جنگ کے آخری زمانے میں جو کشمکش میدان جنگ پر ہوگی، اس کا اندازہ اس سے لگ سکتا ہے کہ ڈسٹرکٹ رکوٹنگ افسر یعنی ضلع کے سپاہی بھرتی کرنے والے افسر کے یہاں گشتی چٹھی آ گئی تھی کہ کم قد کے سپاہی بھی بھرتی کر لیے جائیں اور یہ واقعہ ہے کہ اس زمانہ میں اکثر ایسے سپاہی بھرتی کر کے بھیجے گئے کہ اگر کوئی آدمی ان کے ایک چانٹا مار دیتا تو غش کھا جاتے۔ یہ سپاہی مختلف چھاؤنیوں میں چھ ماہ کی ٹریننگ کے بعد لڑائی پر بھیج دیے جاتے۔
رنگروٹ اس طرح پر بھرتی ہوئے تھے کہ زمینداروں اور تعلقہ داروں سے حسب حیثیت رنگروٹ طلب کیے جاتے تھے مگر رنگروٹ ناپید تھے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ رنگروٹ سپلائی کرنے کے ٹھیکیدار پیدا ہو گئے تھے۔ جب رنگروٹ نہیں ملتے تھے اور زمیندار لوگ گورنمنٹ کی خوشنودی کے لیے رنگروٹ دینا چاہتے تھے تو وہ ٹھیکہ داروں کو آرڈر دیتے تھے اور یہ لوگ زمیندار کی طرف سے رنگروٹ داخل کر دیتے تھے۔
(۱)
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں دفتر میں بیٹھا ہوا روزانہ کا کام کر رہا تھا کہ ایک ٹھیکے دار ایک نوجوان کو لے کر آیا۔ اس نوجوان کی عمر کوئی اٹھارہ یا بیس برس کی ہوگی۔ چہرے سے شرافت عیاں تھی۔ معلوم ہوا کہ راجپوت ہے۔ گندمی رنگ تھا اور چھریرا مگر سپاہیانہ بدن تھا۔ ٹھیکے دار نے میرے کان میں چپکے سے کہا کہ یہ رنگروٹ فلاں زمیندار کی طرف سے ہے۔ شاید اس نوجوان لڑکے نے یہ سن لیا۔ اس نے مشکوک نظروں سےمیری طرف دیکھا، پھر ٹھیکے دار کی طرف دیکھا اور مجھ سے کہا، ’’میں از خود اپنی مرضی سے لڑائی پر جانے کے لیے آیا ہوں۔ میں کسی کی طرف سے نہیں جا رہا ہوں اور نہ میں روپے کے لالچ سے آیا ہوں اور نہ روپیہ لینا چاہتا ہوں۔ یہ مجھ کو چالیس روپے دیتے تھے اور کہتے تھے کہ بھرتی ہوتے وقت یہ کہہ دینا کہ فلاں زمیندار کی طرف سے ہم آئے ہیں، میں نے یہ نامنظور کر دیا اور آپ بھی نوٹ کر لیں کہ میں کسی کی طرف سے نہیں آیا اور اگر مجھ کو اس میں دھوکہ دیا جائےگا تو میں بھرتی نہیں ہوتا۔‘‘
یہ بھلا مجھے کس طرح منظور تھا کہ ایسے رنگروٹ کو ہاتھ سے نکل جانے دوں۔ میں نے اس کا اطمینان کرا دیا۔ خوانچہ والا پاؤ بھر مٹھائی کا دونہ لے کر آیا اور میں نے کہا کہ ایک دونہ مٹھائی کا اور لاؤ۔ لڑکے سے میں نے کہا کہ صبح کا وقت ہے تم مٹھائی کھا لو۔ کچھ تکلف کے بعد اس نے مٹھائی کھائی۔ دفتر ایک بڑی کوٹھی میں تھا، جس میں متعدد کمروں کے علاوہ زنان خانہ بھی تھا۔ بڑا بھاری صحن تھا اور زنان خانے کی دیوار کے اندر متعدد کمرے ملازمین وغیرہ کے لیے تھے۔ اس زنان خانہ میں اب رنگروٹ رکھے جاتے تھے تاکہ وہ باہر کے بھڑکانے والوں سے نہ مل سکیں اور علیحدہ رہیں۔ میں نے امرسنگھ کو (یہ نام اس نوجوان کا تھا) اندر بھجوا دیا اور جلد سے جلد اسپتال بھیج کر ڈاکٹری معائنہ کرا کر اس کے کاغذات مرتب کر لیے۔ ضلع کے رکروٹنگ افسر کو سپاہی بھرتی کرنے کی اجازت نہیں ہے، قلی البتہ بھرتی کر سکتا تھا۔ دوسرے روز صبح کو رکروٹنگ افسر آنے والا تھا جس کے روبرو بھرتی ہونے والے سپاہی پیش کیا کرتا تھا اور وہ بھرتی کر لیتا تھا، اور نشانی انگوٹھا یا دستخط فارم پر کر دیتا ہے تو وہ گورنمنٹ سے عہد کر لیتا ہے کہ میں ملازمت سے نہ بھاگوں گا اور جہاں گورنمنٹ بھیجے گی وہاں جاؤں گا اور اگر اس کے خلاف کروں تو سزا دی جائے۔
لہٰذا بعد دستخط کر دینے کے اگر کوئی سپاہی بھاگے تو فوج سے بھاگا کہلاتا ہے اور فوجی قانون کے مطابق اس کو گولی تک سے اڑا دیا جا سکتا ہے (حالانکہ یہ ہندوستان میں کہیں نہیں ہوا) لہٰذا ہم لوگ بھرتی کرنے والے رنگروٹ کو عوام سے اسی وقت تک بچائے رکھتے تھے جب تک وہ بھرتی نہ ہوا ہو۔ بھرتی کرتے وقت کم از کم میرے علم میں کوئی واقعہ ایسا نہیں جہاں رنگروٹوں کو دھوکا دیا گیا ہو۔ ان سے صاف صاف سب کہہ دیا جاتا تھا اور برضا و رغبت وہ دستخط کرتے تھے۔ میرے ضلع میں اور نیز دوسرے اضلاع میں جہاں تک میرا علم ہے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ معاہدے کے فارم کو بغیر سمجھائے ہوئے نشان انگوٹھا یا دستخط لیے ہوں۔ جنہوں نے ایسا کیا، غلط کیا اور گورنمنٹ کے حکم کے خلاف کیا۔
(۲)
شام کو رکروٹنگ افسر کا میرے نام تار گیا کہ رنگروٹ روکے رکھو۔ میں بجائے کل کے دو روز بعد آؤں گا۔ مجھے گونہ تشویش ہوئی کیونکہ جب رنگروٹ بہت سے جمع ہو جاتے تھے تو ان کے عزیز و رشتے دار آکر ان سے ملنا چاہتے تھے اور اکثر ان کو بہکاتے تھے، یا اکثر اپنے کسی عزیز کی تلاش کرنے آتے تھے، جو گھر سے لڑ کر چلا آیا ہو اور پھر اگر اس کو پاجاتے تو راضی کر کے واپس لے جاتے تھے۔ یہاں یہ دستور تھا کہ ہرکس و ناکس سےکہہ دیا جاتا تھا کہ یہاں تمہارا کوئی عزیز نہیں آیا، مگر بعض ایسے ہوتے تھے کہ تاک میں لگے رہتے اور موقع پا کر دیکھ لیتے۔
دوسرے روز صبح کو ایک ٹٹو پر بیٹھے ہوئے ایک زمیندار نما دیہاتی صاحب تشریف لائے۔ حالانکہ حلیہ سے بالکل گنوار معلوم ہوتے تھے، مگر شین قاف ضرورت سے زیادہ درست تھا۔ بہت جلد معلوم ہو گیا کہ یہ امر سنگھ کے باپ ہیں۔ زمیندار ہیں اور آنریری منصفی میں نامزد ہیں۔ امر سنگھ کی اپنی سوتیلی ماں سے ہمیشہ لڑائی رہتی ہے۔ امر سنگھ پڑھنا چاہتا ہے لیکن سوتیلی ماں پڑھنے نہیں دیتی تھی۔ اس کے گھر کی زمینداری تھوڑی سی تھی اور امر سنگھ کی شادی بڑے گھر میں ہوئی جہاں سوا امر سنگھ کی بیوی کے اور کوئی مالک نہیں۔ امرسنگھ کی بیوی کی بھی اپنے شوہر کی سوتیلی ماں سے نہیں بنتی۔ ابھی حال میں بڑی لڑائی ہوئی، جس میں زیادتی امر سنگھ کی بیوی کی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ امر سنگھ کی بیوی اپنے گھر چلی گئی اور امرسنگھ دوسرے ہی روز سے غائب ہے، شاید وہ لڑائی پر جانے کی نیت سے یہاں آیا ہوگا۔
یہ سب سن کر اس کا یہ جواب دیا گیا کہ امر سنگھ یا امر سنگھ کے حلیے کے کسی نوجوان سے لاعلمی ظاہر کی گئی، بلکہ یہ کہا گیا کہ اس عمر والا لیا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ ٹھاکر صاحب نے کہا کہ اگر آیا بھی ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ ہم راجپوت ہیں، لڑنا مرنا ہمارا کام ہے۔ اگر مجھ سے اجازت لے کر جاتا تو کیا میں منع کر دیتا۔ یہاں ان سے کہا گیا کہ بےشک آپ ایسے ہیں مگر کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ یہاں آیا ہوتا اور آپ ایسے جنگجو اور گورنمنٹ کے خیرخواہ سے اس امر کو خواہ مخواہ چھپایا جاتا۔ ٹھاکر صاحب بے نیل و مرام واپس چلے گئے۔ یہاں تو روز ہی کا دستور تھا کہ ایسے دو چار آدمی آتے تھے اور چلے جاتے تھے۔ کوئی نئی بات نہ تھی اور آئی گئی ہو گئی۔
(۳)
اتفاق کی بات ہے کہ شام ہی کو رکروٹنگ افسر صاحب آ گئے۔ ان کے روبرو علاوہ رنگروٹوں کے امر سنگھ بھی پیش ہوا اور بھرتی کر لیا گیا۔ وہ پڑھا لکھا تھا، آٹھویں جماعت تک گورنمنٹ اسکول میں پڑھ چکا تھا۔ اس نے معاہدہ کے فارم کو خود غور سے پڑھا اور دستخط کر دیے۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس کو معمولی سی حرارت ہو گئی۔ لہٰذا اور رنگروٹ تو جھانسی بھیج دیے گئے، لیکن وہ رہ گیا۔ شام کو سول سرجن صاحب کو بلا کر میں نے اس کو دکھایا، معمولی دوا دے کر چلے گئے، مگر یہ کہہ گئے کہ اسے دو ایک روز سفر نہ کرنا چاہیے۔
دوسرے دن کا ذکر ہے کہ صبح آٹھ بجے ہوں گے۔ میں دفتر میں بیٹھا تھا اور کچھ لوگ جو کاروبار سے آئے تھے، ان سے گفتگو کر رہا تھا کہ میری نظر بنگلے کے پھاٹک پر پڑی۔ ایک سیاہ فام ادھیڑ عمر کے گنوار کے ساتھ کوئی عورت کھڑی تھی۔ میں نے غور بھی نہ کیا کہ اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہی گنوار ایک بھرتی کرنے والے سپاہی سے کچھ باتیں کر رہا ہے۔ فوراً میں نے دریافت کیا کہ کیا ہے۔ سپاہی آگے آیا اور اس نے کہا کہ ’’یہ نائی ہے اور امر سنگھ کو پوچھتا ہے اور میں نے کہہ دیا کہ ہم نہیں جانتے کون امرسنگھ۔‘‘ یہ سن کر میں چپ ہو رہا کہ سپاہی اس کو ٹال دےگا اور کام میں لگ گیا۔ میں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ وہ کہاں گیا اور کدھر گیا۔ جب ذرا بھیڑ بھاڑ کم ہوئی اور میں تنہا رہ گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی نائی مع اس عورت کے چلا آ رہا ہے۔ وہ میرے سامنے ہاتھ۔
مصنف:مرزا عظیم بیگ چغتائی