کہانی کی کہانی:’’روزگار کی تلاش میں اپنے ضمیر کا سودا کرنے والے ایسےفرد کی کہانی جس کی ماں بیمار ہے۔ ڈاکٹروں نے اس کے جسم میں خون کی کمی بتائی۔ وہ بلڈ بینک گیا تو وہاں موجود شخص نے کہا کہ اس گروپ کا خون نہیں ہے۔ اسے وہ ایک دوسرے شخص کا پتہ دیتے ہوئے وہاں سے خون لینے کا مشورہ دیتا ہے۔ دریں اثنا اس کی ماں کی موت ہو جاتی ہے۔ نوکری کی تلاش میں گھومتے ہوئے اس شخص کی ملاقات اسی خون دینے والے شخص سے ہوتی ہے جو اس بلڈ بینک والے شخص کے ساتھ پارٹنرشپ میں کام کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر ابھی ابھی راؤنڈ کرکے باہر نکلا تھا۔ ماں نے آنکھیں بند کرلی تھیں۔ شاید وہ سو چکی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ ذرا ادھر ادھر گھوم پھر آئے اور وہ دروازے کی طرف جانے لگا۔ دروازے سے کچھ دور ہی تھا کہ نرس جو ڈاکٹر کے ساتھ باہر گئی تھی تیزی سے اندر آتی ہوئی دکھائی دی۔ اس نے ہاتھ کےاشارے سےاسے روک لیا اور اپنی چھوٹی سی ڈائری میں سے ایک ورق پھاڑ کر اسے دینے لگی۔
’’یہ کیا ہے مس؟‘‘
’’خون کی بوتل چاہیے آپ کی ماں کے لیے۔‘‘
’’اچھا جی۔‘‘
’’بلڈ بینک سے ملےگی۔ نیچے اتریے۔ دائیں کونے میں یہ بینک ہے۔ وہاں شفیق صاحب ہوں گے، ان سے کہیے اس کا انتظام کر دیں۔‘‘ یہ کہہ کر نرس دور سے چیختی ہوئی ایک مریضہ کی طرف متوجہ ہو گئی۔
وہ نیچے اترا۔ نرس کے بتائے ہوئے پتے کے مطابق بلڈبینک کے سامنے پہنچ گیا۔
اسے اس بات پر اطمینان تھا کہ بوتل کی وہ ہر قیمت ادا کر سکتا ہے۔ جب سے اس کی ماں ہسپتال میں داخل ہوئی تھی وہ ہر روز اپنی باجی سے تین چار سرخ نوٹ لے کر جیب میں محفوظ کر لیتا تھا۔ اس وقت بھی اس کے پاس تین نوٹ موجود تھے۔
اندر گیا تو دیکھا چاروں طرف ریفریجیٹر پڑے ہیں اور درمیان میں ایک صاحب اور آل پہنے، آنکھوں پر دبیز شیشے کی عینک لگائے کھڑے ہیں اور ایک رجسٹر کی ورق گردانی کر رہے ہیں۔
’’شفیق صاحب سے ملنا ہے۔‘‘
’’فرمائیے۔‘‘
’’جی یہ مس نے دیا ہے۔‘‘ اور اس نے کاغذ ان کے سامنے کر دیا۔ ایک لمحے کے لیے کاغذ پر نظر ڈالی گئی۔ پھر کاغذ میز پر رکھ کر وہ دوبارہ رجسٹر کی ورق گردانی میں مصروف ہو گئے۔
کچھ دیر ورق گردانی کرنے کے بعد انہوں نے رجسٹر بند کر دیا اور اس کی طرف مخاطب ہوئے،
’’کس کے لیے بوتل چاہیے آپ کو!‘‘
’’جی میری ماں بیمار ہے۔‘‘
’’مجھے افسوس ہے کہ اس وقت اس نمبر کے خون کی بوتل بلڈ بینک میں نہیں ہے۔‘‘
’’تو اب کیا کیا جائے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’آپ کو زحمت کرکے یہ بوتل باہر سے لینی ہوگی۔‘‘
’’وہ مضطرب ہوکر ان صاحب کو دیکھنے لگا۔ ان کی بات اس کی سمجھ میں نہیں آئی تھی۔‘‘
’’مسٹر کیا نام ہے آپ کا۔‘‘
’’جی داؤد۔‘‘
’’ہاں تو داؤد صاحب بلڈ بینک میں وہی خون ہوتا ہے جو بلڈ ڈونرز بطور عطیہ کے دے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی کسی خاص نمبر کا خون ہمارے ہاں نہیں ہوتا۔ ایسے خون کے ضرورت مند کو اس کا انتظام باہر سے کرنا ہوتا ہے۔ سمجھ لیا آپ نے؟‘‘
شفیق صاحب نے بات پوری وضاحت سے کر دی تھی مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ ’باہر سے‘ ان کی مراد کیا ہے۔
’’جی میں کچھ جانتا نہیں ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں آپ کو بتاتا ہوں۔ یوں کریں۔ میں ایک شخص کانام پتا آپ کو بتائے دیتا ہوں۔ وہ پروفیشنل آدمی ہے۔ کئی بوتلیں بیچ چکا ہے۔ اس کے یہاں چلے جائیں۔ قیمت تو وہ خاصی مانگےگا۔ تاہم اپنی ضرورت کی بوتل آپ کومل جائےگی۔‘‘
یہ کہتے ہوئے شفیق صاحب نے میز کی دراز کھولی۔ اس میں سے ایک چھوٹی سی کاپی نکالی۔ اس کےچند ورق پلٹے۔
’’پتا میں لکھے دیتا ہوں۔۔۔‘‘ اور وہ اسی کاغذ پر جس پر نرس نے ’بلڈنمبر‘ لکھا تھا۔ پتا لکھنے لگے اور ساتھ ساتھ بولتے بھی گئے۔
عبدالقادر۔ مکان نمبر ۱۳۔ محلہ بیمیاں، نزد عطار چنن دین۔
پتا لکھ کر انہوں نے کاغذ داؤد کے ہاتھ میں تھما دیا۔
’’جائیے وہ اس وقت گھر پر مل جائےگا۔‘‘
ایک زمانے میں وہ ٹکسالی دروازے میں رہ چکا تھا اور اپنی آوارہ گردی کے دوران کئی بار بازار سمیاں سے گزرا تھا۔ البتہ عطار چنن دین کی دکان تک پہنچنا ذرا مشکل تھا۔ تاہم یہ مشکل بھی دور ہو گئی۔
اس نے بوڑھے عطار سے عبدالقادر کا مکان پوچھا،
’’سامنے جو چھوٹی سی گلی ہے نا اس کا آخری مکان عبدالقادر کا ہے۔‘‘
اس نے شکریہ ادا کیا اور چند منٹ کے بعد ایک ایک منزلہ مکان کے نیچے کھڑا تھا۔
دروازے پر دست دی تو ایک درمیانی عمر کا آدمی نیچے آ گیا۔
’’فرمائیے کیا حکم ہے؟‘‘ آنے والے نے پوچھا۔
’’مجھے بلڈ بینک کے انچارج نے بھیجا ہے۔ خون کی ایک بوتل چاہیے۔‘‘
’’نمبر پوچھ لیا ہے؟‘‘
داؤد نے جیب سے کاغذ نکال کر اس کو دے دیا۔
’’نمبر بالکل ٹھیک ہے۔‘‘
’’تو فرمائیے۔‘‘ داؤد نے پوچھا۔
’’ہزار میں سے دو چار آدمیوں کے خون کا یہ نمبر ہوتا ہے۔‘‘
’’مجھے اپنی بیمار ماں کے لیے چاہیے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ دو سو لگیں گے۔‘‘
’’بہتر جناب۔‘‘ اس نے کچھ سوچنے کی ضرورت محسوس نہ کی۔
’’کل گیارہ بجے پہنچ جاؤں گا۔ آپ ساڑھے گیارہ بجے بینک کے پاس ملیے۔ ہاں آدھی رقم پیشگی ہوگی۔‘‘
داؤد نے چپ چاپ سوروپیہ اس کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ واپس ہسپتال گیا۔ ماں گہری نیند سو رہی تھی۔ اس نے جگانا مناسب نہ سمجھا اور تپائی پر بیٹھ گیا۔
گھر میں اسکی بری بہن ہوتی تھی جو دوتین سال سے بیوگی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ دو بچے تھے۔ بڑا لڑکا تھا نوسال کا چھوٹی لڑکی تھی جس کی عمر سات برس تھی اور کوئی تھا نہیں۔ باپ کو مرے ہوئے آٹھ سال بیت چکے تھے۔ اس لیے جب سے ان کی ماں خطرناک بیماری کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہوئی تھی دن کو تو داؤد ماں کے پاس رہتا تھا اور رات کو اس کی باجی آجاتی تھی اور وہ بچوں کے پاس گھر چلا جاتا تھا۔
گیارہ روز ہو چکے تھے اور ماں کی حالت خراب سے خراب تر ہو گئی تھی۔ عام طور پر نیم بیہوش رہتی تھی۔
دوسرے روز پونے بارہ بجے عبدالقادر بلڈ بینک کے پاس مل گیا۔
’’بوتل بینک میں آ چکی تھی۔ نرس سے کہہ کر منگوالیں بلکہ ضرورت کے وقت وہ خود ہی منگوالےگی۔‘‘
’’شکریہ، لیجیے اپنی رقم۔‘‘
اور داؤد نے سو روپے اس کے حوالے کر دیے۔
دو دن بعد ماں ہمیشہ کے لیے چلی گئی۔
کئی دن بعد جب وہ رو دھوکر غم برداشت کرنے کے قابل ہو گئے تو انھیں ازسرنو زندگی کے ٹوٹے ہوئے تار جوڑنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ حالات کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ جب تک باقاعدہ آمدنی کی صورت پیدا نہیں ہوگی شب و روز بسر نہیں ہو سکتے۔ تا ہم داؤد اپنی جگہ مطمئن تھا کہ قالینوں کی جس دکان میں بطور سیلزمین کے کام کرتا تھا اس کا مالک اس کی دیانت داری پر خوش تھا۔ اسے یقین تھا کہ جیسے ہی مالک سے ملےگا وہ اسے کام کرنے کا موقع دوبارہ دینے میں قطعاً کوئی اعتراض نہیں کرےگا۔
اس یقین کے ساتھ جس وقت وہ دکان میں داخل ہوا تو دو نئے آدمیوں کو دیکھ کر اس کا ماتھا وہیں ٹھٹکا۔
مالک اس سے بہت اچھی طرح ملا۔ اس کی ماں کے انتقال پر گہرے غم کا اظہار کیا اور اسے صبر کی تلقین کی اور پھر دوسری باتیں کرنے لگا کہ پچھلے دنوں کاروبار میں خاصا نقصان ہوا اور اس کی نئی کوٹھی ادھوری پڑی ہے۔
داؤد حیران تھا کہ وہ اصل معاملے کی طرف کیوں نہیں آتا۔ آخر کار اس نے خود ہی کہہ دیا،
’’تو شیخ صاحب، میں کل سے ڈیوٹی پر آنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘
’’مجھے افسوس ہے کہ اب ایسا نہیں ہو سکتا۔ فرم نے مجبور ہوکر دو آدمی رکھ لیے ہیں۔ اب کسی کی گنجائش ہرگز نہیں۔ کچھ مدت ٹھہر جاؤ، اللہ مالک ہے۔‘‘
جواب بالکل واضح تھا، اب اس سلسلے میں کچھ کہنا سننا فضول تھا۔ داؤد پھر کسی روز آنے کا کہہ کر دکان سے باہر آ گیا۔
اس دن کی تک و دو یہیں تک رہی۔ اصل میں دوکان کے مالک نے اسے اس درجہ مایوس کر دیا تھا کہ وہ کہیں اور جگہ نہ جا سکا۔ دوسرے دن وہ اپنے دوستوں کے یہاں مختلف دفتروں میں پہنچا۔ کہیں تو وعدہ فردا سنا اور کہیں معذرت کے چند لفظ۔ شام تک بیکار دوڑ دھوپ میں اپنی توانائی صرف کرتارہا۔ گھر آکر مضمحل اور نڈھال ہوکر بستر پر گر پڑا۔ اس کی باجی بھائی کی حالت کا اندازہ لگانے میں ناکام نہ رہی۔ بولی،
’’داؤد اتنے مایوس کیوں ہو۔‘‘
’’باجی۔ جہاں جہاں کچھ امید تھی وہاں گیا۔‘‘ داؤد فقرہ مکمل نہ کر سکا۔
’’تو ہوا کیا۔ کوشش کرتے رہو۔‘‘
وہ کوشش کرتا رہا۔ معمولی سی کلرکی کے لیے بھی ہاتھ پاؤں مارے مگر کامیابی کی صورت نظر نہ آئی۔
باجی نے چوری چھپے جو زیور بچ گئے تھے، ایک ہمسائے کے توسط سے بیچ دیے اور یوں گھر کا خرچ چلتا رہا۔
ناکام تگ و دو میں تین ماہ بیت گئے۔ پھر اسےایک فرم میں حساب کتاب رکھنے کے لیے پارٹ ٹائم کی جوب مل گئی۔
وہ مستعدی سے کام کرنے لگا مگر ایک دن یہ معمولی سی ملازمت بھی خطرے میں پڑتی ہوئی محسوس ہونے لگی کیوں کہ فرم کا ایک حصہ دار اپنا سارا حصہ لے کر الگ ہو گیا تھا۔
مجھے ضرور جواب مل جائےگا۔ اس نے سوچا اور اس کی سوچ نصف صحیح ثابت ہوئی کیونکہ اس کی تنخواہ آدھی کر دی گئی۔
اس تنحواہ سے گھر کے اخراجات کیونکر پورے ہو سکیں گے۔ یہ خیال اس کے لیے سوہان روح ثابت ہو رہا تھا۔
اس روز وہ اپنی فرم میں کام سے فارغ ہوکر واپس گھر جا رہا تھا کہ اس کی نظر عبدالقادر پر پڑ گئی۔ یکایک ایک خیال ایک کرن کی طرح اس کے ذہن میں چمک اٹھا۔
وہ بےاختیار ہوکر اس کی طرف بڑھا۔
’’السلام علیکم جناب۔ آپ عبدالقادر ہیں نا؟‘‘
عبدالقادر نے مسکرا کر اثبات میں سرہلا دیا۔
’’اور آپ داؤد ہیں۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’فرمائیے۔‘‘
عبدالقادر کے سوال پر وہ بولا،
’’اگر آپ کے پاس تھوڑا سا وقت ہو تو آئیے قریبی ریستوران میں چند لمحے گزار لیں۔‘‘
عبدالقادر کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ دونوں ایک قریبی ریستوران میں جاکر بیٹھ گئے۔
کچھ رسمی باتوں کے بعد داؤد نے اپنی دکھ بھری روداد سنائی اور بےروزگاری کا خاص ذکر کیا۔
’’داؤد صاحب! میں بھی اسی بےروزگاری کا ستایا ہوا تھا کہ پستی میں اترا کر اپنا خون بیچنے لگا۔ ایک بیوی۔ دو بچے۔ کیا کرتا۔‘‘
داؤد نے دو تین لمحے خاموش رہ کر اس کے چہرے کو تاکا اور پھر آنکھیں جھکا کر بولا،
’’کیا میں بھی؟‘‘
’’آپ۔ ایسا کریں گے؟‘‘
داؤد میں قوت گویائی شاید ختم ہو گئی تھی یا اس نے یوں محسوس کیا تھا۔ منہ سے کچھ نہ بولا۔ سر ہلاکر خالی پیالی ہونٹوں سے لگانےلگا۔
دونوں خاموش تھے۔ دونوں ہی اپنے اپنے خیالوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔
بیرا آیا۔ داؤد نے جیب سے پانچ کا نوٹ نکال کر پرچ پر رکھ دیا۔ بیرا پرچ لے کر چلا گیا۔
’’میں آپ کی مجبوری سمجھتا ہوں کیوں کہ اپنی مجبوری بھی سمجھ چکا تھا۔ اس کے لیے آپ کو بلڈ بینک کے انچارج شفیق سے ملنا ہوگا۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
داؤد ہنس پڑا۔
’’حضرت کیس تمہیں کون دےگا۔ اسی نے تو آپ کو میرے ہاں بھیجا تھا ورنہ آپ نے کبھی میرا نام بھی نہیں سنا ہوگا اور ایک بات اور۔۔۔ ہر کیس پر انچارج صاحب کو خون کا کمیشن دینا ہوگا۔‘‘
’’کتنی کمیشن۔‘‘
’’ہر کیس پچھتر روپے۔‘‘
داؤد سوچ میں پڑگیا۔
’’مجھے جلدی پہنچا ہے، ایک کیس کی توقع ہے۔‘‘ عبدالقادر اٹھ بیٹھا۔
وہ بھی اٹھ بیٹھا۔
’’منظور ہے۔ آپ مہربانی کرکے ان سے بات کر لیں۔‘‘
’’یوں نہیں ہو سکتا۔ میں کیسے بات کر سکتا ہوں۔‘‘ عبدالقادر کہنے لگا، ’’معاملہ آپ کاہے۔ آپ خود ان سے کہیں گے۔ کمیشن دینے کی ہامی بھریں گے۔ اپنا پتا نوٹ کروائیں گے۔ البتہ میں آپ کے ساتھ ان کے پاس چلا چلوں گا۔‘‘
بات طے ہو گئی۔
دوسرے روز بلڈ بینک کے انچارج سے گفتگو کرکے اور اپنا پتا لکھواکر واپس گھر آیا تو اس کے چہرے پر زندگی کی رونق دکھائی دے رہی تھی۔
’’کیا بات ہے داؤد۔ خوش معلوم ہوتے ہو!‘‘ اس کی باجی نےخوش ہوکر پوچھا۔
’’ہاں میں خوش ہوں۔ آمدنی کی صورت نکل آئی ہے۔‘‘
’’سچ؟ شکر ہے اللہ کا۔ وہ اپنے بندوں کا بڑا خیال رکھتا ہے۔‘‘
اور داؤد نے جلدی سے منہ پھیر لیا کیوں کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔
مأخذ : گلی گلی کہانیاں
مصنف:مرزا ادیب