکن نہیں۔ مجھ کو بہت باتیں یاد آئیں لیکن ان میں غیرمعمولی باتیں بہت کم تھیں۔ مجھ پر اکتاہٹ کا دورہ پڑا اور وہ گنی چنی غیر معمولی باتیں بھی مجھ کو معمولی معلوم ہونے لگیں۔ آخر میں نے یہ شغل بھی ترک کر دیا۔
اس کے بعد میرا حافظہ اور بھی کمزور ہو گیا۔ اب مجھ کو یاد کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی کہ میں کیا کیا بھول رہا ہوں۔ لوگوں کے نام، صورتیں، گذرے ہوئے واقعوں کی تفصیلیں اور بہت سی چھوٹی بڑی باتیں جن کا یاد ہونا مجھے اچھی طرح یاد تھا، اب دماغ پر زور ڈالنے کے بعد بھی یاد نہ آتی تھیں۔ اسی زمانے میں یا اس کے کچھ بعد، مجھے ٹھیک یاد نہیں، میرا حافظہ غلطیاں بھی کرنے لگا۔ کبھی میں کسی دوست کو کسی دوسرے دوست کے نام سے پکارتا، کبھی زیادہ دن کے بعد کسی شناسا سے ملاقات ہوتی تو اسے کوئی اور شناسا سمجھ لیتا، کسی ایک واقعے کی تفصیلوں میں دوسرے واقعوں کی تفصیلیں شامل کر دیتا۔ اس سے کبھی کبھی دشواریاں پیدا ہوتیں، لیکن مجھے پریشانی نہیں ہوتی تھی۔ یہ نوبت آنے کا مجھے پہلے ہی سے علم تھا اور میں اس حقیقت کو بھی قبول کرنے پر تیار تھا۔
لیکن اس زمانے میں بھی اپنے بچپن اور لڑکپن کی بے شمار یادیں میرے حافظے میں تازہ تھیں۔ میرے گھر کے بچے مجھ سے اس زمانے کے قصے بڑے شوق سے سنتے تھے اور حیرت بھی کرتے تھے کہ مجھ کو اتنی پرانی باتیں اتنی اچھی طرح یاد ہیں۔ مجھے حیرت نہیں ہوتی تھی۔ میں جانتا تھا کہ بچپن کی یادیں آدمی کے دماغ میں اس وقت بھی محفوظ رہتی ہیں جب وہ ڈھلتی عمر میں دو دن پہلے تک کی باتیں بھولنے لگتا ہے۔
اسی زمانے میں ایک بار میں بدلتے ہوئے موسم میں بیمار پڑ گیا۔ کئی دن تک تیز بخار چڑھا رہا اور بچوں کو میرے پاس آنے سے روک دیا گیا۔ طبیعت ٹھیک ہونے کے بعد گھر والوں سے معلوم ہوا کہ میں بخار کی غفلت میں مسلسل بولتا رہتا ہوں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ میں آنکھیں بند کیے کیے اپنے بچپن کے وہی قصے زیادہ تفصیلوں کے ساتھ بیان کرتا رہتا تھا جو بچے مجھ سے سنا کرتے تھے۔ تب مجھ پر انکشاف ہوا کہ اب مجھ کو اپنے بچپن کی بھی کوئی بات یاد نہیں رہ گئی ہے۔
اس حقیقت کو قبول کرنے پر میں تیار نہیں تھا، اس لئے مجھ پر بےوقوفی کا تیسرا دورہ پڑا اورمیں نے بچوں سے وہی قصے سننا شروع کر دیے جو وہ مجھ سے سنا کرتے تھے۔ جب اس سے کچھ حاصل نہ ہوا تو میں نے ذہن پرزور دے کر اپنے بچپن کو یاد کرنے کی کوششیں کیں۔ اس سے بھی کچھ حاصل نہیں ہوا تو میں نے ایک اور تدبیر سوچی۔ بیماری سے پہلے کبھی کبھی میرے ذہن میں اچانک کوئی منظر سا چمکتا اور مجھ کو یہ سمجھنے میں دیر نہ لگتی کہ یہ میرے بچپن کی کس یاد کا منظر ہے۔ اب میں راتوں کو سونے کا وقت آنے سے پہلے ہی آنکھیں بند کر کے لیٹ جاتا اور جہاں تک ہو سکتا اپنے دماغ کو خیالوں سے خالی کر لیتا۔ پھر بند آنکھوں کے اندھیرے میں کچھ دیکھنے کی کوشش کرتا۔ زیادہ تر کوشش بےحاصل رہتی اور اسی میں مجھ کو نیند آ جاتی، لیکن کبھی کبھی اس اندھیرے میں کہیں پربہت دھندھلی روشنی کا دھبا سا بن جاتا اور اس میں لمحہ بھر کے لئے کوئی بےحرکت تصویر جھلک کر غائب ہو جاتی۔
مجھے یقین تھا کہ ان تصویروں کا تعلق میرے بچپن کی یادوں سے ہے، لیکن اس یقین کے سوا اس شغل سے بھی مجھے کچھ ہاتھ نہ آیا۔ دماغ پر زیادہ سے زیادہ زور دینے کے بعد بھی میری سمجھ میں نہ آتا کہ ان میں کس تصویر کا تعلق کس یاد سے ہے۔ تصویریں بھی عجب مبہم ہوتی تھیں۔ کبھی کسی گھنے درخت کے نیچے کھڑی ہوئی بیل گاڑی اور برساتی پانی میں اس کا عکس، کبھی ہاتھ میں چھوٹا سا نقارہ لیے ہوئے کوئی فقیر، کبھی قناتوں سے گھرے ہوئے کسی کچے صحن میں اینٹوں کے چولہوں پر چڑھی ہوئی تانبے کی قلعی دار دیگیں اور آدھے صحن میں پھیلی ہوئی دھوپ۔ طرح طرح کی مردانی اور زنانی پوشا کیں بہت ہوتی تھیں لیکن ان کے پہننے والوں کے چہرے نظر نہیں آتے تھے یا ان تک میری نظر پہنچنے سے پہلے ہی تصویر دھندھلی پڑ کرغائب ہو جاتی تھی۔ پرانی وضع کی یہ پوشاکیں زیادہ تراچھی تراش خراش اور شوخ رنگوں کی ہوتی تھیں۔ ان میں گلابی، فیروزی، زرد اور اودے رنگ بہت ہوتے تھے اور کالا رنگ کبھی نہیں ہوتا تھا۔
لیکن ایک رات میں نے دیکھا کہ ایک دھندھلی پڑتی ہوئی رنگین پوشاک پر سیاہ کپڑے کا پارچہ سا بن کر غائب ہو گیا۔ اس رات میں نے یہ منظر کئی مرتبہ دیکھا۔ اگلی رات وہ پارچہ دیر تک دکھائی دیا اور میں نے اسے پہچان لیا۔ یہ بھی ایک طرح کی پوشاک تھی جو کسی بے سلے کپڑے کے بیچ میں ڈیڑھ بالشت کا شگاف پھاڑ کر تیار کر لی جاتی تھی۔ شگاف میں سر ڈال کر کپڑے کے دونوں پلوں کوسینے اور پشت پر لٹکایا جاتا تھا۔ دونوں پہلوؤں سے کھلی ہوئی بے آستین کی یہ پوشاک زیادہ تر سفید رنگ کی ہوتی تھی۔ اسے دیکھ کر مردوں کا کفن یاد آتا تھا اوریہ کفنی کہلاتی تھی لیکن اسے زندہ لوگ پہنتے تھے اور یہ بہت کم دیکھنے میں آتی تھی۔
سیاہ کفنی غائب ہوئی اور پھر نظر آئی۔ اس بار اس میں پوشاکوں کے برخلاف کچھ جنبش بھی تھی، جیسے اس کے پہننے والے کا بدن تھرتھرا رہا ہو، پھر وہ دھندھلی پڑنے سے پہلے اچانک غائب ہو گئی اور اسی کے ساتھ میرے دماغ میں تھرتھراہٹ ہونے لگی۔ میں دیر تک کفنی کے دوبارہ ظاہر ہونے کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ پھرنظر نہیں آئی۔ کوئی اور پوشاک بھی نہیں دکھائی دی۔
اس رات کے بعد سے تصویروں کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ اب میری بند آنکھوں کے سامنے کوئی خالی دھبہ تک نہیں بنتا تھا۔ اس طرح جو تماشا میں نے کئی راتوں کو دیکھا تھا، وہ ختم ہو گیا اور میں نے پھر سے بستر پر صرف اس وقت لیٹنا شروع کر دیا جب نیند سے میری آنکھیں اپنے آپ بند ہونے لگتی تھیں۔
اب میرے پاس گھر پر وقت برباد کرنے کا کوئی طریقہ نہیں رہ گیا تھا، اس لئے میں نے پھر سے گھومنے پھرنے اور دوستوں میں بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے لئے گھر سے باہر نکلنا شروع کر دیا۔ پہلے یہ میرا قریب قریب روز کا دستور تھا لیکن حافظے کی غلطیاں بڑھ جانے کے بعد سے میں نے یہ سلسلہ ختم کر دیا تھا، اس لئے کہ ان غلطیوں نے کئی بار دوستوں کو مجھ سے آزردہ اور مجھ کو شناساؤں سے شرمندہ کرایا اور کبھی کبھی میری ہنسی بھی اڑوائی تھی، لیکن اب بیماری سے اٹھنے کے بعد جب میں ان کے ساتھ بیٹھتا تھا تو وہ خود اپنے حافظے کی بھی غلطیوں کے قصے سنانے لگتے تھے۔ ایک دن میں کئی دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا اور پہچان کی غلطیوں کا ذکر چھڑا ہوا تھا۔ قہقہے بھی لگ رہے تھے۔ اسی میں ایک دوست نے کہا، ’’مجھے تو کسی آشنا کو اجنبی سمجھ لینے پر اتنی پریشانی نہیں ہوتی۔ معافی وافی مانگ کر کام بنا لیتا ہوں لیکن جب اجنبی آدمی پر کسی آشنا کا دھوکا ہو جاتا ہے۔۔۔‘‘ اب یہ قصے چھڑ گئے۔ قریب قریب ہردوست نے اپنا کوئی قصہ سنایا۔ بعض کے قصے خاصے طویل اور واقعی دلچسپ تھے۔
’’ہاں، میرے ساتھ بھی اکثر ایسا ہونے لگا ہے۔‘‘ ایک دوست جو دیر سے چپ تھا، بولا، ’’لیکن ابھی پچھلے ہفتے ایک عجیب اتفاق ہوا۔‘‘ وہ کچھ رکا، پھر بولا، ’’مجھے پرانے بازار میں دور پر یہ ذات شریف نظر آئے۔‘‘ اس نے ایک دوست کی طرف اشارہ کیا، ’’مگر قریب پہنچ کر پتا چلا کوئی اور بزرگوار ہیں۔۔۔‘‘
’’آگے میں بتاتا ہوں۔‘‘ اس دوست نے کہا، ’’ادھران بزرگوار کو بھی تم پر اپنے کسی دوست کا دھوکا ہوا اور دیر تک تم دونوں۔۔۔‘‘
’’بات تو پوری ہونے دیا کرو۔‘‘ پہلا دوست بولا، ’’تو قریب پہنچ کر پتا چلا وہ تم نہیں تھے۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ سامنے سے اصلیت میں تم چلے آ رہو۔ گوشت پوست میں اور اسی منحوس چہرے کے ساتھ۔‘‘
ایک جھٹکے کے ساتھ میرے دماغ میں کوئی خانہ سا کھل گیا۔ مجھے یاد آیا کہ میرے ساتھ ایسا اتفاق بار بار ہو چکا ہے، اتنی بار کہ اسے اتفاق نہیں کہا جا سکتا، بلکہ ایسا اتفاق کبھی نہیں ہوا کہ مجھے کسی اجنبی پر اپنے جس شناسا کا دھوکہ ہوا ہو، کچھ دیربعد وہی شناسا نظر نہ آ گیا ہو۔ اگر اس میں زیادہ دیر لگتی تو مجھ کو بےچینی ہونے لگتی، لیکن آخر وہ شناسا نظر ضرور آ جاتا تھا۔ یہ میری زندگی کی سب سے غیرمعمولی بات تھی، جو مجھے اس زمانے میں یاد نہیں آتی تھی جب میں اپنی باقی ماندہ یادوں کا شمار کیا کرتا تھا۔ دوستوں میں اب بھی گفتگو چھڑی ہوئی تھی۔ کئی دوستوں کے ساتھ ایسا اتفاق پیش آیا تھا لیکن کسی کے ساتھ ایک مرتبہ سے زیادہ پیش نہیں آیا تھا۔
’’ہاں!‘‘ ان کے قصے سننے کے بعد میں بولا، ’’میرے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے۔‘‘ لیکن میں نے اپنا کوئی قصہ نہیں سنایا۔ مجھے کچھ افسوس بھی تھا کہ دوسروں کے ساتھ ایک بار بھی ایسا کیوں ہوا۔ اس کے بعد دوسری باتیں ہونے لگیں۔
اگلے ہفتے میں اپنے ساتھ کے کھیلے ہوئے ایک دوست کے ساتھ پرانے بازار میں جو پہلے بڑا بازار کہلاتا تھا، گھوم رہا تھا۔ کئی دن کے رندھے ہوئے برساتی موسم کے بعد تیز دھوپ نکلی تھی اور آسمان بالکل صاف تھا۔ ہم دونوں موسم کی اس تبدیلی، بلکہ اس تبدیلی سے پہلے کے موسم کی باتیں کر رہے تھے کہ دھوپ غائب ہونا شروع ہوئی اور دیکھتے دیکھتے فضا پہلے سے بھی زیادہ دھندھلا گئی۔ میرے دوست نے منھ بنا کرکہا، ’’سمجھ میں نہیں آتا بادل اچانک کہاں سے نکل پڑتے ہیں۔‘‘
’’نہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اچانک کہاں غائب ہو جاتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا۔ اسی وقت مجھے دور پر ایک داڑھی والا سیاہ پوش آدمی آتا دکھائی دیا۔ میرے دماغ میں پھر ایک خانہ سا کھلا اور میرے منہ سے نکلا، ’’علاّم!‘‘ پھر مجھے آپ ہی آپ ہنسی آ گئی۔
’’علاّم؟‘‘ دوست نے پوچھا۔
’’علام کو بھول گئے؟‘‘ میں نے بھی پوچھا، حالانکہ خود مجھ کو بھی وہ ابھی ابھی یاد آیا تھا۔
’’علاّم کو بھی کوئی بھول سکتا ہے؟‘‘ دوست بولا، ’’لیکن اس وقت وہ مرحوم و مغفور کہاں سے یاد آ گیا؟‘‘
آدمی ہمارے قریب آتا جا رہا تھا۔ چند قدم کا فاصلہ رہ گیا تو میں نے نظر بھرکر اسے دیکھا۔ اس کی صورت علام سے بالکل نہیں ملتی تھی۔ لمبے سیاہ پیرہن کی ڈھیلی ڈھیلی آستینیں قریب قریب کندھوں تک چڑھائے اور بڑی بڑی آنکھوں میں سرمہ لگائے ہوئے وہ آدمی کسی مزار کا مجاور سا معلوم ہوتا تھا۔ وہ ہمارے برابر سے ہو کر گذر گیا۔ میرا دوست کچھ کہہ رہا تھا۔ میں اس کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے پھر وہی بات کہی: ’’علام کو بھی کوئی بھول سکتا ہے؟‘‘
’’میں بھول چکا تھا۔‘‘ میں نے کہا۔
’’اور اس کا بیٹا؟ اسے بھی بھول گئے؟‘‘
’’اس کا بیٹا؟ اچھا وہ بھیڑیا؟ ہاں یاد آیا۔ اس نے تمہیں کاٹ کھایا تھا۔‘‘
’’بوٹی اتار لی تھی کم بخت نے۔ یہ دیکھو‘‘اس نے مجھے اپنی داہنی کلائی پر زخم کا نشان دکھایا۔ اس کے بعد ہم دونوں علام کی باتیں کرنے لگے۔ بہت سی باتیں مجھ کو خود یاد آ گئی تھیں، کچھ دوست نے یاد دلائیں۔ ایک بات جو میں نے اسے یاد دلائی یہ تھی کہ علام ہمیشہ کالے کپڑے کی کفنی پہنے رہتا تھا۔ وہ کبھی کبھی میرے باپ کے پاس آتا تھا اور اگر میں اسے پھاٹک کے پاس کھیلتا ملتا تو دو رہی سے پکار کر کہا تھا: ’’چھوٹے صاحب، ڈپٹی صاحب کو بول دیجئے علام بدمعاش خدمت میں حاضر ہے۔‘‘
میرے باپ کسی بھی قسم کے ڈپٹی نہیں تھے۔ وہ شہر کی سب سے بڑی درس گاہ میں پڑھاتے تھے۔ درس گاہ کی شان کے مطابق ان کا رہن سہن اعلیٰ سرکاری افسروں کا سا تھا اور وہ ہمیشہ ذاتی سواری پر گھر سے باہر نکلتے تھے۔ اس لئے ہمارے محلے والے، جو زیادہ تر معمولی حیثیت کے کم پڑھے ہوئے لوگ تھے، ان کو ڈپٹی صاحب کہتے تھے۔ میں انہیں علام کے آنے کی اطلاع کرتا تو وہ اس سے ملنے کے لئے برآمدے میں آ جاتے تھے اور کبھی برآمدے میں کھڑے کھڑے، کبھی اس کو باہری کمرے میں بٹھا کر، دیر دیر تک اس سے باتیں کرتے تھے۔ گھر میں بھی وہ اس کا ذکر کرتے اور بتاتے تھے کہ علام ان کے لڑکپن کا ساتھی ہے اور کچھ دن تک ان کا ہم جماعت بھی رہا ہے۔
انہی سے مجھ کویہ معلوم ہوا کہ وہ شہر کے ایک مشہور اور عزت دار مذہبی گھرانے کا لڑکا تھا اور پڑھنے میں تیز تھا لیکن بری صحبت میں پڑ گیا تھا۔ اس کی مسلسل نافرمانیوں اور سرکشی سے ہار کر باپ نے اسے گھر سے نکال دیا، پھر اس سے بے تعلقی کا اعلان کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے اس کی شورہ پشتی بڑھتی گئی اور اب وہ زیادہ تر شہر کے نامی بدمعاشوں کی ایک ٹولی کے ساتھ دیکھا جاتا تھا۔ یہ قانون شکن لوگ تھے۔ عورتیں بھگا کر لانا ان کا خاص کام تھا اور ان کی کارستانیوں کی لپیٹ میں آکر کبھی کبھی علام بھی حوالات میں بند کر دیا جاتا تھا۔ اس کی اطلاع وہ کسی ذریعے سے ہمارے یہاں بھجواتا اور میرے باپ اس کو ضمانت پر رہا کروا لیتے تھے۔ حوالات سے نکل کر وہ سیدھا ہمارے یہاں آتا اور مجھے پھاٹک پر کھیلتا دیکھ کر وہی ایک بات کہتا، ’’چھوٹے صاحب، ڈپٹی صاحب کو بول دیجئے علام بدمعاش خدمت میں حاضر ہے۔‘‘
لیکن وہ دیکھنے میں بدمعاش نظر نہیں آتا تھا۔ کم سے کم مجھ کو وہ صرف کوئی پراسرار آدمی معلوم ہوتا تھا۔ اس کی کالی کفنی، کالی تہمد اور گھنی گول سیاہ داڑھی اس کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں ہونے دیتی تھی اور اس ہیئت میں وہ کوئی بے ضرر آدمی معلوم ہو سکتا تھا، لیکن وہ اپنے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی کلہاڑی بھی رکھتا تھا۔ کلہاڑی کے پھل پر سیاہ کپڑے کا غلاف چڑھا رہتا تھا۔ پھل کو کھلا ہوا شاید کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اتنا سب جانتے تھے، یا سمجھتے تھے کہ کلہاڑی وہ جنگل کے جانوروں سے بچاؤ کے لئے پاس رکھتا ہے اور اسی سے مجھے پتا چلا کہ میرے شہر کے نواح میں جنگل بھی ہیں۔
ان جنگلوں سے پکڑ کر وہ طرح طرح کے جانور بڑے بازار میں لاتا تھا۔ شاید یہی اس کا پیشہ تھا۔ میں اکثر اسے دیکھتا تھا کہ وہ اپنی مقررہ جگہ پر کسی اونگھتے ہوئے جانور کے گلے یا کمر میں بندھی ہوئی رسی تھامے کھڑا ہے اور لوگ اس کے پاس بھیڑ لگائے ہوئے ہیں۔ میں بھی اس بھیڑ میں گھس جاتا اور ہر جانور کو حیرت سے دیکھتا تھا۔ ایک دن میں نے اس کے پاس بجو دیکھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ تازہ قبروں میں گھس کر مردوں کا گوشت کھاتا ہے اسی لئے سے قبر بجو بھی کہا جاتا تھا۔ ساہی بھی میں نے علام ہی کے پاس دیکھی اور اسے اپنے اندازے سے چھوٹا جانور پایا۔ اس وقت تک میں نے سڑک کنارے کے دوا فروشوں کے پاس ساہی کے صرف کانٹے دیکھے تھے جو جادو ٹونے میں استعمال کئے جاتے تھے۔ میں نے علام کے پاس اور بھی بہت جانور دیکھے جن میں بعض کے میں نے صرف نام سن رکھے تھے، بعض کے نام بھی نہیں سنے تھے اور بعض کے نام خود علام کو بھی نہیں معلوم تھے۔
ایک دن مجھے وہ اپنی مقررہ جگہ پر اس حالت میں کھڑا دکھائی دیا کہ اس کے کندھے پر رسی کا لچھا پڑا ہوا تھا جس کے دونوں سرے اس کے سینے پرجھول رہے تھے، چہرے اور ہاتھوں پر لمبی لمبی خراشیں تھیں، کفنی بھی کئی جگہ سے پھٹی ہوئی تھی اور وہ مزے لے لے کر بیان کر رہا تھا کہ جنگل کی ایک اندھیری کھوہ میں اسے کچھ آہٹ معلوم ہوئی اور وہ بےدھڑک کھوہ میں گھس گیا۔ اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک کوئی جانور اس پر جھپٹ پڑا اور اسے نوچ کھسوٹ کر کھوہ کے کسی اندرونی موڑ میں غائب ہو گیا۔
’’تو ہم نے بھی گھر کا راستہ لیا۔‘‘ اس نے اپنی کلہاڑی کو سہلاتے ہوئے کہا، ’’لیکن چلتے چلتے بول آئے کہ چچا، آج تو تم نے ہمارا مزاج پوچھ لیا لیکن ہم تو چھوڑیں گے نہیں۔ پھر آکر تمہارا مزاج بھی پوچھیں گے۔ ابھی چین سے اپنے بھٹ میں برا جو۔‘‘
اور واقعی اگلے ہفتے اس کے گرد ہمیشہ سے زیادہ مجمع اکٹھا تھا۔ مجمعے کی باتوں سے معلوم ہوا کہ علام اس جانور کو پکڑ کر لایا ہے۔ لوگ جانور کو پہچاننے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے مجمعے میں گھسنا چاہا لیکن مجھے روک دیا گیا، بلکہ اس دن کسی بھی بچے کو بھیڑ میں نہیں آنے دیا جا رہا تھا۔ میں ایک طرف کھڑا ہوا لوگوں کی باتوں سے اس جانور کی ہیئت کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا لیکن مجھے اس کے سوا کچھ نہیں معلوم ہو سکا کہ اس کے پنجے انوکھی وضع کے ہیں اور علام کے لائے ہوئے دوسرے جانوروں کی طرح وہ بھی اونگھ رہا ہے اور یہ کہ وہ مادہ ہے۔ اچانک مجھے پھٹی پھٹی چیخیں سنائی دیں اور لوگ ایک دوسرے پر گرنے لگے۔ اس بھگدڑ میں علام کی آواز بلند ہوئی، ’’کہلاڑی۔۔۔ ہماری کلہاڑی۔‘‘ میں اس بھگدڑ اوراس سے زیادہ ان حیوانی چیخوں سے ایسا ڈرا کہ وہاں سے سیدھا گھر بھاگ آیا۔
وہ شاید آخری موقع تھا جب علام کسی جانور کو جنگل سے بازار میں لایا تھا۔ اس کے بعد وہ مجھے لمبے لمبے وقفوں سے چار پانچ مرتبہ ادھر ادھر تنہا گھومتا نظر آیا۔ آخر آخر میں اس کی داڑھی چھدری اور بے وضع سی ہو گئی تھی اور وہ چلنے میں کچھ ڈگمگانے لگا تھا۔ اس نے ہمارے یہاں آنا بھی چھوڑ دیا تھا۔ بڑے بازار میں میری دلچسپی کے نئے نئے لوگ نظر آنے لگے تھے۔ اب مجھے علام کا خیال صرف اس وقت آتا تھا جب کبھی کبھی راہ چلتے مجھ کو اس کا بیٹا دکھائی دے جاتا۔ وہ جوان ہو چلا تھا اور بالکل باپ کی شبیہ نکال رہا تھا۔
یہ بیٹا میرا ہم عمر تھا۔ محلے کے ان لڑکوں میں کبھی کبھی وہ بھی شامل ہوتا تھا جن کے ساتھ میں بچپن میں کھیلا کرتا تھا لیکن ہماری ٹولی اس سے کھنچی کھنچی رہتی، اس لئے کہ اس کو بہت جلدی غصہ آ جاتا اور آپسی ہاتھاپائی میں وہ اپنے حریفوں کو کاٹ کھاتا تھا۔ ہم بچوں میں معلوم نہیں کس طرح یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ اس کے پیدا ہونے کے تھوڑے ہی دن بعد اسے بھیڑیے اٹھا لے گئے تھے۔ علام کئی برس تک اسے جنگل میں جا جا کر ڈھونڈھتا رہا اور آخر ایک دن اسے بھیڑیوں سے چھڑا لایا۔ ہماری ٹولی کے بعض بڑے لڑکوں نے یہاں تک بتایا، بلکہ اپنی آنکھ سے دیکھنے کا دعویٰ کیا کہ گھر لائے جانے کے بعد بھی بہت دن تک علام کا بیٹا چاروں ہاتھ پیروں پر چلتا اور کچے گوشت کے سوا کچھ نہیں کھاتا تھا اور ایک لڑکے نے بتایا کہ اسی زمانے میں علام کے مکان کے قریب بھیڑیے کے پنجوں کے نشان ملے اور اسی زمانے سے علام ہر وقت اپنے پاس کلہاڑی رکھنے لگا۔ ہم نے طے کر لیا کہ لڑکے بالکل سچ کہہ رہے ہیں اور علام کے بیٹے سے خوف کھانے لگے۔ لیکن میری اس سے کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ وہ خود ہی مجھ سے نہیں الجھتا تھا، شاید اس وجہ سے کہ کبھی کبھی وہ بھی اپنے باپ کے ساتھ ہمارے یہاں آتا تھا۔ کبھی اکیلا بھی آتا اور میرے باپ سے رو کرکہتا، ’’ابا بند ہو گئے۔‘‘
جوانی کا کچھ زمانہ گذرتے گذرتے اس کی داڑھی خوب گھنی اور گول ہو گئی تھی اور کبھی کبھار وہ بھی کالی کفنی پہننے لگا تھا۔ اس وقت اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ علام بوڑھے سے جوان ہو گیا ہے۔ لیکن اس سے میری صاحب سلامت بھی نہیں ہوتی تھی بلکہ وہ مجھے شاید پہچانتا بھی نہیں تھا اوربے تعلقی کے ساتھ میرے قریب سے گذر جاتا تھا۔ اس کے بعد شاید صرف ایک دوبار مجھے سرسری سا خیال آیا کہ اب علام کا بیٹا بھی کہیں نظر نہیں آتا۔
میں دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ میری یادداشت کچھ کچھ واپس آ گئی ہے اور میں اس زمانے کی کچھ دوسری باتیں یاد کرنے کی کوشش کرنے لگا جس میں مجھے برائے نام سی کامیابی بھی ہو رہی تھی۔ اتنے میں اچانک مجھے احساس ہوا کہ میرا دوست بازار کے کسی موڑ پر مجھ سے رخصت ہو چکا ہے۔ مجھے باہر نکلے ہوئے بہت دیر ہو گئی تھی۔ گھر والوں کی پریشانی کا خیال کر کے اور کچھ فضا کی بڑھتی ہوئی دھندھلاہٹ کی وجہ سے، جس میں مجھے دور کی چیز صاف نظر نہیں آتی تھی، میں تیز قدموں سے واپس ہوا۔ اسی میں اپنے مکان کے قریبی چوراہے سے کچھ آگے بڑھ کر مجھ کو سڑک کے دوسری طرف کھڑا ہوا وہ مجاور کا سا آدمی، یا یوں کہنا چاہئے کہ اس کا لباس، ایک مرتبہ پھردکھائی دیا اور ایک مرتبہ پھر مجھے اس پر علام کا شبہ ہوا اور ایک مرتبہ پھر مجھے آپ ہی آپ ہنسی آگئی۔ پھر مجھے علام کا بیٹا یاد آ گیا اور میری ہنسی آپ ہی آپ غائب ہو گئی۔
دوسرے دن وہ پھر مجھے اسی جگہ کھڑا دکھائی دیا۔ میں سڑ ک کے دوسرے کنارے پر تھا لیکن سورج کی روشنی میں اس کو میں نے ذرا غور سے دیکھا۔ یہ وہ سیاہ پوش، سرمہ لگی ہوئی آنکھوں والا آدمی نہیں تھا جسے میں نے کل بڑے بازار میں دیکھا تھا۔ اگلے کچھ دنوں میں کئی بار میں نے اس کو دیکھا کہ اپنی مقررہ جگہ پر خاموش کھڑا ہوا ہے اور آتے جاتے راہگیروں کو ایک نظر دیکھ لیتا ہے۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ کالی کفنی پہنے رہتا ہے۔ لیکن دو ایک بار میں اس کے قریب سے گذرا تو اس نے مجھے بےتعلقی کے ساتھ دیکھا، جس طرح دوسرے راہگیروں کو دیکھتا تھا۔
اسی زمانے میں میرے گھرکے ایک بچے نے مجھے بتایا کہ میں سڑک پر اپنے آپ سے باتیں کرتا ہوا چلتا ہوں۔ یہ بری خبر تھی جو گھر والوں نے شاید جان بوجھ کر مجھ سے چھپا رکھی تھی۔ مجھے خود سے باتیں کرنے والے لوگ سنکی اور سنکی سے بھی زیادہ بے عقل معلوم ہوتے تھے۔ میں نے باہر نکلنا کم کر دیا اور نکلتا بھی تو راستے بھر یہی غور کرتا چلتا کہ اپنے آپ سے باتیں تو نہیں کر رہا ہوں۔ اس میں اکثر مجھے اپنے آس پاس کی خبر نہیں رہتی تھی۔ ایک دن میں گھر واپس آ رہا تھا۔ چوراہے سے کچھ آگے بڑھ کر اچانک مجھے شبہ ہوا کہ ابھی ابھی میں نے اپنے آپ سے کچھ کہا ہے۔ ٹھٹک کر رک گیا اور سوچنے لگا کہ میں نے کیا کہا ہے۔ اتنے میں مجھے اپنی پشت پر ایک آواز سنائی دی: ’’سلامت رہیے، سلامت رہیے۔‘‘
پھر لکڑی کی کسی چیز کے گرنے کی سی آواز آئی اور میں نے مڑکر دیکھا۔ کفنی والا دونوں ہاتھوں سے مجھے سلام کرتا ہو ا میری طرف بڑھ رہا تھا، لیکن دو ہی قدم کے بعدوہ لڑکھڑایا اور ایسا معلوم ہوا کہ وہ ایک ساتھ کئی طرف جانا چاہ رہا ہے۔ پھروہ زمین پر گر گیا۔ کئی راہگیر اس کی طرف لپک پڑے۔ میں بھی لپکا۔ ہم نے مشکل سے اسے اٹھا کر کھڑا کیا۔ لیکن اس کا پورا بدن تھرتھرا رہا تھا اور اسی حالت میں اس نے جیسے اپنے آپ سے کہا، ’’میں انہیں جانتا ہوں۔ ان کومیرے یہاں پہنچا دیجیے۔‘‘ وہ لوگ مجھے جانتے تھے۔ کئی آدمیوں نے اسے قریب قریب لٹکا کر میرے یہاں پہنچایا اور میں نے اسے ایک کرسی پر بٹھوا دیا۔
ان لوگوں کے جانے کے بعد میں اس سے کہنے کے لئے کوئی بات سوچ رہا تھا کہ وہ بیٹھے بیٹھے اس طرح ایک طرف جھکنے لگا کہ کرسی کے دوپائے زمین سے اٹھ گئے۔ میں نے بڑھ کر اسے گرنے سے روکا۔ کچھ اس نے بھی کوشش کر کے خود کو سنبھالا اور بولا، ’’بیٹھ بھی نہیں پاتے ہیں ہم۔ بس کھڑے رہتے رہیں، یا لیٹ سکتے ہیں۔‘‘ کمرے میں لیٹنے کے لئے کوئی چیز نہیں تھی۔ میں سوچ رہا تھا کہ گھرکے اندر سے کوئی چارپائی منگوا لوں یا کمرے کے فرش ہی پر بچھونا کرا دوں۔ اتنی دیر میں وہ میرا سہارا لے کر اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے بدن کو سادھ کر بولا، ’’بس چھوڑ دیجیے۔‘‘ اس کا بدن آہستہ سے تھرتھرایا اور میں نے پوچھا، ’’گروگے تو نہیں؟‘‘
’’نہیں، کھڑے رہیں گے۔‘‘
’’لیٹنا چاہو تو بچھونا۔۔۔‘‘
’’نہیں، کھڑے رہیں گے۔‘‘
میں نے اسے دھیرے دھیرے کر کے چھوڑ دیا اور واقعی وہ اپنی جگہ پر جم کر کھڑا ہو گیا، پھر کچھ فخر کے لہجے میں بولا، ’’دن بھر کھڑے رہ سکتے ہیں اسی طرح۔‘‘ میری مشکل یہ تھی کہ مجھ کوچلتے رہنے میں اتنی تھکن نہیں ہوتی تھی جتنی کھڑے رہنے میں۔ لیکن میں نے دوسری کرسی پر بیٹھ جانے کی خواہش کو دبا دیا اور اس سے پوچھا، ’’یہ تکلیف کب سے ہے؟‘‘
’’برسیں ہو گئیں۔‘‘ اس نے بے توجہی سے جواب دیا۔ اس کے بعد دیر تک وہ آنکھیں سکیڑ سکیڑ کر پورے کمرے کو دیکھتا رہا۔ آخر بولا، ’’بدل گیا۔‘‘
’’زمانہ بھی تو بدل گیا۔‘‘ میں نے کہا، پھر پوچھا، ’’تمہارے باپ کیسے ہیں؟‘‘
’’ہمارے باپ؟ کب کے مرکھپ گئے۔‘‘
’’انہیں کیا ہوا تھا؟‘‘
’’بس بڑھاپا۔‘‘ اس نے پھر اسی بے توجہی کے ساتھ جواب دیا، ایک بار پھر پورے کمرے پر نظر دوڑائی اور بولا، ’’زیادہ بدل گیا۔ جب ہم یہاں آتے تھے۔۔۔‘‘ پھر اس نے بات بدلی اور بتایا،‘‘ دکھائی بھی کم دیتا ہے ہم کو۔‘‘ کیا یہ آدمی ہر حقیقت کو قبول کر چکا ہے؟ میں نے دل ہی دل میں کہا اور اس سے رشک سا محسوس کیا، پھر پوچھا، ’’تم وہاں۔۔۔ چوراہے کے پاس کس کے ساتھ آئے تھے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ اس نے چونک کر کہا، ’’وہ ہمیں لینے آ گئی ہوگی۔ پریشان ہو رہی ہوگی۔‘‘
’’کسی سے دکھوالوں؟‘‘ اسی وقت برآمدے میں آہٹ ہوئی اور محلے کے ایک لڑکے نے کھلے ہوئے دروازے سے کمرے میں جھانک کر کسی سے کہا، ’’یہیں ہیں۔ یہ کیا کھڑے ہیں۔‘‘ اس کے پیچھے ایک برقع پوش عورت تھی۔ لڑکا واپس چلا گیا اور وہ جھجھکتے جھجھکتے کمرے میں داخل ہوئی۔ میرے مہمان کو دیکھتے ہی اس نے ذرا تند لہجے میں کہا، ’’پریشان کرکے رکھ دیا ہم کو۔ اب سے گھر ہی میں رہا کرو۔‘‘
’’تو کیا ہوا۔‘‘ وہ اطمینان سے بولا، ’’یہ بھی اپنا ہی گھر ہے۔‘‘ پھر اس نے میری طرف اشارہ کیا، ’’ان کے بہت احسان ہیں ہم پر۔ تمہارے قصے میں بند ہوئے تھے جب بھی انہی نے ضمانت لی تھی۔‘‘ تب عورت نے مجھ کو سلام کیا۔ برآمدے میں پھ رآہٹ ہوئی۔ محلے کا لڑکا کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں پھل پر غلاف چڑھی ہوئی کلہاڑی تھی۔
’’یہ وہاں گر گئی تھی۔‘‘ اس نے کہا اور کلہاڑی عورت کے ہاتھ میں دے کر واپس چلا گیا۔ میں دیر تک خاموش کھڑا رہا۔ وہ بھی چپ چاپ بالکل سیدھا کھڑا تھا لیکن اس کی گردن جھکی ہوئی اور آنکھیں بند تھیں۔ میں نے اسے غور سے دیکھا، پھر مجھے عورت کی آواز سنائی دی۔
’’جگا دیجے۔ یہ اسی طرح سو جاتے ہیں، کھڑے کھڑے۔‘‘
مجھ کو تعجب نہیں ہوا۔ میرے محلے کا ایک پہاڑی پہرے دار بھی کھڑے کھڑے کچھ دیر کو سو جایا کرتا تھا اور کہتا تھا اس طرح کی دو تین جھپکیوں میں اس کی را ت بھر کی نیند پوری ہو جاتی ہے۔ میں نے عورت کی طرف دیکھا۔ اسے واپسی کی جلدی معلوم ہو رہی تھی، پھر بھی میں نے اس سے پوچھ لیا، ’’ان کا بیٹا آج کل کہاں ہے؟‘‘
’’اسی کا تو پھیر ہے سارا۔‘‘ عورت نے بتایا، ’’رات کو گھر میں سویا، سویرے بستر خالی تھا۔ وہ دن اور آج کا دن، اسی کو ڈھونڈھنے نکلتے ہیں۔ چل پاتے نہیں، ہم کسی طرح پکڑا کے باہر لے جاتے ہیں۔ کبھی اس سڑک پر، کبھی اس سڑک پر، گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔ جنگل جانے کی بھی ضد کرتے ہیں۔ بتائیے، جنگل اب ان کے لئے کہاں سے لائیں؟ کسی زمانے میں جنگل سے جانور لاتے تھے۔ ایک بار کسی جانور نے۔۔۔‘‘
وہ ابھی تک اونگھ رہا تھا لیکن اب چونکا اور عورت کو جھڑک کر بولا، ’’انہیں کیا بتا رہی ہو، کیا یہ جانتے نہیں؟‘‘ عورت خاموش ہوگئی۔ میں نے پوچھا، ’’یہ رہتے کہاں ہیں؟‘‘ عورت نے بتایا کہ اس کا مکان میرے ہی مکان کے پچھواڑے کی ایک گلی میں ہے اور آدھے سے زیادہ گر چکا ہے۔ مکان تک پہنچنے کا راستہ کئی گلیوں سے ہو کر تھا۔ عورت نے تفصیل سے پتا بتایا تھا مگر میں اسے یاد کرنے سے پہلے ہی بھول گیا۔ میرے مکان کی پشت پر تنگ اور نیم تاریک اور بعض بعض چھتے دارگلیوں کا جال سا بچھا ہوا تھا۔ میں نے ان گلیوں اور چھتوں میں سے بعض کے صرف نام سن رکھے تھے، بعض کے نام بھی نہیں سنے تھے۔ مجھے اپنے مرحوم باپ کا کہنا یاد آیا کہ ہمارے محلے کی گلیا ں آدمی کے دماغ کی طرح پیچ دار ہیں اور کوئی اجنبی اس بھول بھلیاں میں پھنس کر خود سے باہر نہیں نکل سکتا۔ میں ابھی سے اپنے آپ کواس بھول بھلیاں میں پھنسا ہوا، بلکہ اس سے باہر نکلنے کی کوشش میں ناکام رہتا ہوا، محسوس کر رہا تھا۔ اتنے میں عورت نے اس سے کہا، ’’اچھا اب چلتے ہوکہ نہیں؟ دیکھتے ہو بےچارے کب سے کھڑے ہوئے ہیں؟‘‘
’’مہربانی، مہربانی۔‘‘ وہ دونوں ہاتھوں سے مجھے سلام کرتا ہوا بولا اور عورت کا سہارا لے کر کمرے سے نکلنے لگا، پھر اچانک رک گیا اور ہاتھ ادھر ادھر بڑھا کر گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا، ’’کلہاڑی۔۔۔ ہماری کلہاڑی۔‘‘
’’یہ ہے، ہمارے پاس۔‘‘ عورت نے کہا اور کلہاڑی اسے پکڑا دی۔ پھاٹک تک میں دونوں کے ساتھ گیا۔ جاتے جاتے بھی وہ کچھ کہہ رہا تھا لیکن اس کی آواز گھٹی گھٹی سی تھی۔ شاید مجھے دعائیں بھی دے رہا تھا۔ مجھ کو صرف اتنا یاد ہے کہ پھاٹک پر پہنچ کر اس نے کہا تھا، ’’چھوٹے صاحب نہیں دکھائی دیے۔ اب تو بڑے ہو گئے ہوں گے ماشاء اللہ۔‘‘
مصنف:نیر مسعود