کہانی کی کہانی:’’ترقی نے انسان کو اقتصادی طور پر مضبوط تو بنا دیا ہے لیکن انسانی رشتوں کو کمزور کر دیا ہے۔ یہ ایک ایسے خاندان کی کہانی ہے جو ایک چھت کے نیچے رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے لا تعلق ہیں۔ یہاں ہر فرد اکیلا ہے۔ اپنی تنہائی کو دور کرنے کے لیے گھر کے سربراہ نے ایک کتا پال لیا ہے جس کا نام جائے ہے۔ اپنا بیشتر وقت وہ جائے کے ساتھ گزارتا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب اسے ایسا لگتا ہے کہ جیسے اس کی روح جائے کے اندر سما گئی ہے اور جائے کی روح اس کے اندر۔‘‘
جوائے مقناطیس کا ایسا ٹکڑا تھا جس پر گھر کے بکھرے ہوئے سب ذرے چمٹ جاتے تھے۔
’’بھوں۔۔۔ بھوں۔۔۔ بھوں۔“ اس گھر میں صبح پر یقین جوائے کی آواز سے آتا ہے۔
میرا گھر جہاں سب ایک دوسرے سے منہ پھیر کر جی رہے تھے، ایک دوسرے کا جی جلا کر اپنا جی خوش کرتے تھے، باہر ملنے والی ساری ناکامیوں ناانصافیوں کا انتقام ایک دوسرے سے لیتے تھے۔
مگر جوآئے انہیں کچھ کرنے بھی دے۔ اب تو گھر میں صرف جوائے کی مرضی چلتی ہے۔ کسی کو پیار آتا ہے تو جوائے پر۔۔۔ ہنسی آتی ہے تو جوائے کی حرکتوں پر۔۔۔ اس کا موڈ اس کی محبت، اس کی پسند نا پسند۔۔۔ کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے صدر خاندان کی کرسی پہ میری بجائے جوائے بیٹھا ہو اس گھر میں۔۔۔ جوائے ہر کام کی نگرانی کرتا ہے۔ باہر جانے والوں کو گیٹ تک چھوڑتا ہے، اندر آنے والوں کو پہلے شک و شبہ سے دیکھتا ہے اور پھر ان کے کردار کے بارے میں پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد ہی انہیں اندر آنے کی اجازت دیتا ہے۔ پھر کچن کی نگرانی کرنا، دیواروں سے جھانکنے والی بلّیاں اور درختوں پر شور مچانے والے کوے اور دروازے پر بیل بجانے والے اجنبی چہروں سے نپٹنے میں وہ خوب تھک جاتا ہے۔
’’بھوں۔۔۔ بھوں۔۔۔ بھوں۔۔۔ اٹھو اٹھو۔۔۔“ وہ اجالا ہونے سے پہلے مجھے جھنجھوڑ ڈالتا ہے۔ ’’کوئی اچھا خواب تو تمہارے نصیبوں میں ہے نہیں، تو پھر چلو نیچے سڑک پر کوئی خوبصورت خیال، دلچسپ حادثہ ڈھونڈیں۔۔۔“
اونہہ۔۔۔ میں اپنے چہرے پر جوائے کے پیار کی نمی پونچھ کر کروٹ بدل لیتا ہوں۔
کوں۔۔۔ کوں۔۔۔ کوں۔۔۔ جوائے اب میرے بستر پر آ گیا ہے۔
میری بیوی رما نیند کی گولی کھا کے سوتی ہے اور جوائے یہ بات جانتا ہے کہ اس جرّات پر اس وقت وہ رما کی لات نہیں کھائےگا۔
تو دروازہ کھول کر اندر کیسے آ جاتا ہے۔۔۔؟ میں اس کی گردن پکڑ کر نیچے دکھیل دیتا ہوں۔ ہم دونوں سونے سے پہلے اپنے اپنے موسم بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی مجھے گرمی لگتی ہے، کبھی رما کو سردی۔ پھر دن بھر کے شکوے شکائیتں۔ ایک دوسرے پر الزاموں کی بوچھار اور ان سے بچنے کے لیئے کرنٹ والے تار ہم نے اپنے چاروں طرف پھیلا رکھے ہیں۔ جب میں رما کی طرف بڑھتا ہوں تو کتنے سوئچ آن اور آف کرنا پڑتے ہیں۔
مگر جوائے انہیں ایک ہی چھلانگ میں پار کرکے مجھے پیار کرنے آ جاتا ہے۔ اس ادا پر اس کا منہ نہ چومیں تو کیا کریں۔
مگر اس کے بعد رما کی نفرت بھری چھی چھی۔۔۔ تھو تھو۔۔۔
اور تھوڑی دیر بعد جب رما بستر پر بیٹھی جمائیاں لیتی ہے تو جوائے اس کی گود میں چڑھ کر بھی اپنا پیار وصول کر لیتا ہے اور چوری پکڑے جانے پر وہ ایسے سر جھکا لیتی ہے جیسے میں نے اسے کسی عاشق کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہو۔
میں ایک ناکام بزنس مین ہوں۔ بیوپار میں گھاٹا میرا بلڈ پریشر بڑھا دیتا ہے۔ مگر صبح ٹی۔ وی پر بڑھتی ہوئی قیمتوں کا نشان مجھے پرسکون کر دیتا ہے۔ ایسے وقت انسان کا جی چاہتا ہے، آنکھیں بند کیئے راتوں رات لکھ پتی بننے کا خواب دیکھے۔
لیکن ڈاکٹر نے مجھے صبح سویرے چلنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ بات سب بھول جائیں جوائے نہیں بھولتا۔ سڑک پر آنے کے بعد میرے ہاتھ میں جوائے کی زنجیر ہوتی ہے۔ مگر جوائے تو جیسے زنجیر میرے گلے میں ڈال کر من مانے راستوں کی اور چل نکلتا ہے۔
چار منزلوں کی سیڑھیاں اترنے کے بعد میرا جی چاہتا ہے لان کی بنچ پر ہی بیٹھا رہوں۔ مگر جوائے کے لیئے تو صبح کے اجالے میں بے شمار وعدے اور امیدیں جگمگاتی ہیں۔ رات کو اس راہ سے گزرنے والی کتیاں یہاں اپنی مخصوص خوشبو بکھیر گئی ہیں۔ جوائے اپنے نتھنے پھیلا کر، منہ اٹھا کر ہوا میں کچھ سونگھتا ہے اور انجانی راہوں پر بھاگنے لگتا ہے۔ کبھی کبھی بزنس کے دم گھونٹ دینے والے پھندوں سے جان چھڑا کر میرا جی چاہتا ہے میں ایک نظم لکھوں۔ کھلی ہوا میں بیٹھ کر کسی نئے خیال کو پکڑوں۔
مگر جوائے بھی ایک خواب دیکھنے والا آرٹسٹ ہے جو اپنی نئی تخلیق کی کھوج میں آگے ہی آگے دوڑنا چاہتا ہے۔ کبھی میں آگے آگے چلتا ہوں اور جوائے ایک سعادت مند بچے کی طرح میرے ساتھ ساتھ میرے موڈ کو دیکھتے ہوئے چلتا ہے۔ پھر اچانک سڑک کا کوئی نظارہ اُسے دوڑنے پر مجبور کر دیتا ہے اور میں اُس کے پیچھے پیچھے بھاگتے ہانپ جاتا ہوں۔ میں ایک ناکام بزنس میں، معمولی سا شاعر۔۔۔ ساری زندگی اونچا اڑنے کے خواب دیکھتا رہا۔۔۔
ڈیڈی۔۔۔ آپ نے بزنس کی لائن اپنانے سے پہلے کسی سے مشورہ کیوں نہیں کیا؟
’’ڈیڈی آپ کے کلاس فیلو کتنے مشہور ڈاکٹر ہیں۔ آپ نے میڈیسن میں ایڈمیشن کی کوشش کیوں نہیں کی؟“
اپنے بچوں کے ایسے سوالوں پر میں گھبرا جاتا ہوں۔
ارے انہوں نے تو زندگی بھر جس سودے میں ہاتھ ڈالا گھاٹا ہی گھاٹا، رما ٹھنڈی سانس بھر کے اپنا ماتھا پیٹ لیتی ہے۔
اور مجھے چاروں طرف دھواں ہی دھواں نظر آتا ہے۔
رما جتنی سندر تھی اتنی ہی کڑوی۔ شیرہ ٹپکاتی گلاب جامن جیسی اس موہنی سی لڑکی پر میں اپنا سب کچھ لٹا بیٹھا تھا۔ پھر جس دن اپنی گرہ میں اس کا پلو باندھ کر میں اپنے گھر کی سیڑھیاں چڑھا تھا تو جیسے کسی پہاڑ پر چڑھتا گیا۔ رما مجھ سے دور ہی دور کھڑی ہنستی رہی۔ اس نے میرے گلے میں ایک رسّی ڈال کر ڈگڈگی بجا دی تھی۔
اب میں جوائے کے گلے میں رسّی ڈال کر بھاگ رہا ہوں۔ ہم دونوں ہانپ رہے ہیں۔۔۔ میں جانتا ہوں وہ جس راستے پر جا رہا ہے وہاں آگے کچھ نہیں ہے۔ مگر کھوج اور کسی ان ہونی خوشی سے مڈبھیڑ اسے دیوانہ بنائے رکھتی ہے۔ وہ قریب سے گزرنے والے لوگوں، کاروں اور اسکوٹروں کو بڑے غور سے دیکھتا ہے اور پسند نہ آنے والے چہروں پر بھونکنے لگتا ہے۔
’’ارے احمق یہ تو کسی منسٹر کی کار تھی۔ تجھے کیا ضروری تھا اس پر بھونکنا۔۔۔؟“
یہ سن کر جوائے رکا اور پاس والے کھمبے کی طرف ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرنے کی ایکٹنگ کی۔ اس سے پہلے وہ ہر پسند نہ آنے والے چہرے کو دیکھ کر یہی کام کرتا رہا ہے۔
اب آسمان پر وہم کی طرح نظر آنے والا اجالا، آنے والے دن کا یقین بن کر پھیل رہا ہے۔
وہ ابھی تک نہیں آئی۔ ہم دونوں ایک ساتھ دور تک دیکھتے ہیں۔
رات کو وہ اس راہ سے گزری تھی۔ نتھنے چوڑے کرکے جوائے اس کی خوشبو سونگھتا ہے۔ پھر اچانک دور سے آنے والی روزی کی بھوں بھوں اسے روک دیتی ہے۔ وہ منہ اوپر اٹھاکر، آشیانہ کے مکینوں سے کہتا ہے، ’’بھوں۔۔۔ بھوں۔۔۔ بھوں۔۔۔ چھوڑ دو روزی کو سلاخوں کے پیچھے مت بند کرو۔ روزی ڈیئر نیچے آؤ۔“
’’نرا احمق ہے تو۔۔۔“ مجھے غصّہ آجاتا ہے۔ وہ تو بند دروازوں کے پیچھے قید ہے۔ اس کی موٹی مالکن کو ٹہلنے کے نام سے چڑ ہے۔ اس لیئے وہ اپنی نازک اندام کنواری کتیا کو عاشق مزاج کتوں سے دور رکھتی ہے۔ سلاخوں والی کھڑکی کے پیچھے بٹھا دیتی ہے کہ جوائے جیسے کتے بھونکتے بھونکتے بےحال ہو جائیں۔
چلاؤ مت یار۔۔۔
’’وہ مل جائےگی تو اور پچھتاؤگے بیٹا۔۔۔“
مگر جوائے اپنی محبتوں کے سراغ جانے کہاں کہاں کھوجتا پھرتا ہے۔ جگہ جگہ رک کر وہ پنجوں سے زمین کھود ڈالتا ہے۔ اپنی منہ زور خواہشوں سے بےتاب ہو کر چھلانگیں لگاتا ہے۔ مجھے اکتاہٹ ہونے لگتی ہے۔ اس کے آگے ہی آگے دوڑتی ہوئی سڑک پر میرے لیئے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جوائے کی زنجیر تھام کر اس کے پیچھے پیچھے چلنا ہی میرا کام ہے۔
ڈاکٹر نے کہا ہے روز پانچ کلو میٹر چلنا چاہیئے۔ اس فاصلے کو کئی بار میں نے دل میں ناپا، پٹرول پمپ سے آگے، آئس کریم پارلر کے پاس۔۔۔ مگر جوائے کے لیئے کوئی حد آتی ہی نہیں۔
روزی کے لیئے چلاتے چلاتے ایک پرندے کا اڑتا ہوا پر اس کے لیئے نئی خوشیوں کا سامان لے آیا۔۔۔ وہ جی بھر کے اچھلا کودا گرّایا اور پھر اس پر کو منہ میں دبوچ کر میری گود میں ڈال دیا۔ جوائے کے لیئے اس دنیا میں کتنی خوشیاں تھیں اور میں خالی ہاتھ گود میں رکھے فٹ پاتھ پر بیٹھا ہوں۔
ایک عورت کی غصّہ بھری نظریں اسے پھر آگے کی طرف دوڑانے لگتی ہیں۔ اپنے گلے میں پڑی ہوئی زنجیر کو وہ اب نہیں مانتا۔ جیسے زنجیر اس نے میرے گلے میں ڈال دی ہو۔ سڑک پر جتنی خوبصورت عورتیں جا رہی ہیں وہ جوائے کو دیکھ کر ہنستی ہیں۔ راستہ چلنے والے بچے اسے دیکھ کر سیٹی بجاتے ہیں۔ چمکیلی دھوپ اس کے لیئے نکلی تھی۔۔۔ اسے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں مل رہی تھیں، مزیدار خوشبوئیں، انوکھے منظر، دلچسپ کھلونے۔
اور میرے ساتھ صرف تیز دھوپ ہے۔ آج آنے والے بزنس کی الجھنیں اور ہر پل زیادہ گرم پڑنے والا سورج۔
سڑک پر چہل قدمی کرنے والے سب لوگ جوائے کو وش کرتے ہیں کتے کے سر پر ہاتھ پھیرنا مہذب ہونے کی نشانی ہے اور مجھ جیسے فالتو آدمی سے سڑک پر بات کرنا اونچی سوسائٹی میں اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ اس لیئے جب جوائے میرے ساتھ ہو تو لوگوں کو وہ اکیلا ہی نظر آتا ہے اور جب میں سڑک پر اکیلا ہوں تو لوگ مجھے ایک آدمی کی طرح نظر انداز کر دیتے ہیں۔
ہم دونوں سر جھکائے اب گھر کی طرف چل رہے تھے کہ اچانک سڑک پر دور پنکی اپنی ماں کے ساتھ نظر آئی اور ہم دونوں کے دلوں کی کلی کھل اٹھی۔
جوائے۔۔۔ جو۔۔۔ جو۔۔۔ جو۔۔۔
وہ سڑک پر ملے تو جوائے کے لیئے سیٹیاں بجاتی ہے۔ جوائے اس کی آواز سنتے ہی بھاگتا ہوا پنکی کی گوری پنڈلیوں سے لپٹ جاتا ہے، اس کی فراک پکڑ کر جھولتا، اسے دھکے دے کر آس پاس منڈلاتا ہے۔ پنکی ہم دونوں کو پسندیدہ نظروں سے دیکھتی ہے۔ اس نے ایک بار ٹی۔ وی پر میری نظم سنی تھی اور مجھ سے آٹو گراف لینے آئی تھی۔
پنکی کی مسکراہٹ کی ٹھنڈک، اس کے قرب کی آنچ، اس کی نظروں کی پسند، میری تھکن بھی اتار دیتی ہے کبھی کبھار۔
جوائے سے کھیلنے کے بہانے پنکی ہمارے گھر بھی آنے لگی ہے، حالانکہ اس کی ماں سے لان خراب کرنے کے سلسلے میں رمّا کی زبردست جنگ ہو چکی ہے، مگر وہ ارچنا کی سہیلی ہے اور دوستی کا بندھن اب جوائے سے بندھ گیا ہے۔ پڑوس کے سب بچّے ہمارے گھر کو صرف جوائے کا گھر کہتے ہیں۔
پنکی کے گھر میں آتے ہی جوائے میری کرسی کے نیچے سے اُچھل کر اُس کی طرف بڑھتا ہے۔ خوشی سے بھری کوں کوں کے ساتھ اسے دھکیلنے لگتا ہے۔ پنکی اس کے لیئے چاکلیٹ لاتی، یا چھوٹا سا بال اور پھر ان دونوں کی اچھل کود، چیخ پکار سے سارا گھر گونج اٹھتا۔ جوائے کے ساتھ کھیلتے کھیلتے پنکی میرے کمرے میں آ جاتی تو میں گھبرا کے کھڑا ہو جاتا تھا۔ اسے دیکھتے ہی کوئی نہ کوئی بات ہوجاتی۔ میری کوئی چیز ضرور کھوجاتی تھی اور میں سارے کمرے کو اُلٹ پلٹ کر ڈالتا۔ تب جوائے میرے سامنے پھیلا ہوا اخبار سمیٹ کر ڈسٹ بِن میں ڈال آتا۔۔۔ سب ہنسنے لگتے۔
اب یہ بہت ستانے لگا ہے پنکی، ارچنا بھی ان کے کھیل میں شریک ہو جاتی تھی۔
’’جوائے کو جو چیز اچھی نہیں لگتی اسے ڈسٹ بِن میں پھینک دیتا ہے۔“ پنکی ہنسنے لگی۔
’’سچی۔۔۔؟“
’’ہاں، ہماری کوئی چیز کھو جائے تو ڈسٹ بِن میں مل جاتی ہے، پرسوں ممی کی لپ اسٹک۔“
ارچنا، شور مت کرو۔۔۔ میرے سر میں درد ہورہا ہے۔“ ممی کی ڈانٹ سن کر ان دونوں کی ہنسی تھم گئی۔
’’بھوں بھوں بھوں۔“ جوائے نے رما کو ڈانٹ دیا۔
’’چپ رہو۔۔۔ ہر وقت کی بک بک۔۔۔“
رما کو جوائے پر غصّہ تو بہت آیا پھر سب کے سامنے یوں ظاہر کیا جیسے جوائے کو جانور سمجھ کر معاف کر دیا ہے۔
میری ہنسی بڑی دیر تک نہ رُکی۔ جوائے نے جیسے آج میری دلی مراد پوری کردی ہو۔ رمّا کو کوئی ڈانٹ سکے، یہ کیسی ان ہونی بات تھی۔
ناشتے کی میز پر اخبار رکھا ہوگا۔ چاروں طرف دنیا میں گھمسان کارن پڑا ہے۔ اخبار والی میز کے آس پاس بھی گھر کی بڑی طاقتوں کے درمیان شدید تضاد تھا۔ رومی نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ جائیداد میں سے اپنا حصہ لے کر امریکہ چلا جائےگا تاکہ ایسے احمق باپ اور ضدی ماں سے پیچھا چھڑا سکے۔ ارچنا اپنی پڑھائی چھوڑ کر اس اسٹیج اداکار سے شادی کرنے کا فیصلہ کر چکی تھی۔ جو اب تک دو بیویوں کو چھوڑ چکا ہے۔ رما سمجھتی تھی اس گھر میں اس کے احکام نہ مانے جائیں یہ ہو نہیں سکتا۔ اس کی اولاد کے بگڑنے کی ساری ذمہ داری ان کے باپ پر ہے جو اتنا مفلس ہے اور اتنا بزدل ہے کہ اولاد پر کوئی رعب ہی نہ ڈال سکا۔
کویت ایک چھوٹا سا اسلامی ملک ہے جس پر راتوں رات ایک بڑی طاقت نے حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ اخبار کی یہ خبر بریڈ کی سلائسوں اور مارملیڈ کی مٹھاس میں کڑواہٹ گھول چکی ہے۔
رما اور بچوں کے ساتھ اس وقت بولنے والے ڈائلاگس میں راستے بھر یاد کرتا رہا ہوں۔ ہمیں دروازے میں دیکھ کر سب سے پہلے رومی سیٹی بجاتا ہے، ’’ہیلو جوائے، جو جو جو۔۔۔“
اب جوائے میرے ہاتھ سے زنجیر کا سرا چھڑا کر رومی کی طرف اچھلتا ہے، اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتا ہے۔ اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر جھنجھوڑ ڈالتا ہے۔ رومی بڑی محبت سے اس کے بال سہلاتا ہے۔ خوب مکھن لگا کر بڑے چاؤ سے اسے سلائیس کھلاتا ہے اور پھر گھبرا کر مجھ سے پوچھتا ہے۔ ڈیڈی آج تو شائد آپ کو جوائے کا انجکشن بھی دلوانا ہے نا؟
(یہ صرف ڈیڈی سے بات کرنے کا بہانہ ہے۔)
میں کوئی جواب نہیں دیتا صرف سر ہلا دیتا ہوں۔ (اس ڈائیلاگ کی مجھے امید نہیں تھی نا)
’’اتنی دیر لگا دیتے ہو آنے میں۔ رمّا بھی ابلا ہوا انڈا توڑتے میں کچھ کہنا ضروری سمجھتی ہے۔ ہمیں جلدی جانا ہے۔ اس لیئے ہم نے ناشتہ شروع کر دیا۔“ ارچنا سر جھکا کر کہتی ہے۔
’’صبح سویرے لوگ اندھا دھند کار چلاتے ہیں، ذرا دیکھ بھال کے لے جایا کرو جوائے کو۔“
کرسی پر بیٹھ کر میں اپنی پلیٹ کو سیدھا کرتا ہوں۔ جانے ڈاکٹر نے کل مجھے کیا پرہیز بتایا تھا۔
’’بہت بھوکا ہے بیچارہ۔۔۔ خوب تھک گیا ہے نا۔۔۔ سنو پہلے جوائے کو دودھ دے دو۔“ ارچنا چاہتی ہے اس وقت سب جوائے کی بات کریں، اس کے بارے میں نہیں۔
ڈاکٹر نے مجھے ناشتے سے پہلے دو دوائیں کھانے کو کہا ہے مگر اتنا تھک گیا ہوں کہ بیڈروم سے دوائیں لانے کو جی نہیں چاہتا۔
’’کیوں! آج پھر ناشتہ نہیں کروگے۔۔۔؟“ رمّا بیزاری سے میری طرف دیکھتی ہے۔
’’اچھا اچھا ابھی کھا لیتا ہوں۔“
’’جوائے، جوائے۔۔۔ جوائے۔۔۔“ ارچنا جوائے سے کھیل رہی ہے۔ وہ ارچنا کو چھو چھو کر بھاگ رہا ہے، کبھی صوفوں پر اچھلتا ہے، کبھی اس کی ساری کا پلو پکڑ کے کھینچتا ہے۔
فون کی گھنٹی بجی۔۔۔ جوائے کھیلنا چھوڑ کر فون کی طرف منہ کرکے بھونکنے لگا۔ اسے فون آنے سے بڑی چڑ تھی۔ اتنی دیر اسے چپ رہنا پڑتا ہے نا۔
’’فون رومی کے لیئے تھا۔۔۔ وہ اٹھا تو منہ پر انگلی رکھ کر جوائے سے کہا۔۔۔“ چپ چپ۔
جوائے چپ ہو گیا۔ مگر نچلا بیٹھنا اس کے بس میں نہ تھا اس لیئے چاروں طرف ایسی چیزیں ڈھونڈنے لگا جو اس کمرے میں اسے غیر ضروری لگ رہی تھیں۔ اس نے پہلے ارچنا کی کتاب صوفے سے اُٹھا کر ڈسٹ بِن میں ڈالی۔ پھر میری دوا کا پیکٹ، رما کے بالوں سے گرے ہوئے پھول۔ جوائے ’’اسے بھی ڈسٹ بِن میں ڈالو۔۔۔“ میں گھبرا گیا۔ ارچنا نے میری طرف اشارہ کیا تھا۔۔۔ نہیں۔۔۔ میرے پیروں کے پاس چھوٹا سا سلائیس پڑا تھا۔ آپ ناشتہ کیوں نہیں کرتے رما بیزار ہوتی جا رہی تھی۔
’’ہاں، کرتا ہوں۔۔۔ پہلے دوا کھانا ہے۔“
’’اتنی دوائیں کھا کھا کے ہاضمہ خراب کر لیا ہے۔“ وہ منہ بنا کر میز سے اٹھ جاتی ہے۔
سلائیس پھینکنے کے بعد جوائے نے رومی کا سگرٹ کیس منہ میں دبایا اور ڈسٹ بِن کی طرف بڑھا۔ مگر فون رکھ کر اس نے جوائے کے منہ سے سگرٹ کیس چھینا۔ ایک تھپڑ اس کے منہ پر لگایا اور ایک گالی دی۔ ’’میری کسی چیز کو ہاتھ لگایا تو مار کے اُسی ڈسٹ بِن میں پھینک دوں گا۔“
مار کھا کے جوائے چکرا گیا۔۔۔ گالی سن کر سہم گیا۔۔۔ لڑکھڑاتا ہوا وہ میری طرف آیا اور میرے قدموں کے پاس بیٹھ کر ہانپنے لگا۔
جوائے کے پٹنے پر رمّا تلملا سی گئی۔ مگر غصے میں بھرے بیٹے کے سامنے منہ کھولنے کی ہمت نہ پڑی۔
’’وہ گالی برداشت نہیں کر سکتا۔“ ارچنا کو بھی جوائے کا پٹنا اچھا نہ لگا۔۔۔ ’’ہاں اسے تو ڈانٹ دو تب بھی شرمندہ ہو جاتا ہے۔“ ارچنا نے اپنا پرس اٹھا کر باہر جاتے ہوئے کہا۔۔۔
’’وہ کوئی انسان ہے کہ تم اسے مارنے لگے؟“
’’ڈسٹ بِن میں پھینکنے کی بات پر ڈر گئے جوائے۔۔۔؟“
جوائے کے مزاج سے اس گھر میں سب اچھی طرح واقف تھے۔ اس کی تکلیف پر سب کو دکھ ہوتا ہے۔ جوائے تم لکی ہو۔
گھر سے باہر جاتے وقت گھر کا ہر فرد بڑی دیرتک آئینے کے سامنے کھڑا رہتا ہے، سب اپنے چہروں پر دوسرا ماسک چڑھاتے ہیں، ہنستے مسکراتے دنیا کو اپنانے اور اپنی چالاکی کو کیش کرانے کے لیئے اچھا میک اپ اور اچھی ایکٹنگ ضروری ہو گئی ہے۔
’’جو۔۔۔ جو۔۔۔ جو۔۔۔“ باہر جاتے وقت رومی نے روٹھے ہوئے جوائے کو منانا ضروری سمجھا۔ روز اس کی آواز سنتے ہی اچھل کر دوڑتا اور رومی کی ٹانگوں سے لپٹ جانا ضروری تھا جب تک رومی کی کار گیٹ سے باہر نہ چلی جاتی وہ چلّا چلّا کر اچھلتا رہتا تھا۔ مگر آج اس نے ذرا سی آنکھ کھول کر رومی کو دیکھا اور منہ پھیر کر لیٹ گیا۔
’’مجھے شک ہونے لگا۔۔۔ جوائے میں کسی انسان کی روح آ رہی ہے۔ وہ دھیرے دھیرے انسانوں جیسا بن رہا ہے۔ اگر سچ مُچ ایسا ہو گیا تو۔۔۔ کسی ڈسٹ بِن میں پھینک دیئے جاؤگے۔۔۔“
اخبار پڑھتے پڑھتے مجھے اونگھ سی آنے لگی۔
میں کھانے کی میز کے نیچے پڑا رومی کی مار سے کراہ رہا تھا۔۔۔ میرے گلے میں ایک زنجیر پڑی تھی جسے جوائے گھسیٹ رہا تھا۔۔۔
’’کیسی بے دردی سے گھسیٹتے ہو اسے۔۔۔؟“ رما جوائے سے کہہ رہی تھی۔۔۔“ آؤ۔۔۔ میری گود میں آؤ۔۔۔“
میں کود کر رما کی گود میں جا بیٹھا۔۔۔ اور جب رما نے اپنا محبت بھرا ہاتھ میرے بالوں پر پھیرا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
جانے کون رو رہا تھا۔۔۔ میں۔۔۔؟ یا وہ۔۔۔؟
مصنف:جیلانی بانو