میری عمر جب دو برس کی تھی تو کئی جگہ سے میری شادی کے پیغام آئے۔ منجملہ ان کے صرف ایک ایسا تھا جو ہم پلہ والی ریاست کے یہاں سے تھا لیکن لڑکی بہت بڑی تھی۔ در اصل اس کی عمر پندرہ سولہ برس کی تھی اور میں صرف دو برس کا بچہ۔ چونکہ یہ پیغام ایک ہم پلہ مہاراجہ کی راجکماری کا تھا اس لیے پتا جی مہاراجہ نے انکار تو نہیں کیا لیکن خاموش ہو گئے۔
جب میری عمر پانچ برس کی ہوئی تو اسی ریاست کے پاٹھوی کنور یعنی ولی عہد کی لڑکی کے لئے پتاجی مہاراجہ نے سلسلہ جنبانی کی۔ انہوں نے تو اپنی لڑکی کا پیغام دیا تھا اور یہاں سے ان کی پوتی کے لیے پیغام گیا۔ بہت گفت و شنید کے بعد انہوں نے اس شرط پر رضامندی ظاہر کی کہ پہلے لڑکی سے شادی کر لو، جب پوتی جوان ہو جائےگی تب اس کو بھی بیاہ دیں گے۔ گویا پوتی سے شادی کرنے کی شرط ہی یہ ٹھہری۔ چونکہ پتاجی مہاراجہ پوتی سے شادی ضروری خیال کرتے تھے، لہٰذا انہوں نے اس کو منظور کر لیا اور میری نسبت لڑکی اور پوتی یعنی پھوپی اور بھتیجی دونوں سے پختہ کر لی، کیونکہ یہ امر راجپوتوں میں کوئی معیوب نہیں۔
میری شادی سے پہلے ہی پتاجی مہاراجہ سورگباش ہو گئے۔ ان کی برسی کے بعد جب میں آٹھ برس کا تھا تو میری شادی ہوئی۔ میں اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ نہ میری کوئی بہن تھی اور نہ بھائی۔ باپ کی موت کے بعد گدی کا مالک ہوا۔ میں چونکہ نابالغ تھا، ریاست کا انتظام کونسل اور ایجنٹ کے ہاتھ میں تھا۔ میری شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی۔ دونوں ریاستوں کی طرف سے دل کھول کر روپیہ خرچ کیا گیا اور میں مہارانی کو بیاہ لایا۔ اس وقت میری عمر آٹھ برس کی تھی اور میری مہارانی کی عمر کوئی اکیس یا بائیس برس کی ہوگی۔
میں اودے رنگ کی بنارسی اچکن پہنے تھا اور شربتی رنگ کی کمخواب کا پاجامہ۔ پیازی رنگ کا صافہ تھا جس پر ہیروں کی کلغی لگی ہوئی تھی اور چاروں طرف بیش قیمت جواہرات ٹکے تھے۔ جوڑ جوڑ پر میرے ہیرے اور جواہرات کے زیور تھے اور گلے میں پچھتر لاکھ کی قیمت کا وہ مشہور سچے موتیوں کا ست لڑہ ہار تھا جو شہنشاہ جہانگیر نے میرے پردادا کو دیا تھا۔ یہ ہار میرے گھٹنے تک آتا تھا اور آج کل کے زمانے میں اس کی قیمت کا اندازہ لگانا ناممکن تھا۔
میں مہارانی کے سامنے کرسی پر بیٹھا تھا۔ مہارانی گلابی رنگ کے کپڑے پہنے تھیں اور گلابی ہی شال اوڑھے ہوئے تھیں۔ بجلی کی روشنی میں سارا کمرہ جگمگا رہا تھا۔ جتنے جھاڑ فانوس تھے سب روشن تھے اور دن سا ہو رہا تھا۔ میں چپکا بیٹھا اپنے بائیں ہاتھ سے داہنے ہاتھ کی انگلی کرید رہا تھا۔ کبھی کبھی نظر اٹھا کر مہارانی کی طرف دیکھ لیتا تھا جو گلابی کپڑوں میں اس طرح لپٹی بیٹھی تھیں کہ سوائے ان کے ہاتھ کی انگلیوں کے کچھ بھی نہ دکھائی دیتا تھا۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ صرف کمرے کی گھڑی کی ٹک ٹک کی آواز آ رہی تھی۔ مجھ کو نیند سی معلوم ہو رہی تھی کہ گھڑی نے بارہ بجائے۔ مہارانی جیسے کچھ چونک سی پڑیں۔ میں نے بھی گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر مہارانی کی طرف۔ انہوں نے اپنا دوشالہ اتار کر علیحدہ رکھ دیا۔ اپنا گھونگھٹ ذرا اوپر کو سرکایا۔ میں نے ایک جھلک ہی ان کے خوبصورت چہرہ کی دیکھی کہ وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ میرے پاؤں چھوکر اپنا ہاتھ تین مرتبہ ماتھے پر لگایا اور محبت سے ہاتھ پکڑ کر مسہری پر بٹھایا۔
صراحی سے شراب کا جام انڈیل کر میرے سامنے پیش کیا۔ میں نے ان کی طرف دیکھا پھر جام کی طرف۔ میں چپ تھا۔ ’’پی لو۔‘‘ انہوں نے آہستہ سے کہا، ’’پی لو یہ رسم ہے، تم کو پینا ہے۔‘‘ یہ کہہ کرمیرے پاس آکر ہاتھ سے شراب کا جام میرے منہ سے لگا دیا۔ دو ایک گھونٹ پئے۔ مجھ کو شراب سے بےحد نفرت تھی۔ انہوں نے دیکھا کہ میں نہیں پیتا تو پھر کہا، ’’پی لو۔‘‘ میں پی گیا تو انہوں نے کہا، ’’اب ایک جام مجھے دو۔‘‘ خود بھر کر انہوں نے میرے ہاتھ میں دیا اور کہا، ’’یہ مجھے دو۔‘‘ میں نے ان کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہی تھیں اور میں الو، کاٹھ کا الو بنا بیٹھا تھا۔ میں نے ہاتھ میں لے کر ان کی طرف بڑھایا تک نہیں۔ انہوں نے میرے پیر چھوکر خود ہاتھ سے لے لیا اور پی کر میرے پیر چھوئے اور جام رکھ دیا۔ میں نے نظر اٹھا کر پھر ان کو دیکھا۔ اب وہ بےحد گستاخی سے مسکرا رہی تھیں۔ مجھے دیکھ رہی تھیں اور میں شرما رہا تھا۔ اس وجہ سے وہ میرے اوپر ہنس رہی تھیں۔
’’تم چپ کیوں ہو؟‘‘ مہارانی نے ہنس کر کہا، ’’میں تمہاری کون ہوں؟ تم جانتے ہو؟‘‘ انہوں نے اسی طرح ہنستے ہوئے کہا، ’’بولو چپ کیوں ہو؟ جانتے ہو میں کون ہوں؟‘‘ جب انہوں نے بہت مجھے ہلایا تو میں نے سر کے اشارے سے کہا، ’’ہاں جانتا ہوں۔‘‘
’’پھر منہ سے بولو۔ بتاؤ کون ہوں۔۔۔ تمہاری مہارانی ہوں۔ کہو۔‘‘
’’مہارانی۔‘‘ میں نے آہستہ سے کہا۔ اب ان سے ضبط نہ ہو سکا اور ہنس پڑیں۔ میرے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہا، ’’تمہیں نیند آ رہی ہے۔ سو رہو۔‘‘ یہ کہہ کرمیرے زیورات ایک ایک کرکے اتارے اور اچکن وغیرہ اتار کر مجھ کو مسہری پر لٹا دیا۔ میں مسہری پر لیٹا تو مجھے چت لٹا کر ہاتھ پکڑ کر کہنے لگیں، ’’تم شرماتے کیوں ہو۔ میں تم کو گدگداتی ہوں۔۔۔‘‘ گدگدی سے مجھے ہنسنا پڑا۔ میری شرم انہوں نے اس طرح رخصت کردی اور پھر ہم دونوں دو بجے تک باتیں کرتے رہے۔
’’کیا پڑھتے ہو؟ کس سے پڑھتے ہو؟ کیا کھیلتے ہو اور کس کے ساتھ کھیلتے ہو؟ کھانا کس وقت کھاتے ہو۔‘‘ وغیرہ وغیرہ اور پھر نصیحتیں شروع ہوئیں کہ کیا کرنا چاہیے۔ پھر میں نے قصہ سنایا کہ کس طرح شادی سے کچھ ہی روز پہلے میں نے اپنی ہوائی بندوق سے ایک فاختہ ماری اور پھر میں نے اپنے ولایتی کھلونوں کا ذکر کیا اور اگر وہ منع نہ کر دیتیں تو میں ان کو ساتھ لے جاکر اپنی بندوق اور دوسری تمام چیزیں اسی وقت دکھا دیتا۔ انہوں نے کہا صبح دیکھیں گے۔
(۲)
بہت جلد مہارانی سے بے تکلفی اور انتہائی دوستی ہو گئی۔ وہ میرے تمام کھیلوں میں شریک ہوتیں۔ رئیسوں اور جاگیرداروں کے ہم عمر لڑکوں کی فوج کی فوج تھی اور مہارانی کے ساتھ عورتوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ قلعہ میں دن رات آنکھ مچولی کھیلی جاتی۔ خوب خوب سوانگ بھرے جاتے اور خوب کھیل تماشے ہوتے۔ مہارانی راجہ بنتی اور میں مہارانی بنتا، قلعے کے اندر ہی اندر تیر کمان کی جھوٹی لڑائیاں ہوتیں، فوج کشی ہوتی، قلعے فتح ہوتے۔ غرض مہارانی میرے تمام بچپنے کے کھیلوں میں وہ دلچسپی لیتیں کہ اب میں جو غور کرتا ہوں تو عقل کام نہیں کرتی کہ کس طرح ان لغویات میں ان کا جی لگتا ہوگا۔
مجھ کو مہارانی سے بہت جلد محبت ہو گئی۔ میں دوڑا دوڑا آتا تو ان پر پھاند پڑتا اور وہ مجھے گود میں اٹھا کر گھما کر چکر دے دیتیں، اور میں چلاتا کہ چھوڑ دو۔ وہ چھوڑ کر گداگدا کر مجھ کو بےحال کر دیتیں۔ غرض میں بیان نہیں کر سکتا کہ اس زمانے میں میرے ساتھ ان کے کیسے دلچسپ تعلقات تھے۔ بہت جلد قلعے سے باہر عالی شان محلوں میں وہ لے گئیں اور ہم دونوں تمام خاندان سے الگ رہنے لگے۔ اگر مجھ کو کوئی ضرورت ہوتی تو مہارانی سے کہتا۔ اگر کوئی شکایت یا تکلیف ہوتی تو مہارانی سے کہتا۔ ریاست کے منتظموں کو وہ بلا کر میرے بارے میں خاص ہدایت کرتیں اور تمام میرے ذاتی معاملات کے بارے میں دخل دے کر احکام نافذ کرتیں۔
قصہ مختصر وہ میری مہارانی اور میری گارجین یعنی نگہبان دونوں تھیں۔ مجھ کو بےحد چاہتی تھیں اور میرے دل میں بھی ان کی محبت ایسی بیٹھ گئی کہ بیان نہیں کر سکتا کہ کس طرح وہ میرا ہر دم خیال کرتی تھیں۔ جب میں باہر سے آتا تو وہ چونک سی پڑتیں۔ مارے خوشی کے ان کا خوبصورت چہرہ دمک اٹھتا اور پھول کی طرح کھل جاتیں۔ اگر ذرا دیر کے لیے بھی باہر جا کر واپس آؤں تو مہارانی کو اپنے لیے بے قرار اور بےچین پاتا تھا۔ بڑی خندہ پیشانی سے جب وہ کنول کے پھول کی طرح شگفتہ ہو کر میرے استقبال کو بڑھتیں تو اپنی سہیلیوں کے جھرمٹ میں وہ ایسی معلوم ہوتیں کہ جیسے چاند ہے اور اس کے ارد گرد تارے چمک رہے ہیں۔ مجھ سے ان کا قد اونچا تھا۔ عورتوں میں وہ کشیدہ قامت بلکہ قدرے بلند قامت تھیں، ان کے اعضا، ہاتھ پیر نہایت متناسب تھے۔ نزاکت کے بجائے ان میں تمام زنانہ حسن کے ساتھ قوت اور طاقت تھی۔ کیونکہ اونچے قد کے ساتھ خدا نے جہاں ان کو حسن دیا تھا وہاں مضبوط اور متناسب اعضا بھی دیے تھے۔
غرض راجپوتی حسن و تندرستی کا وہ بہترین نمونہ تھیں۔ ان کا صاف و شفاف اور حسین چہرہ چاند کی مانند ہمیشہ پرنور رہتا تھا۔ ان کا رنگ و روپ نہایت ہی گورا چٹا اور بےداغ تھا۔ ان کے بالوں پر ہمیشہ افشاں چھڑکی رہتی تھی۔ جو اکثر گر گر کر ان کے چہرے پر آجاتی اور غازہ کے ساتھ مل کر دھوپ میں ان کے سرخ و سپید چہرے پر آگ سی لگا دیتی اور وہ شعلہ حسن معلوم دیتیں۔ جوں جوں میری عمر بڑھتی گئی میری اور ان کی دوستی اور محبت زیادہ دلچسپ اور زیادہ دل پذیر ہوتی گئی۔ ان کا حسن زیادہ دلکش ہو گیا۔ میرے لیے ان کی جوانی زیادہ پرکیف ہو گئی۔ ان کی مقناطیسی کشش مجھ کو اپنی طرف زیادہ قوت سے کھینچنے لگی۔ ان کی آنکھوں کی چمک جو میرے لیے پہلے معمولی بات تھی، اب کچھ اور ہی چیز تھی۔ میں ان کو دیکھ کر مخمور سا ہو جاتا۔ وہ گویا مجھ میں سما جاتیں اور اس کیف و سرور کے عالم میں میں ایک طلسم ہوش ربا کے لاینحل مرحلوں میں الجھ کر رہ جاتا۔ جس کی لوح مجھ کو ڈھونڈے نہ ملتی۔
میری عمر پندرہ سولہ برس اور مہارانی کی عمر تیس سال کے قریب تھی اور یہ وہ زمانہ تھا کہ میں مہارانی کے عشق اور محبت میں دیوانہ ہو رہا تھا۔ اگر کوئی میری تمام دولت و حشمت اور ریاست مانگتا تو میں دے دیتا اور فقیر ہونا پسند کرتا، مگر مہارانی کا دل دکھانا پسند نہ کرتا۔ میری زندگی کا واحد مقصد اور مقصود وہی تھیں۔ میں ان کے ساتھ جس عیش و عشرت سے زندگی گزار رہا تھا، اس کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔ دن رات عیش سے گزرتے تھے۔ مہارانی کا گانا خدا کی پناہ، میرا کیا حال ہو جاتا تھا۔ مہارانی گانے میں اپنا ثانی نہ رکھتی تھیں۔ چاندنی رات جھیل کے کنارے سنگ مرمر کے عالی شان چوترے پر گانے بجانے کی محفلیں ہوتیں۔ مہارانی خوب خوب گاتیں۔ وہ گاتے گاتے جھومنے لگتیں اور میں بےتاب ہو جاتا، تڑپنے لگتا اور خواصیں بھر بھر کر جام پیش کرتیں اور مہارانی مجھے اپنے ہاتھ سے جام پہ جام پلاتیں۔ تازہ دم ہوکر وہ پھر نئے سرے سے کوئی نیا راگ گاتیں۔ ان کی پاٹ دار آواز جھیل کے آس پاس کی پہاڑیوں میں گنگناتی اور گونجتی چلی جاتی۔
رات کے بارہ بجے پھر سجی ہوئی کشتیوں میں بیٹھتے۔ کشتیاں چاندنی رات میں پانی کی سطح پر گانے اور ساز کے ساتھ ہلکورے لیتی ہوتیں اور مہارانی کی راگنی اور ان کی بلند اور سریلی آواز پانی کے ساتھ جھن جھناتی معلوم دیتی اور چشم زدن میں ساری جھیل کو نغموں سے معمور کر کے متلاطم کر دیتی۔ ایک تونشہ جوانی اور پھر سرپر عشق اور پھر دو آتشہ۔ یہ راگ اور یہ سماں اور پھر دل لگا ہوا میرا مہارانی سے اور مہارانی کا مجھ سے۔ بار بار میں چونک پڑتا کہ میں کہاں ہوں اور میرے گرد و پیش کیا ہو رہا ہے۔ کیا جنت اسی کو نہیں کہتے۔ خوش گوار زندگی ایک عالم خواب معلوم ہوتی تھی۔
میری اور مہارانی دونوں کی محبت اور عشق کا زمانہ شباب پر تھا۔ فکر و رنج تو بڑی چیزیں ہیں۔ ان کا خیال تک نہ تھا کہ مہارانی کی بھتیجی سے میری شادی کا زمانہ قریب آ گیا۔ اتنا قریب کہ ہم دونوں چونک پڑے، جیسے کوئی ایک دم خواب سے چونک پڑتا ہے۔ دنیا کو دیکھیے کہ سب کو یہی معلوم ہوتا تھا کہ اس شادی کا موقع اس سے بہتر کوئی نہیں۔ حالانکہ غور سے دیکھا جائے تو اس سے زیادہ بے موقع بات ہی ہونا ناممکن تھی اور پھر اگر سسرال والے یہ سوچتے اور کہتے تب بھی غنیمت تھا، مگر وہاں تو ریذیڈنٹ سے لے کر ریاست کے ادنی خدمت گار تک سبھی کی زبان پر تھا کہ ماشاء اللہ مہاراجہ صاحب بہادر جوان ہو گئے اور جونیئر مہارانی کو جلد بیاہ لانا چاہیے۔
جب شادی کا زمانہ قریب آیا تو اس کے ناگوار تذکرے سے بھی کان آشنا ہونے لگے۔ مہارانی سے میرے عشق کا یہ عالم تھا کہ بس ایک جان دو قالب تھے۔ اس شادی کا نام ہی دل میں خلش پیدا کرتا تھا۔ مہارانی کا ایک ہی بھائی تھا اور ایک ہی اس کی یہ لڑکی تھی۔ کسی نے کہا ہے پھوپی بھتیجی ایک ذات۔ چنانچہ مہارانی کو بھی اپنی بھتیجی سے بےحد محبت تھی۔ وہ خود اس ناگوار تذکرے کو چھیڑ کر میرے پہلو میں ایک خنجر سا بھونک دیتی تھیں۔
(۳)
ایک روز کا ذکر ہے کہ جھیل کے کنارے گانے بجانے کا پر لطف جلسہ ہو رہا تھا۔ خواصیں زریں ٹوپیاں پہنے گھومر کا ناچ ناچ رہی تھیں۔ مہارانی تال دیتی جاتی تھیں اور مسکرا مسکرا کر تالی کے ساتھ میری طرف دیکھتی جاتی تھیں۔ کبھی کبھی ناچ کے جھماکے کے ساتھ میری نظر گھومر کے ناچ کی طرف اٹھ جاتی تھی۔ ورنہ میں تو کہیں اس سے بہتر ناچ دیکھنے میں مشغول تھا۔ میں مہارانی کی آنکھوں کا رقص دیکھ رہا تھا، یا پھر اس محبت کا جوان کے چہرے پر رقص کر رہی تھی اور جس سے ان کے لبوں پر اس اس طرح لرزش پیدا ہوتی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ مسکراہٹ ان کے سارے چہرے پر رقص کر رہی ہے۔ گانے میں ناچ کے جھماکے کے ساتھ میں خود بھی تال دینے لگتا تھا۔ غرض ایک عجیب ہی رنگین عالم تھا۔ طبیعت پرکیف و پرسرور تھی کہ اس وجد کے عالم میں میری شادی کا تذکرہ چھڑ گیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ یہ محفل اس طرح درہم و برہم ہو جائےگی۔ اس بے محل تذکرے کی شروعات ایک سہرے سے ہوئی جو گایا جا رہا تھا۔ فوراً ہی سہرے کا ایک مصرع مجھ پر چسپاں کیا جانے لگا۔ نوبت بات چیت تک پہنچی۔
’’تم کیا چاہتی ہو؟‘‘ میں نے کہا۔
’’میں کیا چاہتی ہوں! میں یہ چاہتی ہوں کہ میری بھتیجی کو تم جلد بیاہ لاؤ۔‘‘ مہارانی نے نے بڑی خوشی سے کہا۔ میں ان کے چہرے کی طرف دیکھ کر ان کے دل کو ٹٹولنے کی کوشش کرنے لگا۔ ناچ برابر ہو رہا تھا اور خواصیں تیتریوں کی طرح نشہ میں مست اسی طرح پھرپھرا رہی تھیں اور ہم دونوں یہ باتیں کر رہے تھے۔ مجھ کو یہ شبہ ہوا کہ مہارانی کہیں میری محبت کا امتحان تو نہیں لے رہی ہیں۔ میں نے ان کے چہرے اور بشرے سے ان کے دل کے حالات معلوم کرنے کی بیکار کوشش کرنے کے بعد کہا، ’’میں تو اب تمہارا ہو چکا اور تمہاری بھتیجی یہاں آکر مجھ سے خوش نہیں رہےگی۔‘‘
مہارانی نے کہا، ’’یہ تمہارا خیال ہے۔ وہ تمہاری ہم عمر ہے، مجھ سے زیادہ، مجھ سے کہیں زیادہ حسین اور خوبصورت ہے۔ تمہارا اس کا جوڑ۔۔۔ بس یہی معلوم ہوتا ہے کہ تم دونوں کو خدا نے ایک دوسرے کے لیے پیدا کیا ہے۔ در اصل میرا تمہارا جوڑ نہیں۔ دنیا یہی کہتی ہے اور ٹھیک بھی کہتی ہے کیوں کہ تم مجھ سے عمر میں بہت۔۔۔ بہت چھوٹے ہو۔‘‘ میں پھر مہارانی کو گھورنے لگا کہ کہیں اپنے ان قدرتی جذبات کو جوان کی بھتیجی کے خلاف ان کے دل میں ہیں یا ہونا چاہئیں ان الفاظ میں چھپانے کی کوشش تو نہیں کر رہی ہیں۔ مجھے کچھ شبہ سا ہوا کہ میں نے چور پکڑ لیا، کیونکہ ایک جھپکی کی طرح ان کے روشن اور منور چہرے پر چشم زون کے لیے ایک سایہ سا آیا اور چلا گیا۔ جیسے کہ شاید غم کی بدلی کا سایہ تھا کہ ان کے دمکتے ہوئے چہرے پر جھپکی سی دے گیا۔ میں نے ایک لمبی سانس لے کر مہارنی سے کہا، ’’میرے دل میں کسی اور کے لیے قطعی جگہ نہیں، مجھ کو تم سے بے حد۔۔۔‘‘
’’میں جانتی ہوں۔‘‘ مہارانی نے بات کاٹ کر کہا، ’’میں جانتی ہوں کہ تمہیں مجھ سے بےحد محبت ہے اور مجھ کو تم سے بے حد محبت ہے۔ مگر مجھ میں اور تم میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ میرے دل میں بس ایک جگہ ہے اور وہ پر ہے لیکن تمہارے دل میں کئی کے لئے جگہ ہے۔ میں سینئر مہارانی ہوں اور تم مہاراجہ ہو اور تم کو دوسری شادی تو کرنا ہی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی جتنی چاہو کر سکتے ہو۔‘‘
’’میں نہیں کروں گا۔‘‘ میں نے تیز ہو کر کہا، ’’فرض کرو میں تمہاری بھتیجی سے شادی کرنے سے انکار کر دوں۔‘‘
ناچتی کودتی خواصیں ناچتی ناچتی دوسری ناؤ پر پہنچی تھیں۔ انہوں نے شاید دیکھ لیا تھا کہ تخلیے کی ضرورت ہے، کیونکہ ساز والیاں پیشتر ہی سے اشارہ کرکے اٹھ چکی تھیں، ہم دونوں اب اکیلے تھے۔ پوری راجپوتی آن بان سے مہارانی نے تن کر ذرا چیں بہ جبیں ہو کر کہا، ’’تم راجپوت ہو، تم خود مختار والی ریاست ہو، تم راجپوت ہو، تم۔۔۔ تم ایسا نہیں کر سکتے اور پھر۔۔۔ اور پھر وہ بھی ایسی صورت میں کہ میں تمہارے گھر میں ہوں۔ میں تمہاری چہیتی مہارانی ہوں، تم ایسا نہیں کر سکتے۔‘‘
’’مجھ کو سوائے تمہارے کسی سے محبت نہیں ہو سکتی۔‘‘ میں نے کہا۔
مہارانی نے میرے پیر چھو کر پیشانی میں ہاتھ لگاتے ہوئے گویا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، ’’تو کیا مضائقہ ہے۔ راجپوت مہاراجوں کی راجکماریاں ریاست کے تخت و تاج کا زیور ہوتی ہیں۔ ایک والی ریاست کی بیٹی یا ایک مہاراجہ کی بیٹی کو مہاراجہ ہی کے گھر جانا چاہیے۔ مہاراجہ گنے چنے ہیں اور راجکماریاں بہت زیادہ ہیں۔ میرے بھائی کی بیٹی کسی ایسے ویسے کو نہیں جا سکتی۔ محبت اور چیز ہے اور شادی اور چیز۔ تم کو اگر میری بھتیجی سے محبت نہیں تو نہ ہو، مجھ سے تو ہے۔ بس یہی محبت اس کی ضامن ہے کہ تم شادی ضرور کروگے۔ تم کو کرنا پڑےگی۔ تم قول ہارے ہو، تم غضب کرتے ہو! بھلا غور تو کرو کہ میری بھتیجی، ایک والی ریاست کی پوتی اور ایک والی ریاست کی لڑکی ایک والی ریاست کو نہ بیاہی جائے اور وہ بھی میری وجہ سے۔ ناممکن۔‘‘
میں نے اس لیکچر کو سنا اور سن کر مہارانی کو سر سے پیر تک دیکھ کر کہا، ’’تو کیا واقعی تم دل سے چاہتی ہو کہ میں تمہارے اوپر تمہاری بھتیجی کو سوت بنا کر لے آؤں؟ کیا واقعی تم یہ دل سے چاہتی ہو؟‘‘ مہارانی نے کچھ عجیب ہی پیرائے میں کہا، ’’بےشک میں دل سے چاہتی ہوں اور کیوں نہ چاہوں، میرے ایک ہی بھائی ہے اور ایک ہی بھتیجی ہے۔‘‘
’’مگر مجھ کو ذرہ بھر اس سے محبت نہ ہوگی۔‘‘
مسکرا کر مہارانی بولیں، ’’تم ابھی بچہ ہو۔ بچوں کی سی باتیں کرتے ہو۔ جب دو دل ملیں گے تو آخر کیوں نہ محبت ہوگی۔ خدا نخواستہ تم عورت تھوڑی ہو۔‘‘ میں نے برامان کر جھنجھلا کر کہا، ’’تم میری محبت کو ٹھکراتی ہو، کیا میں جھوٹا ہوں؟ کیا میں تم سے نقلی محبت کرتا ہوں؟‘‘
مہارانی نے دو مرتبہ میرے پیر چھوکر ہاتھ اپنی آنکھوں اور ماتھے پر لگایا اور دانتوں تلے زبان داب کر کہا، ’’ہرگز نہیں، ہرگز نہیں، تم در اصل سمجھتے نہیں۔ تمہاری محبت مجھ سے لڑکپن کی محبت ہے، تم نے تو مجھ سے محبت کا سبق سیکھا ہے۔ در اصل واقعہ یہ ہے کہ ایک عورت کو ایک نوعمر لڑکے کے ساتھ تو اول و آخر محبت ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ ایک لڑکے کا بھی یہی حال ہو اور پھر وہ بھی والی ریاست مہاراجہ جو ویسے بھی ایک دل نہیں رکھتے، ان کے دلوں میں؟‘‘
مہارانی نے عجیب انداز سے مسکراتے ہوئے کہا، ’’ان کے دلوں میں تو کبوتر کی کابک کے سے خانے ہوتے ہیں۔‘‘ مہارانی نے تو یہ مسکرا کر کہا اور ادھر میں تمام قصے چھوڑ کر ان کے حسین چہرے پر غازہ اور افشاں کی بھڑک کو دیکھ رہا تھا۔ ان کی مسکراہٹ نہ معلوم میرے لیے کیا تھی! ان کے چہرے کی دمک اور پھر ان کی آنکھوں کی غیر معمولی چمک ان کی بڑی بڑی پلکوں سے گویا چمک کے شرارے نکل رہے تھے۔ یہ سب سحر آفرینی! اور پھر یہ باتیں! میں بے تاب سا ہو گیا اور میں نے ان کا خوبصورت ہاتھ اٹھا کر بے ساختہ چوم لیا اور اس کو اپنے دل پر رکھ کر شکایت کے لہجے میں کہا، ’’اس دل میں تو بس ایک خانہ ہے اور اس میں صرف تم ہو۔‘‘
’’صرف میں؟‘‘ دبی ہوئی آواز سے مہارانی نے پلکیں جھپکا کر کہا۔
’’تم۔۔۔ تم۔۔۔‘‘ آہستہ سے میں نے لمبی لمبی سانسیں لیتے ہوئے کہا، ’’میری مہارانی۔۔۔ میرے دل۔۔۔ دل کی ملکہ۔۔۔ دل کی مہارانی۔‘‘ وہ آہستہ آہستہ میری طرف بےبس ہوکر جھکی چلی آئیں۔ نشۂ محبت میں ہم دونوں چور تھے۔ ان کو مجھ سے اور مجھ کو ان سے عشق تھا۔ میں نے ان کے خوبصورت بالوں کو انگلی سے چھیڑا کہ سنہری افشاں کی ان کے چہرے پر بارش سی ہو گئی، وہ مسکرا رہی تھیں۔ میں نے کہا کہ ایک جلسہ اور ہو، پھر سوئیں۔ مہارانی کی ایک ہنسی کی آواز سے ایک زندگی سی پیدا ہو گئی۔ چھما چھم اور جھنا جھن کی آواز ان کی تالی بجتے ہی ہونے لگی اور خواصوں کا گھومر کا ناچ پھر شروع ہو گیا۔
بہت جلد ناچ ختم کرکے مہارانی نے تنہا گانا شروع کیا۔ پہلی ہی لے پر مجھے ایک پھر یری سی آئی، پھر جو انہوں نے تان کھینچی اور عشقیہ گیت جو گائے تو مجھے ایسا معلوم ہونے لگا کہ جیسے ان کی پاٹ دار آواز ایک بڑا لکڑی چیرنے کا آرا ہے جو میرے دل کو چیرے ڈال رہا ہے۔ ان کی آواز میں ایک عجیب سوز اور ایک عجیب درد تھا۔ میں پھریری پر پھریری لے رہا تھا اور میری اس کیفیت کو دیکھ کر ان کی آواز کا جھناٹا اور بھی زیادہ رقت آمیز ہوتا جا رہا تھا۔ وہ ایسا گیت گا رہی تھیں جو دل پگھلائے دیتا تھا۔
ایک عورت اپنے شوہر کے ہجر میں بے کل تھی۔ میں خاموش ہو گیا اور سر پکڑ کر آنکھیں بند کر کے سننے لگا۔ ان کی آواز اور بھی رقت آمیز ہوگئی اور میرا دل نہ معلوم کیوں ایسا گھبرایا اور ایسی وحشت طاری ہوئی کہ ایک دم سے گھبرا کر میں نے ہاتھ سے ساز کو روک دیا۔ مہارانی بھی رک گئیں۔ میں نے اشارہ کیا اور تمام خواصیں سایہ کی طرح غائب ہو گئیں۔ میں نے مہارانی کی طرف دیکھا۔ ان کی پلکوں میں دو آنسو تھے۔ میرا دل مسل گیا اور میں نے کہا، ’’یہ کیا؟‘‘
’’کچھ نہیں۔‘‘ مہارانی نے کہا، ’’کچھ گیت ہی ایسا تھا۔‘‘
’’ہاں!‘‘ میں نے کہا، ’’میں بھی پریشان ہو گیا اور میرا دل گھبرا گیا۔ اب آرام کرو۔‘‘ میں نے انگڑائی لے کر چاروں طرف جھیل کے نظر ڈالی۔ چاندنی چھٹکی ہوئی تھی۔ دور تک ہیبت ناک پہاڑیوں کا سلسلہ چلا گیا تھا۔ ایک عجیب سناٹے کا عالم تھا۔ مجھ کو کچھ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے ساری جھیل اور پہاڑ گویا سارا سماں رونے کی آوازں سے معمور تھا جو ابھی ابھی خاموش ہوئی تھیں۔ میں نے دل میں تعجب کیا کہ گانا بھی عجیب جادو ہے۔ درد انگیز اور رقت آمیز گیت نے سارے سماں کو متاثر کر دیا۔
(۴)
مہارانی بڑی گرما گرمی سے اپنی بھتیجی کی شادی کی تیاریاں کر رہی تھیں۔ تمام انتظامات اور تمام احکام ان ہی کی مرضی کے مطابق جاری ہو رہے تھے۔ لاکھوں روپے کے زیورات اور کپڑے خریدے گئے اور لاکھوں روپے کا دوسرا سامان خریدا گیا اور محل کا ایک خاص حصہ سجایا گیا۔ انہیں انتظامات کے سلسلہ میں مہارانی اپنے بھائی کے ہاں بھی گئیں اور ادھر کے انتظامات میں بھی دخیل ہوئیں۔ غرض وہ اپنی بھتیجی کی شادی میں اس طرح منہمک تھیں کہ جیسے ایک پھوپی کو ہونا چاہیے تھا۔ میں ان انتظامات کو دیکھ کر رنجیدہ سا ہو جاتا۔ ان کے اس انہماک سے میرے دل پر چوٹ سی لگتی تھی۔ میں دراصل ان کی بھتیجی کی طرف سے اپنے دل میں مخالفت پاتا تھا، کیونکہ یہ مجھے گوارا نہ تھا کہ مہارانی کی محبت کا حصہ کسی دوسرے کو بھی ملے۔ میں یہ چاہتا تھا کہ مہارانی کسی سے دنیا میں سوائے میرے محبت ہی نہ کریں۔ میں چاہتا تھا کہ وہ میری محبت کی وجہ سے اپنی بھتیجی سے جلنے لگیں۔ کس قدر یہ احمقانہ خیال تھا، مگر اپنے دل کو کیا کروں۔ ان کا اس درجہ شادی میں حصہ لینا میرے لیے مصیبت تھا۔ میں ان سے کہتا تھا کہ ’’اگر تم کو بھی مجھ سے میری ہی سی محبت ہے تو تم کو اپنی بھتیجی سے جلنا چاہیے۔‘‘
وہ اس پر مسکراتیں اور کہتیں، ’’سچ کہتے ہو، تمہاری سی محبت مجھے نہیں، کیونکہ جتنا تم مجھ سے محبت کرتے ہو، اس سے میں زیادہ کرتی ہوں۔‘‘ اور پھر وہ عجیب اندراز سے مجھ کو دیکھتیں کہ جیسے ان کو میرے حال پر رحم آ رہا ہے اور وہ میرے ساتھ ہمدردی رکھتی ہوں۔ وہ ہنس کر کہہ دیتیں کہ ’’ابھی تم ناسمجھ ہو، تم کو اگر مجھ سے محبت ہے، تو آخر میری بھتیجی سے کیوں ڈرتے ہو؟‘‘
ایک روز کا ذکر ہے کہ رات کو کسی غیرمعمولی سرسراہٹ سے میری آنکھ کھل گئی۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے ایک سایہ تھا جو جاگنے کے بعد مگر آنکھ کھلنے سے پیشتر آنکھوں کے سامنے آیا اور چلا گیا۔ میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو کچھ نہ تھا۔ مہارانی غافل سو رہی تھیں۔ دوسرے روز بھی ایسا ہی ہوا اور تیسرے روز بھی ایسا ہی ہوا۔ غرض اکثر ایسا ہوتا اور پھر گھڑی پر نظر پڑتی تو وقت بھی پچھلے پہر کا ہوتا۔ جب کئی بار ایسا ہوا تو میں نے مہارانی سے کہا، مگر انہوں نے ٹال دیا کہ یونہی وہم ہو گیا ہے۔ میں سوچ میں تھا کہ آخر یہ معما از خود حل ہو گیا۔ رات کو ایک روز ایسا ہی ہوا اور میرے چہرے پر گرم گرم دو آنسو گرے۔ کیونکہ مہارانی میرے چہرے کو بڑے غور سے سر جھکائے دیکھ رہی تھیں۔ وہ کچھ گھبرا سی گئیں اور میری طرف سے منہ موڑ لیا اور اپنی مسہری پر لیٹ گئیں۔ میں نے فوراً ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا، ’’کیوں؟‘‘ میں نے ان کو گھسیٹ کر اپنے پاس بٹھا لیا کیونکہ میری طرف منہ کرنے سے گریز کر رہی تھیں۔ میں نے ان کا روتا چہرہ دیکھا۔ میرا دل کٹ گیا اور بے تاب ہو کر میں نے کہا، ’’میری جان۔‘‘
میں نے ان کو سینے سے لگا کر پوچھا، ’’کیوں روتی ہو؟ کیا ہوا؟‘‘ مگر وہ کچھ نہ بولیں اور رونے لگیں۔ میں حیران ہو گیا اور جوں جوں ان سے وجہ دریافت کرتا، وہ اور بھی بےقابو ہوئی جاتیں۔ حتی کہ ان کی ہچکی بندھ گئی اور مجھے ان کا سنبھالنا دشوار ہو گیا۔ میں ان سے بےحد اور بے انتہا محبت کرتا تھا اور میں ان کو کبھی روتے نہ دیکھ سکتا تھا۔ ان کی حالت زار کو دیکھ کر خود ضبط نہ کر سکا اور ان کو کلیجے سے لگا کر خود اس طرح رویا کہ بے حال ہوگیا۔ جب دونوں نے خوب آنسو بہالیے تو کم از کم مجھے تو معلوم ہی ہو گیا کہ ہم دونوں کیوں روئے ہیں، یعنی شادی کی وجہ سے۔ میں اب رو دھو کر خوش تھا کہ ان کو بھی میری طرح رنج ہے، مگر جب میں نے ان سے اس کا تذکرہ کیا تو انہوں نے تعجب سے کہا کہ ’’تمہارا خیال غلط ہے۔ کیا میں نہیں کہہ چکی کہ میری خوشی اسی میں ہے کہ میری بھتیجی کی شادی تم سے ہو جائے۔‘‘
میں سخت چکرایا اور پھر میں نے رونے کا سبب دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ ان کا رونا کسی خواب کی وجہ سے ہے۔ جب میں نے اصرار کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں روزانہ ایک وحشت انگیز اور پھر اسرار خواب دیکھتی ہوں۔ اس کے بعد تمہارے چہرے کو دیر تک دیکھتی ہوں، جس سے کچھ اطمینان سا ہو جاتا ہے۔ یہ خواب جو آج کل وہ دیکھ رہی تھیں، پہلی مرتبہ انہوں نے جب دیکھا تھا جب میں پانچ برس کا تھا اور میرے ساتھ ان کی شادی کی نسبت ہوئی تھی۔ اس کے بعد پھر سال میں دو تین مرتبہ یہی خواب دیکھا۔ پھر ہر مہینہ دکھائی دینے لگا اور پھر رفتہ رفتہ اب یہ نوبت پہنچی تھی کہ ہفتہ میں پانچ دن یا تو پورا کا پورا خواب، ورنہ اس کا کچھ حصہ ضرور دیکھنے میں آتا تھا۔
جب میں نے کہا کہ آخر وہ خواب کیا ہے، مجھے بتاؤ تو انہوں نے کہا، ’’بس اس کو نہ پوچھو تو بہتر ہے۔ میں اپنی زبان سے اس کو نہیں دہرا سکتی۔‘‘ انہوں نے ایک پھریری لے کر کہا، ’’جو میں اس خواب میں دیکھتی ہوں وہ بیان کرنے کا نہیں، اور میری زبان سے نہیں نکل سکتا۔‘‘ مگر جب میں نے بے حد اصرار کیا اور ان کو اپنی جان کی اور اپنی محبت کی قسم دلائی تو انہوں نے کہا، ’’اچھا بتاتی ہوں۔‘‘ مگر پھر یہی کہا کہ’’دیکھو نہ پوچھو۔ بہتری اسی میں ہے کہ مت پوچھو۔‘‘ مگر میں نہ مانا اور ان کو بےحد مجبور کیا تو انہوں نے اس طرح بیان کیا،
’’میں خواب میں یہ دیکھتی ہوں کہ جیسے کوئی تہوار کا دن ہے، اور میں درباری لباس پہنے بڑے تزک و احتشام سے زنانہ دربار والے کمرے میں بیٹھی ہوں۔ تمام زیورات سے لدی ہوئی ہوں۔ خواصیں اور باندیاں جواہر نگار کرسی کے ارد گرد کھڑی مورچھل جھل رہی یں۔ مجھ کو اپنے سنگار کا خاص خیال ہے، اور مشاطہ آئینہ لیے کرسی کی بغل میں کھڑی ہے۔ اگر کہیں ایک بال بھی ادھر سے ادھر ہو جاتا ہے تو فوراً مشاطہ آئینہ دکھاتی ہے، اگر کپڑے کا اندز ذرا بدلتا ہے تو مشاطہ درست کر دیتی ہے۔ میں بہت خوش ہوں اور تمہارے خیال میں دل ڈوبا ہوا ہے۔ ہر لمحہ تمہارا انتظار ہے اور تم آنے والے ہو رہے ہو۔ اگر کسی کے آنے کی آہٹ ہوتی ہے تو تمہارا شبہ ہو کر مارے خوشی کے دل بلیوں اچھلنے لگتا ہے۔ ایسے موقع پر کہ میں تمہارے لیے سراپا شوق اور انتظار بنی ہوں، ایک عجیب ہنگامہ برپا ہوتا ہے۔‘‘
مہارانی اتنا کہہ کر کچھ رک گئیں۔ ان کے چہرے پرکچھ وحشت سی تھی۔ وہ ایک پراسرار طریقہ اور ایک نہایت ہی معصومانہ انداز سے مجھے دیکھنے لگیں۔ میری طرف اور سرک آئیں۔ میں نے کہا، ’’پھر کیا ہوا؟‘‘ انہوں نے انے لبوں کو اپنی زبان سے تر کیا۔ وہ متوحش سی تھیں اور ان کے ہونٹ خشک ہو رہے تھے۔ ’’عین اس انتظار میں۔۔۔‘‘ مہارانی نے کہا، ’’عین اس انتظار میں کہ ایک خادمہ کے دور سے چیخنے چلانے کی آوازیں آتی ہیں، ایسی کہ بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ قبل اس کے کہ میں دریافت کروں کہ یہ کیا معاملہ ہے، ایک دم سے وہ ملازمہ چیختی چلاتی حواس باختہ دوڑی آتی ہے۔ اس کے گلے کی رگیں تنی ہوئی ہیں، ننگے سر، بال پریشان، چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ آنکھیں مارے خوف کے نکلی پڑتی ہیں۔ اس طرح بدحواس ہو کر وہ کمرے میں چیختی چلاتی آتی ہے کہ میں ایک دم سے پریشان ہو جاتی ہوں۔
کمرے میں اس کی آمد ایک ہلچل مچا دیتی ہے۔ وہ ایک دم سے میرے سامنے آکر گھٹنے ٹیک کر گڑگڑاتی ہے۔ کچھ کہنا چاہتی ہے، مگر مارے ڈر کے کانپ رہی ہے اور اس کی زبان سے کچھ الفاظ نہیں نکلتے۔ بڑی مشکل سے اس نے جدھر سے وہ آ رہی تھی، ادھر منہ موڑ کر کہا، ’’وہ۔۔۔ و۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ و۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ آ رہی ہے۔۔۔ وہ۔۔۔ ووو۔۔۔‘‘ میں پریشان ہوکر اس سے پوچھتی ہوں، ’’اری کم بخت وہ کون!‘‘ مگر اس کی زبان سے سوائے وہ۔۔۔ وہ وہ کے کچھ نکلتا نہیں۔ رہ رہ کر وہ جدھر سے آئی ہے دیکھتی ہے۔ اور ’’وہ وہ‘‘ سے زیادہ کہہ ہی نہیں سکتی۔ قبل اس کے کہ میں اس سے پوچھ سکوں، باہر سے چیخوں کی آوازیں آتی ہیں کہ مارے خوف کے سب دہل جاتے ہیں۔ ایک شور عظیم برپا ہوتا ہے، چیختے چلانے رونے پیٹنے اور دوڑنے بھاگنے کی آواز سے سارا محل گونج اٹھتا ہے۔
ایک چشم زدن میں قیامت کے سیلاب کی طرح چیختی چلاتی روتی پیٹتی سارے محل کی عورتیں، باندیاں، خواصیں، وغیرہ پریشان حال بھگدڑ کی طرح اس طرح بےمحابا ایک کے اوپر ایک گرتی پڑتی اس کمرہ میں داخل ہوتی ہیں کہ ایک دم سے اندھیرا سا ہو جاتا ہے۔ سارا اجلاس برہم ہوکر کمرے میں ابتری پھیل جاتی ہے۔ میں بدحواس ہوکر کھڑی ہو جاتی ہوں اور چیختی ہوں کہ تمہیں کوئی خبر کرے اور فوج بلوائی جائے۔ کیونکہ صاف ظاہر ہے کہ کوئی بلا اس کمرے کی طرف چلی آ رہی ہے۔ کیونکہ اس شور و شغب کا بھی یہی مفہوم ہے کہ ’’وہ آرہی ہے۔‘‘ اس شور و پکار میں کوئی میری نہیں سنتا کیونکہ سب کے حواس زائل ہیں کہ اسی دوران میں ایک خوفناک۔۔۔‘‘
مہارانی اتنا کہہ کر کچھ سہم سی گئیں۔ ان کا چہرہ جو ہمیشہ پرنور رہتا تھا، مٹی کے سے رنگ کا ہوگیا۔ وہ مجھ سے اور زیادہ قریب ہو گئیں۔ میں نے ان کو اور اپنے قریب کر کے کہا، ’’گھبراؤ نہیں، گھبراؤ نہیں۔‘‘ انہوں نے پھر کچھ دم لے کر اپنا سلسلہ کلام جاری کیا، ’’اسی دوران میں ایک خوفناک، نہایت ہی خوفناک، مگر مکر وہ قہقہے کی دل ہلادینے والی نفرت انگیز آواز اس زور سے گونجتی ہوئی آئی کہ سب اپنی اپنی جگہ سمٹ کر رہ گئے۔ مجھے خود کو ایسا معلوم ہوا کہ جیسے میرا خون میرے جسم میں ایک دم سے جم گیا۔ جو ابھی ابھی اس ہنگامے کے جوش و خروش کی وجہ سے گرم گرم سیسے کی طرح میری رگوں میں اس طرح دوڑ رہا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ رگوں کو توڑ کر کسی طرف سے نکل جائےگا۔
خوف۔۔۔ انتہائی خوف کی وجہ سے لرزے کے ساتھ ایک پھریری سی آئی۔ آنے والی بلا قریب تھی! آہٹ سن کر بدن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ کہاں تو سارا کمرہ شور و غل سے اڑا جا رہا تھا۔ کہاں یہ حال ہوا کہ ایک ناقابل بیان سناٹا چھا گیا۔ ایسی خاموشی کہ اگر سوئی بھی گرتی تو اس کی آواز بھی سنائی دے جاتی، اب یہ حال تھا کہ نہ دروازے کی طرف دیکھا جاتا تھا کہ جدھر سے یہ بلا آ رہی تھی، اور نہ اُدھر سے نظر ہٹاتے بنتی تھی۔ اتنے میں ایک پھنکار سی آئی اور دروازے پر سیاہی چھا گئی۔۔۔ وہ۔۔۔ بلا آ گئی، میرے سامنے آ گئی۔‘‘
مہارانی کا چہرہ خوف سے زرد پڑ گیا۔ حلق میں کانٹا سا پڑ گیا اور وہ میری طرف اس طرح متوحش ہوکر گھسیں کہ میں گھبرا گیا، میں نے انہیں کلیجے سے لگا لیا۔ ’’ڈرو نہیں، ڈرو نہیں، تم کیوں ڈرتی ہو؟‘‘ مہارانی آنکھیں بند کیے میری گود میں پڑی کانپ رہی تھیں۔ میں نے دلاسا دیا اور پھر پوچھا، ’’آخر وہ کیسی بلا تھی، مجھے بھی تو بتاؤ۔ کیا تھی، کیسی شکل تھی؟‘‘
مہارانی نے وحشت زدہ لہجہ میں کہا، ’’نہیں! نہیں! مجھ سے بیان نہیں کیا جاتا۔۔۔ مجھے بچاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مارے خوف کے ایک دم سے مجھ سے لپٹ گئیں۔ میں نے تکیے کے نیچے سے ریوالور نکال کر کہا، ’’ڈرو نہیں، ڈرو نہیں، تمہارے دشمن کے لیے ایک گولی ہی کافی ہے۔ کیا فوج بلا لوں، ٹیلی فون کر کے توپ خانہ بلوا لوں۔‘‘
’’نہیں، نہیں۔۔۔ میں صبح کہوں گی۔‘‘
میں نے گھڑی دیکھ کر کہا، ’’اب صبح میں دیر کیا ہے۔‘‘ میرے کہتے ہی کسی دور کی مسجد سے صبح کی اذان کی آواز آئی، ’’لو صبح ہوگئی!‘‘ میں نے کہا، ’’دیکھو اذان ہو رہی ہے، صبح ہے۔‘‘ یہ کہہ کر میں نے گھنٹی کا بٹن دبا دیا جو مسہری کے سرہانے لگا تھا۔ فوراً ایک ملازمہ دوڑی آئی اور میں نے کہا کہ ’’دیکھو کسی سوار کو جلدی دوڑاؤ کہ اس شخص کو جو اذان دے رہا ہے آج دس بجے دن کے ہمارے سامنے حاضر کرے۔‘‘
’’اس کو کیوں بلاتے ہو؟‘‘ مہارانی نے مجھ سے پوچھا۔
’’در اصل اس آواز سے میں عرصے سے آشنا تھا، خوب اس آواز کو پہچانتا تھا۔ نہ معلوم کیوں، اکثر خیال ہوتا تھا کہ اس آواز سے اتنا پرانا تعلق ہے۔ لاؤ اس آدمی کو تو دیکھوں، کئی مرتبہ ارادہ کر چکا تھا مگر رہ جاتا تھا۔ مہارانی سے میں نے وجہ بیان کی اور کہا کہ تم اپنا خواب بیان کرو۔‘‘
مہارانی کا ڈر جاتا رہا تھا، انہوں نے قدرے اطمینان سے سلسلہ کلام جاری کیا، ’’اس کی شکل۔۔۔ اس بلا کی شکل بہت خراب، خوفناک اور گھناؤنی تھی۔ اس کا چہرہ بالکل سیاہ تھا، اور سارے منہ پر پھنسیاں اور مہاسے تھے۔ یہ مہاسے نہایت ہی گندے اور گھناؤنے تھے۔ کوئی ان میں سے سرخ تھا اور کوئی زرد، بہت ہی قوی الجثہ مگر ایک ٹھگنی عورت تھی۔ ایک مختصر سی دھوتی باندھے تھی۔ اس کے شانوں پر بال بکھرے ہوئے تھے۔ بلا مبالغہ ببر شیرنی کی طرح اس کی گردن تھی اور ویسا ہی اس کا سر تھا مگر اس کا سارا چہرہ بےحد غلیظ، بےحد بھیانک، بےحد قابل نفرت۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں نارنگی کی طرح گول گول تھیں جو نکلی پڑتی تھیں اور ان میں بجائے سفیدی یا سیاہی کے زردی تھی، جن میں سے زرد شعاعیں نکلتی معلوم ہوتی تھیں۔ نہایت ہی منحوس اور بھیانک منہ تھا اور بڑی بدصورت ناک، اور ناک اور منہ دونوں سے گندگی بہہ رہی تھی۔
اس کی ٹھوڑی اس طرح متحرک تھی کہ جیسے جانور جگالی کرتا ہے۔ اس کے گلے کے موٹی موٹی رگیں اس کے چہرے کو اور بھی خوفناک کیے دیتی تھیں۔ اس نے کمرے میں داخل ہوتے ہی ایک پھنکار سی ماری۔ یہ اس کی تمسخر آمیز مسکراہٹ تھی اور میں نے دیکھا کہ اس کا جبڑا جیسے اس کے کانوں تک پھیل گیا۔ اس کے خوفناک دانت جوبڑے بڑے تھے، مع گندی اور غلیظ ڈاڑھوں کے دکھائی دے رہے تھے۔ اس نے داخل ہوتے ہی اپنی لکڑی زمین پر زور سے پٹک کر کہا، ’’مہارانی راماوتی کہاں ہے؟‘‘ میری طرف یہ کہہ کر دیکھا اور پھر تمسخرانہ انداز سے کہا، ’’راماوتی راماوتی۔‘‘ مہارانی رک کر میری طرف دیکھنے لگیں۔
میں نے کہا، ’’کیوں، کیا ہوا؟ کہو۔۔۔‘‘
’’میں نہیں کہہ سکتی۔‘‘
’’کیوں کہتی کیوں نہیں۔ کہو کوئی مضائقہ نہیں۔ آخر ایسی کون سی بات ہے، جو تم نہیں کہتیں۔‘‘ میں سمجھ گیا اور بڑے اصرار سے میں نے کہا، ’’یہی تو خواب ہے تم کہو، ضرور کہو۔‘‘
مہارانی نے رک رک کر کہا، ’’اس نے کہا مہارانی تو۔۔۔‘‘
مہارانی پھر رکیں تو میں نے پھر کہا، ’’کہو۔‘‘
’’تو رانڈ ہو گئی۔‘‘ مہارانی نے کہا، ’’اس نے مجھ سے کہا۔‘‘
’’چتا میں بیٹھ تو رانڈ ہو گئی!‘‘ یہ سنتے ہی میرا کلیجہ دھک سے ہو گیا اور چہرہ فق ہو گیا۔ اس نے پھر میری طرف اسی اندز سے دیکھ کر یہی منحوس الفاظ دہرائے اور اب میں نے دیکھا کہ اس کے گندے ہاتھ پنجہ کی طرح تھے۔ اس کے ناخن چیل کے پنجوں کی طرح تیز تھے۔‘‘
’’اتنے میں تم کو میں نے دور سے آتے دیکھا۔ تم وہ کپڑے پہنے ہوئے ہو جو پہن کر تم نے ابھی حال میں اپنی بڑی رنگین تصویر بنوائی ہے اور۔۔۔‘‘
میں نے بات کاٹ کر کہا، ’’یہ خواب تو تم میرے ان کپڑوں کے تیار ہونے سے پہلے سے دیکھ رہی ہو۔ کیا ہمیشہ سے وہی کپڑے دیکھ رہی ہو؟‘‘
مہارانی نے کہا، ’’ہاں رنگ وہی دیکھتی ہوں۔ سنہری بوٹے بھی ہیں اور زیور اور ہیرے جواہرات بھی وہی۔ غرض سب وہی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ممکن ہے کہ اچکن کے پھول اور بوٹے مجھے یاد نہ رہے ہوں اور میں نے غور نہ کیا ہو مگر جہاں تک میرا خیال ہے بوٹے بھی مجھ کو یاد ہیں اور پھر جب سے تصویر بن کر آئی ہے اور وہ کپڑے دیکھ لیے ہیں تب سے تو بالکل وہی دیکھتی ہوں۔‘‘
میں نے کہا، ’’اچھا تم اپنا قصہ پورا کرو۔‘‘ مہارانی نے سلسلہ شروع کیا، ’’تم مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے۔ تم بےحد خوب صورت معلوم ہو رہے تھے۔ تمہیں دیکھتے ہی میری ڈھارس بندھ گئی لیکن میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی، جب میں نے دیکھا کہ تم اس منحوس بلا سے بجائے لڑنے جھگڑنے کے اس سے باتیں کرنے لگے۔ وہ سر اور ٹھوڑی ہلا ہلا کر تم سے چپکے چپکے باتیں کر کے سر ہلا ہلا کر مسکرا رہی تھی۔ تم نے میری طرف دیکھا اور پھر اس کی طرف دیکھ کر مسکرا کر مجھ سے کہنے لگے، ’’تو بیوہ ہوگئی۔۔۔ تو رانڈ ہو گئی اور اب تجھ کو ستی ہونا چاہیے۔‘‘
میں تمہاری طرف متوجہ ہو کر جواب دیکھتی ہوں تو وہ بلا غائب! مگر تم نے پھر مجھ سے کہا کہ ’’تو بیوہ ہو گئی اور جلدی ستی ہو جا۔‘‘ اب میری حالت بھی عجیب ہے۔ بجائے اس کے کہ یوں کہو کہ تم میرے سرپر موجود ہو اور خدا تم کو ہزاری عمر دے، میں سہاگن ہوں، ستی کیوں ہوں۔ میں کچھ نہیں کہتی بلکہ تمہارے کہنے پر یقین کر لیتی ہوں۔ تم مجھ کو جلدی کی تاکید کرکے کمرے سے چلے جاتے ہو۔ اس طرح اس بدترین خواب کا پہلا سین ختم ہو جاتا ہے، جو کبھی تو مجھ کو پورا کا پورا دکھائی دیتا ہے اور کبھی مع بقیہ حصے کے اور کبھی کبھی اس کا کوئی خاص ٹکڑا۔‘‘
’’دوسرا حصہ بھی اس خواب کا بتاؤ۔‘‘ میں نے مہارانی سے کہا، ’’تمہارا خواب بھی عجیب ہے۔‘‘
مہارانی نے پھر اپنے خواب کا سلسلہ جاری کیا، ’’اس کے بعد میں کیا دیکھتی ہوں کہ ایک جنازہ تیار ہے۔ میں کپڑا ہٹا کر جو دیکھتی ہوں تو سر پیٹ لیتی ہوں، کیونکہ واقعی۔۔۔ واقعی میرے منہ میں خاک، تمہاری ہی لاش ہے! تم وہی کپڑے پہنے ہو۔ میں اس کو ڈھک دیتی ہوں کہ اتنے میں تم آ جاتے ہو۔ تعجب تو اس بات کا ہے کہ تم کو دیکھتی ہوں اور پھر نہیں کہتی کہ یہ معما کیا ہے۔ تم خود اس لاشے پر سے کپڑا ہٹا کر دیکھتے ہو۔ میں لاش کو دیکھتی ہوں اور پھر تم کو اور ذرہ بھر فرق نہیں پاتی۔ وہی صورت، وہی شکل، وہی زیورات، وہی ہیرے اور وہی موتی! ہو بہو وہی۔ ذرہ بھر فرق نہیں۔ تم پھر جنازہ ڈھک دیتے ہو۔ اس طرح دوسرا سین ختم ہو جاتا ہے۔‘‘
’’پھر تیسرا اور آخری سین اس منحوس خواب کا عجیب طرح شروع ہوتا ہے۔ ساون بھادوں والے بڑے کمرے میں، جس کی چھت اس طرح کھلی ہوئی ہے کہ روشنی اور ہوا تو آتی ہے مگر پانی نہیں آتا، وہی بڑا کمرہ جو بارہ دری کے طرز پر بنا ہے، اس کمرے میں لکڑیوں کی ایک چھوٹی سی چتا بنی ہوئی ہے اور اس پر میں اسی طرح سنگار کئے بیٹھی ہوں۔ لاشہ میری گود میں ہے۔ تعجب یہ کہ میرے سامنے کھڑے مجھے اس حال میں دیکھ رہے ہو اور مسکرا رہے ہو۔ تمہاری نظریں اور تمہارا بانکپن میرے کلیجے کو چھلنی کئے دیتا ہے۔ میں اس لاشے کو سینے سے لگائے تمہاری طرف اس محبت سے دیکھ رہی ہوں کہ ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ جیسے فنا ہو جاؤں گی۔ دیکھتے دیکھتے تم کو اپنی محبت کے جذبے سے بےقابو سی ہو جاتی ہوں۔ طبیعت میں ایک دم سے عجیب انتشاری کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ تمام جذبات سمٹ کر سینے میں ایک مرکز پر آجاتے ہیں اور میں محسوس کرتی ہوں کہ مجھ میں اب ضبط کی طاقت نہیں اور میرا سینہ جوش محبت اور جذبات کی ہیجانی کیفیت کے تلاطم سے پھٹا جاتا ہے کہ ایک دم سے مجھے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میرا دل پھٹ گیا۔
ایک چمک کے ساتھ میرے ’’ست‘‘ کے زور سے میرے سینے سے ایک آگ کا شعلہ خود بخود بھڑک کر اس زور سے نکلتا ہے کہ جس کی چمک مجھے خواب سے ایک دم بیدار کر دیتی ہے۔ اپنے کو بےدم پاتی ہوں اور تن بدن پسینے میں شرابور۔ اس وقت انتہائی درجے کی تھکن محسوس ہوتی ہے۔ دیر تک پڑی رہتی ہوں اور تمہاری محبت کا خیال دل پگھلائے دیتا ہے اور آہستہ سے اٹھتی ہوں کہ کہیں تم جاگ نہ اٹھو اور تمہارے خوبصورت چہرے کو دیکھتی ہوں اور دیکھتے ہی دیکھتے جب تم کلبلاتے ہو، جھٹ سے اپنے پلنگ پر اس طرح لیٹ جاتی ہوں کہ آہٹ تک نہیں ہوتی۔ آج تمہاری صورت دیکھتے دیکھتے بے اختیاری کے عالم میں دو آنسو تمہارے رخسار پر ٹپک پڑے اور تم جاگ اٹھے۔‘‘
میں اس خواب سے متاثر ہوا مگر میں نے ہنس کر مہارانی سے کہا، ’’تم بھی وہی ہو۔ ایسے ایسے نہ معلوم کتنے خواب آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ بڑی تو ہم پرست ہو۔‘‘
’’مگر ایک ہی خواب! اور وہ بھی برابر اسی طرح دکھائی دے تو طبیعت کیسے پریشان نہ ہو اور ایک بات سنو۔ آخر یہ کیا وجہ کہ تم جب کبھی بھی دکھائی دیے یعنی شادی سے پیشتر جب کہ تم بچہ تھے، جب بھی اسی لباس میں دکھائی دیے۔ شکل کا تو اچھی طرح خیال نہیں مگر ہاں عمر تمہاری ہمیشہ اتنی ہی دکھائی دی۔ اس خواب میں ضرور کوئی بھید ہے۔۔۔‘‘ مہارانی نے متفکر ہو کر یہ الفاظ کہے۔
میں نے کہا، ’’تو دیوانی ہوئی ہے۔ لا میں تیرے خواب کی تعبیر کروں۔‘‘
مہارانی نے کہا، ’’بتاؤ!‘‘
میں نے کہا، ’’یہ کہ تم خوب ہنسوگی۔‘‘
’’تم ہر بات میں مذاق کو دخل دیتے ہو۔‘‘
’’میں سچ کہتا ہوں کہ اس کی تعبیر یہی ہے کہ تم ہنسوگی، میں سچا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر جو میں نے مہارانی کو پکڑ کر گدگدانا شروع کیا تو چونکہ ان کو گدگدی بہت محسوس ہوتی تھی، وہ مچھلی کی طرح تڑپنے لگیں اور میں نے ان کو ہنساتے ہنساتے بے حال کر دیا۔
دن کے دس بجے مؤذن حاضر کیا گیا۔ غریب آدمی تھا۔ میں نے اس سے کہا کہ ایک اذان رات کے دو بجے دے دیا کرے، میں تنخواہ دوں گا مگر اس نے انکار کر دیا۔ اس پر میں نے کہا کہ اول وقت جس قدر جلدی ممکن ہو اذان دیا کرو۔ وہ کہنے لگا کہ میں تو اول وقت ہی دیتا ہوں۔ میں نے اس کو وقت دیکھنے کے لیے ایک گھڑی دی اور پچاس روپیہ انعام دے کر رخصت کیا۔ در اصل اذان صبح کا پیغام ہوتا ہے اور اس اذان سے مہارانی کے دل کو آج عجیب تقویت سی پہنچی تھی۔ اس وجہ سے میں نے کہا کہ اذان جلدی ہو جائے تو بہتر ہے۔
مؤذن چلا گیا اور اس کا خیال بھی نہ رہا۔ سوائے اس روز کے جس روز کے مہارانی خواب دیکھتیں تو سختی سے ان کو اور مجھ کو اذان کا اتنظار ہوتا۔ مہارانی کوئی چار مرتبہ یہ خواب ایک ماہ کے عرصے میں اور دیکھ چکی تھیں کہ ایک روز رات کو خواب کے وقت گھبرا کر اٹھیں اور مجھے ایک دم سے جگا کر کہا، ’’یہ تم نے کیا غضب کیا!‘‘
میں نے ان کے متوحش چہرہ کو دیکھا، اور مسکرا کر کہا، ’’پاگل ہو گئی ہو، کیا غضب کیا اور کیسا غضب؟‘‘
’’تم نے مؤذن کو مروا ڈالا!‘‘
میں نے کہا، ’’نہ معلوم تم کیا بکتی ہو۔ آخر بتاؤ تو سہی آج کیا تماشا دیکھا۔‘‘ اس پر انہوں نے آج نرالا خواب سنایا۔ وہ یہ کہ ’’اسی خواب والی بلا نے مؤذن کی مجھ سے شکایت کی اور میں نے اس موذی بلا سے کہا کہ اچھا ابھی جا کر اس کو مار ڈالو۔‘‘
میں نے ایک قہقہہ لگایا اور کہا رانی سے کہا کہ ’’آخر تم کو یہ کیا ہو گیا ہے۔‘‘ اس پر انہوں نے عجیب انداز سے کہا کہ ’’میں جھوٹ نہیں کہتی۔ یہ سب خواب۔۔۔ میں سچ کہتی ہوں یہ خواب ضرور سچا ہے۔ تم دیکھ لینا آج اذان کی آواز نہ آئےگی۔‘‘
صبح تک مجھ کو اور مہارانی کو اذان کی آواز کا انتظار رہا۔ جوں جوں وقت گزرتا جاتا تھا مہارانی کی پریشانی بڑھتی جاتی تھی۔ میرے تعجب کی انتہا نہ رہی۔ جب دن نکل آیا اور اذان ندارد! میں نے دن نکلتے ہی سوار دوڑایا کہ معلوم کرے کیوں آج مؤذن نے اذان نہ دی۔ معلوم ہوا کہ وہ رات کو مر گیا۔ اس کی موت اسی وقت واقع ہوئی جب مہارانی نے مجھ سے کہا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ پریشان ہوکر اٹھا۔ اپنی بیوی کو بلایا اور بہت جلد کسی نامعلوم تکلیف کی وجہ سے مر گیا۔ اب میں عجیب چکر میں تھا اور میں نے فوراً سول سرجن کو بلا کر حکم دیا کہ اس کی لاش کا معائنہ کرکے بتائے کہ موت کیسے واقع ہوئی۔ سول سرجن نے رپورٹ دی کہ موت دل کی حرکت بند ہو جانے سے واقع ہوئی۔ سو روپے میں نے اس کفن دفن کے لیے دیے۔
میری متفکر اور پریشان صورت دیکھ کر مہارانی کا چہرہ اور بھی فق ہو گیا، اور وہ جان گئیں کہ واقعی مؤذن مرگیا۔ بھرائی ہوئی آواز میں انہوں نے کہا، ’’میں نہ کہتی تھی کہ میرا خواب سچا ہے۔ تم نے اسے مروا ڈالا۔‘‘ میں نے یہ الفاظ سنے اور بت کی طرح کھڑا مہارانی کو دیکھتا رہا۔ مجھ کو ایسا معلوم ہو رہا تھا گویا میں نے مؤذن کو واقعی مروا ڈالا۔ اس کے گھر آدمی بھیج کر اطلاع کروا دی کہ اس کی بیوہ کو دس روپے ماہوار تا حیات ملے گا اور بچے جب بڑے ہوں گے تو ان کو پڑھنے کے لیے وظیفہ علیحدہ۔
اب بجائے مہارانی کے ہم دونوں پریشان تھے۔ مہارانی نے بہت سی خیرات کی۔ اپنے میکے سے کئی پنڈت اور مولوی بلوائے اور دوسری جگہ سے بھی بلوائے اور ان سے عمل، تعویذ اور گنڈے لیے۔ میں خود ان ڈھکوسلوں کا قائل نہ ہوں اور نہ تھا، مگر اس وقت کی کیفیت ہی اور تھی۔ علاوہ اس کے یہ انتظام کیا گیا کہ بجائے گیارہ بارہ بجے یا ایک بجے سونے کے سرشام ہی سے سونے کی کوشش کرتے اور ایک بجے اٹھ کر راگ کی محفلیں کرتے۔ سب سے زیادہ فائدہ اس تدبیر سے ہوا۔ مگر جان لیوا خواب ایسا تھا کہ کسی نہ کسی وقت تھوڑا بہت کبھی کبھی ضرور ہی دکھائی دے جاتا۔ غرص رات کے بدلے دن کو سوتے۔ خواب میں بہت کمی ہو گئی تھی اور پھر چونکہ میری شادی قریب آ گئی تھی، لہٰذا مہارانی کی توجہ کچھ اس طرح اس طرف مبذول ہو گئی کہ اگر خواب دیکھتی بھی تھیں تو اس کو کچھ زیادہ اہمیت نہ دیتی تھیں۔
(۵)
جونیئر مہارانی کو آخر بیاہ کر لانا ہی پڑا۔ بیاہ کی رسوم میں، میں نے نہ تو ان کو دیکھا تھا اور نہ دیکھنا تھا اور نہ دیکھنا چاہتا تھا۔ سینئر مہارانی نے اپنی بھتیجی کے لیے محل کا ایک خاص حصہ سجایا تھا کہ جس میں لا کر جونیئر مہارانی اتاری گئی۔ میں شروع ہی سے اس محل کے حصے سے قصداً کتراکر نکل جاتا کیونکہ اس میں وہ لڑکی آنے والی تھی جو میرے اور مہارانی کی محبت میں مخل ہونے والی تھی۔ مجھ کو اس خیال سے ہی منافرت تھی۔
رات گئے جب سینئر مہارانی نے تمام رسوم سے فراغت حاصل کرکے جونیئر مہارانی کو ان کی خواب گاہ بھجوایا تو میری تلاش کی فکر ہوئی، معلوم ہواکہ باہر ہوں۔ وہاں دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اندر ہوں، لحاف اور بچھونے ٹٹولے گئے۔ میں وہاں کہاں ملتا۔ میں سینئر مہارانی کی خواب گاہ میں پڑا بےخبر سو رہا تھا۔ سوتے میں میری گردن میں سینئر مہارانی نے ایک بوسہ لے کر مجھ کو ہوشیار کیا۔ میں نے آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ مہارانی کے خوبصورت چہرے پر مسکراہٹ رقص کر رہی ہے۔ ہنس کر انہوں نے کہا، ’’یہاں کہاں؟‘‘ میں نے ان کو گلے سے لگا کر کہا، ’’میں وہاں جہاں مجھ کو ہونا چاہیے، یعنی اپنی جان کے پاس، اپنی پیاری مہارانی کے پاس۔‘‘ انہوں نے ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ کر اٹھایا، اس کے بعد ہی ایک حجت اور بحث کا باب کھل گیا۔
میری طرف سے ضد تھی کہ میں ہرگز جونیئر مہارانی کے پاس نہ جاؤں گا، اور ان کی ضد تھی کہ جانا پڑےگا۔ دونوں کی ضد نے طرح طرح کے پہلو اختیار کیے جس کی شروعات ایک دلچسپ مذاق سے ہوئی اور اختتام اس پر کہ دونوں خوب روئے، مگر اس کے بعد بھی ’’تریاہٹ‘‘ قائم تھی۔ دھکے دے کر گویا میں اس خواب گاہ سے جبراً نکالا گیا۔ میں روتا جاتا تھا اور مہارانی مجھے بہلاتی، پھسلاتی جاتی تھیں۔ طرح طرح کی باتیں کرکے چمکارتی جاتی تھیں۔ مجھے بہلاتی، پھسلاتی، کھینچتی، گھسیٹتی وہ جونیئر مہارانی کی خواب گاہ تک مجھ کو لے گئیں۔ یہاں پہنچ کر میں اڑگیا۔ مجھ کو دروازے پر چھوڑ کر وہ اپنی بھتیجی کو کچھ سکھانے پڑھانے خواب گاہ میں داخل ہوئیں۔ ادھر میں بھاگا اور پھر اپنے گھونسلے میں یعنی اسی جگہ جہاں سے کشاں کشاں لایا گیا تھا مگر یہ سب کچھ بیکار تھا۔ میرے حال زار پر ان کو کچھ رحم نہ آیا اور وہ مجھ کو پھر تھوڑی دیر بعد پکڑ لائیں اور زبردستی خواب گاہ میں دھکادے کر باہر سے دروازہ بند کر دیا۔
میں نے اس کمرے کو جیسا کہ کہہ چکا ہوں بالکل نہ دیکھا تھا۔ میں نے اس کو اب دیکھا۔ سارے کمرے میں بجلی کی سبز روشنی ہو رہی تھی، طرح طرح کے جھاڑ فانوس اور بجلی کی سبز قندیلیں روشن تھیں۔ کمرے کی چھت سبز بانات کی تھی جس پر طرح طرح کے زریں کام بنے ہوئے تھے۔ ہرچیز مجھ کو سبز نظر آ رہی تھی، حتی کہ قالین بالکل سبز رنگ کا تھا، تمام دیواریں سبز تھیں۔ دیواروں کو سبز رنگ کے ولایتی کاغذ سے منڈھ دیا گیا تھا اور اس سبز کاغذ پر طرح طرح کے رنگین نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ کمرے میں ہر طرح کا سامان آرائش سجا ہوا تھا، مگر سب سبز رنگ کا تھا۔ کمرے کے بیچوں بیچ میں خالص سونے کی دوسبز مسہریاں لگی ہوئی تھیں اور ان کے ارد گرد دیوار کی طرح ایک آب رواں کا سبز ریشمی پردہ اس طرح آویزاں تھا کہ چھت سے لے کرزمین تک ایک دیوار سی چاروں طرف قائم تھی۔
یہ پردہ اس قدر باریک اور اس قدر نفیس تھا کہ اس کی چار تہوں میں سے بھی آرپار دکھائی دے سکتا تھا۔ اس پردہ میں طرح طرح کے سبز رنگ اور زمرد کے آویزے اور موتی لٹک رہے تھے جو سبز رنگ کی روشنی میں ناچتے معلوم ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک مسہری پر جونیئر مہارانی یعنی راجکماری لیلا وتی بیٹھی تھیں، جیسے کہ ایک سبز رنگ کی گٹھری رکھی ہوئی ہے۔ یہ سب کچھ میں نے ایک نظر بھر کر دیکھا۔ پھر فوراً ہی سینئر مہارانی کی محبت کا خیال کر کے رونے لگا۔ جونیئر مہارانی کی طرف میں نے پشت کر لی اور مخمل کے سبز پردے میں منہ لپیٹ کر چپکے چپکے خوب رویا اور خوب دل کی بھڑاس نکالی۔ خوب رونے سے ذرا طبیعت ہلکی ہو گئی۔ اگر اور طرح طرح کی خوشبوؤں سے کمرہ ویسے ہی مہک رہا تھا کہ ایک دم سے شماممۃ العنبر کی تیز اور مست کر دینے والی خوشبو کا ایک بھبکا میرے دماغ میں اس طرح پہنچا کہ میں نے گھبرا کر منہ کھول دیا۔
مڑکر جو دیکھتا ہوں تو جونیئر مہارانی ہیں جو عطر میں بسی ہوئی تھیں۔ سبز رنگ کا رومی قالین تھا جس پر اتنا بڑا بڑا رواں تھا کہ ٹخنوں ٹخنوں پیر اس میں گھس جاتے تھے۔ اس وجہ سے ان کے آنے کی ذرہ بھر آہٹ نہ ہوئی۔ میرے دیکھتے ہی انہوں نے جھک کر میرے قدم لیے۔ میرے پیر چوم کر انہوں نے کھڑے ہوکر دونوں ہاتھ جوڑ کر جھک کر ماتھے پر رکھے اور ذرا ہٹ کر اسی طرح ہاتھ جوڑے نظر نیچے کرکے کھڑی ہو گئیں۔ میں نے اس شعلہ حسن کو گویا اب پہلی مرتبہ سر سے پیر تک دیکھا۔ کامنی صورت، نازک بدن، میدہ اور شہاب کا سا رنگ تھا۔ چہرہ صاف بلور کی مانند سبز روشنی میں گویا جگمگا رہا تھا۔ جس پر سنہری افشاں چمک رہی تھی۔ صرف تھوڑی سی پیشانی رسمی گھونگھٹ سے چھپی ہوئی تھی۔ ناک نقشہ اس قدر سبک اور موزوں اور حسین کہ میری نظر سے کبھی نہ گزرا تھا۔ میں نے ایک نظر دیکھا اور پھر دیکھا۔ میں ساکت تھا اور وہ اسی طرح ہاتھ جوڑے کھڑی تھیں اور میں پردہ پکڑے کھڑا تھا۔
انہوں نے آگے بڑھ کر دو زانو ہو کر پھر سے میرے پیر چھوئے اور پھر اسی طرح الگ ہٹ کر کھڑی ہو گئیں۔ میں ویسے ہی کھڑا اس قواعد کو دیکھتا رہا کہ وہ پھر تیسری مرتبہ جھکیں۔ انہوں نے میرے پیر اسی طرح چھوکر اپنے لبوں اور آنکھوں اور پیشانی سے لگائے، مگر اس مرتبہ بجائے اٹھ کر الگ جاکر کھڑے ہونے کے انہوں نے منہ اوپر کر کے میری طرف دیکھا۔ مجھ کو دل میں کہنا پڑا، ’’خدا نے تجھ کو غضب کا حسن عطا کیا ہے! مگر۔۔۔‘‘ وہ میری طرف دیکھ رہی تھیں اور دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے تھیں۔ ان کے لبوں پر کچھ حرکت سی تھی، جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہیں کہ انہوں نے آہستہ سے اپنا داہنا ہاتھ میرے بائیں ہاتھ کی طرف بڑھایا۔ ان کا سبز رنگ کاشمیری شال ان کے سر اور کاندھے پر سے سرک کر گر گیا، مگر انہیں شاید خبر بھی نہ ہوئی۔
ہاتھ بڑھا کر جیسے ڈرتے ڈرتے انہوں نے میرا بایاں ہاتھ کلائی پر سے پکڑ لیا اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کو آنکھوں سے لگایا اور پھر لرزتی ہوئی آواز سے کہا، ’’پتی مہاراجہ!‘‘ میری طرف انہوں نے لجاجت آمیز نگاہیں ڈالیں۔ جیسے کہ وہ مجھ سے رحم یا عفو تقصیر کی طالب تھیں۔ آہستہ آہستہ اٹھیں اور قبل اس کے کہ مجھے خبر ہو کہ کیا ہوا انہوں نے مجھے مسہری پر لا بٹھایا اور سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئیں۔ ساری مسہری عطر میں بالکل بسی ہوئی تھی۔ میں اس پر بیٹھا ہوا جونیئر مہارانی کو دیکھ رہا تھا، جو سبز رنگ کی آب رواں (جارجیٹ) کی ساڑھی باندھے ہوئے میرے سامنے کھڑی ہوئی میری پرستش کر رہی تھیں، دسمبر کا سخت جاڑا تھا، مگر کمرے کے اندر نہایت ہی خوش گوار موسم تھا۔ کیونکہ جگہ جگہ بجلی کی انگیٹھیاں دہک رہی تھیں۔
میں نے ان سے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ میرے پیر چھو کر بیٹھ گئیں۔ فوراً انہوں نے ایک سبز رنگ کی صراحی سے دو آتشہ کا جام بھر کر مجھے دیا جو میں نے پی لیا اور ایک جام ان کو دے کر اس رسم کو پورا کیا۔ بہت جلد دو چار باتیں ہوئیں کہ سلسلہ کلام چھڑ گیا اور جونیئر مہارانی نے اپنی سحر کاریوں کے جال میرے اوپر پھینکنا شروع کیے۔ اپنی طبیعت کو کیا کروں۔ میں جھلا سا گیا اور ان کو شاید برا معلوم دیا۔ جب سینئر مہارانی کا مجھ کو خیال آیا اور میں نے بات کاٹ کر کہا، ’’سو جاؤ۔‘‘ اور یہ کہہ کر اپنی مسہری پر دراز ہوکر جو سویا تو صبح کی خبر لایا۔ ساڑھے آٹھ بجے ہوں گے جب سینئر مہارانی نے مجھے اٹھایا اور فوراً لڑائی شروع کر دی۔ میں خوب خوب رویا اور وہ بھی خوب خوب روئیں۔ میں بھی مجبور تھا اور وہ بھی مجبور تھیں۔ دراصل بھتیجی نے میری سرد مہری کی شکایت کی تھی اور پھوھی اپنی بھتیجی کی طرف سے وکیل ہوکر مشترکہ شوہر سے لڑنے آئی تھیں۔ غرض خوب سینئر مہارانی سے لڑائی ہوئی۔
کسی نے کہا ہے اور ٹھیک کہا ہے، ’’ممکن نہیں کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو۔‘‘ جونیئر مہارانی کا حسن لاثانی اور پھر پھوپی بھیجتی دونوں کی کوشش۔ خواہ مخواہ میں جونیئر مہارانی سے گھل مل گیا۔ لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ گھلنا ملنا کچھ سے کچھ کردےگا اور وہ بھی اس قدر جلد۔ پھوپھی تو جیسا گاتی تھی گاتی تھی ہی لیکن بھتیجی نے تو گانے میں ستم کی مہارت بہم پہنچائی تھی۔ اتنی حسین اور دلچسپ لڑکی، نئی نئی جوانی اور پھر نئی شادی، میرا اس کی طرف کھنچاؤ اور اس کا میری طرف رجحان بڑھتا گیا۔ مجھ سے مل کر وہ عشق مجسم اور محبت کی پتلی بن گئیں۔ ایک عجیب عالم میں تھیں اور پھر مجھے بھی اپنے ساتھ کھینچے لیے جا رہی تھیں۔ ان کا بس نہ تھا کہ مجھے اپنے دل میں چھپا لیتیں۔ یہی جذبات آخر سینئر مہارانی میں بھی تھے اور عورتوں میں ہوتے ہی ہیں، مگر جونیئر مہارانی میں نہ تو اتنی سمجھ کہ یہ جذبات کیا ہیں اور نہ عقل۔ وہ مجھے دیکھتیں، تو ان کی آنکھیں غمازی کرتیں۔ ان کی حرکات و سکنات، اٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا، کھانا، پینا، ہنسنا، گانا، ملنا، جلنا، غرض ان کے تمام افعال سب کے سب ایک جذبہ کے تحت میں تھے اور ہر قدم پر دل کے چور کار از افشا کرتے تھے۔
بس گویا جونیئر مہارانی کیا تھیں کہ سیماب برآتش تھیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ ایک دہکتا ہوا آگ کا انگارہ! بہت جلد انہوں نے میری ہستی کو کچھ سے کچھ کر دیا۔ وہ خود بھی مٹ گئیں اور مجھ کو بھی مٹا دیا۔ بالفاظ دیگر خود وارفتہ ہوکر مجھ کو بھی دیوانہ کر دیا۔ یہ سب باتیں اور ذرا غور تو کیجیے کہ سینئر مہارانی اپنی بھتیجی کی زندہ دلی کو دیکھتیں اور باغ باغ ہوتیں اور جہاں تک ممکن ہوتا اپنی بھتیجی کے عیش میں مخل نہ ہوتیں۔
وہی ناچ رنگ کی محفلیں اور وہی رنگ رلیاں! جونیئر مہارانی اور سینئر مہارانی دونوں میرے ساتھ ہوتیں۔ پھوپھی اور بھتیجی دونوں مل کر خوب گاتیں، جشن میں دونوں شریک، طرح طرح کے ڈرامے کیے جاتے، سو انگ بنائے جاتے، سینئر مہارانی راجہ بنتیں، جونیئر مہارانی راجکمار بنتیں، میں راجکماری بنایا جاتا۔ میرے ساتھ شادی ہوتی۔ خوب خوب الٹی گنگا بہائی جاتی، مگر یہ حال سینئر مہارانی کا زیادہ عرصہ تک نہیں رہا۔ ویسے بھی وہ اپنی بھتیجی پر اپنا عیش قدم قدم پر خود قربان کرتی تھیں، لیکن بہت جلد انہوں نے از خود ان جلسوں سے کنارہ کشی سی کرنی شروع کی۔ کبھی درد سر کا بہانہ، کبھی طبیعت کی کسلمندی، کبھی نیند کی خواہش، کبھی دلچسپی کا فقدان۔ غرض کوئی نہ کوئی بہانہ ان کو محفل سے بہت جلد اٹھا لے جاتا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے ناغہ کرنا شروع کیا۔ در اصل ان کی طبیعت کا رجحان کچھ پوجا پاٹ کی طرف زیادہ ہو گیا تھا۔ میں نے سمجھا کہ شاید اس کی وجہ ہو۔ ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کا نتیجہ کیا ہوگا۔ دفتر بے معنی ہوکر میں جونیئر مہارانی میں ڈوب کر رہ گیا۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ سینئر مہارانی نے سچ کہا تھا کہ جونیئر مہارانی میرے جوڑ کی ہیں۔
میری عمر سولہ اور سترہ سال کے درمیان تھی اور جونیئر مہارانی کی عمر پندرہ اور چودہ کے درمیان تھی۔ بہت جلد مجھ کو بجائے سینئر مہارانی کے جونئیر مہارانی کا جنون شروع ہو گیا۔ ہر دم وہی تصویر سامنے رہی، اندر ہوں خواہ باہر، سوتے جاگتے ان ہی کی یاد رہتی۔ رفتہ رفتہ وہ عبرت ناک حالت آ پہنچی کہ سینئر مہارانی کی موجودگی اور غیر موجودگی یکساں ہو گئی اور پھر اس پر بھی بس نہیں، بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھا۔ اور سینئر مہارانی کی موجودگی غیر دلچسپ معلوم ہو کر کچھ کچھ شاق گزرنے لگی، ایسا معلوم ہونے لگا کہ یہ تو کوئی بزرگ ہیں۔ وہ خود کھینچی کھینچی دیدہ و دانستہ رہتیں۔ تھوڑے ہی دنوں میں ناچ رنگ کی رونق صرف جونیئر مہارانی رہ گئیں۔
وہی جھیل کا کنارہ، وہی مرمریں چبوترہ، وہی پرسکون چاندنی اور وہی عیش و طرب! لیکن پرانا محبوب اب مجلسوں سے غیرحاضر رہتا۔ میرے صنم کدہ میں اب دوسرا بت تھا جس کی جدائی نے وحدانیت کا ڈنکا بجوا دیا۔ کبھی کبھی میرا دل میرے اوپر ملامت کرتا اور سینئر مہارانی کا خیال تکلیف دیتا مگر اس میں میری خطا ذرہ برابر نہ تھی۔ اگر سینئر مہارانی کے یہاں اس نیت سے جاؤں کہ رات کو ان کے یہاں ہی رہوں اور وہیں جلسہ ہو، تو اول تو وہ مجھے ٹکنے نہ دیتیں اور ہنس ہنس کر لڑتیں، اور دھکے دے کر نکال دیتیں اور جب بڑی مشکل سے راضی بھی ہوتیں تو بہت جلد کہتیں کہ ’’لیلاوتی کو بلا لو۔‘‘ جونیئر مہارانی فوراً آ جاتیں۔ دراصل ان کی مجال نہ تھی کہ انکار کریں۔ ان کے آتے ہی خود ان کے سر میں درد ہونے لگتا اور نتیجہ یہ ہوتا کہ سینئر مہارانی کے محل میں خود ان کی غیر موجودگی ہو جاتی اور جونیئر مہارانی رہ جاتیں۔
مگر جونیئر مہارانی کے جنون کے ہوتے ہوئے بھی مجھ کو ایسا معلوم ہوتا کہ سینئر مہارانی کی محبت ایک لازوال شے ہے۔ میرے دل میں ان کی بےحد محبت اب بھی تھی، مگر اس کی صورت بھی ایک عجیب ہوکر رہ گئی تھی۔ جب کبھی ان کو سینے سے لگاتا یا ان کی پیشانی چومتا تو ان کے آنسو نکل پڑتے اور بہت جلد حالت بگڑ جاتی اور ہچکیاں بندھ جاتیں گویا ایک طرح میرے لئے انہوں نے اظہار محبت کرنا ہی ناممکن سا کر دیا، کیونکہ ان کی حالت ایسی بگڑ جاتی کہ سنبھالنا دشوار ہو جاتا۔ ان سے اگر کبھی اس پریشان خواب کا حال پوچھتا تو وہ بڑے اطمینان کا اظہار کرتیں۔ کبھی کبھی نہیں، بلکہ اکثر دکھائی دیتا تھا مگر اب وہ خود مجھ سے کہتی تھیں کہ محض وہم ہے، دوسری باتیں کرو۔ میں رہ رہ کر یہ بھی سوچتا کہ آخر یہ محبت کی کون سی قسم ہے جو مجھ کو سینئر مہارانی سے ہے۔ کیونکہ جونیئر مہارانی کی محبت اگر ایک طرف وبال جان تھی تو دوسری طرف سینئر مہارانی کے لیے دل پاش پاش ہوتا تھا اور ان کی بھولی بھولی نظریں تیر کی طرح دل میں ترازو ہوکر رہ جاتی تھیں۔ دراصل میرا جی چاہتا تھا کہ سینئر مہارانی پر اپنی جان چھڑکتا رہوں!
رفتہ رفتہ بتدریج سینئر مہارانی کی حالت میں ایک انقلاب عظیم پیدا ہو رہا تھا، وہ زیادہ تر ساکت رہتی تھیں۔ معلوم ہوا کہ راتوں کو اٹھ کر ٹہلتی ہیں۔ ان کے چہرے کی وہ غیرمعمولی دمک اب معدوم تھی، مگر چہرے پر ایک ناقابل بیان نور مسلط رہتا تھا۔ اب ان کے بالوں میں وہ افشاں بھی نہ ہوتی تھی جس کی بارش ان کے حسین چہرے پر ہوتی رہتی تھی۔ ان کی تندرستی انحطاط پذیر ہو رہی تھی اور وہ دبلی ہو گئی تھیں۔
(۶)
دراصل انصان عیش کا بندہ ہے، خواہ غریب ہو یا امیر، پھر عیش و عشرت کی بھی کوئی حد نہیں، ہم سب لوگ خواہ کتنا ہی عیش کیوں نہ کریں یہی سمجھتے ہیں کہ کافی نہیں۔ میری اور جونیئر مہارانی کی پرسرور، پر کیف زندگی کے دن لمحوں کی طرح گزرتے معلوم ہوتے تھے۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ ہم دونوں ایک خوشگوار ہوا میں دنیا کی رنگینی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کسی اس سے بھی اچھے مقام پر جا رہے ہیں۔ دوسرا سال میری شادی کو شروع ہو چکا تھا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جونیئر مہارانی گویا کل ہی آئی ہیں۔ جوں جوں جوانی آتی جاتی تھی، نشہ عشق و محبت اور بھی بڑھتا جاتا تھا۔ در اصل میں ایک عجیب نشے میں چور تھا اور یہی حالت جونیئر مہارانی کی تھی۔
برسات کا زمانہ آیا۔ کالے کالے بادل اور دل خوش کن ہوائیں، جھیل کا منظر اور مے نوشی اور اس پر عشق و محبت کی گزک! دن رات کھیل تماشے میں گزرتے تھے اور دن رات طرح طرح کے ناچ، کھیل اور رنگ رلیاں طرح طرح سے منائی جاتی تھیں، نت نئی تجویز اور اس کی تکمیل۔ بس مقصد حیات ہی یہی تھا۔ جونیئر مہارانی نے تجویز کیا کہ جھیل کے بیچوں بیچ میں کشتیاں جوڑ کر کسی دوسری طرح کا ایک جزیرہ بنایا جائے اور اس پر ایک بارہ دری قائم ہو اور وہاں، ہفتہ بھر برابر جلسہ رہے۔ دن رات وہیں رہیں، تجویز واقعی بہت دلچسپ تھی۔ حکم کی دیر تھی کہ سیکڑوں آدمی لگ گئے، دن رات کام ہونے لگا اور پندرہ بیس روز کے بعد یہ عارضی محل بن کر تیار ہو گیا۔ پہلے ہی جلسے کے روز چاروں طرف جھیل کے جھما جھم پانی برس رہا تھا اور یہاں مہارانی کا یہ حال تھا کہ اپنی مست کردینے والی آواز سے جھوم جھوم کر روم جھوم گا رہی تھیں۔
خوب مال پوئے کھائے اور شرابیں طرح طرح کی لنڈھائیں۔ دن کو سوتے اور رات بھر رنگ رلیاں مچائی جاتیں۔ طرح طرح کے ناچ ہوتے اور طرح طرح کے ڈرامے کیے جاتے، پھر کبھی مینھ میں نہاتے اور کبھی جھیل میں۔ غرض خوب دھما چوکڑی رہتی۔ اس عیش و طرب کے جلسے میں باوجود ہر طرح کے اصرار کے سینئر مہارانی نہیں آئیں۔ ’’تم جاؤ!‘‘ انہوں نے کہا، ’’لیلاوتی ہے تو!‘‘ اس کے جواب میں، میں نے انہیں سینے سے لگالیا اور کہا، ’’نہیں تم کو ضرور لے چلوں گا۔‘‘ بس یہ کہنا تھا کہ گویا بکھر گئیں۔ خوب روئیں اور مجھ کو بھی رلایا۔ مجبوراً چلا آیا۔ اب اس جلسے میں ان کی موجودگی کا خیال تک نہ تھا۔ دراصل فرصت ہی کہاں تھی۔
ناچ کود سے بھی چار چھ روز میں تنگ سے آ گئے کہ آخری دن آیا کہ بس آج کا جلسہ اور ہو کل ختم۔ حسن اتفاق کہ بادل بھی وہ جھوم کر امنڈ آیا کہ آسمان اور پہاڑ ایک ہو گیا اور پھر بارش بھی خوب خوب ہوئی۔ بجلی کی طرح طرح کی روشنی سے دن ہو رہا تھا۔ پرکیف اور روح پرور ہواؤں کے جھونکے آ رہے تھے اور گھومر کا دل پسند ناچ عجیب انداز سے ہو رہا تھا۔ خوبصورت اور چلبلی خواصیں نشہ کی ترنگ میں بدمست ہوکر اپنی سریلی آواز ملا کر پھولوں کے ہار پہنے اور ہاتھوں میں مور پنکھڑی کی سبز شاخیں لیے بل کھا کھا کر ساز کی تھاپ پر جھماکے کے ساتھ قدم ملا ملا کر ناچ رہی تھیں۔ جونیئر مہارانی تال پر تال دے رہی تھیں۔ خدا نے انہیں بلا کا حسن دیا ہے۔ ان کے زرنگار کپڑے اور اس پر مرصع کلغی دار ٹوپی جو ہیروں سے جگمگا رہی تھی، میرا دل چھینے لیتی تھی۔
خوشی اور مسرت سے اس کا حسین چہرہ چمک رہا تھا اور اس پر وہ لمبی لمبی دل کھینچنے والی تانیں اور پھر روم جھوم کے گیت پر ان کا خود جھومنا اور پھر گھومر کے ناچ کا نپا تلا جھماکا، جس کے ساتھ ساتھ ان کے سر کے جھٹکے سے ان کے حسین چہرے پر افشاں کی بارش ہوتی تھی۔ آج آخری رات کا جلسہ تھا اور کنٹر کے کنٹر شراب کے خالی ہو رہے تھے۔ ’’اور پیو! اور پیو!‘‘ گانے والیاں، بجانے والیاں اور خواصیں سب دو آتشہ میں چور تھیں۔ جام پہ جام خالی ہو رہا تھا اور لاؤ کم نہ ہوتی تھی۔ میں بھی اسی سیلاب میں بہا چلا جا رہا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ ہر کسی نے اتنی پی کہ عقل و ہوش رخصت، بہت جلد محفل کی ترتیب درہم برہم ہو گئی۔ کسی نے کسی کی چوٹی پکڑی، کسی نے کسی کو گھسیٹا۔ میں نے خود انتہائی کوشش کی کہ سنبھلوں اور جلسے کی برہمی کو سنبھالوں، مگر وہاں تو ہر خواص اپنے کو مہارانی سمجھ رہی تھی۔ کوئی اِدھر گرا، کوئی اُدھر گرا۔ رات کے دو ویسے ہی بج چکے تھے۔ ہفتہ بھر کی کود پھاند اور پھر نشہ اور اس پر جوانی کی نیند۔ تھوڑی ی دیر میں مرگی پھیل گئی۔ جو جہاں تھا وہیں غیں ہو کر رہ گیا۔ نشہ اور نیند نے ایسا دابا کہ سب غافل ہو گئے۔
نیند اور نشہ کے عالم میں میں نے ایک خواب دیکھا، وہی خواب جو سینئر مہارانی کو دکھائی دیا کرتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں دربار والے کمرے کی طرف جا رہا ہوں، وہاں پہنچا تو سین حرف بحرف سامنے موجود تھا۔ وہی مہارانی اور وہی کمرہ۔ غرض جو کچھ بھی انہوں نے دیکھا، سب وہی۔ وہ بنی سجی بیٹھی ہوئی تھیں۔ صرف فرق اتنا تھا کہ وہاں وہ بلا نہیں تھی جس کو مہارانی نے دیکھا بلکہ وہاں تو میری پیاری جونیئر مہارانی تھی جو تمسخرانہ لہجے میں سینئر مہارانی سے کہہ رہی تھی کہ ’’بیوہ ہوگئی چتا میں بیٹھ۔‘‘ کہ اتنے میں، میں پہنچا۔ میں نے جونیئر مہارانی سے پوچھا کہ بات کیا ہے؟ اس نے مجھ سے مسکرا کر کہا کہ ’’سینئر مہارانی بیوہ ہوگئیں۔‘‘ میں نے جونیئر مہارانی کو دیکھا اور سینئر مہارانی کو دیکھا اور کہا کہ ’’تو بیوہ ہو گئی اب ستی ہوجا۔‘‘ اتنے میں دیکھتا ہوں کہ جونیئر مہارانی غائب، پھر خواب کا دوسرا سین دیکھا کہ سینئر مہارانی میرا جنازہ دیکھ رہی ہیں اور میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ میں نے جنازے پر سے کپڑا ہٹا کر خود اپنی لاش کو دیکھا اور ذرہ بھرتعجب نہ کیا۔ غرض خواب کا دوسرا سین بھی لفظ بہ لفظ اور حرف بہ حرف وہی تھا۔
پھر اس کے بعد تیسرا سین دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ساون بھادوں والے محل کے بڑے کمرے میں کھڑا ہوں۔ سامنے سینئر مہارانی میری لاش کو گود میں لیے ساتوں سنگار کئے ہوئے ستی ہونے کو تیار بیٹھی ہیں۔ وہ میری طرف دیکھ رہی تھیں اور میں ان کی طرف۔ وہ محبت سے مجھ کو اپنی طرف گویا نظروں ہی نظروں میں کھینچے لے رہی تھیں اور میرے دل میں ڈوبی جا رہی تھیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ محبت کے انتہائی جذبات ان کے سینے میں گھٹ رہے ہیں۔ اسی طرح دیکھتے دیکھتے ان کی حالت انتہائی جذبات کی وجہ سے بےقابو ہو گئی اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے ’’ست‘‘ کے زور سے ان کے سینے سے ایک زبردست شعلہ بھڑک کر اس زور سے نکلا کہ ساری چتا کو مع مہارانی کے اس نے لپیٹ لیا۔ میری آنکھیں چندھیا گئیں اور چشم زدن میں اس زور سے کڑکا ہوا کہ بادل کی گرج کے ساتھ ساتھ میں بھی گرنے کو ہوا کہ میرے پہلو سے چیخ کی آواز آئی اور جونیئر مہارانی مجھ سے آکر چپٹ گئیں۔ ہم دونوں بادل کی گرج کے ساتھ گرے۔
’’تم یہاں کہاں؟‘‘ جونیئر مہارانی نے مجھ سے پوچھا۔
’’کہاں؟‘‘ میں نے گھبرا کر چاروں طرف آنکھیں مل کر کہا۔
’’ارے!‘‘ یہ کہہ کر مہارانی نے ایک چیخ ماری اور ساتھ ہی میں نے اپنے ہوش و حواس میں دیکھا کہ میرا خواب بالکل سچا ہے۔ سینئر مہارانی سامنے بےجان پڑی تھیں۔ ان پر بجلی گری تھی اور ان کے سینے اور بالوں پر شعلے کا جھلسا موجود تھا۔ ان کی گود میں میری وہی رنگین تصویر بھی تھی۔ جونیئر مہارانی بے ہوش ہوکر گر گئی تھیں اور میں نے دیکھا بھی نہ تھا۔
ملاح کہتا ہے کہ رات کو وہ میرے حکم سے مجھ کو جھیل کے عارضی جزیرے پر سے چبوترے تک لایا۔ تو شہ خانے والا کہتا ہے کہ حضور نے اپنے درباری کپڑے مجھ سے رات کو طلب کیے اور میں نے تمام درباری کپڑے اور زیورات خود پہنائے۔ پھر دوسرے ملازم کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے حکم سے ہم سے لکڑی کی چتا بنوائی۔ سب یہی کہتے ہیں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ میں کب آیا اور کس طرح آیا۔
مہارانی راماوتی ایک شیریں خواب تھی اور آنکھ جو کھلی تو کچھ نہ تھا۔ یا پھر یوں کہیے کہ ایک رنگین حباب جس کی مختصر زندگی ایک ہلکورے سے ختم ہوگئی۔ ایک پروانہ تھی جو تھوڑی دیر شمع سے کھیلنے کے بعد اس پر نثار ہو گئی۔
تھوڑے دن تو سر پیٹتا اور خاک اڑاتا رہا اور جونیئر مہارانی کا بھی اپنی پھوپھی کے غم میں یہی حال رہا۔ راتوں کو مجھے خواب میں دکھائی دیتیں اور ہائے راماوتی کہہ کر میں چیخ اٹھتا، مگر زمانہ گزرنے لگا اور گزرتا گیا۔ وہی محل اور وہی جھیل اور وہی جونیئر مہارانی اور وہی رنگ رلیاں ہیں اور سینئر مہارانی کی یاد ایک قصہ ماضی ہو گئی ہے۔
مصنف:مرزا عظیم بیگ چغتائی