کہانی کی کہانی:’’سچ کی تلاش میں نکلے ایک ایسے رپورٹر کی کہانی جو ایک ایسے گاؤں میں رپورٹنگ کی لیے جاتا ہے جو حال ہی میں ایک اچھا قصبہ بن کر ابھرا ہے۔ قصبے میں جاکر ہر چیز کی ایمانداری سے تحقیق کی۔ اگلے دن جس صفحہ پر اس کی رپورٹ شائع ہونی تھی، اس صفحہ پر اس کے موت کی خبر شائع ہوئی تھی۔‘‘
وہ علاقہ جو صرف ایک سال پیشتر ایک انتہائی پس ماندہ گاؤں سمجھا جاتا تھا، حکومت اور لوگوں کی مشترکہ منصوبہ بندی، ایثار اور محبت سے ایک اچھا خاصا ترقی یافتہ قصبہ بنگیا تھا۔ کھنڈرات کی جگہ ایک منزلہ، دو منزلہ اور کہیں کہیں سہ منزلہ مکانات سر اٹھائے کھڑے تھے۔ شاندار حویلیاں بھی اپنے مالکوں کےحسن ذوق کا ثبوت دے رہی تھیں۔ سڑکیں، تمام کی تمام تو نہیں۔ ان کی معقول تعداد ہر قسم کی ٹریفک کے قابل ہو گئی تھی۔ کھیتوں میں فصلیں لہرا رہی تھیں۔ قصبے کے بعد حضوں میں کچھ مکان اور جھونپڑیاں بھی نظر آ جاتا تھیں مگر ان کے وجود سے قصبے کی مجموعی ترقی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا تھا۔
قصبے کی مجموعی ترقی میں ایک شخص کا بڑا حصہ تھا۔ شہر سے اخباروں کےجو رپورٹر اس قصبے میں آنکھوں دیکھا حال دیکھنے گئے تھے۔ انہوں نے چند روز وہاں ٹھہر کر اپنے اپنے اخباروں کو جو رپورٹیں بھیجیں تھیں ان میں اس قصبے کی ترقی کا تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا اور یہی ترقی کا سرچشمہ حاجی رحیم علی کی ذات کو قرار دیا گیا تھا جن کے پوتے کے نام پر اب اس قصبے کا نام ’خرم آباد‘ مشہور ہو گیا تھا۔
اخبارات کی رپورٹیں پڑھ پڑھ کر شہروں میں رہنےوالے لوگوں کی ’خرم آباد‘ میں دلچسپی لینی کوئی خلاف توقع بات نہیں تھی۔ وہ سمجھنے لگے تھے کہ خرم آباد اسی طرح بارونق ہوتا چلا گیا تو ایک روز یہ قصبہ نہیں رہےگا، شہر بن جائےگا۔
اخباروں میں ’خرم آباد‘ کی ہمہ جہت ترقی و فروغ کی روداد وقفے وقفے سے شائع ہو رہی تھیں مگر ایک ہفت روزہ ایسا بھی تھا جس میں اس سلسلے کی کوئی تحریر نہیں چھپتی تھی۔ اس ہفت روزہ کا نام ’صداقت شعار‘ تھا اور اس کے مالک اور ایڈٹر علی نیاز تھے۔ جن کا دعویٰ تھا کہ ان کے پرچے کاصرف نام ہی صداقت شعار نہیں ہے۔ وہ اپنی پالیسی کے اعتبار سے بھی صداقت شعار ہے۔
تو ایک روز جب پرچے کے آخری صفحات پریس کو بھجوائے جا چکے تھے، علی نیاز کے کمرے میں ان کے اخبار کا رپورٹر مختار احمد کرسی میں بیٹھا چائے پی رہا تھا اور کنکھیوں سے اخبار کے مالک کو بھی دیکھے جا رہا تھا جو کسی خط کا مطالعہ کر رہے تھے۔
خط پڑھ کر انہوں نے کاغذ تہ کرکے ایک فائل میں رکھ دیا اور رپورٹر سے مخاطب ہوئے،
’’مختار صاحب پڑھنے والوں کو ہم سے کچھ شکایت ہے۔‘‘
’’کیا شکایت ہے جناب!‘‘
’’کئی روزناموں اور ہفت روزوں میں خرم آباد کی خبریں چھپ چکی ہیں۔ ہم نے کچھ نہیں چھاپا۔‘‘
’’یہ تو درست ہے جناب۔‘‘
’’تو کیا سوچتے ہیں آپ!‘‘ علی نیاز نےاپنی چائے کی پیالی اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’میں تو یہی سوچ سکتا ہوں کہ رپورٹنگ کے لیے وہاں چلا جاؤں۔‘‘
اور علی نیاز نے چائے کا لمبا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے اپنے رپورٹر کی سوچ کی تائید کر دی۔
اپنے باس سےگفتگو کرنے اور خرم آباد کے سفر کا پروگرام طے کرنےکے بعد مختار احمد اخبار کی چھوٹی سی لائبریری میں چلا گیا۔ وہاں اس نے ایک روزنامے کے وہ شمارے شیلف میں سے نکالے جن میں خرم آباد کے بارے میں کچھ رپورٹیں چھپتی تھیں۔
ان رپورٹوں کے مطالعے سے اس نے ضروری معلومات اپنے ذہن میں محفوظ کر لیں۔ اسے معلوم ہو گیا کہ ’خرم آباد‘ میں ایک سرائے بھی ہے اور ایک ہوٹل بھی۔ اس نے سوچ لیا کہ وہ سرائے کی بجائے ہوٹل میں قیام کرے گا کہ وہاں نسبتاً سکون مل سکتا ہے اور سکون کے ساتھ اپنا کام کر سکتا ہے۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق پیر کی صبح کو وہ اپنا سوٹ کیس ایک ہاتھ میں اور دوسرے میں کاغذوں اور کتابوں کا ایک بنڈل لے کر لاری اڈے کی طرف چل پڑا۔
مقررہ وقت پر لاری روانہ ہو گئی۔
سفر کے دوران میں وہ کسی نہ کسی کتاب کے پڑھنے میں زیادہ وقت صرف کر دیتا تھا۔ اس سفر میں بھی اس نے ایک کتاب کا انتخاب کیا، سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر آہستہ آہستہ ورق گردانی کرنے لگا۔
مارچ کے آخری ہفتے کا پہلا دن تھا۔ بہار کا آغاز ہو چکا تھا۔ فضا میں قدرے خنکی تھی کبھی کبھی کتاب سے نظریں ہٹاکر وہ کھڑکی سے باہر دیکھتا تھا تو اسے پتوں سے لدی ہوئی پیڑوں کی ڈالیاں ہرے بھرے کھیتوں کی ہریالی اور باغوں میں پھولوں سے لدے ہوئے پودے نظر آ جاتے تھے جو اسے تروتازگی کااحساس دے جاتے تھے۔
تین گھنٹے بیت چکے تھے اور ابھی ڈیڑھ گھنٹے کا سفر باقی تھا۔ یہ باقی سفر اس نے طرح طرح کے مناظر سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارا۔
آخر لاری اڈے پر پہنچ کر رک گئی۔ وہ خرم آباد کے قصبے میں تھا۔
اپنا سوٹ کیس اور کتابوں کا بنڈل سنبھال کر وہ نیچے اترا اور ہوٹل کی تلاش میں ایک طرف چند قدم ہی چلا ہوگا کہ اس نے محسوس کیا کہ دو آدمی اسے بری طرح گھور رہے ہیں۔
’’کون ہیں؟‘‘ اس کے ذہن میں سوال ابھرا مگر اس پر غور کرنے یا اپنی جگہ پر رک جانے کی بجائے وہ ایک طرف چلنے لگا جیسے ان سے بےنیاز ہے۔ دو قدم ہی چلا ہوگا کہ بیک وقگ دو ہاتھ بڑے، ایک ہاتھ نے اس کاسوٹ کیس پکڑنے کی کوشش کی اور دوسرے نے کتابوں کا بنڈل اس کے ساتھ ہی نیلے رنگ کی ٹیوٹاکار اس کے پاس آکر ٹھہر گئی۔ ڈرائیور تیزی سے اترا اور اس نے کار کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔
مختار کو اس قسم کے واقعے کاکوئی خیال نہیں تھا۔ حیرت سے بولا،
’’کون ہیں آپ لوگ؟‘‘
’’آپ اخبار ’صداقت شعار‘ کے دفتر سے آئے ہیں؟‘‘ وہ شخص جو مختار کا سوٹ کیس پکڑنے میں کوشاں تھا، ادب اور احترام سے کہنے لگا
’’جی ہاں میں صداقت شعار کا رپورٹر ہوں۔‘‘
’’تو پھر چلیے۔‘‘
مختار نے ابھی تک اپنی چیزیں ان کے حوالے نہیں کی تھیں۔ بڑھے ہوئے ہاتھ سوٹ کیس اور کتابوں کے بنڈل کو چھو رہے تھے۔
’’کہاں چلوں، تعارف تو کرائیے۔‘‘
’’میں سرکار نے بھیجا ہے کہ آپ کو بنگلے میں پہنچا دیں۔ آپ ان کے معزز مہمان ہیں۔‘‘
’’سرکار کون؟‘‘
دونوں ہنس پڑے۔ ان کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ مختار کی بے خبری یا حماقت پر ہنس رہے ہیں۔
’’آپ سرکار سے واقف نہیں۔ حاجی رحیم علی صاحب۔۔۔ آپ نے یہ نام ضرور سنا ہوگا۔‘‘
’’سنا ہے مگر دیکھیے۔۔۔‘‘
مختار اپنا فقرہ مکمل نہ کرسکا۔ ڈرائیور جھٹ بول اٹھا،
’’جناب! خرم آباد میں جو بھی بڑے لوگ آتے ہیں، ہمارے حاجی صاحب انھیں اپنے یہاں ٹھہراتے ہیں۔‘‘
’’مگر میں تو بڑے لوگوں میں شامل نہیں ہوں۔‘‘
’’جی آپ ہیں جی۔ اخباروں والے بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ سرکار ہی انھیں اپنے مہمان بناتے ہیں۔‘‘
ڈرائیور نے کہا،
’’یہ دے دیجیے نا ہمیں گاڑی میں رکھ لیں۔‘‘ ایک بولا۔
’’میں حاجی صاحب کا شکر گزار ہوں۔ لیکن میں یہاں کسی کا مہمان بننے کے لیے نہیں آیا۔‘‘ مختار کے لہجے سے انکار کے باوجود نرمی کا اظہار ہو رہا تھا۔
تینوں حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
’’مگر یہاں کا یہی طریقہ ہے۔‘‘ ڈرائیور نے گاڑی کے دروازے کو پوری طرح کھول دیا تھا۔
’’میں اس طریقے پر عمل نہیں کر سکتا۔‘‘
’’لیکن سرکار ہم پر خفا ہوں گے۔‘‘
’’ان سے ملاقات ہوگی تو میں خود ہی ان سے معذرت کر لوں گا۔ آپ ان تک میرا شکریہ پہنچا دیں۔‘‘
وہ دونوں ہاتھ سوٹ کیس اور کتابوں سے ہٹ کرآہستہ آہستہ سرک رہے تھے۔
’’تو آپ۔۔۔؟‘‘
’’آپ میری فکر نہ کریں۔ میں ہوٹل میں ٹھہروں گا۔ آپ کی مہربانی ہوگی جو آپ مجھے ہوٹل کا پتا بتا دیں۔‘‘
تینوں اس طرح حیرت میں ڈوبے ہوئے تھے کہ ان میں سے کسی نے بھی مختار کی بات سمجھنے کی کوشش نہ کی۔ مختار انھیں اس حالت میں چھوڑ کر چلنے لگا۔
لوگ آ جا رہے تھے۔ سائیکلوں کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ تانگوں کی بگیاں بھی تھیں۔ سجی سجائی اور سامان سے بھری ہوئی دکانیں دیکھ کر اسےاحساس ہو رہا تھا کہ ایک نو آباد قصبے میں نہیں۔ اپنے شہر ہی کے ایک بازار سے گزر رہا ہے۔
ایک پنساری کی دکان کے سامنے،ذہن میں اس سوال آ جانے کی وجہ سے وہ رک گیا۔ ’’ہوٹل ہے کہاں؟‘‘ اور اس نے پنساری سے پوچھا۔
’’کیا آپ مجھے ہوٹل کا پتا بتائیں گے!‘‘
’’ضرور۔ ضرور۔ دیکھیے سیدھے چلے جائیے۔ دائیں طرف ایک پھل والے کی دوکان نظر آئے گی۔ اس دکان کے ساتھ جو گلی ہے اس کے آخر میں ہوٹل ہے۔‘‘
مختار نے پنساری کا شکریہ ادا کیا۔ چند منٹ چلنےکے بعد وہ ایک گلی کے اندر، ایک دو منزلہ، پرانی عمارت کے سامنے کھڑا تھا۔ عمارت کی پیشانی پر جلی حروف میں لکھا تھا، ’’خرم ہوٹل اینڈ ریسٹورنٹ۔‘‘
ہوٹل کےایک چھوٹے سے ہال میں کچھ لوگ چائے پی رہے تھے اور ایک کونے میں، میز کے سامنے ہوٹل کا مالک بیٹھا ایک لمبے سے رجسٹر پر جھکا ہوا تھا۔
’’جناب مجھے کمرہ چاہیے۔‘‘
ہوٹل کے مالک نے دوتین لمحے اسے گھور کر دیکھا۔
’’کہاں سے آئے ہیں۔ کیا کام ہے، کب تک قیام کا ارادہ ہے؟‘‘ اور مختار سے اپنے ان سوالوں کے جواب سن کر حیرت زدہ لہجے میں بولا۔
’’آپ اخبار سے آئے ہیں تو سرکار کے مہمان ہوتے۔ کیا ان کے آدمی آپ کو لینے نہیں پہنچےتھے؟‘‘
’’پہنچے تھے۔ میں نے معذرت کر لی تھی۔‘‘
مختار نے محسوس کیا کہ نہ صرف ہوٹل کے ملک کی نظریں اسے حیرت سے دیکھ رہی ہیں دوسرے بھی اسے غور سے تکنے لگے ہیں۔ یہ صورت حال اس کے لیے قدرے پریشان کن تھی اور وہ جلد اس سے نجات پانا چاہتا تھا اس لیے بولا،
’’میں نے کچھ عرض کیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ کمرہ خالی ہے۔ اے فیروز۔‘‘ اس نے بلند آواز سے ہوٹل کے بیرے کو پکارا۔
’’صاحب کو اوپر سات نمبر میں لے جاؤ۔‘‘
مختار نے رجسٹر پر دستخط کیے اور بیرے کے ساتھ سیڑھیاں طے کرنے لگا۔
عام سا کمرہ تھا۔ فرش ننگا۔ دیواریں بوسیدہ۔ ایک دیوار کے ساتھ چار پائی بچھی ہوئی۔ پاس ایک میز اور دو دقیانوسی کرسیاں پڑی تھیں۔
’’ہوا دار کمرہ ہے۔ کسی چیز کی ضرورت؟‘‘
مختار نے کتابیں میز کے اوپر رکھ دیں۔ سوٹ کیس بیرا میز کے نیچے رکھ چکا تھا۔
’’میں نہاؤں گا۔ پھر چائے کی ایک گرم گرم پیالی۔‘‘
’’ایک غسل خانہ اوپر بھی ہے۔ سیڑھیوں کے پاس۔ آپ نہالیں۔ چائے آ جائےگی۔‘‘
بیرے کے جانے بعد مختار نے سوٹ کیس میں سے تولیہ اور صابن نکالا اور غسل خانے میں چلا گیا۔ نہا دھوکر اپنے کمرے کی طرف جا رہا تھا کہ اس نے دیکھا ہوٹل کا مالک دروازے کے پاس کھڑا بے تابی سے اس کا انتظار کر رہا ہے۔
’’میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایسا ہو نہیں سکتا۔ سرکار خود آئے ہیں۔ آئیے نیچے۔‘‘
وہ ہوٹل کے مالککے پیچھے پیچھے سیڑھیوں سے اترنےلگا۔
ایک فربہ اندام شخص کرسی میں بیٹھا تا۔ سر پر پگڑ، حاجیوں والا رومال دونوں کندھوں پر پھیلا ہوا۔ خشخشی داڑھی بہت بڑھیا کرتے، شلوار اور لمبی واسکٹ میں ملبوس۔ ہاتھ میں سرخ رنگ کی قیمتی چھڑی۔
مختار کو نیچے اترتے ہوئے دیکھ کر وہ کھڑا ہو گیا۔
’’ارے صاحب! یہ آپ نے کیا غضب کیا ہے۔ ہمارے ہوتے ہوئے آپ ہوٹل میں ٹھہریں۔ یہ آپ کے ساتھ بھی ناانصافی ہے اور ہمارے ساتھ بھی۔‘‘ اس نے ایک ہی سانس میں یہ سب کچھ کہہ دیا۔
’’اگر میں غلطی نہیں کرتا تو آپ جنب حاجی رحیم علی ہیں۔‘‘
’’آپ کا خادم۔‘‘
’’میں آپ کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘
’’نہیں صاحب نرے شکریے سے کام نہیں چلےگا۔‘‘ حاجی صاحب کے لہجے میں بے تکلفی تھی۔
’’حاجی صاحب۔‘‘ مختار کہنے لگا۔ ’’میرے ایڈیٹر صاحب نے مجھے اتنی رقم دے دی ہے کہ بڑی سہولت کے ساتھ ہوٹل میں قیام کر سکتا ہوں۔‘‘
’’آپ ہمیں میزبانی کی عزت بخشیں گے تو کیا آپ کے ایڈیٹر صاحب ناراض ہو جائیں گے۔‘‘ حاجی صاحب نے مسکراکر پوچھا۔
’’جی نہیں، ایسی تو کوئی بات نہیں۔‘‘
’’اس پر حاجی صاحب نے ہلکا ساقہقہہ لگایا۔ آپ کے ایڈیٹر صاحب کو کوئی اعتراض نیں۔۔۔ پھر آپ کو کیا اعتراض ہے؟‘‘
مختار کو بھی مسکرانا پڑا۔
’’کیا اعتراض ہے آپ کو؟‘‘
’’حاجی صاحب! اعتراض والا کوئی معاملہ نہیں لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے میرے ایڈیٹر صاحب نے مجھے جو رقم دی ہے خرچ کرنے ہی کے لیے دی ہے۔‘‘
’’تو رپورٹر صاحب۔۔۔ معاف کیجیے کیا اسم گرامی ہے آپ کا۔‘‘
’’مختار احمد۔‘‘
’’یہ رقم مجھے دے دیں اور سمجھ لیں خرچ ہو گئی۔‘‘
حاجی صاحب نے اپنا فقرہ مکمل نہیں کیا تھا کہ ہوٹل کے مالک اور ہال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے بھرپور قہقہے سے فضا گونج اٹھی۔ مختار کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس گتھی کو کس طرح سلجھائے۔ اس نے یہی الفاظ کہنے پر اکتفا کیا، ’’میں معذرت خواہ ہوں۔‘‘
حاجی صاحب نے محسوس کر لیا تھا کہ مختار نے بڑی سنجیدگی سے اپنے رویے کا اظہار کیا ہے لیے انہوں نے اپنی بات پر اصرار کرنا مناسب نہ سمجھا۔
’’آپ کی مرضی۔ ہم تو ہر خدمت کے لیے حاضر ہیں۔‘‘ اور وہ اسی لمحے ہوٹل کے ملک سے مخاطب ہوئے۔
’’انوار صاحب! یہ ہمارے معزز مہمان ہیں۔ انھیں کسی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ فی الحال آپ کے ہوٹل ہی میں رہیں گے۔‘‘
’’بالکل تکلیف نہیں ہوگی۔ ان کی خدمت کرکے ہمیں بڑی خوشی ہوگی۔‘‘
حاجی صاحب ہوٹل کے ہال سے نکل گئے تو مختار اوپر جانے لگا۔ چند منٹ بعد بیرا چائے لے آیا۔
’’کھانا صاحب؟‘‘
’’ایک گھنٹے بعد۔‘‘
مختار نے چائے کے گھونٹ بھرتے ہوئے اپنی کرسی کمرے کی واحد کھڑکی کےقریب کھسکا لی۔
چھوٹے بڑے مکان دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ ایک طرف درختوں کی قطاریں افق کے دھندلکوں میں پہنچ کر غائب ہو گئی تھیں۔ فضا میں کبھی دھوپ چمک اٹھتی تھی اور کبھی بادلوں کی وجہ سے دھواں دھواں ہو جاتی تھی۔ بازاروں میں لوگوں کا ہجوم تھا۔ ہر دکان کے آگے ایک دو گاہک کھڑے تھے۔
وہ اس وقت تک کھڑکی کے پاس کھڑا رہا جب تک بیرے نے آکر کھانے کی اطلاع نہ دی۔
کھانا کھانے کے بعد اس نے حسب عادت سگریٹ سلگایا، ہونٹوں سے لگایا اور چارپائی پر نیم دراز ہو گیا۔
اپنا پروگرام کہاں سے شروع کرے۔ اس کے بارے میں سوچتے ہی اسے اس خط کا خیال آ گیا جو اس کے ایڈیٹر نے اپنے کمرے میں بلاکر اسے سنایا تھا، اسے احساس ہونے لگا کہ یہ خط ضرور کسی نے لکھواکر دفتر کو بھجوایا تھا، کیا یہ کارستانی خود حاجی صاحب کی تو نہیں تھی اور یہ بات سوچتے ہی حاجی صاحب اس کی نظروں کے سامنے آ گئے۔
’’سنا گیا ہے یہ شخص آدھے قصبے کا مالک ہے۔ دور دور تک بڑی نیک نامی حاصل کر چکا ہے۔ اس کے باوجود مجھ جیسے معمولی رپورٹر کی اتنی پذیرائی کی وجہ؟‘‘
اس سوال نے اسے الجھن میں ڈال اور وہ اس پر غور کر ہی رہا تھا کہ یوں لگا جیسے دروازے پر دستک ہوئی ہے۔
’’یہ کون ہے۔ بیرا تو نہیں ہو سکتا۔ اس نے پہلی مرتبہ بھی دروازے پر دستک نہیں دی تھی۔‘‘
سگریٹ آدھے سے زیادہ جل چکا تھا۔ وہ اس نے فرش پر پھینک کر اپنے بوٹ سے اسے مسل دیا اور دروازے کی طرف منہ کرکے بولا۔
’’آئیے۔‘‘
ایک لمبا تڑنگا، لمبی مونچھوں والا شخص فائیل بغل میں دبائے اندر آ گیا اور سر جھکاکر، بڑے ادب و احترام سے سلام کر کے کہنے لگا،
’’آپ فارغ ہیں؟‘‘
’’جی فرمائیے!‘‘
’’ذرا آپ کو گھمانا پھرانا تھا۔‘‘ اور وہ کرسی میں بیٹھ گیا۔
’’میں گھومنے پھرنے ہی کے لیے تو آیا ہوں۔ آپ کی تعریف؟‘‘
’’میں سرکار کا منشی ہوں۔ منصوبہ سازی میں ان کو مشورے دیتا ہوں۔ سرکار نے ایک معمولی سے گاؤں کو ایک مثالی قصبہ بنا دیا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ۔۔۔‘‘
’’منشی صاحب۔‘‘ مختار نے اسے فقرہ مکمل کرنے نہ دیا۔ ’’آپ نے کیسے قدم رنجہ فرمایا؟‘‘
’’وہ۔۔۔ آپ یہاں پہلی مرتبہ تشریف لائے ہیں نا۔‘‘
’’جی ہاں۔‘‘
’’میرا کام یہ ہے کہ باہر سے جو بھی معزز مہمان آئیں ان کی کچھ خدمت کروں۔ آنےوالے مہمان کو یہ تو معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں کیا ہو رہا ہے اور کیا کیا منصوبے بنائے گئے ہیں۔ یہ دیکھیے۔’’ اور منشی نے فائیل بغل سے نکالی اور اس میں سے کاغذ نکالنے لگا۔ ‘‘لڑکیوں کے لیے دو سکول، ایک مڈل تک، ایک ہائی، چار پرائمری سکول۔ میرا مطلب ہے چار اور پرائمری سکول۔ سرکار کئی مدرسے بنوا چکے ہیں۔ دو ہسپتال زیر تعمیر ہیں۔ کام جاری ہی رہتا ہے جی۔ یہ نقشہ دیکھیے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے منشی ایک تہ کیا ہوا نقشہ کھولنے لگا۔
’’یہ لڑکیوں کا ہائی اسکول ہے۔ اس کے ساتھ ایک وسیع گراؤنڈ ہوگی۔ لڑکیوں کے لیے باپردہ اسکول ہوں کے۔ ایک مہمان خانہ بھی تعمیر ہو رہا ہے۔ بچوں کے لیے ایک بہت خوبصورت پارک پر کام ہو رہا ہے۔ یہ منصوبہ کے نقشے ہیں۔ جو صاب بھی تشریف لاتے ہیں میں ان کی خدمت میں ہر منصوبے کا ایک مکمل نقشہ پیش کر دیتا ہوں۔ اخباری حضرات مجھ سے ہی نقشے لے جاتے ہیں اور اخباروں میں انھیں چھاپ دیتے ہیں۔ آپ کی خدمت میں بھی پیش کرتا ہوں۔‘‘
منشی نے پورا فائل مختار کی طرف بڑھا دیا۔
’’شکریہ۔‘‘
’’آپ کےکام آئےگا۔‘‘
’’مہربانی کا شکریہ۔ یہ عمارتیں۔ لڑکیوں کے سکول، پرائمری سکول ہسپتال۔ مکمل ہیں؟‘‘ مختار نے پوچھا۔
’’بڑی تیزی سے کام ہو رہا ہے۔ سرکارکی خواہش اور کوشش یہی ہے کہ یہ منصوبے جلد سے جلد مکمل ہو جائیں۔ کیوں کہ ان کے ذہن میں اور منصوبے بھی ہیں۔ نئے باغات بھی لگوانے کا ایک خاص منصوبہ زیر غور ہے۔‘‘
’’ٹھیک ٹھیک۔‘‘
’’تو اب آپ فارغ ہیں نا۔‘‘ منشی نے سوال کیا۔
’’آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ایک کام تو کر لیا ہے میں نے۔‘‘ منشی نے فائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’اس فائل میں آپ کو تمام منصوبوں کی مکمل تفصیل مل جائےگی۔ دوسرا کام یہ ہے کہ آپ کو سیر کرائی جائے۔‘‘
’’دیکھیے منشی صاحب! آپ ایک ہی کام پر اکتفا کریں۔‘‘
’’جی میں سمجھا نہیں۔‘‘
’’آپ نے فائل دے دی ہے۔ کرم آپ کا اور حاجی صاحب کا۔ دوسرا کام مجھ پر ہی چھوڑ دیں۔‘‘
منشی حیرت سے اسے تکنے لگا۔
’’مہمان سیر کرکے خوش ہوتے ہیں۔‘‘
’’میں تنہا سیر کرنےمیں زیادہ خوش ہوتا ہوں۔ عادت ہے میری اور آپ جانتے ہیں، پرانی عادت سے چھٹکارا پانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔‘‘ مختار نے تکلفا اپنے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا کر لی۔
منشی کے چہرے سے اس کی مایوسی مترشح تھی۔
مختار نے فائل ابھی تک ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی اب اس نے اسے سرہانے کے اوپر رکھ دیا۔
’’میرا خیال ہے آپ کچھ تھک چکے ہیں۔ ابھی آرام کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ منشی پوری طرح مایوس ہونا نہیں چاہتا تھا۔
’’لاری میں کافی دھچکے لگے تھے۔‘‘
’’شام کو کیا پروگرام ہے۔‘‘ منشی نے کرسی سے اٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’ابھی تو آرام کروں گا۔‘‘
منشی نے جھک کر سلام کیا اور چلا گیا۔
منشی چلا گیا تو مختار نے فائل تکیے سے اٹھائی اور ایک ایک نقشے کی تہیں کھولنے لگا۔ ہر نقشے کے ساتھ اس کی پوری تفصیل درج تھی اور ایک الگ طویل مضمون میں حاجی صاحب کے وہ سارے کارنامے بھی درج تھے جو انہوں نے خرم آباد کو ملک کا ایک مثالی قصبہ بنانے کے سلسلے میں انجام دیے تھے۔ اسے یاد آگیا کہ ’خرم آباد‘ کے بارے میں اس نے سفر پر روانہ ہونے سے پیشتر اخبار میں جو مضامین دیکھے تھے ان میں یہ مضمون بھی شامل تھا۔
ابھی وہ نقشوں کا جائزہ لے ہی رہا تھا ک اس کی آنکھوں میں نیند آ گئی اور وہ فائل قریبی کرسی پر رکھ کر چارپائی پر لیٹ گیا اور سو گیا۔ وہ دن کے وقت سونے کا عادی نہیں تھا مگر اس روز تھکاوٹ کی وجہ سے دیر تک سوتا رہا۔ آنکھ اس وقت کھلی جب کمرے میں شام کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔
غسل خانے میں جاکر اس نے منہ دھویا اور جب لوٹا تو کمرہ روشن تھا۔
’’جناب دو مرتبہ چائے لے کر آیا۔ آپ سو رہے تھے۔‘‘
’’لے آؤ۔‘‘
بیرا چلا گیا اور جب تک وہ چائے لے کر لوٹے مختار کھڑکی کے پاس کھڑا رہا۔ جگمگاتی ہوئی فضا اسے اچھی لگی اور اس کا جی بے اختیار چاہا کہ نیچے اتر کر فوراً گھومے پھرے، بیرا چائے لے آیا۔
’’کھانا جناب؟‘‘
’’واپسی پر۔‘‘
’’آپ سرکار کے ہاں جا رہے ہیں؟‘‘
’’نہیں بھئی۔ یہیں گھوم کر واپس آ جاؤں گا۔‘‘
’’سرکار، سرکار۔ ہر بات میں سرکار۔ معلوم ہوتا ہے سرکار کی ذات ان کے دل و دماغ پر مسلط ہو کر رہ گئی ہے۔ مختار نے چائے پیتے ہوئے سوچا اور خالی پیالی میز پر رکھ کر نیچے اترا۔‘‘
’’کہیں چلیےگا حجور۔‘‘ مختار نے اپنی بائیں جانب دیکھا۔ ایک تانگہ کھڑا تھا اور یہ سوال کوچوان نے کیا تھا۔
’’ہاں۔‘‘
کوچوان نے گھوڑے کی پشت پر تھپکی دی اور گھوڑا چلنے لگا۔ یکایک مختار کے ذہن میں ایک خیال آ گیا۔
’’تانگے والے!‘‘
تانگا رک گیا۔
’’جی حجور۔‘‘
’’صبح یہاں آ جاؤگے۔ ہوٹل پر؟‘‘
’’آجاؤں گا۔ کتنے بجے حجور؟‘‘ کوچوان نے پوچھا۔
’’آٹھ، ساڑھے آٹھ۔‘‘
کوچوان نے ’’بہتر‘‘ کہا اور اس کا گھوڑا ہلکی چال سے چلنے لگا۔
ہوٹل سے نکلتے وقت مختار اپنا کیمرہ لے آیا تھا جو اس کے گلے میں لٹک رہا تھا۔
اس نے بارونق دکانوں کے فوٹو لیے اور نیا فوٹو لینے کی تیاری کر رہا تھا کہ ہارن کی آواز اس کے کان میں آئی۔ اس نے مڑ کر دیکھا۔ وہی گاڑی تھی جو لاری اڈے پر اسے لینے کے لیے پہنچی تھی۔ ڈرائیور کہہ رہا تھا،
’’میں ہوٹل پہنچا تھا۔ پتا چلا آپ گھومنے پھرنے نکلے ہیں۔ بیٹھیے۔‘‘
’’مجھے پیدل چلنے میں لطف آ رہا ہے۔‘‘
’’سرکار نے کہا ہے آپ کو سیر کرائی جائے۔‘‘
’’اس طرح سیر کرنے میں زیادہ مزا ہے۔‘‘
ڈرائیور سر کھجانے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے۔ ایک دو منٹ وہاں کھڑا رہا پھر گاڑی میں بیٹھ گیا۔
وہ چلتے چلتے قصبے کےاس حصے میں پہنچ گیا تھا جو نسبتاً کم رونق تھا۔ یہاں چھوٹے چھوٹے مکان نظر آر ہے تھے۔ ان میں کچھ کچے مکان بھی تھے۔
’’یہاں قصبے کا غریب طبقہ رہتا ہے۔ کل میں یہیں آؤں گا۔‘‘ اس نے دل میں ارادہ کر لیا اور واپس جانے لگا۔
صبح ناشتا کرنےکے بعد اس نے کلائی پر نظر ڈالی۔ آٹھ بج چکے تھے۔ پروگرام تانگے والے سے طے ہو چکا تھا اس لیے وہ اپنا سازوسامان لے کر نیچے اترا، چند منٹ ہال کی ایک کرسی پر بیٹھ کر تانگے کا انتظار کرتا رہا۔
’’جناب چائے لاؤں؟‘‘ بیرے نے پوچھا۔
’’ناشتا تو کر چکا ہوں۔ انتظار ہے۔‘‘
’’کس کا جناب۔‘‘
’’تانگہ آئےگا؟‘‘
’’تانگہ جناب؟‘‘ بیرے نے حیرت سے سوال کیا، اس لمحے کسی نے چمچہ ہولے سے میز پر مار کر بیرے کو اپنی طرف بلالیا۔ مختار باہر آ گیا۔ تانگہ پہنچ شکا تھا۔
’’ماف کریں حجور ذرا دیر ہو گئی۔‘‘ تانگے سے اترکر کوچوان نےکہا۔
’’کوئی بات نہیں۔‘‘
وہ تانگے میں بیٹھ گیا۔
’’حجور فرمایے۔‘‘
’’تمہارا نام کیا ہے میاں کوچوان؟‘‘
’’میرا نام چراغ دین ہے۔ بیس برس سے یہ دھندا کر رہا ہوں۔‘‘
’’یہاں سے نکلو پہلے۔ پھر بتاؤں گا کہاں جانا ہے۔‘‘
تانگہ بازارمیں سے گزرنے لگا۔ آدھ گھنٹے کے بعد ایک دوراہے پر آ گیا۔
’’کدھر جانا ہے حجور؟‘‘
’’چراغ دین تم بیس برس سے یہاں ہو۔ تمہیں ہر چیز کا علم ہوگا۔ وہاں چلو جہاں لڑکوں، لڑکیوں کے سکولوں اور ہسپتالوں کی عمارتیں بنائی جا رہی ہیں۔ سب عمارتوں پر جانا ہے۔‘‘
چراغ دین نے مڑ کر کچھ اس انداز سے مختار کو دیکھا جیسے وہ گھبرا گیا ہو۔
’’یہ میں نہیں جنتا حجور۔‘‘
مختار کو چراغ دین کی طرف سے اس بات کی توقع نہیں تھی۔ بولا، ’’چراغ میاں، تم کہتے ہو بیس برس سے یہاں ہو اور تمہیں ان عمارتوں کی خبر نہیں ہے۔ کیسے کوچوان ہو تم؟‘‘
’’کہیں اور؟‘‘ چراغ دین کا سرجھکا ہوا تھا۔
’’اور کہاں جانا ہے مجھے یہ ساری عمارتیں۔ یہ کام بہت ضروری ہے۔ میں آخر آیا کس مقصد کے لیے ہوں۔ اتار دو مجھے۔‘‘
مختار نے پائیدان پر دایاں پاؤں رکھ دیا۔
’’ناراج نہ ہوں حجور۔‘‘
’’تم بات ہی ایسی کرتے ہو۔‘‘
مختار کا پاؤں پائیدان پر ہی تھا مگر وہ تانگے سے نیچے اترا نہیں تھا۔
’’حجور۔‘‘
چراغ دین کے منہ سے یہ لفظ سن کر اور اس کے چہرے کی کیفیات پر نظر ڈال کر مختار نے اندازہ لگایا کہ وہ کچھ چھپانے کی کوشش کر رہا ہے۔
مختار نے اپنا پاؤں کھینچ لیا۔
’’چراغ دین مجھے سچ سچ بتاؤ معاملہ کیا ہے۔‘‘
’’حجور میں کبھی ادھر گیا نہیں ہوں۔‘‘
’’اس لیے تو میں کہتا ہوں مجھے اتار دو۔ پچھ گچھ کرکے پیدل چلا جاؤں گا۔‘‘
چراغ دین سوچ میں پڑ گیا۔
’’بیٹھے رہیے۔‘‘
گھوڑے کی رفتار خاصی سست تھی۔ کوچوان بھی خاموش تھا اور اس کی سواری بھی۔
ایک جگہ جاکر چراغ دین نے گھوڑے کی لگام کھینچ لی۔ آہستہ آہستہ تانگے کی حرکت بند ہو گئی۔
سامنے ایک وسیع میدان میں، جہاں جگہ جگہ پانی کھڑا تھا، اینٹوں کے کچھ ڈھیڑ پڑے تھے اور چند دیواریں بھی نظر آ رہی تھیں۔
’’یہ مجھے کاں لے آئے ہو تم چراغ دین۔‘‘ مختار نے ذرا غصے سے کہا۔
’’حجور یہاں عمارتیں بنیں گی۔‘‘
’’سکولوں کی اور ہسپتالوں کی؟‘‘
’’حجور۔‘‘
’’مگر یہاں تو ایک عمارت بھی مکمل نہیں ہے۔‘‘
چراغ دین خاموش رہا۔
’’تم مجھے غلط جگہ پر لے آئے ہو۔ اس فائل میں جو نقشے ہیں۔ مجھے ان نقشوں کی عمارتیں دیکھنا ہیں۔‘‘
’’وہ میں نہیں جانتا۔‘‘
مختار کو غصہ آیا مگر نہ جانے کیوں اس کے ذہن میں یہ احساس جاگ اٹھا تھا کہ چراغ دین اصل معاملہ چھپا رہا ہے۔ بہرحال اس نے جو کچھ دکھائی دے رہا تھا اسے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔
’’اچھا مجھے اس آبادی میں لے چلو جہاں غریب لوگ رہتے ہیں۔‘‘
’’کیا کریں گے وہاں جاکر؟‘‘
’’تمہیں اس سے کیا مطلب ہے، تمہارا تانگہ کرایے پر لیا ہے۔ مجھ سے پورا پورا کرایہ وصول کرو اور جہاں جہاں کہتا ہوں لے چلو۔ سنا تم نے؟‘‘
تانگہ چلنے لگا اور آدھ گھنٹہ کے بعد ایک مقام پر پہنچ کر تانگہ رک گیا۔
وہاں ہر طرف بہت معمولی، خستہ حال اور کچے مکان دکھائی دے رہے تھے۔ جہاں تہائی مٹی اور گندگی کے ڈھیر پڑے تھے ننگے بدن بچے گردوغبار سے اٹے راستوں پر کھیل رہے تھے۔
’’یہ میرا مکان ہے۔‘‘ چراغ دین نے ایک چھوٹے سے مکان کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
مختار دور دور تک دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مکان اتنی بہتات سے تھے کہ لگتا تھا کہ یہ ایک پسماندہ گاؤں ہے جہاں قصبے کی بیشتر آبادی رہتی ہے۔
افسردہ پژمردہ چہرے، گندےلباس، جھکی جھکی کمریں جو محنت شاقہ کا نتیجہ تھیں۔ مختار ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا اور اس کا ذہن بیک وقت کئی اذیت ناک سوالوں کی آماجگاہ بن گیا تھا۔
’’چراغ دین جس اخبار کی طرف سے آیا ہوں وہ سچی باتیں لکھتا ہے اور میں اس لیے یہاں آیا ہوں کہ سچی باتیں لکھ کر لے جاؤں۔ تم جانتے ہو چراغ دین۔ لوگوں سے جھوٹ بولا جائے تو اللہ ناراض ہوتا ہے۔ اللہ میاں ناراض ہو یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ تم خود جانتے ہو نا۔‘‘
یہ لفظ سنتے ہی چراغ دین کے چہرے کا رنگ ایک دم بدل گیا۔ ایک شدید اندردنی جذبے سے اس کا ماتھا تمتما اٹھا۔
’’کیا پوچھتے ہیں حجور۔‘‘ تیر نشانے پر بیٹھا تھا۔
’’صرف یہ کہ مجھے سچی باتیں بتاؤ۔‘‘
’’پوچھو۔‘‘
’’یہ گاؤں کن لوگوں کا ہے؟‘‘
’’یہ خرم آباد کے لوگ ہیں۔ پہلے ان کی زمینیں سرکار نے اونے پونے داموں خرید لی تھیں۔ اب یہ ان کے کھیتوں میں کام کرتے ہیں، چھوٹی چھوٹی دکانداریاں کرتے ہیں۔
چراغ دین چپ ہو گیا۔
’’آؤ میرے ساتھ۔‘‘
مختار ایک طرف چلنے لگا۔ ساتھ چراغ دین بھی تھا۔ ڈیڑھ دو گھنٹے وہ ادھر ادھر گھومتے رہے۔ مختار نے بےشمار فوٹو لیے۔
دونوں تھک چکے تھے۔
’’چراغ دین اب تمہارے گھر چلتے ہیں!‘‘
’’میرے گھر؟‘‘ چراغ دین سخت متعجب تھا۔
’’ہاں تمہارے گھر میں تمہارے بچوں سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
چراغ دین نے ایک لمبی آہ بھری۔ ’’حجور میرا کوئی بیوی بچہ نہیں ہے۔‘‘
ہوٹل پر واپس پہنچ کر مختار نے جیب سے کچھ نوٹ نکالے۔
’’یہ لے لو چراغ دین۔‘‘
’’کیوں حجور۔‘‘
’’بھئی کرایہ۔‘‘
’’نہیں حجور، آپ سرکار کے مہمان نہیں بنے تھے۔ میرے مہمان تھے، میں اپنے مہمان سے ایک پیسہ نہیں لوں گا۔‘‘
مختار کو سارے نوٹ واپس جیب میں ڈالنے پڑے۔
’’مجھے صبح سویرے لاریوں کے اڈے پر جانا ہے۔‘‘ مختار نے ہوٹل کے دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔
’’پہلی لاری اذانوں کے وقت جاتی ہے۔ حاجر ہو جاؤں کا حجور۔‘‘
مختار اپنے کمرے میں پہنچا اور شام تک میز کے اوپر کاغذوں پر جھکا رہا۔ اس دوران اس کا قلم رواں دواں رہا۔
معمول کے مطابق بدھ کی صبح کو ’صداقت شعار‘ کا تازہ شمارہ شائع ہوا تو اس کے پہلے صفحے پر مختار احمد کی سیاہ حاشیوں کے درمیان تصویر چھپی تھی۔ تصویر کے نیچے لکھا تھا:
’’ہم بڑے دکھ کے ساتھ یہ انتہائی افسوسناک خبر اپنے قارئین کرام تک پہنچا رہے ہیں کہ مختار احمد خرم آباد سے واپسی پر مار دیے گئے تھے۔ ان کے ساتھ اس تانگے کا کوچوان چراغ دین بھی خون میں لت پت پایا گیا تھا جس کے تانگے میں وہ بیٹھ کر لاری اڈے کی طرف جا رہے تھے۔‘‘
مرحوم مختار احمد بے حد فرض شناس، محنتی، بےباک، جرات مند رپوٹر تھے۔ گزشتہ سات سال سے وہ اخبار کی رپورٹنگ کر رہے تھے اور انہوں نے ہمیشہ سچی رپورٹنگ کی تھی۔
تفتیش بتاتی ہے کہ خرم آباد کے کسی قریبی گاؤں کے جرائم پیشہ گروہ نے یہ ظالمانہ اور سفاکانہ کارروائی کی ہے۔ مرحوم مختار کا سارا سامان بھی یہ گروہ لے گیا ہے۔‘‘
اخبار کے اندرونی صفحے پر شہر کے بعض مشاہیر کے تعزیتی بیانات درج تھے۔ ان میں خرم آباد کی مشہور ترین شخصیت حاجی رحیم علی کا بیان نمایاں طور پر شامل تھا۔
حاجی صاحب نے مختار احمد کی موت کو ایک قومی المیہ سے تعبیر کیا تھا اور اس پر اپنے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا تھا۔
مأخذ : گلی گلی کہانیاں
مصنف:مرزا ادیب